You are currently viewing کرشن چند ر: ایک جائزہ

کرشن چند ر: ایک جائزہ

ڈاکٹر رضوانہ شمسی

بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی

کرشن چند ر: ایک جائزہ

کرشن چند رکو کشمیری فکشن نگار کے نام سے جانا جاتا ہے لیکن یہ بات غور طلب ہے کہ کرشن چندر کا تعلق وادی کشمیر سے نہیں ہے ۔ان کا تعلق خطے پیر پنجال سے ہے جس کے ایک طرف پیر پنچا ل کی اونچی اونچی کوہستانی چوٹیاں ہیں ان چوٹیوں کے اس پار وادی کشمیر ہے جہاں کی زبان کشمیری ہے۔ایک طرف ہندو پاک کی کنٹرول لائن ہے جبکہ دوسری طرف خطہ جنا ب واقعہ ہے۔ وادی پیر پنچال میں پہاڑی گوجری بولی جاتی ہیں۔جبکہ دو پرسنٹ لوگ ہی کشمیری زبان بولتے ہیں کرشن چندر کی مادری زبان پہاڑی تھی علاقے کی کثیر تعداد گوجری زبان کا استعمال کرتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ پہاڑی زبان پر بھی گوجری کے اثرات ہیں یہ وہی گوجری ہے جسے ہم گجری کے نام سے جانتے ہیں اگرچہ وقت کے ساتھ ساتھ قبائل کے مختلف علاقوں میں پڑھاؤ کے سبب کئی دوسری زبانوں کے الفاظ اس میں شامل ہوتے رہے ہیں۔ اسی وجہ سے یہ اپنی اصل شکل کھو چکی ہے یہ دونوں بولیاں ہی کرشن چندر کی تحریروں میں ملتی ہیں۔ کوئی بھی فن پارہ ادب پارہ اپنے گرد نوا ح کے اثرات سے خود کو مبرہ نہیں رکھ سکتا یہ ایک فطری عمل ہے کہ ادیب شاعر جس ماحول میں آنکھ کھولتا ہے اراد ی یا غیر ارادی طور پر اس کے فن پارے میں اس کے ماحول کا عکس جا بجا بکھرا نظر اتاہے۔یہ ایک اٹل لسانی حقیقت ہے کوئی بھی زبان خالص ہونے کا دعوی نہیں کر سکتی ہر زبان میں دوسری زبانوں کے کچھ نہ کچھ الفاظ ملیں گے جس طرح کوئی قوم یا نسل اپنے جسم میں صرف ایک ہی قوم یا نسل کے خون کا دعوی نہیں کر سکتی اسی طرح کوئی بھی زبان خالص ہونے کی دعویدار نہیں ہو سکتی اگر کوئی زبان صرف اپنے لفظیات پر بھروسہ کرتی ہے اور دوسری زبانوں کے الفاظ سے پرہیز کرتی ہے تو بالاخر اچھوت بن جاتی ہے ایسا ہی مشہور فکشن نگار کرشن چندر کے ساتھ بھی ہے جہاں ایک طرف ان کے افسانوں میں ہمیں جموں کشمیر کی دل فریب وادیوں آبشاروں کی کھنک سنائی دیتی ہے وہیں زبان کی سطح پر بھی کئی علاقائی الفاظ بھی ان کے نوک قلم سے ان کی کہانیوں میں آ جاتے ہیں ۔کرشن چندر کا تعلق چونکہ خطہ پیر پنچال سے ہے لہذا یہاں کی زبان اور تہذیب و ثقافت سے بھلا ان کی تحریریں کیسے خالی ہو سکتی تھیں۔کرشن چندر چاہے کسی بھی پیرائے میں لکھیں مگر لسانی سطح پر جب ہم ان کے افسانوں کا تجزیہ کرتے ہیں یا ان کے فکشن کا تجزیہ کرتے ہیں تو ہمیں اس میں خطہ پیر پنچال کی زبان ملتی ہے۔ اسے آپ فطری عمل کہہ سکتے ہیں کہ کوئی بھی ادیب اپنی زبان اور تہذیب و ثقافت کی جھلک سے تحریروں کو اچھوتا نہیں رکھ سکتاعلاقائی زبانوں نے جہان دیگر ادیبوں کو متاثر کیا ہے جیسے بیدی کے یہاں پنجابی کا اثر ہے قرۃ العین کے ہاں اودھی کا اثر ملتا ہے تو وہی کرشن چند رکے یہاں پر بھی پہاڑی اور گوجری زبان کے اثرات صاف طور پر نظر اتے ہیں ۔لسانی سطح پر اگر کرشن چند کے افسانوں کا معائنہ کیا جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ کر شن چندربھی دیگر اب ادیبوں کی طرح علاقائی زبان کو اپنے ہاں برتتے ہیں۔ ان کا افسانہ کالو بھنگی کو ہی لے لیجئے کالو بھنگی کرشن چندر کی ایک ایسی تخلیق ہے جس موضوع پر شاذ و نادر ہی اردو فکشن نگاروں نے قلم اٹھایا ہوگا نہ صرف یہ افسانہ موضوع کی سطح پر منفرد ہے بلکہ خطہ پیر پنچال کی زبان تہذیب و ثقافت کی بھی بھرپور انداز میں عکاسی کرتا ہے ایک طرف کرشن چندرنے نہایت ہی سینسٹو حساس موضوع پر چابک دستی سے ایک ایسے شخص کی نفسیاتی الجھنوں اور جنسی ضرورتوں پر بے باکانہ انداز میں لکھا ہے جسے معاشرے نے حاشیے پر ڈال دیا تھا ۔ اس کے اندر کے انسان اور محبت کی بھوک خواہشات کا زکر ہے وہیں دوسری طرف یہ افسانہ چونکہ خطہ پیر پنچال کے پس منظر میں تخلیق ہوا ہے اس لیے یہ کیسے ممکن تھا یہاں کی زبان کا دخل نہ ہو چونکہ کالو بھنگی کا کردار پونچھ کے علاقے سے وابستہ کردار کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ لہذا کرشن چندر نے ایسے بہت سے الفاظ اس افسانے میں شامل کیے ہیں جن کا تعلق اردو سے نہیں ہے ۔ جیسے جنگلی پھلوں کے نام یا پھر چیزوں کے ایک جگہ کرشن چندرلکھتے ہیں

