You are currently viewing ایک وہ ہیں کہ جنہیں عید کے ارماں ہوں گے

ایک وہ ہیں کہ جنہیں عید کے ارماں ہوں گے

زیبا خان

(گوپامؤ،  ہردوئی، اترپردیش)

انشائیہ

ایک وہ ہیں کہ جنہیں عید کے ارماں ہوں گے

رمضان کے مبارک مہینے کی آمد کے ساتھ ہی مسلم بستیوں میں چہل پہل شروع ہو جاتی ہے۔ بازاروں میں کافی رونق ہوتی ہے۔ اور جیسے جیسے عید نزدیک آتی جاتی ہے بازاروں میں بھیڑ بھی بڑھتی جاتی ہے۔ رمضان المبارک کا چاند نکلنے کے بعد سے جو مسجدوں کی دوڑ شروع ہوتی ہے وہ عید کا چاند نکلتے ہی ختم ہو جاتی ہے، پھر مسجدوں میں نظر آتے ہیں چند بزرگ جنہیں گھر بار سے فرصت مل چکی ہوتی ہے یا پھر محلے کے وہ چند پنچ وقتہ مرزا صاحب جیسے نمازی جنہیں نماز پڑھنے کے بعد اپنا کاروبار دیکھنا ہوتا ہے۔

جو جوان صفیں ہمیں تراویح میں نظر آتی ہیں وہ پھر پورے سال چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتیں۔ حالانکہ ان میں بھی بہت سے ایسے ہوتے ہیں جو تراویح کے بعد بانٹے جانے والے شربت کی آس میں اخیر تک بیٹھ کر آئی پی ایل دیکھتے رہتے ہیں اور بیچ بیچ میں موبائل پلٹ کر رکوع سجدہ کرتے جاتے ہیں۔

لیکن ان سب سے الگ ہمارے پڑوسی مرزا صاحب ہیں۔ جن کا پورا نام مرزا واجد حسین ہے۔ ایک نمبر کے کنجوس آدمی ہیں۔ مکھیاں بھی ان کے یہاں دودھ میں گرنے سے ڈرتی ہیں۔ لوگوں نے انہیں مرزا صاحب کے نام سے مشہور کر رکھا ہے۔ مرزا صاحب کا حلیہ ان کے مزاج سے بالکل مختلف ہے مزاج سے تھوڑے نک چڑھے اور پیٹ سے تھوڑا آگے بڑھے ہوئے ہیں۔ مرزا صاحب کے پیٹ سے یاد آیا ان کے کاروبار کی طرح پیٹ بھی لگاتار دن دونی رات چوگنی ترقی کرتا جا رہا ہے۔ ابھی تک مرزا صاحب پرچون کی دکان ہی رکھے ہوئے تھے اب اسی میں گیہوں دھان اور تیل کی خریداری بھی کرنے لگے۔ ناپ تول کے معاملے میں تو مرزا صاحب کا کوئی ثانی نہیں۔ تیل ناپنے کے لئے دو لیٹر رکھتے ہیں۔ آپ بیچنے آئیں گے تو ایک ہزار گرام کے لیٹر سے ناپیں گے اور آپ خریدنے آئیں تو نو سو گرام والے سے ناپ کر دیں گے۔ یہی حال گیہوں وغیرہ کی تول میں بھی ہے۔

بتاتے چلیں مرزا صاحب پنچ وقتہ نمازی بھی ہیں۔۔۔

‘ہٹتی نہیں ہے ٹوپی سر پر لگی ہوئی۔۔۔’

اور رمضان کے مبارک مہینے میں تو بڑے اہتمام کے ساتھ روزوں اور تراویح کی پابندی کرتے۔ تراویح ہمیشہ امام کے پیچھے پہلی صف میں کھڑے ہوکر پڑھتے۔ دو تین سال پہلے کی بات ہے مرزا صاحب نے تراویح کے وقت پیچھے کی صفوں میں دھکا مکی کرتے بچوں کو دو چار کنٹاپ لگا دیں۔ بچے تو آخر بچے ہوتے ہیں یہ نہ ہوں تو پھر رمضان میں بھی مسجدوں میں وہ رونق نہ رہے۔ انہیں میں سے کچھ شریر بچوں نے مرزا صاحب سے بدلا لینے کی ٹھانی۔ اگلے دن بچوں کے ساتھ کچھ بڑوں کو بھی مذاق سوجھا۔۔۔ (کیونکہ محلے والوں کا مرزا صاحب سے مذاق کا رشتہ بھی ہے۔ مرزا صاحب کی بیوی رضیہ بیگم محلے کی ہی بیٹی ہیں اس ناتے وہ محلے کے بہنوئی بھی لگتے ہیں)۔ سب نے مرزا صاحب کے پہنچنے سے پہلے ہی پہنچ کر آگے کی صفوں کو بھر دیا۔۔۔ مرزا صاحب جب پہنچے تو جگہ پیچھے کی صف میں ہی خالی تھی مجبوراً مرزا صاحب کو وہیں کھڑے ہونا پڑا۔ تراویح شروع ہوئی اور رکوع سجدے ہونے لگے۔ مرزا صاحب جیسے ہی سجدے میں گئے دو بچوں نے مل کر پانی سے بھرا ٹب ان کے نیچے بڑھا دیا۔۔۔اور بھاگ گئے۔ مرزا صاحب سجدے سے اٹھے تو سیدھا ٹب میں سما گئے۔ پانی میں شرابور مرزا صاحب غصے سے آگ ببولا ہوئے اور کہا کہ:

“آج کے بعد میرے کو ان بیوقوفوں کے ساتھ نماز نہیں پڑھنا ہے”

اور یہ کہتے ہوئے مسجد سے نکل گئے۔ وہ دن ہے اور آج کا دن مرزا صاحب مسجد میں تراویح پڑھنے نہیں جاتے۔ گھر پر ہی الم ترکیف کی تراویح پڑھ لیتے ہیں۔ حالانکہ رضیہ بیگم نے کئی دفعہ سمجھایا۔ بچوں کی بات تھی ختم کیجیے تراویح پڑھنے مسجد جایا کیجیے۔ لیکن مرزا صاحب ایک بار جو ٹھان لیں پھر کسی کی نہیں سنتے حتیٰ کہ اپنے آپ کی بھی نہیں۔

یوں تو رمضان کا مہینہ مجھے بھی بہت پسند ہے خاص کر افطار کے وقت رنگا رنگ کے شربت اور انواع و اقسام کی چیزیں دسترخوان کی زینت ہوتی ہیں۔ لیکن سحری کے وقت اٹھنا بار ہے۔ سحری سے مجھے اپنے بچپن کا ایک واقعہ یاد آیا۔ ان دنوں ہم جوائنٹ فیملی میں رہا کرتے تھے۔ الحمدللہ کافی بڑی فیملی تھی، رمضان کا مہینہ چل رہا تھا۔ میں روز امی سے کہہ کر سوتی مجھے سحری میں جگا دیجیے گا، لیکن امی اپنی سہولت کے لئے مجھے کبھی نہیں اٹھاتیں۔ ایک دن جانے کیسے برتنوں کی کھٹر پٹر سن کر میں اٹھ بیٹھی۔ مچھر دانی سے نکل کر دیکھا آنگن میں چٹائی پر بیٹھے سب لوگ سحری کھانے میں مشغول ہیں۔

جھٹ پٹ منھ دھویا اور سب کے دمیان آکر بیٹھ گئی: “امی مجھے بھی سحری دیجیے!”

امی نے کٹوری میں دودھ والی سیوئیاں نکال کر میری طرف بڑھائیں۔ میں پیچھے ہٹ گئی اور کہا:

“مجھے سیوئیاں نہیں کھانی ہیں۔ مجھے سحری دیجئے۔۔۔”

“سحری تو یہی ہے” ابو اور چاچو ایک ساتھ بول پڑے۔

“لیکن یہ تو سیوئیاں ہیں چاچو تو روز کہتے ہیں ہم نے سحری کھائی روزہ رکھا۔۔۔ کبھی نہیں کہتے ہم نے سیوئیاں کھائیں۔ آپ لوگ جھوٹ بول رہے ہیں، مجھے سحری نہیں دے رہے۔۔۔” کہتے ہوئے رونا شروع کر دیا۔

امی نے چولہے کے پاس پڑی ہوئی چھڑی اٹھائی: “کھاؤ گی یا رسید کروں۔۔۔”

روتے ہوئے کٹوری اٹھائی اور کھانے لگی۔۔۔آج بھی کزن اس بات کو لے کر مجھے چڑاتے رہتے ہیں۔

ہاں تو مرزا صاحب کا قصہ یوں آگے بڑھا کہ انہوں نے مسجد جانا چھوڑ دیا اور گھر پر ہی مصلی سنبھال

 لیا۔ اب رضیہ بیگم کی پریشانی بڑھ گئی۔ کیونکہ وہ مرزا صاحب کے تراویح کے لئے جاتے ہی وضو کرکے فرض پڑھ لیا کرتی تھیں، اب انہیں مرزا صاحب کے پیچھے تراویح بھی پڑھنی پڑ رہی تھی۔ من ہی من مرزا صاحب کو کوستی جاتیں اور پڑھتی جاتیں۔

مرزا صاحب کی شادی کافی تاخیر سے ہوئی تھی اس لیے بچے ابھی چھوٹے ہی تھے اکثر و بیشتر پہلی بار دیکھنے والے انہیں مرزا صاحب کا پوتا پوتی سمجھ لیا کرتے۔ پچھلے رمضان کے شاید پندرہویں روزے کا ذکر ہے۔ مرزا صاحب نے سحری سے فارغ ہو کر نمازِ فجر ادا کی اور قرآن مجید کی تلاوت کرنے بیٹھ گئے۔ رضیہ بیگم نے سحری کے خالی برتن اکٹھے کرکے سنک میں ابھی رکھا ہی تھا کہ ڈھائی سالہ چھوٹے بیٹے نے بستر سے آواز لگائی: :اماں پوٹی۔۔۔”

