مسز زرینہ عبد السلیم
اسسٹنٹ پروفیسر و ہیڈ(شعبۂ اردو)
یشوداگرلس آرٹس اینڈ کامرس کالج، اسنہ نگر، ناگپور
آرزو لکھنوی کی فلمی نغمہ نگاری
(پیدائش 1873، انتقال 1951)
فلمی دنیا کو ادبی شاعری اور ادبی نغمات سے جن شعرا نے بہرہ مند کیا ان میں آرزو لکھنوی کا نام سرفہرست ہے۔ وہ فلموں میں نغمے لکھنے والے ابتدائی شعرا میں شامل ہیں۔ آرزو لکھنوی کا اصلی نام انور حسین تھا۔ عرفیت منجھو صاحب (بعض لوگوں نے انوار حسین بھی لکھا ہے جس کو ڈاکٹر مجاہد حسین نے اپنی تحقیق سے سہوِ کاتبقرار دیا ہے۔بحوالہ آرزو لکھنوی حیات اور کارنامے،ص:22) دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ آرزو لکھنوی کے صرف نام ہی میں اختلاف نہیں بلکہ تاریخ پیدائش کے حوالہ سے اختلاف پایا جاتا ہے۔ ویکی پیڈیا پر آرزو لکھنوی کی سنہ پیدائش 1872 درج ہے۔ صاحب کتاب ڈاکٹر مجاہد حسین حسینی نے اپنی کتاب آرزو لکھنوی حیات اور کارنامے میں آرزو لکھنوی کی سنہ پیدائش میں دو مختلف سال درج کیے ہیں۔ جو کچھ اس طرح ہے:
’’آرزو 1874 میں پیدا ہوئے اور 1951 میں ان کا انتقال ہوا۔
۔۔۔۔یہ دونوں سال سیاسی اعتبار سے بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ 1873 اپنے پیش رو 1857 سے قریب ہے جو آرزو کی ولادت سے صرف سولہ برس پہلے ہمارے وطن ہندوستان میں ایک ایسا زبردست زلزلہ پیدا کرچکا تھا۔۔۔۔‘‘
(آرزو لکھنوی حیات اور کارنامے، ڈاکٹر مجاہد حسین حسینی، سنہ 1978، ص:16)
محولہ بالا عبارت میں ڈاکٹر مجاہد حسین حسینی آرزو کی سنہ پیدائش نمبروں میں 1874 لکھتے ہیں جبکہ اسی لائن کے بعد دوسرے پیرا گراف میں 1873 اپنے پیش رو 1857 سے۔۔۔۔۔۔ولادت سے صرف سولہ برس پہلے۔۔۔۔ یعنی آرزو 1873 میں ہی پیدا ہوئے ہیں۔ جبکہ ڈاکٹر مجاہد حسین حسینی صاحب اسی کتاب کے صفحہ نمبر 36 پر ’’ولادت‘‘ کے جلی عنوان کے تحت لکھتے ہیں:
’’لکھنؤ میں مادھو رام کی بارہ دری کے نام سے ایک اچھا خاصا محلہ اب بھی آباد ہے۔ یہ بارہ دری ایلج خاں کے میدان سے متصل ہے۔ میر ذاکر حسین یاس نے اسی بارہ دری کا ایک حصہ کرایے پر لے رکھا تھا اور اسی بارہ دری میں 18 ذی الحجہ 1289ھ 16/فروری 1873 کو چہار شنبہ کے دن آرزو کی ولادت ہوئی۔‘‘
(آرزو لکھنوی حیات اور کارنامے، ڈاکٹر مجاہد حسین حسینی، سنہ 1978، ص:36)
ڈاکٹر مجاہد حسین حسینی صاحب پہلی عبارت میں یا تو سہواً 1874 لکھ گئے ہیں یا پھر آرزو لکھنوی کے سن پیدائش کا سہی علم نہیں ہونے کی بنا پر وہ دانستہ طور پر کوئی رائے قائم نہیں کرسکے ہیں۔
