You are currently viewing اخبار ’الجمیعتہ‘ کے دو اہم نام

اخبار ’الجمیعتہ‘ کے دو اہم نام

ساجد علی

ریسرچ اسکالر

شعبہ اردو چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی میرٹھ

اخبار ’الجمیعتہ‘ کے دو اہم نام

         صحافت کی تاریخ میں اردو صحافت کا اہم کردار رہا ہے۔اردو صحافت نے اپنے ابتدائی دور سے دور حاضر تک مختلف اور مخالف حالات میں اپنی خدمات انجام دی ہیں۔بات چاہے جنگ آزادی کے لئے آواز بلند کرنے کی ہو یا ملکی ، عوامی ،سماجی ،ملی اورتنظیمی مسائل کو سامنے لانے کی۔اہم شخصیات کی حیاۃ و خدمات کو سامنے لانے کی ہو یاقومی و بین الاقوامی حالات کو پیش کرنے کی۔یوں توتمام اردو اخبارات و رسائل کے منتظمہ اور مدیران حضرات نے اہم موضوعات پر اپنے قلم کی جولانیاں دکھائی ہیں۔ ایسے اخبارات کی فہرست میں ایک اہم اخبار’الجمیعتہ‘ بھی ہے ۔دہلی میں ہونے والے خلافت کمیٹی کے اجلاس کے فوراًبعد وہیںعلمائے دین کا ایک ہنگامی جلسہ ہوا ۔جس میں حاضرین نے اس بات پر اتفاق کیاکہ اہل اسلام کی رہنمائی کسی منظم جماعت کے ذریعہ کی جائے جو ان میں اتفاق اور اتحاد کی قوت کو موثر بنائے۔اس کے لئے ایک جمیعتہ قائم کی جائے جس کا نام جمیعتہ علمائے ہند رکھا جائے۔ جمیعتہ علمائے ہند کا قیام ہندوستان کی آزادی کے حصول کے لئے عمل میں آیااور جمیعتہ ہمیشہ متحدہ ہندوستان کی علم بردار رہی۔اپنے نظریات کو صحافت کے ذریعہ منظرعام پر لانے کے لئے  جمیعتہ علمائے ہند نے د ہلی سے ہفتہ وار’ الجمیعتہ‘ 1925 ء کو جاری کیا۔اس اخبار نے سوراجیہ اورخلافت تحریک کو سامنے رکھ کر پورے ملک میں بے نظیر ہندو مسلم اتحاد قائم کیا۔اس اخبار سے شروع سے اہی ایسے صحافی حضرات جڑے رہے جو اپنی مثال آپ تھے۔جنہوں نے حق گوئی اور سچّائی کے لئے اپنے ضمیر کاکسی سے سمجھوتہ نہیں کیا۔یوں تو اس اخبارکے مدیران میںمولانا عرفان احمد صدّیقی،مولانا مودودی، مولانا اسرار الحق، حامد الانصاری غازی،ہلال احمد زبیری اور بہار برنی جیسے حضرات کا نام شامل ہے۔مگر اس اخبارکے لئے سب سے طویل عرصہ تک اپنی ادارتی خدمات دینے والوں میں دو نام اہمیت کے حامل ہیں۔ جنہوں نے اس اخبار کو اپنے خون جگر سے سینچ کر آج تک زندہ رکھا ہے۔ اور دیگر اردو اخبارات کی صف میں کھڑے ہونے کے قابل بنایا ہے۔  جہاںمولانا عثمان فارقلیط نے اس کو عروج تک پہنچانے کا کام کیا وہاں ان کے بعد سالم جامعی آج تک اپنی خدمات دے رہے ہیں۔  مدیران حضرات کے معیار کے بارے میںاپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے افضل مصباحی تحریر کرتے ہیں:

’’2فروری1925ء کو اس کا پہلا شمارہ شائع ہوا اور اس کا مدیر مولانا محمد عرفان کو بنایا گیا،لیکن وہ زیادہ دن تک اس سے وابستہ نہ رہ سکے اور10جون کو چھوڑ کر چلے گئے۔ان کے بعد اس کی ادارت کے لئے ضرورت تھی ایک ایسے شخص کی جوصحافت کے علاوہ فن سیاست اور مذہبی امور پر بھی مہارت رکھتا ہولہٰذا اِدارت کے لئے اس وقت سب سے موزوںنام مولانا ابو الاعلیٰ مودودی کا ہی نظر آیا۔چنانچہ14جون کو انہوں نے اس کی ادارت کی ذمہ داری اپنے ہاتھ میں لے لی۔۔۔مولانا مودودی جیسی اعلیٰ علمی شخصیت کے آنے سے اس کے وقار میں بلندی آئی اور یہ اخبار تبھی سے مقبول ہو گیا،لیکن مولانا مودودی اس سے زیادہ دن تک وابستہ نہ رہ سکے۔1928ء میں اس کو چھوڑ کر وہ حیدرآباد آ گئے تو ان کی جگہ ہلال احمد زبیری نے لی اور ان کا معاون محمد عثمان فارقلیط کو بنایا گیا۔،لیکن زبیری صاحب کا عہد بہت قلیل مدت کاتھا۔اس لئے اصل ادارت تو فارقلیط کے پاس1928ء سے ہی آ گئی تھی۔انہوں نے اس اخبار کو نقطہ عروج پر پہنچا دیا۔‘‘

                                             (افضل مصباحی، اردوصحافت آزادی کے بعد، عرشیہ پبلی کیشنز، 2013،ص332)

          مولانا عثمان فارقلیط اپنے اداریوں کے ذریعہ اس وقت کے ایک اہم اخبار’پرتاپ‘ کے اداریوں کا جواب مسلسل دیتے رہے۔ مولانا مودودیؒ، مولانا وحید الدین، مولانا اسرارالحق قاسمی اور دیگر حضرات نے اس اخبار کے ذریعہ سے ملکی و ملی حالات اور مشکلات کو عوام و خواص کے سامنے بڑی چابکدستی اور متانت کے ساتھ رکھا ہے۔اس اخبار نے تحریک آزادی اور وحدت ہند کی پرجوش حمایت کی۔اس وجہ سے یہ اخبار برطانوی عتاب کا شکار ہوااور کئی بار اس کو اپنی اشاعت بند کرنی پڑی۔1956ء کو مالی دشواریوں کے سبب بند ہو گیا اور بعد میں یہ روزنامہ کی شکل میں جاری ہوااور سالم جامعی کی ادارت میںہفتہ وار کی شکل میں ہنوز جاری ہے ۔ 1930ء سے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز کرنے والے مولانا فارقلیط کے ولولہ خیز انداز اور پر جوش تحریروں کی وجہ سے یہ اخبار مقبول ہوا۔مولانا فارقلیط اس اخبارکے مقاصد اور ضروریات کو اپنے ایک اداریہ میں تحریر کرتے ہیں:

’’ کارساز خدا،بے ہمتا اور وحدہٗ لا شریک خدا کالاکہہ لاکھ شکر ہے کی اس نے ’الجمیعتہ‘ کے دور جدید کو صوری و معنوی محاسن اور علمی رفعت کے اعتبار سے کامیابی عطا فرمائی اور نامساعد حالات میں اسکو اپنی بارگاہ سے سند قبولیت بخشی،کارکنانِ الجمیعتہ نے اپنی ہمت اور بساط کے مطابق نہ صرف جمیعتہ علماء ہند کے شایانِ شان بنانے کی کوشش کی اور اس میں اسلامی عنصراور اسلامی سیاست کا مزید اضافہ کرکے اس میں نئی شانِ امتیاز پیدا کی ۔۔۔

