You are currently viewing ماہر شخصیت ساز نعیم جاوید سے ایک خصوصی گفتگو

ماہر شخصیت ساز نعیم جاوید سے ایک خصوصی گفتگو

انٹرویو نگار :

علیزے نجف

سرائے میر  ، اعظم گڑھ

ماہر شخصیت ساز نعیم جاوید سے ایک خصوصی گفتگو

انسان کے اندر سیکھنے کا داعیہ ازل سے ہی رہا ہے اسی  صفت کی بدولت انسانی علم ہمیشہ سے ترقی پزیر رہا ہے ۔ نت نئے زاویوں کی کھوج کرنا اس کی سرشت میں شامل ہے۔ اس رجحان کی وجہ سے اس نے اب تک بےشمار علوم کو دریافت کیا ہے ۔ جیسے جیسے وہ اپنی متجسسانہ طبیعت کو آگہی کے راستے پہ محو سفر کرتا ہے اس کے جاننے کا دائرہ وسیع ہوتا جاتا ہے اس دوران ایسے کچھ نئے پہلو بھی سامنے آتے جاتے ہیں جو کہ اپنے آپ میں سراپا سوال ہوتے ہیں یہاں تک کہ انسانی ذہن اس کی وجوہات اور حقیقت کو  تلاش کرنے میں جت جاتا ہے جب وہ اسے جان لیتا ہے تو بطور اصطلاح  اس کو ایک نام دے دیا جاتا ہے جو کہ اس کی شناخت بن جاتا ہے ۔ پھر اسے اگلی نسل تک منتقل کرنے کے لئے اس کے قواعد و اصول کو مرتب کیا جاتا ہے تاکہ اس کو ایک ترتیب کے ساتھ سکھایا جا سکے ۔

اب تک انسانی ذہن نے بےشمار علوم کو دریافت کیا ہے اور ہر گزرتے وقت کے ساتھ کسی نہ کسی نئی علمی اصطلاح کا اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے اس میں سے ایک علم  قوت حافظہ کو بہتر بنانے کا علم ہے ۔ جس میں انسانی حافظہ کی یاد کرنے کی صلاحیت کو جو اس کے اندر بطور پوٹنشیل موجود ہے بہتر بنانے کو کوشش کی جاتی ہے کہتے ہیں کہ ہم عام طور سے اپنی دماغ کا معمولی حصہ ہی استعمال کر پاتے ہیں کیوں کہ ہمیں اس کے صحیح استعمال کا ہنر نہیں معلوم ہوتا اور جب ہم قوت حافظہ کو بہتر  کرنے کا فن سیکھ لیتے ہیں تو ہم زیادہ بہتر طریقے سے معلومات ، یادوں اور باتوں کو  اپنے ذہن میں محفوظ رکھ پاتے ہیں یہ باقاعدہ فن ہے جس کی کلاسز ہوتی ہیں اور طلبہ ، خواہشمند لوگ اس کو سیکھ کر اس سے استفادہ کرتے ہیں ۔

آج میرے سامنے ایک ایسی شخصیت ہیں جو قوت حافظہ کو بہتر کرنے کی باقاعدہ کلاسز چلاتے ہیں اور پچھلے تیس سالوں سے وہ انسانی شخصیت سازی پر اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں ان کے طلبہ ملک اور بیرون ملک ہر جگہ پہ پائے جاتے ہیں اور وہ بیرون ملک سعودی عرب میں مقیم ہیں۔ شخصیت سازی اور نفسیات ان کا پسندیدہ شعبہ ہے اس کے تحت انھوں نے بےشمار لوگوں کی سوچ کی تصحیح کی ہے بےشک معاشرے میں ان کی خدمت اپنی مثبت تاثیر  رکھتی ہے  وہ علم جو کہ وہ سکھاتے ہیں ہمارے ماحول میں اس کے حوالے سے کوئی خاص آگہی نہیں ملتی لوگوں کا ذہن اس ضمن میں روایتوں کا عادی ہے اس لئے میں نے ان سے انٹرویو لینے کے لئے بطور خاص کوشش کی تاکہ اس علم سے لوگوں کو آگاہ کیا جا سکے اور ساتھ ساتھ شخصیت سازی اور دیگر پہلوؤں پر ان کے خیالات کو سیکھنے و سمجھنے کا موقع مل سکے آئیے ان سے بات کرتے ہیں اور ان کے علم و فن سے متعلق سوال کرتے ہیں۔

علیزےنجف:: سب سے پہلے ہم آپ سے آپ کا تعارف چاہتے ہیں اور یہ بھی کہ آپ کس خطے سے تعلق رکھتے ہیں اور کس شعبے میں کام کرتے ہیں؟

نعیم جاوید: میرا نام نعیم جاوید ہے۔ شہر حیدرآباد کی علمی فضاوں میں میرا بچپن گزرا۔ ایک مدت سے سعودی عرب میں مقیم ہوں اور ایک کمپنی میں  کنٹری ڈائریکٹر ہوں ۔

علیزےنجف: ؛آپ نے کس شعبے کا علم حاصل کیا ہے اور کہاں تک اس سفر کو دراز رکھا ۔ اور آپ نے فارمل تعلیم کے ساتھ انفارمل تعلیم سے کس طرح استفادہ کیا اور انفارمل تعلیم کو طلبہ کے لئے کس قدر ضروری خیال کرتے ہیں؟

نعیم جاوید: : اکتساب علم و ہنر کا اصول ہے کہ “علم “روزی کا ذریعہ اور “ہنر “عزت کا وسیلہ ہے۔میں  نے انگریزی ذریعہ تعلیم سے کامرس سے گریجویشن کیا۔ چند سال قبل اُردو سے فاصلاتی ایم۔اے کیا ۔ زندگی کے سنگین تقاضوں کے سبب سب کچھ چھوڑ کا سعودی عرب آگیا۔ ایل ۔ ایل۔ بی اور سی ۔اے کے آخری سال کے امتحان سے قبل ہجرت کرگیا۔میں نے ادھر آنے کے بعد مستقل طور پر ٹرینگ لینے اور دینے کو اپنی زندگی کا مرکزی کام سمجھا جس کی بڑی  تفصیل ہے۔ان دنوں قوتِ حافظہ کا ہنر سکھاتا ہوں۔

