You are currently viewing گلاب کا کانٹا

گلاب کا کانٹا

مسرورتمنا

گلاب کا کانٹا

ریشماں سوچ رہی تھی اسکی آپا ترانہ سہانہ  کبھی کھلتا گلاب ہوا کرتیں تھیں ابا کے بے وقت موت نے اور آمدنی ختم نے   کمر توڑ دی نہ کوی کپڑے سلوانے آتا

نہ اب زری گوٹے کا کام ہوتا سب

ریڈی میڈ ڈریس خریدنے لگے

اماں گھروں میں کام کرتی مگر کب تک بھوک اور غریبی نےاس

گھر کا راستہ دیکھ لیا

ریشماں گھرگھر جا کر ٹیوشن پڑھاتی  اسکی  بہنیں جوانی کی حدوں کو پار کر رہی تھیں

اور بڑھاپا دستک دینے کو بےتاب

وہ کرانے کی دوکان پہ آی

رحمت نے ریشماں کو میٹھی نظروں

 سے دیکھا وہ انکا پڑوسی تھا کرانے کی دوکان تھی

رحمت میری آپاسے نکاح کر لو وہ بہت دکھ سے بول رہی تھی

مجھے تو پسند ہے رے وہ مسکرایا اور دودھ کا پیکٹ شکر اور اچھی سی چاے کا پیکٹ اسکی طرف بڑھایا اسکے پیشے لکھ لو وہ بے اعتنای سے بولی

 ریشماں تو کیوں نہیں کرتی شادی اماں دور سے اتی دکھائی دی تو ر یشماں ںنے سامان تھما دیا میں زرا سوہا سے ملکر اتی ہوں

رحمت دوکان چھوڑ کر اسکے پیچھے نکل ایا ریشماں چل ہم

اے رحمت  اپنی بہنوں کو چھوڑ کر میں تیرے ساتھ منھ کالا کروں ارے نہیں ہم  توشادی رحمت بوکھلایا

مگر دنیا تو یہی کہے گی نا میری  آپا بہت اچھی ہے کرلے اس سے شادی بہت قسمت والا ھوگا جو اس سے شادی کرےگا

تیری اپاکی عمر چالیس ہے

تیری بھی تو ہے پچاس اپناحلیہ دیکھا ہے سر کے بال غائب رنگ کم بڑھاپے کی دہلیز پر پہونچ گیا مگر تجھے تو میرے ساتھ وقت گذارنا ہے وہ منھ چڑھاتی  گوشت والے کی دوکان کی طرف چل دی

چاچا سارے فالتو گوشت مجھے دے دو بلی کو کھلانی ہے

ہاں بیٹا یہ لو ایک پیکٹ اسے تھما دیا گیا

وہ مسکراتی ہوی گھر کی طرف جارہی تھی اپا سے کہونگی اسکا سالن بنالے کم سےکم شوربہ توملے

اس نے گوشت بڑی آپا ترانہ کو

تھمایا

ترانہ نے جب گوشت برتن میں نکالا تو بہت عمدہ گوشت دیکھ کر دنگ رہ گی ایک کاغذ کا ٹکڑے میں لپٹا پانچسو کے دو نوٹ تھے اور کاغذ پر لکھا تھا

مجھ سے شادی کرلے بیوی مرنے کے بعد گھر بگڑ گیا ہے سنبھال لے ترانہ نے جلدی سے کاغذ چولھے میں ڈالا اور روپیے چھپا

لیے وہ جانتی تھی ماں کو جوان

لڑکے کی تلاش ہے مگر وہ خود چالیش سے اوپر تھی چلو کم سے کم گوشت والے سے نکاح کر کے راستہ تو کھلے گا کانٹے بھری ذندگی گلاب جیسی توبنے

اس نے ریشماں کو بتایا تو وہ اچھل پڑی آپا اسے کھانا ناشتہ

بنانے والی مل جایگی

مگر اماں کو کون سمجھاے

انہوں نے سنا تو ہنگامہ کھڑا کردیا  ریشماں بولی اماں تمہاری ساری کنواری لڑکیاں بڑھاپے کی طرف تیزی سے بڑھ رہی ہیں کونسے خوش فہمی میں ذندہ ہو

ابا کے مرنے کے بعد سارے رشتہ داروں نے منھ پھیر لیا

کس کے پاس رشتہ نہ بھیجا تمنے سب نے ٹھوکر ماری

اماں رونے لگی ٹھیک ہے جیسا مناسب سمجھو کب کرنا ہے انتظام تو کرنا ھوگا

کچھ نہیں بس نکاح ہوگا شربت

چھوارے پہ جو روف بھای خود

لاینگے ریشماں رحمت کے پاس گی تیری ماں اتنی بیمار ہے انکی دیکھ بھال بھی کرنے والا کوی نہیں تو بس جوان لڑکی پہ بیٹھا لاین مارتا پھرتا ہے روف سے آپا کا نکاح ہو رہا تم سہانہ سے نکاح کر لو تمہاری ذندگی سنور جاےگی رحمت نے کہا سچ کہتی ہے تو میرے بھی رشتے نہیں آتے

جس دن کہو نکاح کر لونگا

کل ہی عصر کے بعد

اچھا میں ماں کو لے کر اجاونگا

اور ہاں دوپہر رات کا کھانا میں بنوا دونگا میرے پاس ماں کے کنگن اور نتھ ہیں

ارے رحمت بھای ھم سب سنبھال لینگے

نہیں ریشماں تو یہ روپیے رکھ

سونے کا جھمکہ لے آ سہانہ کے لیے اور روف تو شان دکھانے کو

اپنی پہلی بیوی کے گہنے لے آیگا

وہ بھاگی بھاگی مارکیٹ گی سونے کا بندا لیا ریڈی میٹ دو جوڑی ڈریس لیے

اور گھر آکر سب کو خوشخبری دی ترانہ اور سہانہ اسکے گلے لگ گیں ریشماں تم بہت اچھی ہو ھمیشہ ایسی بنی رہنا

ریشماں مسکرادی مگر ریشماں

اب ھمارے بعد اپنے لیے سوچو

نہیں آپا میں اپنی ماں کا سہارا

ہوں ابھی کچھ وقت ہے کانٹوں

میں  ارے میری بنو تم نے ھمارے کانٹوں بھری ذندگی کو گلاب بنادیا مہکا دیا تم بھی مہکتی رھنا چہکتی رہنا

ریشماں نے مسکر کر ماں کی طرف دیکھا جو برسوں بعد مسکرای تھی

***

Leave a Reply