آپ پر یہ حقیقت واضح ہو جانی چاہئے کہ ’الجمیعتہ ‘آپکا اخبار ہے۔جمیعتہ علما ء ہند کا ترجمان اور تمام امت مسلمہ کا نمائندہ ہے۔اس کا نہ تو کسی کمپنی سے تعلق ہے نہ اس سے ذاتی اور شخصی مفاد وابستہ ہیں۔اس کا نفع تمام امت کا نفع اور اس کا نقصان تمام قوم کا نقصان ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس کا مسلک اسلامی اور جماعتی مسلک ہے اور اس کے مقاصد میں پوری اسلامی قوم کے مقاصدپوشیدہ ہیں۔حریت و آزادی کی حمایت کرنا باطل قوتوں سے نبرد آزما ہونا شریعت، فقہ، اسلامیہ اور دین حق کی اشاعت کرنا اور مسلمانوں کی مذہبی اور سیاسی خدمات بجا لانا اسکے فرائض میں داخل ہے جس کو اس نے نہایت حسن و خوبی کیساتھ انجام دیا ہے۔ جمیعتہ علماء ہند کا مقصد مجاہدین کی سرفروشانہ اور یادگار زمانہ زندگیاں اسپر گواہ ہیں۔پس آپ فیصلہ کیجئے کہ آپکو اور آپکے دوست و احباب اور تمام مسلمانوں کو ایک ایسے اخبار کی کس قدر ضرورت ہے جو ذاتی مفاد سے بالاتر ہو کر  جماعتی مقاصد کا  حامی ہے۔مذہب اور سیاست اور مسلمانوں کے حقوق کا علمبردار ہے اور اس کے لئے صرف یہ چاہتا ہے کہ ناظرین کرام اسکے حلقۂ اشاعت میں توسیع فرما کر اپنا ملی اور قومی فرض ادا کریں۔‘‘

                                             (محمد عثمان فارقلیط،ادارہ،خصوصی’ذبیح نمبر‘،20فروری1937ء،ص(5

         حالانکہ مولانا فارقلیط آزادی کے ہنگامے کے دور میں کچھ وقت کے لئے اس اخبارسے علیٰحدہ ہو گئے تھے جب اس اخبار کی ضمات ضبط کر کے ساری کاپیاں فرنگی حکومت نے ضبط کر لی تھیں ۔تب مولانا لاہور چلے گئے تھے۔1947ء میں ملک کو آزادی ملنے کے بعداخبار کو دوبارہ جاری کرنے کے مقصد سے مولانا فارقلیط کو لاہور سے دہلی مدعو کیا گیا۔ اس کوسہ روزہ سے روزنامہ کی شکل دے دی گئی اورروزنامہ ’الجمیعۃ‘ 1947ء سے4صفحات پر شائع ہو کر سامنے آیا۔مولانا کے اداریوں کی روشنی میں محمد سلیمان صابر نے’ہند کا دور ابتلا‘کے نام سے ایک کتاب ترتیب دی ہے جو 1999ء میں شائع ہو کر منظر عام پر آئی ۔ حکومت کے عتاب کا شکار ہوکر1984ء کے آخر میں سرکاری بندشوںکی وجہ سے بند ہو گیا ۔جس وجہ سے ملت کے باشعور اور حسّاس افراد میں اس کی کمی اور محرومی کا احساس ہوا۔جمیعتہ علمائے ہندکی قیادت کے سامنے مسلسل اس اخبار کو دوبارہ شروع کرنے کا مسئلہ اٹھایا جادتا رہا۔ تنظیمی و ذاتی کوششوں سے یہ اخبارجولائی1988ء میں پھر سے ہفت روزہ کی شکل میںچھوٹے سائز میں16صفحات پر شروع ہوا۔تب سے لے کر دور حاضر تک مولانا سالم جامعی اس اخبار سے جڑے ہوئے ہیں۔یوں تو قانونی طور پر دستاویز میں مولانا اسرار الحق اور ان کے بعد حنیف کمار دائما کا نام چلتا رہا۔مولانا اسرار الحق کو جمیعتہ علماء کے فعال رکن ہونے کی حیثیت سے مسلسل مشغولیات درپیش رہتی تھیں۔ساتھ ہی سیاسی سرگرمیوں کے باعث وقت کی قلت رہتی تھی۔اسی طرح حنیف کمار دائمہ کا شمارسپریم کورٹ کے سرگرم وکلاء میں ہوتا تھا۔ جمیعتہ علماء کے لیگل ایڈوائزر کی حیثیت سے وابستہ رہے۔ اس وجہ سے اداریہ سے لے کر اخبار کے مشمولات کے انتخاب تک کا اکثر کام بطور مدیر تحریری سالم جامعی انجام دیتے تھے۔اس اخبار کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے سالم جامعی اپنے ادارتی مضمون میں تحریر کرتے ہیں:

’’  ہفت روزہ’ الجمیعتہ‘ نے1988ء میں جب اپنی نشاط ثانیہ کا سفر شروع کیا تھا تو اس نے کچھ اپنے بنیادی اصول طے کئے تھے جن میں جمیعتہ علمائے ہند کے مقاصدو اہداف کے علاوہ ہندوستان میں اقلیتوں، مظلوموں،دبے کچلے عوام کے مسائل اور عالم اسلام کے خلاف ہونے والی سازشوں کی نقاب کشائی نیز ملت اسلامیہ کے جذبات و احساسات کی ترجمانی جیسے اہم موضوعات شامل ہیں۔الحمد للہ ہفت روزہ’الجمیعتہ‘ نے اپنی نشاط ثانیہ کے ان بتیس سالوں میں ان تمام موضوعات پر اپنے مضامین ،اپنے اوّلین صفحات اور اپنے ادارتی کالموں میں نہ صرف سیر حاصل بحث کی ہے بلکہ ملت کو پیش آمد مشکلات کا سیر حاصل حل بھی پیش کیا ہے۔۔۔

’الجمیعتہ‘ جواپنی ایک عظیم الشان اور طویل تاریخ رکھتا ہے اور جس نے تحریک آزادی کے دوران انتہائی پامردی اوراستقلال کے ساتھ انگریزی سامراج کا مقابلہ کیا اور جس کی پادا ش میںاسے بار بار ضبطی کے مراحل سے گزرنا پڑا ۔مگر اس نے نتائج کی پرواہ کئے بغیر انتہائی خراب حالات میں بھی اپنے اجراء کے روز اوّل جو مقاصڈ متعین کئے تھے بدستور ان کے حصول کی جدوجہد میں مصروف عمل رہا۔بیسویں صدی کی تیسری دہائی ہندوستانی مسلمانوں کے لئے بے حد بھیانک اورنازک ترین تھی،انگریزی استبداد اپنی تمامتر جولانیوں کے ساتھ مسلّط تھا۔یہ جمیعتہ علمائے ہند اور اس کا بے باک ترجمان’الجمیعتہ ‘ ہی تھا جس نے تاریکیوں میں روشنی کی چمک پیدا کی ۔اس نے ایک طرف مسلمانوں کو بیدار کیا اور انہیں ان کا بھولا ہوا سبق یاد دلایااور دوسری طرف ظالم اور جابر انگریزی سامراج کا جس طرح پوری پامردی کے ساتھ مقابلہ کیا وہ ہندوستان کی تحریک آزادی کا ایک زرّیں باب ہے۔پھر آزادی کے بعد جب ہندوستان پر خود اپنوں کی حکومت قائم ہوئی تو پھر اس نے ملت اسلامیہ کے ترجمان کی حیثیت سے ملت کی آبرومندی کے حصول میں اپنی تمامتر قوتیں صرف کرنے میں کسی دریغ سے کام نہیں لیا۔خاص طور پر فرقہ پرست طاقتوں کو جس طرح قوم و ملت کے اس ترجمان نے للکارا وہ اپنی مثال آپ ہے۔

ہفت روزہ’الجمیعتہ‘گزشتہ۳۲ سالوں سے اصلاح و تربیت کے موضوع پر مسلمانوں کو مسلسل توجہ دلاتا رہا ہے اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کی جانے والی ان گہری سازشوں سے بھی ملت کو آگاہ کرتا رہا ہے جن کا شکار ہو کر وہ غیر شعوری طور پر الحاد و دہریت کا شکا ر ہو سکتے ہیں۔ہندوستان میں ذرائع ابلاغ کی طرف سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جھوٹاپروپیگنڈہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ہفت روزہ ’الجمیعتہ‘ نے اس کا نوٹس لے کر نہ صرف اس کے جھوٹ کا پردہ فاش کیا ہے بلکہ اپنے ادارتی کالموں کے ذریعہ ملت کی صحیح رہنمائی کر کے مسلمانوں میں حوصلہ بھی پیدا کیا ہے۔آپ کے اس محبوب ہفت روزہ کی یہ بھی خصوصیت رہی ہے کہ اس نے حالات کے اتار چڑھائو سے گھبرائے بغیر ہمیشہ ایسے مضامین شائع کیے جو مسلمانوں کی ہمت و حوصلہ،خود اعتمادی اور جرأت ایمانی کے فروغ کا سبب بن سکیں۔اس نے ملک میں خلوص،قربانی،ایثار اور خدمت کا جذبہ پیدا کرنے کی بھی بھرپور کوشش کی اور حالات کے مقابلہ کے لیے جذبات اور جوش و خروش کے بجائے ہوش مندی اور با وقار طریقہ اپنانے کی تلقین کی۔‘ ‘

