You are currently viewing محقق عبد الرزاق قریشی کی ادبی تحقیقی کاوشیں

محقق عبد الرزاق قریشی کی ادبی تحقیقی کاوشیں

ندیم احمد انصاری

شعبۂ اردو، الفلاح انٹرنیشنل فاؤنڈیشن

محقق عبد الرزاق قریشی کی ادبی تحقیقی کاوشیں

         معروف محقق عبدالرزاق قریشی ضلع اعظم گڑھ کی بستی بسہم سے تعلق رکھتے تھے، ابتدائی تعلیم کے بعد بمبئی کے انجمن ہائی اسکول میں درس و تدریس سے وابستہ رہے۔ یہاں رہ کر طلبہ کے لیے نصابی کتابیں بھی تیار کیں اور مسز کلثوم سایانی کے ہفت روزہ ’رہبر‘ میں صحافتی خدمات بھی انجام دیتے رہے۔ 1947ء میں جب ’انجمن اسلام، اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ‘ کا قیام عمل میں آیا اور پروفیسر نجیب اشرف ندوی اس کے کُل وقتی ڈیرکٹر مقرر ہوئے تو قریشی صاحب کی ان سے قربتیں بڑھیں تو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں بہ حیثیت اسسٹنٹ مقرر کر دیے گئے، یہاں انھیں ادبی تحقیقی خدمات انجام دینے کا بھرپور موقع ملا۔پروفیسر نجیب اشرف ندوی کے انتقال کے بعد ’نوائے ادب‘ کی ادارتی ذمّے داریاں بھی ان سے متعلق رہیں۔ اخیر عمر میں وہ بہ حیثیت فیلو ’دارالمصنفین، اعظم گڑھ‘ سے منسلک ہو گئے تھے، 30 جولائی، 1977ء کو وفات پائی۔انھوں نے اپنے پیچھے متعدد علمی، ادبی اور تحقیقی کتابیں یادگار چھوڑیں، ان کا مختصر تعارف حسبِ ذیل ہے:

[۱]نوائے آزادی(ترتیب:1958ء)

         1956ء میں حیدرآباد اردو کانفرنس کی ایک نشست میں ’اردو اور تحریکِ آزادی‘ موضوعِ بحث تھا، اس نشست میں یہ خیال پیش کیا گیا کہ 1957ء میں جب پہلی جنگِ آزادی کی صد سالہ سال گرہ منائی جائے، اردو کی ایسی تحریروں اور نظموں کا- جنھوں نے آزادیِ ملک کی مختلف تحریکوں کو ہوا دی- ایک انتخاب انجمن ترقیِ اردو،ہند کی طرف سے شایع کیا جائے، بعد میں یہ کام منتقل ہو کر انجمن اسلام میں قریشی صاحب کے پاس پہنچا، موصوف نے قلیل مدت میں بڑی جاں فشانی و کاوش کے ساتھ ممبئی میں موجود موضوع سے متعلقہ مواد کو- باوجود بعض علمی حلقوں کے عدم تعاون کے- تلاش و جستجو سے جمع کرکے ترتیب دے دیا، اس میں انجمن ترقیِ اردو،ہند کا جمع کردہ مواد بھی شامل ہے۔یہ کتاب ادبی پبلشرز، شعبۂ اشاعت انجمنِ اسلام، بمبئی کی جانب سے 1956ء میں شایع کی گئی۔

         کتاب کے مشمولات حسبِ ذیل ہیں؛

         پہلی جنگِ ازادی میں اردو کا عملی حصہ

         مقدمہ: جنگِ آزادی میں اردو کا حصہ

         پہلا حصہ:(۱)جنگِ آزادی اور دہلی مرحوم (۲) وطن دوستی

         دوسرا حصہ:(۱)برطانوی حکومت اور غلامی کا احساس(۲)سیاسی بیداری کا آغاز

         تیسرا حصہ:(۱)پہلی جنگِ عظیم اور اس کے نتائج (۲)تحریکِ خلافت و ترکِ موالات(۳)بیداریِ عوام

