You are currently viewing گلوبلائزیشن،اُردوغزل اور صارفیت

گلوبلائزیشن،اُردوغزل اور صارفیت

ڈاکٹر محمد اشرف کمال

صدر شعبہ اردو :گورنمنٹ گریجویٹ کالج بھکر، پاکستان

گلوبلائزیشن،اُردوغزل اور صارفیت

         گلوبلائزیشن نے جہاں زندگی کے مختلف شعبوں میں اپنی فسوں کاری کے مختلف حربوں کو استعمال کیا ہے وہاں اس کی وجہ سے اردو ادب میں بھی نئے نئے فکری رویے اور نظریے نظر آنے لگے ۔ادب کے عالمی تصور نے تخلیقی جہتوں کو متاثر کیا۔گلوبلائزیشن نے ادب کی دوسری اصناف کے ساتھ ساتھ اُردو غزل کے دامن کو بھی اپنی فکری توانائیوں اور عالمی رویوں سے ہمکنار کیا ہے۔

         گلوبلائزیشن وسیع پیمانے پر تجارت کی ترقی، خریدو فروخت کی سرگرمی اور دنیا کو ایک عالمی منڈی کی شکل دینے کے حوالے سے نہایت فعال کردار کی حامل ہے۔

         انسانی معاشرت میں خریدو فروخت کا تصور بہت پرانا ہے جیسے جیسے انسان معاشرتی اور تمدنی حوالے سے ترقی یافتہ ہوتا گیا یہ تصور بھی مختلف شکلیں اختیار کرتے کرتے موجودہ ترقی یافتہ صورت تک پہنچ چکا ہے۔

         کہیں سودوزیاں کا ذکر کیا گیا ہے۔ کہیں ارزانی اور گرانی کی بات ہوئی ہے۔اب وہ وقت گیا جب کہ اردوغزل کو صرف عورتوں سے درپردہ باتیں کرنے کے حوالے سے جانا جاتا تھا۔اب

اردو غزل دنیا جہان کے تمام مسائل اور کلامیے کا احاطہ کرتی نظر آتی ہے۔

          ڈاکٹر معین الدین عقیل اردو غزل کے بارے میں لکھتے ہیں :

’’اس نے حالات اور معاشرہ اور انسان کے انتشار ،کرب، امید وبیم، نشیب وفرازاور ارتقا کی عکاسی کی ہے۔ یہ عمل جاری ہے اور غزل کے معنوی امکانات کی بتدریج توسیع ہورہی ہے۔‘‘ (۱)

         اُردو غزل چونکہ ہمارے باطنی اور فکری صورت حال کے ساتھ ساتھ خارجی حوالے سے ہمارے معاشرتی اور اقتصادی معاملات کی آئنہ داری بھی کرتی ہے۔اسی لیے ہمیں اردوغزل پر بھی گلوبلائزیشن کے اثرات دکھائی دیتے ہیں۔گلوبلائزیشن کا مرکزی کام صارفیت کے عمل کو ترقی اور استحکام دینا ہے۔

’’صارفیت ،ہر ضرورت کے بنیادی ہونے میں یقین ابھارتی ہے ۔اسی لیے مابعد صنعتی عہد کے سرمایہ دار کو یقین ہوگیا تھا کہ ہر شے کو بیچا جاسکتا ہے ۔‘‘(۲)

         ۸۰ اور ۹۰ کے عشروں میں تجارتی سرگرمیاں تیز ہونے کی صورت میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کو زیادہ عروج حاصل ہوا۔

         ٹیری ایگلٹن(Terry eagleton) کے بقول:

’’چونکہ ملٹی نیشنل کارپوریشنز زمین کے ایک سرے سے دوسرے تک پھیل گئی تھیں، دانش ور پر زوراصرار کر رہے تھے کہ عالمگیریت ایک سراب تھا۔(۳)

         ہم اگر اردو غزل کا بغور مطالعہ کریں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ جدید اور جدید تر غزل میں خیالات وافکار کا اقتصادی اور تجارتی رویہ بہت تیزی کے ساتھ سامنے آنا شروع ہوا ہے۔زیادہ تر غزل میں جو استعارے استعمال ہونے لگے ان کا تعلق بھی مال وزر اور مال ومنڈی سے رہا۔

                  جو خرچ ہوگئی وہ رقم بھول جایئے

                  رکھیے بقیہ عمر کی نقدی سنبھال کر         (انور شعور)،(۴)

         بظاہر تو گلوبلائزیش ایک ایسا عمل ہے جس سے کاروبارمیں تیزی آتی ہے مگر حقیقت میں سب کے لیے ایسانہیں ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں اور بڑے بڑے تجارتی اداروں کی حد تک تو یہ بات کہی جاسکتی ہے مگر یہ بھی سچ ہے کہ گلوبلائزیشن کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اقتصادی صورت حال مزدوروں اور تباہ حالوں کے لیے کوئی خوشی کی نوید نہیں لائی :

