You are currently viewing ڈاکٹر اسد عباس عابد کی کتاب’نیر مسعود نئی جہات کا صورت گر‘:ایک جائزہ

ڈاکٹر اسد عباس عابد کی کتاب’نیر مسعود نئی جہات کا صورت گر‘:ایک جائزہ

محمد عامر سہیل

ڈاکٹر اسد عباس عابد کی کتاب’نیر مسعود نئی جہات کا صورت گر‘:ایک جائزہ

معاصر ادبی منظر نامے پر نیر مسعود کی شناخت بطور جدید افسانہ نگار مسلم ہے۔ ان کی افسانہ نگاری پر جید ناقدین قلم اٹھا چکے ہیں۔ ان کے افسانے کا فنی اظہار غیر معمولی اسلوب رکھتا ہے۔ جسے روایتی انداز میں سمجھنا عام قاری کےلیے آسان نہیں ہے۔ ان کے افسانوں پر کسی تحریک کے اثرات نمایاں ہیں نہ وہ موضوع کو سوچ سمجھ کر پیش کرتے ہیں۔ تاہم ان پر موضوعاتی طور  پر جدیدیت جبکہ فنی طور پر مابعد جدید افسانوی رنگ ضرور نظر آتا ہے۔ یوں بنے بنائے سانچوں میں ان کے افسانوں کو سمجھنا دشوار ہے۔ ناقدین نیر مسعود کے افسانوں کا فنی و فکری امتیاز خود ان کے متن کو سامنے رکھ کر پیش کرتے رہے ہیں۔ اپنے منفرد اسلوب بیان کے ضمن وہ جدید افسانہ نگاروں میں ممتاز ہیں۔ ان کی اس شناخت نے ان کی دیگر ادبی، تخلیقی اور تحقیقی خدمات کو پس پردہ ڈال دیا۔ اس احساس کے  پیش نظر ڈاکٹر اسد عباس عابد نے نیر مسعود پر مبسوط تحقیقی مقالہ لکھ کر ان کی سوانح،  افسانوی امتیازات، محققانہ کاوشوں، ناقدانہ صلاحتیوں، تخلیقی جہات اور دیگر ادبی  خدمات کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ لے کر ایک معرکہ سر کیا ہے۔ ڈاکٹر اسد کی کتاب ” نیر مسعود نئی جہات کا صورت گر” دراصل ان کے پی ایچ ڈی مقالے کا کتابی روپے ہے۔ جس کی اشاعت میٹرلنکس لکھنؤ سے 2024ء میں ہوئی۔

          ڈاکٹر اسد عباس نے نیر مسعود ایسے کلاسیکی اردو ادب کے محقق، مدون اور نقاد کی جملہ ادبی خدمات کو بدقت نظر دیکھا ہے۔ علمی خانوادہ اور لکھنؤ کی سرزمین سے تعلق رکھنے والے کلاسیک مزاج کے حامل اس محقق و نقاد نے کلاسیکی اصناف ادب، کلاسیکی شعرا اور مشرقی شعریات سے لے کر جدید اصناف اور معاصر علمی و ادبی شخصیات تک اس قدر جم کر لکھا، جس کو سمیٹنا اتنا آسان نہیں تھا۔ ڈاکٹر اسد عباس کے اس تحقیقی کام سے نہ صرف ممدوح کی شناخت افسانہ نگار کے ساتھ محققانہ قائم ہوئی ہے بلکہ ڈاکٹر اسد عباس کی تحقیقی صلاحیت بھی ابھر کر سامنے آئی ہے۔

            نیر مسعود علمی و ادبی سفر کم و بیش پچاس سال پر محیط رہا ہے۔ اس عرصے میں ان کے تحقیقی و تنقیدی مضامین، کتب، تبصرے، خاکے، سفر نامے، ادب اطفال، مکاتیب، ڈرامے، تراجم، تدوینی کام، اور افسانوی مجموعے شائع ہوئے۔ ان کے مضامین ہند و پاک کے مختلف مؤقر رسائل و جرائد میں شائع ہوتے رہے۔ جس کا ریکارڈ خود ان کے پاس ایک جگہ محفوظ نہ تھا۔ سنجیدہ  اسکالر کی حیثیت سے ڈاکٹر اسد عباس نے مختلف رسائل، لائبریریوں،  نیر مسعود کے تعلق داروں، اشاعتی مراکز اور ہندوستان کے چند احباب کے تعاون سے نیر مسعود کے مضامین اور کتب پر مشتمل بہت سارا مواد جمع کیا۔ تحقیق میں مواد کی جمع آوری اول مرحلہ ہے۔ تاہم ایک اسکالر کے سامنے اگلا قدم اس کی ترتیب و تجزیہ کا ہوتا ہے، جس کےلیے اس کے تنقیدی و تجزیاتی شعور کا قوی ہونا ناگزیر ہوتا ہے۔ فاضل اسکالر نے نہ صرف مواد جمع کیا بلکہ اس کا محاکمہ کر کے مقالے کے آخر میں نیر مسعود کا معاصر افسانوی و تحقیقی منظر نامے پر مقام بھی متعین کیا ہے۔ قدم قدم انھوں نے گہرے مطالعے اور تجزیاتی انداز میں نیر مسعود کی تحریروں کا نہایت سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لیا ہے۔

یہ کتاب چھ ابواب میں تقسیم ہے:

باب اول: نیر مسعود سوانح، شخصیت، نگارشات

باب دوم: نیر مسعود بطور افسانہ نگار

باب سوم: نیر مسعود بطور محقق و نقاد

باب چہارم: نیر مسعود تخلیقی نثر

باب پنجم: متفرقات

باب ششم: حاصل مطالعہ

ڈاکٹر اسد عباس کا اسلوب تحقیقی، تنقیدی، تجزیاتی اور معروضیت پسند رہتا ہے۔ ساتھ وہ نیر مسعود کے اپنے بیانات اور دیگر ناقدین کی آرا کو بھی شامل کرتے جاتے ہیں۔ جس سے ان کے تحقیقی و تنقیدی نتائج میں حقیقت پسندی نظر آتی ہے۔ اس حقیقت پسندی کا ان کے مقالے کو وقیع بنانے میں بنیادی کردار ہے۔ تحقیق جس معروضیت کی متقاضی ہوتی ہے،وہ اس مقالے میں نظر آتی ہے۔

    باب اول میں نیر مسعود کے نام، سال پیدائش اور جائے پیدائش کے بارے میں مختلف داخلی و خارجی شواہد کی بنیاد پر پائے جانے والے تضادات کو مد نظر رکھ کر تحقیقی نتائج تک پہنچنے کی سعی کی گئی ہے۔ خاندانی پس منظر، گھر کا علمی ماحول، والدین، تعلیمی سفر، شادی، اولاد، ملازمت، کتب، مضامین، شخصیت، مزاج، عقیدہ، علالت کے آخری ایام، وفات اور آخر پر زندگی نامہ قلم بند کیا ہے۔ انھوں نے نیر مسعود کی تخلیقات کی فہرست ترتیب دی ہے۔ پانچ افسانے مجموعوں میں کل اکتالیس افسانے شامل ہیں۔ ان مجموعوں کی تفصیل درج ذیل ہے۔

1۔  سیمیا۔ پانچ افسانے۔ 1984ء

2۔عطر کافور۔ سات افسانے۔ 1990ء

3۔طاؤس چمن کی مینا۔ دس افسانے۔ 1997ء

4۔گنجفہ۔ گیارہ افسانے۔ 2008ء

5۔دھول بن۔ آٹھ افسانے۔ 2018ء

علاؤہ ازیں 2015 میں سنگ میل لاہور سے “مجموعہ نیر مسعود” شائع ہوا جس میں گنجفہ اور دھول بن کے علاؤہ تین افسانوی مجموعے مع کافکا کے افسانوں کے تراجم شامل ہیں۔ اسی سال ڈاکٹر آصف فرخی نے “انتخاب:نیر مسعود” آکسفرڈ یونی ورسٹی سے شائع کیا۔  کل اکتالیس افسانے ہندو پاک کے مختلف رسائل میں شائع ہوئے، ہر افسانے کی رسالے میں شائع ہونے کی زمانی تفصیل بھی فاضل اسکالر نے مرتب کی ہے۔ تصنیفات و تخلیقات میں تحقیق و تنقید میں نو کتب، خاکوں پر مشتمل ایک کتاب ‘ادبستان’ (2006ء)، تراجم میں تین کتب، ادب اطفال کے باب میں دو کتب، ایک مرتبہ کتاب بہ عنوان ‘بچوں سے باتیں’ مصنف مسعود حسن رضوی ادیب۔ سفر نامے میں ‘خنک شہر ایران’، چودہ مرتبہ کتب اور ہندو پاک کے مختلف رسائل میں نیر مسعود کے ایک سو بہتر (172) شائع مضامین کی فہرست جاری کی ہے۔ ان میں تحقیق، تنقید، سوانح نگاری، خاکے، تبصرے اور دیگر کثیر الجہتی موضوعات پر مضامین و کتب شامل ہیں۔ان کی شخصیت کے بارے یوں لکھتے ہیں:

 “افسانے میں جس طرح کی پراسراریت، تحیر اور خوف کی فضا ملتی ہے اسی طرح یہ عناصر نیر مسعود کی شخصی زندگی میں بھی شامل نظر آتے ہیں۔ تحقیق میں جس طرح کی سنجیدگی نظر آتی ہے اسی طرح وہ اپنی زندگی میں بھی ایک سنجیدہ طبع انسان تھے۔ تنقید میں جس طرح کی مدلل اور رکھ رکھاؤ والی گفت گو نظر آتی ہے عام زندگی میں بھی نیر مسعود اس طرح کے وضع دار انسان تھے۔ خاکوں میں جو طرح کے وہ دوست دار اور شگفتہ مزاج نظر آتے ہیں نجی زندگی میں اتنے ہی شگفتہ جملے استعمال کرنے والے تھے۔ اگر ان کی تخلیقات کا مزاج سامنے رکھا جائے تو نیر مسعود سر تا پا مکمل، تمام وقت کے محقق اور نقاد تھے۔ مزاج میں سادگی اور انکساری تھی، گفت گو بڑے سلیقے کی کرتے تھے۔ شریف الطبع اور بےنیاز قسم کی شخصیت تھے۔” (1)

مصنف اور تخلیق کو آمنے سامنے رکھ کر، فاضل اسکالر نے نیر مسعود کی شخصیت کو واضح کیا ہے۔ یوں ان کی حقیقی زندگی کے اثرات ادبی مزاج پر لازمی نظر آتے ہیں۔ ان کے افسانوں کا مطالعہ کریں تو ہمیں خوف، اذیت، موت، آسیب اور جس غیر متوقع صورت حال سے قاری دو چار ہوتا ہے، مصنف اس امر کی نشان دہی نیر مسعود کی زندگی سے کرتے ہیں۔