         چوتھا حصہ:(۱)سول نافرمانی کی تحریک اور نیا قانون (۲)دوسری جنگِ عظیم (۳)اگست 1942ء کی بغاوت اور اس کے بعد (۴)صبحِ نو

[۲]میرزا مظہر جانِ جاناں اور ان کا اردو کلام(ترتیب:1961ء)

         مرزا مظہر کی شخصیت مختلف حیثیتوں سے نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ایک عظیم صوفی بزرگ ہونے کے ساتھ، فارسی و اردو شاعری میں بھی ان کا مقام نمایاں ہے۔ سالکینِ طریقت کے ساتھ انھوں نےاردو زبان کی اصلاح کاکام بھی انجام دیا، یہ کتاب انھیں کارناموں کا مرقع ہے۔اس میں مرزا مظہر جانِ جاناں کا منتشر اردو کلام جمع کرنے کے ساتھ ان کے حالات اور ان کی روحانی و علمی خدمات کا جایزہ پیش کیا گیا ہے، اس کے لیے مولوی عبد الباری ندوی(ناظم کتب خانہ، دارالمصنفین،اعظم گڑھ)، جناب امتیاز علی خاں عرشی (ناظم رضا لائبریری، رام پور)، پروفیسر عبد القادر سروری(حیدرآباد)، جناب نصیر الدین ہاشمی(حیدرآباد)، پروفیسر سید حسن(پٹنا) اور پروفیسر محمد عزیز وغیرہ نے فراہمیِ مواد کی صورت میں تعاون پیش کیا تھا۔یہ کتاب ادبی پبلشرز بمبئی سے 1961ء میں طبع ہوئی۔

         مقدمے وغیرہ کے بعد فہرستِ مندرجات حسبِ ذیل ہے:حالاتِ زندگی؛نام و نسب، میرزا جان، سالِ ولادت، نام،وجہ تسمیہ، وطن،تعلیم و تربیت، تربیتِ باطنی، ارشاد و ہدایت، شعر و شاعری، سیاسی حالات سے متاثر ہونا، شہادت، سالِ وفات،میرزا صاحب کا قاتل، میرزا صاحب کی شہادت ایک سیاسی واقعہ، اعزہ و متعلقین، خلفا، تلامذہ، اخلاق و عادات، ملفوظات، بزرگوں اور ہم عصروں کی نظر میں، تصانیف، فارسی کلام، اردو کلام، خریطۂ جواہر، مکاتیب، بعض دوسری نثری تحریریں، حرفِ آخر، اشعارِ مظہر، ضمیمہ، مآخذ، اشاریہ۔

[۳]دیوانِ عزلتؔ (ترتیب:1962ء)

         سید عبدالولی عزلتؔ سورتی کے مرتبہ دیوان کے بارے میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ وہ ناپید ہو گیا ہے،اس کے تین مختلف نسخے قریشی صاحب کے ہاتھ  لگ گئے، ان تینوں کو سامنے کر رکھ کر انھوں نے دیوان مرتب کر کے پہلی بار ادبی پبلیشرز، بمبئی سے 1962ء میں شایع کیا۔

         عبد الرزاق قریشی دیباچے میں لکھتے ہیں:

سید عبد الولی عزلتؔ کا شمار اردو کے قدیم، ممتاز شعرا میں ہوتا ہے، لیکن ان کے کلام کا بیش تر حصہ زمانے کی دست برد سے محفوظ نہ رہ سکا۔ خوش قسمتی سے ان کے دیوانِ غزلیات کا ایک انتخاب ان کی ایک اور کتاب راگ مالا کے ساتھ انڈیا آفس لائبریری (لندن) میں محفوظ ہے، اس کا فوٹو منگواکر میں دیوان ترتیب دے رہا تھا کہ ایک دن ایک تاجر کتب خانہ، حیدرآباد سے آئے اور کہا کہ میں آپ کے لیے دیوانِ عزلت لایا ہوں۔ خدا کی دین کا مفہوم اس دن میری سمجھ میں پورے طور پر آگیا۔ اس کا سبب میرے محترم دیرینہ کرم فرما پروفیسر عبد القادر سروری تھے۔ اس طرح اب میرے پاس دو نسخے ہو گئے۔ جب میں دیوان ترتیب دے چکا تو مولوی سخاوت میرزا صاحب نے مجھے اطلاع دی کہ کتب خانہ آصفیہ (حیدرآباد) میں بھی دیوانِ عزلت کا ایک نسخہ ہے،(حالاں کہ میں حیدرآباد کے دو ایک اربابِ تحقیق سے اس سلسلے میں دریافت کر چکا تھا اور مجھے جواب نفی میں ملا تھا)، میں نے صاحب موصوف کے ذریعے اس کی بھی نقل منگوائی۔ اِنھیں تین نسخوں کی بنیاد پر میں نے دیوانِ عزلت کا موجودہ اڈیشن تیار کیا ہے۔

