ڈاکٹرصالحہ صدیقی
الٰہ آباد،یو ۔پی
علم الانسان مالم یعلم
انسان کو وہ سب بتا دیا جو اسے نہیں معلوم تھا
آج میری زندگی کا بہت اہم دن تھا ،بڑی مشکل سے امی ابو نے گھر سے اتنی دور جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی میں پڑھنے کی اجازت دی تھی۔ میں جتنی خوش تھی، اتنی ہی اندر سے ڈری ہوئی بھی تھی کہ نہ جانے کیا ہوگا ؟وہاں لوگ کیسے ہونگے ؟ استاد کیسے ہونگے ؟ طالب علم کیسے ہونگے؟ مجھے نہ تو وہاں کے کلچر کا کچھ علم تھا نہ رہن سہن کا، بار بار اس بات کا ڈر ستا رہا تھا کہ کہیں میں مذاق نہ بنائی جاؤں ؟ کوئی جان پہچان نہیں، کیسے اور کس سے بات کروں گی؟ کیا وہاں بھی گائڈ کے علاوہ کسی دوسرے استاد سے بات کرنے پر مصیبت ہوگی ؟ میںاسی کشمکش میں الجھی ہوئی تھی کہ آٹو رکشہ والے نے کہا’ جامعہ آگیا‘۔ میری نظر ایک اونچے لمبے مسجد کے مینار نما جالی دار گیٹ پر پڑی جس پر بڑے بڑے لفظوں میں لکھا تھا ’’مولانا ابوالکلام آزاد باب ‘‘ جالی دار کالے پھاٹک پر اسٹیل کے پلیٹ پر، بڑی ہی خوبصورتی سے چاند کے پیٹ سے دوکھجور کے پیڑ میں بنی کتاب پر لکھا تھا ’’علم الانسان مالم یعلم‘‘ اور اس کے سر پر ایک ستارہ چمک رہا تھا جس پر لکھا تھا ’’اللہ اکبر ‘‘…….ہرے ہرے حروف میں لکھے یہ الفاظ ہر راہ گیر کو علم کی دعوت دے رہے تھے۔
میری نگاہ جیسے ہی دوسرے گیٹ پر پڑی تو وہاں بھی لکھا تھا ’’علم الانسان مالم یعلم‘‘…….میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میں نے دیکھاکہ جامعہ میں یونیورسٹی کا ہر گیٹ اردو کی کسی نہ کسی معروف شخصیت کے نام سے موسوم ہے۔ ایک طرف قرۃ العین حیدر اپنے دونوں گالوں پر ہاتھ رکھے آنکھوں میں چمک لیے مسکراتے ہونٹوں سے علم کی دعوت دے رہی تھیں تو دوسری طرف محمد حسن تو تیسری طرف امیر خسرو سب کی سر پرستی کرتے ہوئے نظر آرہے تھے۔ ارے واہ……. کیا بات ہے! پیشانی پر اپنی پریشان زلفیں بکھیرے طلباء کو خواب سے بیدار کرنے کے لیے اے ۔ پی ۔جے ابوالکلام بھی کھڑے ہیں ،گیٹ کی چمک دمک سے اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ اس’’ باب ‘‘فیملی میں نئے نئے شامل ہوئے ہیں ۔فضا میں اردو کی بھینی بھینی خوشبو بکھری ہوئی تھی ۔ایسا محسوس ہوا جیسے اردو کے یہ تمام جانے پہچانے چہرے کتاب سے نکل کر میرا استقبال کھلی بانہوں سے کر رہے ہو ….. میں یہ سب سوچتے سوچتے کسی طرح سڑک پار کر کے ’’مولانا ابوالکلام آزاد ‘‘ گیٹ پر پہنچی۔ شعبۂ اردو کی طرف جانا تھا لیکن نہ جانے کیوں میںنے گارڈ سے سنٹرل کینٹین کا راستہ پوچھا جواپنی گول مٹول توند کو سنبھالے بمشکل اسٹول پر بیٹھے ہوئے تھے ۔سنٹرل کینٹین جانے کے لئے جیسے ہی میں نے اپنا پہلا قدم زینے سے نیچے رکھا سامنے غالب چچا اپنے خاص انداز میں ایک ہاتھ سے اس طرح اشارہ کر تے ہوئے کھڑے تھ جیسے ابھی بول اٹھیں گے، غزل کا مطلع ارشاد فرمائیں……….. اور دوسرے ہاتھ میں کھلی ہوئی کتاب لیے ،اپنے مخصوص لباس گھیردارلمبی شیروانی اور چوڑا پاجامہ سر پر ٹوپی لگائے خوبصورت باغ میں جس کانام بھی ان کے نام پر ’’گلشن غالب‘‘ تھا، پوری شان و شوکت سے کھڑے تھے ، ان کی ٹوپی پرکبھی چڑیا تو کبھی کبوتر بھی آکر بیٹھ جاتا، موسم بہارکی وجہ سے نظارہ اور بھی دلکش ہو رہاتھا،ہلکی ہلکی ٹھنڈی میں گنگنی دھوپ کا لطف لینے کے لیے طلباء گارڈن میں بیٹھے ہوئے تھے ۔ہر طرف خوبصورت پھولوں کی دلکش کیاریاں ،ہری بھری گھاس اور چاروں طرف پیڑ پودے جیسے آنکھوں کو سکون پہنچا رہے تھے ۔پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو ںسے سارا ماحول معطر تھا ایسا لگ رہا تھا جیسے غالب چچا ان سے باتیں کر رہے ہو اور ہر اندر آنے والوں کا خود استقبال کر رہے ہو ۔