You are currently viewing آستھا

آستھا

زیبا خان

ہردوئی ، اتر پردیش

(ایم اے ، نیٹ، جے آر ایف)

مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی لکھنؤ کیمپس

افسانہ : آستھا

رات سے ہو رہی ہلکی بارش کے باوجود مندر میں کافی بھیڑ تھی۔ میں پوجا ارچنا کے بعد مندر سے لوٹ رہی تھی، کہ اچانک سیڑھی پر بیٹھی پینتیس (٣٥) سالہ بیوہ بھکارن کی گود میں بھوک سے نڈھال، بلک رہے بچے نے میرے آستھا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔

ان دنوں الہ آباد میں میری پوسٹنگ تھی، الہ آباد چونکہ میری جنم بھومی ہےاس لئے اس جگہ سے مجھے پہلے ہی سے ایک خاص قسم کا لگاؤ تھا۔ حالانکہ میری فیملی بہت پہلے ہی الہ آباد سے دہلی شفٹ ہو گئی تھی۔ وہ کہاوت ہے نا کہ انسان جہاں پیدا ہوتا ہے وہاں کی مٹی اس کے خمیر میں شامل ہو جاتی ہے۔ ایسا ہی کچھ میرے ساتھ بھی تھا۔ الہ آباد کی مذہبی فضا مجھے خاص طور سے پسند ہے کیونکہ میرا جھکاؤ شروع سے ہی دھرم کرم کی طرف زیادہ رہا ہے۔ اس کی خاص وجہ تو یہی ہےکہ میں دھارمک ماحول میں پلی بڑھی۔ دادا جی شو جی کے پرم بھکت تھے۔ میں اکثر ان سے رامائن اور مہابھارت کے قصے سنا کرتی تھی۔ اس وجہ سے رامائن کے کئی اشلوک تو میری زبان پر چڑھے ہوئے ہیں ۔ میں اکثر کچن میں یا پھر کار ڈرائیو کرتے وقت گنگنایا کرتی ہوں،

                 “پر ہت سرس دھرم نہیں بھائی

                  پر پیڑا نہیں سم ادھ – مائی “

شادی کے بعد وویک نے تو شاید و باید ہی میرا نام لیا ہو، وہ مجھے اب بھی پنڈتائن کہہ کر ہی پکارتا ہے۔

الہ آباد میں سنگم کے قریب ہی میرا پشتینی مکان تھا۔ صبح کاذب سے پہلے ہی پورا الہ آباد گھنٹوں اور شنکھ کی آواز سے گونجنے لگتا تھا۔ آرتی کی مدھر دھن‌ اور پوجا کے لئے لگی لمبی لمبی قطاریں ہماری آستھا کی پہچان تھیں۔ یوں تو ہمہ وقت سنگم نگری اپنے بھکتوں سے بھری رہتی ہے لیکن تیوہار اور کمبھ کے میلے میں بھیڑ اپنی چرم سیما پر ہوتی ۔ میں پتا جی انگلی پکڑ کر مندر کی لمبی سیڑھیاں چڑھ کر صبح کی آرتی میں بھاگ لینے جایا کرتی۔مہاشوراتری پر مجھے بھگوان شو جی کو دودھ سے اسنان کروانا بہت اچھا لگتا تھا۔

دہلی آکر مجھے سب سے زیادہ جس چیز کی محرومی کا احساس ہوا وہ تھی سنگم تٹ کی آرتی۔

الہ آباد کی گلیوں سے آتی دھوپ اگربتی کی مہک، مجھے دہلی کی تنگ گلیوں میں کہیں بھی

نہ ملی‌۔

یہاں پتا جی نے دہلی یونیورسٹی میں ایم اے میں میرا داخلہ کروا دیا۔میں پڑھائی میں ہمیشہ ہی اول رہی، بی اے کا امتحان بھی میں نے فرسٹ ڈویژن سے پاس کیا تھا جس کے لیے مجھے ‘اسٹوڈینٹ آف دی ایر’ کا ایوارڈ بھی ملا تھا۔ میں شروع سے ہی بے حد ڈسپلنڈ لڑکی رہی۔

آج یونیورسٹی میں میرا پہلا دن تھا، میں معمول سے تھوڑا پہلے ہی بستر سے بیدار ہو گئی ۔ نہا دھوکر تیار ہوئی اور پہلے مندر چلی گئی۔ واپس آکر میں نے بالوں کی دو چوٹیاں کیں اور دونوں کو ہی اپنے شانوں سے لٹکا لیا، آنکھوں میں موٹا موٹا کاجل اور ماتھے پر آلتی کا بڑا سا ٹیکا لگا لیا۔ میں کلاس کے لئے لیٹ ہو رہی تھی اور پتا جی تھے کہ ابھی تک اخبار کے مطالعے میں ہی مستغرق تھے، مجھے رہ رہ کر ان پر غصہ آ رہا تھا۔