         مقدمے وغیرہ کے بعد فہرستِ مندرجات حسبِ ذیل ہے: (۱)عزلتؔ کے حالاتِ زندگی (۲)عزلتؔ کی تصانیف (۳)عزلتؔ کے اردو کلام پر تبصرہ (۴)دیوانِ عزلت کے مختلف نسخوں کی کیفیت (۵)دیوانِ عزلتؔ (۶)ضمیمہ (۷)فرہنگ (۸)مآخذ۔

[۴]مکاتیب میرزا مظہر(ترتیب:1966ء)

         مرزا مظہر جانِ جاناںکے احوال و اشعار شایع کرنے کے بعد مولانا ابو الحسن زید فاروقی، سجادہ نشین ابوالخیر(چتلی قبر، دہلی) نے قریشی صاحب کو مرزا صاحب کے 144 خطوط عنایت فرمائے تھے اور انھیں شایع کرنے کی اجازت بھی دی تھی، اس کتاب میں وہ تمام خطوط شامل ہیں۔ علاوہ ازیں دو خط بشاراتِ مظہریہ سے ماخوذ ہیں۔ مزید ایک خط ماہنامہ الفرقان (لکھنؤ) سے بہ اجازت لیا گیا ہے، جو مولانا نسیم احمد فریدی نے تراجم علماء المشائخ الاحراریہ المجددیہ (مصنفہ میرزا مقصود دہبیدی)سے لے کر شایع کرایا تھا۔یہ کتاب پہلی بار 1966ء میں اجمل پریس، بمبئی سے شایع ہوئی۔

         کتاب میں شامل تمام مکاتیب کی زبان فارسی ہے اور متنی حواشی بھی (جو بہت کم ہیں) فارسی میں ہیں،لیکن پیش گفتار اور تشریحات اُردو میں ہیں۔ فہرستِ مندرجات حسبِ ذیل ہے:سرِ آغازاور پیش گفتار کے بعد سب سے اول مکاتیب بہ نام:قاضی ثناء اللہ پانی پتی،مادر قاضی ثناء اللہ پانی پتی،خانم قاضی ثناء اللہ پانی پتی، قاضی احمد اللہ، صبغۃ اللہ، دلیل اللہ، محمد مراد، شاہ علی،رای کیول رام، مولوی نعمت و محمد حسن خان، محمد حسن خان، سید موسیٰ خان دہبیدی۔اس کے بعد ضمیمہ میں :تنبیہات الخمسہ، سلوکِ طریقہ، اور آخر میں تشریحات، فہرستِ مآخذ اور اشاریہ ہے۔

[۵]مبادیاتِ تحقیق(تالیف:1968ء)