علیزےنجف:  آپ اس وقت سعودی عرب میں مقیم ہیں اور آپ کی پرورش و پرداخت ہندوستان کے صوبہ حیدرآباد دکن میں ہوئی ہے میرا سوال یہ ہے کہ ایک بچہ جو ہندوستان میں پیدا ہوا ہے اور دوسرا جو عرب ملک میں پیدا ہوا ہے ان کو فراہم کئے جانے والے ماحول میں آپ کس طرح کا فرق محسوس کرتے ہیں اور وہ کون سی عرب ملک کی خصوصیت ہے جو ہندوستانی  بچوں کی شخصیت کی تشکیل میں ایک اہم کردار ادا کر سکتی ہے اور کس طرح یہ ممکن ہے؟

نعیم جاوید : موجودہ عرب بنیادی طور پر ایک عظیم الشان شخصیات کی زمین ہے۔ ہم نے بازارکے  چند لوگوں کی حرکتوں کو جہان بھر میں سنا سنا کر اس ملک کو رسوا کیا ہے۔ مقامی عرب خود شکوہ کناں رہتے ہیں برے لوگوں سے۔ یہاں میرے بچوں نے عربوں سے مہمان نوازی ، کشادہ دلی، رہن سہن میں اعلی ترین نفاست ، خدا ترسی، زبان کا اعلی ترین ذوق، عربوں کا قوتِ حافظہ ، بہادری ، کاروباری خطر پسندی ، تجارتی مہمات  میں ایمان اساس  تجربات، ان کا شعری ذوق، بدن و توانائی کا کمال سلیقہ سے تحفظ کرنا۔ جذبات پر قابو  پانا ( ایک شخص اگر غصہ میں ہو تو دوسرا اگر کہہ دے کہ (صلوعلی النبی؛ نبی ﷺ پر درود بھیجو تو غصہ پل بھر میں ہوا ہوجاتا ہے)۔ ہر بات پر دعادینا، بشارت دینا۔ مختصر یہ کہوں گا کہ جو عرب معاشرے کا حصہ بنا وہ کردار کی خوش بو کو محسوس کرسکا ورنہ ہم میں اکثر لوگ بندکمروں میں جیتے ہیں اور لوٹ کے گھر جاتے ہیں۔یہی کچھ  کردار کا رنگ روپ عرب کی زمین کا تحفہ ہے۔

علیزےنجف:  آپ شخصیت ساز ادارے کے بنیاد گزار بطور ڈائریکٹر کے اپنی خدمات انجام دے رہے  ہیں میرا بنیادی سوال یہ ہے کہ  شخصیت سازی کے ادارے سے وابستہ ہوتے وقت آپ کے ذہن میں کیا کیا نکات تھے اور آپ نے اس ادارے سے وابستہ ہو کر کس طرح کی نمایاں خدمات انجام دی ہیں اس بارے میں کچھ مختصراً بتائیں؟

نعیم جاوید: جی میں اس ادارے کا بنیاد گزار ہوں۔ یہ  ادارہ ہندوستان میں رجسٹرڈ ہے جس  کا نام ہے “ھدف”   (املا عربی لکھتا ہوں )جو عربی،فارسی اور اُردو میں ایک ہی معنوں میں استعمال ہوتا ہے لیکن میں نے اس کو انگریزی  مخفف

Acronym.H.A.D.A.F (Human, Abilities, Development & Advancement, Foundation)

رکھا ہے۔یہ ادارہ ہماری زندگی کے چھے اساسی قدروں پر قائم ہے ۔میں ہمیشہ اپنے ادارے سے وابستہ  افراد کواپنی طرزفکر اور  زندگی بدلنے پر اصرار کرتا ہوں۔ ادارے کی ترقی ثانوی ہوتی ہے۔  اس کے نکات ہیں۔

1.روحانیت (بندگئ رب) 2۔ تطہیر جذبات 3۔ علم سے شقف4۔ اقتصادی مہمات  کا انتخاب و ترویج 5۔ صحت و تندرستی  پر عمل 6۔ سماجی خیر کی ترجیحات

مذکورہ نکات پر سختی سے عمل کرنے کی کوشش اس ادارے سے   وابستہ ہر شخص کرتا ہے۔

علیزےنجف:  آپ نے اب تک بےشمار لوگوں کی کردار سازی کی ہے اس سلسلے میں آپ کا محکم نظریہ اور عملی تجربہ بھی ہے میرا سوال یہ ہے کہ آپ کے نزدیک شخصیت سازی انسان کے لئے اتنی ضروری کیوں ہے اور کسی فرد کی کردار سازی نہ ہونے کی صورت میں اس کے کیا کیا منفی اثرات پیدا ہونے کے امکان ہوتے ہیں اور کسی فرد کے  اندر ایسے منفی مضمرات پیدا ہونے کے بعد اس کے سد باب کی کیا صورت ہو سکتی ہے ؟

نعیم جاوید: انسان کا کردار عملی منصوبوں  اور تربیت کے بعد ہی بنتا ہے۔ آج ہمارے معاشرے کا فساد  اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ہم نے اپنی ذات میں چھپے امکانات کو فراموش کرکے جینے کی روش اپنائی ہے۔ فرد، جماعت، ادارے اور  سماج صرف کردار سازی سے بہتر ہوسکتے ہیں۔ ہماری ادھوری شخصیات توہمات، انا، فرسودہ رسومات، حیا باختہ  زندگی کا انتخاب اسے متعفن بنا دیتی ہے۔ آدم گری آسمانی صحائف اور انبیا کی تمناوں کی توسیع ہے۔ دکھ اس بات کا ہے کہ ہم جوتوں کے دو جوڑے تو خرید لیتے ہیں لیکن کردار سازی کے ایک کورس پر بلکہ خود پر پیسہ نہیں لگاتے۔