رضیہ بیگم برتن چھوڑ کر دوڑیں۔۔ہڑبڑاہٹ میں چٹائی پر رکھی چائے کی پیالی سے پیر ٹکرایا اور پیالی کے چار ٹکڑے ہو گئے۔۔

“ارے آرام سے اتنی کیا جلدی تھی۔۔” مرزا صاحب نے پیچھے گھوم کر دیکھا، ان کی پسندیدہ پیالی چکناچور ہو چکی تھی۔

” ہاں جی۔۔۔آپ بس چپ چاپ پڑھیے۔۔ اتنی کیا جلدی تھی۔ ابھی بستر پر کر دیتا تو مجھے ہی دھونا پڑتا آپ تو نہ کرتے یہ کام۔۔۔” رضیہ بیگم نے چندو کو پوٹی پر بٹھاتے ہوئے دانت پیسے:

“باپ بیٹے سب ایک جیسے ہیں بھلا سحری میں چھوٹی کو جگانے کی کیا ضرورت تھی اسے جگا کر رکھ

 دیا، آدھے گھنٹے سے اس کے چائے پانی میں لگی ہوں۔ خود کھا پی کر نماز پڑھی، کنارے ہو گئے۔ “

مرزا صاحب نے چپ ہو جانے میں ہی خیریت سمجھی۔ دوڑ کر پیالی کے ٹکڑے بٹورے۔۔ آنکھوں میں نمی اتر آئی۔۔۔

“رضیہ بیگم تم کیا جانو اس ایک پیالی کی قیمت۔ ابا مرحوم دیوا شریف سے یہ خاص بون چائینا کی پیالی ہمارے لئے لے کر آئے تھے۔ تب سے اب تک میں نے سنبھال کر رکھا ہوا تھا۔ تم تو جانتی ہی ہو مجھے چائے سے کوئی خاص لگاؤ نہیں ہے بس اس پیالی کی خاطر کبھی کبھار پی لیتا تھا۔۔۔”

ٹوٹے ہوئے کپ کے ٹکڑے ہاتھ میں لیے مرزا صاحب من ہی من سوچ رہے تھے۔۔۔کچھ بگڑتا ہے تو کچھ بن جاتا ہے۔۔۔ہر ہفتے بیگم صاحبہ پرچہ تھما دیتی تھیں دو کلو شکر ڈھائی سو گرام چائے پتی دکان سے آتے ہو لے آنا۔ اب اس خرچے میں کچھ تو کمی آئے گی۔

تبھی دروازے پر کسی نے دستک دی:

“مرزا صاحب۔۔۔گیہوں تول لیجیے مجھے کام پر جانا ہے۔۔۔”

مرزا صاحب نے اپنی تسبیح اٹھائی، ٹوپی درست کی اور گیہوں تولنے چلے گئے۔

رضیہ بیگم نے پیالی کی کرچیاں اٹھائیں اور ڈسٹ بن میں ڈالتے ہوئے چھوٹی کو آواز لگائی:

“قلم اور ڈائری اٹھانا۔۔۔ عید کا سامان نوٹ کرنا ہے۔۔۔ اور یہ لے میرے کپڑے زرینہ بوا کو

دے آ۔۔۔کہنا کمر بند دھیان سے سی دیں۔۔۔ورنہ سلائی کا ایک بھی پیسہ نہیں دیں گے۔۔‌۔ موئے درزی بھی آسمان چھوتے جا رہے ہیں۔۔۔ بچا ہوا کپڑا واپس نہیں کریں گے اوپر سے سلائی بھی ڈھائی سو روپے چاہیے۔۔۔”

رضیہ بیگم بدبداتے ہوئے کچن میں گھس گئیں: “ہونہہ۔۔۔!”

رضیہ بیگم کے کپڑوں سے یاد آیا، مجھے بھی عید کی کافی تیاریاں کرنی تھیں سو میں اپنے کمرے میں لیٹی فون پر عید کے لیے نئی نئی ریسیپیز تلاش کرنے لگی۔۔۔

” روزہ رکھ کے دن بھر پڑی رہوگی یہ صاف صفائی کون کرے گا۔۔۔” امی کی زوردار آواز پر مرے ہوئے قدموں سے میں باہر نکلی۔۔۔

“جی امی۔۔۔کر لیں گے۔۔۔”

“کب کر لیں گے۔۔۔ چلو لگ جاؤ عید کے آٹھ ہی دن بچے ہیں۔۔۔”

میں نے منھ بسورتے ہوئے جھاڑو اٹھائی اور جالے صاف کرنے کے کام پر لگ گئی۔

ایک ہم ہیں کہ ہوئے ایسے پشیمان کہ بس

ایک وہ ہیں‌کہ جنہیں عید کے ارماں ہوں گے۔۔۔

***

Leave a Reply