         کوئی مجبور ہوتا جا رہا ہے

         کوئی معذور ہوتا جا رہا ہے

         پریشاں اس نظام زر کے ہاتھوں

                  فقط مزدور ہوتا جارہا ہے                (نجم عکاشی)،(۵)

         مزدور ، کارکن اور پسماندہ طبقے کے بارے میں ترقی پسند شاعری کرنے والوں نے بالخصوص اردو نظم میں اس کا اظہار بہت تواتر کے ساتھ کیا ہے۔ یہ رویہ ہمیں جدید دور کی غزل گوئی میں بھی نظر آتا ہے۔

                  سر کھجانے کی یہاں فرصت نہیں

                  جیسے ہم بیگار کے مزدور ہیں            (ساجد ظہیر بھٹی۔انگلینڈ)

         آج کے دور کاغزل لکھنے والا موجودہ دور کی مادی سوچ سے کس طرح پہلو تہی برتے جب کہ پورا معاشرہ اور پورا نظامِ حیات ہی مادی ترقی کے گرد گھومتا دکھائی دیتا ہے۔سلیم احمد کی غزل میںبھی نئے دور کے حوالے سے مختلف رویے نظر آتے ہیں:

’’جدید عہد کی زندگی نے انسان سے سودوزیاں سے آگے جاکر سوچنے کی اہلیت سلب کرلی ہے۔چنانچہ سلیم احمد کی غزل ایک ایسے معاشرے کے طرزِ احساس کو سامنے لاتی ہے جس کا بنیادی مزاج تجارتی اور جس کی بنیادی قدر دولت ہے یہی وجہ ہے کہ سلیم احمد کی غزلوں میں مول، بھاؤ، قرض، ادھار ، کھاتا، بیگار ، دکان، اجرت، ٹھیکا، دھندا، نقد ، دام، دان، نفع نقصان، مزدوری ، سودوزیاں ، بازار نیلام، جنس اور دیگر کئی الفاظ اپنے معاشرے کی تاجرانہ ذہنیت کے نشان بن کر ابھرے ہیں۔‘‘(۶)

                  سلیم نفع نہ کچھ تک کو نقدِ جاں سے اٹھا

                  کہ مال کام کا جتنا تھاسب دکاں سے اٹھا

                  دل حسن کو دان دے رہا ہوں

                  گاہک کو دکان دے رہا ہوں             (سلیم احمد)

         سلیم احمد کی غزل میں نفع نقصان، خریدو وفروخت ، قرض ادھار ،مول اور بھاؤجیسے الفاظ کا ایک سلسلہ نظر آتا ہے۔بقول مجتبیٰ حسین:

’’ان سے قطعیت اور شدت کے ساتھ نئی کاروباری دنیا اپنی بے نقاب تاجرانہ ذہنیت کے ساتھ ابھر تی ہے۔‘‘(۷)

         ظفر اقبال نے بھی وقت کے دھارے میں بہتے ہوئے اردوغزل میں نئے رویوں سے کام لیا ہے۔ان کی شاعری میں بھی تجارتی رویہ دکھائی دیتا ہے۔ ظفرا قبال بازاری استعارے استعمال کرکے شاعری کو دورِ جدید سے جوڑتے نظر آتے ہیں:

                  شام ہی سے سنور کے بیٹھی ہے

                  حسرتیں ہیں زنانِ بازاری

                  روک رکھنا تھا ابھی اور یہ آواز کا رس

                  بیچ لینا تھا یہ سودا ذرا مہنگا کرکے          (ظفرا قبال)

         خلوص اور وفا کے معیار بدل چکے ہیں۔نئے دور میں محبت ایک کاروبار سے زیادہ اور کچھ نہیں۔

’’بدلتی ہوئی معاشرتی اقداروروایات طرزِ احساس پر اثر انداز ہوتی ہیں۔‘‘(۸)

         احمد فراز کے یہ شعر دیکھئے:

                  ذرا بھی نرخ ہو بالا تو تاجران ِ حرم

                  گلیم وجبہ ودستار بیچ دیتے ہیں

                  بس اتنا فرق ہے یوسف میں اور مجھ میں فراز

                  کہ اس کو غیر اور مجھے یار بیچ دیتے ہیں                      (احمد فراز)(۹)

         ان اشعار میں احمد فراز نے بیچ دینے کو ایک و سیع مفہوم میں استعمال کرکے اپنے دور کے منافقانہ اور تجارتی رویوں کو بے نقاب کیا ہے۔