گارڈن میں بکھرے طلباء میں کوئی پڑھائی لکھائی میں مشغول تھا تو کوئی گروپ میں بیٹھا مستی کر رہا تھا ،تو کوئی آپس میں ایک دوسرے کے منھ پر کیک لگا کر اپنے یوم پیدائش کاجشن منا رہا تھا ۔ہر طرف آنے جانے والوں کا سلسلہ جاری تھا کہ اچانک میری نظر چند لڑکیوں پر پڑی زمین کو چھو کر گھسیٹتا ہوا نقاب….. جس پر بڑے ہی انوکھے،خوبصورت اور دلکش انداز میں اسکارف باندھے، جس میں رنگ برنگی چمکتی ہوئی اسکارف پنس بڑے ہی سلیقے سے لگی ہوئی تھی،آنکھوں میں گہراکاجل ،موٹے موٹے آئی لائنرز ،ہونٹوں پر ہلکی سرخی جو ان کی خوبصورتی میں چار چاند لگارہی تھی ،ہائی ہلس پہنے خود کو سنبھالتے ہوئے ایک ہاتھ میں رجسٹر تو دوسرے ہاتھ سے اپنے چھوٹے سے پرس کے لمبے چین نما ہنڈل کو کاندھے پر لٹکائے بڑی نزاکت سے ہنستی کھل کھلاتی ،اپنی ہی دنیا میں مست مگن چلی جارہی تھی ۔لڑکے کہیں شیروانی میں تو کوئی کرتے پجامے میں ،کوئی ٹی شرٹ اور پینٹ میں تو کوئی جینس اور ٹی شرٹ میں لمبی داڑھی رکھے سر پر ٹوپی لگائے چلا جا رہا تھا،ان میں کچھ حضرات تو ایسے بھی تھے کہ جن کو دیکھ کر ایسا لگا جیسے جناب بستر سے اٹھ کر سیدھے یونیورسٹی آگئے ہو ،نہ کوئی اہتمام اور نہ کوئی پرواکہ کون کیا سوچ رہاہے یا کیا سوچے گا ؟
لنچ کا وقت ہو چکا تھا ۔کینٹین کے کاؤنٹر پر ٹوکن لینے کے لئے طلباء کی بھیڑ تھی ، لیکن اس بھیڑ میں بھی ایک دوسرے کو سلام کرنے کی رسم جاری تھی۔’’السلام و علیکم ‘‘ کیسے ہیں؟ بہت دنوںبعد ملاقات کا شرف حاصل ہوا بھائی! کہاں تھے ؟ وعلیکم السلام ۔۔۔۔ہاں یار ! گھر گیاتھا۔اتنی سی بات کرنے میں دھیان جیسے ہی ہٹا ان کا ہاتھ کسی نے ہٹاتے ہوئے اپنا ہاتھ کاؤنٹر کی طرف بڑھا دیا ،ابھی یہ جناب کچھ کہہ پاتے کہ اتنے میں ’’سوری بھائی ‘‘ کہہ کر ہاتھ ہٹانے والے نے معذرت بھی کر لی ۔ایک اچھی بات مجھے یہ دیکھنے کو ملی کہ کاؤنٹر پر حجاب میں لڑکوں کے ساتھ ایک لڑکی بھی ٹوکن کاٹ رہی تھی ،طالب علم بھی لڑکیوں کو اس بھیڑ میں بھی پہلے ٹوکن لینے کے لیے جگہ دے رہے تھے ،اس ادب و احترام کا نظارہ میرے لیے بڑا ہی دلچسپ تھا۔ اتنے میں ظہر کی اذان کی آواز سنائی دی اور اسی کے ساتھ لڑکے اپنی اپنی جیب سے ٹوپی نکالتے ہوئے مسجد کا رخ کرنے لگے اور بھیڑ کم ہو گئی۔ میں نے بھی کاؤنٹر سے چائے کا ٹوکن لیا اور بیٹھنے کی جگہ ڈھونڈھنے کے لیے نظر دوڑانے لگی ۔ ایک طالبہ نے شاید میری نظروں کو پڑھ لیا، وہ میرے قریب آئی اور اس نے کہا ’’آپ اس زینے سے اوپر چلی جائیے ،آپ کو وہاں بیٹھنے کی جگہ مل جائے گی ‘‘ اوپر جاکر میں نے اپنی چائے کا ٹوکن کھڑکی کے اندر بڑھا دیا اور چند لمحوں میں چائے حاضر…….چائے لے کر میں اس زینے کے پاس پہنچی تو ایک گارڈ صاحب ہرے رنگ کی وردی میں لکڑی کی کرسی پر بیٹھے چائے کی چسکیاں لے رہے تھے ،دیوار پر ایک کاغذ پر اردو میںلکھا چسپاں تھا کہ:
’’لڑکوں کااوپر جانا سخت منع ہے ‘‘
میں زینے سے اوپر پہنچی تو دیکھا ایک لیڈی گارڈ بھی سادے کپڑوں میں بیٹھی تھیں ،میں جیسے ہی چھت کی طرف بڑھی لیڈی گارڈنے روکتے ہوئے کہا….. اوپر نہیں جانا بچی ّ !اور اشارہ کرتے ہوئے کہاچھت پر بچیوں کاجانامنع ہے ،اندر جائیے (دھیمی آواز میں بڑ بڑاتے ہوئے ) روز ایک ہی بات سب کو سمجھا نی پڑتی ہے ۔میں گلیارے سے اندر داخل ہوئی تو داہنی جانب شیشے کی دیوار تھی جہاں لڑکیاں آرام سے کرسی پر بیٹھ کر باہر کے نظاروں کا لطف لے رہی تھیں۔ سامنے ہال میں داخل ہوتے ہی ایک ایسی دنیا دیکھی جس میںصرف لڑکیوں کا راج تھا۔اس ہال میں بہت ساری رنگ برنگی کرسیاں اور میز لگی ہوئی تھیں۔ دیواروں پر خوبصورت آئینے آویزاں تھے ۔ لڑکیاں سج سنور رہی تھیں ،ایک طرف واش روم تھا جس میں وضو کرنے کی جگہ اور بڑے بڑے آئینے تھے جہاں کوئی اپنے بال سنوار رہا تھا ،تو کوئی اپنے اسکارف کی پنس صحیح کر رہا تھا ،کچھ لڑکیاں ایک دوسرے کامیک اپ ٹھیک کر رہی تھیں اور ایک دوسرے کو گھوم گھوم کرخود کو دکھا کر تسلّی دے رہی تھیں:’’ میں اچھی لگ رہی ہوں نا؟ پلیز صحیح سے دیکھو نا؟ میک اپ ٹھیک ہیںنا؟ ہاں یار! لاپروائی سے دوسری لڑکی نے کہتے ہوئے کہا تمہیں تواپنی ہی پڑی ہیں مجھے دیکھونا! ’میں کیسی لگ رہی ہوں میک اپ ٹھیک ہیںنا‘۔