آرزو کا خاندان علمی و ادبی لحاظ سے ثروت مند ثابت ہوئے تھے۔ اسی لحاظ سے آرزو کی بھی تربیت ہوئی اور انھوں نے اپنے خاندان کی علمی و ادبی وراثت کا بھر پور فائدہ اٹھا۔ وصی احمد اخگر آرزو لکھنوی کے شعری’مجموعہ فغاں‘ آرزو میں لکھتے ہیں:
’’اس وقت کا لکھنؤ آج کل کا سا لکھنؤ نا تھا۔ ہر شریف گھر تمیز و تہذیب کا مخزن و منبع تھا۔ گھر کا ہر بڑا بوڑھا یہ خیال مد نظر رکھتا تھا کہ خاندان کی منزلت کے اعتبار سے اپنے بچے کی تربیت کرے، یہ چھوٹا مگر ہونہار بچہ (آرزو) بھی ایسے ہی بزرگوں کی آغوش تربیت میں پلتا اور سایہ عاطفت میں کھیلتا۔‘‘(وصی احمد اخگر، مقدمہ فغان آرزو)
روایت کو مطابق آرزو لکھنوی کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی ہوئی اور والد ماجد سے اردو، فارسی اور قرآن پاک کی تعلیم حاصل کی۔ لیکن پڑھنے لکھنے میں مستقل مزاج نہ ہونے کی وجہ سے والد ماجد سے خفگی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اسی واقعہ کو ڈاکٹر ذاکر حسین فاروقی نے ’داستان آرزو‘میں یوں ذکر کیا ہے:
’’آرزو بہت حساس انسان تھے، لہٰذا باپ کے اس بدلے ہوئے طرز عمل کا انھوں نے گہرا اثر لیا اور اپنی بد نصیبی پر پھوٹ پھوٹ کر روئے۔ان کے ایک ہم سن دوست میر قاسم علی نے انھیں اس عالم میں دیکھا تو انھیں گھر لے گئے، بہت تسلی دی اور دونوں مل کر کتابیں پڑھنے لگے۔ اب روزانہ آرزو دوست کے گھر جا پہنچتے اور پڑھنا لکھنا شروع کردیتے یوں کہنا چاہیے کہ باپ کی خفگی ان کے سمند شوق کے لیے تازیانہ ثابت ہوئی۔‘‘
(داستان آرزو، ڈاکٹر ذاکر حسین فاروقی، ص:10)
فلمی نغمہ نگار آرزو لکھنوی بلند پایہ شاعر جلال لکھنوی کے شاگردخاص تھے، لیکن ان کی شاعری کی ابتداگھر کے ادبی ماحول میں ہوئی۔ جیسا کہ پہلے ہی عرض کرچکی ہوں کہ علمی و ادبی ماحول ان کو وراثت ملی تھی۔ان کے والدذاکر حسین جو خود بھی اچھے شاعر تھے اور شاعری میں یاسؔ تخلص کرتے تھے۔ اسی طرح آرزو کے بڑے بھائی جن کا نام میر یوسف حسن تھا وہ قیاسؔ تخلص کرتے تھے۔ اس طرح آرزو لکھنوی کی شعری تربیت ان اپنے گھر پرہی ہوئی۔ چنانچہ بارہ تیرہ برس کی عمر میںشعر گوئی پر قدرت حاصل کی اور کم سنی میں ہی مشاعروں میں شاعری سناکر اساتذہ شعر و سخن کے داد و تحسین حاصل کرنے لگے اور شاید یہی وجہ رہی کہ جو بعد میں وہ عروض داں کے طور پر اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہوئے۔
