طاہر طیب
افسانہ
سفر باقی ہے!
بہاول نگر، کی تحصیل چشتیاں سے ملحقہ آبادی کے شمال میں نور پورہ بستی اوراس کے ساتھ ساتھ کئی چھوٹے بڑے چک بھی موجود ہیں ۔۔۔ یہ ایسا علاقہ ہے جس کے دامن میں،چھوٹے بڑے دونوں طرح کےگھر ہیں۔۔یہاں کئی دیگر دیہات بھی آباد ہیں۔۔۔گاؤں اور اس کے اطراف و جوانب میں بنے گھروں میں کچھ کشادہ اور جدید طرزِ تعمیر کی جھلک نظر آتی ہے ۔ ۔۔ان گاؤں کے کچھ افراد بیرونِ ملک کیاگئے ۔۔۔ ان کی تو زندگی ہی سنور گئی ۔۔۔اب ان کے کچے مکانوں کی جگہ دوتین منزلہ خوبصورت ٹائلوں والے گھروں نےلے لی۔۔۔ یوں ، گاؤں کےکئی دیگر نوجوان بھی باہر جا کر مستقبل سنوارنے کے خواب دیکھنے لگے۔۔۔کیونکہ بظاہر ان گھروں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ان کے مکین آسودہ حال ہیں ۔۔۔۔ لیکن کچھ کچے گھر مٹی سے بنے ہوئے ہیں جن کی خستہ حالت ان گھروں کے مکینوں کا احوال بھی سناتی ہے۔۔۔ کہ وہ غربت کے مارے ہوئے ہیں ۔۔ ۔ اور ان میں بیشترلوگ ، ایک بہتر مستقبل کی تلاش میں سر گرم دکھائی دیتے ہیں۔ ۔۔انہی میں ایک گھر نسیم کا بھی تھا۔۔۔نسیم کے گھر کا جیسا تیسا گزارا چل ہی رہا تھا۔۔۔۔ لیکن پاس پڑوس کے دو چار لوگ ولایت میں کمانے کیا گئے۔ ۔ ۔ ان کی تو جیسے قسمت ہی بدل گئی ہو۔۔۔وہ جو پہلے غربت کی چکی میں پس رہے تھے اب تو ان کی زندگی قابلِ رشک تھی ۔۔۔یہ سب واقعات نسیم کی آنکھوں کے سامنے گردش کرتے رہتے۔۔۔ایک دن اسے بھی خیال آیا ۔۔۔کیوں نہ وہ بھی اپنے شوہرشکیل سے کہے۔۔۔ کہ وہ بھی باہر چلا جائے۔ ۔۔ ہو سکتا ہے ان کی قسمت بھی چمک اُٹھے۔۔۔مگر یہ کہنے کے لیے وہ کبھی ہمت نہ جمع کرپائی۔۔۔ایک دن شکیل آیا تو اس نے اپنی بیگم کو بتایا کہ میرا یارشوکی دوبئی چلا گیا ہے۔۔۔کبھی کبھی تو میں بھی سوچتا ہو ں کہ میں بھی باہر چلا جاؤں۔۔۔ نسیم نے شوہر کی بات کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ بات تو ٹھیک ہے۔۔۔ مگر! ہمارے پاس تو اتنا سرمایہ ہی نہیں کہ ٹکٹ ویزے کے پیسے دے سکیں۔۔۔چلیں! دیکھتے ہیں کہہ کر وہ کمرے میں چلا گیا۔ سخت مزاج مرد عورت کی دلکش شرارتوں سے بھی محروم رہتاہے۔۔۔شکیل دہاڑی دار آدمی تھا۔۔۔ کبھی لگی کبھی نہ لگی ۔۔۔یوں ہی گزربسر ہوتا رہا۔۔۔کبھی کم اور کبھی بس پورا پورا۔۔۔کئی بارحالات اتنے زیادہ خراب ہو گئے اور نوبت فاقوں تک پہنچ گئی ۔۔۔