                  یہ کاروبارِ محبت تو فائدہ دے گا

                   اسے رسد سے غرض ، اور مجھے طلب سے ہے      (حیدر قریشی۔جرمنی)

         انسان صرف مادی خزانوں کی تلاش میں ہے اس کے لیے وہ اپنی دنیا بھی چھوڑنے پہ رضامند ہے:

                  ہے آسمان کے خزانوں پہ اب نظر عاصم

                  زمین کا تو بہت مال وزر سمیٹ لیا                 (عاصم واسطی)

         ظفرا قبال غزل میں نئے نئے تجربے کرتے رہتے ہیں۔ ان تجربات سے بعض ا وقات انھوں نے غزل کو اس سطح پر لاکھڑا کیا جہاں اس میں تغزل کی جگہ تجربات کی تلچھٹ ہی باقی بچتی ہے۔ان کے حوالے سے تصنیف حیدر لکھتے ہیں۔

’’ان کی زیادہ دہ تر غزلیں  ایک ہی تجربے کے بلیک ہول میں شو کے انگوں کی طرح گرتی چلی گئی ہیں۔‘‘(۱۰)

         تجارت اور پیسے کے مرکزی نکتے کے گرد گھومتی ہوئی عالمی پالیسیاں دراصل غریبوں اور تیسری دنیا کے لوگوں کے لیے کسی آگ سے کم نہیں:

’’اب کوئی استاد کوئی شاگرد کوئی رہنما کوئیس ایسی راہبر اگر حیثیت رکھتا ہے تو اس کی معاشی اور پیشہ ورانہ حیثیت ہے۔‘‘(۱۱)

         انور مسعود موجودہ دور کی کاروباری سوچ ، تجارتی ذہنیت اور مادی ترقی کو پیش نظر رکھتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’کمرشلائزیشن نے انسان کو ایک خریدنی اور فروختنی شے بنا کر رکھ دیا ہے۔ کثیر قومی کمپنیوں کے تجارتی مفادات اخلاقی اور روحانی قدروں کو بری طرح پامال کر رہے ہیں۔‘‘(۱۲)

         آج کلچر اور اس کے تمام مظاہر بھی کاروبار کا حصہ بن چکے ہیں، اس لیے اسے فنونِ لطیفہ کا کا شعبہ کہنے کے بجائے انٹرٹینمنٹ یا کلچرل انڈسٹری کہا جاتا ہے ۔یعنی فنون، لطیفہ بھی اب ایک صنعت ہے ۔(۱۳)

                           ہر شخص وہاں بکنے کو تیار لگے تھا

                           وہ شہر سے بڑھ کر کوئی بازار لگے تھا               (سعود عثمانی)

         یہ دنیا عجیب بازار ہیں جہاں انسان ہی خریدار ہے اور انسان ہی برائے فروخت۔جلیل عالی بکتے ہوئے انسانوں کو کھلونوں سے تشبیہہ دیتے ہیں۔

                  بک رہے تھے ہر طرف انساں کھلونوں کی طرح

                  اور ہم خوش ہورہے تھے رونقِ بازار پر            (جلیل عالی)

         محمد اظہار الحق کی غزلوں میں محبت ایک ایسے زر نقدی کے طور پر استعمال ہوئی ہے جس کے بدلے کوئی شے ملنا محال۔

                           محبت سے مجھے بازار میں کیا ملے گا

                  مجھے اس غار میں سوئے زمانہ ہورہا ہے             (محمد اظہار الحق)

         یعنی کہا جاسکتا ہے:

                           یہ سچ ہے کہ محبت اک کھوٹا سکہ ہے

                           دنیا کی گاڑی پیسوں سے چلتی ہے

         موجودہ دور میں احساسِ زر اور دولت کی چمک دمک نے سارا منظر چکا چوند کردیا ہے

                           کچھ ایسے سحرِ زر پھونکا گیا ہے

                           کہ اب فنکار تک پتھرا گیا ہے           (نجیب احمد)

         صرف فنکار ہی نہیں اب تو ہر انسان پتھرایا ہوا معلوم ہوتا ہے۔

         اگر ہم اردوغزل کی روایت کا مطالعہ گزشتہ ایک صدی یعنی بیسویں صدی کی غزل کے تناظر میں کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ اردو غزل میں صارفیت کا تعلق صرف موجودہ دور ہی میں نہیں بلکہ پہلے کی غزلیہ شاعری میں بھی صارفیت زدہ اشعار مل جاتے ہیں۔

         تجارت، صارفیت،سودے بازی، کاروبار، لین دین، قرض ،ادھار جیسی لفظیات پہلے سی اردو غزل میں استعمال ہورہی ہیں ۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ صنعتی دور میں اسے پہلے سے زیادہ استعمال کیا گیا۔

