You are currently viewing ناول روحزن: جنس اور محبت کا تضاد

ناول روحزن: جنس اور محبت کا تضاد

عشرت ظہیر

ناول روحزن: جنس اور محبت کا تضاد

رحمن عباس کا ساہتیہ اکیڈمی انعام یافتہ ناول ’روحزن‘ زندگی کی تپش اور حرارت کے مد و جزر اور زندگی کے رہسیہ کے اندھیرے اجالے سے عبارت ہے۔ ناول کی کہانی میں بارش، جنس اور محبت کے اظہار کا دلکش، حیران کن اور فکر انگیز استعاراتی نظام ہے۔

بارش رحمت بھی ہے اورزحمت بھی۔ یہاں بارش محبت بھی ہے اور موت بھی۔ محبت کی تعبیر و تفسیر کو عکس ریز کرتے کردار اسرار اور حنا کی پہلی ملاقات بارش کی رم جھم پھوارو ں کی نرم رو اور لطیف احساس کے لمحۂ جاں فزا میں ہوتی ہے:

’’آسمان میں بجلی کوندی اور سمندر میں بہت دور گرتی ہوئی محسوس ہوئی۔ اس (اسرار) کی آنکھیں چندھیا گئیں، اس نے آنکھیں بند کیں اور دوبارہ کھولیں تو صحن میں اسے ایک لڑکی (حنا) دکھائی دی….. لڑکی رم جھم بارش سے لطف اندوز ہورہی تھی۔ بارش کی پھوار اس کے نکھرے ہوئے چہرے پر پھیل گئی…‘‘

پانی انسان کے وجود کا لازمی عنصر ہے کہ وہ حقیر پانی کے قطرے سے خلق ہوا ہے، لیکن انسان کی بے بضاعتی یہ ہے کہ بپھرے ہوئے پانی کے تیور کے مقابل اس کا وجود بھی حقیر ہے۔

ناول کی کہانی ’ہلاکت خیز بارش اور ممبئی کے اطراف میں پھیلے ہوئے سمندر کی طیش زدہ آسمان چھوتی لہروں کی سرکشی‘ سے شروع ہوتی ہے اور اس کا اختتام بے پناہ موسلا دھار اور ’ڈھارڈھار‘ بارش اور سمند رکی سرکش دہشت زدگی اور ہلاکت خیزی پر ہوتا ہے-97

زندگی پیچیدہ اور ناقابل فہم عمل ہے۔ اس کی تفسیر و تعبیر اور تقدیر کے بیان کی سعی میں یہ ناول اپنے اندر پیچیدگیاں، رہسیہ اور ناقابل فہم عناصر سموئے ہے۔

ایمل، تھامس، وردۃ السعادۃ، ودی، شیطان پرستی کے تصور اور ان سے متعلق ایکٹیویٹی اور واقعات دھند میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ یہ انوکھے اور نئے جہاں سے روبرو کراتے ہیں۔ ابہام حسن اور سحرانگیزی، ناول کو جاذب توجہ اور Readable بتاتے ہیں-97

’روحزن‘ کی کہانی میں، بارش، جنس اور محبت تثلیث کی صورت ابھرتی ہے اور مجسم ہوتی ہے۔ اس تثلیث کے تینوں خطوط ابہام آمیز لیکن مضبوط دیوارو ں کی طرح کہانی کی عمارت کو ایستادہ کیے ہیں-97

زندگی جس لمحہ ودیعت کی جاتی ہے، موت اس کے تعاقب میں اسی لمحہ سرگرداں ہوجاتی ہے۔ ناول میں بھی مو ت کی آہٹ چند قدم کے فاصلے سے مسلسل محسوس ہوتی ہے-97!

