ڈاکٹر محمد نورالحق
شعبہ اردو ، بر یلی کالج بر یلی
احمد رضاخاں : اردوادب کا ایک تابندہ ستارہ
احمد رضا خاں کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ ان کے بارے میں کچھ کہنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ انہوں نے اپنے علم وادب سے نہ صرف اردودنیا بلکہ عالمی سطح پر اپنا سکہ جمایا۔ عرب و عجم دونوں کو بہت کچھ دیا۔ عالم اسلام کے دینی اور دنیاوی مسائل کے ساتھ ساتھ سائنسی دنیا کے ایسے ایسے انکشافات کئے کہ یوروپ وامریکہ انگشت بدنداں رہ گئے۔
احمد رضا خاں نے جس زمانے میں آنکھیں کھولیں وہ بہت ہی پرفتن تھا۔ ہندوستان ہی نہیں بلکہ پورے عالم اسلام میں ایک خلفشار پھیلا ہوا تھا۔ نہ صرف سیاسی بساط الٹ چکی تھی بلکہ علم وعقل و حکمت کا محور بھی بدل چکا تھا اب سب کچھ سائنسی ایجادات اور آلات تو بن ہی چکے تھے۔ ناقص سائنسی مزعومات بھی بھولی بھالی عوام الناس کو خوف و ہراس میں مبتلا کر نے اور اپنے الو سیدھا کرنے کے لئے استعمال کئے جار ہے تھے۔ دینی و مذہبی عقائد باطل ٹھہرائے جارہے تھے ، اورعوام الناس نئے مادی فلسفے کو قبول کرتی چلی جارہی تھی۔ غرض ایک عجیب صورتحال تھی جسے بھول بھلیاں سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔
حسن اتفاق سے احمد رضا کا خاندان لوگوں کو اس بھول بھلیاں سے نکال کر خدا اور اس
کے حبیب کے دے ہوئے سچے دین پر چلانے کا کام انجام دیتا چلا آرہا تھا اس لئے احمد رضا خاں بھی عملی طور پر عنفوان شباب سے ہی اس راہ پر چل پڑے انہوں نے دینی اور دنیاوی دونوں عقائد باطلہ اور ناقص سائنسی مزعومات کی ایسی گرفت کی کہ ساری دنیا حیران رہ گئی۔ لطف کی بات تو یہ ہے کہ دنیا کی حیرانی اس بات پرنہیں تھی کہ احمد رضا خان نام کا کوئی شخص ایسا پیدا ہوا ہے کیونکہ اسی زمانے میں سرسید احمد خاں گردش زمین کے خلاف ’ ’ قول متین در ابطال حرکت زمین ‘ لکھ کر اپنے موقف سے پیچھے ہٹ چکے تھے۔ جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یا تو ان کا علم راسخ نہیں تھایا ان پر کوئی دباؤ پڑا۔ لوگوں کی حیرانی اس بات پرتھی کہ ایک مولوی یہ کام انجام دے رہا ہے کہ بڑے بڑے ریاضی داں اس کے آگے گھٹنے ٹیکنے لگے۔ ایک مولوی امریکی ماہر فلکیات البرٹ ایف پوٹا کو جھوٹا ثابت کر رہا ہے۔ ایک مولویGeo-centric concept of universاور Helio-Centric Concept of universکا انکشاف کررہا ہے۔ ایک مولوی فلسفہ قدیمہ اور جدیدہ کی ہی تشریح نہیں کررہا ہے بلکہ گیلیوؔ، نیوٹنؔ، آئن اسٹائنؔ کے نظریات انھیں کے نظریے سے باطل قرار دے رہا ہے۔
