You are currently viewing افسانہ

افسانہ

سیّدہ حرمت ماہین

شہر :سیالکوٹ

افسانہ

وہ لوگ کون ہوتے ہیں جو کہتے ہیں کہ مجھے زندگی سے کوئی دکھ نہیں چاہیے۔ جو دعا مانگتے ہیں کہ ﷲ ہمیں کبھی کسی آزمائش میں نہ ڈالے اور پھر اگر دعا قبول نہ ہو تو روتے ہیں۔

کیا یہ سوچتے ہیں کہ اگر آزمائشیں نہ ہوں تو کیا ہو؟

کیا یہ سوچتے ہیں کہ اگر دکھ نہ ہوں تو کیا ہو؟

نہیں۔۔۔۔۔۔

ﷲ نے ہر چیز کسی مقصد سے بنائی ہے۔ کوئی بھی چیز بے مقصد نہیں ہوتی۔

تو پھر زندگی میں دکھ، تکلیف اور آزمائش جیسی چیزیں بھی تو کسی وجہ سے آتی ہوں گی۔ کیا یہ سوچتے ہیں؟

نہیں۔۔۔۔۔۔

دنیا میں ہر چیز کا ایک الٹ موجود ہوتا ہے اور یہ الٹ ہی اس چیز کو اس کا اصل معانی دیتا ہے۔

سمجھے؟؟

نہیں سمجھے؟

رکو۔۔۔۔۔۔

سمجھاتی ہوں۔۔۔۔۔

اگر دنیا میں صرف اچھائی ہو اور برائی نہ ہو تو کیا اچھا ہونے میں کوئی خاص بات رہے گی؟

نہیں ناں۔۔۔۔۔

ہاں ۔۔۔۔۔۔۔اب تم میری بات اچھی طرح سمجھ رہے ہو۔۔۔۔۔۔

برائی اچھائی کا الٹ ہے لیکن اچھائی کو اس کا اصل معانی برائی کے وجود سے ہی حاصل ہوا۔

خوشی کا الٹ غم ہے اور غم نے ہی خوشی کو اصل معانی دے رکھا ہے۔

اگر غم نہ ہوں تو خوشی کی کوئی اہمیت رہے گی کیا؟

اگر پریشانیاں نہ ہوں تو کیا سکون کی کوئی اہمیت ، کوئی قیمت باقی رہے گی؟

میں یہ نہیں کہتی کہ غم کوئی بہت اچھی چیز ہے، ہر کسی کو ملنا چاہیے یا ہر کسی کی زندگی میں ہونا چاہیے۔ نہیں قطعی نہیں۔۔۔۔۔

بس یہ کہنا مقصود ہے کہ ﷲ کی بنائی ہوئی ہر چیز با مقصد ہے خواہ وہ تکالیف ہی کیوں نہ ہوں۔۔۔۔۔

تو کیوں نہ ہم ان دکھوں پر صبر کرنا اور ان کے پیچھے چھپے مقصد کو سمجھنا سیکھیں۔۔۔

تو کیوں نہ غموں کا رونا رونے کی بجائے خوشیوں کو جینا سیکھیں اور سب کو خوش رکھنا سیکھیں۔۔۔۔۔

***

Leave a Reply