                  یہ تو میں کیوں کر کہوں تیرے خریداروں میں ہوں

                  تو سراپا ناز ہے، میں ناز برداروں میں ہوں                  (امیرمینائی)

         حالی کی شاعری میں نئے مال نئی دکان اور تجارتی حوالوں سے اس شاعری کی بات کی گئی جو کہ مقصدیت کی حامل تھی۔

                           مال ہے نایاب پر گاہک ہیں اکثر بے خبر

                           شہر میں کھولی ہے حالی نے دکاں سب سے الگ

         ’’حالی نے وقت کی معنوی مزاج کو سمجھ لیا اور سوئی ہوئی قوم کو نئی غزل کا نسخہ کیمیا تجویز کیا۔‘‘(۱۴)

                           ہوگی نہ قدر جان کی، قرباں کیے بغیر

                           دام اٹھیں گے نہ جنس کو ارزاں کیے بغیر                    (حالی)

                           دل لے کے مفت کہتے ہیں:کچھ کام کا نہیں

                           اُلٹی شکایتیں ہوئیں احسان تو گیا                           (داغ)

                           نہیں جنسِ ثوابِ آخرت کی آرزو مجھ کو

                  وہ سوداگر ہوں، میں نے نفع دیکھا ہے خسارے میں                   (اقبال)

                           کہوں کیا ، آرزوئے بے دلی مجھ کو کہاں تک ہے

                               مرے بازار کی رونق ہی سودائے زیاں تک ہے    (اقبال)

          اقبال نے جس سوداگری کے مضمرات سے پردہ اٹھانے کی کوشش کی تھی وہ موجودہ دور میں صارفیت کی انتہاؤں تک پہنچ چکا ہے۔ جس میں انسان۔۔انسان کم اور بطور صارف زیادہ پہچان رکھتا ہے۔

                  دیارِ مغرب کے رہنے والو!خدا کی بستی دکاں نہیں ہے

                  کھرا جسے تم سمجھ رہے ہووہ وہ اب زر کم عیارہوگا            (اقبال)

                  اس حسنِ کاروبار کو مستوں سے پوچھیے

                  جن کو فریبِ ہوش نے عصیاں بنادیا                      (اصغر)

                  جان سی شے بک جاتی ہے ایک نظر کے بدلے میں

                  آگے مرضی گاہک کی، ان داموں تو سستی ہے۔              (فانی)

                  کارِ مغاں یہ قند کا شربت بیچنے والے کیا جانیں

                   تلخی ومستی بھی ہے غزل میں ، خالی رس کی بات نہیں    (حفیظ جالندھری)

                           کیمیائے دل کیا ہے ، کاک ہے مگر کیسی؟

                           لیجئے تو مہنگی ہے بیچئے تو سستی ہے                 (یگانہ)(۱۵)

         شاعر دل کی قدروقیمت کا اندازہ بھی دولت کے پیمانوں پر لگاتا ہے۔ عاشقی میں سب سے بڑا سرمایہ دل کو قرار دیتے ہوئے اسے عزت وناموس حسن کے برابر سمجھتا ہے۔

                           دل کہ ہے سرمایہ داروعزت وناموس حسن

                           ہے یہی مرکز، یہی ہے دائرہ میرے لیے (احمد اسیر کاکوری)(۱۶)

         ترقی پسند ادب کا ایک خاص موضوع ایک ایسے معاشی نظام کے قیام کے لیے کوشش ہے جس میں ہر شخص کو اپنی صلاحیت کے مطابق جدوجہد کرنے اور زندگی گزارنے سے بہرہ اندوز ہونے کا موقع ملے(۱۷)

                  ہم خون جگر اپنا بازار میں لائے ہیں

                  کیا دام لگائے گے یہ سودوزیاں والے             (معصوم رضا راہی)(۱۸)

                  ہوچکا بازار ہی قحط خریداری سے بند

                  اب کوئی جو بندہ جنس گراں آیا تو کیا               (جوش)(۱۹)

                  گلوں میں رنگ بھرے بادِ نوبہار چلے

                  چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے                (فیض احمد فیض)

         فیض احمد فیض کی شاعری میں پرانے لفظ نئے معنوی سیاق میں استعمال ہوئے ہیں۔وہ  وطن اور محبوب کے لیے دل اور جان کو بیچنے سے بھی پیچھے ہٹنے والے نہیں۔

                  مشکل ہیں اگر حالات وہاں دل بیچ آئیں جاں دے آئیں

                  دل والو،  کوچۂ جاناں میں کیا ایسے بھی حالات نہیں           (فیض)

         فیض کی شاعری میں ارزانی اور گراں یابی کے استعارے بھی اس حوالے سے اہمیت کے حامل ہیں

