You are currently viewing طالبؔ کی انشائیہ نگاری”گوہر سُفتہ “کی روشنی میں

طالبؔ کی انشائیہ نگاری”گوہر سُفتہ “کی روشنی میں

محمد یاسین گنائی

طالبؔ کی انشائیہ نگاری”گوہر سُفتہ “کی روشنی میں

          نثری ادب میں فن کے لحاظ سے اگرکوئی مشکل ترین صنف ہے تو وہ بجا طور پر انشائیہ ہے۔اس کو نثر کی غزل کہنا یا پھر ذہن کی آزاد ترنگ قرار دینا زبانی خرچہ ہے کیونکہ عملی طور اس فن پر پورا اُترنا قدرے مشکل کام ہے۔ہماری دانست میں اردو کے جو بڑے بڑے انشائیہ نگار متصور کیے جاتے ہیں،ان کو ماہرِ انشائیہ اس صنف کی ذیل میں ہی نہیں رکھتے ہیں۔انشائیہ کا فن یہی ہے کہ’ انشائیہ نگار اپنے قلم کی آزادی پسند کرتا ہے،اس کی تحریر سے کسی کی دل آزاری نہیں ہونی چاہیے۔ایک بہترین انشائیہ نگار اپنی تمام گفتگو صداقت کے دائرے میں رہ کرکرتا ہے،جہاں حق ہوتا ہے وہاں نڈر پن اور بے باکی ضرور ہوتی ہے۔“(1)اتنا ہی نہیں بلکہ انشائیہ کا غیر رسمی طریق ِکار ،بے تکلفی اورانبساط اس کی اہم خوبیاں ہیں۔انفرادی نقطہ نظر، داخلی عمل،غیر علمیت،غیر سنجیدگی،غیر کہانویت،غیر سا لمیت،عدمِ تکمیل وغیرہ بھی نمایاں خوبیاں گردانی جاتی ہیں۔انشائیہ کی تعریف میں ایسا بھی کہا گیا ہے کہ انشائیہ کی پہلی اور آخری شرط یہی ہے کہ اس کی کوئی شرط نہیں ہے اور پروفیسر سید محمد حسنین کا ماننا ہے کہ:

(2)”HE CAN CATCH HOLD OF ANYTHING AND CAN MAKE SOMETHING OUT OF NOTHING“

غیر افسانوی نثر میں اس فنکارانہ صنف کی حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں ہے لیکن سائنسی تھیوری میں جیسا عموماً دیکھا جاتا ہے کہ پہلی تھیوری کو دوسری منسوخ کردیتی ہے اور تیسرا آکر دونوں پرردِتشکیل کا ٹھپا لگا دیتا ہے۔ایسا زیادہ تر علم کیمیا میں ہوتا تھا لیکن انشائیہ کے فن کی تلاش میں تاحال اس کی اصل تعریف کرنا شاید باقی ہے۔ایک طرف اردو میں اس صنف کے آغاز کا سہرا ڈاکٹر ویشسٹ ملا وجہی کی”سب رس“ (1635)کے سر باندھتے نظرآرہے ہیں اوروہ اس تمثیلی داستان میں61 انشائیوں کی نشاندہی بھی کراتے ہیں(3) اوردوسری طرف نیاز فتح پوری دو ٹوک الفاظ میں سرسید احمد خان کو پہلا انشائیہ نگارمانتے ہیں(4)۔جن کے چند انشائیہ ”گزرا ہوا زمانہ،امید کی خوشی،خوشامد“وغیرہ درسی کتابوں میں بھی شامل ہیں۔انشائیہ نگاری کو اتنا آسان سمجھنا پیچیدہ معاملہ نظر آرہا ہے کیونکہ ایک طرف ڈاکٹر وزیر آغا جیسا ماہرِ انشائیہ سرسیداحمد خان،محمد حسین آزاد،سجاد حیدر یلدرم،خواجہ حسن نظامی،

پطرس بخاری،فرحت اللہ بیگ،رشید احمد صدیقی،کرشن چندر وغیرہ کو مکمل انشائیہ نگار ماننے سے انکار کرتا ہے(5)۔دوسری طرف سید محمد حسنین بھی وزیر آغا کی روش اپناتے ہوئے سرسید،محمد حسین آزاد،ذکا اللہ،ڈپٹی نذیر احمد،مولاناحالی،شبلی نعمانی، عبدالحلیم شرر،ناصر نذیر فراق،وحید الدین سلیم وغیرہ کے پُرلطف تاثرات سے مملو نثر پاروں کو انشائیہ سمجھنا درست قرار نہیں دیتے ہیں(6)۔اس نظریاتی کشمکش کے پس وپیش جموں وکشمیر میں انشائیہ نگاری کے آغاز کے حوالے سے بات کرنا سورج کو آنکھ دکھانے کے مترادف نظر آتا ہے۔

          جموں وکشمیر کے انشائےہ نگاروں نے منہ کا ذائقہ بدلنے کےلئے ایک آدھ انشائیہ لکھنے کے بعد اس صنف سے منہ موڑلینے میں ہی بھلائی سمجھی ہے ۔یہاں اس صنف کے آغاز کا سہرا سالگ رام سالک کے سر جاتا ہے،کیوں کہ ان کے انشائیوں کا مجموعہ”گنجینہ فطرت یا مناظرِ فطرت“ بیسویں صدی کے آغاز ہی میں شائع ہوا تھا۔ اس مجموعے کے انشائےوں مےں کشمےر کے مناظر سے متعلق عمدہ موضوعات ملتے ہیں ۔ جن مےں” کوہستان کی عام سےر، کوہستانی جنگلوں کی بہار ، پہاڑی چشمے اور آبشار ، پہاڑی مکان ، برفانی لٹکن ،برفانی طوفان ، ےخ بستگی ، برفانی شگاف ، پہاڑوں مےں خطرہ“ وغےرہ قابل ذکر ہیں ۔ان کے ےہ موضوعات نہاےت ہی دلچسپ اور دلکش ہیں اور ان کا اسلوب فطری ، سلےس اور شگفتہ ہے ۔انشائیہ ” برف کی لٹکن“سے ایک نمونہ پیش کرتے ہیں :

 ”جہاں کہیں برف کا انبار موجود ہوتا ہے ۔وہاں سے پانی کی دھارےں برابر جاری ہوجاتی ہیں ، اور سوائے بادل کے ،بلکہ سخت دھوپ مےں اس طرح موسلا دھاربارش کا ہونا خوب لطف دکھاتا ہے ۔اس مصنوعی بارش مےں اگر چہ بادل ، بجلی اوربادلوں کے گرجنے کا نام و نشان نہیں ہوتا ، لےکن تےزی اور تندی مےں ےہ بارش بھی بجنسہ قدرتی بارش کے مشا بہ ہوتی ہے ۔۔۔لےکن آفتاب ہونے اور رات کے آنے کی دےر ہے ےہ تر کرنے والے قطرے اپنے اپنے گرنے کے مقاموں پر جم جاکر لٹک جاتے ہیں “۔ (7)

ایسا لگتا ہے کہ ڈاکٹر ویشسٹ نے جن خوبیوں کی بنا پر”سب رس“میں61 انشائیے تلاش کیے ہیں،کچھ ایسا ہی معاملہ سالک کے ان مضامین کا بھی ہے،جو دراصل سفرنامے کے عمدہ نمونے معلوم ہوتے ہیں۔جب ہم سالک سے معشوق تک جموں وکشمیر میں اس صنف میں طبع آزمائی کرنے والوں کے انشائیوں پر فنی لحاظ سے جائزہ لیتے ہیں تو متعدد قلمکاروں کے اِکادُکا انشائیے ملتے ہیں جبکہ کم قلیل تعداد میں صاحبِ مجموعہ انشائیہ نگار ملتے ہیں۔اگر ناموں کی ایک سرسری فہرست ترتیب دیں تو درج ذیل انشائیہ نگار سامنے آتے ہیں۔مرزا غلام حسن بےگ عارف، وےر ےشےشور،پنڈت نرائن جُورےنہ عنقا، پنڈت دےناناتھ نادم ، پنڈت دےنا ناتھ وارےکو شاہد کاشمےری، پریم ناتھ پردیسی، پنڈت وشوا ناتھ در ماہ ،پنڈت تارا چند ترس سالک ، محمد الدین فوق، تےرتھ کاشمیری، پنڈت گنگادھر بٹ دیہاتی، نشتر کاشمیری ، پنڈت آفتاب رام کاو،نےاز کاشمےری ،عبدالرحمن زکی ،پرتھوی ناتھ کول، پنڈت جےالال کول ، اسےر کاشمےری، حکےم غلام حسےن مخمور ،اندر جےت لطف ، منوہر لال دل ، محبوبہ ےاسمےن ،منہاسن ، اللہ رکھا ساگر ، صادق کاشمےری ،رونق کاشمےری ،رسا جاودانی ، اعجاز ساقی ،دےا کرشن گردش ، کشن سمےل پوری ، حمےد نظامی ، حبےب کےفوی،معراج الدےن احمد ، غلام حےدر خان چستی ، عبدالرحمن جامی، پنڈت اومکار ناتھ کول ، نندلال واتل ،غلام محمد مشتاق، ،محی الدےن حاجنی ،اختر محی الدےن ،غ م طاوس ، ستار شاہد،مرزا محمود بےگ ، مسکےن، محمدزماںآزردہ،برج پریمی ،شمیم احمد شمیم،منصور احمد منصور،دیپک بدکی ،غلام حسن طالب،محی الدین زور کاشمیری،شفیع احمد ،اندر کرشن کول المعروف طالب کاشمیر ی،راجہ نذر بونیاری،مرزا محمود بےگ ،کاچو اسفند یار خان ،گلزار احمد وانی،زنفر کھوکھر ،محمد شفیع ایاز،ڈاکٹر الطاف شاہین،سلیم سالک،شبینہ آرا پٹھان،مصروفہ قادر،ایس معشوق وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ان میں کسی حد تک پروفیسر محمد زماں آزردہ کو ملکی سطح پر پذیرائی ملی ہے۔ ان کے مجموعی طور پر انشائےوں کے نو مجموعے شائع ہوچکے ہیں ۔ جن میں ”غبار ِخےال،شےرےں کے خطوط ،غبارِ کارواں،کانٹے، گلدستہ ، سن تو سہی “وغیرہ میں کچھ بہترین انشائیے شامل ہیں ۔

جن میں”ون وے ٹریفک،ادیب،بیل،ذکر بمبی کا،پیشے کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے،

حضرت مدیر،باز آئے سچ بولنے سے،شادی کو سودا سمجھنے والوں کے نام،حادثہ“ وغیرہ شامل ہیں۔ وہ انشائےہ نگاری کی فنی بارےکےوں ، نزاکتوں اور گہرائےوں کا خاص خےال رکھتے ہیں۔ان کے پہلے مجمو عے ’ غبارِ خےال “کے پےشِ لفظ مےں پروفےسر شکےل الرحمن لکھتے ہیں :

”غبار خیال “ کے انشائےوں مےں جو تا ثرات ہےں اور جذبوں کے آہنگ کا جس طرح اظہار ہو اہے ان سے زماں صاحب کے داخلی ہےجان اور ذہن کی لہروں پر تےز دوڑتی ہوئی چنگارےوں کی بے تابی اور لفظوں کی صورتوں مےں انکی ”آزادی“ کو سمجھا جا سکتا ہے ۔ داخلی ہےجان ، بے تاب چنگارےوں کاتےز سفر اور ان چنگارےوںکا انتشار اور انکی آزادی ۔۔اس آرٹ کی بنےادی خصوصےات ہیں ۔ محمد زمان آزردہ کے انشائےوں کے مطالعہ سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ ان بنےادی خصوصےات سے واقف ہیں ۔ انکی سوچ ،محنت اور رےاضت سے ےہ آرٹ ان کا اپنا آرٹ بن سکتاہے“۔(8)