     باب دوم میں ‘نیر مسعود بطور افسانہ نگار’ مطالعے کا حصہ بنے ہیں۔ ان کے افسانوی امتیازات کو سمجھنے سے قبل مصنف نے ساٹھ، ستر اور اسی کے افسانوی رجحانات کا نشان زد کیے ہیں۔ مزید براں اس باب میں افسانوں کا فکری و فنی مطالعہ، ہئیت و تکنیک کے تجربات اور نیر مسعود پر مغربی و مشرقی افسانہ نگاروں کے اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ نیر مسعود نے جب افسانہ نگاری کا آغاز کیا تو اردو افسانے کی روایت میں موضوعاتی و فکری حوالے سے رومانویت، ترقی پسندیت، طبقاتی کش مکش،  سیاسی و سماجی تحریکوں کے اثرات، حب الوطنی، مزاحمت، انقلابی سرگرمیاں، جاگیرداریت، اور جدیدیت کے سماجی و وجودی اثرات شامل ہو گئے تھے۔ فنی طور پر بیانیہ، کہانی پن، کردار نگاری، پلاٹ، پر تحیر و بے ربط افسانوی فضا، علامت نگاری، تجریدیت، باطنی انتشار کی عکاسی، خود کلامی اور بغیر کہانی کے علامت و استعارہ کے سہارے امیجز کے ذریعے  کہانی کہنے کے تجربات ہو چکے تھے۔ کہانی پن اور عدم پلاٹ نے افسانوں کو مبہم بنا دیا تھا، اس کی ایک وجہ علامتی تجریدی و استعاراتی اسلوب بھی ٹھہرا۔ اس صورت حال میں نیر مسعود کے افسانوی امتیازات کیا ٹھہرے، ڈاکٹر اسد عباس نے ان کے افسانے کے داخلے نظام کی اول خصوصیت “کثرتِ معنی” بیان کی ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان کے افسانوں میں  کثرت معنی کس طرح وجود میں آئی اس کےلیے وہ ان کے افسانوں سے ہی دلائل لاتے ہیں۔ یعنی  افسانوں میں موجود زمان و مکان سے ماورا صورت حال ہے۔ افسانوں میں کسی مخصوص جگہ، مقام یا شہر کا نام نہ بتانا، کرداروں کے نام نہ بتانا، پہروں کے ذریعے وقت کا اظہار کرنا ( جیسے  سہ پہر، صبح کے وقت، شام ڈھلے، رات گئے) اور  مقامات پر اشاراتی کیفیت کا پایا جانا “کثرتِ معنی” کو جنم دیتا ہے۔ مصنف نے ان کی کردار نگاری کو بھی دیکھا ہے۔ بےنام کردار، بیماری زدہ، خاموش اور اچانک نمودار ہوتے یا غائب ہو جاتے ہیں۔ دیگر افسانوی امتیازات میں فنا پذیری کے آثار، داستانوی ماحول کا گمان، خوف کی مسلسل فضا، واقعات و واہمات کی باہم آمیزش، ثقافتی وجود کی تلاش، لکھنوی تہذیب کی عکاسی، خواب کی کیفیت اور تصور ذات شامل ہیں۔ فاضل اسکالر کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو:

“ان کے سارے فکری عمل میں روایت، اجتماعی حافظے کی بازیافت، حافظے میں پیوست تہذیبی تصورات اور اقدار کے مختلف حوالے، تاریخ اور ثقافت کی موجودگی، مختلف قسم کی بستیوں کی یادیں، اسمی شناخت گم ہو جانے کا روگ، مشترکہ خاندانی نظام، نسلوں قوموں اور خاندانوں کی پہچان، آسیب زدگی، کرداروں کا اذیت میں مبتلا ہونا، مسیجائی کا پہلو، خواب، یادِ ماضی، احساسِ فنا، اشیا کی ناپائیداری، موت اور موت سے متعلق عوامل، اور انسانی عقل پر حاوی عقیدے، جادوئی عمل، منتر وغیرہ مل کر ایک پلاٹ تیاری کرتے ہیں اور پھر میر مسعود واقعات کو ایک سطح پر استمعال نہیں کرتے ان کی معدنیاتی پرتیں بڑھا دیتے ہیں یعنی پکاث اکہرے نہیں ہوتے بلکہ قولِ محال کے بروقت استعمال سے وہ افسانے کو کثرتِ معنی کا منبہ بنا دیتے ہیں۔”(2)

  ڈاکٹر اسد عباس اس کےلیے نیر مسعود کے افسانوں سے مثالیں پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ناقدین نیر مسعود کی آرا کا بھی حوالہ دیتے ہیں، جو مدلل انداز سے اپنے اسلوب کو تحقیقی و تنقیدی بناتے ہیں۔ نیر مسعود کے افسانوں کا فکری جائزہ لیتے ہوئے وہ ان کے ہاں ماضی و قدیم دانس کو جدت کے ساتھ بروئے کار لانے والا اہم افسانہ نگار تسلیم کرتے ہیں۔ ماضی پرستی کے بجائے ان کے ہاں ماضی پسندی، بچپن کی یادیں، مشاہدے اور معاشرت نظر آتی ہے۔ جس سے کوئی تہذیبی و ثقافتی بازیافت ممکن ہوتی ہے۔ ڈاکٹر اسد کے مطابق نیر مسعود کے ہاں ماضی کی یاد “ناسٹلجیا” بن کر نہیں بلکہ ماضی کو حال کی آنکھ سے دیکھنے کا عمل بن کر آئی ہے۔ ان کے موت کے مناظر اور زندگی کی لایعنیت و پر اسراریت بھی موجود ہے۔ فاضل اسکالر نیر مسعود کے ہاں “حسیاتی وضاحت” () اور تصور پرستی () کو دیکھتے ہیں جو انھیں ممتاز افسانہ نگار بناتی ہے۔ اس میں لمسی تجربات، اچانک آوازوں کا آنا، کچھ مانوس آوازیں، کچھ غیر فطری، چیخیں، ناخوشگوار قہقہے، خوشبو، بصری حِس کے استعمال کے نمونے اور رنگوں کے استعمال کی نوعیت معنیاتی کیفیت وغیرہ۔ مزاح کی صورت گری اور سمعتوں کا تعین کے ساتھ لکھنوی تہذیب کی اجتماعیت کا اظہار پایا جاتا ہے۔