ایک طرف یہ نظارہ تھا تو دوسری طرف چبوترے پر لڑکیاں آرام سے بیٹھ کر وضوکر رہی تھیں ۔پورا ہال پرفیوم اور میک اپ کی خوشبو ںسے مہک رہا تھا ۔ واش روم کے بغل میں ایک بڑا سا روم تھا جس میں جا نماز نما کارپٹ لگا تھا ۔ اس کمرے میں لڑکیاں نماز پڑھ رہی تھیں۔ہر کوئی خاموش اپنے رب کی عبادت میں ڈوبا ،اپنے خدا کی بارگاہ میں سر بہ سجود تھا ۔میں خاموشی سے اس کمرے سے باہر آگئی اور خالی میز کے ارد گرد لگی کرسیوں میں ایک کرسی پر بیٹھ گئی اور تقریبا ٹھنڈی ہو چکی چائے کی چسکیاں لینے لگی کہ اچانک کچھ لڑکیوں کا جھنڈ آکر ٹیبل کے ارد گرد خالی کرسیوں پر بیٹھ گیا ۔ ان میں سے ایک لڑکی کسی سے یوں گویا ہوئی ،ارے یار ! میرے گھر میںتو کبھی اردو کا ماحول ہی نہیں رہا ۔بچپن سے انگلش میڈیم اسکول میں پڑھائی کی، کیا پتہ تھا کہ جامعہ میں آکر اردو بھی سیکھنی پڑے گی۔ بچوں کی طرح الف ،ب، پڑھنا پڑے گا۔مجھے تو یہ آڑی تیڑھی لکیریں سمجھ میں ہی نہیں آتیں۔ اُف۔۔۔۔ ف (اپنے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے)تبھی دوسری لڑکی بول اٹھی، یار میں تو ہسٹری سے آگے پڑھنا چاہتی ہوں پھر کیا مطلب ہے ایک سال زبردستی اردو پڑھنے کا (اچانک لہجہ بدلتے ہوئے مسکراتے ہوئے چہک کر بولی )لیکن ایک بات تو ہے یار !شعر بڑے اچھے لگتے ہیں، اردو بولنے میں کتنی پیاری لگتی ہے۔ ابھی بات پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ تیسری لڑکی نے بولنا شروع کر دیا بھئی جو بھی ہو مجھے تو بڑا مزہ آتا ہے اردو سیکھنے میں ویسے بھی ہمیں تو یہ زبان آنی بھی چاہیے ،مجھے تو ……(دماغ پر زور دیتے ہوئے ) اسے کیا کہتے ہیں ہاں ! ’’مشاعرہ ‘‘ و ُشاعرہ سننے میں بھی بڑا مزہ آتا ہیں واہ…. واہ کیابات ہے…… بہت خوب….. (مشاعرے کی نقل کرتے ہوئے کہتی ہے) اچانک سنجیدہ ہوتے ہوئے لڑکی کہتی ہے! میں تو شاعری کرنا بھی سیکھونگی ،کیسے لکھتے ہیں ؟ ارے عظمیٰ! تم نے تو لکھی بھی ہے نا…….ان میں بیٹھی لڑکیوں میں ایک لڑکی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہے جو بڑی سنجیدگی سے بیٹھی سب کی باتیں خاموشی سے سن رہی تھی ،اپنا نام سنتے ہی چہک کر بولی، ہاں ہاں ! مجھے تو بہت شوق ہے یار، یہ توکتنی اچھی بات ہے کہ جن لوگوں نے ہائی اسکول تک اردو نہیں پڑھی ان کو بی ۔اے میں لازمی پرچے کے طور پر اردو پڑھائی جاتی ہے خواہ وہ کسی بھی سبجیکٹ کے ہوں۔
میرا تو بچپن سے خواب تھا اردو سیکھنے کالیکن کبھی موقع ہی نہیں ملا ،جامعہ آکر میرا یہ خواب پورا ہو گیا ۔یہاں کے اردو ڈپارٹمنٹ میں تو ٹیچرس شاعری بھی کرتے ہیں ،میں تو ان سے ضرور سیکھونگی اور جو کچھ میں نے لکھا ہیں ان کو دکھاؤں گی۔ یار! شاعری میں کتنی فلاسفی ہوتی ہیں نا ، ہزاروں لاکھوں خیالوں کوشعر کی دو لائن میں لکھ دیا جاتا ہے (اسی وقت ایک لڑکی بول اٹھی ) بھئی مجھے تو بہت گھبراہٹ ہوتی ہے، سارے الفاظ ایک سے لگتے ہیں اوپر سے لفظوںکا تو گروپ ہوتا ہے ۔ا،ب’ ب ‘کو ہی لے لو ،لکھے سارے ایک جیسے ہی جاتے ہیں بس بندی کا فرق ہوتا ہے ۔ ب، پ، ت، ث، پتہ یہ چلاکہ دو سے تین بندی ارے اسے کیا بولتے ہیں (دماغ پر زور دیتے ہوئے ) ہاں ’نقطہ‘ایک بھی زیادہ لگ گیا تو گئی بھینس پانی میں ،ارے وہ مصرعہ بھی ہے نا کہ نقطے کے ہیر پھیر سے خدا جدا ہوا ۔ (یہ سنتے ہی سب نے ایک ساتھ قہقہہ لگایا) لیکن کچھ بھی ہو اردو کی کلاس میں مزہ خوب آتا ہے۔