 ‘‘جنگل کے راستے میں وہ انہیں بالکل اکیلا چھوڑ دیتا ’ لیکن پھر بھی گائے اور

 بکری دونوں اس کے ساتھ قدم سے قدم ملائے چلے آتے تھے گویا تین دوست

 سیر کو نکلے ہیں ۔گائے نے سبز گھاس دیکھ کر منہ ماری توبکری بھی جھاڑیوں سے

 پتیاں کھانے لگتی اور کالو بھنگی ہے کہ سملو توڑ توڑ کر کھا رہا ہے ’’

 بحوالہ:‘‘کرشن چندر کے دس بہترین افسانے’’(ص۱۳۶)

 یہاں پر لفظ سملو کا استعمال ہوا ہے چونکہ سملو ایک جنگلی پھل ہے جو اونچی اونچی کاٹے دار جھاڑیوں پر لگتا ہے۔ جس کا رنگ پہلے سبز پھر ہلکا زرد اور پھر کالا ہو جاتا ہے۔افسانے کا یہ اقتباس دیکھیااس کے علاو ہ کالوبھنگی کو جنگل کے ہر جانور چرنداور پرندسے شناسائی تھی۔راستے میں اس کے پاؤں میں کوئی کیڑا آجاتا تو وہ اسے اٹھا کر جھاڑی پررکھ دیتا’ کہیں کوئی نیولہ بولنے لگتا تو یہ اس کی بو لی میں اس کا جواب دیتا’تیتر ’ رت گلہ’ گٹاری’لال چڑا’ سبزہ محی’ہر پرندے کی وہ زبان جانتا تھا۔

 اور ایک جگہ کرشن چندرنے کالو بھنگی میں گٹاری کا لفظ استعمال کیا ہے جو بھورے رنگ کی چڑیا ہے اسی طرح کڑم کا ساگ یعنی ہرے پتوں والی بڑی سبزی اسی طرح الیں یعنی کدو جیسے الفاظ استعمال کیے ہیں خطہ پیر پنچال کی مقامی زبانیں گوجری و پہاڑی میں ہی یہ الفاظ رائج ہیں۔ جسے اہل اردو کے لیے سمجھنا مشکل ہے ۔