مندرجہ بالا تمہید میں یہ مقصد بھی چھپا ہوا ہے کہ ہمارے ادب کا عقید ہ بھی کچھ اسی طرح کا ہے۔ اکثر دیکھنے کو ملا ہے کہ فلاں صنف ادب میں صرف مذاہب کا غلبہ ہے۔ فلاں کے یہاں صرف تصوف کے مسائل ہیں۔ فلاں صحافت کر رہا ہے ادب نہیں لکھ رہا ہے۔ فلاں کی تحقیق میں عصری حسیت نہیں ہے۔ فلاں زندگی کی بدلتی قدروں کا ساتھ نہیں دے رہا ہے۔ فلاں کو جمالیات نے مس نہیں کیا ہے۔ فلاں نرا مولوی ہے۔ اس طرح کے جملوں کی ادائیگی سے کبھی کسی صنف کی قدر و قیمت کم کر دی جاتی ہے تو کبھی کسی کو شاعر یا ادیب تسلیم نہیں کیا جا تا۔ احمد رضا بھی اس زد سے نہیں بچ سکے۔ داغ دہلوی نے جب ان کا یہ شعر
وہ سوئے لالہ زار پھرتے ہیں تیرے دن اے بہار پھرتے ہیں
اپنے پیارے شاگر د حسن رضا خاں سے سنا تو بر جستہ کہا کہ مولوی ہو کر اتنا اچھا شعر کہتا ہے۔ اس سے انداز ولگا یا جا سکتا ہے کہ احمد رضا خاں کی نعتیہ شاعری میں وہ آن بان ہے جو شاعری کی معراج ہے۔
احمد رضا خاں کو بھی اس بات کا احساس تھا کہ انہوں نے اپنی شاعری میں مدحت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جو انداز اختیار کیا ہے وہ کسی اور کے یہاں نہیں ہے جبھی انہوں نے کہا؎
یہی کہتی ہے بلبل باغ جناں کہ رضا کی طرح کوئی سحر بیاں
نہیں ہند میں واصف شاہ ہدی مجھے شوخیٔ طبع رضا کی قسم
گر چہ انہوں نے سید کفایت علی کافی مراد آبادی کو سلطان نعت گو یاں کہا ہے۔ کافی ؔصاحب کا یہ شعر جوانہوں نے پھانسی کے پھندے پر لٹکتے ہوئے پڑھا تھا؎
سب فنا ہو جائیں گے کافی ولیکن حشر تک
نعت حضرت کا زبانوں پر سخن رہ جائے گا
ایک مرد مجاہدکی آواز ہی نہیں بلکہ حشر تک کی تصدیق ہے کہ ہر صنف ادب پامال ہو سکتی ہے لیکن صنف نعت شفیع محشر سے متعلق ہونے کی وجہ سے ہمیشہ باقی رہے گی۔
احمد رضا خاں کا فلسفہ شاعری بھی یہی ہے۔ اسی لئے انہوں نے اپنے دیوان کا نام’’حدائق بخشش‘‘ رکھا۔ حدائق بخشش کا تعلق اس ذات پاک سے ہے جو خدا کا حبیب ہے۔ رحمت اللعالمین ہے۔شفیع المذنبین ہے ، جومزمل ہے مدثر ہے ، طہ ہے ، یٰسین ہے روؤف ہے رحیم ہے۔ جس کی اتباع کرنا ، جس سے محبت کرنا جس پر جاں نثار کر نا عین عبادت ہے۔ جس کو ماں باپ بھائی بہن ، آل واولا دسب پر فوقیت د ینالازم ہے۔ جس پر خدا اور اس کے ملائکہ ہر وقت درود بھیجتے ہیں۔ جس کے لئے اللہ نے حکم فرمایا کہ اے ایمان والواللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں تم بھی ان پر درود و سلام بھیجتے رہو۔