آرزو لکھنوی بیک وقت کئی میدانوں میں اپنی نمایاں شناخت اور شہرت رکھتے تھے۔ جہاں شاعر کی حیثیت سے مشہور تھے وہیں ڈرامہ نگار اور پھر فلمی نغمہ نگار کے طور پر بھی کسی تعارف کا محتاج نہیں تھے۔ انھوں نے فلموں میں شامل نغمہ نگاری کے میدان تک بندیوں کو نہ صرف زبان کی چاشنی سے مزین کیا بلکہ ادبیت سے فلمی نغمہ نگاری کو ثروت مند کیا۔
فلمی دنیا سے وابستہ ہونے سے قبل آرزو لکھنوی ڈرامے پیش کرنے والی تھیٹریکل کمپنیوں کے ساتھ وابستہ رہے اور انھوں نے بہت سے ڈرامے بھی لکھے۔ جس طرح ان کی سخنوری مشہور تھی وہ جلد ہی فلموں کے لیے نغمہ لکھنے لگے۔ انھوں نے سب سے پہلے فلم دیوداس کے لیے گیت لکھے ۔ اس فلم میں شامل گیتوں کو بھی بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ بعد ازاں فلم دیوداس بنانے والی فلم کمپنی نیو تھیٹر کے بینر تلے جو بھی فلمیں بنی نغمہ نگار کے طور پر آرزو لکھنوی کو ہی جگہ ملی۔ آرزو لکھنوی نے اس دوران بیشمارگیت لکھے، نیو تھیٹرکی جن مشہور فلموں میں ان کے گیتوں کو مقبولیت حاصل ہوئی ان فلموں میں دیوداس، اسٹریٹ سنگر، آندھی، مکتی، جوانی کی ریت، ابھاگن، لگن، نرتکی، ڈاکٹر اور ہار جیت کے نام شامل ہیں اس دور کی چند فلموں کے گیتوں کے وہ مکھڑے بھی درج ذیل ہیں جنھیں بڑی شہرت ملی تھی۔
نہ جانے کیا ہے دل کا راز
فلم مکتی
سانوریا من بھایا رے
فلم مکتی
بابل مورا نہیں چھوڑا جائے
فلم، اسٹریٹ سنگر
جوانی سب دھوکا ہے
فلم جوانی کی ریت
مرلیا جیون کا راگ بجائے
فلم جوانی کی ریت
یہ کون آج آیا سویرے سویرے
فلم نرتکی
مدھر بھری جوانی
فلم نرتکی
مہک رہی ہے پھلواری
فلم ڈاکٹر
میں سوئے بھاگ جگا دوں گا
فلم لگن
آرزو لکھنوی کئی برسوں تک کلکتہ کی فلم انڈسٹری میں اپنی شاعری کا لوہا منواتے رہے پھر انھیں بمبئی کی فلم انڈسٹری سے بھی بلاوے آنے لگے کیونکہ ان کے گلوکار اور اداکار دوست کندن لال سہگل بھی بمبئی کی فلم انڈسٹری میں اپنا مقام بنا چکے تھے۔ آرزو لکھنوی 1942ء میں کلکتہ کو خیر باد کہہ کر بمبئی میں آ بسے اور یہاں آتے ہی نیشنل فلم اسٹوڈیو میں آرزو لکھنوی کا پرجوش انداز میں خیر مقدم کیا گیا۔نیشنل فلم اسٹوڈیو سے وابستہ ہونے کے بعد آرزو نے فلم روٹی، لالہ جی اور جوانی کے لیے شاہکار نغمے تحریر کیے۔ اس دوران ان کے جن نغموں کو خوب شہرت ملی ان میں چند یہ ہیں:
بدنام نہ ہو جانا
فلم جوانی
رونے سے فرصت نہیں
فلم جوانی
نظارے ہوئے ہیں اشارے
فلم جوانی
اٹھ ساقیا پیمانہ اٹھا
فلم روٹی
ترے دیے میں کتنا تیل
فلم لالہ جی
