You are currently viewing ’’انیس الارواح‘‘  اور  ملفوظات اصفیا  کی  اہمیت و معنویت

’’انیس الارواح‘‘  اور  ملفوظات اصفیا  کی  اہمیت و معنویت

پروفیسر اخلاق احمد آہنؔ

شعبۂ فارسی، جواہرلال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی۔۶۷

’’انیس الارواح‘‘  اور  ملفوظات اصفیا  کی  اہمیت و معنویت

عجیب بات ہے کہ خواجہ غریب نواز معین الدین چشتی سجزی رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت بر صغیر میں صدیوں سے جس قدر مقبول و معظم رہی ہے،  ویسے ہی ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر اسرار کا پردہ بھی پڑاہواہے۔  یہ مسلّم حقیقت ہے کہ بادشاہ و فقیر اور ہر مذہب و ملت اور طبقۂ فکر کے افراد یکساں طور پر ان کے زمانے سے لے کر آج تک، ان کی روحانی شخصیت کی عظمت اور کشش سے مسحور رہے ہیں اور آج بھی ہیں۔سلطنتیں بنیں اور نابود ہوئیں، حکومتیں قائم ہوئیں اور اپنا نام و نشان تک باقی نہ رکھ سکیں، افراد شہرت کی بلندیوں پر متمکن ہوئے اور تاریخ کے اوراق میں گم ہوگئے ، لیکن خواجہ کی شخصیت ایسے ستارہ کی مانند رہی، جو گذرتے وقت کے ساتھ درخشاں تر ہوتی گئی اور ایسی سلطنت جیسی رہی ، جس کی وسعتیں روزافزوں رہیں۔  ان سب کے باوجود ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پرسایہ فگن اسرار کی چادر اٹھانے کی کوشش نہ ہوئی۔ عقیدت نے ہر بات پر آمنا صدقنا کہا اور خاص طور سے ان کی زندگی  اور کارناموں پر پردوں کی تہیں دبیز ہوتی چلی گئیں۔ چناں چہ جب عہد جدید میں لوگوں نے تحقیقی کوششیں شروع کیں تو اپنے معیار پر ان حقائق کو پرکھنے میں مشکلوں سے دوچار ہوئے اور ہتھیار ڈال دیے، کچھ نے قدم بڑھائے تو خود کو ہر مقام پر دم بخود پایا۔ ان محققین کے لیے سب سے بڑی مشکل معاصر مآخذ کی نایابی ہے، جن سے استنباط ہو سکے۔ چناں چہ پروفیسر محمد حبیب اور سید صباح الدین عبدالرحمن وغیرہ کو سوانح اور آثار خواجہ سے متعلق تحقیقات کے دوران انہیں مشکلات کا سامناہوا اور ان کی تحریروں میں اس کا برملا اظہار بھی ملتا ہے۔

اس زمرہ میں خود خواجہ غریب نواز کی تصنیفات خصوصاً ملفوظات بھی ہیں، جن کے بارے میں بڑی بحثیں رہیں کہ آیا وہ اصلی تھیں یا کسی نے ان کے نام سے منسوب کردیا تھا۔خواجہ غریب نواز ؒ کی تالیف کردہ کتاب’’انیس الارواح‘‘ جو ان کے مرشد خواجہ عثمان ہارونی کی ملفوظات پر مشتمل ہے، کئی صدیوں سے صوفیا و عرفا کے درمیان تفہیم ِاسرار و رموز ِسلوک کے لیے ایک اہم منبع رہی ہے، لیکن اس کے حوالے سے بھی مذکورہ بحث رہی۔ اس کے باوجود کوئی حتمی نتیجہ برآ مد نہ ہوسکا ۔یہاں یہ ذکر کرنا بے جا نہ ہوگا کہ جن بنیادوں پر ’’انیس الارواح‘‘ کے اصل ہونے پر شک کا اظہار کیا جاتا ہے، ان میں خاص طور پر خواجہ نصیرالدین چراغ دہلی سے روایت ’’خیرالمجالس ‘‘ میں درج ایک بیان ہے، جس میں انہوں نے اس کی نفی کی ہے کی ہے کہ  چشتیہ سلسلہ کے کسی صوفی نے کوئی کتاب تصنیف کی ہے۔ ساتھ روایات میں زمانی و مکانی فرق سے متعلق باتیں ہیں۔ البتہ اب تک کی بحثوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے ’’انیس الاروح‘‘ کو خواجہؒ کی تالیف اور ملفوظات خواجہ عثمان ہارونیؒ قرار دینے میں کوئی مضائقہ نہیں، بلکہ غالب رائے یہی ہے اور یہی قرین قیاس بھی ہے۔