اب اس نے فیصلہ کرلیا کہ وہ بھی باہر چلا جائے ۔۔۔وہ کیا کرتا، فاقے مزید برداشت نہ ہوئے ۔ مزدوری کبھی ملتی ہے، کبھی نہیں ملتی اور جو ملتی ، اس سے گزر بسر مشکل ہوجاتا اور مہنگائی اتنی بڑھ گئی کہ گھر کا چولہا بھی بمشکل ہی جلتا۔۔۔ ایک دن وہ کسی سیٹھ کے ہاں کام کر رہا تھا۔۔۔ کہ اس کے پاس چند لوگ بیٹھے ویزوں کی باتیں کر رہے تھے۔۔۔جیسے ہی شکیل نے یہ آواز سنی ۔۔۔اس کے کان کھڑے ہوگئے۔۔۔سوچاکہ کوئی مناسب موقع دیکھ کر سیٹھ سے بات کرے گا۔۔۔۔کچھ دنوں بعد اس نے ہمت کر کے سیٹھ سے بات کی کہ اسے بھی باہر جانے کا شوق ہے۔۔۔سیٹھ نے کہا کوئی پیسے وغیرہ ہیں تمھارے پاس؟ ۔۔۔۔تمھیں پتا ہے باہر جانے کے لیے کتنے پیسے لگتے ہیں؟۔۔۔چار پانچ لاکھ۔۔۔سیٹھ جی !یہ تو بہت زیادہ ہیں۔۔۔۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ مجھے کسی طرح بھی باہر بھیج دیں۔۔۔میں ڈبل شفٹ کام کر کے آپ کے پیسے چُکا دوں گا۔۔۔اچھا! اچھا !دیکھتا ہوں۔۔۔ کہہ کر وہ چلا گیا۔۔۔گھر آیا توسوچ بچار میں گم ۔۔۔ بیوی نے پوچھا خیر تو ہے ؟۔۔۔اس نے کہا آج میں نے سیٹھ سے باہر جانےکی بات کی تھی۔۔۔۔اس نے بتا یا کہ چار پانچ لاکھ لگتے ہیں۔۔۔اگر ہم اپنا مکان بیچ دیں تو۔۔۔ یہ پیسے پورے ہو سکتے ہیں۔۔۔تو میں اور بچے کہاں جائیں گے؟۔۔۔ تم اپنی ماں کے پاس چلی جانا۔۔۔پگلی! کچھ دنوں کی تو بات ہے ۔۔۔سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔۔پہلے تو اس نے پیار سے سمجھانےکی کوشش کی مگر جلد ہی احساس ہوا اور اس کے چہرے کے تیور بدل گئے ۔۔۔اب کی باراس نے زور دے کر کہا۔۔۔جیسے اس نے بات بتاتے ہوئے کم اور حکم دیتے ہوئے زیادہ کہا ہو۔۔۔ اسی دوران شکیل ساری رات سوچتا رہا ۔۔۔اور اس نےاب پختہ فیصلہ کر لیا کہ اپنا مکان بیچ دے گا ۔۔۔جب کسی کام کا جنون سر چڑھنے لگے تو پھر انسان ہر چیزقربان کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے ۔۔۔ کچھ دنوں کے بعد وہ دوبارہ سیٹھ کے پاس گیا اور کہا کہ میں نے مکان بیچ دیا ہے ۔۔۔بس آپ مجھے باہر بھیج دیں۔۔۔اچھا! اچھا !جب تمھیں پیسے ملیں لے آنا ۔۔۔ہفتے بعد پیسے لے کر گیاتوسیٹھ نے پیسے لیتے ہوئے کہا ۔۔۔سنو ! ان کاموں کی رسید وسید کوئی نہیں ہوتی ہے۔۔۔ ہاں یہ وعدہ ہے کہ تمھیں باہر بھجو ادوں گا۔۔۔ تم فکر نہ کرو۔۔۔اس نے اسی وقت جیب سے موبائل نکالا اور فون کرنے لگا۔۔۔ ہیلو !