 جموں وکشمیر میں آزادی سے پہلے غیر مسلم انشائیہ نگاروں نے اس صنف کو خاصا فروغ پہچایا ہے جبکہ ہجرت کے بعد مسلم قلمکار ہی زیادہ اس صنف کی آبیاری میں پیش پیش نظر آرہی ہیں۔ جموں وکشمیر میں انشائیہ نگاری کی طرف جہاں بہت کم لکھنے والوں کا التفات نظر آتا ہے اور وہیںنقد ونظر کے حوالے سے بھی مایوسی ہوتی ہے۔تاحال جموں وکشمیر میں انشائیہ کے آغاز وارتقا کے حوالے سے کوئی بھی کتاب یا تحقیقی مقالہ منظرعام پر نہیں آیا ہے۔ البتہ کشمیریونیورسٹی،برکت اللہ یونیورسٹی،بھوپال اوردیوی اہلیہ یونیورسٹی، اندور سے کشمیر کے تین ریسرچ اسکالروں نے” جموں و کشمیر میںغیر افسانوں نثر“ کے حوالے سے سندی تحقیق کا کام انجام دیا ہے اور ضمنی طور پر انشائیہ نگاری کا ایک باب بھی رقم کیا ہے۔ عرفان الحق نے”جموں وکشمیر میں اردو انشائیہ نگاری“کے نام سے ایک کتا ب مرتب کی ہے اور اس میں تیرہ انشائیہ نگاروں کے ایک بہترین انشائیہ کو بطور انتخاب شامل کیا ہے۔ ماہنامہ شیرازہ اردو(جموں وکشمیر اکیڈیمی آف آرٹ کلچر اینڈ لینگویجز سرینگر)کا ”انشائیہ نمبر“ بھی اس ضمن میں اہمیت کا حامل ہے اوراس میں نہ صرف انشائیہ نگاری کے آغاز وارتقاءپر ڈاکٹر گلزار وانی کا مضمون شامل ہے بلکہ دس انشائیہ نگاروں کی تین تین تخلیقات کوبھی شامل کیا گیا ہیں۔ اکیسویں صدی کا پہلاچوتھائی حصہ ختم ہونے کو ہے اورابھی تک یہ صنف پس وپش کا شکا رنظر آرہی ہے۔جموں وکشمیر کے انشائیہ نگاروں کے درجنوںمجموعے بھی منظرعام پر آچکے ہیں تو ان کی روشنی میںاس صنف کے مستقبل کے حوالے سے بحث شروع ہوسکتی ہے۔

           انشائیہ نگاری کی قسمت کہیں یا بدقسمتی کہ ایک سترسالہ بزرگ اچانک2024کے آخر میں اپنے انشائیوں کا مجموعہ”گوہرِ سُفتہ“لیے سخنوروں اور دانشوروں سے استفسار کرتا ہے کہ یہ بھی انشائیے ہیں بلکہ انشائیہ کے تراشے ہوئی پیکر ہیں۔قسمت یوں کہ دیر سے ہی سہی ایک اچھا انشائیہ نگار تو مل گیا اور بدقسمتی اس سبب کہ پروفیسر محمد زماں آزردہ کا ہم جماعت اب تک کہاں چھپا ہوا تھا یا چھپے کے لیے مجبور کیا گیا تھا۔”گوہر سُفتہ “جموں و کشمیر کے ایک مستند اور نامور قلمکار غلام حسن طالب کے چھبیس انشائیو ں کا مجموعہ ہے۔ یہ بھی واضح کرنا درست ہے کہ طالب کے تخلص سے تین مشہور ریاستی قلمکار ر تعلق رکھتے ہیں(9)۔ زیرِنظرکتاب کی ضخامت 196 صفحات ہیں،جہاں تک انشائیوں کے موضوعات کی بات ہے، تو کچھ موضوعات جیسے”بڑھاپا،چہرے،دل،شرافت،نام ساکھ،آنکھیں،زبان “سراپا نگاری کے ذیل میں آتے ہیں اور چند انشائیے ”جان پہچان،صبر،خانہ داری،پروا،گالی گلوچ،لائف سٹائل،“انسان کے کام کاج اور مختلف تجربات و مشاہدات و حادثات پر مشتمل ہے۔یہ انشائیے رشید احمد صدیقی کے ”چار پائی“اور”دعوت“ کے طرزسے ملتے جلتے ہیں،حالانکہ مصنف ڈاکٹروزیر آغا سے زیادہ متاثر ہیں۔زیر ِنظر انشائیے زبان،اسلوب،غیررسمی اندازِ بیان،بے تکلفی،اختصار،اظہارِذات،معاشرتی وسیاسی مسائل غرض ہر لحاظ سے بہترین انشائیے نظر آتے ہیں۔یہ انشائیہ کے فن پربھی پورے اُترتے ہیں ،حالانکہ حتمی فیصلہ پروفیسر محمدزماں جیسا عالم اور ماہرِ انشائیہ ہی کرسکتا ہے۔مجھے جس چیزنے اس پر لکھنے کی ترغیب دی وہ ان انشائیوں کی تہ داری اور متنوع جہتیں ہیں۔ ”گوہر سفتہ“ کے مختلف پہلوؤں یا اس کی مختلف جہتوں پر روشنی ڈالنے کی اشد ضرورت محسوس ہوتی ہے کیونکہ ان میں اظہار ِذات سے مطالعہ کائنات تک،سرکاری نوکری وچاکری سے سیدھی سادی زندگی کے اُن تجربات ومشاہدات کا اظہار وانکشاف کیا گیا ہے کہ عصرِ حاضر کے بیروکریٹ حضرات کو بھی راہِ ہدایت اور راہِ نجات ملتی نظر آرہی ہے۔

           پہلی جہت اس بحث وتکرار سے شروع ہوسکتی ہے کہ غلام حسن طالب کوئی نوآموز قلم کار نہیں ہے اورنہ انہوں نے حالِ سال ہی میں ادبی دنیا میں قدم رکھا ہے بلکہ وہ ماضی بعید سے’ جب راقم کی عمر کے طالب علم عالمِ ارواح میں ہی تھے ‘تب سے وہ اخبارات کے لیے کالم،رسائل وجرائد کے لیے مضامین، ریڈیو میں بطور کیجول آٹسٹ کام شروع کرچکے تھے۔ ان کا دور کچھ کچھ وہی ہے جو پروفیسر محمد زمان آزردہ،شمس الدین صدیق، م ۔م صادق وغیرہ کارہا ہے۔ ان کی پہلی تخلیق کون سی ہے؟ وہ کب شائع ہوئی تھی؟ انہوں نے کب پہلا انشائیہ لکھا ہے؟، انہوں نے کن مشاہیرکے مشورے سے لکھنے کی طرف دلچسپی لی تھی؟ یہ تمام غور طلب سوالات ہیں۔ ان کے مختصر تعارف سے کچھ باتیں عیاں و بیان ہوسکتی ہیں۔ غلام حسن طالب کی ولادت 1944 میں نیوہ پلوامہ کے ایک چھوٹے سے گاوں، ملواری میں ہوئی ہے۔ انہوں نے کشمیر یونیورسٹی سے 1981 میں ایم ۔اے اردو کی ڈگری پراﺅیٹ امیدوار کی حیثیت سے حاصل کی تھی۔ ان کے علمی و ادبی، سیاسی و ثقافتی مضامین روزنامہ خدمت، آفتاب، سرینگر ٹائمز، کشمیر اعظمی، محکمہ اطلاعات کا ترجمان رسالہ تعمیر وغیرہ میںشائع ہوتے رہیں ہیں۔ ان کے ابتدائی زمانہ کے انشائیوں میں ”مقابلہ بازی، بس سفر، بچوں کے ساتھ بازار نکلنا”“وغیرہ شامل ہیں۔ یہ انشائیے کب لکھے گئے ہیں اور کس اخبار میں شائع ہوئے تھے،ان کا صحیح جواب مصنف ہی دے سکتا ہے۔وہ ریڈیو کشمیر کے ساتھ بطور کیجول آرٹسٹ 1959 سے وابستہ رہے ہیں۔ 1988 میں وہ ایجوکیشنل براڈکاسٹنگ کے لیے پروڈیوسر منتخب ہوئے تھے،لیکن اسی دوران کے اے ایس (KAS)کا امتحان پاس کرکے سرکاری کاموں میں مصروف ہوگئے اور یوں وہ ایک بیوروکریٹ کی حیثیت سے ادبی دنیا کے بجائے ایڈمنسٹریٹو معاملات میں محو ہوگئے۔ لہٰذا اس منصب پر فائز رہتے ہوئے ادب پروری کا کام انجام دینا قدرے مشکل ہوگیا۔شاید یہی وجہ ہے کہ ان کا ہم جماعت (پروفیسرآزردہ)پونے درجن انشائیوں کے مجموعے شائع کرتا ہے اوران کو(طالب) نوکری سے سبکدوش ہونے کے بعد فرصت ملتی ہے جیسے ان کے اندر کا قلمکار جاگ جاتا ہے اور وہ پے در پے چار کتابیں تخلیق کرتے ہیں، جن میں دو کتابیںکشمیری زبان میں ہیں اور دوکتابیں”ارضِ کشمیر میں ظہور اسلام“اور ”گوہرسفتہ“ اردو زبان میں منظر عام پر آتی ہیں۔ وہ بہت عرصے تک بطور معلم بھی خدمات انجام دیتے رہیں ہیں اور آج بھی درس وتدریس کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔

          ”گوہرِ سُفتہ“ ایک ایسا نادر نثری نمونہ یا ادبِ لطیف ہے کہ اس کی کمی برسوں سے محسوس کی جارہی تھی اور اس کے چرچے بہت دوردور تک ہونے والے ہیں۔ان کے ہر انشائیہ کی مثال ایک پیاز جیسی ہے ،جس طرح پیاز کی ایک پرت کے اندر دوسری پرت ہوتی ہے ٹھیک اسی طرح ان انشائیوں کا مطالعہ کرتے جائیں تو رنگا رنگ اور خوشگوار پرتیں اور تہیں کھلتی جارہی ہیں۔ طالب کے انشائیوں کی مختلف جہتیں ،پرتیں یا جدتیںسمجھنے کے لیے ان کے ستر سالہ ادبی کیریئر کو بھی جاننا ضروری ہے اور تب جاکر ان کے انشائیوں کے فکر و خیال تک پہنچا جاسکتا ہے، ورنہ ان انشائیو ں کا مطالعہ کارِ درد یا کارِ دیگر والا معاملہ ثابت ہوسکتا ہے۔یہاں مصنف اور ان کی تخلیق کو ساتھ ساتھ پڑھنے اور جاننے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر سیدہ جعفر کا یہ نکتہ بھی پیش کیا جاسکتا ہے:

”انشائیہ وہ مخصوص قسم کی تحریر ہے جس میں شخصی تجربات،تاثرات اور ذاتی رجحانات اور ان کے ردعمل کو موثر اور دلکش انداز میں مرقع کشی کی جاتی ہے“۔(10)

 غلام حسن طالب کے ان چھبیس انشائیوں کا مطالعہ کرکے نہ صرف بڑا لطف ملتا ہے بلکہ ادبی لحاظ سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ان کے زیرِ نظر مجموعے کے چند اہم ادبی پہلووں یا جہتوں پر روشنی ڈالنے پر اکتفا کرتا ہوں،تاکہ اس کی اہمیت وافادیت کو قارئین تک پہنچایا جاسکے اور ریاست میں انشائیہ کی جڑیں مضبوط اوریہ فن باکمال بن سکے۔ڈاکٹر ہاجرہ بانو انشائیہ کے فن کے حوالے سے لکھتی ہیں:

”انشائیہ نے سیاسی،سماجی،نظریاتی،فلسفیاتی،کیفیاتی،جغرافیائی،تاریخی اور ادبیاتی غرض ہر میدان کے ہر گوشے کو اپنے آئینے کے پہلوﺅں پر جگہ دی ہے۔اس کی تحریر کے زاوئیے اپنے عنوان کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے فوراً بدلتے جاتے ہیں تاکہ قاری کو زیادہ سے زیادہ مواد کم سے کم الفاظ میں پڑھنے کو ملے“۔(11)

زیرِ نظر انشائیوں کی مختلف پرتوں ،جہتوں اور جدتوں کو سمجھنے کے خاطر ان انشائیوں میں فن کے حوالے سے علمیت،سیاست،سماجیات،

ادبیات،تانیثیت،شاعری،قواعد وغیرہ کے درجنوں پہلووں کے حوالے سے روشنی ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پہلے پہل ان انشائیوں میں بے تکلفی،بے ربطی،رنگینی،کھوج،استدلال،علمیت کے حوالے سے بات کرتے ہیں۔ ان انشائیوں میں جو چیزیں علمیت ،کھوج اور استدلال کا مظاہرہ نظرآتی ہیں،کیا واقعی ایسا ہی ہے یا پھریہ چیزیں بے تکلفی،بے ربطی اوررنگینی کے عمدہ شاہکارہیں۔ انشائیہ میں نشاط،انبساط اورخوش طبعی کو علمی وادبی ،سماجی واصلاحی،سیاسی وتانیثی،معاشی واقتصادی پہلوﺅں پر ترجیح حاصل ہوتی ہے اور اختصار اس کی جان سمجھی جاتی ہے اورپروفیسر ابن کنول نے ایک درویشانہ نکتہ یوں سمجھایا ہے:

 ”انشائیہ ادب کی وہ صنف ہے جس میں معمولی سے معمولی اور بڑی سے بڑی بات کو اختصار کے ساتھ شگفتگی اور شادابی کو اس کا جزولازم سمجھ کر ایک مخصوس انداز میں اس طرح بیان کیا جائے کہ اس پر مصنف کی شخصیت کی چھاپ بھی نمایاں رہے۔ (“12)