’’انیس الارواح‘‘ کے مطبوعہ نسخوں میں اس کتاب کی شان تالیف کی وجہ بقول خواجہ غریب نواز اس کتاب کی ابتدا میں ہی یوں مندرج ہے کہ:

’’حضرت خواجہ ؒ(یعنی مرشد خواجہ غریب نوازؒ )  بغداد میں معتکف ہوئے تو انھوں نے مجھ سے فرمایا کہ وہ کچھ دنوں کے لیے باہر نہ نکلیں گے۔ میں چاشت کے وقت آجایا کروں، وہ جو کچھ ایسی باتیں کہیں گے ، جو مریدوں اور فرزندوں کے لیے یادگار کے طور پر رہ جائیں گی۔ یہ حکم سن کر میں روزانہ حضرت خواجہ کے یہاں مقام عزلت میں پہنچ جاتا اور جو کچھ ان کی زبان دربار سے سنتا، قلم بند کرلیتا ۔‘‘

اس میں حضرت خواجہ ہارونی کی اٹھائیس صحبتوں کے ملفوظات ہیں۔ ان ملفوظات میں  تصوف کے مہمات مسائل و نکات پر بحث نہیں کی گئی ہے، بلکہ اقوال کے ذریعہ سے بعض شرعی ، اخلاقی اور دنیاوی مسائل پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ مثلاً نماز اور شریعت کے دیگر مسائل اور مختلف معاملات سے متعلق آرا ہیں۔

لیکن اس کے ساتھ ہی مرشد کے ساتھ گذاری گئی طویل مدت کا مفصل ذکر بھی ملتا ہے۔ اس میں سفر و ہجر کے واقعات و تجربات ، علما و عارفان وقت سے ملاقات اور ذاتی مشاہدات کا ذکر ملتا ہے۔ مثلاً ایک واقعہ کا ذکر آیا ہے کہ خواجہ ؒ اپنے مرشد کے ساتھ سیوستان پہنچے اور وہاں شیخ صدرالدین محمد سیوستانی سے ملنے ان کے صومعہ میں گئے، جہاں کئی روز رہے۔ یاد حق میں  ان بزرگ کا استغراق حد سے زیادہ تھا جو کوئی ان کے پاس آتا ، محروم نہ جاتا۔ اس کو کوئی چیز لاکر ضرور دیتے اور فرماتے کہ میرے لیے دعائے خیر کرو کہ اپنا ایما ن قبر تک سلامت لے جاؤں۔  اسی طرح مختلف شہروں کے سفر اور متعدد بزرگوں سے ملاقات اور کسب فیض کے بعد اپنے مرشد ہی کے ہمراہ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کی زیارت کی ۔ ان کے مرشد نے ان کے حق میں دعائیں کیں اور بالآخر مرشد نے گوشِ شنوا سے پیام دل گشا سنا کہ:

’’معین الدین دوست ماست، او را قبول کردم و برگزیدم۔ ‘‘

حضرت عثمان ہارونی کو بھی حضرت خواجہ سے بڑی محبت تھی اور فرمایا کرتے تھے کہ : ــ

’’معین الدین محبوب خدا است و مرا فخر است بر مریدیِ او۔‘‘

انیس الارواح میں ہی ذکر ہوا ہے کہ جب خواجہؒ کو ان کے مرشد نے خرقہ کے ساتھ عصا، نعلین چوبی اور مصلیٰ بھی عطا فرمایا۔ سیرالاقطاب میں مرقوم ہے کہ مدینہ منورہ میں ہی بارگاہ رسالت سے حضرت خواجہؒ کو ہندوستان جانے کی بشارت ملی۔ بلا شبہ اس کتاب میں بیان شدہ باتیں اہل عشق اور اہل سلوک کے لیے مشعل راہ ہیں۔ اس کے علاوہ اس میں مکارم اخلاق اور صوفیا سے متعلق بعض اہم اور تاریخی اہمیت کے حامل واقعات کا ذکر بھی ملتا ہے، جو ایمان افروز بھی ہیں اور معلومات افزا بھی۔ اس کے ساتھ ہی نظام خانقاہی سے وابستگی رکھنے والوں کے لیے اس کی حیثیت تربیتی نصاب جیسی ہے۔ جو واقعی اس نظام کی اہمیت کا دم بھرتے ہیں، انہیں اس کتاب سے کسب فیض کرنا چاہیے، بلکہ مختلف شعبہ ہائے حیات کے لیے آج بھی اس کی اہمیت ویسے ہی برقرار ہے اور آج  بھی اہل نظر اس کی معنوی و روحانی گہرائیوں میں غوطہ زن ہیں۔

یہاں تک کہ جس زمانے میں ان ملفوظات کی روشنی میں، جو در حقیقت چشتی صوفیا کے فلسفہ ٔحیات و ممات کا آئینہ ہیں، ہندوستان میں اپنا مشن شروع کیا تو حالات انتہائی ناسازگار تھے۔ حکومت مسلمانوں کی ہوکے بھی ان کی تعداد نمک میں آٹے کے برابر تھی۔ اور سچ تو یہ ہے کہ حکمراں اپنی سیاست مداری میں تمام وقت مصروف رہے۔ محبت، آشتی اور حق کا پیغام لوگوں تک پہنچانے کی ذمہ داری انہیں سالکان حق کے ذمہ تھا اور انہوں نے اسے بخوبی انجام دیا ۔ آج بھی ان کے پیغامات کی اہمیت اور بڑھ گئی ہے ، کیوں کہ فتنہ عام ہے، اور اس کی شکلیں بھی زیادہ ہیں۔ ایک عام اور سیدھے سادے انسان کے لیے آج کے دور میں جہاں میڈیاکے ذریعہ اور دیگر ذرایع کے توسط سے باطل کی مختلف شکلیں بھیس بدل کر انسانوں کو گمراہی کے راستے پر ڈال رہی ہیں، تشکیک، تضاد اور مادیت ذہنوں پر حاوی ہورہے ہیں۔ روحانیت سے انسان کوسوں دور بھی ہے اور اس کی تلاش میں دیگر مختلف راستوں پر بھاگا جارہا ہے۔ دوسری طرف مداری کی طرح مختلف ڈھونگی  لوگوں کی اس تشنگی کو بجھانے کے نام پر اپنی دکانیں چمکا رہے ہیں اور مشرق سے لے کر مغرب تک اقوام عالم کو گمراہ کررہے ہیں۔ لیکن سچی روحانی طماینت سے آج بھی دنیا کوسوں دور اور سرگرداں ہے۔ ایسے میں خداوند عالم کے ان سچے بندوں کی ان تعلیمات کی اہمیت دوبالا ہوجاتی ہے۔ یہ تعلیمات نہ صرف مسلمانوں کی دینی درس گاہوں اور خصوصاً خانقاہوں کو نئی زندگی بخشنے اور آج کے اسلام اور مسلمان مخالف ماحول میں اہل وطن کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کرنے میں معاون ثابت ہوسکتی ہیں۔ کل بھی ایسا تھا اور آج بھی ایسا ہی ہے کہ جو افتراق اور نفرت پھیلائی جاتی رہی ہے ، وہ مذہب کے نام پر سیاست کرنے والوں کے سبب رہی ہے۔ لوگوں کو بتانے کی ضرورت ہے کہ اسلام کے سچے مبلغ اور نمائندے ، صرف سچائی، محبت، رواداری، انسان دوستی اور امن و آشتی کا پیغام دیتے ہیں اور یہی ان کی زندگی اور موت کا نصب العین ہے۔ ان کی تمام تعلیم کا ماحصل عشق ہے۔ بقول ظہوری:

شداست سینہ ظہوری پُر از محبتِ یار

برائے کینۂ اغیار در دلم جا نیست

***

Leave a Reply