نیشنل فلم اسٹوڈیو کے لیے آرزو نے جو گانے لکھے اس کی دیوانگی عوام کے سروں پر چڑھ کر بول رہی تھی۔ ان کی شہرت دیگر فلم سازوں کو بھی اپنی جانب متوجہ کیا اور کئی فلم سازوں نے اپنی فلم کے لیے آرزو سے نغمے اور مکالمے تحریر کرائے۔ ان کی لکھی ہوئی جن فلموں نے باکس آفس پر کامیابی کے جھنڈے گاڑے ان میں بے قصور، تصور، پرایا دھن، پرکھ، فیشن، یاد اور نئی زندگی کے نام شامل ہیں۔ چند گیت بڑے ہٹ ہوئے تھے جن کے بول تھے:
آیا ساون کا مہینہ
فلم فیشن
ہائے راما ترچھی نظر نے مارا
فلم یاد
یاد جب بے چین کرتی ہے
فلم یاد
آئے دن پیار کے
فلم یاد
آئے دن پیار کے
فلم پرکھ
بہت گھروندے کھیلے
فلم نئی زندگی
1947ء میں ہندوستان تقسیم ہوا توجہاں زندگی کے تمام شعبہ ہائے حیات سے وابستہ افراد اور میدانوں میں تغیر و تبدل کا دور شروع ہوا وہیں فلم انڈسٹری میں بھی بڑے پیمانے پر تبدیلی رونما ہوئی۔ اس دوران مسلمانوں کو نظر انداز کیا جانے لگا، جس کا پیش خیمہ یہ ہوا کہ بہت سے فنکار عوام الناس کی طرح ہندوستان کی مقدس سرزمین کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے اور انھوں نے پاکستان کو اپنا مسکن بنایا۔ چنانچہ آرزولکھنوی نے اپنے ارد گرد بسنے والے لوگوں کے رویہ سے دل برداشتہ ہوکر 1950میں ہمیشہ کے لیے ہندوستان کو خیر آباد کہہ کر پاکستان کے لاہور میں جابسے۔ اس سے قبل 1948ء میں آرزو لکھنوی نے جن دو آخری فلموں کے لیے گیت لکھے تھے ان فلموں میں ایک تھی فلم ’بے قصور‘اور دوسری فلم کا نام تھا ’رات کی رانی‘۔فلم رات کی رانی میں شامل ایک نغمہ’جن راتوں میں نیند اڑ جاتی ہے، کیا قہر کی راتیں ہوتی ہیں‘ جس کو موسیقی کار محمد رفیق نے اپنی آواز میں گایا بہت مشہور ہوا۔ آرزو لکھنوی نے حب الوطنی، عشقیہ، پیغام سے مملو گویا کہ تمام طرح کے نغمات لکھے۔ انھوں کو حسب حال نغمات لکھنے پر ملکہ حاصل تھا یعنی وہ فلم میں دکھائے جارہے مناظر اور کرداروں سے مطابق رکھتے تھے۔ ان ایک نغمہ جو فلم منزل میں شامل ہے کافی مقبول ہوا، اس نغمے کے انداز اور پیش کا لطف دیکھیں:
بنّے کا جی بنّی سے لاگا
بنّا بنّی کو لے بھاگا
فیشن پر للچایا بنّا
گھونگھٹ سے گھبرایا بنّا
میڈم گھر لے آیا بنّا
تیری دْم میں دھاگا
بنّا بنّی کو لے بھاگا
فیشن کی متوالی بنّی
سینٹ لگانے والی بنّی
گورا پوڈر کالی بنّی
بھور ہوئی تو جاگا
بنّا بنّی کو لے بھاگا
اسی طرح آرزو لکھنوی کا فلم ڈاکٹر میں شامل نغمہ جو دیہاتی زندگی کی منظر کشی اور گاؤں کا پر فریب منظر کو پیش کررہا ہے:
چلے پون کی چال، جگ میں چلے پون کی چال
یہی چلن ہے جگ سیوا کا، یہی چلن سکھ پال
جگ میں چلے پون کی چال۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نگری کی ڈگر ڈگر پر لاکھوں ہیں جنجال