ایسی ذات پاک کے لئے شاعری کے میدان میں اتر نا اور اس کو انتہائے کمال تک پہنچادینا احمد رضا خان کا حصہ ہے۔ وہ بھی بقول خودان کے ؎
جو یہ کہے شعر و پاس شرع دونوں کا حسن کیوں کر آئے
لا اسے پیش جلوۂ زمزمۂ رضا کہ یوں
شاعری اور شریعت دونوں کو شیر وشکر کر نے کاعمل احمد رضا خاں سے پہلے ڈھونڈے نہیں ملے گا۔ احمد رضا خاں کی شریعت دانی و تمام دنیا کے علما( جن میں مخالفین بھی شامل ہیں اور حرم وطیبہ کے خادم بھی ) نے نہ صرف تسلیم کیا ہے بلکہ مہر بھی لگائی ہے۔ شیخ عبدالرحمن دھان مکی نے لکھا ہے:
’’ وہ جس کے لئے مکہ معظمہ کے علمائے کرام گواہی دے رہے ہیں کہ وہ سردار وں میں یکتاو یگانہ ہے۔ امام وقت ، میرے سردار ، میر ی جائے پناہ حضرت احمد رضا خان بریلوی اللہ تعالی ہم کو اور سب مسلمانوں کو اس کی زندگی س سے بہرہ ور فرمائے اور مجھے اس کی روش نصیب کرے کہ اس کی روش سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی روش ہے۔‘‘
( حسام الحرمین المیزان امام احمد رضا نمبر ۳۷۔۳۶)
جیسا کہ ذکر کیا جا چکا ہے کہ احمد رضا خاں کی شاعری کا انصب العین عشق محمدی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ عشق جگر سوزی کا مطالبہ کرتا ہے۔ خون جگر کے بغیر عشق کی لذت سے لطف اندوز نہیں ہوا جا سکتا اور جو خدا کا محبوب ہے اس سے عشق کرنے کے لئے اگر فقیہانہ بصیرت نہ ہو تو شاعر دنیا اور عقبی دونوں خراب کر سکتا ہے۔ احمد رضا خاں نے خودلکھا ہے کہ :
’’حقیت نعت لکھنا نہایت مشکل ہے جس کو لوگ آسان سمجھتے ہیں اس میں تلوار کی دھار پر چلنا ہے۔ اگر بڑھتا ہے تو الوہیت میں پہنچ جاتا ہے اور کمی کرتا ہے تو تنقیص ہوتی ہے البتہ حمد آسان ہے کہ اس میں راستہ صاف ہے غرض حمد میں ایک طرف اصلاً کوئی حد نہیں اور نعت شریف میں دونوں طرف سخت حد بندی ہے۔ ‘‘
( ماہنامہ معارف رضا کراچی سالنامہ ۲۰۰۴ء ص ۱۰۶)
احمد رضا خاں اپنی شاعری کلی کو برتنے میں اس لئے کامیاب ہوئے کہ انہیں شریعت اور فن شاعری دونوں پر عبور حاصل تھا۔
فن شاعری زبان دانی کا بھی تقاضہ کرتی ہے۔ زبان کا صوتی نظام ثقالت وکرختگی سے عاری نہیں لیکن ماہر لسان کے لئے یہ مشکل نہیں کہ نرم وشیر یںاور رواں آوازوں کا انتخاب کر لے۔احمد رضا خاں کے کلام کی روانی اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ وہ اس فن میں طاق تھے۔ زبان کی صوتی بصر فی نحوی اور معنوی چاروں سطحوں سے مجھا تک کر دیکھئے ہر طرح سے زبان پر ان کی پکڑ مضبوط دکھائی دیتی ہے۔ محاوروں کی برجستگی ، استعارات اور تشبیہوں کی ندرت اور صنائع اور بدائع کے استعمال پر وہ زبردست قدرت رکھتے تھے۔ چند مثالیں ملاحظہ فرمایئے:
تیرے ہی جانب سے پانچوں وقت سجدہ نور کا
رخ ہے قبلہ نو ر کا ا برو ہے کعبہ نو ر کا
تو ہے سا یہ نو ر کا ہر عضو ٹکڑا نور کا
سا یہ کا سایہ نہ ہوتا ہے نہ سا یہ نور کا
یہ محض آواز کی روانی نہیں ہے بلکہ احمد رضا کی طبیعت میں جو غضب کی روانی تھی اس کی کرشمہ سازی ہے۔
مذکورہ بالا دونوں شعر’’ قصیدہ نوریہ‘‘ کے ہیں۔ اس قصیدے میں۵۸ اشعار ہیں اور ہر شعر مطلع ہے ایسی بے ساختگی اور آمد ہے کہ کمال فن کا اعتراف کرنا پڑتا ہے۔ اثر آفرینی کا عالم یہ ہے کہ جی چاہتا ہے پڑھتے رہے۔ محاورے کی برجستگی اور استعارے کا حسن دیکھنا ہو تو ’’ حدائق بخشش‘‘ کی پہلی ہی نعت پر غور کیجئے جس کا مطلع ہے:
واہ کیا جو دو کرم ہے شہ بطحا تیرا
نہیں سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا
اس نعت میں ۲۵ اشعارہیں جن میں ۲۸ محاورے استعمال ہوئے ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں:
ا۔ عطا کے دھارے چلنا ۲۔ نظروں پر چڑھنا ۳۔ پھر یرا اڑ نا ۴۔ غیر کا منھ دیکھنا ۵۔ قدموں میں ہونا۔ نظروں پہ چڑھنا ۷۔ دامن میں چھپنا ۸۔ آنکھیں ٹھنڈی ہونا ۹۔ جگر تازہ ہونا ۱۰۔ جان سیراب ہونا ا۱۔ پتا سااڑ نا ۱۲۔ پلہ ہلکا ہونا ۱۳۔ بھاری بھروسہ ہونا ۱۴۔ مفت پلنا ۱۵۔ ٹکڑوں پہ پلنا ۱۶۔ غیر کی ٹھوکر پہ ڈالنا ۱۷۔ جھڑکیاں کھانا ۱۸۔ خوار ہونا ۱۹۔ دل کے میل دھلنا ۲۰۔ دل میلا نہ کرنا ۱۲۔ منہ تکنا ۲۲۔ قدموں پہننا ۲۳۔ حمایت میں لینا ۲۴۔ عطیہ پھرنا ۲۵۔درپہ مرنا۲۶۔جام چھلکنا ۲۷۔ جوت پڑنا ۲۸۔ نور چھٹنابا محاورہ زبان کی خوبی بیان سے باہر ہے۔
صرف ایک شعر ملاحظہ کیجئے :
دل عبث خوف سے پیاسا اڑا جا تا ہے
پلہ ہلکا سہی بھاری ہے بھروسہ تیرا
اگر صرف لسانیاتی نقطہ نظر سے حدائق بخشش کا مطالعہ کیا جائے تو لفظی اور معنوی صفت کا دریا رواں نظر آئے گا۔ احمد رضا خاں کو عربی ، فارسی ، اردو اور دیہی الفاظ پر یکساں قدرت حاصل تھی۔ اس قدرت کی بنیاد پرانہوں نے ایک ایسی نعت شریف پیش کی ہے جس کی مثال اردو شاعری میں نہیں ملتی۔ نہ ان سے قبل اور نہ ہی ان کے بعد اور لطف یہ ہے کہ ویسی الفاظ کے چھوٹے چھوٹے جملے جذبے خیال اور موسیقی کے اعتبار سے اردوشاعری میں لا ثانی بن گئے ہیں ملاحظہ کیجئے:
لم یات نظیرک فی نظر
مثل تو نہ شد پیدا جانا