شخصیت کا حسین توازن جس محاذ پر ہم سے چھوٹا وہاں اتنا بڑا بگاڑ لوگوں نے محسوس کیا ہےکہ  انسانی شرف سے لوگ محروم ہوگئے۔تعلیمی اداروں کی جہل فروغ حماقتیں، طلبہ کی اپنی اہداف سے گمرہی،  گھرانوں میں بڑھتی ہوئی طلاق و بد خلقی، بھائی بہنوں میں خلیج، بزرگوں کے مقام کو ٹھوکر مارتی ہوئی بدبختی، دفتروں کا فتنہ و فساد  بھی منڈیاں برباد کرتاہے، سیاسی اور مذہبی ادارے بدترین مثالیں پیش کررہے ہیں۔ انا کی وحشت، جہل کاراج، بے قابو جذبات کی ہنگامہ آرائیاں ۔ ہر انسان کا  ذہن و دل سے سکون چھن چکا ہے۔اس لیے اس کی ضرورت ہر آن بڑھ رہی ہے۔اس کے لیے  خصوصی ماہرین سے تربیت لینے کی ضرورت ہے۔ میری تمام تر کوشش ان ہی محاذوں پر کارفرماں  ہے۔

علیزےنجف: ایک انسان کو اپنی فطری صلاحیتوں کی نشوونما کے لئے کن کن ذرائع کا استعمال کرنا سود مند ثابت ہو سکتا ہے اور اردگرد کے ماحول کے منفی اثرات سے کیسے بچا جا سکتا ہے بحیثیت ایک ماہر شخصیت ساز کے آپ اس بارے میں کیا کہنا چاہیں گے؟

نعیم جاوید: تربیت یافتہ حواس، سلجھا ہوا ذہن، جذبات پر قابو پانے کا ہنر، توانا بدن، وقت کا متوازن استعمال  کرتے ہوئے اگر اپنے مقاصد کی دھن میں دنیا سے بے نیازی اور خدا سے تعلق بنائے رکھیں تو بڑے سے بڑے مہمات میں کامیابیاں ہماری منتظر رہتی ہیں۔ اس کے لیے ایک اچھا مشاہدہ، مستقل مطالعہ اور متوازن مباحثہ کا سلسلہ جاری رکھا جائے۔ان تصورات کی صورت گری کے لیے میرے پاس الگ الگ  پروگرام ہیں جو کڑی محنت اور مطالعہ سے کشید کیے گئے ہیں۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ ہمیں کہیں نہ کہیں شخصیت سازی کے ورکشاپس اور پروگرامز سب کو سننا چاہیئے۔ہمیں دنیا میں تیراک کی طرح جینا چاہیئے  جو سمندورں میں رہتا ہے لیکن آلات اور حکمت کے سبب ڈوبتا نہیں۔ کوئلے کے کان میں ہیرے تلاش کرنے والے کا مزاج اپنانا ہوگا  کہ وہ تحفظ ذات کے ساتھ پیش قدمی کرتا ہے۔

علیزےنجف: آپ پچھلے کئی   سالوں سے انسانی قوت حافظہ کو بہتر بنانے کی ٹریننگ دے رہے ہیں میرا سوال یہ ہے کہ آپ کے ذہن میں یہ خیال کب اور کیسے آیا کہ آپ کو انسانی حافظہ کو بہتر بنانے کے شعبے میں کام کرنا چاہئے اور اس شعبے سے جڑ کر آپ نے کن مسائل کی وجہ سے قوت حافظہ کی کارکردگی کو متاثر ہوتے دیکھا ہے ؟

نعیم جاوید: دنیا میں کوئی بھی ہنر باصلاحیت لوگوں کی تلاش کا حاصل ہوتا ہے جس کو تربیتی نظام کے ذریعہ عام آدمی میں کو وہ سکھائے جاتاہے۔ اتفاق سے میرا حافظہ بہت جاندار رہا۔ علم کا بہت بڑا حصہ یاد کی روشن سطح پر رہتا ہے۔ میں تیس سال سے  شخصیت سازی کے سینکڑوں موضوعات پر تربیتی ورکشاپس کررہا ہوں۔ گزشتہ تین سال سے قوتِ حافظہ کا ہنر سکھا رہا ہوں۔ مطالعہ کے دوران میں نے عالمی شہرت یافتہ میموری ماسٹرٹرینرز کو دیکھا پھر عالمی ماہرین کی کلاسس لیں۔ لاکھوں روپئے دے کر وہ ہنر سیکھا۔ تب پتہ چلا کہ میں چند چیزوں میں  اپنے حافظہ کو برتتا تھا وہ اس ہنر کا صرف ایک حصہ ہے۔ اس ہنر کے ذریعہ طلبہ ہر امتحان میں اعلی ترین نمبرات سے پاس ہوسکتے ہیں۔ ہر انٹرویو کو جیت سکتے ہیں۔ چاہے وہ ڈاکٹری یا سول سروس کا امتحان ہو۔ ہر شخص عالمی ریکارڈ بنا سکتا ہے۔ رٹنے کی  رکاوٹ کو روانی سے جوڑ کراسی تجربہ کے نتیجہ میں میرے کئی شاگرد ڈاکٹری اور دیگر اعلی ترین علم حاصل کرنے میں کامیاب ہورہے ہیں۔اگر یہ ہنر نہ سیکھیں تو بہت محنت لگتی ہے ۔یہ ہنر تو ایک جادوئی ہنر ہے۔