ان کی باتیں سنتے سنتے میں نے اپنی چائے ختم کی اور کپ کو کوڑے دان میں ڈالنے گئی تو وہاں بھی بڑے بڑے حروف میں اردو میں لکھاچسپاں تھا کہ ’صفائی نصف ایمان ہے،برائے مہربانی کوڑا کوڑے دان میں ڈالیں ‘میں ہال سے باہر آگئی اور دیکھاجگہ جگہ کوڑے دان اور اردو میں صفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھنے کے لئے نوٹس بھی لگائے گئے تھے ،ہر طرف انگلش اور اردو میں ’’کلین جامعہ ‘‘ اور ’’گرین جامعہ ‘‘ کے بورڈ کے ساتھ ’’ اسموکنگ فری ایریا ‘‘ کا بھی بورڈ لگا تھا ۔ میں یہ دیکھ کر حیران تھی کہ میں جس سمت جاتی ہر شعبہ ہر نوٹس بورڈ ہر تاکید کو انگریزی اور اردو زبان میں لکھا گیا تھا ۔جس طرف بھی قدم اٹھتے خوبصور رنگ برنگے پھولوں کی کیاریاں استقبال کرتی اور راستہ پھولوں کی خوشبو ں سے معطّر ملتا ۔ کینٹین سے ایک سیدھا راستہ ذاکر حسین لائبریری کی طرف نکل رہا تھا ،میں اس راستے سے لائبریری کے لیے چل پڑی۔ لائبریری کے ٹھیک سامنے ایک چھوٹا سا تکونہ پارک بھی تھاجس میں سیاہ رنگ کا بڑا سا پتھر نصب تھا جس پر تقسیم ہند کے مہلوکین کی یاد میں ڈاکٹر ذاکر حسین کے بیش قیمتی الفاظ کندہ تھے۔
لائبریری کی بلڈنگ لال پتھروں سے گھماؤدار گول جالی دار قدیم وجدید فن تعمیر کا خوبصورت نمونہ تھی جس پر اسٹیل سے بڑے بڑے حروف میںایک طرف اردو اور ایک طرف انگریزی میں لکھا تھا ’’ ذاکر حسین لائبریری ‘‘ لائبریری کی اونچی اونچی محل نما دیوار پر ایک طرف جنگ آزادی کے مجاہدین کی تصویریں نصب تھیں تو دوسری طرف جامعہ کے بانیوں ذاکر حسین ،محمد علی جوہر ،محمد مجیب جیسی ممتاز شخصیات کی تصاویر بھی آویزاں تھیں۔ دیوار کی ایک جانب شیخ الجامعہ کی تصویر اور ان کی خدمات کے ساتھ ساتھ جامعہ کی سرگرمیاں بھی نمایاں طور پر ملاحظہ کی جا سکتی تھیں۔ میری نظر اچانک ایک ٹیبل پر پڑی جس میں شیشے کے باکس میں جامعہ کی تاریخی اور تحقیقی کتابوں کو نمائش کے لیے رکھا گیاتھا ۔ لائبریری میں ہر طرف نوٹس بورڈ اردو زبان میں لگائے گئے تھے۔
لائبریری کے گیٹ کے بائیں جانب بہت بڑا کمپیوٹر ہال تھا جس میں آن لائن بکس اور کیٹلاگ موجود تھا ۔لائبریری کی دیوار پر ہر طرف جامعہ کے طلباء کی بنائی ہوئی خوبصورت طغرے آویزاں تھے۔ ان میں کچھ نہایت دلچسپ تھیں ۔اردو کے ضرب المثل اشعار کو کسی نہ کسی جانور کی تصویر میں خوش خط اور فنی طریقہ سے اتار دیا گیا تھا۔
اسی طرح کی کچھ پینٹنگ اردو کے ساتھ عربی اور فارسی زبان میں بھی بنائی گئی تھیں۔سامنے کی جانب میں اردو کے معیاری رسالوں کے قدیم سے قدیم تر مجلد مخطوطے بڑے ہی سلیقے سے رکھے گئے تھے ۔لائبریری کے فرسٹ فلور پر قائم میوزیم کے بارے میں پڑھاجہاں ممتاز قلمکاروں کے ہاتھوں کے لکھے پرانے نایاب خطوط،قرآن مجید کے پرانے نسخے مختلف زبانوں کے رکھے گئے تھے ۔
لائبریری سے باہر آنے پر بھوک کا احساس ہوا۔ عقب میں ’’ ایکتا دسترخوان ہے ‘‘ پہنچی تو حیران رہ گئی کہ اس کینٹین میں کھانا بنانے سے لے کر ٹوکن کاٹنے اور کھانادینے تک کا سارانظام صرف لڑکیوں کے سپرد تھا ۔ لڑکیاں شلوار سوٹ پہنے ،سر پر سلیقے سے اسکارف باندھے بڑے ہی جوش و خروش سے کھانادے رہی تھیں۔ کالے کالے پتھروں سے بنی لمبی لمبی میز اور کرسیاں طلباء سے بھری ہوئی تھیں ۔جامعہ کی یہ کینٹین لڑکیوں کے ذریعہ ہی چلائے جانے کے لئے وقف کی گئی ہے۔ہر طرف اردو کے بورڈ اور بول چال میں اردو کازیادہ سے زیادہ استعمال۔ میں نے بھی گرما گرم کھانے کی تھالی لی اور کھانے میں مشغول ہو گئی۔