        نیر مسعود کی افسانوی شعریات قابل توجہ ہے۔ جس کا فنی جائزہ لیا گیا ہے۔ ڈاکٹر اسد عباس کے مطابق ان کے ہاں راست بیانیہ، استعاراتی نظام کی تخلیق، حتمیت و قطعیت سے گریز، محاوروں کا استعمال، تکرار لفظی سے موسیقیت کا پیدا ہونا اور واحد متکلم کا شعوری استعمال تمام افسانوی میں نظر آتا ہے۔ ان کے افسانوں کا کرداری مطالعہ نہایت اہم ہے، جو انھیں دیگر معاصرین سے منفرد بناتا ہے۔ کردار بےنام ہوتے ہیں۔ اچانک آتے اور غائب ہو جاتے ہیں۔ کرداروں کے پیشوں اور اعمال و افعال میں مماثلت پائی جاتی ہے۔ کرداروں کا  حکمت سے تعلق، خاموش طبع ہونا، سوچتے نظر آنا، پاگل ہو جانا، بیماری میں مبتلا ہونا، اذیت میں ہونا، حالت دیوانگی میں پایا جانا، بےروزگار ہونا اور مختلف پیشوں سے منسلک ہونا شامل ہے۔ ماں، باپ، بیوی کے کردار خالص مشرقی طرز احساس کے حامل ہیں۔ ڈاکٹر اسد عباس کے مطابق نیر مسعود کے کرداروں سے لکھنوی تہذیب کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ کیوں کہ جو لکھنؤ نیر مسعود کو میسر آیا وہ شکست و ریخت اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار لکھنو ہے اور ایسے عالم میں کردار آوارگی کرتے، بےروزگاری کے مارے شہر کی گلیوں کوچوں میں نکل جاتے ہیں۔

ہئیت اور تکنیک کے تجربات کو مد نظر رکھیں تو نیر مسعود  پر جدید اور مابعد جدید افسانے کے دو طرفہ اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔ نیر مسعود کے ہاں جید ناقدین نے مابعد جدید افسانے کے عناصر تلاش کیے ہیں۔ مابعد جدید افسانے کی تکنیکس  میں جادوئی حقیقت نگاری، قول محال کا استعمال، بیانات میں ممکنہ تمام امکانات، جزئیات نگاری، آپ بیتی کی تکنیک، مضمون نما افسانے اور فلیش بیک وغیرہ کا اظہار کیا جاتا ہے۔ یہ سب نیر مسعود کے ہاں موجود ہیں۔ ڈاکٹر اسد عباس افسانوں کا تجزیہ کرتے ہوئے، انھیں سامنے لاتے ہیں۔ نیر مسعود پر کافکا اور انتظار حسین کے اثرات کا جائزہ بھی لیتے ہیں ۔ اس باب میں فاضل اسکالر نے بدقت نظر نیر مسعود کے تمام افسانوں کا ہر حوالے سے تجزیہ کرتے ہوئے ان کے افسانوی امتیازات کو سامنےلانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔

باب سوم میں نیر مسعود کے تحقیقی و تنقیدی کام کا محاکمہ کیا گیا ہے۔ نیر مسعود کے والد مسعود حسن رضوی ادیب معروف محقق، نقاد اور ادیب تھے۔ گھر کے علمی ماحول نے نیر مسعود کو تحقیق و تنقید کی طرف مائل کیا۔ انھوں نے افسانہ نگاری سے دس گناہ زیادہ تحقیق و تنقید میں کام کیا ہے۔ نیر مسعود کے بطور محقق اولین آثار پی ایچ ڈی کا مقالہ “رجب علی بیگ سرور: حیات اور کارنامے” (1965ء) لکھ کر نمایاں ہوئے۔ اس کے بعد انھوں نے مختلف موضوعات پر جم کر لکھا۔ شخصیات میں میر، غالب، انیس، دبیر، رجب علی بیگ سرور، واجد علی شاہ، یگانہ اور مسعود حسن رضوی  ادیب قابل ذکر ہیں۔ علاؤہ ازیں شاعری کی نظری و عملی تنقید اور رثائی ادب ان کی تحقیق کے دائرہ میں آتے ہیں۔ رجب علی بیگ سرور پہ ان کا ڈاکٹریٹ مقالہ ہے۔ علاؤہ ازیں انھوں نے سرور پر مضامین بھی قلم بند کیے ہیں۔ اس کی زندگی کے مخفی گوشوں سے پردہ اٹھایا ہے۔ کئی حقائق سامنے لائے ہیں۔ غالب اور سرور میں اشتراکات کا دیکھنا نیر مسعود کا اہم تحقیقی مضمون ہے۔ واجد علی شاہ جسے انگریزی عمل داری میں شکست کا سامنا کرنا پڑا اور اس کے بارے کئی متضاد آرا کو پھیلایا گیا۔ نیر مسعود نے اس کی حاکمانہ صلاحیتوں کے ساتھ ادبی مقام و مرتبہ کی بازیافت کر کے اسے اعلی پایہ کا ادیب قرار دیا جس کی لگ بھگ سو کتب ہیں۔ اودھ اور لکھنو نیر مسعود کی جملہ تحقیقی، تنقیدی اور ادبی تخلیقات میں نظر آتے ہیں۔ یہ اردو کے تہذیبی مرکز ہیں۔ ڈاکٹر  لکھنو پر نیر مسعود کے چودہ مضامین کا جائزہ لے کر لکھنو کے بارے کئی حقائق کو نیر مسعود کی وساطت سے دریافت کیا ہے۔ جس میں لکھنؤ کی نہ صرف ادبی حیثیت سامنے آئے بلکہ لکھنؤ کی سماجیات سے بھی واقفیت ہوئی ہے۔