جگ راج کو تاج تورے سر سو ہے
تجھ کو شہ دوسرا جانا
منجدھار میں ہوں بگڑی ہے سوا
موری نیا پار لگا جانا
توری جوت کی جھلجھل جگ میں رچی
میری شب نے نہ دن ہونا جانا
تورے چندن چندر پرو کنڈل
رحمت کی بھرن برسا جانا
برسن بارے رم جھم رم جھم
دو بوند ادھر گراجانا
جب یاد آوت مو ہے کر نہ پرت
در داوہ مدینے کا جانا
پت اپنی بپت میں کاسے کہوں
میرا کون ہے تیرے سوا جانا
مورا تن من دھن سب پھونک دیا
یہ جان بھی پیارے جلا جانا
احمد رضا خاں کا کمال ہے کہ انھوںنے اس میںن لوک گیت کا لطف پیدا کردیا ہے۔ یہ لطف کیوں کر پیدا ہوتا اگر اس میں احمد رضا خان کی والہانہ کیفیت شامل نہ ہوتی۔ خلیل الرحمن اعظمی کا یہ قول کتنا صحیح ہے:
’’ آپ کے کلام میں ہیں جو والہانہ سرشاری، سپردگی اور سوز و گداز کی کیفیت ملتی ہے وہ اردو نعت گو شعرا میں اپنی مثال آپ ہے۔ آپ کی نظموں اور غزلوں کا ایک ایک حرف عشق رسول میں ڈوبا ہوا ہے ۔‘‘
(احمد رضا۔ ارباب علم ودانش کی نظر میں یس اختر مصباحی۹۳؎)
اس نعت شریف میں ایک خوبی یہ ہے کہ اس کے ہر شعر میں چاروں زبانوں کے مکمل جملے استعمال ہوئے ہیں اور سب با معنی ہیں۔
احمد رضا خاں کی ایک اور خصوصیت جو ان کو دوسرے نعتیہ شاعروں سے ممتاز کرتی ہے نعت نگاری میں نئے تجربات ہیں۔ ان کا سلام جس کا مطلع ہے:
کعبہ بدر الدجیٰ تم پہ کروروں درود
طیبہ کے شمس الضحیٰ تم پہ کروروں درود
یہ پورا اسلام صنعت لزوم مالا یلزم اور صنعت ذوقافتین میں ہے اور قافیہ میں حروف تہجی کا التزام رکھا گیا ہے ۔ ذو قافتین کی صنعت میں غزلیں ملتی ہیں لیکن حروف ہجا کا التزام پوری اردو شاعری میں کہیں نہیں ہے۔ یہ احمد رضا کی پہلی کوشش ہے۔ اس درود پاک میں (۰ ۶) ساٹھ اشعار ہیں۔ کسی حرف ہجا کے دو اشعار کسی کے تین کسی کے پانچ اور ج خ دو ز س ش ص ض ط ظ ع غ ف ق ک ل اوری مجہول کے ایک ایک شعر میں لزوم مالا یلزم کے التزام کے باوجودایسی آمد ہے کہ بیان سے باہر ہے واردات قلبی اور والہانہ کیفیت میں درودکی بارش ہوتی نظر آتی ہے:
نافع و دافع ہوتم شافع ورافع ہوتم
تم سے بس افزوں خدا تم پہ کروروں درود
کیوں کہوں بے کس ہوں میں کیوں کہوں بے بس ہوں میں
تم ہو میں تم پر فدا تم پہ کروروں درود
احمد رضا خاں کا معراجیہ قصیدہ بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔ بہت سارے مذہبی شاعروں نے اس موضوع پر قلم اٹھایا ہے لیکن بقول سید امین اشرف:
’’ معراج پر اعلی حضرت کی نظم اردوادب میں شاہ کار کا درجہ رکھتی ہے اور میرے خیال میں اس موضوع پراردو میں ایسی معرکۃ الآرا نظم نہیں لکھی گئی۔ ‘‘
