اداریہ
ترجیحات کا تیسرا شمارہ آپ کے ہاتھوں میں ہے ۔ مقام شکر ہے کہ یہ برقی رسالہ اپنے طے شدہ مقاصد کی تکمیل میں سرگرم عمل ہے اور تیزی سے منزل کی طرف گامزن ہے۔یہ مہینہ اکتوبرہندوستانی کلچر اور معاشرہ کے دوبطل جلیل اور بااثر شخصیات مہاتماگاندھی اور سرسید کے سبب یادگار ہے۔ ۲اکتوبر گاندھی جینتی اور ۱۷ اکتوبرسرسید کا یوم پیدایش ہے۔اس موقع پر پورے ملک میں نہ صرف ان کے کارناموں کو یاد کیا ہے، تقاریب اور جشن کا اہتمام ہوتا ہے بلکہ ان کے اسوہ کی تجدید اور ان کی تعلیمات کا آموختہ بھی پڑھا جاتا ہے۔ گاندھی جی ہندوستانی سماج کا ضمیر ہیں۔ان کی شخصیت کے آئینے میں ہندوستان کی جدوجہدآزادی اور انسانی توقیر کے واضح نقوش دیکھے جاسکتے ہیں، جن کی لائق قیادت میں ملک کی آزادی کا خواب دیکھا گیا۔ برطانوی استعماریت کا سامنا کرناآسان کام نہ تھا اور نہ ہی ان کے آہنی پنجے سے ملک کی آزادی کا حصول ہی سہل تھا۔کیونکہ ہندوستانیوں کے پاس نہ وسائل تھے، نہ تعلیم تھی اور نہ ہی حاکم وقت جیسا حوصلہ۔ تاہم گاندھی جی نے اپنی غیر معمولی حکمت عملی سے غاصب برطانوی سامراج کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔ یہ آزادی ان کے ” فلسفہ عدم تشدد” کی راہ سے حاصل ہوئی۔لہذاعدم تشدد کا گاندھیائی تصور کمزوری کا کنایہ نہیں بلکہ صلابت فکری اور قوت عمل کا اعلامیہ ہے۔ گاندھی کا یہ فلسفہ سفیر انسانیت بن کر ساری دنیا میں ہندوستان کی روادارطبیعت کی سفارت کا فریضہ انجام دیتا ہے اوراسے تہذیب عالم کی تاریخ میں ہندوستان کا عظیم فکری عطیہ تصور کیا جاتا ہے، جس پر ہمیں بحیثیت ہندوستانی بجاطور پر ناز ہے۔
تعلیمی محاذ پر سرسید کی بامعنی شخصیت بڑی کارآمد اور دل پزیر رہی ہے۔بلکہ وسیع کینوس پر فکری حوالے کی ہے۔ سرسید بھی گاندھی جی کی طرح ہندوستان کی مشترکہ قومیت اور ہندو اورمسلم ایکتا کے علم برداررہے ہیں۔ یہ دونوں طبقے سرسید کی دو آنکھیں تھیں ، جن کی سلامتی کے لیے انھوں نے اپنی پوری زندگی وقف کردی۔عصری تعلیم ان کی تگ و دو کا مرکزی نکتہ تھا۔وہ اپنے وقت کے عظیم مصلح اور معمار قوم تھے۔علی گڑھ تحریک ان کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔یہ علمی اور ادبی تحریک ہے، جس تحریک کے زیر اثرفکر و نظر کی دنیا میں اہم انقلاب رونما ہوا۔ نثر و نظم کی دنیا بدلی اور علمی اور استدلالی نثر کے ساتھ شعر و سخن وری میں فطری جذبات و احساسات نے قدم جمائے۔ اصلاحی عمل سے گزرکر آج ہماری زبان میں علم و آگہی کے سیکڑوں مضامین اور خطیر سرمایہ موجود ہیں اور یہ زبان دنیا کی بڑی زبانوں کی صف میں جگہ پارہی ہے۔ زبان کا تہذیبی پھیلاؤ ترجیحات کا اولین مقصد ہے۔ اسی لیے مہجری ادب ، ادبا اور برقی میڈیم کی توسط سے ہم دنیا میں اردو کی آواز اور شناخت کو عام کرنا چاہتے ہیں۔ ترجیحات میں آپ کی شراکت اور سرگرم شمولیت ہمارے بسیط خواب کی تعبیر ہے۔
علمی اور ادبی مشمولات سے مزین ترجیحات کا یہ شمارہ اردو غزل ، اردو نظم، نسائی حسیت،مہجری ادب اور ان کی سرگرمیاں، مولانا حالی اور پروفیسر نذیر احمدکے حوالے سے غالب اور ایبک،درس و تدریس جیسے قیمت مضامین اور مقالات پر مبنی ہے۔ ان صحت مند ادبی و علمی مباحث کے ذریعے مذاق سلیم کی آبیاری ہمارا اولین مقصد ہے ۔ اردو کی تہذیبی قدریں اس سے جدا نہیں ۔
خواجہ محمد اکرام الدین
(مدیر اعلیٰ )