اچانک سامنے کی جانب ایک لڑکے نے آکر بیٹھے ہوئے کہا، ارے شعیب! کیسے ہو بھائی؟ بڑے دنوں بعد دیدار ہوئے ،بھائی کہاں تھے ؟بس ایسے ہی اورتم بتاؤ تمہاری شعر و شاعری کیسی چل رہی ہے؟تم اتنی اچھی شاعری کرتے ہو یار! یقین نہیں ہوتا کہ جیوگرافی کے اسٹوڈنٹ ہو کر بھی اردو میں اتنی اچھی شاعری کر لیتے ہو ،تمہارے پڑھنے کے انداز سے تو کوئی نہیں کہہ سکتا کہ تم اردو سے نہیں ہو ۔ لمبی داڑھی کرتا پاجامہ پہنے لڑکے نے مسکراتے ہوئے کہا۔ارے بھائی کہاں، آپ تو خواہ مخواہ تعریف کے پل باندھ رہے ہیں ،بس ایسے ہی تھوڑی موڑی کوشش کر لیتا ہوں (دوسرے لڑکے نے مسکراتے ہوئے کہا،آگے بولتے ہوئے) تمہیں تو پتہ ہی ہیں یہاں جامعہ میں اتنے مشاعرے اور اردو سے متعلق مختلف پروگرام مثلا بیت بازی ،شعر و شاعری کے مقابلے ،اور دیگر اردو سے متعلق لکھنے پڑھنے کے مقابلے کرائے جاتے ہیںاردو میلہ ،میراث، آبشار جو خصوصا ہر شعبے کے طالب علموں کے لیے کرائے جاتے ہیں ،اس لیے میں بھی ان میں حصہ لے لیتا ہوں اور اپنے شعر و شاعری کے شوق کو پورا کر لیتا ہوں۔
میرے لئے یہ سب کچھ ایک نیا تجربہ تھا۔ میں یہ دیکھ کر بھی حیران تھی کہ ان لڑکوں کی شباہت سے لمبی لمبی داڑھی ،کرتا ،پاجامہ ،آنکھوں میں سرمہ دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا جیسے یہ کوئی عالم فاضل ،یا مولانا حافط ہونگے ،لیکن وہ مختلف شعبے سے تعلق رکھنے والے طلباء تھے جن کو اردو پڑھنی بھی نہیں آتی تھی لیکن اردو سے ان کا والہانہ ر محبت ہی تھی کہ دیگرسبجکٹ کے ہونے کے باوجود اردو کا دامن تھامے ہوئے تھے،ان کا انداز گفتگو اور طور طریقے سے کوئی اردو داں بھی ان پر شبہ نہیں کر سکتاتھاکہ یہ اردو کے طالب علم نہیںہیں۔ عموما اس طرح کے لڑکوں کو دیکھ کر لوگ غلط فہمیاں پال لیتے ہیں کہ یہ اردو یا قرآن و حدیث یا اسلامیات کے ماہر ہونگے جیسا کہ پہلی نظر میں مجھے بھی یہی گمان ہوا تھا لیکن ان کی باتیں سننے کے بعد میری یہ غلط فہمی بھی دور ہوگئی کہ ہر کرتا پاجامہ اور داڑھی والا بندہ مولانا یا حافظ نہیں ہوتا………میںشکم سیر ہو کر کینٹین سے باہر آگئی ۔
باہر آنے کے بعد میں ’’ فیکلٹی آف ہیو منیٹیز اینڈ لیگویجز‘‘ کی طرف پہنچی تو دیکھا کہ یہ بورڈ بھی ا ردو اور انگریزی زبان میںنصب تھے ۔میںگیٹ کے اندر داخل ہوئی تو گارڈ صاحب سے ایک لڑکابات کر رہاتھا،گیٹ سے گزرنے والا ہر طالب علم گارڈ کو سلام کر رہا تھا اور سیدھا کیمپس میں گھس جاتا،میں نے دل میں سوچا اس سے پہلے کہ مجھے پھر سوالوں کے کٹگھرے میں کھڑا کیاجائے میں نے بھی بڑے ادب سے سلام کیا۔ گارڈ صاحب نے مسکراتے ہوئے جواب دیا اور میں بنا کسی خلل کے اندر آگئی۔
سامنے کی دیوار پر ’’گلشن خسروؔ ‘‘ انگریزی اور اردو میں کندہ تھا۔ یہاں کے ہر شعبے کے باہر ایک خوبصورت گارڈن بھی بنایا گیا ہے اور ہر گارڈن کا نام بھی اردو کی معروف شخصیات کے نام پر رکھاگیاہے ۔میری نگاہیں شعبۂ اردو کو ہی ڈھونڈھ رہی تھیں۔سفید نیلی پٹیوں میں رنگی بلڈنگ میں ایک تین منزلہ عمارت تھی قدرے مختلف نظر آرہی تھی ،اس کے ٹھیک سامنے دونوں طرف دیوار پر پتھروں سے تراشے ہوئے، دومجسموں کے درمیان سے ہوتے ہوئے آگے بڑھی توسامنے ایک گیٹ تھاجس پر ’’باب خسرو‘‘ لکھا ہوا تھا۔ اندر جانے والے راستے پر ایک پٹی پرلکھا تھا ’’دبستان حضرت نظام الدین اولیاء ‘‘چند قدم سیدھاچلنے پر راستہ داہنی طرف مڑ رہا تھا ،مڑتے ہی اس بلڈنگ کے اوپر ہرے ہرے لفظوں میں لکھا تھا’’ شعبۂ اردو ‘‘ شعبہ کے سامنے چھوٹی سی دیوار پر ایک پتھر پر سیاہ لفظوںمیں غالبؔ کایہ شعر کندہ تھا ۔
کیا فرض ہے کہ سب کو ملے ایک سا جواب
آؤ نہ ہم بھی سیر کریں کوہ طور کی
دوسری طرف میر تقی میرؔ کا بھی ایک شعر دیوار پر رکھے پتھر پر کندہ تھا ۔
اس کے فروغ حسن سے جھمکے ہے سب میں نور
شمع حرم ہو یا کہ دیا سومنات کا
