You are currently viewing ابوالکلام آزاد کا طرزِ نگارش نثری ادب کا عظیم شاہکار

ابوالکلام آزاد کا طرزِ نگارش نثری ادب کا عظیم شاہکار

 

 

 

ڈاکٹر منور حسن کمال

ابوالکلام آزاد کا طرزِ نگارش نثری ادب کا عظیم شاہکار

اردو نثر کی روایات کے سرمایے پر گفتگو مولانا ابوالکلام آزاد کے بغیر نامکمل رہے گی۔ ان کی تحریریں نہ صرف علمی ہوتی تھیں بلکہ ادبی اعتبار سے بھی شاہکار متصور کی گئی ہیں۔ ان کے پاس نہ صرف یہ کہ معلومات کا اتھاہ سمندر تھا، بلکہ لسانی اعتبار سے بھی ابوالکلام کی نثر مالامال تھی۔ مشرقی طرز تخاطب پر انھیں جو قدرت حاصل تھی،اس کا دور دور تک کوئی جواب پیدا نہیں کرسکا۔ان کی تحریریں نثری ادب کا ایسا شاہکار ہیں، جن میں زریں روایتیں پوری طرح جلوہ افروز ہیں۔ نثر میں اردو ادب کی بہترین روایتیںجس دور میں قائم ہوئیں اس دور کا آغاز ابوالکلام  آزاد سے ہی ہوا۔ اس لیے کہ ابواکلام آزاد نہ صرف علمی و ادبی اور تہذیبی و ثقافتی اقدار کے امین تھے، بلکہ ان  اقدار کے تحفظ کا بھی انھوں نے بیڑا اٹھا رکھا تھا۔ ابوالکلام آزاد کے طرزِ نگارش کی بعض افراد نے نقالی کی کوشش بھی کی، لیکن ان کو نہ کامیاب ہونا تھا، نہ وہ کامیاب ہوئے۔ اس لیے کہ نہ ان کے پاس وہ مصادر تھے اورنہ وہ علوم، نہ وہ بالیدگی تھی اور نہ وہ بالغ نظری۔ پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ کوئی دوسرا ابوالکلام آزاد پیدا ہوجاتا، جب کہ خالق کائنات نے بطور نثر نگار اکثر نوازشیں ابوالکلام آزاد پر قائم کردی تھیں۔ ان کے شعور سے لاشعور تک ایک ایسی علمی و ادبی زبان رچی بسی تھی جو یقینا کوثر و تسنیم سے دھلی ہوئی تھی۔ ایک جانب ’لسان الصدق‘ کا اسلوب ہے تو دوسری جانب ’الہلال‘ کا اسلوب نگارش اور دوسری طرف ’ترجمان القرآن‘ کا طرزِ تحریر ہے تو اس کے ساتھ ’غبار خاطر‘ اور پھر تذکرہ کا جداگانہ اور روشن و تابناک اندازِ بیان ۔

یہ بات سچ ہے کہ بے حد ریاضت اور طویل مدت کی مشق و مزاولت کے بعد ہی کوئی صاحبِ اسلوب قرار پاتا ہے۔ مولانا آزاد نے محض اپنے شبانہ روز کے مطالعے سے نہ صرف اپنی تحریروں میں خصوصی اوصاف پیدا کیے، بلکہ وہ اس طرزِنگارش کے موجد بھی قرار پائے۔

ابوالکلام آزاد ایسے سحرانگیز نثرگار تھے کہ ان کی نثر آج بھی علالمی گیتی میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ ان کی شخصیت کی تشکیل جن اجزا سے ہوتی اور جو چیز ان کے خمیر میں شامل تھی، وہ مولانا آزاد کا جمالیاتی ذوق تھا۔ جمالیاتی ذوق کی پہلی کشش پر اگر اغور کریں تو بظاہر فطرت کی شکل میں سامنے آتی ہے۔