( المیز ان امام احمد رضا ص۵۵۷)
گر چہ معراجیہ قصیدہ مشکل بحر میں لکھا گیا ہے جو صا برسنبھلی کے مطابق بحر متقارب مقبوض اثلم شانزدہ رکنی ہے۔ جس کا وزن فعول فعلن فعول فعلن فعول فعلن فعول فعلن ہے لیکن احمد رضا خاں کے حسن بیان نے اس میں موسیقیت اور ترنم کا دریا بہادیا ہے۔ اس قصیدے سے جڑا ہوا ایک دلچسپ واقعہ خالی از لطف نہیں ہے اس کا ذکر ڈاکٹر آفتاب احمد نقوی نے کچھ اس طرح کیا ہے:
’’ اس قصیدے کی قدر و قیمت کا اندازہ اس واقعہ سے کیا جاسکتا ہے جو مولانا کے سوانح نگاروں نے لکھا ہے۔ جس کے مطابق ممتاز نعت نگار جناب محسن کا کوروی اپنا مشہور قصیدہ مولانا کو سنانے کے لئے جس کا مطلع تھا :
سمت کاشی سے چلا جانب متھرا بادل
برق کے کاندھے پہ لائی ہے صبا گنگاجل
احمد رضا نے نماز ظہر کی ادائیگی کے بعد دو شعر سنے اور باقی قصیدہ عصر کے بعد سننے کا وعدہ کیا۔ احمد رضا خاں بریلوی نے نماز عصر سے قبل اپنا مذکورہ قصیدہ معراجیہ سنا دیا۔ محسن کاکوروی نے جب آپ کا قصیدہ سنا تو اپنا قصیدہ لپیٹ کر جیب میں ڈالا اور کہا مولانا آپ کے قصیدے کے بعد اپنا قصیدہ نہیں سنا سکتا ۔‘‘
( ماہنامہ معارف رضا کرا چی سالنامہ۸۔۱۰۷)
اس اقتباس سے بہت سے عقدے کھل سکتے ہیں اور بہتوں کے بھرم ٹوٹ سکتے ہیں۔ شاعری سے لطف اندوز ہونے والوں کے لئے اس قصیدے میں نقشہائے رنگ رنگ ہیں۔ تغزل کی چاشنی، شگفتگی، مرقع کشی، منظر نگاری ،فضا آفرینی غرض شاعری کا کوئی رنگ ایسا نہیں جو اس قصیدے میں نہ ہو۔ ذرا یہ رنگ دیکھئے۔
پہاڑوں کا وہ حسن تر میں وہ اونچی چوٹی وہ نا زتمکیں
صبا سے سبزہ میں لہریں آئیں دو پئے دھانی چنے ہوئے تھے
نہا کے نہروں نے وہ چمکتا لباس آب رواں کا پنہا
کہ موجیں چھڑیاں تھیں دھار لچکا حباب تاباں کے تھل نکے تھے
وہاں فلک پر یہاں زمیں میں رچی تھی شادی مچی تھی دھومیں
ادھر سے انوار ہنستے آتے ادھر سے نفحات اٹھ رہے تھے
یہ چھوٹ پڑتی تھی ان کے رخ کی عرش تک چاندنی تھی چھٹکی
وہ رات کیا جگمگا رہی تھی جگہ جگہ نصب آئینے تھے
نئی دلہن کی پھبن میں کعبہ نکھر کے سنورا سنور کے نکھرا
حجر کے صدقے کمر کے اک تل میں رنگ لا کھو بناؤ کے تھے
کیا یہ اشعار کسی بیان کے محتاج ہیں؟ اسی قصیدے میں یہ رنگ بھی دیکھئے:
جو ہم بھی واں ہوتے خاک گلشن لپٹ کے قدموں سے لینے اترن
مگر کیا کریں نصیب میں تو یہ نامرادی کے دن لکھے تھے
یہ تو شاعری کی حسرت ہے۔ ذرا عرش کی حالت دیکھئے:ـ