ہاں۔۔خورشید کیسے ہو؟ ۔۔۔۔اچھا یہ بتا ؤ کہ تمھارے پاس باہر جانے والے لوگوں کی کتنی تعداد ہو گئی ہے؟۔۔۔آٹھ دس اچھا اس میں ایک اور بھی شامل کر لو۔۔۔۔شکیل ہے اس کا نام۔۔۔یہ کہہ کر اس نے فون بند کردیا۔۔۔شکیل سے کہا کہ تم بس تیاری پکڑو۔۔۔پندرہ دن کے بعد چکر لگانا۔۔۔اچھا ۔۔۔کہہ کر سیٹھ نے اسے جانے کا اشارہ کیا۔۔ ۔واپس گیا تو عجیب کشمکش میں تھا۔۔۔سوچا اپنی تمام جمع پونجی لگا دی ۔۔۔پتا نہیں ۔۔۔ کیا ہو گا؟۔۔۔ جا بھی سکوں گا کہ نہیں۔۔۔ نا جا سکا تو ۔۔۔مکان بیچ دیا۔۔۔بچوں سے چھت بھی چھین لی ۔۔۔ کئی دن یونہی تذبذب میں رہا۔۔۔پندرہ دن بعد جب سیٹھ کے پاس گیا۔۔۔ اس نے پھر دس دن کا مزید کہہ کر رخصت کر دیا۔۔۔درد اور انتظار دونوں ہی اذیت ناک ہیں۔۔۔خیر دس دن جیسےتیسے گزار لیے۔۔۔جب دوبارہ سیٹھ کے پاس گیا تو اس نے کہا کہ تم اپنا بیگ شیگ تیا ر کر لو ۔۔۔۔ اتوار کو تمھاری روانگی ہے ۔۔۔گھر آیا اس نے کپڑے کا بیگ بنایا۔۔۔۔۔وقت ِمقررہ پر وہ سیٹھ کے پاس پہنچ گیا۔۔۔ جہاں تین اور لوگ بھی بیٹھے تھے۔۔۔ سیٹھ نے اپنے ملازم سے کہا کہ جاؤ ۔۔۔انہیں خورشید کے پاس چھوڑ آؤ۔۔۔ ڈرائیور نے چاروں کو بٹھایا۔۔۔ تین چار گھنٹے کی ڈرائیوکے بعد ۔۔۔ وہ خورشید کےپاس پہنچ گیا۔۔۔ اس نے سیٹھ کا سلام دیا اور کہا یہ چار بندے آپ کے حوالے۔۔۔ اور واپسی کی اجازت چاہی۔۔۔خورشید نے سندھی زبان میں اپنے ملازم کو آواز دی ۔۔۔نیاز! او نیازو! ۔۔ان چاروں کو بھی ۔۔۔ڈیرے پر چھوڑ آؤ۔۔۔وہاں وہ ایک اور گاڑی پر بیٹھ کر آگے پہنچے۔۔۔ دیکھا تو وہاں پربیس تیئس کے قریب اور لوگ بھی تھے۔۔۔ وہاں ایک کرندہ نے ان کے نام پوچھے اور نام لکھ کر ایک مٹکے میں ڈال دئیے۔۔۔یہ بات شکیل کو سمجھ نہ آئی ۔۔۔خیر! آگے گئے تو دو کرندے آپس میں باتیں کر رہے تھے ۔۔۔ شاید باہر تو پیسے درختوں پر لگے ہوتے ہیں ۔۔۔ جیسے وہاں جائیں گے تو پیسوں کی ریل پیل ہو جائے گی ۔۔۔ انہیں نہیں پتا کہ کس مصیبت اور پریشانیوں سے گزرنا پڑتا ہے۔۔۔دوسرا بولا ۔۔۔ان کا سامان تو دیکھو۔۔۔ جیسے پورےگھر کا لاؤ لشکر لے آئے ہیں ۔ ۔۔ دونوں نے زور دار قہقہہ لگایا۔۔۔ خود غرضی بھی عجیب شے ہے۔۔۔اس کا احساس کم ہی لوگوں کو ہوتا ہے۔۔۔یہ کہہ کرانہیں بھی دوسرے لوگوں کے ساتھ ملا دیا۔۔۔ ایک بڑا سا ہال۔۔۔جس میں پرانی قالین نما دری بچھی تھی۔۔۔ وہاں کچھ لوگ لیٹے ہوئے اور کچھ بیٹھے باتیں کر رہے تھے ۔۔۔