                  نہیں جاتی متاع لعل وگوہر کی گراں یابی

                  متاع غیرت وایماں کی ارزانی نہیں جاتی          (فیض ،غزل انسائیکلوپیڈیا، ص۲۱۸)

         عدم کے خیال میں دنیا کی حیثیت اس تاجر کی سی ہے جو صرف جلوے اور ہنسی خریدتا ہے ، جرم غریبی نہیں، یہاں تعلق، رشتے ،ناتے سب دولت کے معیار پر پرکھے جاتے ہیں:

                  اس تبسم فروش دنیا میں

                   ہم غریبوں کو کون پہچانے             (عدم،غزل انسائیکلوپیڈیا، ص۱۹۱)

         احسان دانش کی درج ذیل غزل کی ردیف ہی’’ بیچ دیا ‘‘ہے۔اس غزل میں کفن، چمن اور فن بیچنے کی بات کی گئی ہے۔یہاں جو بھی بیچنے کا تصور ہے وہ ایک منفی عمل سے عبارت ہے۔

                  عشق نے حسن کو تن ہی نہیں من بیچ دیا

                  مصلحت کرتی رہی لاکھ جتن بیچ دیا

                  دل امڈ آیا ہے احسان بھر آئے آنسو

                  جب سنا ہے کسی فنکار نے فن بیچ دیا               (احسان دانش)(۲۱)

                  صرف نغمہ ہی نہیں لے بھی بدلنے ہوگی

                  باغبانوں نے سنا ہے کہ چمن بیچ دیا۔

(احسان دانش،غزل انسائیکلوپیڈیا، ص۲۲۸)

                  بک گئے جب تیرے لب پھر تجھ کو کیا شکوہ اگر

                  زندگانی بادہ وساغر سے بہلائی گئی

(ساحر لدھیانوی،غزل انسائیکلوپیڈیا، ص۲۵۵)

         بعض جگہ اردو غزل میں فکرِ بیش وکم اور تقاضے کی بات کی گئی ہے جو کہ تجارتی حوالے سے ایک ایسی سرگرمی ہے جس کے بغیر مالیاتی اور اقتصادی عمل میں تیزی نہیں آتی۔

                  تقاضے کیوں کروں پیہم نہ ساقی

                  کسے یاں فکرِ بیش وکم نہیں ہے

(اسرار الحق مجاز، نقوش غزل نمبر، ص۲۲۸)

                  جھوٹے سکوں میں بھی اٹھا دیتے ہیں یہ اکثر سچا مال

                  شکلیں دیکھ کے سودے کرنا کام ہوا بنجاروں کا

(ابن انشا، نقوش غزل نمبر، ص۲۲۸)

         پرانی تشبیہوںا ور استعاروں کو نئے انداز میںموجوہ صارفیت کے تناظر میں برتنے کے عمل کودیکھا جائے تو درج ذیل شعر کی معنویت دوچند ہوجاتی ہے۔

                  دیارِ مصر میں دولت کو آپ نے دیکھا

                  ستم ظریف پیمبر خرید لیتی ہے         (نسیم لیہ)

         اسی تناظر میں جاوید منظر کا یہ شعر ملاحظہ کیجئے:

                  جب وہ یوسف ہی نہ ہو مصر کے بازار کے پاس

                  پھر بھلا کون سا جذبہ ہو خریدار کے پاس           (جاوید منظر)

اب خلوص ووفا پیمانے نہیں ہیں بلکہ موجودہ دور کا سب سے برا پیمانہ دولت ہے، زر ہے زمین ہے، اقتدار ہے:

                  خلوص ومہرو وفا کی نہیں رہیں قدریں

                  اب اہلِ زر ہی یہاں پر مقام رکھتے ہیں             (جاویدمنظر)(۲۲)

         گزشتہ دہائیوں میں کئی غزلیں ایسی بھی لکھی گئیں جن میں ردیف ’فروخت کردی‘، خرید لائے ہیں‘، بیچ ڈالاہے‘استعمال کرکے صارفیت کے عمل کو مزید واضح طور پر دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔

                  کبھی تو بیعت فروخت کردی کبھی فصیلیں فروخت کردیں

                  مرے وکیلوں نے میرے ہونے کی سب دلیلیں فروخت کردیں

                  وہ اپنے سورج تو کیا جلاتے مرے چراغوں کو بیچ دالا

                  فرات اپنے بچا کے رکھے مری سبیلیں فروخت کردیں       (سلمان)

         درج بالا شعروں میں بیچنے اور فروخت کرنے کے عمل سے شعر مین نئی جہتیں تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

                  زندگی بھر کی کمائی یہ تعلق ہی تو ہے

                  کچھ بچے یا نہ بچے اس کو بچا رکھتے ہیں               (نجیب احمد)