یہ سن کے بیخود پکار اٹھا نثار جاؤں کہاں ہیں آقا
پھر ان کے تلووں کا پاؤں بوسہ یہ میری آنکھوں کے دن پھرے تھے
احمد رضا خاں کا اسلامیہ قصید ہ ساری اردو دنیا میں مشہور ومقبول ہے اس کی خوبیاں اس کی مقبولیت کا راز ہیں۔ اسلوب بیان کے نقطہ نظر سے اردو میں منفر دقصید ہ ہے۔ اس سے متعلق یوسف سلیم چشتی نے لکھا ہے:
’’احمد رضا خاں صاحب بریلوی نے سرکار ابد قرار ، زبدۂ کائنات فخر موجودات حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں جو سلام منظوم پیش کیا تھا اسے یقینا شرف قبولیت حاصل ہوگیا کیونکہ ہندو پاک میں شاید ہی کوئی عاشق رسول ایسا ہوگا جس نے اس کے دوچار شعر ملاحظہ نہ کرلئے ہوں۔‘‘
( امام احمد رضا از باب علم و دانش کی نظر میں ایس اختر مصباحی ۸۴)
بارگاہ بیکس پناہ میں جس کو قبولیت حاصل ہو جائے عوام میں اس کا کیا کہنا ، اس قصیدے کے تعلق
سے ’’سخن رضا ‘ ‘ کے مصنف نے جو واقعہ قلمبند کیا ہے وہ قابل غور ہے:
’’ اس سلام کے متعلق ۔۔۔۔۔۔ مولانا الحاج مفتی قاری محمد حشمت علی خاں سے میں نے سنا فرماتے تھے امام اہل سنت اعلی حضرت نے ایک مرتبہ ارشاد فرمایا میں ہمہ وقت دین کا کام کرتا ہوں۔ ایک دن اعلی حضرت پرانے شہر بریلی و عظ فرمانے تانگہ میں تشریف لے جارہے تھے۔ شیر بیشہ اہلسنت کو وہ فرمان یاد آگیا۔اعلی حضرت کی خدمت میں عرض کیا حضور آپ فرماتے ہیں ہر وقت دین کا کام کرتا ہوں۔ آپ اس وقت تانگے میں بیٹھ کر تشریف لے جارہے ہیں تو دین کا کون سا کام کررہے ہیں، ارشاد فرمایا مولانا ایک تو ہم دین کا کام یعنی وعظ کو جارہے ہیں یہ بھی دین کا کام ہے۔ دوسرے گھر سے یہاں تک میں نے سلام کے ساتھ اشعار موزوں کئے ہیں آپ لکھ لیں ۔ شیر بیشۂ اہل سنت فرماتے ہیں حیران رہ گیا کہ یہ خداداد صلاحیت ہے انسانی عقل سے ورا ہے۔‘‘
( سخن رضا۔ مطلب ہائے حدائق بخشش مولانا صوفی محمد اول قادری رضوی سنبھلی ۳۰۴)
اس اقتباس سے احمد رضا خاں کی شخصیت کا جو پہلوابھرتا ہے وہ یہی ہے کہ وہ ہر وقت حبیب خدا کی یاد میں ڈوبے ہی نہیں رہتے تھے بلکہ سرشار رہتے تھے۔ ان کے دیدہ و دل قلب وجگر اور جان و روح پر کوئی نقش چڑھتا تھا تو وہ صرف اور صرف محبوب خدا کا جلوہ صد رنگ ہوتا تھا جس کا ثبوت ان کا یہ سلامیہ قصیدہ ہے۔ اس کی پرکیف فضا میں زبان کی سادگی ، الفاظ کی روانی ، جذ بات کی سچائی ، زور خیال کی صفائی اور لہجے کے دھیمے پن نے چار چاند لگائے ہیں۔ تبر کاً یہ قطعہ بند ملاحظہ فرمائیں:
کاش محشر میں جب ان کی آمد ہو اور