                           (سالم جامعی، ’مسلسل اشاعت کے بتیس سال ‘ ،ہفتہ وار الجمیعتہ، 3تا9جنوری2020،ص3)

مولانا عثمان فارقلیط:

         ہندوستان میں آزادی کے بعد کی اردو صحافت کی تاریخ میں مولانا محمد عثمان فارقلیط کا نام سرفہرست ہے۔مولانا فارقلیط کی پیدائش قصبہ پلکھوہ(غازی آباد)میں 1897ء میں حاجی محمد احمد کے یہاں ہوئی۔مولانا کی ابتدائی تعلیم مدرسہ صدیقیہ واقع پھاٹک جشن خان میں ہوئی تھی۔آپ نے عربی درسیات میں فاضل کیا تھا۔کم عمری میں ہی مناظروں میں جانے اور ان میں حصّہ لینے کاشوق پیدا ہو گیا تھا۔دہلی کے چاندنی چوک سے لے کر لاہور تک سینکڑوں مناظروں میں حصّہ لیا۔آپ کے مناظرے عیسائیوں سے بھی ہوئے اور آریہ سماجیوں سے بھی،انہوں نے قادیانیوں کو بھی دندان شکن جواب دئے اور اسی طرح دیگر مذہب کے علمائے کو بھی۔مولانا کو مختلف زبانوں پر عبور حاصل تھا،ساتھ ہی مولانا نے مختلف مذاہب کا تقابلی جائزہ بھی کیا۔حالانکہ مولانا اہل حدیث تھے تاہم دوسرے مسالک کو بھی احترام کی نظر سے دیکھتے تھے۔ کم عمری میں ہی مضمون نویسی شروع کر دی تھی اور سب سے پہلا مضمون مولانا ثناء اللہ امرتسری کے اخبار ’اہل حدیث‘ میں شائع ہوا۔29سال کی عمر میںکراچی سے شائع ہونے والے سندھی اخبار ’الوحید‘ میں مترجم کی حیثیت سے باضابطہ صحافت کا آغاز کیا۔اس کے بعد مختلف اخبارات میں مختلف حیثیت سے کام کرتے رہے ۔کچھ وقت تک مولانا مودودیؒ کی ادارت میںنکلنے والے سہ روزہ ’الجمیعیہ‘ میں ان کے معاون مدیر کی حیثیت سے جڑے۔ کچھ عرصہ ’مدینہ ‘بجنور سے وابستہ رہے مگر حکومت کی پالسی کے سبب یہ اخبار بند ہو گیا تو اس کے بعدلاہورچلے گئے اور وہاں مجلس احرار کی طرف سے شائع ہونے والے ایک ہفت روزہ’زمزم‘کی ادارت1936ء میں آپ کے سپرد کی گئی۔اس وقت لاہور میں مناظروں کا دور دورہ تھا جس میں مولانا حصّہ لیتے تھے اور اس وجہ سے وہاںفارقلیط (Forgolith)وجود میں آئی کیوں کہ مولانا اپنے نام کے ساتھ فارقلیط لکھتے تھے۔یہ نام انجیل میں حضرت محمد ؐ کے لئے آیا ہے جس کا عربی ترجمہ احمد ہے۔ برطانوی حکومت سے ملک کو آزادی ملنے کے بعد 1947ء میں آپ لاہور چھوڑ کر دہلی واپس آ گئے اور جب دوبارہ ’الجمیعتہ‘شروع ہواتو آپ نے اس کے ایڈیٹر کی ذمہ داری بخوبی سنبھالی۔اس وقت دہلی سے ’پرتاپ‘ نکلتا تھا جس کی پالسی انٹی مسلم تھی۔مولانا اس اخبار کے زہریلے اور مسلم مخالف اداریوں کا جواب بڑے اعتدال کے ساتھ دیتے تھے۔مسلمانوں کے ساتھ سماجی شعور رکھنے والے دیگر لوگ بھی ان کی تحریروں کو بڑے لگائو کے ساتھ پڑھتے تھے۔’الجمیعتہ‘ اپنی اسی طرز تحریر کی وجہ سے بہت مدت تک مقبول رہا۔مولانا اپنے قلم کو اعتدال میں رکھنے کے عادی تھے۔اس بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ظفر انور تحریر کرتے ہیں :