سختی نرمی ، سردی گرمی ، اک سانچے میں ڈھال
جگ میں چلے پون کی چال۔۔۔۔۔۔۔۔
دکھ کا ناش ہو سکھ کا پالن دونوں بوجھ سنبھال
چھتے کانٹے پس پس جائیں، پھول نہ ہوں پامال
جگ میں چلے پون کی چال۔۔۔۔۔۔۔۔
کٹ نہ سکے یہ لمبا رستہ کٹیں ہزاروں سال
جہاں پہنچنے پر دم ٹوٹے وہیں ہے کال اکال
جگ میں چلے پون کی چال۔۔۔۔۔۔۔۔
آرزو لکھنوی نے اپنے فلمی نغموں میں عام انسانوں اور ان کو درپیش مسائل کو بڑے دلچسپ انداز میں پیش کیا ہے، کے جذبات و احساسات کی بہترین عکاسی بھی کی ہے۔ فلم مکتی میں شامل آرزو کا نغمہ جو مزدوروں کی زندگی پر روشنی ڈالتا ہے ملاحظہ ہو:
عجب زندگی ہے ، عجب زندگی ہے
کہ ہیں ظلم پر ظلم اور بے بسی ہے
کمائی کسی کی ہے قبضہ کیسی کا
جدھر دیکھئے الٹی گنگا بہی ہے
اگر روؤ بھی تم تو دل کیوں پسیجے
انھیں آنسوؤں سے تو کھیتی ہری ہے
چْسایا لہو اور اتنا نہ پوچھا
یہ ہونٹوں پہ کا ہے کی لالی جمی ہے
غریبوں کا خوں آرزو جل رہا ہے
امیروں کے گھر ہر طرف روشنی ہے
اسی طرح انھوں نے حب الوطنی کے جذبات سے لبریز بہت سے نغمے لکھے ہیں۔ فلم ‘ہندوستاں ہمارا’ میں شامل آرزو کا یہ نغمہ بہت مقبول ہوا:
ہندوستان کے ہم ہیں ، ہندوستان ہمارا
ہے یہ زمیں ہماری، یہ آسماں ہمارا
دیکھا تو تنکا تنکا پایا اسی چمن کا
صیاد کا قفس بھی ہے آشیاں ہمارا
چوٹی ہمالیہ کی کرتی ہے آنکھ نیچی
اونچا ہے کل جہاں سے ملکی نشاں ہمارا
ہر سورما میں اپنی تلوار کے ہیں جوہر
مانے ہوئے ہے لوہا، سارا جہاں ہمارا
ہاں آرزو یہی ہے سارے جہاں کی رونق
دیتا ہے بوئے جنت یہ بوستان ہمارا
عشق و عاشقی کو بھی آرزو لکھنوی نے اپنی فلمی شاعری میں بہت دلچسپ انداز میں پیش کیا ہے۔ ‘رات کی رانی’ فلم میں شامل آرزو کا یہ نغمہ دیکھیں:
جن راتوں میں نیند اڑ جاتی ہے
کیا قہر کی راتیں ہوتی ہیں
دروازوں سے ٹکرا جاتے ہیں
دیواروں سے باتیں ہوتی ہیں
جب وہ نہیں ہوتے پہلو میں
اور لمبی راتیں ہوتی ہیں
یاد آ کے ستاتی ہے اْن کی
اور دل سے باتیں ہوتی ہیں
گھر گھر کے جو بادل آتے ہیں
اور بن بر سے کھل جاتے ہیں
آشاؤں کی پیاسی دنیا میں
سوکھی برساتیں ہوتی ہیں
ہنستے ہیں جو آنسو آتے ہیں
تصویریں دو دکھلاتے ہیں
ہر روز جنازے اْٹھتے ہیں
ہر روز براتیں ہوتی ہیں
ہمت کس کی ہے جو پوچھ سکے
یہ آرزوئے سودائی سے
کیوں صاحب آج اکیلے میں
یہ کس سے باتیں ہوتی ہیں؟