ناول کا پہلا جملہ ہے:

’’اسرار اور حنا کی زندگی کا وہ آخری دن تھا۔‘‘                  (صفحہ 13، ناول کا پہلا صفحہ، پہلی عبارت)

ناول کی کہانی کے پہلے صفحہ، پہلی سطر اور پہلی عبارت میں کہانی کے دو اہم اور مرکزی کردار اسرار اور حنا کی متوقع موت کی خبر سے ایک تجسس کی لہر کے زیراثر، اور کشش کے حصار میں قاری آگے بڑھتا ہے۔ بالآخر آخری سرے پر یعنی صفحہ 309 میں وہ پھر اس موڑ پر آتا ہے، جہاں سے کہانی فلیش بیک میں روا ں ہوئی تھی-97

ناول کے دونوں مرکزی کردار، اسرار اور حنا کی موت کی دستک کہانی کے ابتدا سے آخری مرحلے تک، اور درمیان میں متعدد دفعہ کبھی محمد علی کے خواب کے ذریعے کبھی اسرار کے ہاتھوں کی لکیر شناسی کے توسط سے، کبھی اشاراتی طور پر، کبھی بہت واضح انداز میں، ایک طویل نظم کے ’ٹیپ کے مصرع‘ کی طرح موت کی تکرار اور فضا بندی جذبۂ تجسس کو ابھارتے ہیں اور ڈکشن کے حسن اور انوکھے پن کی بھی گواہی دیتے ہیں-97!

’اسرار اور حنا کی زندگی کا وہ آخری دن تھا۔‘ (صفحہ 309)

یہاں 356 صفحہ کے ناول میں، کہانی اپنے اختتام سے محض 47 صفحہ دور ہے-97 اور قاری کو کہانی کا انجام معلوم ہے۔ پھر بھی ناول کا یہ حصہ اتنا مزین، چست اور برجستگی کے حسن اور منضبط و دلکش منظرنامہ کے محور میں رواں اور متحرک ہے کہ جذب و کیف مبہوت کیے دیتے ہیں۔ ایک ایک عبارت، اور منظرنامہ اسرار اور حنا کی محبت کی معراج کو اجاگر اور مجسم کرتے ہیں۔

محبت کی معراج یہ ہے کہ اس بے خود جذبے کی فراوانی اور وارفتگی کے مقابل سارے احساسات معدوم ہوجائیں، تمام رشتے ناتے، احباب، چاہنے والے، حقیر اور گویا مانند صفر گم ہوجائیں، اور اپنی ہستی بھی محبت کی بلاخیزی میں محلول ہوجائے-97

کہانی کے متن میں اسرار کے اپنی ماں سے بہت زیادہ پیار کرنے کا احساس جاں گزیں ہے، اسی طرح حنا، اپنے باپ سے بے پناہ محبت کرتی ہوئی دکھتی ہے-97 اس حقیقت کے باوجود محبت کی سرشاری اور سرور میں ان کا اظہارِ محبت عرفان محبت کی دلیل ہے:

’’بادلوں کی چھتری ان کے سر پر اپنے شگافوں سے پانی برسا رہی تھی اور وہ ایک بڑے پتھر کی اوٹ میں مستطیل شکل کے چھوٹے پتھر پر لیٹ کر پیار کررہے تھے۔ اسرار نے اس کے کان کے پاس آہستہ سے کہا ’’میں تجھے اپنی ماں سے زیادہ پیار کرتا ہوں۔‘‘ حنا نے اسی پل جواب دیا : ’’میں تمھیں اپنے باپ سے زیادہ پیار کرتی ہوں۔‘‘

شاید دونوں جانتے تھے کہ یہ الفاظ ان کے تحت الشعور کی گہری کھائی سے آزاد ہوئے ہیں، یا شاید یہ دونوں نہیں جانتے تھے اور صرف اتنا جانتے تھے کہ وہ ایک دوسرے کو تمام دوسرے انسانوں سے زیادہ پیار کرتے ہیں…‘‘

عرفانِ محبت کی تفسیر و تعبیر کی یہ کہانی عام اور سہل اور اکہری روشِ حیاتِ عشق کی روایتی کہانیوں جیسی نہیں کہ ممتاز عشقیہ داستانوں کے کرداروں کی طرح اسرار اور حنا بھی محبت میں فنا ہوکر گویا حصول حیات جاودانی سے سیراب ہوئے-97! یہ کہانی پیچیدہ، تہہ در تہہ، جذب و کیف کے مد و جزر کو منطقی نفسیاتی اور استدلالی واقعات کے دائرے در دائرے میں جنس اور محبت کے تضاد کو ابھارتی ہے اور منعکس کرتی ہے-97