افسانہ پورے چاند کی رات یوں تو یہ افسانہ وادی کشمیر کی دلفریب وادیوں کے پس منظر میں لکھا گیا ہے اس کی کہانی کی ہیروئن کشمیر کی دلفریب وادیوں کی حسین دوشیزہ ہیں ۔مگر افسانے کی زبان وادی کشمیر سے میل نہیں کھاتی اس افسانے میں کشمیری زبان کے الفاظ کا استعمال نہیں کیا گیا جو کہ وہاں کی علاقائی زبان ہے۔ اس کی بنسبت کرشن چند رنے اپنی مادری زبان کو بھرپور انداز میں برتاہے۔ جیسے افسانے کی شروعات ہی موسم بہار کی آمد سے ہوتی ہے اور موسم بہار کا ذکر کرتے ہوئے کرشن چند رکچھ اس طرح لکھتے ہیں

 ‘‘ اپریل کا مہینہ تھا بادام کی ڈالیاں پھولوں سے لدی ہوئی تھی ہوا

 میں برفیلی خنک کے باوجود پہاڑ کی سی لطافت آگئی تھی بلند و بالا

 تنگوں کے نیچے مخملیں دوب پر کہیں کہیں برف کے ٹکڑے سپید

 پھولوں کی طرح کھلے ہوآرہے تھے ’’

 بحوالہ:‘‘کرشن چندر کے دس بہترین افسانے’’(ص۶۰)

یہاں لفظ تنگ دراصل کرسمس کے درخت کے لیے استعمال ہوا ہے اسی طرح اس افسانے میں تلا بڑے میدان ہری گھاس کے لیے جردالو جسے زرد الو بھی کہتے ہیں ۔یہ تمام خطہ پیر پنچال کی زبان کے الفاظ ہیں۔

اسی طرح افسانہ لاہور سے بہرام گلہ پہلے تو افسانے کا موضوع جہاں دو علاقوں کے نام ہیں۔ایک لاہور اور دوسرا پہرام گلا تو دراصل بہرام گلا خطہ پیر پنچال میں واقع ایک تاریخی مقام ہے ۔جہاں ایک ہرن کا شکار کرتے ہوئے جہانگیر گر گیاتھا۔ اور پھر اسی واقعے سے اس کی موت واقع ہوئی اسی نسبت سے یہ ایک سیاحتی مقام کی حیثیت بھی رکھتا ہے ۔بات اگراس افسانے کی کی جائے تو اس کے اندر کرشن چند رنے خطہ پیر پنجال کی زبان کی خوبصورتی کو ہی شاہکار نہیں بنایا بلکہ یہ تاریخی دستاویز کی حیثیت بھی رکھتا ہے۔ کرشن چند رنے اس افسانے میں ریاست پونچھ کی تاریخ قلعوں کا ذکر کیا ہے ۔جسے چینی سیاح ہیانگ سونگ نے اپنے سفرنامے میں لکھا ہے یہ کھنڈرات وقت کی نظر ہو گئے لیکن کرشن چندر نے ان کی عکاسی کر کے گویا انہیں ہمیشہ کے لیے زندہ رکھا ہے۔ اس لحاظ سے بھی یہ تاریخ دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس افسانے میں بھی کر شن چند رنے ککڑ یعنی( مرغا) سملو یعنی (جنگلی پھل) رات گلے (جنگلی پرندے )جیسے ا لفظ کا استعمال کیے ہیں۔ جو کہ مقامی زبان کے الفاظ ہیں۔

 افسانہ ڈھکی دراصل افسانہ ڈھکی میں طبقاتی فرق اونچ نیچ رساو اور غرباء کے بیچ کے فرق کو نہایت مہارت سے واضح کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ یہ افسانہ اردو زبان میں ضرور تحریر کیا گیا ہے لیکن آپ کو اس کے عنوان سے لے کر اختتام تک نہ جانے کتنے ہی ایسے الفاظ مل جائیں گے جن کے مطالب اردو لغات میں ناپید ہیں عنوان ڈھکی یہ پہاڑی اور گوجری زبان میں مستعمل ہے ۔جس کے معنی چھوٹی پہاڑی

 کے ہوتے ہیں لفظیات کی سطح پر ہی نہیں بلکہ افسانہ جس تہذیب کا علمبردار ہے وہ تہذیب خطہ پیر پنجال کے ساتھ ساتھ مخصوص ہے کہ کس طرح لوگ پہاڑی ڈھالانوں پر گھر بناتے ہیں ان کا رہن سہن کھان پان ہندو مسلم کا باہمی اتحاد میل جول لڑائی جھگڑے ان تمام واقعات کو اس مخصوص تہذیبی پس منظر میں پیش کیا گیا ہے۔