شعبے کے اندر سب محو گفتگو تھے ۔ایک جناب اپنے ناک پر رکھے چشمے سے جھانکتے ہوئے گردن ہلکی سی جھکائے پینٹ شرٹ پہنے ،بال ہلکے بکھرے ہوئے اپنی دونوں ابرو کو ملا کر لیکن لہجے میں خوش مزاجی سے بولے ،ارے بھئی کہاں ہو آج کل ،دکھائی نہیں دے رہے ،سب ٹھیک ٹھاک نا،کام کیسا چل رہا ہیں ؟ اس شخص کی آواز سنتے ہی آس پاس کھڑے سارے طالب علم ان کے پاس جمع ہونے لگے ’’جی السلام علیکم سر ‘‘ اس لڑکے نے دیکھتے ہی بڑی گرم جوشی سے کہا ۔’’ہاں وعلیکم۔۔۔۔ کیسے ہو؟ دعائیں ہیں سر ۔ سر ۔۔۔۔لفظ سر سنتے ہی میں حیران رہ گئی کہ یہ سر ہیں جو اتنے نرم لہجے اوردوستانہ انداز میں اپنے شاگردوں سے بات چیت کر رہے ہیں ۔پھر میرے اندر تجسس ہوا کہ یہ کون ہیں؟ میں نے ایک طالبہ سے پوچھا تو وہ میرے سوال پرحیران ہوتے ہوئے کہنے لگی آپ ان کو نہیںجانتیں یہ تو عالمی شہرت یافتہ ناول نگار اور مغربی ادب کے ماہر ہیں ،یہ سنتے ہی میرا منھ کھلا کا کھلا رہ گیا کہ جن کے چرچے میں اب تک فکشن کی دنیا میں سنتی آئی تھی ،جن کے فلسفیانہ ناول میں ابھی تک کتابوں میں پڑھتی تھی ،آ ج وہ میری نظروں کے سامنے کھڑے ہیں اور اتنے مشفقانہ انداز میں طالب علموں سے گفتگو کر رہے ہیں ،جتنا بڑا نام اتنی ہی سادہ لوح شخصیت ۔
’آپ کا نیا ایڈمیشن ہیں یہاں؟‘اس لڑکی نے مجھ سے پوچھا ۔
’ جی ‘
اسی لئے آپ کو حیرت ہو رہی ہوگی ہم بہت خوش قسمت ہیں اس معاملے میں، استاد اور شاگردوں کے میل جول کا ایسا ماحول آپ کو اور کہیں نہیں دیکھنے کو ملے گا،اچھا میں چلتی ہوں کلاس کاوقت ہو گیا خدا حافظ ……یہکہہ کر وہ لڑ کی چلی گئی۔
میں سوچنے لگی کہ مجھے حیرت کیوں نہ ہوگی میں جہاں سے پڑھ کر آئی تھی وہاں تواستاد شاگرد ، سینئر اور جونیئر میںایک لمبی کھائی بنا دی گئی تھی،جسے پار نہیں کیا جا سکتاتھا ،استاد سے بات کرنا ملک الموت کا سامنا کرنے کے برابر تھا ۔ شعبے کے آفس میں داخل ہوتے ہی کسی کی آواز سنائی دی،شعبے کا ملازم بتا رہا تھا:
ہمارے یہاں کے اکیڈمک اسٹاف کالج میں دو طرح کے کورس ہوتے ہیں ایک ریفریشر کورس اور دوسرا اورینٹیشن کورس ،ریفریشر کورس میں کسی ایک موضوع سے متعلق لکچر دیئے جاتے ہیں جب کہ اورینٹیشن کورس میں کالجوں کے اساتذہ کو مختلف علوم سے واقف کرایا جاتا ہے ،اس کے علاوہ ہمارے یہاں گریجویشن کی سطح پر تین اقسام کی اردو پڑھائی جاتی ہے ،پہلی ’’ایلیمنٹری اردو‘‘یہ ان طالب علموں کے لئے ہے جنھوں نے اپنے اسکول میں بالکل اردو نہیں پڑھی لکھی ،دوسرے ’’اردو لینگویج ‘‘یہ ایلیمنٹری اردو پڑھ کر آنے والے طلباء کے لیے ہوتی ہے اور تیسرے نمبر پر بی ۔اے پاس کورس میں اردو ادب کا ایک پرچہ لینا ہوتاہے اور بی ۔اے (آنرز )میں کئی پرچے شامل ہوتے ہیں ،ایلیمنڑی اردو چونکہ لازمی ہے اور یہ پرچہ بی۔اے کے علاوہ بی کام اور بی۔ایس۔سی وغیرہ کے طلباء کے لئے بھی لازمی ہے اس لئے اس میں بہت زیادہ طالب علم ہوتے ہیں ،ہر کلاس کے الگ الگ نصاب اور الگ الگ تقاضے اور ان کے الگ الگ مقاصد ہوتے ہیں ۔اس کے علاووہ ہمارے یہاں سر ٹیفیکٹ کورس بھی ہوتے ہیں سمجھے برخوردار۔ ہمارے جامعہ میں ہر طالب علم کو اردو پڑھنانماز کی طرح فرض ہے ۔
بات آگے بڑھی تو اس نے بتایا کہ طلباء میں اردو کا مزید شوق پیدا کرنے کے لیے بیت بازی ،لفظ شماری،غزل سرائی ،گیت فی البدیہہ ،تقریری مقابلے کے ساتھ ساتھ مختلف سیمینار اور اردو پروگرام کرائے جاتے ہیں ۔۔ہمارے یہاں ڈرامہ کلب بھی ہے ،اس کے علاوہ اسکالرس کا گروپ بھی چلتا ہے جس میں اردو کے مختلف موضوعات پر بحث و مباحثے ہوتے ہیں ،اس گروپ میں ہمارے شعبے کے اساتذہ بھی شامل ہیںتاکہ طلباء کی رہنمائی ہو سکے۔
