
ڈاکٹر نازنین سلطا نہ آصف احمد
اسسٹنٹ پرو فیسر
شعبہ اْردو،چشتیہ کالج آف آرٹس، سا ئنس اینڈ کامرس،خلدآباد
نظامت کا چسکہ
(انشائیہ)
خدا جھوٹ نہ بلوائے میں نے پرائمیری تعلیم سے پی۔ ایچ ڈی کی ڈگری کے حصول تک بیسوں پروگرام میں شرکت کی ، مقالے پڑھے لیکن کبھی کسی پروگرام کی نظامت نہیں کی حالانکہ ہمارے اساتذہ کی بڑی خواہش رہی کہ ہم کسی پروگرام کی نظامت کریں لیکن ہماری ہمت نہیں ہوئی کیونکہ اس کام میں جھوٹ بہت کہنا پڑتاہے ۔ بھئی مصلحتاً چھوٹا موٹا جھوٹ کہنا پڑا، تو اللہ بھی معاف کر دیتا ہے لیکن غلطی سے بھی اگر کسی صاحب کے بارے میں سچ کہہ دیا گیا تو وہ صاحب کبھی معاف نہیں کرتے ۔ مثلاً اب یہی قصہ سن لیں ۔ اسکول کے ایک ایسی ہی پروگرام میں ہمارے ہیڈ ماسٹر صاحب صدارت کر رہے تھے اور میری ایک سہیلی جو مولانا کی بیٹی تھی نظامت کر رہی تھی ۔ اُس نے صدر صاحب کی تعریف کرتے ہوئے کہنا شروع کیا کہ ہمارے ہیڈ ماسٹر صاحب ویسے تو بہت نیک انسان ہیں لیکن ہم بچوں کو ذرا ذراسی باتوں پر بہت مارے ہیں ۔ وہ بڑے ہی مخلص انسان ہیں لیکن اگر دوپہر میں جب ہم بچے کھانا کھارہے ہوتے ہیں تو وہ وہاں پر آجاتے ہیں اور جس کے بھی ٹفن میں بریانی ہوتی ہے اُس کا ٹفن اُچک لیتے ہیں اور وہیں کھانا شروع کر دیتے ہیں اور اگر اُس نے احتجاج کیا تو اُسے جواب ملتا ہے امتحان میں پاس ہونا ہے یا نہیں ؟ اور وہ بیچارہ پاس ہونے کی خوشی میں اپنی بھوک ہر قابو پاکر مسکرانے لگتا ہے ۔ پھر جب ہم کالج میں داخل ہوئے تو ہمارا ایک ساتھی جو سچائی کا پروردہ تھا اور سچ کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دیتا تھا ، کالج کے ایک پروگرام میں نظامت کے ہتھے چڑھ گیا ، حالانکہ سچائی بیان کرنا اُس کے مزاج کا حصہ ہے ۔اس سچائی کی وجہ سے وہ اب تک کافی نقصان اُٹھا چکا ہے ۔ وہ لوگ بھی جن کو کسی کی پول کھولنا ہوتی ہے اکثر اُس کو نظامت کا فریضہ سونپ دیتے ہیں اور جی بھر کر اُس کے ذریعہ اپنی بھڑاس نکال لیتے ہیں ۔ آئیے اُس کی نظامت کے کچھ حصے میں آپ کے گوش گزار کرتی ہوں ۔ ایک بار وہ ایک ایسے پروگرام کی نظامت کر رہا تھا جس کی صدارت ایک مشہور لیڈر فرما رہے تھے ۔ وہ اُن کا تعارف کرواتے ہوئے کہنے لگا، حاضرین آج کا یہ جلسہ موجودہ تعلیمی نظام پر ہے اور ہمارے آج کے جلسے کی صدارت جیسا کہ آپ جانتے ہیں جناب۔ فلاں صاحب فرما رہے ہیں ۔ اللہ جھوٹ نا بلوائے مجھ سے، جناب صدر نے اپنی زندگی میں کبھی اسکول کی صورت نہیں دیکھی، لیکن آپ کو تعلیمی ادارے قائم کرنے کا شوق ہے ۔ تاکہ قوم کی خدمت کرسکیں لیکن شیخ نتھو نے مجھے بتایا کہ یہ جھوٹ ہے یہ اسکول قوم کی خدمت کے لیے نہیں کھولتے ہیں ۔ یہ بیچارے تو اس لیے اسکول قائم کرتے ہیں کہ ایسے نوجوان جن کی پوری تعلیم ہی نقل مار مار کر پوری ہوئی ہو، اور اُن کے والدین نے رشوت سے خوب رقم کمائی ہو یہ اُس نوجوان کو ملازمت عطا کرتے ہیں اور جواب میں ایک بڑی رقم اینٹھ کر اسکول کی فلاح و بہبود کا کام کرتے ہیں ۔ حضرات خیر شیخ نتھو کو الزام لگانے کی عادت ہے ۔ صاحب عزت ماب خواتین کی بہت عزت کرتے ہیں ۔ اس پر بی جمالو نے ہمیں بتایا تھا کہ جی ہاں صاحب عورتوں کی اتنی عزت کرتے ہیں کہ ہم لوگ کبھی اکیلے ان کے چیمبر میں نہیں جاتے ۔حاضرین بہر حال یہ ہمارے آج کے جلسے کے صدر ہیں اور آپ کو ان کی تقریر سننا ہے ۔ میں یہ نہیں کہتا کہ آپ ان کی ہر بات پر بھروسہ کریں ۔ آپ اُن کی باتیں ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دے سکتے ہیں ۔
یہ پروگرام تو کسی طرح ہوگیا لیکن صدر صاحب نے اپنے اثر و رسوخ کو ایسا استعمال کیا کہ بیچارہ آج تک بے روزگار ی کے دن کاٹ رہا ہے ۔
اسی طرح ایک جلسے میں ایک شاعر صاحب مہمان خصوصی کی حیثیت سے شریک تھے ۔ اُن کا قصیدہ پڑھتے ہوئے ہمارے دوست نے کہا تھا ۔ جناب اُردو کے بہت بڑے شاعر ہیں ۔ اگر ولی اورنگ آبادی ، مرزا غالب اورعلامہ اقبال پیدا نہ ہوتے تویہی شاعر اعظم ، فخر ملت اور بابائے غزل ہوتے ۔لیکن ان کی بد قسمتی یہ ہے کہ وہ نہ صرف اُن سے پہلے پیدا ہوئے بلکہ بہت عمدہ شاعری بھی کر گئے ۔ آپ کی عادت ہے جب بھی جہاں دوچار لوگ بیٹھے نظر آتے ہیں یہ وہاں پہنچ جاتے ہیں اور اور سب کو مخاطب کرکے کہتے ہیں ۔کیا عمدہ غزل کہی ہے واہ واہ عرض کیا ہے اور ا اپنا کلام سنانا شروع کر دیتے ہیں اور لوگ اخبار کے صفحات میں اپنا منہ چھپا لیتے ہیں
اسی طرح ایک ادیب جلسے کی صدارت کر رہے تھے تو ہمارے ناظم دوست نے حاضرین سے فرمایا ، حضرات ان کا دعویٰ ہے کہ یہ
عالمی شہرت یافتہ ادیب ہیں ۔ کیونکہ یہ بات اُن کی بیوی اور بچوں نے طنزیہ کہی تھی لیکن اُنھوں نے طنز کو نظر انداز کرکے حقیقتاً اپنے آپ کو عالمی شہرت یافتہ سمجھ لیا ہے اور تب سے یہ اپنے آپ کو عالمی سمجھتے ہیں، یقین کریں ان کے افسانے اور ناول آج تک کسی نے نہیں پڑھا ، میں اُن کے بارے میں کیا بتاؤں میں نے خود آج تک ان کی کوئی تحریر نہیں پڑھی ۔ صاحب موصوف ناقد کے شاکی اور ایک ایک سامعین کے لیے ترستے ہیں ۔ آپ لوگوں کی بڑی تعداد دیکھ دیکھ کر یہ بہت خوش ہو رہے ہیں میں آپ کے لیے صبر کی دعائیں کرتا ہوں اور اعلان کرتا ہوںکہ آج آپ لوگوں پر بہت بُرا وقت آن پڑا ہے ۔ برداشت تو کرنا پڑے گا ۔
ایک اور ناظم سے ہم واقف ہیں جنھیں بہت زیادہ کہنے کی عادت ہے کسی پروگرام کے لیے کسی ادارے نے کسی طرح ایک منسٹر سے خوشامد کی تو اُس نے کہا جناب میں بہت مصروف ہوں آپ کو بس دس منٹ دے سکتا ہوں ۔ پروگرام طئے ہوا اور ناظم صاحب سے کہا گیا کہ جلدی سے پروگرام کا آغاز کردیں منسٹر صاحب کے پاس ہمارے لیے صرف دس منٹ
ہیں ۔ ناظم صاحب نے اتنی لمبی تمہید باندھی اور پھر جیسے ہی منسٹر صاحب کی طرف دیکھا تو معلوم ہوا وہ بھی اور مدعوئین بھی جا چکے ہیں ۔اس کے بعد ناظم صاحب کے ساتھ کیا سلوک ہوا ہوگا کیا اسے بیان کرنے کی ضرورت ہے ۔
بہرحال ان حقائق کو جاننے کے بعد بھی اگر آپ کے دل میں نظامت کا شوق ہے تو آپ اپنی قسمت کو طاق پر رکھ کر اس شوق کو پورا کر سکتے ہیں ۔