علی سردار جعفری کے مطابق جمالیات کا لفظ جمال سے بنا ہے اور اس کے معنی ہیں حسن کا علم یا حسن کے متعلق معلومات، آرٹ اور ادب کی دنیا میں تخلیق حسن کے اصول۔ حسن چوں کہ احساس کی چیز ہے، اس لیے جب اسے علم کی سطح پر لے کر آیا جائے گا تو ذوق اور اکتساب کے باہمی ربط اور تعلق کاسوال اہمیت اختیار کرلے گا— مولانا کی پہلی اور وجدانی کیفیات جو کچھ بھی رہی ہوں، لیکن ان کے ذوق جمال کی تربیت میں ابتدائی مشہودات اور مسموعات کا بڑا دخل ہے، وہیں سے ان کی طبیعت نے اپنا شوق محاکات بھی حاصل کیا۔ (مولانا آزادکا ذوق جمال، علی سردار جعفری، مولانا ابوالکلام آزاد-ایک مطالعہ، مرتب: پروفیسر عبدالستار دلوی، ص 260,262، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی، مطبوعہ 2015)

مولانا آزاد نے ’غبارِ خاطر‘ کی نثر میں اس کے پیش بہا نمونے پیش کیے ہیں۔ایک جگہ لکھتے ہیں:

’’جس مرقعے میں سورج کی چمکتی ہوئی پیشانی، چاند کا ہنستا ہوا چہرہ، ستاروں کی چمک، درختوں کا رقص، پرندوں کا نغمہ، آب رواں کا ترنم اور پھولو ںکی رنگین ادائیں اپنی اپنی جلوہ طرازیاں رکھتی ہوں….. فطرت کی اس بزم نشاط میں تو وہی زندگی سچ سکتی ہے جو ایک دہکتا ہوا دل پہلو میں اور چمکتی ہوئی پیشانی چہرے پر رکھتی ہے اور چاندنی میں چاند کی طرح نکھر کر ناستاروں  چھاؤں میں ستاروں کی طرح چمک کر پھولوں کی صف میں پھولو ںکی طرح کھل کر اپنی جگہ نکال سکتی ہے۔‘‘ (غبارِ خاطر، ص 76)

نثر کی یہ عبارت آفرینی اپنی جلو میں صدہا نقوش رنگ لیے نثر میں ایسی غزل ہے کہ جس کے ہر ہر مصرعے پر وجدان جھوم اٹھتا ہے اور ذہن اس کے پرکیف ترنم میں کھو جاتا ہے۔

ابوالکلام آزاد نے جب لکھنا شروع کیا تو اس زمانے میں سرسید تحریک پورے عروج پر تھی اور ادب میں اصلاحی نقطۂ نظر مقبول ہوچلا تھا۔ الطاف حسین حالیؔ، علامہ شبلیؔ نعمانی، ڈپٹی نذیرا حمد اور محمد حسین آزادؔ کسی نہ کسی اعتبار سے اپنی اپنی منفرد شناخت رکھتے تھے۔ اس لیے کہا جاسکتاہے کہ وہ دور ادبی، علمی اور سماجی سرگرمیوں کے اعتبار سے بہت حوصلہ افزا تھا۔ باصلاحیت افراد پر امکانات کے بے پناہ دروازے کھل رہے تھے۔ اس ماحول میںا ٓزادانہ صرف نمودار ہوئے،بلکہ فضائے ادب پر چھاتے چلے گئے۔

اس عہد میں لوگوں کی زبان اور لہجہ غزل کے رنگ  یں ڈوبا ہوا نظر آتا ہے۔ اس علمی و ادبی زندگی میں جہاں شعریت کا خوب غلبہ ہو وہاں اچانک ایسانثر نگار سامنے آجائے، جس کے الفاظ میں تہذیب اردو کے طرز اظہار کی روح سرایت کرگئی ہو اور پھر جس کی عبارت میں سطح مرتفع پر نظر آنے والا شعری حسن ہی نہ ہو، بلکہ اس کے اندرون میں علم کی گہرائی و گیرائی موجزن ہو، جہاں ہر ہر لفظ میں تازگی کا احساس ہوتا ہو جہاں نثر کی خوب صورتی، لچک اور تحرک و تفاعل کے باوجود لہجے میں سبک روی نظر آتی  ہو تو وہ نثر یقینا دل گیر و دل پذیر ہی ٹھہرتی ہے۔