         تیل ایک اہم جنس گراں کے طور پر دیکھنے میں آرہا ہے۔آج کل گرمئی بازار میں ایک اہم عنصر تیل کا بھی ہے جس کے بڑھتے اور کم ہوتے داموں کے سمندر میں  دنیا کی اقتصادی اور معاشی کشتی ہچکولے کھاتی رہتی ہے۔

                  تسلط تیل کے چشموں پہ کس کا ہوگیا ہے

                  جتن کتنے کیے پر شمع اب جلتی نہیں ہے                     (محمد فیروز شاہ)

                  یہ جو ستارے سے آنکھوں میں جھلملاتے ہیں

                  نہیں بتاؤں گا کس بھاؤ لے کے آیا ہوں

         یہ ایک عجیب دور ہے کہ جس میں انسان محصول در محصول لمحہ لمحہ خرچ ہوتا آرہا ہے۔ٹیکس کا نظام جہاں کسی ملک کی معیشت اور بقا کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے وہاں سے غریبوں کا لہو چوس بھی ثابت ہوتا ہے کہ عام آدمی کے پاس جمع تفریق کے بعد کچھ باقی نہیں

بچتا۔

                  اتنے محصول دیے میں نے بحقِ سرکار

                  کچھ مرے پاس نہ تھا، شہر کے دروازے تک               (ناصر بشیر)

                  حاصلِ عمر اک نظر اس کی

                  سود سے اصل زر زیادہ ہے             (خالدا قبال یاسر)(۲۳)

         زبان میں تخلیقی سطح پر استعمال ہونے والے الفاظ معنی در معنی کئی پرتوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔لفظ اگر روایت کی انگلی پکڑ کر عصری حسیت کے زینے پر قدم رکھتا ہے تو تخلیقی حوالے سے ایک نئے فریم ورک کی تشکیل کا سبب بنتا ہے۔ محمد حمید شاہد لکھتے ہیں:

’’روایت سے اکتساب لفظ کو اگر تہذیبی معنیاتی سلسلے سے منسلک کرتا ہے تو تخلیق کار کے اپنے زمانے سے رشتے لفظ کو اس پرزم کے سامنے کردیتے ہیں جس سے یہی معنیاتی سلسلہ تازگی، معنی کی توسیع اور نئی جمالیات کی دھنک اچھال دیتا ہے۔‘‘(۲۴)

         خواہشیں خریدنے کے چکر میں انسان دنیا کے بازار میں اکثر اوقات خود بھی بِک رہا ہوتا ہے۔

                  بہت مہنگی پڑے گی تم کو نظر بازی

                  اسی دیوانگی میں خود کو اندھا کرلیا میں نے          (ناز خیالوی)

         اور ایک وہ وقت بھی آتا ہے جب کہ سارا نظریہ، فلسفہ صرف اور صرف اشیائے ضرورت کے گرد گھومتا نظر آتا ہے۔

                  اشیائے ضرورت بھی نہیں ملتیں جہاں پر

                  دنیا مجھے اُس گاؤں کا بازار لگی ہے

                  یہ سوچ کے بھی تجھ سے نہ منسوب ہوئے ہم

                  پتھر کبھی شیشے کی دکاں پر نہیں رکھتے                      (بیدل پانی پتی)

         اور یہ بھی سچ ہے کہ عشق کے بازار میں انسان ہی گرمیٔ بازار کا سبب ہے۔

                  کوئی نہ ہو وفا کا خریدار ہم جو ہیں

                  کم ہو تو کیوں ہو گرمیٔ بازار ہم جو ہیں                       (جعفر بلوچ)

                  ایسے مایوس نہ ہوں دل کی دکاں داری سے

                  دیکھ لے گا کہ خسارہ نہیں رہنے والا                        (جاوید شاہین)

                  یہ کاروبارِ محبت بھی خوب ہے شہزاد

                  جو میں نے اس میں گنوایا وہی بچا ہے مجھے

                  شکست وفتح جہاں کا معاملہ نہیں ہے

                  یہ عشق سودوزیاں کا معاملہ نہیں ہے    (قمر رضا شہزاد)    (۲۵)

                  عشق میں سود اور زیاں کیسے

                  یہ تجارت کے معاملات نہیں                   (عمر برناوی)

                  گو ہاتھ میں تھی سوت کی اَٹی مگر حکیم

                  یوسف کی ایک بڑھیا خریدار ہوگئی      (حکیم خان حکیم)  (۲۶)

                  ہم ایسے تہی دست جنھیں جینے کی خواہش

                  بازار میں لے آئے خریدار بناکر                  (اعجاز کنور راجہ)