علیزےنجف: اپنے اب تک کے تجربات کے مطابق آپ کے خیال مین کن وجوہات کی وجہ سے لوگ   اس کا بھرپور استعمال نہیں کر پاتے اور  آپ انسانی قوت حافظہ کو بہتر بنانے کے لئے کس طرح کی تکنیک کا استعمال کرتے ہیں کیا اس حوالے سے اپنا کوئی پروسیس ہمارے قارئین سے شیئر کرنا چاہیں گے اور اس کی تکنیک کی کامیابی کتنے فیصد یقینی ہوتی ہے ؟

نعیم جاوید: لوگ نئے علمی انکشافات پر جلد توجہہ نہیں دیتے  ۔ روایتی مسلمانوں کا غیر تخلیقی مزاج اس راستہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ جدید تعلیمی اداروں کا پرانا رٹانے کا انداز ہے۔ بچوں کے ذہن و شخصیت پر رٹنے کا بوجھ ڈال دیتے ہیں۔ لوگ نئے ہنر کو سیکھنے کے امکانات کو نہیں برتتے ۔ میں سیکھتا ہوں اور سکھاتا بھی ہوں کہیں بھی مجھے مسلمان نظر نہیں آتے۔ نئے علوم پر جس طرح شک کیا جاتا ہے اس طرح اس بہت پرانے علم پر بھی اعتبار نہیں کرتے۔ جب کہ اس طریقہ سے 300 فیصد یاداشت بڑھتی ہے۔ میں اس کی ضمانت دے سکتا ہوں۔  میں مستقل اصرار کررہا ہوں کہ ایک بار اس تربیت کا حصہ بن کر اپنے حافظہ کو 300 گنا بڑھتا ہوا دیکھیں۔ میں 40 میموری بینک اکاونٹس کو برتنے کا ہنر بتاتا ہوں۔ جن میں سے چند: قصر ذہن، مخفف سازی، خریطہء ذہن، عدد  ی آوازیں ، اسپیڈ ریڈنگ، تجرید کی تجسیم وغیرہ۔

علیزےنجف:  ڈیمنشیا اور الزائمر کے مریضوں کو نسیان کی اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس سے ان کی پوری لائف فنکنشننگ ڈسٹرب ہو کے رہ جاتی ہے کیا آپ کی قوت حافظہ کو بہتر بنانے والی تکنیک سے ان کو کوئی فائدہ پہنچنے کا امکان ہے یا جو لوگ ابھی ابتدائی اسٹیج پہ ہوں ان کو کوئی افاقہ ہونے کی امید ہے؟

نعیم جاوید: میں ان امراض کو ٹالنے  اور بچے رہنے کا ہنر سکھا سکتا ہوں۔ اس مرض کی کئی اسباب ہیں۔جس کا مکمل علاج ابھی جدید سائنس کے پاس بھی نہیں لیکن  میں بہت سہولت سے ان کو ان امراض کی کھائی میں گرنے سے بچنے کا سلیقہ سکھا سکتا ہوں ۔ ہم بنیادی طور پر اپنے ذہن کو استعمال ہی نہیں کرتے جس کی وجہ سے ہمیں بھولنے اور نسیان کا مرض لاحق ہوتا ہے۔ میں انسانی دماغ کو فعال کرنے کا ہنر سکھا سکتا ہوں۔

  علیزےنجف: شعبہء تدریس سے بھی آپ  بالواسطہ وابستہ ہیں اور اس ضمن میں آپ کا تجربہ بھی کافی وسیع ہے میرا سوال یہ ہے کہ کیا وجہ ہے کہ اب اسکولوں میں بچوں کے رویوں پر کوئی کام نہیں کیا جاتا ان پر صرف لاتعداد معلومات کو یاد کرنے کا بوجھ ڈال دیا جاتا ہے نتیجتاً ان کی نفسیات بری طرح متاثر ہوتی ہے اور وہ شاید اچھے گریڈ تو لے آتے ہیں لیکن عملی زندگی میں ان کی کارکردگی انتہائی ناقص ہوتی ہے آپ اس بارے میں کیا کہنا چاہیں گے اور اس کو بہتر بنانے کے لئے کیا آپ پاس کوئی لائحہ عمل ہے؟

نعیم جاوید: تعلیمی نصاب کا بار ایک میکانیکی طرز سے سکھایا جاتا ہے۔ اس کی بار کے تلے قدریں دب جاتی ہیں۔ تخلیقی سوتے سوکھ جاتے ہیں۔ آبادی کے تناسب سے معیار ی اسکول اور طلبہ ایک بھیڑ میں جیتے ہیں۔ ریوڑ میں ہنر اور انفرادیت کی موت ہوتی ہے۔علم و عمل کے توازن کو نصاب تعلیم بنائے رکھنے میں ادارے ، گھرانے اور سماج ناکام ہیں۔ اس لیے بچوں کو رٹنے اور علم کے خشک بار کو قوتِ حافظہ کےفن سے کم کیا جائے اور وہی وقت و توانائی انھیں تخلیقی اقدار، اخلاقی رویوں پر ان کے ذہن کو لگایا جائے تو علم کردار کے سانچے میں ڈھل سکتا ہے۔اسکول و کالج والے بھی شخصیت سازی کے عملی ورکشاپس کہاں کرتے ہیں؟۔ جب کہ اس سے یقینی تبدیلیاں آتی ہیں۔ میں پاس “ڈائنمک لیونگ ” کے عنوان سے ایک مکمل نصاب ِ زندگی ہے۔

علیزےنجف:  آپ کو اقبالیات سے کافی دلچسپی ہے جس پر آپ نے بےشمار مواد بھی پڑھا ہے میرا سوال یہ ہے کہ آپ اقبال کے کس نظریے سے سب سے زیادہ متاثر رہے ہیں اور آپ نے اپنے تک کے مطالعے سے جو کچھ اقبال کے بارے میں سمجھا ہے اس حوالے سے ہمارے قارئین کو مختصراً کچھ بتائیں؟