(1) لغوی معنی اور مترادفات کا پہلو:

          جب ہم زیرِ بحث کتاب میں شامل تمام انشائیوں کا بغور مطالعہ کرتے ہیں، تو ہر انشائیہ کے موضوع کے حوالے سے لغوی معنی، مترادفات اور اقسامِ موضوع پر مفصل بحث ملتی ہے۔ انشائیہ کا فن بے تکلفی و بے ربطی کا متقاضی ہوتا ہے اور علمیت وسا لمیت کی نفی کرتا ہے۔حالانکہ اگربے تکلفی وبے ربطی کی موجوں میں علمیت آجائے تو کوئی عیب نہیں اور اس کا اندازہ ومشاہدہ ایک قاری کے مقابلہ میں تخلیق کار ہی کرسکتا ہے کہ اُس نے ان چیزوں کو ٹھوس ٹھوس کر انشائیہ میں ڈالا ہے یا پھرروانی قلم،سیلانی افلاک اور ذہن کی ترنگ کے سبب ایسا ادب وقوع پذیر ہوا ہے۔”گوہر سفتہ“ کے متعدد انشائیوں کے آغاز میں موضوع کی مناسبت سے لغوی معنی،اس کے مترادفات اور اقسام پر روشنی ڈالی گئی ہے۔معنی اور مترادفات کے پہلو سے مصنف کی علمیت کا خاص اظہار ملتا ہے لیکن انشائیہ میں علمیت کا اظہار لازمی نہیں ہے۔ایسی چند مثالیں یوں نظر نواز ہوتی ہیں:

”کرسی کی معانی میں جہاں چوکی، تخت، مسند، گدی اور سنگھاسن جیسی طرح طرح کی نشستیں بیان ہوئی ہیں۔۔ “(کرسی، ص: 29)

” بڑھاپا کے کئی نام ہیں جیسے پیری، کہنہ سالی، پیرانہ سالی، یا یوں بھی پکارتے ہیں جیسے پیرِ مرد، پیرِزن، عمر رسیدہ، بزرگ شہری وغیرہ۔ (بڑھاپا، ص: 52)”صبر سے مراد برداشت، طمانیت، تسلی، راضی، خوشی، بردباری، تحمل، توقف، تامل اور اطمینان ہے“(صبر، ص: 61)

”راستہ سے مراد راہ، سڑک، گزر گاہ، روڑ، رواج، قاعدہ، دستور، ڈھنگ، طریقہ وغیرہ ہیں“(راستہ، ص 77)”نمک سے مراد نون، کھاری پن، سانولاپن، ملاحت، سلونی چیز کا ذائقہ شوخی کلام کا لطف، روزینہ، تنخواہ وغیرہ ہیں۔۔۔ شکر انگریزی لفظ شوگر کا ترجمہ ہے جس کی معنی کھانڈ، چینی، بورا وغیرہ ہیں“۔ (نمک اور شکر، ص:82)” سایہ سے مراد لغوی طور پر چھائیں، چھاوں، پرتو، عکس، حمایت، حفاظت، سرپرستی، صحبت کا اثر، آسیب، جن بھوت کا اثر وغیرہ ہیں“۔(سایہ، ص:115)”لوح کا مطلب سیدھے سادے لفظوں میں لکھنے کی تختی یا قبر کے سرہانے کا پتھر یا سیل ہے۔ قلم کی معانی بھی اسی انداز میں لکھنے کا آلہ، یا رنگ سازی و مصوری کا برش ہے“۔ (ص:132)”آنکھ لفظ کی اہمیت اس کے مفہوم کے حوالے جن الفاظ سے اُجاگر ہوتی ہے ،وہ اس قبیل کے ہیں۔ نین، چشم، دیدہ، نظر، نگاہ، بینائی، بصارت، ایما، عشوہ، غمزہ، توجہ، شناخت، امتیاز، بصیرت، حق شناسی“۔(آنکھیں، ص:109)” فرصت لفظ کے مترادفات مہلت اور فراغت ہیں“۔ (ص:148)

(2)محاورات اور کہاوتوںکا پہلو :

          محاورات اور کہاوتوں کی ادبی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا ہے اور اس خوبی کو بھانپتے ہوئے طالب نے ہر انشائیہ میں موضوع کی مناسبت سے چند محاورات، کہاوتوں اور ضرب الامثال کو شامل کیا ہے۔ ان میں اگرچہ چند محاورات کا بار بار استعمال گراں گزرتا ہے لیکن انشائیہ کو سمجھنے میں معاون ثابت ہورہے ہیں۔یہاں بھی بے تکلفی اور علمیت کا سوال ذہن میں آسکتا ہے۔ایک اچھا قاری خود بھانپ سکتا ہے کہ ان محاورات اور کہاوتوں کو ٹھونسا گیا ہے یا پھر خود بہ خود تخلیق کار کے ذہن سے اختراع ہوئیں ہیں۔ چند محاورات اور کہاوتیں کی نشاندہی سے بات کو سمجھا سکتا ہے۔”زندگی زندہ دلی کا نام ہے، مردہ دل کیا خاک جیا کرتے ہیں۔(انتظار، ص:34)، جیسا کرو گے، ویسا پاو گے(ص:46)،مہد سے لہد تک(ص:104)،آنکھوں سے آنکھیں ملنا، آنکھیں پھیر لینا، آنکھوں کا تارا، آنکھ کی پتلی، آنکھ مارنا،

(ص:113)،سایہ افگن،گئے تھے نماز بخشوانے، گلے پڑے روزے(ص:148)،دام آوے کام، زبان سے نکلی کوٹھے چڑھی، زبان بدلنے سے کوچہ بدلنا بہتر ہے“”عشق و مشک چھپائے نہیں چھپتے؛ ہاتھ سے گیا ہواوقت اور کمان سے نکلا ہوا تیر واپس نہیں آتا“(انتظار، ص:36)،مجبوری کا نام زندگی ہے؛ آدمی آدمی انتر، کوئی ہیرا کوئی کنکر؛ مچھیروں نے جال پھینکنا سیکھ لیا جبکہ مچھلیوں نے اچھل کود سیکھی؛ زر آیا، سرخی آئیں؛ زبان ہی ہاتھی چڑھادے، زبان ہی عمر کٹوادے؛نظر سے اوجھل، دل سے اوجھل، “۔محاورات،کہاوتوں اور ضرب المثل سے زبان کے ذخیرہ الفاظ کے خزانے میں وسعت پیدا ہوتی ہے اور ایسا کسی بھی طریقے سے کیا جائے تو ادب میں جائز ہے لیکن انشائیہ میں بے تکلفی وبے ربطی ایسی شرط ہے کہ کوئی بھی تخلیق کار ان شرائط کو نظر اندازنہیں کرسکتا ہے۔

(3)اشعار کا پہلو :

          نثر میں شعر کہنا اور شاعری کو نثر میں سمجھانا اپنے اپنے وقت پربڑے سود مند ثابت ہوتے ہیں۔مصنف نے یوں تو ہر انشائیہ میں موضوع کی مناسبت سے چند خوبصورت اشعار استعمال کیے ہیں۔ ان اشعار سے موضوع پر ایک نرالے انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے۔ اگرچہ کچھ قارئین کو اشعار کی بھرمار سے مطالعہ کرنے میں خلل محسوس ہوگا لیکن اکثر اشعار کو بڑی چابک دستی سے استعمال میں لایا گیا ہے۔ایک سوال کھڑا ہوسکتا ہے کہ کیا واقعی انشائیہ میں اشعار کا استعمال لازمی ہے؟،لیکن ایسا ہرگزلازمی نہیں ہے۔ہمارے برگزیدہ انشائیہ نگار جیسے محمد حسین آزاد سے محمد زماں آزردہ تک کچھ اچھے شاعر بھی رہے ہیں لیکن ان کے انشائیوں میںشاذ شاذ ہی اشعار ملتے ہیں۔طالب کے چند موضوعات کی مناسبت سے اشعارکے برمحل استعمال کی چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں :

باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں               کار جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر

(انشائیہ، انتظار، ص: 36)

بوڑھا ہو، تیرے بال ہوں اے مہ جبین سفید        کافور کی طرح سے ہو یہ مشک چین سفید

(انشائیہ، بڑھاپا، ص:53)

چین بر جبین نہ اے بت چین رہ غرور سے           تصویر کا ہے عیب جو چہرہ بگڑ گیا

(انشائیہ، چہرے، ص:60)

ہر دھڑکتے پتھر کو لوگ دل سمجھتے ہیں               عمریں بیت جاتی ہیں دل کو دل بنانے میں

(انشائیہ ،دل، ص:68)

اپنے ہوئے بیگانے تو بندی کا خدا ہے                 پروا کسی کے نہیں ملنے کی ذرا ہے

(انشائیہ، پروا، ص: 104)

نگاہ قہر کے آسیب نے وحشی کیا مجھ کو                میرا سایہ اتارو دامن چشم ترحم سے

(سایہ، ص:119)

چھتری لگا کے گھر سے نکلنے لگے ہیں ہم               اب کتنی احتیاط سے چلنے لگے ہیں ہم

(چھتری، ص:145)

سانس لیتا ہوں میں کتابوں میں                     گفتگو شاعری میں کرتا ہوں

(کتاب، ص:166)

ان چھبیس انشائیوں میں نہ صرف عنوان کی مناسبت سے اشعار کا انتخاب جمع نہیں کیا گیا ہے بلکہ مناسب جگہ پر موضوع پر دلالت کی غرض سے کل ملا کر40 اشعار کا استعمال کیا گیا ہے،اگر آدھے شعر یعنی مصرعوں کو بھی شامل کیا جائے تو تعداد پچاس تک پہنچ جائے گی، حالانکہ چند اشعار کو بار بار دہرایا گیا ہے لیکن ان پر الگ الگ موضوع کی مناسبت سے فٹ ان سچویشن (Fit in Situation)کی اصطلاح رائج ہوتی ہے۔یہ پہلوبھی علمیت کا دائرے میں آتا ہے کہ واقعی اتنے اشعار بے تکلفی کی مثالیں ہیں یا پھر مصنف نے موضوع کی مناسبت سے تھکا دینے والی محنت،قابلیت اور علمیت کا مظاہرہ کیا ہے۔

(۴)اقوال زریں کا پہلو:

”اقوال زریں اچھے ہوتے ہیں۔انہیں پڑھو تو مثبت طاقت کے خلیے خون میں مل کر سارے جسم میں گردش کرنے لگتے ہیں۔دل کرتا ہے اقوال کی جو خوشبو ہم محسوس کررہے ہیں سارا عالم اسی عطر میں مہک اُٹھے۔“(13)

زندگی میں خوبصورت اور پُر تاثر اقوالِ زریں کی لامحدود اہمیت ہوتی ہے۔ ان اقوال سے انسان کے دل میں نیکی کا جزبہ پیدا ہوتا ہے اور اقوال زریں کے تخلیق کارسے بھی دلی مناسب پیدا ہوتی ہے۔ سرسید تحریک کے اصلاحی پہلو کے پیش نظر ڈپٹی نذیر احمد نے اصلاحی ناول لکھے تھے اور نذیر صاحب اُن ناولوں سے جو کام لینا چاہتے تھے، طالب بھی عربی، فارسی، انگریزی، اردو وغیرہ کے عالموں کے اقوالِ زریں سے وہی کام لینے کے طالب وشائق نظر آتے ہیں۔ چند موضوعات کے پیش نظر لکھے گئے اقوال سے اپنی بات سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں :شیخ سعید شیرازی کا قول ہے:

”ایک انسان کی ساری عمر اچھے دنوں کے انتظار میں گزر جاتی ہے، بعد میں پتا چلتا ہے کہ جو دن گزر گئے وہی اچھے تھے“(انتظار، ص:38)

ارسطو سے پوچھا گیا، عالم اور جاہل میں کیا فرق ہے؟ جواب دیا جاہل عالم کو نہیں جانتا، کیونکہ وہ کبھی عالم نہیں رہا لیکن عالم جاہل کو جانتا ہے کیونکہ وہ خود جاہل رہ چکا ہے“ (جان پہچان، ص:39) انگریزی کا قول” چیئر شوز دی مین(Chair shows the man)“

ایک عربی قول:”من عرف نفسہ فقد عرفہ ربہ(جس نے اپنے نفس کو پہچانا گویا اس نے خدا کو پہچانا“(جان پہچان، ص:43)

مولانا رومی کی ایک لمبی حکایت ہے:”کہتے ہیں کہ ایک چڑیا اور چڑا ایک درخت کی شاخ پر بیٹھے تھے۔ دور سے ایک شکاری آتے دکھائی دیا۔ چڑیا نے چڑے سے کہا چلیے، اب اڑجائیں گے یہ ہمیں مار دے گا…….. (شرافت،ص:74)