                  ہر خسارے کو منافع لکھ رہے ہیں عشق میں

                  عشق کی دکانداری ہم نے چمکانی نہیں    (اعجاز رضوی، بیاض لاہور)

                  ہوا عجیب سا سودوزیاں محبت میں

                  کہ خود کو خرچ کیا ہے تجھے کمایا ہے                        (امر مہکی)

                  کل جو بے بھاؤ بکے جھوٹ کے بازوروں میں

                  آج وہ لوگ مرے دل میں ترازو نکلے    (نبیل احمد نبیل)   (۲۷)

                  ہم اس شہر میں اپنی جوانی بیچ آئے ہیں

                  دھڑکتا دل، محبت کی کہانی بیچ آئے ہیں             (ریاض ندیم نیازی)

         اس غزل میں ریاض ندیم نے محبت کی شانی، شادمای او’ر کامرانی بیچ آئے ہیں‘ کے قافیے بھی استعما ل کیے ہیں۔اس کے علاوہ گھاٹے کا سواد،بھی ان اشعار میں ہوتا نظر آتا ہے۔

         اردو غزل میں صارفیت کے عمل کو دکھانے کے لیے مارکیٹ سے وابستہ جو الفاظ کا ذخیرہ اردو ادب کا حصہ بنا وہ بھی اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے۔لفظوں کے استعمال کے حوالے سے تصنیف حیدر لکھتے ہیں:

’’کوئی بھی زبان کسی بھی لفظ کو غیر اہم نہیں سمجھتی ،بلکہ نئے لفظ کو ایک نئے اور گہرے تجربے کے طور پر قبول کرنے کا حوصلہ رکھتی ہے ۔ ‘‘(۲۸)

                  آنکھوں میں آنسوؤں کے جو سکے ہیں شام کو

                  کشکول میں ہے دن کی کمائی پڑی ہوئی             (اختر شمار)

         راحت سرحدی کی غزل کی ردیف بیچ آیا ہوں اسی تجارت زدہ ماحول کی عکاس ہے۔

                  کوئی گاہک نہیں تھا خوابوں کا اندھوں کی منڈی میں

                  خیالی مال میں پھر بھی زبانی بیچ آیا ہوں

                  تلاوت کے لیے گونگے ریاکاروں کو سستے میں

                  گراں قدر صحیفے آسمانی بیچ آیا ہوں

 (راحت سرحدی، بیاض ستمبر ۱۸ء،ص۸۸)

         اس غزل میں انسان کا کچرے سے بھی کم مول ہونا، ردی کے بدلے راجدھانی بیچ دینا، فصلوں کی جوانی بیچ دینا، خون کو پانی کہہ کر بیچ دینا ایسی مسابقت اور تول مول کی زبان میں پیش کی گئی ہے

         کہیں حسابِ آب ودانہ کی بات کی گئی ہے۔

         غزلوں کی غزلیں خریدنے ، فروخت کرنے اور بیچنے کی ردیفوں پر مشتمل ہیں۔

         گلوبلائزیشن اور عالمی تصور کے تحت اب چھوٹے چھوٹے گھروں کی جگہ بڑے بڑے مکانوں نے لے لی ہے جہاں سب کے اپنے اپنے کمرے ہیں۔ اب مکان ہیں مگر گھر کی حیثیت سے نہیں۔

                                    کیا عجب ہے کہ بیچ بیچ کے گھر

                                    لوگ خوش ہوگئے مکانوں میں          (راجیش ریڈی۔انڈیا)

         میں شائع ہونے والی مضطر مجاز کی غزل کی ردیف’’ خریدیے ‘‘ہے۔ اس غزل کے قافیے نکہت، شہرت، مسرت، ملامت، جنت شرافت اور ذلت ہیں۔

سماجی حوالے سے عزت اور بے عزتی کے معیار بدل گئے۔یہ شعر دیکھئے:

                  کچھ ایسی جستجو کی ضرورت بھی اب نہیں

                  ہر سمت بک رہی ہے شرافت خریدیے  (مضطر مجاز)                (۲۹)

         یہ بات سچ ہے کہ موجوہ صارفیت زدہ موحول میں انسانی سوچ اور زندگی کی عکاسی تقریباً تمام اصناف دب میں کی جارہی ہے مگر جس طرح اردو غزل میں ان مشاہدات اور کیفیات کو پیش کیا گیا ہے وہ بے مثال ہے۔اردو غزل کا دامن گلوبلائزیشن اور صارفیت کی وجہ سے مزید وسیع ہوا ہے۔معاصر اردو غزل کو پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ اردو غزل اپنے عصری مسائل اور کرب سے غافل نہیں ہے۔