نعیم جاوید: اقبال ہمیں امکانات کی دنیا سے وابستہ کردیتا ہے۔ علم و عمل کی پیاس بڑھا دیتا ہے۔ ہر طرح کی ذہنی غلامی  سے آزاد کردیتا ہے۔ اپنے پروردگارسے پل بھر میں جوڑ دیتا ہے۔ عالمی شہری بنادیتا ہے۔ 3000 سے زیادہ شخصیات کے حوالے اقبالیات کے مطالعہ میں آنے کے سبب وہ عالمی دانش گاہوں کا تعارف کروادیتا ہے۔ اس کی متاعِ شعر و نثر میں قرآن اور عالمی صحائف کا ایک متوازن اور خوبصورت نصابِ فکر ہمیں ملتا ہے۔ اقبال اس زمین پر آسمانی صحائف کے بعد آخری سہارا ہے۔ہماری ہر طرح سے ذلت اس کے پیغام سے دورہوسکتی ہے۔

علیزےنجف: آپ نے ریڈیو پر اناؤنسینگ بھی کی ہے  اور متعدد ملکی اور بین الاقوامی مشاعروں کی نظامت بھی کی ہے میرا سوال یہ ہے کہ  ایک بہترین اناؤنسر اور ناظم مشاعرہ بننے کے لئے کسی انسان کو اپنی کن خاص صلاحیتوں کو پالش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور اس میں مہارت حاصل کرنے کے لئے کس طرح کی خاص کوششیں درکار ہوتی ہیں؟

نعیم جاوید:: میں تخلیقی اظہار کو زندگی کا مرکزی ہنر مانتا ہوں۔کمال ہنر مندی سے سادہ سی بات کو اس بانکپن سے کہنا کہ سننے والے پر سحرطاری ہوجائے۔ اس میں آواز کا زیرو بم،بامعنی وقفہ،متوازن رفتار،متن کے مزاج کو موزوں ادائیگی،تحیر، مسرت جیسے دیگر جذبات کاصوتی اظہار، مصنوعی  صوتی ہنگامے سے بچ بچ کر ایک انفرادیت کی تلاش  سے ہم اپنے اظہار میں جان ڈال دیتے ہیں ۔ ہر دن اپنے سابقہ اظہارکے روپ رنگ میں نکھار اور بانکپن پیدا کرتے رہنا ۔ اس میں سحرپیداکرنا۔ مطالعہ کشید کرکے دانش افروز و حیات بخش بناہے بنیادی تیاری ہے۔ اسی  ہنر سے ہم جگ جیت سکتے ہیں۔ زندگی کے سفر میں کہیں ۔انٹرویو ، کہیں نزاعات کا حل، کہیں ریڈیو کی نشریات، کہیں نثرو شعر کا نگارخانہ ، کہیں مشاعرے کی نظامت ، کہیں اقبال کی فکر کی تفہیم  اور کہیں قوتِ حافظ کے فن کی تشریح۔ ہر جگہ زبان و بیان کی بنیادی مہارت کام آتی ہے ۔ اس راہ پر میرا سفر ابھی جاری ہے۔

علیزےنجف:  آپ ایک قلم کار بھی ہیں آپ نے بےشمار کالمز اور ٹی وی اور ریڈیو کے لئے ڈرامے بھی لکھے ہیں میرا سوال یہ ہے کہ ایک بہترین قلم کار بننے کے لئے ہمیں ابتدائی طور پر کن پہلوؤں پر کام کرنا چاہئے اور لکھنے کے لئے آپ مطالعہ کو کس قدر ضروری خیال کرتے ہیں آپ نے اپنی لکھنے کی صلاحیت کو کس طرح پالش کیا ہے؟

نعیم جاوید: تحریر دھنک رنگ ہوتی ہے۔اس میں حسنِ فطرت سے سارے رنگ سماجاتے ہیں۔ دردمندی، کرب ِ آگہی کے ساتھ علمِ بیان کی صنعتیں، مشاہدات کی متاع، معروضی مطالعہ کا مزاج، معیاری طرزنگارش اور دیہی دانش  (فوک وزڈم )۔ ان بنیادوں  کو اگر اساتذا کی کوشش سے کتابوں سے جوڑ دیا جائے تو  اللہ تعالی ہماری ایک نہ ایک دن  تحریر کو شہکار بنا دیتا ہے۔ پڑھنے سننے والوں کے دل میں  اگر سماجی خیر کی تمنا جاگ اٹھی تو سمجھیں تحریر کی مزدوری مل گئی۔ یہی وہ نشانات راہ ہیں جس کو یاد کی روشن سطح پر رکھ کر تحریروں سے جوڑا جائے تو قلم اور کردار دنوں سے چھن چھن کر نور بکھرے گا۔

علیزےنجف:  آپ کتب بینی سے کافی شغف رکھتے ہیں اور آپ نے اب تک بےشمار کتابیں پڑھی ہیں میرا بنیادی سوال یہ ہے کہ کسی کتاب کو پڑھتے وقت کس طرح اس کے اہم بنیادی نکات کو اپنے ذہن میں محفوظ کرتے ہیں اور کس طرح کی کتابیں آپ کی ہمیشہ اولین ترجیح میں شامل رہی ہیں ؟

نعیم جاوید: کتاب یاد جب رہتی ہے جب کتاب کے منظروں کا آپ حصہ بنیں۔ حسن ِ تصور سے ادیب کی تراشی ہوئی دنیا میں شامل ہوجائیں۔ بنیادی طورپر میں “ضرورت” کا شعور جگائے رکھنا چاہتا ہوں۔ میری روحانی، مادی، بدنی اور تمدنی اور شخصی ضروریات کیا کیا ہیں۔ مطالعہ میری کونسی مرکزی ضرورت کو پورا کرتا ہے۔ میرے کونسی وحشتوں کو مہذب، کونسی تمناوں کی توسیع اور کن مقامات کی سیر کرواتا ہے۔ کیوں کہ ہمارے جذبات کی دنیا، حکمت ِ عملی کا ڈھنگ، رابطوں کی بنیاد، انکسار و استکبار کا اسلوب اور اظہارِمدعا اور احکام صادر کرنے کا سارا اختیا ر سب کا سب ہماری بنیادی “ضروریات کے تابع ہیں ”  ۔ میں اسی کے تحت ورقی کتاب یا کتاب ِ زندگی پڑھتا اور نتیجہ اخذ کرتا ہوں۔