آرزو لکھنوی کی نغمہ نگاری نے جہاں عوامی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیے وہیں۔ آرزو کے معاصرین نے ان کی شاعرانہ خوبیوں کا کھلے دل سے اعتراف کیا۔ ساحر لدھیانوی کے نغموں کا مجموعہ ’’گاتا جائے بنجارہ‘‘ کے دیباچہ میں جاں نثار اختر نے آرزو لکھنوی کی خلاقی کو اس طرح سراہا ہے:
’’بنگال کی ہندی فلموں میں آرزو نے گیتوں کو روپ اور سنگھار بخشا تھا، ساحر نے ایک بار پھر گیتوں کے معیار کو ابھارا ، سنوارا اور انھیں ادبی روپ دیا۔ ان گیتوں میں ہندوستانی لوک گیتوں کی جھنکار بھی ہے، شاعر کے دل کے تاروں کی لرزش بھی اور ساتھ ہی ساتھ ہم سب کے جذبات کی پکار بھی ان میں ادب، اخلاق، فلسفہ ، رومان اور نغمگی کو اس طرح سمودیا گیا ہے کہ یہ گیت چاہے فلم میں گائے جائیں یا کسی ادبی محفل میں یا زندگی کے حزین اور نگین لمحات میں گوشہ تنہائی میں پڑھے جائیں ، ان کا تاثر ہمیشہ بھر پور رہے گا۔ آرزو کے گیت خود بھی ہمیشہ زندہ رہیں گے اور اپنے خالق کو بھی امریتائے رکھیں گے۔‘‘
جاں نثار اختر، دیباچہ، گاتا جائے بنجارہ، ساحر لدھیانوی، سنہ ندارد، ص:8
ساہتیہ اکیڈمی کے کتابی سلسلہ ’’ہندوستانی ادب کے معمار‘‘ سیریز میں اکیڈمی نے آرزو کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ایک آرزو لکھنوی کی حیات اور خدمات پر ایک کتاب بھی شائع کی۔ ساہتیہ اکیڈمی کی شائع کردہ کتاب میں ضمیر کاظمی لکھتے ہیں:
’’آرزو کے گیت آج بھی زبان، نغمگی، آراستگی اور ادبی شناخت کے لیے یاد کیے جاتے ہیں۔ انھوں نے اپنے زمانے میں فلمی گیتوں کا جو معیار مقرر کیا تھا ہندستانی اور پاکستانی فلموں کے مصنفین اور شعرا نے ایک عرصے تک وہی معیار فلموں کی نغمہ نگاری اور مکالمہ نویسی میں برقرار رکھا۔ جن میں ساحر ، شکیل، مجروح ، کیفی، اسد بھوپالی ، راجہ مہدی علی خاں، شیلندر، اندیور، راجندر کرشن وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ فی زمانہ آج فلمی گیتوں اور مکالموں کا معیار وہ نہیں رہا۔ اس کے باوجود فلمی دنیا میں آرزو کے معیار کی پاسداری کرنیو الے شاعر آج بھی ہیں اور عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔‘‘
آرزو، ضمیر کاظمی، ساہتیہ اکیڈمی دہلی، سنہ 2015، ص:42
1950میں اور کہیں کہیں 1951بھی درج ہے میں آرزو لکھنوی ہندوستان چھوڑ کر پاکستان چلے گئے اور وہیں لاہور میں ان کا انتقال ہوا۔ اس طرح ہندوستان کا یہ روشن ستارہ ہمیشہ کے لیے غروب ہوا تاہم ان کی خدمات اور کارہائے نمایاں کی خوشبوں سے آج بھی ہندی سنیما معطر ہے اور امید ہے کہ جب بھی ہندی سنیما کے بنیاد گزاروں کا ذکر ہوگا آرزو لکھنوی کبھی بھی فراموش نہیں کیے جائیں گے۔