یہاں کے اسکالر تو بہت خوش قسمت ہیں کیونکہ ان کو ان کے موضوعات کے مطابق ہی نگراں دیئے جاتے ہیں ۔یہی وجہ ہیں کہ ہمارے یہاں پی۔ایچ ۔ڈی کرنے والے طلباء کا کام دیگر اداروں کے مقابلے اعلیٰ و معیاری ماناجا تا ہے۔ جامعہ کا ہر فارم اردو اور انگریزی زبان میں ہوتا ہے ،یہاں تک کہ اسٹاف ممبر کو بھی بیسک اردو آنی لازمی ہے ۔ ہمارے یہاں کے استاد نے تو دہلی کے سابق گورنر نجیب جنگ کو بھی اردو سکھائی ہے ۔ اس طرح کے نہ معلوم کتنے قصے اور باتیں ہیں جو جامعہ سے وابستہ ہیں ۔
اسی وقت کالی پینٹ اور کورٹ پہنے ہلکی پیلے رنگ کی شرٹ اور ڈارک مرون رنگ کی ٹائی لگائے ،وجیہ شکل و صورت ،بلند قامت اور ہلکی مسکراہٹ لیے ………تیز قدموں سے آفس میں ایک رعب دار شخص داخل ہوا،جسے دیکھتے ہی سبھی ملازم اپنی کرسی چھوڑ کر اٹھنے لگے کہ اتنے میں آواز آئی بیٹھو… بیٹھو…..اشارہ کرتے ہوئے کہا اور آفس سے کچھ کاغذی کاروائی کے بعد واپس چلے گئے،میں حیرت سے یہ نظارہ دیکھ رہی تھی ان کے جانے کے بعد میں نے پوچھا یہ جناب کون تھے؟ (ملازم نے حیرت سے جواب دیتے ہوئے کہا) آپ ان کو نہیں جانتی یہ ہمارے صدر شعبہ ٔ اردو ہیں ۔عالمی شہرت یافتہ شاعر بھی ہیں ۔ یہ سنتے ہی میرا منھ کھلا کا کھلا رہ گیا ،ان کو دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ شاعر بھی ہیں ۔(ملازم آگے بولتے ہوئے)ہمارے صدر کی شخصیت جتنی شاہانہ ہے اتنی ہی فکر انگیز ان کی شاعری بھی ہیں ۔
داخلہ کی ضروری کارروائی مکمل کرنے کے بعد شعبہ کے باہرمیں کرسی پر آکر بیٹھی ہی تھی ایک لڑکی کاندھے پر شال لٹکائے ،دونوں شانوں پر بال بکھیرے ،بندی لگائے ،کانوں میں بڑے بڑے کالی چاندی کی جھمکے پہنے بڑی ہی نزاکت سے میرے ٹھیک سامنے والی سیٹ پر آکر بیٹھ گئی ،اپنے بالوں کو انگلیوں سے سنوارتے ہوئے اس کی نظر مجھ پر پڑی تو وہ ہلکی سی مسکرائی پھر سنجیدہ ہوگئی۔میں حیرانی سے یہ سوچنے لگی کی چند لمحوں والی دہلی کی یہ مسکراہٹ اصلی تھی یا نقلی؟پھر اس نے اپنے پرس سے ایک پتلی کتاب نکالی تو میں حیران رہ گئی کہ شکل صورت اور برتاؤ سے ہندستانی انگریز لگنے والی اس لڑکی کے ہاتھ میں اردو کاممتاز ڈرامہ ’’انار کلی ‘‘ یہ دیکھ کر میں چونک گئی ،پھر مجھے لگا کہ ہوسکتا ہے یہ بھی لازمی اردو کو سیکھ رہی ہو ،پھر دل میں خیال آیا کیوں نا محترمہ سے بات کی جائے ؟ بڑی ہمت کرکے میں اٹھی اور اس کے پاس گئی اور دھیرے سے بولی،
ہیلو ……
ہائے……لڑکی نے نظر اٹھا کر پہلے تو مجھے سر سری نظر سے دیکھا پھر مسکرانے لگی۔
میں بیٹھ جاؤں یہاں؟
….. یس …….یس ….. (اس نے اپنے بیگ کو سائڈ کرتے ہوئے کہا)
شکریہ، کہہ کر میں بیٹھ گئی ۔آپ اردو کی طالبہ ہیں؟ میں نے پوچھا ؟
نو…… نو……….میں سول سروسیز کی تیاری کر رہی ہوں ……جامعہ کا کوچنگ سنٹر ہے نا! سول کا! وہیں سے۔ اس لڑکی نے مسکراتے ہوئے کہا۔
یہ آپ کے ہاتھ میں دیکھا تو مجھے لگا آپ………
میں نے انار کلی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
اوہ……یہ تو میں مینس کی تیاری کے لئے پڑھ رہی ہوں ۔لڑکی نے بات کاٹتے ہوئے کہا
اوہ اچھا۔۔۔۔
جی ….جی…..میں نے مینس کے لئے بطور اسپیشل سبجیکٹ اردو کا انتخاب کیا ہے۔
آپ نے اردو کا انتخاب کیوں کیا ؟
در اصل سول میں اردو کا بہت چھوٹا سیلیبس ہوتا ہیں جس کو بہت آسانی سے کور کیا جاسکتا ہے وہ بھی کم وقت میں جن کو بیسک اردو کا بھی نالج ہے وہ تھوڑی محنت کر کے مینس کے لئے تیاری کر سکتے ہیںاور میں نے تھوڑی بہت اردو یہیں جامعہ سے گریجویشن میں سیکھ لی تھی تو ا س لئے ……ویسے پچھلے کچھ سالوں سے سول میں اردو کا کریز بڑھا ہے۔
اردو زبان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
کچھ نہیں ۔ یہ ایک اچھی لینگوج ہے ،میں تو بس سول امتحان میں کامیابی حاصل کرنے کے مقصد سے پڑھ رہی ہوں ،بس….
آپ کو کونسا شاعر پسند ہے ؟
شعر و شاعری میں کوئی خاص دلچسپی نہیں ہیں ۔ اس نے لا پروائی سے کہا ،پھر اپنی گھڑی پر نظر دوڑاتے ہوئے بولی،مجھے کچھ کام یاد آگیامیں نکلتی ہوں ،نائس ٹو میٹ یو…..