         یہ رسالہ نوجوان محققوں کے لیے لکھا گیا ہے، خواہ وہ شوقیہ مضامین لکھتے ہوں یا پی ایچ ڈی کی ڈگری کے لیے مقالے تیار کرتے ہوں۔ اس میں تحقیق کی مبادیات سے بحث کی گئی ہے اور عملی نقطۂ نگاہ اختیار کیا گیا ہے۔قریشی صاحب کی صراحت کے مطابق یہ رسالہ فروری 1967ء میں تیار ہو گیا تھا، لیکن بعض دقتوں کی وجہ سے اس کی طباعت میں دیر ہوئی۔سرِ آغاز کے آخر میںتاریخ 25جنوری 1968ء رقم ہے اور ہمارے سامنے ادبی پبلشرز، بمبئی کا مطبوعہ نسخہ ہے۔اس میں حسبِ ذیل چھے ابواب ہیں:(۱)فنِ تحقیق (۲)لائبریری کا استعمال (۳)آغازِ کار (۴) مقالے کی تیاری (۵)مقالے کی تسوید (۶)تحقیق و تصحیحِ متن۔2014ء میں پروفیسر عبد الستار دلوی نے تذکرہ و تعارف کے ساتھ انجمنِ اسلام اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، ممبئی سے اس کا جدید اڈیشن شایع کیا۔

[۶]تاثرات(تصنیف:1969ء)

         اس کتاب میں عبدالرزاق قریشی کے مختلف رسالوں میں شایع شدہ مضامین ان کی نظرِ ثانی کے بعد یک جا شایع کیے گئے ہیں۔ یہ کتاب پہلی بار 1969ء میں معارف پریس، اعظم گڑھ سے شایع ہوئی۔مشمولات کی فہرست حسبِ ذیل ہے:حیاتِ اجمل،قاضی احمد میاں (اختر جوناگڑھی)،پنڈت کیفی،سیف طیب جی،منشی دیا نرائن نگم،لطائف السعادت،ادب اور نظریہ،مکتوباتِ سر سید،سید صاحب کی یاد میں ،دیوانِ میر،عمدۂ منتخبہ،نواے حیات،ڈاکٹر بذل الرحمن،مولوی فتح محمد،ڈاکٹر ویاس،حکماے قدیم کا فلسفۂ اخلاق۔

[۷]راگ مالا(ترتیب:1971ء)

         یہ کتاب سید عبد الولی عزلتؔ سورتی کی تصنیف ہے، اسے عبد الرزاق قریشی نے مرتب کیا ہے۔یہ کتاب پہلی بار 1971ء میں منظرِ عام پر آئی۔ کتاب میں طابع کے مقام پر رحیمی پریس اور ناشر کے مقام پر ادبی پبلیشرز،بمبئی لکھا ہوا ہے۔ ترتیب کی خاطر مولوی نصیر الدین ہاشمی (حیدرآباد) نے اسٹیٹ لائبریری، حیدرآباد کے نسخے کی اور مشفق خواجہ (کراچی) نے کتب خانۂ انجمن ترقیِ اردو، پاکستان کے نسخے کی نقلیں مرتب کو فراہم کی تھیں۔تصحیح کا کام پروفیسر نجیب اشرف ندوی نے انجام دیا ہے۔کتاب میں راگوں، راگنیوں اور پتروں وغیرہ کا تفصیلی تعارف پیش کیا گیا ہے۔

[۸]اردو زبان کی تمدنی اہمیت(تالیف:1982ء)

         اردو زبان میں ہندستان کی تمدنی زندگی کے تمام شعبوں یعنی امورِ مملکت، زراعت، خور و نوش، لباس، مکان، رسم و رواج، ان کے علاوہ اور تمام چیزوں میں جو الفاظ، محاورات اور اسما رائج ہیں، ان کی تفصیل اس کتاب میں پیش کی گئی ہے۔کتابِ مذکور پہلی بار 1982ء میں مکتبۂ معارف، اعظم گڑھ سے شایع ہوئی تھی ۔

          سید صباح الدین لکھتے ہیں:

اس کتاب کی تمام اصطلاحات کے مطالعے سے اردو بولنے والوں خصوصاًمسلمانوں کی تمدنی اور تہذیبی زندگی کا نقشہ سامنے آجاتا ہے۔ بعض الفاظ کو ہم اب روزانہ استعمال کرتے ہیں، ان کی اصلیت معلوم کرکے حیرت ہوگی۔ مثلاً لفظ گھٹیا کا استعمال عام ہے، اس کتاب سے معلوم ہوا کہ گھٹیا سور کا بچّہ کہلاتا ہے۔[اردو زبان کی تمدنی اہمیت،ص:2]

****

Leave a Reply