یہ تضاد-97 اسرار اور حنا کے انداز فکر اور انداز حیات عمل میں نمایاں ہے۔ اسرار اور حنا قلبی قربت اور جذبۂ صدقِ محبت کے باوجود روش حیات کے فاصلے اور تضادِ محبت و جنس کے نکتوں کی توضیح کی صورت اجاگر ہیں۔ اسرار حالات اور لمحات حاضر میں بہہ جانے کی بے بسی کا شکار ہے۔ دراصل یہ اپنے اردگرد کی دنیا اور ماحول سے زیر ہونے والا عام سا کردار ہے۔ اسرار کو ایام نوعمری میں ہی جمیلہ مس کی جسمانی و نفسانی اسرار و رموز نے پسپا کیا اور وہ ایک جہاں نادیدہ سے آشنا ہوا:

’’مس میں بھیگ گیا۔

جمیلہ مس نے وہیں پاس رکھی ہوئی موم بتی اٹھائی اور اس موم بتی کی روشنی میں اسرا رکو سر سے پیر تک دیکھا۔ اس کے کپڑوں سے پانی کے قطرے گر رہے تھے… بھیگا ہوا جسم اندھیرے میں گم صم کھڑا تھا۔ جسم کی آنکھیں بہت طاقتور ہوتی ہیں۔ وہ اسرار کے قریب بیٹھ گئی… اپنے شوہر کی لنگی اور ٹی شرٹ میں ملبوس اسرار کو دیکھ کر اسے اچھا لگ رہا تھا… بہت دنوں بعد بلکہ برسوں بعد جمیلہ کو زندگی میں ایک ترنگ اور وارفتگی کا احساس ہورہا تھا… اس احساس کی تلچھٹ میں وہ صرف ایک عورت تھی… بدن کی کھڑکیوں پر نفس کی خوابیدہ آرزوئیں ایک حدت پیدا کرتی ہیں اس حدت میں ایک طلسم پوشیدہ ہوتا ہے۔ نفس کی خوابیدہ آرزوئیں اپنا راستہ خود تلاش کرتی ہیں… مس کچھ اور قریب ہوگئی… مس ایک خونخوار شیرنی میں بدل گئی…‘‘

اسرار کی طرف مس جمیلہ کے راغب ہونے کی صورت حال کی منظرکشی، نفسانی بیداری کی سرکشی کا بہترین، منطقی اور نفسیاتی وسیلۂ تحرک ہے، لیکن اس نازک لمحہ میں اسرار کی پسپائی نے اسے زندگی کی سرنگ میں آگے بڑھنے کا جذبہ بیدار کیا۔ وہ محمد علی کے رابطے میں آتا ہے اور اس کے توسط سے شانتی سے متعارف ہوتا ہے۔ ممبئی کے رنگ و روپ اور تیور سے روبرو ہوتا ہے۔ جمیلہ مس اور شانتی اس کے نگارخانۂ ذہن میں محفوظ رہتی ہیں اور اکثر انھیں وہ حنا کے مقابل محسوس کرتا ہے…

’’…. نیم اجالے میں انھوں نے ایک دوسرے (اسرار اور حنا) کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا۔ ایک دوسرے کی آنکھوں میں انھوں نے بے پناہ محبت محسوس کی، کچھ دیر ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔ ایک دوسرے کو دیکھنے کا احساس ایک سکھ تھا اور یہ سکھ ان کے لیے دنیا کا سب سے بڑا سکھ تھا۔ ابھی وہ اس سکھ میں مگن تھے کہ جانے کہاں سے اور کیوں اسرار کے ذہن ہیں جمیلہ مس اور شانتی در آئیں۔ مس ناراض تھیں۔ اسرار کی آنکھوں میں امڈی محبت دیکھ کر خفا تھیں… شانتی نے نظر اٹھا کر اسرار کو دیکھا اور کہا-97 تیرے کو پیار ملا تو خوش نصیب ہے۔ ہم لوگ تو بکاؤ ہیں۔‘‘