اگرمولانا حسرت موہانی کو اپنی نظم کا مزہ پھیکا لگا تھا تو اس میں حسرت موہانی کے انکسار کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی بڑا دخل تھا کہ اردو میں ایسی نثر جو شعر کی ساری خوبیاںلیے ہوئے ہو آزاد سے پہلے کبھی نہیںلکھی گئی تھی۔ اس لیے حسرت موہانی نے یہ شعر کہا تھا:

جب سے دیکھی ابوالکلام کی نثر

نظم حسرت میں بھی مزہ نہ رہا

اردو نثر کا یہی طرزِ نگارش تھا جو پہلے پہل ابوالکلام آزاد کی صحافت میں نمودار ہوا اور ’الہلال‘ کے صفحات نے اس کو مزید جلا بخشی، پھر ’غبارِ خاطر‘ کے ان دیکھے مکتوب الیہ کو لکھے گئے مکاتیب میں جلوہ نما ہوا۔  پھر ترجمان القرآن کے صفحات پر اپنی تمام تر شعریت اور حسن و اداکو برقرار رکھتے ہوئے پہلے سے زیادہ شائستگی کے ساتھ سامنے آیا۔ الہلال میںا گرچہ عربی و فارسی اصطلاحات غالب تھیں اور ان کی لفظیاتِ کثیر سامنے آتی ہیں لیکن عبارت آفرینی دامن دل کو کھینچتی ہے۔ ذرا ایک جملہ ملاحظہ کریں:

’’قرآن حکیم کے تدبر و مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حق و باطل، ایمان و کفر، نور و ظلمت، تعلقِ علوی و رشتۂ سفلی اور اعمالِ صالحہ و کاروبار مفسدہ و سئیۂ کے اختلاف کے اعتبار سے دو بالکل متضاد اور مخالف گروہ دنیامیں ہمیشہ سے ہوتے چلے آئے ہیں اور جب کسی حق و باطل کا معرکہ گرم ہوتا ہے انھیں دو جماعتوں کی قطاریں ایک دوسرے کے مقابل میں صف آرا ہوتی ہیں۔‘‘ (اولیاء اللہ و اولیاء الشیطان، ص 151)

(ابوالکلام آزاد-ایک ہمہ گیر شخصیت: مرتبہ رشید الدین خاں،ترقی اردو بیورو، نئی دہلی، مطبوعہ 1989)

پھر ’غبارِ خاطر‘ میں خیال بندی اور استعارہ سازی کے نمونے اس طرح سامنے آتے ہیں کہ پڑھتے جائیے اور سرد ھنتے جائیے:

’’قدرت کے قلم صنعت کی یہ بھی ایک عجیب کرشمہ سنجی ہے کہ پھولوں کے ورق اور تتلیوں کے پروں پر ایک ہی موقلم سے میناکاری کردی اور ایک ہی رنگ کی دواتیں کام میں لائی گئیں۔ ان پھولوں کے اوراق کا مطالعہ کیجیے تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے بڑے پھولو ںکی کترن سے کچھ کاغذ بچ رہا تھا اسے بھی ضائع نہیں کیا گیا اور قینچی سے تراش تراش کر ننھے ننھے پھولوں کے ورق بنالیے۔ اگر ایک چیز نازک اور خوب صورت ہوتی ہے تو ہم کہتے ہیں، یہ پھول ہے، لیکن اگر خود پھولوں کے لیے کچھ کہنا چاہیں تو انھیں کس چیز سے تشبیہ دیں۔‘‘

                                                                                    (غبارِ خاطرء، ص 199-200)

’ترجمان القرآن‘ میں آزاد کا اسلوب اور طرزِ نگارش حکیمانہ اور عالمانہ ہے۔ ترجمان القرآن کے آغازمیں آزاد لکھتے ہیں:

’’ابتدا میں چند دنوں طبیعت دکھی رہی، لیکن جوں ہی ذوق و فکر کے دوچار جام گردش میںا ٓئے، طبیعت کی ساری رکاوٹیں دور ہوگئیں اور پھر تو ایسامعلوم ہونے لگا گویا اس شورش کدۂ مستی میں کبھی افسردگی و خمار آلودگی کا گزر ہی نہیں رہا تھا۔:

’…… جو کچھ قدیم ہے وہ مجھے ورثے میں ملا اور جو کچھ جدید ہے، اس کے لیے اپنی راہیں آپ نکالیں۔ میرے لیے وقت کی جدید راہیں بھی ویسی ہی دیکھی بھالی ہیں جس طرح قدیم راہو ںکے چپے چپے کا شناسا رہا ہوں۔‘‘

یہ بات قطعی ہے کہ ابوالکلام آزاد نے اپنے طرزِ نگارش کے لیے جو راہ منتخب کی، وہی اس کے موجد ہیں۔ اس بات پر اکثر ناقدین متفق بھی ہیں۔ لیکن اس اسلوب کا تعلق اساتذۂ ادب نے علامہ شبلی کے مکتب فکر سے قرار دیا ہے اور ساتھ میں یہ بھی کہا ہے کہ اس میں متانت کے ساتھ تحرک کی ہم آہنگی آزاد کا خصوصی اضافہ ہے۔

پروفیسر عبدالمغنی نے اپنے ایک مضمون ’ابواکلام آزادکے اسلوب نگارش کی انفرادیت‘ میںا ٓزاد کے طرزِنگارش پر بڑی وقیع گفتگو کی ہے۔ انھوں نے آزاد کی تحریروں تقریروں، اداریوں اور تبصروں کو زربردست ادبیت سے مملو قرار دیا ہے۔ عبدالمغنی کے مطابق آزاد کا اسلوب نگارش محض خطیبانہ نہیں ہے، اس میں تزئین کلام کے نقوش بھی نمایاں ہیں۔ تشبیہ، استعارہ، کنایہ، ظرافت، ضرب المثل اور قول محال سب کا بکثرت استعمال آزاد کے بیانات و عبارات میں ہوتا ہے۔ وسیلۂ اظہار کے یہ محاسن نثر کو شعر بنانے کے لیے ہرگز استعمال نہیں کیے گئے، بلکہ ان کا واحد مقصد نثر کو زیادہ سے زیادہ حسین، سلیس اور پراثر بنانا ہے۔

مولانا عبدالماجد دریابادی نے ابوالکلام آزاد کے طرزِ نگارش پر گفتگو کرتے ہوئے بالکل درست لکھا ہے:

’’وہ اپنے طرز و انشا کے  جس طرح موجد ہیں، اسی طرح اس کے خاتم بھی۔ تقلید کی کوشش بہتوں نے کی۔ پیروانِ غالب کی طرح سب ہی ناکام رہے… بہ حیثیت مجموعی ابوالکلام اپنی انشاپردازی میں اب تک بالکل منفرد و یکتا ہیںا ور بہ ظاہر احوال یہی نظر آتا ہے کہ غالب کی طرح ان کی بھی یکتائی وقتی نہیں، مستقل ہے۔ حال ہی کے لیے نہیں مستقبل کے لیے ہے۔‘‘

                                    (ابوالکلام آزاد نمبر، مرتبہ: شورشِ کاشمیری،لاہور، مطبوعہ 15 فروری 1965)

مولانا عبدالماجددریابادی نے ابوالکلام آزاد کے طرزِ نگارش کو انہی پر ختم کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ نثر ابوالکلام کے نقوش آج بھی اسی طرح قائم و دائم ہیں۔ جیسا کہ اس وقت ہوگئے تھے۔ اس سے آگے بڑھنا تو دور کی بات ہے، جس کسی نے اس کی نقل کی کوشش کی ہے، وہ بھی کامیاب نہیں ہوسکا ہے۔ اگرچہ ابوالکلام آزاد کے اسالیب نثر کا کچھ حصہ ضرور پا لیا گیا ہے۔ اسی ذیل میںمولانا عبدالماجد دریابادی نے غالب کے نقالوں پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔

ابوالکلام آزاد کے طرزِ نگارش و اسلوب اور فصاحت وبلاغت سے متعلق آزاد کے بہت قریبی رفیق کار عبدالرزاق ملیح آبادی کی رائے ہے:

’’مولانا اپنی تحریروں پر بڑی محنت کرتے تھے۔ ایک ایک لفظ چن چن کر، تول کر بٹھاتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ]ان کی[ تحریریں ادبی اسقام اور معائب سے پاک ہوتی تھیں۔

’’… مولانا ابوالکلام آزاد کے انشا کا ڈھنگ کا دوسرا تھا۔ لفظوں کا ایک طلسم ہوتا تھا۔ ایک لفظ بھی بے محل ہوجائے تو دوسرا طلسم ہی ٹوٹ جائے۔‘‘

ایک دوسری جگہ عبدالرزاق ملیح آبادی نے آزاد کے طرزِ نگارش اور انداز کا کیا خوب نقشہ کھینچا ہے:

’’مولانا کی ہر تحریر ایسی ہے کہ عش عش کرتے رہیے۔ اعلیٰ انشا و ادب کا نمونہ، جس کی تقلید ممکن نہیں۔ تحریر پڑھتے وقت ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس دنیا سے پرے، بہت پرے سے کوئی غیبی آواز بول رہی ہے۔ مولانا کو لکھتے دیکھ کر مجھے حظ حاصل ہوتا تھا۔ ہونٹو ںپر ایک خفیف سا دلفریب تبسم کھیلتا ہوا اور انگلیوں میں قلم ناچتا ہوا کاغذ کے میدان پر بے روک ٹوک دوڑا کرتا۔ حسن مجسم بن جاتے تھے۔ شاید اپنی تحریر سے خود بھی لطف اٹھاتے تھے۔‘‘

اکثر ناقدین کا خیال ہے کہ عبدالرزاق ملیح آبادی سے زیادہ ابوالکلام آزاد کو بہت کم لوگوں نے سمجھا ہے، یہ بات بالکل درست ٹھہرتی ہے، اس لیے کہ عبدالرزاق ملیح آبادی نے جتنے ماہ و سال ابوالکلام آزاد کے ساتھ گزارے، اتنا موقع کسی کو میسر نہ آسکا۔ جب یہ بات حقیقت ہے تو آزاد کو سمجھنے والوں میں بہرحال عبدالرزاق ملیح آبادی کو کسی نہ کسی طور فوقیت حاصل ہے اور آزاد سے متعلق ان کی گفتگو بھی قابل اعتبار قرار پائے گی۔

رشید احمد صدیقی نے آزاد کے طرزِ نگارش پر اس طرح روشنی ڈالی ہے:

’’مولانا کا اسلوبِ تحریر ان کی شخصیت تھی اور ان کی شخصیت ان کا اسلوب۔ دونوں کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ صاحب طرزِ کی ایک نشانی یہ بھی تھی۔ مولانا نے لکھنے کا انداز، لب و لہجہ اور مزاج کلام پاک سے لیا، جو ان کے مزاج کے مطابق تھا۔ مولانا پہلے اور آخری شخص تھے، جنھوں نے براہِ راست قرآن کا اپنے اسلوب کا سرچشمہ بنایا۔ وہی انداز بیان اور زور کلام اور وعید و تہدید کے تازیانے جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ پہاڑوں پر رعشہ سیماب کردیتا تھا۔

m

Dr. Munawwar Hasan Kamal

Baiturrazia, G-5/A, Abul Fazal Enclave

Jamia Nagar, New Delhi – 110025

Mob.: 9873819521

email.: mh2kamal@gmail.com

Leave a Reply