’’مولانا فارقلیط نے ہمیشہ قلم کی بے مثل طاقت پر زور دیا۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی قلم کا بطور تلوار استعمال کیاتھا اور انہیں اس بات کی دلی خواہش تھی کہ ہماری آئندہ نسل اور تعلیم یافتہ نوجوان اپنے فکر اور نامساعد حالات سے نبرد آزماہونے کے لئے قلم کا بطور تلوار استعمال کریں۔‘‘

                                    (ظفر انور، دہلی کے اردو صحافی، اردو اکادمی، دہلی، 2013،ص 22 (

         1973ء تک تقریبًا26سال کے عرصہ تک مولانا اس اخبار کو اپنی خدمات دیتے رہے اور بیمار رہنے کی وجہ سے سبکدوشی حاصل کی۔مولانا کو تاریخی واقعات بہت ذہن نشیں تھے۔اندلس کی تاریخ بہت اچھی طرح یاد تھی۔12جون1976/ء کو دہلی کے کوچہ استاد داغ میں داعئی اجل کو لبیک کہا اور پلکھوہ کے آبائی قبرستان میں سپرد خاک ہوئے۔ مولانا کا صحافتی سفر تقریباًنصف صدی پر محیط ہے۔

سالم جامعی:

         سالم جامعی کی شخصیت میں سادگی،ملنساری، اور عاجزی کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔گفتگو کرتے وقت آپ کا نرم لہجہ ناظرین اور سامعین کو محظوظ کر دیتا ہے۔آپ کی پیدائش یکم جنوری1945ء کو موضع مجاہد پور،پوسٹ مظفرآباد ضلع سہارنپور میںہوئی تھی۔ آپ کے والد حضرت مولانا اصغرؒ جامعہ اسلامیہ رہڑی تاجپور میں صدر المدرّس اور شیخ الحدیث تھے۔آپ نے درجہ حفظ تک کی تعلیم اپنے والد کے مدرسہ سے کی اور دور حدیث دار العلوم، دیو بند سے 1962ء میں مکمل کیا۔آپ کواردو کے ساتھ عربی و فارسی زبانوں پر عبور حاصل ہے۔فراغت کے بعدآپ نے بطور ناظم اور بطورمہتمم کئی مدرسوں میں اپنی خدمات انجام دیں۔سالم جامعی صاحب کی صحافتی زندگی نصف صدی سے زیادہ پر محیط ہے۔آپ نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز مظفر نگر سے شائع ہونے والے ماہنامہ’خیرخواہ‘میںبطور نائب مدیر1963ء سے کیا۔اس کے بعدجامعہ اسلامیہ رہڑی تاجپور،سہارن پور سے نکلنے والے ماہنامہ’المصلح‘ کے ایڈیٹر رہے۔جمیعتہ علمائے ہند سے وابستگی اور انس آپ کو دہلی لے آیا اور1986ء سے آپ جمیعتہ کے دفتر سے شائع ہونے والے پندرہ روزہ’خبرنامہ‘ اور ساتھ ہی دہلی سے شائع ہونے والے ہفت روزہ’مساوات‘میں اپنی صحافتی خدمات انجام دیتے رہے۔ ہفت روزہ اخبار’الجمیعتہ‘ میںجولائی1988میں جب دوبارہ شروع ہوا تب سے بطور مدیرتحریر رہتے ہوئے تمام ادارتی ذمہ داری اور2017ء سے بطور مدیراعلیٰ اپنی زندگی کے قیمتی ایّام کو اس توسّط سے صحافتی خدمات میں گزار رہے ہیں۔ہفت روزہ’الجمیعتہ‘ میں آپ کے شائع ہونے والے مضامین و اداریوں کی تعداد تین ہزار سے زیادہ ہے جبکہ دیگر اخبارات میں آپ کے پانچ سو سے زیادہ مضامین شائع ہو چکے ہیں۔ اپنے والد کی سوانح حیات’میر کارواں شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد اصغر صاحب‘کے نام سے ایک کتاب شائع ہو چکی ہے۔ 75سال کی عمر میں بھی آپ کا صحافت کے تئیں جذبہ برقرارہے اور صحافت کے ساتھ جمیعتہ علمائے ہند کی مختلف سرگرمیوں میںمشغول رہتے ہیں۔