ایک اور اقتباس ملاحظہ ہو، یہاں جنس اور محبت کا فرق بہت واضح ہے:

’’…اسرار نے اس (حنا) کی سفید روشن گلابی جلد کے اندر سے عرق گلاب کی سی مہک کو امڈتے ہوئے محسوس کیا۔ بڑی سرعت سے گلاب کے عرق کی مہک اس کے ذہن میں ایک خوشگوار کیف پیدا کرکے اس کے سینے میں پھیل گئی۔ اس نے آہستہ سے کہا، تیرے بدن کی خوشبو، بارش کی بوندوں جیسی ہے….. اسرار نے ایک لمحے کے لیے سوچا، جمیلہ مس اور شانتی اس مہک یا اس طرح کی مہک سے محروم تھیں۔‘‘

اسرار اور حنا اگرچہ اسیر محبت ہیں، لیکن دونوں کی انفرادی اور نجی زندگی کی راہیں قطعی مختلف ہیں۔ ان کے انداز فکر اور زندگی برتنے کے رویے میں نمایاں بعد ہے۔ اسرار لذت اتصال سے آشنائی کے باوجود محبت کی بے پناہ کشش اور قوت کے طلسم میں گرفتار ہوتا ہے۔ محبت کی دائمی آشنائی نے اسے گویا جنس کے پھیکے پن کا احساس دلایا-97 لیکن حنا، اسے جنس کا کوئی تجربہ نہیں، وہ حصول لذت اختلاط کے فاصلے پر ہے، حالانکہ اس کی دوست ودی جنسی تعلق کے اپنے تجربے کو بطور ایڈونچر اس سے شیئر کرتی ہے اور بتاتی ہے:

’’… داریوس کے بعد وہ اپنے اسکول کے عاشق، موسیقی ٹیچر اور اپنے باپ کے ایک آرٹسٹ دوست کے ساتھ بھی سیکس کرچکی ہے۔‘‘

لیکن-97

’’حنا کو اس کا یہ اعتراف سن کر اچھا نہیں لگا۔‘‘

دراصل حنا ایک متوازن فکر اور متوازن ذہنی محور عمل کی پاسدار ہے۔ حالانکہ اس کی قریبی دوست ودی کی فکر میں سیکس گویا اسپورٹس کی سی شے ہے۔ ودی کے علاوہ اس کے باپ یوسف کا ذہنی کھلا پن بھی حنا کے روبرو ہوتا:

’’…میوزیم میں مغلیہ عہد کی مصوری کے نادر نمونے تھے۔ مصوری کے یہ نمونے مغلیہ عہد کی کیفیاتِ محبت و جنسی عمل کو نفاست کے ساتھ پیش کررہے تھے۔ چند پینٹنگز میں شہزادو ں اور رئیس زادوں کو مباشرت سے لطف اندوز ہوتے دکھایا گیا تھا۔ حنا نے ایک نظر دیکھا اور دوسری ونگ کی طرف مڑگئی۔ یوسف نے بھانپ لیا کہ وہ پینٹنگز سے شرما گئی ہے۔ اس نے حنا کو بلایا اور اس سے کہا، ان تصویروں میں کوئی عیب نہیں ہے بلکہ زندگی کا سب سے بڑا سچ ہے۔ اس سے فرار اختیار کرنا زندگی کو بے معنی بنانے کی ابتدا ہوتی ہے۔ تم اپنی زندگی میں معنی پیدا کرو…‘‘

حنا اپنے آس پاس کے ماحول اور افراد کے رویے سے آشنائی کے باوجود اپنے انداز فکر و عمل میں مستحکم ہے اور جنسی الجھیڑوں سے پرے توازن حیات کی قائل بھی ہے اور حامل بھی۔ وہ محبت تو کرتی ہے، مگر محبت کی توانائی اور استحکام یا عرفان محبت کی راہ پر گامزن ہے۔ ایک موقع پر وہ لذت کام و دہن سے دامن بھی بچاتی ہے:

’’ودی نے مستی میں اس سے پوچھا:

’’شادی سے پہلے تم دونوں نے کچھ کیا تو نہیں ہے؟‘‘

’’میں نے ایک بار بولا تھا۔ یہ تیار نہیں ہوئی۔‘‘ اسرار کے اس جواب پر حنا شرما گئی۔ اسے بس اتنا یاد آیا کہ نیشنل پارک میں اسرار نے کہا تھا: ’’دل کرتا ہے تیرے پورے بدن پر کس کرنے کو۔‘‘ اور اس نے جواب میں کہا تھا: شادی کے بعد کرتے ہیں وہ کام۔‘‘

اسرار اور حنا کے کردار اور ان کے عملی پر تو سے محبت اور جنس کے تضاد کا پہلو بہت واضح، بہت نمایاں اور اجاگر ہے۔ لیکن ان کے حصار زیست اور اطوار حیات سے پرے ناول کے بیانیہ اور اس کے سیاق و سباق بھی اس امر کی وضاحت کرتے ہیں کہ محبت کا علاقہ الگ ہے اور تقاضائے جنس مختلف کیفیت کی متحمل ہوتی ہے۔ یہ دو اقتباس ملاحظہ ہوں:

’’محبت اور جنس دو الگ جذبے اور خود مکتفی جذبے ہیں۔ ان کو ایک دوسرے سے مربوط کرنا لازمی نہیں۔‘‘

-97-97-97

یہ حنا کا پہلا کس تھا، اسرار کی زندگی کا اب تک کا طویل اور کیبن کی تاریخ کا سب سے طویل کس تھا۔ ورنہ عموماًکیبن میں محبت کے مارے کم اور جنسی عمل کی تکمیل کے جوڑے زیادہ آیا کرتے تھے…‘‘

’روحزن میں جنس اور محبت کا تضاد‘ -97مجھے نہیں معلوم کہ اظہار خیال کے لیے اس موضوع کا میں نے کیوں انتخاب کیا جب کہ یہ ناول ’روحزن‘ اپنے اندر کئی جہات سموئے ہے اور زندگی کی پیچیدگی اور تہہ داری کے مختلف رخ کی غمازی کرتا ہے۔

-97 یہ ممبئی کی زندگی، بول چال، اندھیرے اجالے کا سچا کھرا اور بیباک اظہار کا حیران کن مرقع ہے۔

-97شیطان پرستی اور توہم پرستی کی انوکھی دنیا، سحرانگیز بھی ہے، حیرت انگیز بھی، کہانی کا یہ حصہ ایک نئی دنیا کی دریافت کے موہوم احساس سے مزین ہے۔

ناول کے مرکزی کردار اسرار اور حنا کے علاوہ بہتیرے کرداروں کی زندگی کے نہاں خانۂ دل کے غار، ان کے احساسات کے مدوجزر، دراصل کردار نگاری کے موثر نمونے بھی ہیں اور ان کا درد موضوع کے تنوع کا بھی پتہ دیتا ہے۔ یوسف، ایمل، درخشاں، وردۃ السعادۃ، ودی، جمیلہ مس، شانتی… کرداروں کے یہ قافلے ایک الگ لمبی گفتگو کے متقاضی ہیں-97

ناول کی کہانی میں بارش، محبت اور موت مستحکم، منضبط اور منطقی طور پر اجاگر ہیں اور ان کے حصار اظہار میں جنس کی سرکشی اور قوت اور محبت کی آسودگئ انبساط مرکزی حیثیت کی حامل ہے۔

یہ ناول اپنے ڈکشن، موضوع کی منطقی تفسیر، اور محبت کے لازوال احساس، کہ محبت ’ققنس‘ کی طرح فنا کے قریب تر لمحہ میں بھی زندگی کی چاشنی اور حلاوت سے تازہ دم ہوجاتی ہے-97!

اپنے موضوعی تنوع، انسان کے اندرون کے چکرویو میں کھوجانے اور باہر نکل آنے کے عمل، اور ڈکشن کے حسن کے اعتبار سے یہ ناول اردو میں غالباً پہلی پیش کش ہے-97!

***

Leave a Reply