بھیجیں سب ان کی شوکت پہ لاکھوں سلام
مجھ سے خدمت کے قدسی کہیں ہاں رضاؔ
مصطفیٰ جان رحمت پہ لاکھوں سلام
امام احمد رضا خاں نے اپنی شاعری میں حمد ، مناجات ، نعت اور منقبت کے سوا کسی اور موضوع کونہیں چھوا ہے ان موضوعات کی پیش کش کے لئے انہوں نے غزل قصیدہ ،ر باعی اور قطعہ کی ہئیت کا استعمال کیا ہے اور ہر ہئیت کے فنی لوازمات کومکمل طور پر برت کر اپنے آپ کو ایک منفردشاعر کی حیثیت سے پیش کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔
مندرجہ بالا تمام تفصیلات کا حاصل یہ ہے کہ احمد رضا خاں ایک ہمہ جہت شخصیت تھے۔ ان کی تبحرعلمی نے ان کے لئے ہر میدان کا سپہ سالار بننے کا راہ ہموار کیا۔ وہ جس میدان میں داخل ہوئے پورے آب و تاب کے ساتھ داخل ہوئے اور اس کا رزار پراپنی چھاپ اتنی گہری چھوڑی کہ اس کا نقش بھی دھندلا نہیں ہوسکتا کیونکہ اس میں ان کے خلوص اور جذبے کا دخل ہے اور جذبۂ صادق جب شعرو نغمہ بن کر پھوٹتا ہے تو بقول اقبال:
آہ جو دل سے نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
کا مصدق بن جاتا ہے جس سے اس کی انفرادیت قائم ہوجاتی ہے۔ میں اپنی بات سید امین اشرف کے اس قول سے ختم کرتا ہوں کہ:
’’ شاعری جذبات کے بھر پور اظہار کا ایک مؤثر وسیلہ ہے۔ ملٹن کی شاعری وسیلہ تھی غنایت کی ترویج و تبلیغ کا۔ حالی نے شاعری کو استعمال کیا سوئی ہوئی قوم کو غفلت سے جگانے کے لئے اور اقبال کے لئے شاعری وسیلہ تھی خودی کی روح پھونک کر مور بے پایہ کوعقاب کھستانی بنادینا۔ اعلیٰ حضرت کے سامنے مشن یہ تھا کہ ملت اسلامیہ کے سینوں کو عشق محمدی کی آتشیں سوزوں سے معمور کرلیا جائے ۔ ‘‘
( المیزان امام احمد رضانمبر۵۶۲)
٭٭٭
کتابیات
۱۔ حدائق بخشش مولانا احمد رضا خاں بریلوی قادری بک ڈپو نومحلہ مسجد بریلی ۱۴۰۳ھ
۲۔ حیات مولانا احمد رضا خاں بریلوی پروفیسر مسعود احمد ادارۂ تحقیقات امام احمد رضا کراچی ۱۹۹۹ھ
۳۔ دبستان رضا امام احمد رضا ارباب علم و دانش کی نظر میں یٰس اختر مصباحی رضوی کتاب گھر، دہلی طبع پنجم ۱۹۹۵ء
۴۔ سخن رضا مطلب ہائے حدائق بخشش مولانا صوفی محمد اول قادری رضوی سنبھلی فاروقیہ بک ڈپو دہلی ۱۴۱۲ھ
۵۔ کلام رضا کا تحقیقی و ادبی جائزہ شمس بریلوی اسلامک پبلشر دہلی
۶۔ ماہنامہ قاری المیزان کا امام احمد رضا نمبر مٹیا محل دہلی ۱۹۸۹ء
۷۔ معارف رضا شمارہ نمبر ۱۹ ادارہ تحقیقات امام احمد رضا پاکستان ۱۹۹۹ء
۸۔ معارف رضا شمارہ نمبر ۲۴ ادارہ تحقیقات امام احمد رضاانٹرنیشنل پاکستان ۲۰۰۴ء
***
***