یہ سارے افراد ملک کے طول وعرض سے یہاں جمع تھے ۔۔۔ کوئی پنجاب،سندھ تو کوئی کے پی کے، توکوئی کشمیرسے۔۔۔ مگر ان سب کےسپنے ۔۔۔ ایک ہی تھے ۔۔۔بس امیر بننا۔۔۔صبح ہوئی تو کہا گیا کہ دس دس لوگ تیار ہوجائیں۔۔۔صبح انہیں دوبئی بھیجا جائے گا۔۔۔نام قرعہ اندازی سے چنے گئے ۔۔۔ تاکہ آپس میں جھگڑا ہی نہ ہو۔۔۔ان دس لوگوں میں شکیل کا نام بھی شامل تھا۔۔۔ان سب کو کپڑے کا ایک چھوٹا دستی بیگ دیا اورکرخت لہجے میں ایک شخص نے کہا کہ صرف چار پانچ کلو سے زائد سامان لے جانے کی اجازت نہیں۔۔ ۔۔ ۔ دوپہر کو انہی دس لوگوں کو بندر گاہ پر پہنچایا گیا۔۔۔ جہاں کارگو بحری جہاز کھڑا تھا۔۔۔کئی بھیڑ بکریاں۔۔۔ زرعی اجناس اور دیگر سامان وغیرہ لادا جا رہا تھا۔۔ ۔شکیل نے کہا ۔۔۔کیا ہم بحری جہا ز سے جائیں گے؟۔۔۔۔۔ڈرائیور نے طنزیہ لہجے میں کہا ۔۔۔ نہیں تو تمھیں ہیلی کاپٹر پر بھیجا جائےگا۔ ۔۔چار نا چار۔۔۔تما م لوگ جہاز کے پوشیدہ خانوں میں بٹھا دئیے گئے۔۔۔ جہاں صرف بڑی مشکل سےزانوں بھر کے بیٹھنے کی جگہ تھی ۔۔۔ایک دو دن میں جہاز شیخ راشد پورٹ پر پہنچ گیا۔۔۔۔کارگو جہاز سے سامان اتارتے ہوئے۔۔۔ ان دس لوگوں کو بھی مختلف سمتوں میں مختلف لوگوں کے حوالے کیا گیا۔۔۔ایک شخص نے شکیل اور ایک بندے کو عربی شخص جس نے جبہ گنڈورا پہنا ہوا تھا کے حوالے کیا۔۔۔ اور کہا ارباب! آپ دیکھ لیں۔۔۔وہ دونوں کو اپنی لینڈ کروزر کے پاس لےگیا ۔۔۔شکیل نے ایسی گاڑی زندگی میں پہلی بار دیکھی تھی ۔۔۔جس کے شیشے بالکل کالے۔۔۔اس نے ان دونوں کو اپنے سامان کے ساتھ لینڈ کروزر کی سیٹوں کے نیچے چھپ کر بیٹھنے کو کہا۔۔۔عربی شخص نے ۔۔۔ جلدی! بابا جلدی! ۔۔۔کہہ کر بیٹھنے کو کہا ۔۔۔پورٹ سے لے کر گاڑی چلتی رہی۔۔۔ کچھ دیر کے بعد ارباب نے انہیں ایک پاکستانی ایجنٹ کے حوالے کر دیا ۔۔۔جمشید نے دونوں کو عربی شخص سے شکر اً۔۔یا حبیبی ۔۔۔ کہہ کر لیا اور اپنی گاڑی میں بٹھا کر وہ انہیں ایک فلیٹ میں لے آیا۔۔۔چھوٹا ساروم اور اس کے باہر جوتیو ں کا ڈھیر ہی ڈھیر ۔ ۔۔کمرے میں چاروں طرف چار بینگ بیڈ لگے ہوئے تھے۔۔۔ کچھ روم میں بارہ اور کچھ میں تو سولہ اور اٹھارہ افراد بھی رہتے ۔۔۔البتہ اے سی کی وجہ سے کمرہ خوب ٹھنڈا تھا۔۔۔جمشد نے شکیل سے کہا تم یہیں رہو ۔۔۔کل سے تمھیں کام پر بھیجیں گے ۔۔۔شکیل نے لوگوں کو دیکھا۔۔۔ غرض جتنے لوگ۔۔۔اتنی ہی کہانیاں اور اتنے ہی خواب۔۔۔ایک شخص نے شکیل سے کہا ۔۔۔ کیا نام ہے تمھارا ؟ اس نے جواب دیا ۔ ۔۔شکیل۔۔۔اور آپ کا ؟۔۔۔اس نے کہا سعید۔۔۔۔حال احوال پوچھنے کے بعد دونوں باتیں کرنے لگے ۔۔۔تم خوش قسمت ہو کہ یہاں تک پہنچ گئے ۔۔۔نہیں تو اکثریت لوگ تو مر جاتے ہیں سعید نے بتایا۔۔۔وہ کیسے ؟شکیل نے استفسار کیا۔۔۔ایسے بہت سے واقعات ہمارے سامنے ہیں۔۔سنو گے؟ ۔۔۔ہاں سناؤ۔۔۔۔کچھ لو گ بحری کشتیوں سے۔۔۔کچھ بسوں سے ۔۔۔اور کچھ پہاڑوں کے راستے۔۔۔یہاں تک پہنچتے ہیں۔۔۔ کچھ کو دوبئی تک ۔۔ اور کچھ کو بعد میں غیر قانونی طور پر یورپ بھیجاجاتا ہے۔۔۔کئی لوگوں کو تو جہاز کے نچلے خا نوں میں چھپایا جاتا ہے ۔۔۔اور اگر خدا نخواستہ ایمرجنسی ہوجائے تو جہاز کے ان نچلے حصوں میں پانی چھوڑ دیا جاتا ہے ۔۔۔خوش قسمت ہوئے تو بچ گئے نہیں تو جان سے گئے۔۔۔ جو پہاڑوں کے ذریعے داخل ہوتے ہیں اگرسیکورٹی فورسز ز کی نظر پڑ گئی تو ۔۔۔وہ سیدھے فائر کھول دیتے ہیں۔۔۔اور کچھ تو غیر قانونی طور پر کسی اور کے ویزے اور پاسپورٹ پر سفر کرتے ہیں ۔۔پکڑے جانے کی صورت میں جیل میں ڈال دیا جاتا ہے۔۔۔یوں ہی کچھ لوگ یورپ پہنچ جاتے ہیں۔۔۔ سعید نے کہا: میرا بھی ارادہ تھا ۔۔۔لیکن میں نے ترک کر دیا ۔۔۔اس کی وجہ میرے دوست اسد کی موت ہے ۔۔۔اس نے ٹھنڈی سانس بھری اور اس کی آنکھیں بھر آئیں ۔۔۔
شکیل نے کہا گویا یو رپ جانا زندگی موت کا کھیل ہے ۔۔۔سعید نے کہاہاں تو ۔۔لیکن انھیں بھی یہی راستہ نظر آتا ہے۔۔۔مگر یہ راستہ بہت پُر خطرہے۔۔۔ انسانی سمگلر غیر قانونی طور پر لوگوں کو یورپ میں داخل کراتے ہیں۔۔۔جعلی ویزوں کے ذریعے ہوائی سفر کے بعد لوگوں کو افریقی ملک لیبیا ، جہاں سے انھیں افریقہ سے ایشیا اور یورپ کے درمیان واقع بحرِ روم کے پانیوں پر چھوٹی کشتی میں سوار کرایا جاتا ، عام طور پر گنجائش سے کہیں زیادہ لوگ بھردئیے جاتے ہیں جن سے کشتیاں الٹ جاتیں ہیں اور کئی لوگ ہلاک ہو گئے ۔۔۔ سعید نے کہا ۔۔انہی میں میرا دوست اسد بھی تھا۔۔ ۔ گویا یہ زندگی کا جوا ہے ۔۔۔کوئی ہار گیا کوئی جیت گیا۔۔۔اسد کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔۔آج تک اس کا پتا ہی نہیں چل سکا۔۔کہ وہ زندہ ہے کہ مر گیا۔۔۔اس پُر خطر سفرمیں وہ اکیلا نہیں تھا بلکہ اس کے گاؤں کے کئی نوجوان اوربھی اس کے ہمراہ تھے ۔۔۔