 بات اگر افسانہ حسن اور حیوان کی کی جائے تو اس افسانے کی شروعات اونچی پہاڑیوں سے اترتے ہوئے اپنی منزل تک پہنچنے کی تگ و دو سے شروع ہوتی ہے اس افسانے کو پڑھ کر لگتا ہے کہ سفرنامہ تحریر ہو رہا ہے جہاں سفر کرنے والا راستے میں آنے والی ہر چیز کا معائنہ نہایت باریکی سے کرتا ہے ۔اس افسانے میں خطہ پیر پنجال کے کئی رنگ ابھرتے ہیں غریب اور افلاس کے مارے لوگ جن کے لیے نمک کی قیمت ادا کرنا بھی مخال تھا ۔لیکن کرشن چند رنے اس افسانے کے ذریعے نہایت ہی ذہانت سے اس بات کو باور کرایا ہے کہ خوشی کا تعلق دولت و ثروت سے نہیں ہوتا نمک نہ خرید پانے والے افراد بھی مکی کے موٹے موٹے نوالوں کو پانی سے نکل رہے ہیں۔ ان کے چہرے خوش باش ہیں ۔ان کی آنکھوں میں زندگی کی رمق باقی ہے۔ اس افسانے کے لفظیات کا جائزہ لیا جائے تو افسانے میں مقامی الفاظ کی بھرمار ہے۔ جسے سمجھنا اہل اردو کے لیے ممکن نہیں گٹاری (بھورے رنگ کی چڑیا ) تریڑی یعنی (کھیرا’ )املوک( کالے رنگ کا جنگلی پھل) بٹنگ

( جنگلی پھل کا درخت جس پر بھورے رنگ کے پھل لگتے ہیں جو بعد میں سیاہ ہو جاتے ہیں) اور ان کا ذائقہ میٹھا ہوتا ہے‘‘ افسانہ گرجن کی ایک شام’’ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ یہ افسانہ خانہ بدوش قبا ئل کی روزمرہ کی زندگی میدانوں سے نکل کر سنگلاخ پہاڑیوں کو عبور کرتے ہوئے سرسبز و شاداب مرگوں تک پہنچنے اور ان میں مویشیوں کے ساتھ جفا کش زندگی گزارنے کی داستان ہے ۔یہ افسانہ خانہ بدوشوں کے مسائل کو درج کرتا ہے۔ غالباًر اس سے پہلے کسی سیاح نے بھی ان کی روداد اور کٹھنائیوں کو اس جاندار طریقے سے نہیں پیش کیا جہاں سرسبز و شاداب وادیاں ہیں جس پر جنت کا گمان ہوتا ہے لیکن رات کے اندھیرے اور برفیلے طوفان کتنے ہی انسانوں کو اپنی اغوش میں لے کر دنیا کی نظروں سے چھپا کر صدیوں محفوظ رکھتے ہیں ۔جہاں خانہ بدوشوں کے اپنے عقائد ہیں دیوتا ہیں جو انہیں طوفان سے محفوظ رکھتے ہیں، گویا کہ کرشن چندرکے اس افسانے کو پڑھ کر خانہ بدوشوں کی طرز زندگی پوری طرح سمجھ میں آتی ہے

 ‘‘طوفان نے ہمیں گھیر لیا تھا۔ دھند سفید تھی لیکن تاریکی سے بھی بدتر میرے اور ریوا

 کے درمیان جگدیش کہیں بیچ میں برف پر گرا ہوا تھا اور’ہم اسے اٹھا نہ سکتے تھے۔

 ریور کی آواز آئی ’’۔توازن ٹھیک رکھو۔ رسی کو دا ئیں طرف جھٹکادو ۔ ایک… در…

 تین’’۔.بڑا زور لگایا لیکن جگدیش آٹھ نہ سکا۔آخر رسی کوپل دیتے ہوئے اور برچھے

 سے کچی گھر میں باندھتے ہوئے ہیں۔ا، دیوا اور جگدیش تینوں ایک مقام پر جمع ہو گئے۔

 میں نیچے سے چل کراو پر جگدیش کے پاس پہنچ گیا اور اسی طرح ریوا اوپر سے نیچے کر آتا