         1925ء سے شروع ہو نے والا یہ اخبارجلد ہی ایک صدی مکمل کرنے کے قریب ہے۔مدیران حضرات اور اہم قلمکاروں کامختصر تعارف درج ذیل پیش کیا جا رہا ہے۔

اخبار/نوعیت

مدیر

کب سے کب تک

سہ روزہ’الجمیعتہ‘

مولانا عرفان احمد صدّیقی

/2فروری1925 تا10 /جون1925

سیّد ابوالاعلٰی مودودیؒ

/14جون 1925تاجون1928

مولانا حامد الانصاری غازی

جولائی1928تا جون1929

ہلال احمد زبیری

جولائی1929تا جون1936

مولانا عثمان فارقلیط

جولائی1936تا  اگست1937

درمیانی وقفہ یعنی ہنگامے والے دور کا کوئی ریکارڈ دستیاب نہیںجب کہ کئی دفعہ اس کی تمام کاپیوں کو حکومت نے ضبط کر لیا

روزنامہ’الجمیعتہ‘

مولانا عثمان فارقلیطؒ

1947تا مارچ1973

رفیق عزیز بیگ

07مئی1973تادسمبر1977

ناز انصاری

جنوری1978تااگست1984

ستمبر1984تا جون ——1988اخبار بند رہا

  ہفت روزہ’الجمیعتہ‘

مولانا اسرار الحق

جولائی1988تا اکتوبر1991

محمد حنیف دائما کمار

اکتوبر1991تا جنوری2018

سالم جامعی

فروری2018تا حال

جمعہ ایڈیشن

مولانا عثمان فارقلیطؒ

جولائی1967تامارچ1973

جمعہ ایڈیشن

مولانا وحید الدین خاں

اپریل1973تا مئی1982

بہار برنی

جون1982تا جنوری1985

         مندرجہ تحریروں کی روشنی میںکلی طور پر ہم اس اخبار کی صحافتی زندگی کو تین ادوار میں تقسیم کر سکتے ہیں۔پہلا دور اس کی ابتدا ء سے لے کر جنگ آزادی تک ،درمیانی دور میں ملک کے آزادی حاصل کرنے کے بعد مولانا عثمان فارقلیط کی ادارت کا سنہری اور عروج والا دوراورتیسرے اور آخری دور میں جب کہ اس اخبارکو ہفتہ وار کردیاگیاجس میں مولانا اسرار الحق قاسمی،محمد حنیف دائما کمار اور سالم جامعی نے اس کے لئے اپنی ادارتی خدمات انجام دیں۔جن کی کاوشوں کی وجہ سے یہ اخبار آج بھی جاری ہے۔بہادر شاہ ظفر مارگ، ITOکے نزدیک،نئی دہلی میں واقع الجمیعتہ العلماء ہند کے صدر دفتر کے مدنی حال کے بیس مینٹ میں اس اخبار کا آفس موجود ہے۔جمیعتہ ٹرسٹ سوسائٹی کی طرف سے سالم جامعی کی ادارت میںشائع کیا جاتا ہے۔حالانکہ اس اخبار کو اب وہ مقبولیت حاصل نہیں رہی مگر آج بھی جمیعہ علمائے ہند کے حلقوں میں پڑھا جاتا ہے۔

***

Leave a Reply