          یہ چار پہلو ایسے ہیں جن میںبظاہر علمیت وادبیت کا پرتو نظر آتا ہے لیکن انشائیہ کا فن ان چیزوں میں قید نہیں ہے۔انشائیہ میں ادبیت،فلسفیت،علمیت اور سا لمیت صرف اس اعتبار سے قابلِ قدر چیز ہے ،جب اس میں بے تکلفی وبے ربطی پائی جائے او رایسا محسوس نہیں ہونا چاہیے کہ انشاءپرداز ہمیں کچھ سکھانا چاہتا ہے یا اپنی فلسفیت جھاڑ رہا ہے۔ادبیت،علمیت اور سا لمیت کے لیے الگ سے اپنی مقررہ اصناف موجود ہے ۔یہاں فاضل مصنف مبارکبادی کا مستحق ہے کہ مختصر انشائیوں میں اتنی چیزوں کا اظہار کیا ہے۔انشائیہ نگاری میں صرب الامثال اور اشعار یا قابلیت اور حاضر دماغی کو اس صنف کے لیے سمِ قاتل سمجھا جاتا ہے۔اس ضمن میںجامعہ اردو علی گڑھ کے رسالہ ادیب میں”ادیب کامل“کے نام سے چھپے مضمون سے انشائیہ نگاروں کو بہت کچھ سیکھنے کو مل سکتا ہے،وہ لکھتے ہیں:

”بعض انشاپردازوں کو عادت ہوتی ہے کہ ہر موقع پر کوئی نہ کوئی ضرب المثل،شعر یا مصرعہ ضرور چسپاں کردیتے ہیں‘اور اس کو اپنی قابلیت اور حاضر دماغی کی نشانی سمجھتے ہیں۔اس طرزِ انشاپردازی کے رواج کی وجہ یہ ہے کہ یہ طریقہ قدیم زمانے میں بہت مرغوب تھا،اور یہ وہی قدیمی اثر ہے جو اب تک چلا آتا ہے۔۔اس لیے اشعار اور ضرب الامثال کو بہت کم موقعوں پر استعمال کرنا چاہیے۔۔البتہ کبھی کبھی اور کہیں کہیں کسی عمدہ شعر کو برمحل دہرانا گفتگو اور تحریر کے لطف کو ضرور دوبالا کردیتا ہے لیکن اس کی عمومیت سے بے لطفی اور بد مزگی پیدا ہوتی ہے۔“(14)

(5)مذہبی پہلو:

          ادب کو عام طور پر پر زندگی اور سماج کا آئینہ تصور کیا جاتا ہے اور حق بجانب بھی معلوم ہوتا ہے۔جس طرح ادب ، زندگی اور سماج کا رشتہ نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے،ویسے ہی ادب اور مذہب کا رشتہ یک مشت نظر انداز کرنا قابلِ قبول نہیں ہے۔دنیا کا کوئی بھی مذہب ہو،

چاہیے کو ئی دینِ اسلام کی طرح قدیم ترین ہو یا پھر عصرِ حاضر کاکوئی نوآموز مذہب ہو،ہر مذہب اپنی استعداد کے مطابق ادب کو موضوعات،لفظیات،مصادر وغیرہ کے لحاظ سے وسعت عطا کرتا ہے۔آسمانی صحیفوں میں پائی جانے والی تشبیہات،استعارات،کنایات،

تلمیحات،واقعات سے بھی ادب میں بہت کچھ لکھنے کی گنجائش پیدا ہوتی ہے۔دینِ اسلام کے حوالے سے اگر بات کریں تو صرف اردو زبان میں انبیائے کرام،ان کی آسمانی کُتب،ان کی قوموں کی تاریخ،آسمانی کُتب کے تراجم،تفاسیر،انبیائے کرام کی سیرتیں وغیرہ اردو کا بیش بہا خزانہ ہے۔ طالبکا تعلق ایک معزز مسلم گھرانے سے ہے، لہٰذا انہوں نے حسبِ روایت وعقیدت بار بار مسلم اقدار، مسلم کلچر، مسلم روایات، مسلم معاشرہ، مسلم طرزِ زندگی کے پیشِ نظر تاریخِ اسلام سے درجنوں تلمیحات،تشبیہات،استعارات اور واقعات کا ذکر کیا ہے۔

انہوں نے دین کو عملی طور پر اپنانے اور اس پر چلنے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اتنا ہی نہیں دیگر مذاہب کے حوالے سے بھی اچھی باتیں بیان کی ہیں۔ ادب او رمذہب کے لازم وملزوم رشتے کے حوالے سے رضی مجتبیٰ لکھتے ہیں:

”ادب اور مذہب دونوں ہی زندگی کی بہتر تشکیل وتعمیر کے خوگر ہیں۔دونوں ہی عقل ودانش کے منظم استعمال کے قائل ہیں اور دونوں انسانی جذبات مثلاً محبت واحترام،خوف وہراس اورسچ کی جستجو کے قائل ہیں۔ادب اور مذہب دونوں ہی انسان کے ضمیر اور اس کے ارادے کے تقاضوںاورانسان کی آزادی،بھلائی اور اس کی قوتِ ارادی کے دائرہ عمل کے قائل ہیں“۔(15)

ایک ادیب چاہیے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو،اس کی تخلیقات چاہیے شعری ہو یا نثری یا غیر نثری ان میں مذہب کا کسی نہ کسی لحاظ سے عمل دخل ضرور رہتا ہے،کیونکہ ادب اور مذہب کا ایک دوسرے کے ساتھ قریبی رشتہ پایا جاتا ہے۔مذہب ادب کے لئے موضوعات فراہم پیش کرتا ہے جبکہ ادب مذہب کی تشہیر وتشکیل،تبلیغ واظہار کی راہیں ہموار کرتا ہے۔طالب کے انشائیوں میں پیغمبران ِ اسلام کی تلمیحات،اللہ تعالیٰ کے ناموں کا ذکر،رام رحیم،عرش وفرش وغیرہ کا ذکر ملنا یہی ظاہر کرتا ہے کہ وہ ایک تخلیق کار کی حیثیت سے مذہب کی روشنی میں ادب سمجھانے اور اس کے رشتے کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔چند مثالیں :”عرش سے فرش تک اپنا جاہ و جلال قائم کرنے کے لئے پروردگارِ عالم نے عرش ِاعظم اور کرسی کی تخلیق آناً فاناً کر کے رکھ دی، جنہیں فرشتگاں سہارا دینے پر مامور ہیں “(کرسی، ص:29)

” ایک انسان کی دنیاوی تمنائیں جتنی کم ہوں گی، اتنے ہی حساب سے اس کے انتظاروں کا بوجھ ہلکا ہوگا“(انتظار، ص:36)”حضرت حوا کی تخلیق حضرت آدمؑ کی طرح الگ سے نہیں کی گئی ہے بلکہ مشیتِ ایزدی سے اس کی تخلیق حضرت آدمؑ کی باہیں پسلی سے ہوئی ہے۔۔۔ آدم زادی خود بہ ذات نہیں ہے بلکہ مردِ حیات کا ایک جز ہے“(جان پہچان، ص:41)”رام رحیم کی اصطلاح دو دھرموں ہندومت اور دینِ اسلام کے ماننے والوں میں مروج ہیں۔ ہندو لوگ خدا کو بھگوان کے نام سے پکارتے ہیں۔۔۔بہرحال اللہ تعالیٰ کے اور بھی صفاتی نام ہیں جن میں جلالی اسما ءجیسے قہار، جبار اور جمالی جیسے رحمان اور رحیم وغیرہ ہیں۔“ (نام ساکھ، ص:95)،”جس نے دوسروں کو ماں یا بہن کی گالی دی تو گویا اس نے اپنی ہی ماں یا بہن کو ان کی کسی جرم ضعیفی کے لیے مرگ مفاجات کی سزادی“۔(گالی گلوچ،ص:124)”جب ہندوستان میں بعض لوگ جانوروں کی آواز سے شگون لیتے ہیں تو پھر ہم کیوں نہ ساعتِ حسن یا ساعت ِسعید کو آوازِ خلقِ نقارہ خدا کی مثل نعمت خدا وندی سمجھیں“۔(ساعتیں، ص:129)”انسانوں کے لیے ایک مذہبی ایڈوائزری ہے کہ وہ کبھی بھی کسی قسم کی سالن یا ضیافت کا مزہ نہ ملنے پر کڑوا کڑوا، تھو تھو، میٹھا میٹھا، ہپ ہپ کرنے سے احتراز کریں“۔(زبان، ص:159)

          اگرچہ مصنف نے جگہ جگہ مختلف چیزوں اور مختلف لوگوں کو ہدف تنقید بنایا ہے، لیکن اس مجموعے میں کچھ چیزیں مذہبی پہلو کے تحت ہدفِ تنقید بھی بن سکتی ہیں، جیسے اللہ تعالی کو بے پروا کہنا اور لوح محفوظ کی مشاہبت لارنس کی جمعبندی سے دینا۔مثلاً”بے پروا تو خالق کائنات ہے کیونکہ وہ صمدیت، بے نیازی اور غیر فانی ہونے کے سبب خود کسی کا محتاج نہیں ہے جبکہ ساری مخلوقات اس کی محتاج ہے۔ لہٰذا اس کا بے پروا ہونا حق بجانب ہے“(پروا، ص:103) ”اگر ہم لوحِ محفوظ سے پردہ اٹھائیں تو یہ وہ تختی ہے جس پر خدا نے دنیا میں ہونے والے ہر فعل کی نسبت ابتدا سے انتہا تک اسی طرح اندراج کیا ہے جس طرح نعوذ باللہ لارنس نے زمینی رقبہ جات کا جمعبندی اور نقشہ حدود بست میں کرایا تھا“۔ (لوح و قلم، ص:134)انشائیہ نگاری کے فنی لوازمات میں موضوع کی اہمیت کے ساتھ ساتھ مناسب الفاظ کے استعمال پر زور دینا لازمی ہے اور”بے پروا“اس رُو سے مناسب لفظ معلوم نہیں ہوتا ہے اور دوسری طرف مصنف لارنس کی جمعبندی کی نکتہ چینی کرنے کا خواہاں معلوم ہوتے ہیں لیکن تقابل یا مشاہبت کے معاملے میں غیر ذمہ داری کا ثبوت پیش کیا ہے۔زبان میں سلاست وملائمت کے ساتھ ساتھ نرمی،غیرجانبداری اورادبیت ہونا لازمی ہے۔

(6)سیاسی پہلو :

          ادب اور سیاست کا گہرا تعلق پایا جاتا ہے۔لیکن ادب کو کسی بھی لحاظ سے اور کسی بھی موڑ پر سیاست کا آلہ کار نہیں بننا چاہیے۔

ادب اور سیاست کے تعلق سے اعجاز حسین، ڈاکٹر احسن فاروقی،علی سردار جعفری،ممتاز شیرین وغیرہ نے بہترین تنقیدی کام سرانجام دیا ہے۔سیاست اور ادب میں سیاسی جماعتوں اور ان کی کارکردگی کی نکتہ چینی بھی شامل ہوتی ہے اور ان کی اچھی پالسیوں کی سرہانا کرنا بھی شامل ہوتا ہے۔برصغیر میںسیاست شجرہ ممنوع بن چکی ہے اور اس پر بات کرنا آ بیل مجھے مار کے مترادف سمجھا جاتا ہے لیکن طالب کا تعلق ایک بڑے عہدے سے رہا ہے اور انہوں نے زندگی کے قیمتی سال ایک آفیسر بلکہ ایک بیروکریٹ کی حیثیت سے گزارے ہیں اور حسبِ دستور ان کا اٹھنا بیٹھنا بڑے بڑے آفیسروں اور سیاست دانوں سے رہا ہے اور ان کو قریب سے دیکھنے کا موقع بھی ملا ہے۔ اس وجہ سے ان کے زیرِ نظر انشائیوں میں جگہ جگہ اشاروں اور کنایوں کی شکل میں سیاست، سیاست دان اور سیاست کی باتیں پڑھنے کو ملتی ہیں۔پہلے چند مثالیں دیکھتے ہیں :