 ہوا جگدیش پاس آگیا۔ جگدیش گھٹنوں کے بل نہ ہوا کراہ رہا تھا۔” کیا ہوا جگدیش؟

 میں نے جھک کر جگدیش کو اٹھاتے ہوئے پوچھا۔جگدیش سہارا لے کر اٹھ کھڑا ہوا مگر

 پھر فورا ًبرف پر بیٹھ گیا۔ مجھ سے تواب ملا بھی مر جائے گا۔ پاؤں میں ضرب آئی ہے ۔

 چاروں طرت سفید دھند بھاگئی تھی۔ ہوا میں ایک وحشیانہ تیزی تھی۔برف خاموشی سے

 گررہی تھی۔” ہو…. ہوآ….آ آ آ ہو…. ہوا……ریواا نے دو با رسیٹی بجائی رسیٹی

 کی تیز آواز کسی نوک دار خنجر کی دھاطرح تلملاتی ہوئی طوفان کو چیرتی ہوئی گزرگئی اور

 پھر چاروں طرف سناٹاچھا گیا۔’’

 بحوالہ: ‘‘کرشن چندر کے سو افسانے’’ (ص۱۰۴۱)

 ۔افسانہ‘‘ جرا اور جری’’ یہ افسانہ صرف گاؤں کے دو بھولے بھالے کرداروں جرا اور جری کی پاکیزہ محبت کی داستان تک محدود نہیں بلکہ کرشن چندر نے اس افسانے میں ہزاروں خاندانوں کی روداد کو نہایت ہی پر اثر انداز میں بیان کیا ہے ۔جنہیں ان کی مرضی کے بغیر کنٹرول لائن کی خونی لکیر کے ذریعے دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا یہ تقسیم خونی رشتوں کی ہے، تہذیب وثقافت کی ہے ، مندروں کی ہے ، مسجدوں کی ہے، کوہساروں کی ہے، آبشاروں کی ہے، کئی نوجوان دھڑکتے دلوں کی ہے ۔جہاں ایک ہی رات میں ان کی قسمت کے فیصلے کر دیے گئے چونکہ یہ افسانہ سرزمین پونچھ کے پس منظر میں تحریر ہے اسی لیے یہ وہ علاقہ ہے جسے سرحد نے دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ لہذا اس میں تقسیم کا کرب ہے ایک ایسی تقسیم جو یکایک مسلط کی گئی تھی جس کی کوئی تیاری نہ تھی یہی سبب ہے کہ اس کے زخم بھی بہت گہرے تھے جو شاید اج بھی ہرے ہیں ۔لسانی نقطہ نظر سے جرا اور جری افسانہ اپنے عنوان سے ہی علاقائی زبانوں کے اثرات سے متاثر نظر آتا ہے اور افسانے کے اختتام تک یہ اثر غالب رہتا ہے۔افسانے کا یہ اقتباس دیکھ

 ‘‘ ہاں گھراٹ کے اندر جاتے ہی وہ ایک لمحے کے لیے ٹھٹکی اور

 کچھ نا امید سی ہو گی، کیونکہ گھراٹ چل نہیں رہا تھا۔جرا چکی

 کے پاٹ کھولے ہتوڑااور کیل ہاتھ میں لیے پاٹکے دندانے

 درست کر رہا تھا’’

 بحوالہ: ‘‘ کتاب کا کفن’’(ص۱۱)

 افسانہ نگار نے پن چکی کی جگہ گھراٹ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ مویشیوں کے لیے ڈھوک چھوٹے ابشاروں کے لیے کول اور ڈنڈی کے لیے سوٹی کا لفظ استعمال کیا ہے یہ وہ لفظیات ہیں جو اس علاقے کی مقامی زبانوں سے وابستہ ہیں یہ افسانہ چونکہ خطہ پیر پنجال کی

 تہذیب و ثقافت کا علمبردار ہے اس لیے اس میں وادیوں سبززاروں کے سحر امیز فضاؤں میں معطر پاکیزہ عشق ہے اور شادی بیاہ کی رسمیں ہیں روایتی لباس اور علاقائی پیشہ پن چکی کاچلانا یا جانور پالنا ہے۔ گویا کہ یہ افسانہ ہی پوری خطے کی تہذیب کو سمجھنے کے لیے کافی ہے۔ مگر افسانے میں کلائیمکس قاری کو یک لخت جھنجوڑتا ہے۔ جب تقسیم کی لائن صرف دریا پر بہتے پل کو ہی نہیں توڑتی بلکہ زمانہ قدیم سے چلی ا ٓرہی روایتوں کو نوجوانوں نسل کوجدا کر دیتی ہے ۔جنہیں دور سے دیکھا تو جا سکتا ہے۔ ملایا نہیں جا سکتا دریا کے دونوں کنارے سدا ساتھ چلتے ہوئے مختلف ملکوں سے منسلک ہیں ۔

***

Leave a Reply