حوالہ جات

۱۔معین الدین عقیل ‘ ڈاکٹر،پاکستان میں اردو غزل،مکتبہ ابلاغ،طارق منزل بریاتو ہاؤسنگ رانچی،۱۹۸۱ء،ص۷۵

۲۔دہشت، صارفیت اور ادب، مشمولہ اردو کالم،شمارہ ۱۳،۱۴،جولائی ستمبر ۲۰۱۶ء،ص۳

۳۔ٹیری ایگلٹن، تھیوری کے بعد، مترجمہ محمد داؤد راحت، ملتان بیکن بکس، ۲۰۱۷ء،ص۵۵

۴۔انور شعور،سیپ کراچی، شمارہ ۸۷،۲۰۱۸ء،ص۲۲۰

۵۔افروز عالم، کویت میں ادبی پیش رفت،دہلی، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، ۲۰۱۵،ص۷۶

۶۔عابد سیال، اردو غزل، چند نئے زاویے،لاہور، عکس پبلیکیشنز، ۲۰۱۸ء،ص۶۵

۷۔مجتبیٰ حسین، بیاض پر ایک نظر(مضمون)، مشمولہ فنون(جدید غزل نمبر)، لاہور جنوری ۱۹۶۹ء،ص۳۱۷

۸۔عارف ثاقب‘ڈاکٹر،بیسویں صدی کا طرزِ احساس،غالب نما، لاہور، ص۱۹۹۹ء،ص۱۳

۹۔احمد فراز،کلیات، شہر سخن آراستہ ہے، اسلام آباد، دوست پبلی کیشنز، ص۱۲۱۱

۱۰۔جدید غزل کی گھٹی ہوئی آوازیں اور میری چیخیں، مشمولہ اردو کالم اسلام آباد، شماہ ۲، اگست ۲۰۱۵ء،ص۱۰

۱۱۔افروز عالم، کویت میں ادبی پیش رفت،ص۵۶

۱۲۔انور مسعود، سعود عثمانی اور معجزۂ رنگِ نمو، مشمولہ عکس،راولپنڈی،،شمارہ ۳، اپریل ۲۰۱۶ء،ص۵۰۲

۱۳۔مسعود اشعر، عالم گیریت اور فنونِ لطیفہ ،مشمولہ، فنون، لاہور،شمارہ ۱۲۶، ۲۰۰۵ء، ص۹۰

۱۴۔وقار احمد رضوی‘ڈاکٹر، تاریخ جدید اردو غزل، اسلام آباد، نیشنل بک فاؤنڈیشن، طبع دوم، ۲۰۰۰ء،ص۸۵

۱۵۔نقوش ،غزل نمبر،شمارہ ۴۱،۴۲،مئی جون ۱۹۵۴ء،ص۱۷۴

۱۶۔ذکی کاکوروی(مرتب)،غزل انسائیکلوپیڈیا،لکھنو، مرکز ادب اردو، ۱۹۶۸ء،ص۱۸۱

۱۷۔ابواللیث صدیقی، غزل اور متغزلین،دہلی، بھارتی پبلیکیشنز،ص۲۸۷

۱۸۔،غزل انسائیکلوپیڈیا، ص۲۵۱

۱۹۔ابواللیث صدیقی، غزل اور متغزلین،دہلی، بھارتی پبلیکیشنز، ۱۹۶۸ء،ص۳۱۲

۲۱۔، نقوش ، لاہور،غزل نمبر،ص۲۱۱

۲۲۔جاوید منظر، بے صدا بستیاں، کراچی، مکتبہ عالمین،۱۹۹۶ء،ص۴۵،۹۳

۲۳۔، فنون،لاہور،شمارہ ۱۲۵، ۲۰۰۵ء،ص۲۹۹

۲۴۔تازگی اور توانائی کہاں سے آتی ہے، مشمولہ اردو کالم اسلام آباد، شماہ ۴،۵، اکتوبر نومبر۲۰۱۵ء،ص۵

۲۵۔یاددہانی،قمر رضا شہزاد،ص۱۰۲

۲۶۔ بیاض، لاہور، اپریل ۲۰۱۸ء،ص۲۲۴

۲۷۔باقی احمد پوری(مرتب)، لاہور القمر انٹرپرائزز، ۲۰۰۵ء،غزل آشنائی، ص۶۴۷

۲۸۔جدید غزل کی گھٹی ہوئی آوازیں اور میری چیخیں، مشمولہ اُردو کالم اسلام آباد، شماہ ۲، اگست ۲۰۱۵ء،ص۱۰

۲۹۔ سہیل غازی پوری(مرتب)،۱۰۰ ہندوستانی شاعر، کراچی،رنگ ادب پبلیکیشنز، ۲۰۱۴ء ،ص۸۱

***

Leave a Reply