You are currently viewing اداریہ

اداریہ

اداریہ

ڈاکٹر مہوش نور

ریسرچ ایسوسی ایٹ،آئی سی ایس ایس آر، نئی دہلی

ہندستانی نژادمعروف  امریکی شاعر،افسانہ نگار،ناول نگار،نقاد ڈاکٹر ستیہ پال آنند (1931-2025)نے 94سال کی عمر میں کینیڈا میں 3اگست 2025کو آخری سانس لی۔24 اپریل 1931 کو کوٹ سارنگ،پنجاب میں پیدا ہوئے ڈاکٹر پال نے ابتدائی  تعلیم سے لے کر ماسٹرز تک ہندستان سے تعلیم حاصل کی بعد ازاں  انگلینڈ سے انگریزی ادب میں اور ٹینیٹی یونیورسٹی، ٹیکساس سے فلسفہ میں ڈاکٹریٹ کی دو ڈگریاں حاصل کیں۔مختلف بین الاقوامی یونیورسٹی میں ڈاکٹر پال نے درس و تدریس کے فرائض انجام دئیے جیسے یونیورسٹی آف دی ڈسٹرکٹ آف کولمبیا، یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا، اوپن یونیورسٹی (انگلستان) اور سعودی عرب  ۔یورپ،امریکہ،کینیڈا  کی یونیورسٹیز نے نصاب کی منصوبہ بندی اور اس کی تیاری کے لیے انہیں بطور وزیٹنگ پروفیسر باقاعدگی سے مدعو کرنا شروع کر دیا اور یہی وجہ ہے کہ ان کے احباب اور طالب علم نےانہیں ’ائیر پورٹ پروفیسر‘  کی عرفیت دی۔

شاعر یاس یگانہ چنگیزی کو جس طرح ’غالب شکن‘ کہا جاتا ہے اسی طرح ا ٓزاد نظم کو نئی جہت عطا کرنے والے ڈاکٹر ستیہ پال آنند کو اگر’ غزل شکن ‘کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔کیوں کہ موصوف کو اردو غزل کے  تنگ دامانی کا گلہ ہے۔انہیں اردو غزل کا دائرہ بہت ہی محدود نظر آیا۔وہ کہتے ہیں’’یہ صنف عصری آگہی سے مملو نہیں ہے اور ہو بھی نہیں سکتی۔ یہ موجودہ دور کی برق رفتار زندگی، اس کے گونا گوں تقاضوں اور بدلتی ہوئی قدروں کے اظہا ر کے لیے ناکافی ہے۔ اس کی تنگ دامانی مسلمہ ہے۔‘‘مضمون ’صنف غزل کے بارے میں‘مطالعہ کرنے کے بعد اندازہ ہو اکہ  موصوف انگریزی ادب کے دلدادہ ہیں۔کسی ایک ادب کے پروردہ ہونے کی صورت میں یا کسی ایک ادب کے قاعدے وقوانین کو آخر مان کر وہی تمام چیزیں دوسری زبان کے ادب میں تلاش کرنےکے سبب  اس طرح کی تحریریں  اور فکریں وجود میں آتی ہیں ۔اگر اردو غزل کا دامن تنگ ہوتا تو غالب یہ نہیں کہتے’ رنج سے خوگر ہوا انسان تو مٹ جاتا ہے رنج‘۔۔۔کلیم عاجز یہ نہیں کہتے’ دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ‘۔۔۔ندا فاضلی یہ نہیں کہتے’یہاں کسی کو کوئی راستہ نہیں دیتا‘۔۔۔افتخار عارف یہ نہیں کہتے’ شکم کی آگ لیے پھر رہی ہےشہر بہ شہر‘۔۔۔جوش ملسیانی یہ نہیں کہتے
’ وطن کی سرزمیں سے عشق و الفت ہم بھی رکھتے ہیں‘۔۔۔اقبال یہ کہتے نظر نہیں آتے’ خودی کو  کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے‘۔۔۔اس طرح کی بے شمار اور ان گنت مثالیں اردو غزل میں موجود ہیں۔جس زبان کا لٹریچر اتنا رِچ اور ثروت مند ہو وہاں تنگ دامانی کا گلہ چہ معنی دارد؟

ڈاکٹر ستیہ پال آنند نے نظم کے علاوہ منفرد موضوعات پر ناول اور افسانے تخلیق کر اردو مہجری فکشن نگاروں میں خاص مقام حاصل کیا۔انہیں اردو،انگریزی،ہندی اور پنجابی چاروں زبان پر عبور حاصل تھا۔اردو اور انگریزی زبان میں زیادہ لکھا ،زبان کا ذائقہ  بدلنے کے لیے ہندی اور پنجابی زبان میں بھی لکھا۔ڈاکٹر پال نے اپنے تجربات و مشاہدات کو افسانے اور ناولوں کا موضوع بنایا۔صبح،دوپہر،شام(ایک اسکیچ ناول)، چوک گھنٹہ گھر(ناول) اپنی اپنی زنجیر(افسانے)، پتھر کی صلیب(افسانے)،کتھا چار جنموں کی (خود نوشت)، وقت لا وقت(نظمیں)، بیاض عمر اور دوسری نظمیں، پھول پھول ہر نظم(ہندی )، یُگ کی آواز(ہندی)، آزادی کی پکار(ہندی)، مکھو مٹھا(پنجابی)،Sunset Starands(انگریزی)وغیرہ  ان کی تصنیفات ہیں جو اپنے منفرد موضوعات اور بہترین اسلوب کی بنا پر مہجری اردو ادب میں کافی پذیرائی حال کر چکی ہیں۔ناول’ چوک گھنٹہ گھر‘جسے 1957میں پال نے لدھیانہ میں تحریر کیا تھا ۔بک شاپس پر پہنچنے کے چوبیس گھنٹے کے اندر اندر ہندستانی حکومت نے اس ناول پر پابندی عائد کر دی کیوں کہ حکومت کو لگتا تھا کہ اس میں  بائیں بازو کا کوئی پیغام ہےبعد ازاں یہ پابندی ہٹا دی گئی۔

 ہمہ جہت شخصیت کے مالک  ڈاکٹر پال کی رحلت سے  اردو اور ہندی کا عالمی ادب  ایک ایسی نابغۂ روزگار شخصیت سے محروم ہو گیا ہے جنہوں نے اپنی فکر اور تخلیقی صلاحیتوں سے ادب  کو نئی جہتیں عطا کیں۔ انہوں نے زبان اور ثقافت کی سرحدوں کو عبور کر کے خود کو  ایک بین الثقافتی ادیب منوایا۔جن کی تحریریں مشرق و مغرب کے درمیان ایک پل کی مانند ہیں۔ڈاکٹر پال کی زندگی ادب،فلسفہ اور تدریس کے سمندر میں غوطہ زن رہی۔ان کا ادبی سفر کئی دہائیوں پر محیط تھا اس دوران انہوں نے ہزاروں طالب علم ،ادیب اور قارئین کی فکری تربیت کی اور انہیں متاثر کیا۔تاہم ان کی تحریریں ،افکار اور علمی خدمات ایک روشن میراث کے طور پر ہمیشہ زندہ رہیں گی اور یہ خلا ایک ایسا خلا ہے جو مدتوں محسوس کیا جاتا رہے گا۔

Leave a Reply