علیزےنجف:  ہر کتاب پڑھنے والا جب کتابیں پڑھتا ہے تو اس سلسلے کے دوران کچھ کتابیں ایسی ہوتی ہیں جو اس کی پسندیدہ کتاب بن جاتی ہے جس کو کہ بار بار پڑھنے کے باوجود بھی اس سے سیر نہیں ہو پاتا آپ کی ایسی پسندیدہ کونسی پانچ کتابیں ہیں جنہیں بار بار پڑھ کے بھی آپ تشنگی محسوس کرتے ہیں ؟

نعیم جاوید: مطالعہ کی وسعت کبھی اولاد معنوی کی طرح ہوجاتی ہے۔ جس میں ایک کو پسند اوردوسرے کو رد کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ پھر بھی ان شخصیات کی ساری کتابیں ؛اقبال، مشتاق احمد، مولاناآزاد، ڈاکٹر محمد حمیداللہ، پروفیسر مظہر یٰسین صدیقی  ، شمس الرحمن فاروقی اور ڈاکٹر عبدالمغنی   شامل ہیں۔

علیزےنجف: آپ نے سیرت النبی صلعم کا کافی گہرائی و گیرائی سے مطالعہ کیا ہے آپ نے عام روایتی طریقے سے ہٹ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کو مختلف پس منظر کی روشنی میں سمجھا ہے میں چاہتی ہوں کہ آپ اس پر تھوڑا سا روشنی ڈالیں کہ آپ کا طرز مطالعہ کیا ہے اور ہم اس طرز سے کیسے استفادہ کر سکتے ہیں؟

نعیم جاوید : میں نقوش کی سیرت النبیﷺ کی تمام جلدیں، ڈاکٹر محمد حمید اللہ کو بہت پڑھتا ہوں۔ اس کے علاوہ سیر ت پر موجود تمام ضخیم جلدوں کا مطالعہ کرتا ہوں۔ کتابچوں سے عالمی گتھیاں نہیں سلجھتیں۔ میں سیرت کے طالب علم کو بہ اصرار کہتا ہوں کہ عربی قبائل ، انساب، عرب کا جغرافیہ مرکزی طور پر مطالعہ کے اہم رخ کے طور پررکھیں۔ قبائل کے ربط وتعلق سے ہم الگ الگ جگہ کے لوگوں کے مزاج کو سمجھ سکتے ہیں۔ آج ہندوستان میں قبائل کی سیاست ہے (یادو، ریڈی ، راو، کما، اور دیگر ذاتیں )، ہم اس کو سمجھنے  میں ناکام ہیں۔ لفظی گورکھ دھندہ میں حکمت ہم سے فراموش ہوگئی۔جغرافیہ سے جڑے نبی رحمتﷺ کے ماہدے، میثاق، لین دین ، مذاکرات کو سمجھے بغیر نہ غزوہ نہ سریہ اور نہ کوئی مہم کا سرا ہاتھ لگے گا۔ بڑے بڑے سیر ت نگار بھی جانے کیوں ان نکات کو حاشیہ میں رکھتے ہیں۔ اور تعبیر کی پیچیدہ دلیلوں میں الجھ جاتے ہیں۔مثلاً جنگ “احزاب “یعنی قبائل کے اتحاد و معاہدات کی برپاکردہ جنگ ہے۔ ہم نے اس کو ایک حربہ یعنی خندق پر محدود کرکے اس کی دانش کو کھڈے میں ڈال دیا۔ قرآن کے اولین پڑھنے والوں نے اس کا نام  “احزاب “رکھا تو اس سے جڑے قبائل کی سیاسی حکمت  کو سمجھا۔ اسی طرح ہم قبائل، جغرافیہ ، انساب سمجھے بغیر  حکمت پاناچاہتے ہیں جو ممکن  نہیں۔

علیزےنجف:  آپ صنف شاعری سے بھی رغبت رکھتے ہیں  اور لکھتے بھی ہیں آپ شاعری کے کینوس کو کتنا وسیع خیال کرتے ہیں اور کن شعراء کے کلام کی تاثیر کو اپنے کلام میں سمونا چاہتے ہیں؟

نعیم جاوید: شعر تاثر کا ثور پھونکتا ہے۔ اختصار سے جادو جگاتا ہے۔ آہنگ کے زمزمے قریہ جاں کے آخری پڑاو جہاں روح کا مسکن ہیں وہاں تک شعر دستک دیتا ہے۔ اس لیے میں شاعری  کو ایک بہت بلند مقام دیتا ہوں۔ شعرا کا اکرام کرتا ہوں۔ لیکں میں یہ ضرورچاہوں گا کہ کسی بھی اہم شاعر کے کلام کی تاثیر کے بوجھ تلے شعری نگارش کرنے کے بجائے اس کی توسیع میں شعر گوئی ہو۔ کچھ تو کامیابی ملے گی یا ناکامی ہوگی۔ لیکن ان کی تاثیر جو دبے پاوں نقالی، بلانقد تتبع بلکہ شعری چربہ ہوجاتا ہے  اس تہمت سے سب کو بچنا چاہیئے۔ ویسے یہ کام بڑی جفا کشی ،  انفرادیت اور خلاق ذہن مانگتا ہے۔ ہزار ٹھوکریں لگتی ہیں اور فن پارہ ریزہ ریزہ ہوجاتا ہے۔ اس لیے میں چاہوں گا کہ  ہم سب کو پڑھیں لیکن لکھیں اپنے تجربات کو۔