تبھی عینک کو تھوڑی ترچھی کر کے پتا جی نے میری طرف کنکھیوں سے دیکھا اور پھر وہ اپنی ہنسی نہیں روک پائے… انھوں نے ماں کو آواز دی… گھنشیام کی فائل میرے تھیلے میں ڈال دو ، سریتا کو یونیورسٹی چھوڑ کر میں ادھر سے ہی کچہری چلا جاؤں گا۔ گھنشیام کانام سن کر مجھے ایسا محسوس ہوا کہ ماں کے چہرے کی جھریوں میں اچانک کچھ اضافہ سا ہوگیا۔ گھنشیام میرا بڑا بھائی ہے جو ایک زمینی تنازعہ میں پچھلے چھ مہینے سے جیل میں بند ہے۔

کالج کے گیٹ پر ہی مجھے وویک مل گیا۔ وویک میرا بچپن کا دوست ہے، ان دنوں وہ دہلی

یونیورسٹی سے ہی پولیٹکل سائنس میں پی ایچ ڈی کر رہا ہے۔ وویک کو میں’ ہاے ….باے..’ کہتی ہوئی کلاس روم میں داخل ہو گئی۔

راؤ سر کی کلاس کے بعد جیسے ہی میں باہر نکلی میری وویک سے ملاقات ہو گئی۔ جیسے وہ میرا ہی انتظار کر رہا ہو۔ میں اس کے ساتھ ہی چائے ڈھابے پر آ گئی۔ ابھی ٹھیک سے بیٹھی بھی نہیں تھی کہ اس کے سوالوں کی بوچھاڑ شروع ہو گئی،

 کتنا بدل گئی ہو تم؟… تم تو مجھے بچپن والی سریتا لگ ہی نہیں رہی ہو؟

لیکن کیوں ؟؟؟ تم یہ سب کیوں بول رہے ہو وویک ؟ میں ممکنہ حد تک اس کے سوالوں کے جواب دیتی رہی اور وہ تھا کہ خاموش ہی نہیں ہونے کو آ رہا تھا۔

آج مجھے وویک لہجہ بالکل بدلا ہوا سا لگ رہا تھا۔ جیسے وہ کچھ کہنا چاہتا ہو اور کہہ نہ پا رہا ہو۔

دہلی یونیورسٹی میں کب میرے ایم اے کے دو سال گزر گئے مجھے پتا ہی نہ چلا۔ اس بیچ میں وویک نے کتنی ہی بار میرے نزدیک آنے کی کوشش کی ،لیکن میں نے کبھی اس کے بارے میں دوست سے زیادہ کچھ سوچا ہی نہیں۔

فائینل ائیر کے اگزام شروع ہو چکے تھے میں پڑھائی میں مشغول ہو گئی۔ اگزام ختم ہوتے ہی وویک سے میری شادی ہو گئی۔ یہ شادی میری ماں کی مرضی کے خلاف تھی، مگر انھوں نے مجھے اجازت دے دی۔ مجھے آج بھی یاد ہے جب میں آشیرواد لینے کے لئے ان کے پاس گئی اور جب ان کے پیروں پر جھکی تو انھوں نے گلے سے لگا لیا اور رندھی ہوئی آواز میں بولیں… سریتا اپنا خیال رکھنا… جیسے کسی انجانے خطرے سے وہ مجھے آگاہ کر رہی ہوں۔

آج میری شادی کو چار سال ہو چکے ہیں ، ہماری ایک بیٹی بھی ہے ۔ وویک نے ہر قدم پر میرا ساتھ دیا۔ وویک کو الہ آباد یونیورسٹی میں ٹیچر کی نوکری مل گئی ہے ۔ میں بھی یہیں ایک پرایمری سکول میں پڑھانے لگی ہوں۔

الہ آباد آکر مجھے ایسا لگا جیسے میں پھر سے اپنے بچپن میں لوٹ آئی ہوں۔ آج مہاشوراتری کی پوجا تھی ، میں بے حد خوش تھی آج پھر اسی مندر میں پوجا کرنے آئی تھی جہاں کبھی داداجی اور پتا جی کے ساتھ آیا کرتی تھی۔

بڑی مشکل سے بھیڑ سے بچتے بچاتے ہم دونوں پوجا کرکے باہر نکلے۔ مندر کی سیڑھیوں پر بھکارن کا بچے کے دودھ کے لئے ایک روپے کا سوال اور جواب میں لوگوں کی سیکڑوں گالیاں…. میری نگاہوں میں شو جی پر چڑھایا گیا نالیوں میں بہتا دودھ گھوم گیا… !!!

***

Leave a Reply