بحرِ روم میں یونان کے پانیوں میں ڈوبنے والی کشتی میں کئی لوگ مر گئے۔۔۔اور دو چار بچ گئے ۔۔۔جو بچ گئے وہ جیل میں ہیں ۔۔ ۔لیکن اسد کی شناخت نہ تو مرنے والوں میں ہوئی ہے اور نہ زندہ بچ جانے والوں میں۔۔۔شاید۔۔۔کوئی معجزہ ہو جائے اور میرا دوست زندہ ہو۔۔۔کیونکہ کشتی حادثے کے وقت کچھ لوگ سمندر میں کود گئے تھے جہاں سے یونانی کوسٹ گارڈز نے ان کی جانیں بچائیں اور وہ سب جیل میں ہیں ۔۔۔اسد کی اہلیہ اور بیٹا بیوہ کی زندگی گزار رہی ہے۔۔۔ابھی تک گھر کے باہر لگے شامیانے کے نیچے لوگ آ کر بیٹھتے ہیں ۔۔ ۔اتنے میں سعید کا دوست یاسر آیا۔۔۔وہ سلام کرتے ہوئے سعید کے پاس بیٹھ گیا۔۔۔سعید نے یاسر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اس کو دیکھو۔۔۔یہ ریلوے کی ملازمت چھوڑ کر آگیا۔۔۔شکیل نے اس کی طرف حیرانی سے دیکھا۔ ۔۔اچھی بھلی سرکاری نوکری تھی ۔۔۔اس کا کام ریل گزرنے کے وقت ہری جھنڈی دِکھانا تھا۔۔۔اس کے پاس پانچ کنال زرعی زمین بھی تھی ۔۔۔گزر بسر ٹھیک چل رہا تھا۔۔۔ والد کے ساتھ ہاتھ بٹاتا تھا۔ ۔۔اور ناجانےکیسے یہ انسانی سمگلروں اور ایجنٹوں کے جھانسےمیں آگیا۔۔۔انھوں نے اسے سبز باغ دکھائے ۔۔۔ باہر جانے کے لیے آمادہ کیا۔۔۔ یاسر کو کئی لوگوں کی مثالیں دی گئیں۔۔۔ جہاں بہت سے لوگ بیرونِ ملک گئے اور پھر اُن کی زندگی بدل گئی ۔۔۔۔ ایجنٹ نوجوان لڑکوں کو اسی طرح ورغلاتے ہیں اور اچھی خاصی رقم لے اُڑتے ہیں ۔۔۔وہ یہ راستہ دکھاتے ہیں کہ بغیر ویزے کے بھی یورپ جانا ممکن ہے۔۔۔ اور پھر وہاں جا کر ان کی زندگی بدل جائے گی۔۔۔ اور یہ حقیقت ہے کہ زندگی بدل بھی جاتی ہے۔۔۔لیکن اس تبدیلی کی مثبت یا منفی اثرات ہوتے ہیں ۔۔۔یاسر کو باپ نے بہت سمجھایا لیکن وہ بضد تھا۔۔۔ باپ کو یہ ڈر تھا کہ اگر میں نے اس کو زیادہ روکا یا پیسے نہ دیے تو وہ گھر سے بھاگ کر انتہائی قدم نہ اٹھا لے ۔۔۔والد نے ایجنٹ سے رابطہ کیا جو راولپنڈی میں رہتا تھا۔۔۔ یاسر کے علاوہ اس ایجنٹ سے کسی فرد کی کبھی ملاقات نہیں ہوئی ۔۔۔ان کے ساتھ بس فون پر ہی رابطہ تھا۔۔۔ شکیل نے پوچھا وہ اس سے کیسے ملا؟۔۔۔ایجنٹس مختلف گروپوں میں کام کرتے ہیں۔ ۔۔سعید نے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ سامنے والے کمرے میں بھی ایک ایجنٹ رہتا ہے ۔۔۔ وہ سارا دن فون پر باتیں کرتا ہے ۔۔۔اس کے پاس کئی فون اور سمیں ہیں۔۔۔ مَیں نے اکثر اس کو جھوٹ بولتے سنا کہ میں ا میگریشن کے دفتر میں ہوں۔۔۔ اتنے پیسے اسے دےدو ۔۔۔تمھار ا ویزہ نکل آئے گا۔۔۔ان کو کوئی پکڑتا کیوں نہیں؟ ۔۔۔شکیل نے کہا۔۔۔بھولے بادشاہ ۔۔۔ یہاں کے ایجنٹس کا کام صرف لوگوں کو تیار کرنا، پیسے لینا اور انھیں اگلی منزل کی طرف روانہ کر دیناہے۔۔۔ آگے پھر دوسرے ایجنٹ ہوتے ہیں۔۔۔یہ سب صرف اور صرف پیسوں کے لیے کام کرتے ہیں۔۔۔یاسر۔۔اب یہ ایک بقالے میں چودہ گھنٹے کام کرتا ہے۔۔۔بڑی مشکل سے اسے ایک ہزار درہم ملتا ہے۔۔۔اس نے تواچھی خاصی زندگی کو مشکل بنا لیا۔۔۔یاسر نے کہا : یار! ۔۔۔اب میں نہ آگے کا ہوں نہ پیچھے کا ۔۔۔نوکری چھوڑ دی ۔۔۔زرعی زمین بھی بیچ دی ۔۔ گھروالوں کو جھوٹ بولتا ہوں کہ میں خوش ہوں ۔۔۔یہاں دو ہفتے بعد ایک دن کی چھٹی ملتی ہے کوئی نیا لباس پہن کر کسی خوبصورت مقام پر جا کر تصویریں لے کر گھروالوں کو بھیج دیتا ہوں۔۔۔ موسم اور منظر بھی اچھے نظر آتے ہیں ۔۔ان کے نزدیک میں بھرپو ر عیاشی والی زندگی بسر کر رہا ہوں۔۔۔ یہاں تک کہ مجھ سے میرے دوست اور رشتے دار ناراض ہو گئے کہ یہ ہمیں دوبئی نہیں بلاتا۔۔۔انھیں کیسے میں بتاؤں کہ جس اذیت میں مبتلا ہوں انھیں مَیں اس اذیت سے دوچار نہیں کر سکتا۔۔۔ یہاں ہر کسی کے پاس سنانے کے لیے ایک الگ کہانی ہے ۔۔۔ان مشکلات اور بےروزگاری کے باوجود لوگوں کی آمد کا سلسلہ جاری و ساری ہے ۔۔۔اسی دوران کمرے میں ایک نوجوان شاکر داخل ہوا ۔۔۔اس نے شکیل کے نئے چہرے کو دیکھتے ہوئے ۔۔۔ پانی کی بوتل بجا کر یہ سرائیگی گیت گایا۔۔ ”قربان تھیواں جیہڑے گھر توں دور ہن، غربت دے مارے قسمت دے چور ہن۔۔۔“اتنے میں بابا بشیر بھی آ گیا۔۔۔سعید نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ساری عمر کمائی کر کے گھر والوں کے لیے پیسے بھیجتارہا ۔۔۔جب واپس گیا تو انھوں نے قبول نہیں کیا۔۔۔اور یہ بیچارہ۔۔۔ پھر واپس یہاں آگیا۔۔۔کہتا ہے کہ گھر والوں کو میری نہیں صرف پیسوں کی ضرورت ہے۔ ۔ ۔ پاکستان میں بیٹھے لوگوں کو یہاں کی زندگی بڑی حسین لگتی ہے۔۔۔اور یہاں پر رہنے والوں کو پاکستان کی ۔۔۔فرق صرف اتنا ہے کہ جس پر گزرتی ہے اور جو گزارتا ہے ۔۔پتا صرف اسی کو ہوتا ہے ۔۔یہی زندگی ہے ۔۔ ۔سعید نے شکیل کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔۔۔فکر نہ کرو ۔۔۔دوست ۔۔۔سفر ابھی باقی ہے! ۔۔۔
***