علیزےنجف:  ایک قلم کار و قاری ہونے کے ناطے آپ کا اردو ادب سے ایک گہرارشتہ ہے میرا سوال یہ ہے کہ آپ اردو ادب کا مستقبل کیسا دیکھتے ہیں اور اس کو بہتر ہوتا دیکھنے کے لئے کس طرح کے لائحہء عمل پر عملدرآمد کو ضروری قرار دیتے ہیں؟

نعیم جاوید:میں اُردو کا مستقبل بہت روشن دیکھتا ہوں۔ میں اُردو  ڈاکٹر نہیں بلکہ شفاآسا درد مندی رکھنے والا تیماردار ہوں۔ میں اُمید کیسے ہاروں۔ میں ہرسمت اردو کی ترقی کے امکانات دیکھتا ہوں۔ آڈیو بکس کی کمی محسوس کرتا ہوں۔ تفریح کا میدان تو بہت کشادہ ہے۔ فلم، ڈرامہ، نکڑ ناٹک، بیلے، مائم ، پانٹو مائم، ٹایبلو، مونولاگ۔ انٹرنیٹ سے جڑے ہر کام، عکس و آواز سے جڑا ہر ہنر ہماری مہارت اور زبان طلب کرتا ہے۔ تمثیلی  مشاعرے، مزاحیہ ڈرامہ، موضوعاتی قوالی کے معیاری مقابلے، تقریر، تحریر، برجستہ تقاریر، مباحثے   کے علاہ ہر فن پر کتابیں ، ہر ہنر پر تقاریر اور ورکشاپس (گارگاہ)۔انسانی زندگی کے ہر محاذ کو مطلوب زبان کو برتا جائے۔ اُردو تحریر کا فن سیکھنے کے مراکز کی ضرورت ہے۔ ہر محاذ عمل مانگتا ہے۔

علیزےنجف:  آپ نے اب تک بہت کچھ لکھا ہے کیا آپ اپنی تحریروں کو مرتب کر چکے ہیں یا کرنے کا ارادہ   رکھتے ہیں اور وہ کن موضوعات پہ ہوں گی قوت حافظہ کو بہتر بنانے کے لئے دور دراز کے ان لوگوں کے لئے  جو چاہ کے آپ کی کلاسز اٹینڈ نہیں کر سکتے ان کے لئے آپ کون سی کتاب تجویز کرنا چاہیں گے؟

نعیم جاوید : میں بہت جلد “قوتِ حافظہ کے ہنر” پر ایک کتاب شائع کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ پبلشرکی تلاش میں ہوں۔میں زوم پر عالمی سطح پر مستقل ہفتہ وار کلاس لیتا ہوں۔ میں لوگوں کی تعلیمی مہمات میں ہرطرح سے معاون و فعال ہوں۔ اس موضوع پر انگریزی میں بہت ساری اچھی کتابیں ہیں۔ ان میں چند حسبِ ذیل ہیں۔ لیکن میں یہ سفارش کروں گا کہ اس کو کسی میموری ٹرینر سے سیکھا جائے تو عملی ترکیب سیکھنے میں مددملے گی کیوں کہ یہ علم نہیں ہنر ہے۔ جیسے تیراکی یا کار چلانا ۔ اس میں ٹرینر کا بہت دخل ہوتا ہے۔

Moonwalking with Einstein by Mr. Joshua Foer,

Mr. Ron White. The Mind Palace

Mr. Ed Cooke. Remember, Remember

علیزےنجف:  ہمارے یہاں والدین بچوں کی کتاب سے دوری اور حافظے کی کمزوری سے کافی پریشان نظر آتے ہیں بعض وقت تو بچے توجہ دینا نہیں چاہتے اور کبھی ADHD کی وجہ سے لاشعوری طور پر ایسا کر رہے ہوتے ہیں ان میں سے ایک وجہ ضعف حافظہ بھی ہے میں چاہتی ہوں آپ کچھ ایسی بنیادی تکنیک بتا دیں جو والدین سیکھ کر اپنے بچوں کی اس مشکل کو کچھ آسان کر سکیں اور انھیں پڑھائی کی طرف مائل رکھ سکیں؟

نعیم جاوید:  بچوں کو قوتِ حافظ اور فوکس (ارتکاز خیال ) کی تربیت کی ضرورت ہے۔ انھیں ان کی چھپی ہوئی صلاحیتیوں  کی شناخت کروائی جائے۔ جو عکس و آواز سے رویوں اوررجحانات میں خلل آیا ہے اس کا علاج بھی اس ذریعہ میں کئی ایسے کھیل  اور میموری کے کھیل اور توجہ سے بڑھنے کے کھیل ہیں جس سے بچہ کھیلتے کھیلتے سیکھ لیتا ہے۔ بچوں کو موبائل سے ہرگز دور نہ کریں۔ بلکہ موبائل کو ان کی ضرورتوں سے آباد کردیں اور کچھ پہرے بٹھادیں۔ اب ایسی ہزاروں اپلکیشن آچکے ہیں۔ قرآن کی ایک چھوٹی سے سورۃ بھی یاد دلانی ہوتو موبائل دے دیں جو ایک سورۃ کی ہر آیت کو دس بار دہرا کر مدد کرتا ہے۔ ایسے ہزار طریقے ہیں جس  سے بچے کی حافظہ کو معاون سہاروں سے جوڑا جاسکتا ہے۔ ہماری کتابیں جدید ذہن کی ضرورت کو پورا نہیں کرتیں کیوں کہ حافظ جن اشاروں کو سمجھتا ہے۔ وہ  ہے، رنگ، مبالغہ، سائز، آہنگ و حرکت، ربط و کشش، روشنی، ترتیب، آواز، مزاح، مثبت خیال کی تمثیل، حواس کی شمولیت اور اعداد کو آوازمیں بدلنا  ، کہانی کو اسباق کے متن میں ڈھالنا، تجریدی نقشوں کو مشابہت سے اپنانا اور ایسے کئی سہولت بخش طریقوں سے ہنستے ہنستے بچہ سب کچھ یاد کرلیتا ہے۔

