You are currently viewing غزل

غزل

فیضان بریلوی

غزل

جن کو نہ قدر وقت کی انکو گھڑی ملی

اندھوں کا یہ ہوا کہ انہیں روشنی ملی

چاہی تھی زندگی سے حقیقی ہر ایک چیز

لیکن  یہ  زندگی  ہی  ہمیں  عارضی  ملی

اِک آرزو کہ جس کا کوئی سر نہ پیر تھا

صحن دل اُداس میں پھر بھی کھڑی ملی

تکمیل زندگی کے لیے آئے تھے یہاں

اس شہر میں حیات مگر نصف ہی ملی

دنیائے رنگ و بو کی تمنّا میں ڈوب کر

گوہر ملا نہ کوئی بھی شی قیمتی ملی

سوچا تھا چھاؤں چھاؤں سے گزریں گے راہ میں

لیکن   ہر   ایک   پیڑ   پر   آری   چلی   ملی

فیضان جستجو و تمنّا بھی کیوں کریں

من چاہی کوئی چیز کسی کو کبھی مل

***

Leave a Reply