باب سوم میں نیر مسعود کے تحقیقی و تنقیدی کام کا محاکمہ کیا گیا ہے۔ نیر مسعود کے والد مسعود حسن رضوی ادیب معروف محقق، نقاد اور ادیب تھے۔ گھر کے علمی ماحول نے نیر مسعود کو تحقیق و تنقید کی طرف مائل کیا۔ انھوں نے افسانہ نگاری سے دس گناہ زیادہ تحقیق و تنقید میں کام کیا ہے۔ نیر مسعود کے بطور محقق اولین آثار پی ایچ ڈی کا مقالہ “رجب علی بیگ سرور: حیات اور کارنامے” (1965ء) لکھ کر نمایاں ہوئے۔ اس کے بعد انھوں نے مختلف موضوعات پر جم کر لکھا۔ شخصیات میں میر، غالب، انیس، دبیر، رجب علی بیگ سرور، واجد علی شاہ، یگانہ اور مسعود حسن رضوی  ادیب قابل ذکر ہیں۔ علاؤہ ازیں شاعری کی نظری و عملی تنقید اور رثائی ادب ان کی تحقیق کے دائرہ میں آتے ہیں۔ رجب علی بیگ سرور پہ ان کا ڈاکٹریٹ مقالہ ہے۔ علاؤہ ازیں انھوں نے سرور پر مضامین بھی قلم بند کیے ہیں۔ اس کی زندگی کے مخفی گوشوں سے پردہ اٹھایا ہے۔ کئی حقائق سامنے لائے ہیں۔ غالب اور سرور میں اشتراکات کا دیکھنا نیر مسعود کا اہم تحقیقی مضمون ہے۔ واجد علی شاہ جسے انگریزی عمل داری میں شکست کا سامنا کرنا پڑا اور اس کے بارے کئی متضاد آرا کو پھیلایا گیا۔ نیر مسعود نے اس کی حاکمانہ صلاحیتوں کے ساتھ ادبی مقام و مرتبہ کی بازیافت کر کے اسے اعلی پایہ کا ادیب قرار دیا جس کی لگ بھگ سو کتب ہیں۔ اودھ اور لکھنو نیر مسعود کی جملہ تحقیقی، تنقیدی اور ادبی تخلیقات میں نظر آتے ہیں۔ یہ اردو کے تہذیبی مرکز ہیں۔ ڈاکٹر  لکھنو پر نیر مسعود کے چودہ مضامین کا جائزہ لے کر لکھنو کے بارے کئی حقائق کو نیر مسعود کی وساطت سے دریافت کیا ہے۔ جس میں لکھنؤ کی نہ صرف ادبی حیثیت سامنے آئے بلکہ لکھنؤ کی سماجیات سے بھی واقفیت ہوئی ہے۔ دیکھیے:

“نیر مسعود نے غالب کو جس انداز میں دیکھنے کی کوشش کی اس میں متن خود کیا کہتا ہے بہت اہم ہے وہ خود غالب کے ساتھ بھی اختلاف قائم کرنے سے نہیں ہچکچاتے۔”

 “نیر مسعود نے غالب کو اپنے اشعار کی تشریحات کی روشنی میں جب دیکھا تو انھیں محسوس ہوا کہ یہاں پر غالب کسی دباؤ کا شکار ہیں۔ آسان گوئی اور سہیلِ ممتنع کی طرف راغب ہیں جب کہ غالب کا ذہن تو سادگی اور سہلِ ممتنع کےلیے بنا ہی نہ تھا جو معنوی پرتیں ان کے اشعار میں ہیں وہ ان کی تشریحاتی نثر میں مفقو ہیں۔”

 “نیر مسعود بتاتے ہیں شارحین (غالب) نے کہاں کہاں مسلمات کو ترک کر کے مفروضات پر انحصار کیا ہے۔ پھر جب ان مفروضات کو کھولتے ہیں اور معانی کو پھیلاتے ہیں تو اضطراب میں کمی آنے لگتی ہیں۔ نیر مسعود شارحین کے حوالے سے مکمل طور پر بہت محتاط گفت گو کرتے ہیں مگر اپنے طور پر وہ ایک ایسا علمی و ادبی طریقہ سامنے لاتے ہیں کہ تفہیم غالب کے ساتھ ساتھ نقائص شارحین بھی سامنے لاتے چلے جاتے ہیں۔”