”کرسی کے لیے رسہ کشی یا جنگ فی الحقیقت اقتدار حاصل کرنے کی لڑائی ہوتی ہے “۔(کرسی، ص:32)،”ایک بار جو سیاست دان کرسی نشین ہوجاتا ہے وہ ایک جنونی عاشق کی طرح اپنی محبوبہ یعنی کہ کرسی کی جدائی گوارا کرنے کی موڈ میں نہیں ہوتا ہے۔شاید اس لیے کہ سیاست دانوں کی مقدر میں ریٹائرمنٹ یا بڑھاپا لکھا ہی نہیں گیا ہو“۔(کرسی، ص:33)،”قلم کا راج تو دنیا پر ہے ہی، لیکن سیاسی طور بھی اس نے حکومتوں کے اندر قلم دان وزارت کے طور پر رسائی حاصل کی ہے۔۔۔جمہوری حکومتوں میں وزیروں کے اپنے اپنے ذمے عہدے قلم دان وزارت کہلاتے ہیں“۔(لوح و قلم، ص:136)،” چاپلوسی کا لفظ اول الذکر میں آکر سیدھے سیاست دانوں اور بابو لوگوں کے لیے فٹ دکھائی دیتا ہے۔ اس ڈپلومیٹک لفظ کی مدد سے سیاست گری اور حکمرانی پروان چڑھتی ہے“۔(خوشامد یا چاپلوسی، ص:175)

          ان مثالوں سے واضح نظر آتا ہے کہ وہ کسی خاص پارٹی کی نکتہ چینی نہیں کرتے ہیں اور نہ کسی خاص سیاسی جماعت کے لیے تعریفوں کے پل باندھتے نظر آتے ہیں۔وہ سیاست کا ایک اجمالی خاکہ پیش کرتے ہیں کہ دیگر پیشوں کے مقابلے سیاست ایک عجیب وغریب قسم کا پیشہ ہے جہاں سبکدوش ہونے کا کوئی امکان نہیں ہوتا ہے اور نہ کسی دوسرے عہدے کی طرح خاص تعلیمی قابلیت کی ضرورت ہوتی ہے۔یوں ان کے سیاسی شعور کے پیشِ نظر ان کے اشارات ممتاز شیرین کے اس بیان پر کھرے اُترتے نظر آرہے ہیں:

”ادب کا تعلق زندگی سے ہے،سیاست زندگی کا صرف ایک جزو ہے۔زندگی کے ایک شعبے کی حیثیت سے ادب میں سیاست کا بھی گزر ضرورہے۔یہاں ادب کو سیاسی نہ بنانے سے میرا مطلب صرف یہ ہے کہ ادب محض کسی Ideologyکا آئینہ یا کسی سیاسی پارٹی کا آلہ کار بن کر نہ رہ جائے۔یہ بھی نہیں کہ ادب کا سیاست سے کوئی واسطہ ہی نہیں“۔(16)

(7)سماجی و معاشرتی پہلو :

          ان انشائیوں کا ایک حسین پہلو سماجی و معاشرتی زندگی کی عکاسی کی شکل میں ملتا ہے۔جس کو عرفِ عام میں عمرانیات یا عمرانی تنقید بھی کہا جاسکتاہے۔ مصنف اگرچہ پیشہ کے لحاظ سے اعلیٰ عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں اور بطور ایک بیروکریٹ زندگی میں امیر اور غریب، ظالم اور مظلوم دونوں سے واسطہ پڑا ہے، لیکن ان کا تعلق ایک طرف دیہات سے ہے اور دوسری طرف دینِ اسلام پر عملی طور پر چلنے والے مسلمان کی طرح طرزِ زندگی گزارنے والے شخص کا ہے، لہٰذا ان کے انشائیوں میں جگہ جگہ معاشرتی اور سماجی مسائل کا ذکر ملتا ہے۔

معاشرے کی بات کشمیری معاشرہ یا مسلم معاشرہ کے حوالے سے ملتی ہے ۔ ادب اور معاشرے کا رشتہ نہ صرف قدیم بلکہ قریب ترین ہے۔

ایک انشائیہ نگار بھی اپنے معاشرے کا آئینہ پیش کرتا ہے۔میلکم براڈبری اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:

”ادب معاشرہ کے متعدد گہرے معانی کو مرتب کرکے انہیں منور کرتا ہے اس لئے یہ بھی معاشرہ سے متعلق نظر آنے کے ساتھ ساتھ ایک معاشرتی ادارہ کی حیثیت بھی اختیار کر لیتا ہے۔یہ فن کارانہ تخلیقات اور اقدار کا ایسا نقطہ اتصال ہے جو تخلیق کاروں اور قارئیں میں ہم آہنگی کا باعث بنتا ہے۔یہ معاشرتی ابلاغ کا ایک خاص انداز بھی ہے اور ہماری ذہنی جستجو اور تخیل کا براہِ راست اظہار بھی قرار پاتا ہے“۔(17)

 طالب کے زیرِ نظر انشائیوں میں معاشرتی وسماجی زندگی کی عکاسی کی درجنوں مثالیں کشمیر میں شادی کے ماحول،میلوں ٹھیلوں،تعلیم وتربیت،

ملازمت،رسم ورواج،پرانی یادوں وغیرہ کی شکل میں ملتی ہیں۔ان کی مدد سے نہ صرف کشمیر کے شاندار ماضی و اقدار کی صورت جلو گر ہوتی ہے بلکہ نئی نسل کو بھی محسوس ہوجاتاہے کہ ہمارے اسلاف کیسی زندگی گزرتے تھے۔چند مثالیں یوں ملتی ہیں؛ ”لوگ اب شادی بیاہ کی تقریبوں وغیرہ کے لئے ایامِ خاص مقرر کرتے وقت موسم کی تازہ جانکاری لینے کا انتظار کرتے ہیں “۔(انتظار،ص: 36)، ” ایک نو زائد بچہ جب ماں کا دودھ پینا شروع کرتا ہے تو اس کے ساتھ ساتھ اس کے رٹنے کی استعداد کے مطابق اپنے عزیز و اقارب کے نام پکارنا سکھایا جاتا ہے “۔(جان پہچان، ص:39)، ”طوقِ غلامی یعنی کہ سرکاری ملازمت سے فارغ ہونے کے بعد ایک سبکدوشی ملازم کے ساتھ اپنے سماج کے لوگ ویسا ہی برتاؤکرتے ہیں جیسا اس نے دورانِ سروس ان کے ساتھ کیا ہو“۔(ریٹائرمنٹ، ص:46)، ” بڑھاپا کے لیے داڑھی کا رکھنا باعث ِرحمت ہوتا ہے، کیونکہ اسے خدا کا نور بھی کہا جاتا ہے۔ ایسے افراد کا سماج میں کافی احترام کیا جاتا ہے“۔ (بڑھاپا، ص:53)

” کھانا کھانے کی جلدی، کل نہیں آج ہی سفر پر جانے کی جلدی، میزبان کے گھر سے اپنے گھر جانے کی جلدی، نئی چیزیں لانے کی جلدی وغیرہ وغیرہ۔یہ وہ جلدیاں ہیں جو آئے دن ہماری روزمرہ زندگی کو پریشان کرتی رہتی ہیں“۔ (صبر، ص:64)”کشمیری لوگوں خاص کر دیہاتیوں کو نون چائے پینے کا اتنا نشہ ہوتا ہے کہ وہ گھر سے باہر کسی دور ملک کے سفر کے دوران اس قسم کی چیزیں اپنے ساتھ اُٹھاتے ہیں “

(نمک اور شکر، ص:85)”سماج کے لیے اس سے بڑا ناسور اور کیا ہوسکتا ہے کہ آج کل بچے بوڑھے، جوان مرد و زن رات اپنے موبائل فونوں کو آنکھوں آنکھوں میں سحر ہوجانے تک ٹکٹکی باندھنے سے باز نہیں آتے ہیں “۔(آنکھیں، ص:111)” پرانے زمانے میں نب والے قلم استعمال ہوتے تھے۔سکولوں میں پرائمری جماعتوں کے لیے ایرانی طرز کے ناگری قلم بچوں سے تختی یا مشق لکھوانے کے لیے رائج تھے“۔(لوح و قلم، ص:133)”اس دنیا میں ہر بشر کسی نہ کسی ضرورت کا محتاج ہوتا ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ کسی وقت ایک رئیس زادے کو بھی معمولی سی چیز ملنے کی مجبوری ہوتی ہے“۔(مجبوری، ص:139)”ڈیجیٹل سسٹم میں کتاب جو دلہن کی مانند ہوتی ہے، اپنی شناخت کھو بیٹھی ہے۔لکھنے والے اگرچہ کثرت سے ہیں لیکن پڑھنے والے بہت کم ہیں“۔(163)

          ”گوہر سُفتہ“ سے لیے گئے ان اقتباسات کی روشنی میں صاف نظر آتا ہے کہ یہاں صرف ماحول کی بات ہورہی ہے ۔عمرانی نقاد کی طرح موصوف نے ایک مخصوص سماج اور معاشرے کا تجزیہ پیش کیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ مصنف نے سماج اور معاشرے کے ہر شعبہ کی عکس بندی کی ہے اور ہر شعبہ کی عکاسی میں حقیقت نگاری اورتازی کاری کی عمدہ مثال پیش کی ہے۔سماج اور معاشرے کی عکاسی کے ضمن میں ادب اور زندگی کا رشتہ بھی مضبوط کیا ہے اور مجنون گورکھپوری کے اس قول کی یاد تازہ کی ہے:

”کامیاب ترین ادب وہ ہے جو حال کا آئینہ اور مستقبل کا اشاریہ ہو،جس میں واقعیت اور تخیلیت،افادیت اور جمالیت ہم آہنگ ہو کر ظاہر ہوں،جس میں اجتماعیت اور انفرادیت دونوں مل کر ایک مزاج بن جائے جو ہمارے ذوقِ حسن اور ذوقِ عمل دونوں کو ایک ساتھ آسودہ کرسکے۔“(18)

(8)تانیثی پہلو :

          عصرِ حاضر میں تانیثی ادب نے اپنی ایک الگ پہچان بنا لی ہے اور نہ صرف خواتین بلکہ مرد بھی ہرمیدان میں عورتوں کے خلاف ایک سردآہ کو آناً فاناً جنگل کے آگ کی مانند ہوا دیتے نظر آرہے ہیں۔اکیسویں صدی میں ادب کے مختلف پیروکار اپنے اپنے نظریے اور تھیوری کی حفاظت میں لگے ہوئے ہیں اور ایک نئے قلمکارکو طبع آزمائی کرتے وقت اس بات کا خیال رہنا چاہیے کہ وہ ایک سنسان وادی سے گزررہا ہے اور گردونواح میں خوبصورت پھل دار پیڑ سے جتنا چاہیے بنا اُجرت کے پھل کھا سکتا ہے لیکن کسی بھی پیڑ کے بارے میں چاہیے مزا آئے یا نہ آئے،پھل میٹھا ہو یا نہ ہو اوراس پیڑ کا کوئی فائدہ ہے بھی یا نہیں ،اس حوالے سے زبان درازی کی اجازت قطعی نہیں ہیں ۔ان حالات میں نہ صرف یہ پیڑ اور اس کے پھل انسانی شکل میں حاضر ہوکر جواب طلبی کریں گے بلکہ کھرا کھوٹا بھی سنا سکتے ہیں اور شہرِ بدر کا حکم بھی نافذ کرسکتے ہیں۔کیونکہ ہر ایک پیڑ کسی نہ کسی نظریے،تحریک،دبستان،رجحان کا حامی ہے۔تانیثی رجحان بھی اسی وادی کا ایک خوبصورت پیڑ ہے ،لہٰذا کسی بھی چیز کا مزاق اُڑانا اس کے حامیوں کو قابلِ قبول نہیں ہوسکتا ہے۔تانیثیت میں عورتوں کے حقوق کی بات کی جاتی ہے۔ ایک طرف مصنف عورتوں کے حقوق کی بات کرتے نظر آرہے ہیں لیکن دوسری طرف عورتوں کی مختلف چیزوں،عادتوں اورخصلتوں پر اس انداز میں طنز کرتے ہیں جیسے وہ ان کے مدِمقابل کھڑا ہے۔ ایسا اس لیے بھی نظر آتا ہے کہ انشائیہ نگاری میں طنز و مزاح کا انداز اپنایاجاتاہے۔ انشائیہ کا فن یا اس صنفِ نازک کی تعریف میں یہ بھی شامل ہے کہ کسی کی دل آزاری نہیں ہونی چاہیے،یہ کسی فرد،کسی مذہب یا کسی ذات کی زنجش کا باعث نہیں بننا چاہیے۔انشائیہ صرف نشاطی ،انبساطی اورمسرت کی فراہمی کا باعث ہونا چاہیے۔چند مثالوں سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیا انشائیہ نگار ہنسی مذاق میں ایسی چیزوں کی طرف اشارہ کر سکتا ہے یا نہیں۔کیا انشائیہ کا فن ان چیزوں کی اجازت دیتا ہے یا نہیں۔حنا روحی ادب اور تانیثیت کے حوالے سے لکھتی ہیں:

”فیمنزم عورت کی وہ پہچان ہے اور اس کی شناخت کا وہ ہتھیار ہے جس کے ذریعے وہ مرد معاشرے کی بے حسی،آمریت،یک طرفہ حکومت،جبریت،انانیت،بے زبان عورت پر مرد کی بالادستی،عورت کی ہنسی اور مسکان پر مرد کی دقیانوسی سوچ کے تالے،عورت کی عصمت پر مرد کی جسمانی عیاشی کے خلاف کھلم کھلا اظہار ہے۔اپنی شناخت کے لئے عورت صدیوں سے برسرِپیکار رہی ہے۔کبھی تاریخ کا سہارا لیتی ہے تو کبھی لٹریچر کے سمندرمیں ڈوب کر اپنی شناخت کے موتی ڈھونڈلاتی ہے۔کبھی تو وہ اپنے آنچل کو پرچم بنا کرآزادی کے گیت گاتی ہے تو کبھی اپنے پیروں میں بندھی زنجیروں کو توڑ کر اپنی بلند آواز سے معاشرے کی بے حسی کو جگانے کی کوشش کرتی ہے“۔(19)

تانیثی پہلو کے تحت طالب کے انشائیوں میں مثبت اور منفی دونوں لحاظ سے مثالیں ملتی ہے۔مثبت سے میری مراد ان چیزوں سے ہے جہاں صاحبِ انشائیہ نے عورتوں کے حقوق اور یکساں سلوک ودرجے کی بات کی ہے جیسے”خاتون کا چہرہ داو پر لگانے کی رسم صدیوں سے چلی آرہی ہے مگر افسوس کہ شاید ہمارے سماج نے بنتِ حوا کو حقِ استزاد سے نا معلوم وجوہات کی بنا پر محروم رکھا ہے۔ چنانچہ کبھی کبھی نسوانی چہرے باعث ِنزاع لفظی بن جاتے ہیں“۔ (چہرے، ص:57)مثبت مثالوں کے مقابلے میں منفی رجحان کی مثالیں زیادہ ملتی ہیں،جہاں ایک فیمنسٹ ان چیزوں کو جلد اور ضرور گرفت میں لے سکتا ہے۔وہاںایسی مثالوں سے خواتین کا کسی حد تک مذاق بنایا گیا ہے۔جیسے ”نسوانی نزاکت والے نام سے مشابہ بے جان کرسی جو ایک زمانے میں صندلی کے نام سے چرچا میں تھی“۔(کرسی، ص:29)”گھونگٹ والی خواتین کے چہرے مردوزن کے مخمصوں میں رائے دہندگان کی طرح غیر جانبدار رہ کر زندگی گزارنے کا عندیہ دیتے ہیں۔۔۔ نقاب پوش خواتین اپنے چہروں سے حجاب ہٹانے میں سخت رویہ ہوتی ہے، البتہ دلہنوں کے معاملے میں لین دین شامل ِرسم ہونے کے سبب ساس کے ذمہ نئی دلہن کا گھونگٹ اٹھانا مقصود ہوتا ہے “۔(چہرے، ص:59)”سالہاسال سے چلائی جارہی رسومات ِبد کے خلاف تحریک اس لیے زیادہ بار آور ثابت نہ ہوسکتی کیونکہ خانہ داری کے ساجھی بیوی نے فرسودہ رسم و رواج سے چھٹکارا پانے کی تحریک کا ساتھ نہ دیا۔جس میں اسے گھر کی جملہ عورت ذات کی حمایت بھی شامل تھی۔ الغرض خانگی نظام چلانے کے دوران بعض گھرانوں میں مردوں کی اکثریت بیوی کا غلام بن کر رہ جاتی ہے “۔(خانہ داری، ص:90)،”مادری زبان میں گالیوں کی لین دین کے دوران عجیب و غریب سماں باندھنے میں خواتین کا زیادہ رول رہتا ہے۔ ان کے ہاتھوں میں کوئی پہلے سے تیار کیا ہوا سکرپٹ نہیں ہوتا پھر بھی وہ اپنے سراپا کی نرالی حرکتوں سے خود ساختہ ڈائلاگ خوبصورت انداز میں آلاپتی ہیں “۔(گالی گلوچ، ص:120)

          ایک فیمنسٹ کا کام یہی ہوتا ہے کہ تخلیق کیے گئے ادب میں عورت اور اس کی ذات کے حوالے سے کس قسم کا رویہ اختیار کیا گیا ہے۔کیا ایسا تو نہیں کیا گیا ہے کہ ایک عورت کی تضحیک کی گئی ہے،اس کے اختیارات پر ڈھاکہ ڈالا گیا ہے،اس کو مرد کے مقابلے میں کمزور دکھایا گیا ہے،خواتین کرداروں کو کس انداز میں پیش کیا گیا ہے۔اس طرح کے سینکڑوں سوالات ایک فیمنسٹ کے ذہن میں ہوتے ہیں، جب وہ تانیثیت کی رُو سے کسی تخلیق کا مطالعہ کرتا ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ تخلیق کار کو ناقد و محقق کے مقابلے میں زیادہ اہمیت حاصل ہے ،

کیونکہ دورانِ تخلیق اس کو تمام تحریکات،رجحانات اور نظریات وتصورات کا خیال رکھنا پڑاہے کہ کوئی بات کسی کے خلاف سرزد نہ ہو نے پائے۔

(9) طنزو مزاح کا پہلو:

          طنز و مزاح ایک الگ اور باقاعدہ صنف کی شکل میں اپنی حیثیت منوا چکی ہیں لیکن انشائیہ نگاری کے فن میں طنز و مزاح نگاری کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ ادبیات میں انشائیہ صنف ہے جبکہ طنزومزاح وصف مانا جاتا ہے۔زیرِنظر انشائیوں میں طنز کے چابک دست حملے اور مزاح کی خوبصورت گرہیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔اگر یوں کہا جائے کہ اس میں طنز و مزاح کا پہلو سب سے نمایاں ہے تو بے جا نہیں ہوگا۔

 اگرکسی انشائیہ میں طنزومزاح کاپہلو ملتا ہے تو یہ تخلیق نگار کی کامیابی مانی جاتی ہے مگر صرف اس حد تک کہ وہ طنز ومزاح میں ڈوبنے اور لوٹ پوٹ ہونے کے بجائے سطح پر رہتے ہوئے اپنا کام انجام دینا چاہیے۔ان دونوں چیزوں کو خلط ملط بھی نہیں کرنا چاہیے۔مزاح کو انشائیہ کا جوہرِ اعظم خیال کیا جاتا ہے۔انشائیہ اور طنز ومزاح کے رشتے کے حوالے سے ڈاکٹر سید محمد حسین لکھتے ہیں:

”ظرافت اور ہجو سے انشائیہ کے حسن میں چار چاند لگ جاتے ہیں۔یہ انشائیہ کے وہ رنگ ہیں جس سے اس کی فضا میں دھر کھیلی برپا ہوجاتی ہے۔یہ دھول خیالات اڑائی جاتی ہے،یہ دھول دھپا کا نتیجہ نہیں ہوتی۔۔۔اچھے انشائیوں میں ظرافت وہجو کے رنگ نہایت پختہ ہوتے ہیں۔یہاں ہجو کا دوررس اور ظرافت کا بلند پایہ ہونا لازمی ہے“۔(20)

 سید محمد حسین کی اس تعریف کی روشنی میں طالب کے زیرِ نظرانشائیوں میں جگہ جگہ ہنسی مزاق،طنزو مزاح،ہجونگاری کی مثالیں ملتی ہیں ،ان میں مصنف نے ایک سیلانی کی حیثیت سے ان چیزوں کی طرف اشارہ کیا ہے اور خود اپنے سفر پر رواں دواں نظر آتے ہیں۔ان چند مثالوں میں طنزومزاح کے ہلکے پھلکے اشارے ملتے ہیں۔”مجھے مردوں کے اعزازی ناموں سے چڑ کیوں ہے۔۔۔ اگر زن شناس کی اصطلاح مستعمل نہیں ہے تو پھر آدم زادے کس کی ایما پر مردِ آہن، مردِ حق، مردِ میدان، مردِ خدا اور مرد بچہ جیسے ناموں سے یاد کیے جاتے ہیں “۔(جان پہچان، ص:41)،”یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ شادیوں سے قبل لڑکے، لڑکیوں کے چہرے مہرے دیکھ کر اپنی اپنی پسند کا اظہار کرتے ہیں لیکن مرد کے چہرے کا ذکر شاذ شاذ ہی کیا جاتا ہے“۔ (چہرے، ص: 57)”گویا زمانے نے پلٹا کھایا ہے۔ صبر ایوب کی بات کیا کریں اب تو لوگ صبر ِجمیل کا رسک بھی لینا نہیں چاہتے“۔ (صبر، ص:65)” مجھے ایسے حضرات بھی دیکھنے کو ملے جو بغیر شکر یا چینی کے چائے کی چسکیاں کیک کے بڑے بڑے ٹکڑوں کے ساتھ لیتے ہیں “۔(نمک اور شکر، ص:85)” غلام محمد ولد محمد مقبول نام کے بجائے ممہ ولد مغہ اور سلیمہ بیگم بیوہ ثنا اللہ کے بجائے سلیمہ بیوہ سونہ لکھا ہوا پایا“ ۔(نام ساکھ، ص:99)” مشاہدے میں آیا ہے کہ عموماً غریب لوگ پروا کرنے کا عمل جوں توں کرکے اپناتے ہیں جبکہ زیادہ تر امیر لوگ لاپرواہی ہوتے ہیں اور ان کی پروا ان کے مال و دولت میں گم ہوکر رہ جاتی ہے“۔(پروا، ص:107)”وہ انسان ہی کیا جسے کسی غیر محرم عورت کو پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے کے دوران اپنے محارم میں سے اپنی ماں، بہن، بیٹیوں کی پرچھائیاں نہ پڑیں“ ۔(آنکھیں، ص:114) ” جس کسی کے سر پر اس کا(منگھالی پرندہ) سایہ پڑے، وہ بادشاہ بن جاتا ہے“۔

 ( سایہ، ص:116)” وہ میاں بیوی کی جوڑی جو گہرے سہاگ کی بدولت ایک دوسرے کا سایہ بن کر ساتھ ساتھ رہنے کا وعدہ کرتے ہیں۔

وہ زیادہ تر زن ِمرید کے نام سے پکارے جاتے ہیں“۔ (سایہ، ص:118)”اپنے غصے پر قابو نہ رکھتے ہوئے وہ کم سن اور جوان کو ماں اور بہن جبکہ بوڑھے کو بیٹی کی گالی دینے پر اُتر آتے ہیں، گویا وہ اپنی فحش کلامی سے دوسروں کو غیر شرعی طور فرضی ساس، بیوی یا سسر بنا کر سماج میں جرمِِ خفیف کا ارتکاب کرتے ہیں جو سراسر اخلاقی اقدار کے منافی ہے“۔ (گالی گلوچ، ص:123)”کتنا بڑا المیہ ہے کہ سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں میں فقط پڑھائی جانے والی کتابیں زندہ ہیں ،وہ بھی طلاب کے جزدانوں اور ہاتھوں میں ہونے کے سبب ورنہ باقی جتنی بھی ہیں، پڑھنے کے دوران لاش گھروں کی مانند لائبریریوں، کتب خانوں اور کتاب گھروں میں زندہ درگور ہیں “(کتاب، ص:161)ان چند مثالوں سے صاف نظر آتا ہے کہ مصنف ایک انشائیہ نگار کی حیثیت سے اپنا کام کرکے آگے بڑھ جاتا ہے،نہ کہ ایک طنزو مزاح نگار کی حیثیت سے معاشرے کو ان خامیوں اور غلاظتوں سے پاک وصاف کرنے کا حامل نظر آتا ہے۔وزیز آغا کی اس تعریف سے انشائیہ اور طنزومزاح کا رشتہ عیاں ہوتا ہے:

”طنز معاشرے سے غلاظت کو دور کرنے کا اہتمام کرتی ہے اور مزاح گندگی کو پھیلانے والے گرد بار کا زور کم کرکے گویا گندگی کو پھیلنے سے روکتا ہے مگر انشائیہ فرد کو تخلیقی سطح پر لاکر اسے ارتقاءکی دوڑ میں آگے جانے کی ترغیب دیتا ہے۔طنز اور مزاح کی حیثیت سماجی اور اخلاقی ہے اور وہ لوگوں کو ادب کے مقصد کے تابع کرنے کے حق میں ہیں‘ طنزومزاح کی افادیت پر فوراً ایمان لے آتے ہیں مگر انشائیہ کی اہمیت اس بات میں ہے کہ وہ پورے معاشرے کو تخلیقی سطح پر فعال بناتا ہے اور فرد کو مکر وہات دنیا سے اوپر اُٹھا کر صاحبِ کشف یاVISIONARY کے مقام پر لے آتا ہے“۔(21)