علیزےنجف:  آپ نے اب تک زندگی ماشاءاللہ بےشمار بہاریں دیکھی ہیں مختلف قسم کی صورتحال سے بھی گذرے ہیں  اس سفر کے دوران آپ نے زندگی کو کیسا پایا اور ایک بامقصد زندگی گذارنے کے لئے آپ کن بنیادی اصولوں کی پیروی کو ضروری خیال کرتے ہیں؟

نعیم جاوید: ہمیں اپنی زندگی سے بڑا جاگتی آنکھوں کا خواب  دیکھتے رہنا چاہیئے۔ سیرت النبیﷺ نے جوانسانی زندگی کی تمام گتھیاں سلجھائی ہیں اس کو برتتے رہنا چاہتا ہوں۔ مقصد زندگی کا اگر واضح خاکہ نہ ملے تو کوئی بھی مہم سے خود کو وابستہ کردینا چاہیئے جو رب رنگ رہے۔ جو سماجی خیر کی آرزو میں ذہن میں آئے۔ غیرت وخود دارانسان کو فعال کرتی ہے۔ اسے اپنایا۔ ہمت مہمات کے لیے تیارکرتی ہے۔ ذہنی کشادگی شخصیت میں لچک پیدا کرتی ہے۔ ہر ناکامی ایک نیا سبق، نئ مہارت، نیا شعور دے جاتی ہے۔اُردو والے ایک ہی چشمہ صافی سے یہ آب حیات پی سکتے ہیں وہ ہے علامہ اقبال کا شعری سرمایہ۔میں نے اس نور کے سایہ میں جینا سیکھا۔

علیزےنجف :  کیا کوئی ایسا بھی سوال ہے جس کی آپ توقع کررہے ہوں اور میں پوچھ نہ سکی ہوں آپ اس کے تحت اپنا وہ خیال قارئین کے سامنے پیش کر سکتے ہیں؟

نعیم جاوید: میں ایک سوال اور اس کے جواب سے ہر دم بے چین رہتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ ہم لوگ ٹھنڈے دل سے “خوشی اور غم “کے  بارے میں سوچیں۔ ہم کن سرگرمیوں کو خوشی اور غم سمجھتے ہیں۔ہم ان پر اپنی دولت، وقت،  لٹاتے ہیں۔ ہجرت کرتے ہیں۔  اس پر انسانوں کا سب کچھ لٹ جاتا ہے جس کے نتیجہ میں زبان ، ادب اور تہذیبی سرمایہ کو بچانے کے لیے کچھ نہیں بچتا۔ سماجی  ہنگاموں کو مسرت گردان  کر ہم زندگی رہن رکھ کر جیتے ہیں۔ مقروض جیتے ہیں۔ غم کو ترتیب دے کر جشن گریہ کا اہتمام کرکے ہلکان ہوتےرہتے  ہیں۔ اس  پر اپنا سب کچھ لٹا دیتے ہیں۔ میری دانست میں حقیقی “غم و خوشی ” کا نصاب واضح ہوجائے تو ہمیں یہ دنیا جیتنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔پھر غم اور خوشی دائمی اقدارسے جڑ کے ہمیں لغویات سے بچالے گی۔

علیزےنجف:  آپ کی اب تک زندگی کا حاصل کیا ہے اور مستقبل کے تئیں آپ کے کیا اہداف ہیں آپ کی زندگی میں خواب کو کیا اہمیت حاصل ہے کیا آپ کی جاگتی آنکھوں میں کچھ ایسے خواب بھی جس کی تعبیر کی تلاش آپ کو اب تک سرگرداں رکھے ہوئے ہے ؟

نعیم جاوید  میں یہ چاہتا ہوں کہ میرے خواب اداراتی صورت میں ڈھل جائیں ۔ میرا ایک بہت بڑا ادارہ بنانے کا ارادہ ہے۔ میں وہاں پر نئی نسل کی شاندار نصاب کے ساتھ تربیت کرسکتا ہوں۔ میرے پاس تعلیمی انقلاب کا بہت روشن  خاکہ ہے۔ میں فن لینڈ کی نظام ، برطانیہ کے تعلیم نہج اور دینی تعلیمی مہمات سے واقف ہوں۔ میں  وسائل رکھنے والی شخصیات تک رسائی حاصل نہیں کرسکا۔ ادیبوں ، شاعروں اور ٹیچروں کی محدود دنیا نے مجھے تجارتی مہمات پر کام کرنے والوں سے دور رکھا۔ میں اپنی محدود مالی ذمہ داریوں کو   پورا کرنے کے لیے سعودی عرب میں خرچ ہوگیا۔ میں ایک ایسا فلمی ہیرو ہوں جو اسٹڈیوز کے چکر لگا رہا ہوں کوئی ہیرو کاکردار نہیں دیتا۔ میں ایک ایسا کھلاڑی ہوں جو مشقت و محنت سے اپنے بدن کو تیار رکھتا ہے۔ لیکن اس کو کھیلنے کا موقعہ نہیں ملتا۔جزوی کام ملا۔ لیکن ادارہ سازی جو مالی تقاضوں پر منحصر ہے اس کی راہیں ابھی تک نہیں روشن ہوئیں۔ اس کی مرکزی وجہ میرا ہندوستان سے دور رہنا اور امکانات کے شہروں سے دوری۔میں یقین رکھتا ہوں کہ کوئی نہ کوئی بڑا کام میں ضرور کروں گا۔

***

This Post Has One Comment

Leave a Reply