’ویل آپ کو اور تو کچھ نہیں پوچھنا نا! ‘اچانک رکتے ہوئے اس نے پوچھا ،
نو….. تھینک یو سو مچ۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا اور وہ لڑکی اپنا پرس اور کتاب سمیٹتی تیز قدموں سے ایسے گئی جیسے کہیںہوا میں کہیں گم ہوگئی ہو۔
میں بیٹھی سوچ میں ڈوبی تھی کہ مجھے اپنے کاندھے پر کسی کا ہاتھ محسوس ہوا مڑ کر دیکھا تو ایک پرانی سہیلی کا مسکراتا چہرہ نظر آیا ،’ارے میڈم یہاں کیسے ؟کہتے ہوئے مجھ سے گلے ملی ،میرا بھی ایڈمیشن ہو گیا ہے یہاں۔
اور بتاؤ، کیا چل رہا ہے ؟ کیسی ہو ؟ میں نے سوالوں کی جھڑی لگا دی ،میں ٹھیک ہوں ،میں ہاسٹل جا رہی تھی تو میری نظر تم پر پڑی بہت دیر تک سوچا تم یہاں کیسے ہوگی لیکن پھر لگا نہیں تم ہی ہو اس لیے آگئی ،چلو نا تم بھی ہاسٹل خوب ساری باتیں کرینگے ( اس نے ایک سانس میں بولتے ہوئے کہا ) میں نے جانے سے انکار کیا تو وہ ضد کرتے ہو ئے کہنے لگی ،یار یہیںکیمپس میں ہی ہاسٹل ہے کینٹین سے سیدھی والی روڈ پر ہی ،اتنے دنوں بعد ملی ہو چلو نا ……
اس کے بار بار اصرار کرنے پر میں منع نہیں کر پائی اور اس کے ہاسٹل کی طرف ہم چل دیئے ۔ اس کے ہاسٹل کا نام ’’ بیگم حضرت محل گرلس ہاسٹل ‘‘ تھا۔اپنے نام کی طرح اس ہاسٹل کی چہاردیواری کے پیچھے وارڈن کا شاہی فرمان ہی چلتا تھا ۔جہاں بنا اجازت پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا تھا۔
گیٹ پر لمبی کاغذی کاروائی اور رجسٹر میں لمبی جانکاری کی لسٹ پُر کرنے کے بعد میں اپنی سہیلی کے روم میں پہنچی ،یہ تین بیڈ روم والا روم تھا جہاں ایک کمرے میں تین الگ الگ شعبے کی لڑکیاں ساتھ رہ رہی تھی ۔میری سہیلی نے بتایا کہ اس کی ایک روم میٹ کیرل کی ہے تو دوسری آسام کی ،چونکہ میری سہیلی کو ان دونوں کی زبانیں نہیں آتی تھی اور انگریزی بھی بولنی نہیں آتی تھی ۔ اس نے بتایا کہ ان لوگوں سے بات چیت کا ذریعہ محض اشارہ اور کنایہ ہی ہیں جسے عرف عام میں باڈی لینگوئج کا نام دیا جاتا ہے لیکن سب سے زبردست جو باہمی رشتہ تھا وہ مسکراہٹ کا تھا۔
کچھ دیر بات چیت کرنے کے بعد ہم ڈائننگ روم میں گئے وہاں بھی سب اپنی اپنی دنیا میں مست کسی کو کسی سے کوئی سروکار نہیں تھا ۔ اپنی سہیلی سے گفتگو کے دوران پتہ چلا کہ اس پورے ہاسٹل میں اردو کی صرف دو طلباء رہتی ہیں جن کا روم بھی ایک دوسرے سے کافی دوری پر ہے۔ پورا دن شعبے کے چکر کاٹنے کے بعد پڑھائی لکھائی سے تھک ہار کر جب وہ ہاسٹل پہنچتے ہیں تو ان کو آرام کرنے اور گھر والوں کو وقت دینے کے علاوہ کچھ نہیں دکھتا ،اس وقت میں وہ کسی اور کی مداخلت بھی نہیں چاہتے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ ہر کوئی صرف خود میں ڈوبا تھا ۔البتہ نظر پڑتی تو ایک دوسرے سے ہائے ہیلو یا مسکرا کر کام چلا لیتے تھے۔
چونکہ شام ہونے کو آئی تھی باتوں باتوں میں وقت کا پتہ ہی نہیں چلا ۔ایک بار پھر گیٹ پر طویل کاغذی خانہ پری کے بعد اس محل کی قید سے آزاد ہوئی ۔ راستے میں دن بھر کی سرگرمیاں میرے ذہن میں ایک بار پھر رقص کرنے لگی،مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے جامعہ ملیہ اسلامیہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے چھوٹے بھائی کی طرح ہے۔بڑا بھائی جو کُرتا پاجامہ سر پر ٹوپی لگائے بڑے بوڑھوں کا احترام، اپنے تہذیب و تمدن اپنی قدیم روایتوں کو نبھاتے ہوئے بڑی ذمہ داری سے آگے بڑھتا ہے جب کہ چھوٹا بھائی صرف کرتا پاجامہ ہی نہیں پہنتا بلکہ وہ قدیمی روایتوں کو ماننے کے ساتھ ساتھ بدلتے وقت کے بدلتے رنگ میں بھی خود کو ڈھال کر زمانے کے فیشن کے مطابق کبھی پینٹ بھی پہن لیتا ہے تو کبھی جینس اور کبھی موڈ ہوا تو کورٹ پینٹ بھی پہن لیتا ہے۔ وہ کبھی شرارت بھی کرتا ہے تو کبھی اپنی معصومیت سے ہر ایک کا دل بھی جیت لیتا ہے۔چھوٹا بھائی ہونے کی وجہ سے گھر میں ہر کسی کا لاڈلا بھی ہے ۔چونکہ دونوں بھائیوںکی پرورش ایک خاص ماحول میں بڑے بوڑھوں کی سر پرستی اور نگرانی میں ہوئی ہے اس لیے وہ اپنے خاندان ،اپنے معیار ،اپنے رتبے ،اپنی شان و شوکت کا خیال رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کا بھی ہنر سے بھی بخوبی واقف ہیں۔ وہ ایسا کوئی کام نہیں کرتے جس سے ان کی عزت پر حرف آئے ۔
جامعہ کی سیر کرنے کے بعد اور اردو کا ماحول دیکھنے کے بعد ایسا لگ رہا تھا کہ جامعہ خود کہہ رہا ہو کہ:
’ ہر با ذوق انسان کے لئے
اردو سے واقفیت فرض ہے ‘
یہاں کی تاریخی جدید و قدیم فن تعمیر کی شاہکار عمارتیں یہ پیغام دے رہی تھیں کہ وقت کے ساتھ چلو لیکن اپنی تاریخ و تہذیب سے رشتہ بھی استوار رکھو۔
میرا ڈر، خوف ،اور سارے سوال جو آتے وقت میرے ذہن و دل میں طوفان برپا کر رہے تھے وہ تمام سوال اب ہوا میں گم ہوچکے تھے ۔میںیہ تمام خیال اپنے دماغ میں لیے گیٹ تک پہنچ گئی اور مجھے احساس بھی نہیں ہوا ،گیٹ سے باہر نکل کر میںنے آٹو رکشہ والے کو ہاتھ دکھا کر بلایا،میں رکشے پر بیٹھ کر گہری اطمینان کی سانس لی اور آٹو رکشہ والے نے اپنا میٹر گرا دیا۔
٭٭٭