(10)سائنسی پہلو :

”سائنس اور ادب ایک دوسرے کے لیے معین ومددگار ہیں۔یہ دونوں باہمی اتفاق سے انسان کی تخلیقی قوت کی مکمل نمائندگی کرتے ہیں۔ایک دوسرے کی ضد قرار دینا یا ایک دوسرے پر فوقیت دینا انسانی حقیقت کو نہ سمجھنے کے مترادف ہے۔ادب کا منبع صرف تخیل قرار پاسکتا ہے جبکہ سائنس کا سرچشمہ صرف اور صرف عقل ودانش ہے“۔(22)

اس اقتباس کی روشنی میںطالب کے انشائیوں کا سائنسی پہلو بڑی اہمیت کا حاملنظر آتا ہے کیونکہ یہ تخیل کے بجائے عقل ودانش کا اعلیٰ نمونہ فراہم کرتے ہیں۔فاضل مصنف نہ صرف اعلی تعلیم یافتہ ہیں بلکہ ایک بڑے اور اہم عہدے پر بھی فائز رہ چکے ہیں، وہ بیک وقت ایک عالم اور معلم بھی ہے اور سائنسی ایجادات سے بھی واقفیت رکھتے ہیں اوروہ ایک نرسنگ کالج کے ساتھ بھی منسلک ہے گویا ان کی تخلیقات میں سائنس کا عمل دخل ایک لازمی چیز ہے۔ انسان کی زندگی میں سائنس کی اہمیت کتنی ہے، وہ اس سے بخوبی واقف ہیں، لہٰذا اس مجموعے کے لگ بھگ تمام انشائیوں میں سائنسی پہلو جا بجا ملتا ہے۔ چند مثالیں :

 ”زراعت اور باغبانی سے وابستہ لوگ بیج بونے، فصل کاٹنے، دوائیاں چھڑکنے اور کھاد ڈالنے جیسے موقعوں پر پہلے موسمی اطلاعات کے منتظر رہتے ہیں، اس کے بعد ہی کام دھندے کے دن مقرر کرتے ہیں “۔(انتظار، ص:36)”تاہم سائنس اور ٹکنالوجی نے کسی نئی جگہ یا منزل کو ڈھونڈ نکالنے کے لیے گوگل میپ کی خدمات میسر رکھی ہیں۔اس خصوصی سہولت کی بدولت کوئی بھی انسان جس کے پاس موبائل ہو، راستہ بھٹکنے سے بچ سکتا ہے“۔ (راستہ، ص:79)،”یاد رہے کہ کسی بھی سالن میں نمک تیز یا برابر ہونے سے ایسے رگوں کا بلڈ پریشر بڑھ سکتا ہے جن کو یہ عارضہ پہلے ہی لاحق ہوا ہو“۔(نمک اور شکر، ص:83)”زمانے کا ورق اُلٹ جانے سے آنکھوں دیکھا یا دیکھی صورتحال کے لیے سی سی ٹی وی کیمرہ آنکھوں کے دیکھنے سے زیادہ موثر ہے کیونکہ اس میں شب و روز کی حرکات و سکنات عکس بند ہوتی ہیں“۔(آنکھیں، ص:110)ان چند مثالوں سے اشارہ ملتا ہے کہ ادب اور سائنس ابتدا سے ہی ایک دوسرے کے معاون مددگار رہے ہیں۔پرانی داستانوں میں موجودہ سائنسی ایجادات کا ذکر فوق الفطری شکل میں ملتا ہے اور اکیسویں صدی کا ادیب سائنسی انکشافات وایجادات کو اپنے ادب کے ذریعے موشگاف کرنی کی پہل کرتا ہے۔

(12)قواعد کا پہلو :

          جب کسی تخلیق کا جائزہ لیا جاتا ہے تو پڑھنے والے کا دھیان قواعد کی طرف ضرور جاتا ہے۔ قواعدکے درست استعمال سے مصنف کی قابلیت بھی عیاں ہوتی ہے اور بات کو سمجھنے میں بھی آسانی ہوتی ہے۔ زیرِ نظر کتاب میں گرائمر کے حوالے سے حوصلہ افزا ءصورت نظر آتی ہے، کیونکہ مصنف نے نہ صرف گرائمر کے استعمال پر کھرا اُترنے کی کوشش کی ہے بلکہ جگہ جگہ قواعد اردو کے مختلف نکات پر بھی روشنی ڈالی ہے۔جہاں تک تخلیقی ادب میں اسلوب کی اہمیت کی بات ہے تو فاضل مصنف نے ایسا اسلوبِ بیان اختیار ہے جس سے ان کی خاص پہچان بنتی ہے اور عصرِ حاضر میں بہت کم کشمیری ایسی معیاری ادبی اردو لکھنے میں مہارت رکھتے ہیں۔اسلوبیات کا تعلق زبان کے استعمال سے ہوتا ہے اور زیرنظر انشائیوں میں اسلوب نگارش کا ایک خاص جلوہ نظر آتا ہے۔ان تخلیقات میںلسانی ساخت وپرداخت کا بھی خاص خیال رکھا گیا ہے۔ان انشائیوں میں گرائمر کے استعمال اور اس کی تعریف کے حوالے سے چند مثالیں پیش کرتے ہیں:

(الف)سابقہ اور لاحقہ:سابقہ(PREFIX) اور لاحقہ(SUFFIX) کی مدد سے ایک ہی لفظ سے درجنوں بلکہ سینکڑوں الفاظ بنائے جاسکتے ہیں۔مصنف نے جگہ جگہ اس خوبی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عمدہ سابقے اور لاحقے استعما ل میں لائے ہیں۔جیسے”ادھار کارڈ، الیکشن کارڈ، شناختی کارڈ، راشن کارڈ “۔(جان پہچان، ص:43)، ” تیز دستی، تیز رفتاری، تیز فہمی، تیز قدمی، تیز قلمی، تیز گام، تیز نگاہی“۔(صبر، ص:66)

،”مکہ شریف، مدینہ شریف، مسجد شریف، قرآن شریف، بخاری شریف، درود شریف، ختم شریف، زیارت شریف، مزار شریف“(شرافت، ص:75)،”راہبر،راہنما،راہ پیما، راہ خدا، راہ داری، راہ راست، راہ رسم، راہ رو، راہ روش، راہ ریت، راہ گزر، راہ گیر، راہ نامہ، راہ نجات، راہ مار“۔ (راستہ، ص: 77)،”تحصیل دار، حلقہ دار، ذیل دار، علمبردار، جاگیردار، چک دار، تحویل دار“(خانہ داری، ص:91)

(ب)واحد جمع:فاضل مصنف نے کچھ الفاظ کے حوالے سے ان کا واحد یا جمع ہونا بھی بیان کیا ہے۔اتنا ہی نہیں بلکہ واحد جمع کی ترکیب بھی واضح کی ہے۔ایک مثال:”راہ کا جمع راہیں جبکہ راستہ کا جمع راستے ہیں“(راستہ، ص: 77)

(ج) کلمہ کی قسمیں :اردو گرائمر کی بنیاد کلمہ اور اس کی قسمیں سے شروع ہوتی ہے اور پھر آگے کے تمام مراحل طے ہوتے ہیں۔اس ضمن میں موضوعات کی مناسبت سے طالب نے اسم،فعل،مصدر،اسم کی قسمیں وغیرہ پر بھی روشنی ڈالی ہے۔جیسے” اسم وہ کلمہ ہے جس سے کسی شخص، جانور، جگہ یا چیز کا نام مراد ہوتا ہے “۔(نام ساکھ، ص:95)،”البتہ انسانی ناموں کے ساتھ ذات، لقب، کنیت، خطاب اور عرف وغیرہ بھی مناسبت رکھتے ہیں “۔(نام ساکھ، ص:98)،افعال کے ضمن میں لکھتے ہیں :” سایہ، سایہ عاطفت، سایہ گستری، سایہ بال ہما، سایہ خدا، سایہ زدہ جیسی صورتیں نظروں میں منڈلاتی ہیں “۔(چھتری، ص:147)ا ن مثالوں سے ایک بات واضح ہوتی ہے کہ مصنف بزرگی کے عالم میں بھی بطور انشاپرداز اپنے مطالعہ کو وسعت دینے اورالفاظ ،مترادفات،مرکبات ،مصادروغیرہ کے ذخیرہ میں اضافے کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔شاید انہی کمالات کے سبب طالب جموں وکشمیر کے دوسرے بڑے انشائیہ نگار ثابت ہونے جارہے ہیں۔

(13)فارسی کا پہلو :

          اردو پر فارسی کے اثرات یا اردو و فارسی کے باہمی رشتہ پر تحقیق کا کام اولین دور سے شروع ہوا تھا اور یہ عصر ِحاضر میں بھی جاری وساری ہے۔ طالب اردو، کشمیری اور انگریزی کے ساتھ ساتھ عربی اور فارسی زبانوں پر بھی دسترس رکھتے ہیں۔ان کے زیرِ نظر انشائیوں میں ان کی فارسی دانی کا خوب جوہر ملتا ہے۔ان انشائیوں میں فارسی تراکیب، فارسی محاورات، فارسی اضافتیں،فارسی اشعار اور فارسی اقوال جگہ جگہ ملتے ہیں۔اردو پر فارسی کے اثرات سے انکار کی گنجائش نہیں ہے بلکہ عربی اور ترکی کے مقابلے میں اردو نے فارسی زبان وادب سے براہ راست استفادہ کیا ہے۔مصنف نے اگرچہ متعدد مقامات پر فارسی الفاظ،مصادر اور ترکیب کو اردو زبان میں استعمال کیا ہے لیکن چند ایک مقامات پر فارسی کے الفاظ،محاورات،اقوال وغیرہ جوں کے توں استعمال میں لائے ہیں۔ چند مثالیں پیش کرتے ہیں ۔کرسی کے حوالے سے فارسی کی ایک کہاوت بیان کی ہے ”صدر ہرجاکہ نشیند صدر است” گویا صدر جس کرسی پر بھی بیٹھتا ہے صدر ہی کہلاتا ہے “۔(کرسی، ص:33)انشائیہ” دل“ میں دل سے منسوب ایک قول” دل بدست آور کہ حج اکبر است”گویا کسی غمزدہ کو دلاسا دینے میں اجر ہی اجر ہے“۔(دل، ص:69)،”خفتہ را خفیہ کے کنندہ بیدار“(دل، ص:68)نئی نسل سے تعلق رکھنے والے اکثر طالب علم اور ریسرچ اسکالر فارسی زبان سے بالکل ہی نابلد ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ وہ فارسی کی کوئی ترکیب،محاورہ یا قول زبان زداپنی تخلیقات میں استعمال کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں،لیکن فارسی کو بطور ایک مضمون کے طور پر پڑھنے والے اس ہنر مندتخلیق نگارنے کمال کا مظاہرہ کیا ہے۔تصرف کے ضمن میں شبلی نعمانی لکھتے ہیں:

”چونکہ اردو کوئی مستقل زبان نہیں ہے بلکہ عربی،فارسی،ہندی کا مجموعہ ہے ،ا س لیے اس کو عربی فارسی وغیرہ کے الفاظ میں تصرف کا بہت کم حق حاصل ہے۔اس لیے جہاں تک ہوسکے اس بات کا التزام زیادہ موزوں ہے کہ غیر زبانوں کے الفاظ صحیح تلفظ اور ترکیب کے ساتھ قائم رکھے جائیں“۔(23)

اگرچہ نئی نسل میں یہ مادہ موجود نہیں ہے کہ وہ عربی،فارسی،ہندی اور دیگر زبانوں کے الفاظ کو اردو میں داخل کرنے یا تصرف کرنے کا ہنر جانتے ہیں لیکن ہمارے اسلاف نے اس سے بخوبی فائدہ اُٹھاتے ہوئے اردو زبان کو مالا مال کیا ہے۔عصرحاضر میں بھی نئے نئے مصادر، اصطلاحات اور مرکبات کی مدد سے تصرف کی کافی گنجائش موجود ہے،لیکن اس کام کو انجام دیتے وقت خصوصاً انشائیہ میں دھیان رہنا چاہیے کہ یہ کام خوشگوار اور خوش کن معلوم ہونا چاہیے،نہ کہ ایسا معلوم ہوکہ انشاپرداز نے ڈھونڈ دھونڈ کر ان الفاظ،مصادر،محاورات،ضرب الامثال،اشعار ،کہاوتوں وغیرہ کوتحریر میں شامل کیا ہے۔

(14)تقابلی پہلو :