    ڈاکٹر اسد عباس نیر مسعود کی میر شناسی کا جائزہ لیتے ہیں۔میر کے حوالے سے نیر مسعود کے دس مضامین اور فارسی دیوان میر (اشاعت نقوش 1983) کی تدوین شامل ہے۔ میر شناسی میں نیر مسعود کی عطا یہ کہ انھوں نے میر کے حوالے سے ذکر میر اور نکات الشعرا میں پائے جانے والے تضادات کا جائزہ لیا  اور حیات میر کی کم شنیدہ آوازوں کو بازیافت کیا۔ ڈاکٹر اسد نے نیر مسعود کے ایک ایک مضمون کا جائزہ لے کر بات کو آگے بڑھایا۔ یگانہ شناسی کے ضمن نیر مسعود کے 6 مضامین اور دو کتب کا مطالعہ پیش کیا ہے۔ نیر مسعود نے یگانہ سے اختلاف بھی کیا اور ان کی ادبی شخصیت کو واضح بھی کیا۔ نیر مسعود یگانہ کے تنقیدی اسلوب کے معترض جبکہ ان کی اصل ادبی شخصیت کے معترف ہیں۔  اس کے بعد اپنے والد رضوی ادیب کے حوالے نیر مسعود کے تیرہ مضامین لکھے، ساتھ رضوی ادیب کی کتب کو مرتب بھی کیا۔

     افسانے کی تنقید پر دس مضامین، ناول تنقید پر چھ مضامین، کلاسیک و معاصر شعرا پر گیارہ مضامین، شاعری کی نظری تنقید اور دیگر شخصیات پر چودہ مضامین کا طائرانہ جائزہ ڈاکٹر اسد عباس نے پیش کیا ہے۔ تحقیقی و تدوین متن کے مسائل پر آٹھ نظری و عملی مضامین بھی قابل توجہ ہیں۔

مرثیہ شناسی کے باب میں انیسیات اور دبیریات  نیر مسعود کو خاص میدان ہے۔ انیس پر انھوں نے بائیس مضامین اور سات کتب ہیں۔ مرثیہ شناسی پر سولہ مضامین ہیں۔ انیس اور مرثیہ شناسی پر جتنا لکھا اسی میں دبیر کا ذکر بھی موجود ہے۔ ڈاکٹر اسد عباس نے نیر مسعود کے مذکورہ تحقیقی و تنقیدی نظام کا جائزہ ناقدانہ انداز میں لیا ہے۔ انھوں نے نیر مسعود کے تحقیقی معیار اور تنقیدی اسلوب کو سنجیدہ اور متوازن قرار دیا ہے۔ جس میں غیر جانبداری اور علمی وقار سرفہرست ہے۔

 افسانے اور ناول کی تنقید لکھتے نیر مسعود اول پلاٹ کا خاصہ پیش کرتے ہیں دوم متن سے کچھ سوالات پیدا کر کے تنقید کا جواز پیدا کرتے ہیں۔ شاعری کی تنقید لکھتے مشرقی شعریات کو مدنظر رکھ کر شعرا کی شعری خصوصیات کو سامنے لا کر تنقیدی عمل انجام دیتے ہیں۔ انیس پر نیر مسعود کے پاس اس قدر وسیع مواد تھا کہ اس کی سوانح حیات، مرثیہ شناسی کے ضمن مرثیہ کا فن، معرکہ انیس و دبیر، انتخاب مراثی انیس اور لکھنو کے رثائی ادب کی روایت کو سمیٹ کر انیس شناسی میں اہم اضافہ کر دیا۔ ڈاکٹر اسد نے نیر مسعود کی مرثیہ اور انیس و دبیر شناسی پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے جس سے چند ایسے گوشے سامنے آئے ہیں جو اس باب میں اس سے قبل مخفی تھے۔ “معرکہ انیس و دبیر” لکھتے ہوئے، نیر مسعود شبلی کی “موازنہ انیس و دبیر” سے غافل نہیں رہے بلکہ شبلی کے طریقہ نقد کو بھی تنقیدی نظر سے دیکھا اور کئی حقائق سامنے لائے۔ غرض ڈاکٹر اسد، نیر مسعود کی تحقیقی و تنقیدی خدمات کا بھرپور جائزہ لیتے ہوئے ان کی تحقیقی کا رخ مشرق کے کلاسیک متون کی طرف دیکھتے ہوئے ہیں۔  نیز ان کی تحقیقی پر مشرقی اندازِ فکر کو غالب قرار دیتے ہیں۔

باب چہارم میں نیر مسعود کی تخلیقی نثر کا تنقیدی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ اس میں ان کی خاکہ نگاری، ادب اطفال، مکاتیب، ڈراما نگاری اور سفرنامہ نگاری کو دیکھا ہے۔ خاکوں کا مجموعہ “ادبستان” شہر زاد کراچی سے 2006 میں شائع ہوا۔ جس میں بارہ خاکے اور ایک ابتدائی تحریر بہ عنوان “معذرت” شامل ہے۔ ان بارہ خاکوں میں رشید حسن خان، ڈاکٹر کیسری کشور، شہنشاہ مرزا، احتشام حسین (دو خاکے)، صباح الدین عمر، محمود ایاز، شمس الرحمن فاروقی، رضوی ادیب، ادبستان (گھر بطور کردار)، چراغ صبح (رضوی ادیب) اور عرفان صدیقی شامل ہیں۔ ڈاکٹر اسد عباس ہر خاکے کی اشاعت کا ذکر کیا ہے۔ ہر شخصیت سے نیر مسعود کے تعلق کو واضح کرتے ہوئے، ان کی خاکہ نگاری کی خصوصیات کا جائزہ لیا ہے۔ ان خصوصیات میں خاکے کی منفرد زبان، خاکے کا آغاز ممدوح سے کرنے کے بجائے تیسری شخصیت سے بات چیت کرتے ممدوح کا اچانک ذکر شروع ہو جانا، تعصب سے بالاتر، واقعات کے بیان میں صاف گوئی، حلیہ نگاری اور سراپا نگاری کے روایتی انداز سے گریز، شگفتہ جملوں کا استعمال، اسلوب میں مزاح کا رنگ، ممدوحین کے ادبی ذوق کا بیان اور ممدوح پر خود کو غالب نہ کرنا شامل ہیں۔ ڈاکٹر اسد عباس کا اقتباس دیکھیے:

“نیر مسعود نے ان خاکوں کی بُنت میں شخصیات کے بھید چھپا چھپا کر تیھے انداز میں بیان کیے ہیں۔ رشید حسن خاں کا خاکہ دیکھیں تو جس قدر سنجیدہ طبیعت تھی رشید حسن خاں کی نیر مسعود نے اسی طرح کا سنجیدہ اور تحقیقی اسلوب پیش کیا ہے۔ جہاں کہیں سنجیدگی تجاوز کرنے لگتی تو نیر مسعود کی حسِ مزاح ابھر کر سامنے آجاتی ہے۔ جس طرح کا اسلوب رشید حسن خاں اپنی تحریروں میں پیش کرتے ہیں اسی طرح کا اسلوب نیر مسعود نے بھی پیش کیا ہے۔ رشید حسن خاں کا خاکہ مسلسل بیانیے کی روش سے ہٹ کر لکھا گیا ہے درمیان میں وقفے ہیں۔ مختلف واقعات کے بیان میں ہی وہ ممدوح کے اوصاف بیان کر جاتے ہیں بجائے کے اس کے لیے کئی صفحات استعمال کیے جائیں۔”(3)

     نیر مسعود نے رشید احمد صدیقی اور جوش کی خاکہ نگار پر دو مضامین لکھے ہیں۔ ان کا جائزہ بھی فاضل اسکالر نے لیا ہے۔ “ادب اطفال” کے حوالے سے بچوں کا ڈراما “احتیاط شرط ہے” نیا دور، اطفال نمبر، 1979ء میں شائع ہوا۔ ایک ڈراما “قصہ سوتے جاگتے ابولحسن کا” 1985ء میں شائع ہوا۔ نیر مسعود نے رضوی ادیب کی ایک کتاب “دبستان اردو” (تحریر 1925ء) کو  “بچوں سے باتیں” کے عنوان سے مرتب کر کے 2004ء میں شائع کیا۔ اس میں تیرہ کہانیاں شامل ہیں۔ جبکہ دو تحریریں اور ایک رضوی ادیب کا خاکہ نیر مسعود کا لکھا بھی شامل اشاعت ہے۔ اس کا تجزیہ نہیں پیش کیا گیا کہ یہ نیر مسعود کی کتاب نہیں۔ فاضل اسکالر نے 123 مطبوعہ مکاتیب نیر مسعود کی زمانی ترتیب سے فہرست مرتب کی ہے۔ بطور مکتوب نگار ان کی مکتوب نگاری کا جائزہ بھی پیش کیا ہے۔ یہاں بھی نیر مسعود روایتی اسلوب کے حامل مکتوب نگار ثابت نہیں ہوئے بلکہ منفرد طرز تحریر اختیار کرتے ہیں۔ یہ مکاتیب نیر مسعود کے دوستوں کے نام ہیں، جو اپنے عہد کے جید محققین، ناقدین اور ادیب ہیں۔ اس لیے ان خطوط میں ادبی معالات کا ذکر فطری ہے۔ نجی حالات اور اس دور میں اپنی علمی و ادبی مصروفیات کا ذکر ان مکاتیب میں پایا جاتا ہے۔ جو نیر مسعود کے تعلقات اور ادبی ارتقا کو سمجھنے میں معاون ہے۔ نیر مسعود نے پانچ ڈرامے لکھے۔ جن میں تین ڈراموں میں لکھنؤ کے امام باڑوں، مرزا غالب اور انیس کے حالات و واقعات کو موضوع بنایا گیا ہے۔ نیر مسعود نے ایران کا سفر جنوری 1977ء میں شروع کیا جس کی روداد انھوں نے “خنک شہرِ ایران” کے نام سے قلم بند کی۔ ڈاکٹر اسد عباس کے مطابق  اس میں مشاہدہ کو فوقیت دی گئی ہے۔ سفری و ادبی دونوں معلومات کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ ایران کے اہم مقامات کا ذکر کیا گیا ہے۔ ادبی محافل کی روداد شامل ہے۔ ایران میں مقیم ہندوستانی احباب سے ملاقاتوں کا احوال شامل ہے۔ بنا بریں ایرانی اور لکھنوی تہذیب کا جائزہ بھی لیا گیا ہے۔

    باب پنجم “متفرقات” کے نام سے ہے، جس میں نیر مسعود کے تراجم، تبصرے، تدوینی کام، رثائی انتخاب اور مرتبہ کتب شامل ہیں۔ فارسی سے اردو تراجم میں فارسی کہانیاں، فارسی شاعری، مرزا فتح علی آخوند زادہ کا ڈراما “حکیم بناتا سرگزشت موسی ژوددان”، انگریزی سے اردو تراجم میں کافکا کے افسانے  اور انگریزی شاعری شامل ہے۔ نیر مسعود نے پچیس کتب پر تبصرے کیے ہیں۔ جن کو زمانی ترتیب سے فاضل اسکالر نے لکھا ہے۔ نیر مسعود کی تبصرہ نگاری پر ڈاکٹر اسد عباس کی رائے کچھ یوں ہے:

“تبصرہ نگاری کے ضمن میں نیر مسعود کا شمار تاثراتی نقادوں میں کیا جا سکتا ہے مگر کسی حد تک ایک مختلف پیرائے میں۔ ایک تو یہ کہ ان کے تبصروں میں مبالغہ آرائی نہیں بلکہ سیدھی سیدھی اور صاف گفت گو ملتی ہے، دوسرا یہ کہ وہ الفاظ کا نگر خانہ نہیں سجاتے بلکہ نثر کی قوت پر زور دیتے ہیں۔ اسلوب کو شاعرانہ نہیں ہونے دیتے حسین تراکیب اور دلکش فقروں سے شعوری اجتناب ملتا ہے۔ ہم اُن کے تبصروں سے کسی قسم کا اختلاف تو کر سکتے ہیں مگر ان تبصروں کی ادبی اہمیت سے انکار نہیں، یہ تبصرے ہمیں سوچنے پر مجبور کرتے ہیں اور جو تاثر قاری کے ذہن میں پیدا کرتے ہیں اس سے مشرقی متون کے ساتھ ہمدردانہ رویہ پیدا ہوتا ہے۔”(4)

ظاہر ہے ایک محقق اور نقاد کے طور پر ان کے تبصرے عالمانہ ہوتے ہیں۔ بطور مدون و مرتب نیر مسعود کی چودہ کتب ترتیب دی ہیں۔ جن میں سے ڈاکٹر اسد نے گیارہ مرتبہ کتب کا بالخصوص جائزہ پیش کیا ہے۔ آخری باب “حاصل مطالعہ” ہے جس میں فاضل اسکالر نے معاصر افسانوی و تحقیقی منظر نامے پر  نیر مسعود کا مقام متعین کرنے کی کوشش کی ہے جو بنیادی پر کسی ادبی تنقید کا آخری وظیفہ ہے جس میں محقق و نقاد تعین قدر کا مرحلہ انجام دیتا ہے۔ ڈاکٹر اسد عباس کا اقتباس ملاحظہ ہو:

“نیر مسعود کے تمام تحقیقی تنقیدی تخلیقی سرمائے پر یہ رائے قائم کی جاسکتی ہے کہ انھوں نے افسانے کے میدان میں اجتماعی حافظے کی بازیافت کا کام لیا ہے، جس میں مشرق کی تہذیب کو بطور خاص سامنے رکھا لکھنو شہر اُن کے ہاں ایک تخلیقی استعارہ ہے اس معدوم ہوتی ہوئی تہذیب کو انھوں نے اپنے افسانوں میں زندہ کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ اگر ہم اُن کے تحقیقی اور تنقیدی کام کو بھی دیکھیں تو اس میں، میر، یگانہ، غالب، انیس، واجد علی شاہ جیسے لوگ شامل ہیں یا ایسے متون شامل ہیں جن میں مشرق کی تہذیب کا کوئی نہ کوئی گوشہ پنہاں ہے نیر مسعود کی تحقیق و تنقید کا یہ واضحرجحان رہا ہے کہ ایسے متون یا ایسی شخصیات جنھیں کسی بھی سیاسی مذہبی یا سماجی دباؤ کی وجہ سے پس پشت ڈالنے کی کوشش کی گئی ہو نیر مسعود نے ایسے موضوعات اور شخصیات پر قلم اُٹھا کر ادبی ایمان داری کا مظاہرہ کیا ہے۔ اُنھوں نے مغربی تھیوریوں سے استفادہ تو ضرور کیا ہے مگر خود کو کسی مغربی تنقیدی دبستان کا مقلد نہیں بنایا۔”(5)

         فاضل اسکالر نے نیر مسعود کے سوانحی آثار، افسانوی شعریات و امتیازات، تحقیقی کارناموں، تدوینی کام، مرتبہ کتب اور تخلیقی جہات کو اول تا آخر سمیٹنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ سوانحی آثار کا جائزہ لیتے ہوئے، داخلہ و خارجی شواہد کے ساتھ تحقیقی نتائج اخذ کیے ہیں۔ افسانوں کے موضوعات اور فنی اقدار کو دیگر ناقدین کی آرا اور افسانوں کی روشنی میں سمجھا ہے۔ نیر مسعود کی اول پہچان ایک محقق کی ہے، اس ضمن تحقیقی کارناموں کی فہرست ترتیب دے کر ان کا انفرادی جائزہ لیا ہے۔ اس جائزہ میں انھوں نے نیر مسعود کا طریقہ تحقیق، اسلوب اور طرز تنقید  کو بیان کیا ہے۔ نیر مسعود کے مضامین اور  تخلیقی جہات کی زمانی ترتیب میں فہرست دے کر الگ الگ اہم کاموں کا تجزیہ کیا ہے۔ اس تجزیہ کی نوعیت تحقیقی و تنقیدی ہے۔ جس سے نیر مسعود کی تنقیدی اور تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار ہوتا ہے۔ یہ مقالہ ڈاکٹر اسد عباس کی نہ صرف نیر مسعود شناسی میں اہم ہے بلکہ ان کی تحقیقی صلاحیت پر دال ہے کہ انھوں نے کثیر الجہت ادیب کی جملہ تصانیف، مضامین، تراجم اور مرتب کاموں کو جمع کر کے ان کا جائزہ لیا ہے۔ ایک سنجیدہ محقق کے طور پر ان کا یہ کارنامہ غیر معمولی ہے۔

حوالہ جات

1۔  اسد عباس عابد،ڈاکٹر۔نیر مسعود نئی جہات کا صورت گر،لکھنو: میٹرلنکس پبلشرز،2024،ص:66

2۔ اسد عباس عابد،ڈاکٹر۔نیر مسعود نئی جہات کا صورت گر،ص: 99-100

3۔ایضا، ص:  414

4۔ ایضا، ص:513

5۔ ایضا، ص: 549

Leave a Reply