          ”گوہر سُفتہ“کا تقابلی پہلو بھی لائقِ تحسین ہے اور مصنف نے مختلف مقامات پر چیزوں کا تقابل وموازنہ کیا ہے۔تقابلی پہلو میں تشبیہ بھی شامل ہے،طالب نے تشبیہ کا بہترین استعمال کیا ہے اور مختلف چیزوں، نظریات اور واقعات کا تقابلی مطالعہ پیش کیا ہے۔یوں تو زیر ِنظر انشائیوں میں دو طرح کے تقابلی مطالعے دیکھنے کو ملتے ہیں۔پہلا طریقہ جہاں تشبیہات کی مدد سے چیزوں کا تقابل پیش کیا ہے۔ انشائیہ ”کرسی “میں صوفہ اور کرسی، لکڑی کی کرسی اور پلاسٹک کرسی کا تقابل یوں کرتے ہیں ”ایک سوفہ آسانی سے اٹھایا نہیں جا سکتا جبکہ ایک کرسی کو کندھے یا سر پر اُٹھانے سے محنت بھی کرنا پڑتی ہے اور راحت بھی نصیب ہوتی ہے۔۔۔ لکڑی کی کرسیوں کے معاشرے کا رنگ دگر گوں ہوگیا ہے۔جہاں لکڑی کا کچرا راکھ ہوجاتا ہے وہیں پلاسٹک کرسیوں کے کچرے زایل ہوکر بھی لافانی بن جاتے ہیں “۔(کرسی، ص:30-31) جان اور پہچان کا موازنہ یوں پیش کیا ہیں ” جان سے مطلب کسی فرد یا چیز وغیرہ کو سرسری طور بادل ناخواستہ جان لینا ہوتا ہے جبکہ پہچان سے مراد حقیقت نفسِ الماری ہے“۔(جان پہچان، ص:40)ریٹائرمنٹ اور دلہن کی رخصتی کا تقابل یوں کیا ہے ۔”سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ بالکل ایک دلہن کی رخصتی کے متشابہ ہوتی ہے فرق صرف اتنا ہے کہ سبکدوشی ملازم سیدھا اپنے ننہال واپس آتا ہے جبکہ دلہن میکے سے سسرال کو رخصت ہوجاتی ہے“۔(ریٹائرمنٹ، ص:46) دل اور بجلی ٹرانسفارمر کا تقابلی مطالعہ یوں پیش کیا ہے :” گویا یہ دل بجلی ٹرانسفارمر کی مانند جسم کے رگوں میں برقی روکی بہم رسائی کے ہوبہو خون کی سپلائی کرنے کا ایک گوشت کا لوتھڑا ہے“(دل، ص:67)نمک اور شکر میں نمک کے ذائقہ کا تقابل سکرات الموت کا مزہ چکھنے سے کیا ہے:” حسرت کا مقام ہے کہ ایک مختصر وقت کے لیے ہم نمکینی ذایقے دار ضیافتوں کے لیے فکر مند تو رہ جاتے ہیں لیکن سکرات الموت کا مزہ چکھنے کے لیے فکر میں کھل جانے سے گریز پا کیوں ہوجاتے ہیں “۔(نمک اور شکر، ص:86)خانہ داری میں پنچایت راج کا تقابل خانہ داری سے یوں کیا ہے :” جس طرح ریاستی ملکی نظام جمہوریہ میں بلدیہ اور پنچایتی راج کے لیے نچلی سطح کی دو الگ الگ اکائیاں مقرر ہیں، بالکل اسی ڈھنگ سے دنیاداری کے وسیع

 نظامِ فطرت میں خانہ داری نچلی سطح کی ایک ایسی اکائی ہے جس سے انسانوں کی دنیا کا چلن سے چلنا ممکن ہوجاتا ہے“۔(خانہ داری، ص:88)اسی طرح ایک جگہ سرکاری ڈھیل جو کرفیو میں دی جاتی ہے اور خدائی ڈھیل جو انسان کو بہشت سے نکالنے سے قیامت تک دی گئی ہے‘کا تقابلی مطالعہ پیش کیا ہے۔ایک جگہ مشرق اور مغرب کا تقابل کیا ہے کہ مغربی ممالک میں کسی سے بات کرنے کی فرصت نہیں ہے جبکہ مشرقی لوگ مغرب میں عمارتوں کی منزلیں گنتے ہیں۔

          تقابل کی ایک صورت مشہور انشائیہ نگاروں کے انشائیوں سے مشابہت کی صورت میں بھی ملتی ہے۔ جیسے”ابن انشاءجرمنی میں “

اس انشائیہ کی ایک جھلک انشائیہ” زبان“ میں نظر آتی ہے۔مثلاً” عجیب صورت حال اس وقت دیکھنے کو ملتی ہے جب ایک ہی زبان سے آشنا انسان پردیس جاتا ہے جہاں اس کی حالت یوں ہوجاتی ہے ،گونگے نے سپنا دیکھا من ہی من میں پچھتائے“۔(زبان، ص:160)

سرسید احمد خان کے ”خوشامد“ اور طالب کے” خوشامد“ کا تقابل،زنفرکھوکھر اور طالب کے انشائیوں”کرسی،گالی،زبان،ریٹائرمنٹ،“ کا تقابل ،تیرتھ کاشمیری کے”کتاب“اور طالب کے انشائیہ”کتاب“،گلزار اوحمد وانی اور طالب کے مشترکہ موضوعات والے انشائیوں”کُرسی ،نمک،سایہ، چہرہ“کا بھی خوب تقابلی مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ یہاںمشترکہ عنوان والے ان انشائیوں کے تقابلی مطالعہ سے ایک بات واضح ہوجاتی ہے کہ ہر انشائیہ نگار منفرد سوچ،منفرد زاویہ ،منفرد مزاج اورمنفرد رویہ کا حامل ہوتا ہے۔یوں”گوہر سُفتہ “میں پہلو بدلتے رہتے ہیں اور جہتیں کھلی جارہی ہیں۔اب ایک قاری کی ذمہ داری ہے کہ وہ مطالعہ کے دوران کتنی پرتوں سے پردہ اٹھاتا ہے۔اس فن کے حوالے سے وزیر آغانے لکھا ہے:

”انشائیہ ایک ایسی صنفی نثر ہے جس میں انشائیہ نگارفکرِ جست کے ذریعہ بار بار ایک مدار سے دوسرے مدار کو چھوتا چلا

جاتا ہے“۔(24)

الغرض غلام حسن طالب جو ضلع پلوامہ میں اردو ادب کی مشعل اٹھائے نوجوان نسل کو اس زبان کی آبیاری میں پیش پیش رہنے کی ہمہ جہت و ہمہ وقت کوششیںکرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے نہ صرف بچوں کے لیے کرئیر کئیر اسکول اور بڑوں کے لیے سوچھ کرال بی ۔ایڈ کالج بلکہ سائنس کے طالب علموں کے پیرا مونٹی نرسنگ ہوم اور ادبی سرگرمیوں کے لیے سوچھ کرال سوسائٹی برائے فروغ زبان و ادب جموں و کشمیر جیسے ادارے اور انجمنیںقائم کیں ہیں۔ ایک بزرگ شخص کی ادب نوازی اور ادب دوستی کا اس سے بڑھ کر کیا ثبوت پیش کیا جا سکتا ہے کہ وہ ستر سال کی عمر میں بھی ادب کی خدمت میں سرگرم ِعمل ہیں۔ وہ کتابیں بھی لکھتے ہیں اور کتابیں لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں، وہ اپنے بل پر سوچھ کرال سوسائٹی کے بینر تلے کتابوں کی رسم رونمائی، محفل افسانہ، مشاعرہ، سمینار وغیرہ کا انعقادبھی کرتے ہیں، وہ کبھی انعام کی لالچ میں نہ لکھتے ہیں اور نہ کوئی ادبی کام لالچ کی غرض سے کرتے ہیں۔ طالب ایک چنار کی مانند ہے جس کی شادابی اور وسعت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے اور نہ اس بات سے کہ اس ادبی چنار کے سایہ عاطفت میں کتنے ادیب شاگردی کا تلمذ حاصل کرنے میں مصروفِ عمل ہیں۔وہ ایک مشعلِ راہ کی مانند ہے جو نئی نسل کے اُن نوجوانوں کو اس بات کی حس دیتے ہیں کہ شہرت،دولت اور مصروفیات کے ہوتے ادب کی آبیاری کیسے کی جاتی ہے۔جو وقت نئی نسل موبائیل،بے کاری اور نشہ آور چیزوں کی لت میں ضائع کرتے ہیں،کاش اس کا تھوڑا سا وقت مطالعہ میں صرف کرتے تو کیا سے کیا ہوسکتا تھا۔

حواشی:

(1)اردو انشائیہ اور بیسویں صدی کے چند اہم انشائیہ نگار ایک تجزیاتی مطالعہ،ڈاکٹر ہاجرہ بانو،عرشیہ پبلی کیشنز،دہلی،2013،ص:39

(2)انشائیہ اور انشائیے،سید محمد حسنین،ایجوکیشنل بک ہاوس علی گڑھ،ص:27

(3)انشائیہ اور انشائیے،سید محمد حسنین،ص:60

(4)انشائیہ کی بنیاد،ڈاکٹر سلیم اختر،سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور،1986،ص:167

(5)انشائیہ کے خدوخال،وزیرآغا،ص:15-16

(6)انشائیہ اور انشائیے،سید محمد حسنین،ص:50-51

(7) کشمےر کے دو ادےب دو بھائی،عبدالقادر سروری ، ص:114

(8) مجلہ بارےافت،شعبہ اردو کشمیر یونیورسٹی ۔شمارہ :36-37، ص :202

(9)جموں وکشمیر کے تین طالب(ا) محقق و ناقد نند لال کول طالب کاشمیری مصنف”جوہر آئینہ اور رشحاتِ التخیل،(۲)انگریزی،اردو اور کشمیری زبان میں طبع آزمائی کرنے اندر کرشن کول المعروف طالب کاشمیری مدیر”کہکشانِ اردو اور مصنف فلورا آف کشمیراور(۳) غلام حسن طالب مصنف ” ارضِ کشمیر میں ظہورِ اسلام اورگوہر سفتہ “

(10)اردو انشائیہ اور بیسویں صدی کے چند اہم انشائیہ نگار ایک تجزیاتی مطالعہ،ڈاکٹر ہاجرہ بانو،عرشیہ پبلی کیشنز،دہلی،2013،ص:56

(11)اردو انشائیہ اور بیسویں صدی کے چند اہم انشائیہ نگار ایک تجزیاتی مطالعہ،ڈاکٹر ہاجرہ بانو،عرشیہ پبلی کیشنز دہلی2013،ص:53

(12)ماہنامہ ادیب،جامعہ اردو کا ترجمان ،علی گڑھ،جلد:12،شمارہ:1-3،1988ص:59

(13)اقوال زریں کی افیون،عفت حسن رضوی،ان ڈپنڈنٹ اردو،12نومبر2020

(14)ماہنامہ ادیب ،جامعہ اردو علی کا ترجمان,بیس سالہ نمبر،جلد:6،شمارہ:3،مارچ1960،اردو انشائیہ یا مضمون نویسی از ادیبِ کامل ،ص:108

(15)مذہب اور ادب،رضی مجتبیٰ،آن لائن پیچ،امام غزالی ریسرچ فاونڈیشن،3اکتوبر2012

(16)معیارِ تنقید،ممتاز شیرین،مضمون؛سیاست،ادیب اور ذہنی آزادی،نیا ادارہ لاہور،1963،ص:151

(17)تنقیدی دبستان،ڈاکٹر سلیم اختر،سنگ میل پبلی کیشنز ،لاہور،1997،ص:144-145

(18)ادب اور زندگی،مجنون گورکھپوری،اردو گھر علی گڑھ،1984،ص:68

(19)اردو ادب میں تانیثیت،ڈاکٹر مشتاق احمد وانی،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس ،دہلی،2013،ص:228

(20)صنفِ انشائیہ اور چند انشائیے،ڈاکٹر سید محمد حسین،ایوان اردو پٹنہ،اکتوبر1963،ص،33-34

(21)انشائیہ کے خدوخال،وزیر آغا،نئی آواز ،جامعہ نگر ،نئی دہلی،مارچ1991،ص:42

(22)ادب اور سائنس،مرتب جمال نقوی ،مضمون ادب اور سائنس ،پروفیسر ڈاکٹر نیز عزیز مسعودی ،ادارہ تزئین دانش کراچی،اگست ،1998،ص:49

(23)اردو پر فارسی کے لسانی اثرات،ڈاکٹر عصمت جاوید،1987،ص:33

(24)اردو انشائیہ اور بیسویں صدی کے چند اہم انشائیہ نگار ایک تجزیاتی مطالعہ،ڈاکٹر ہاجرہ بانو،عرشیہ پبلی کیشنز دہلی2013،ص:53

DR MOHD YASEEN GANIE

BABHARA,PULWAMA,J&K

POST OFFICE: RAJPORA,PINCODE:192306

MOBILE:7006108572

Leave a Reply