You are currently viewing اداریہ

اداریہ

نومبر ۲۰۲۱

اداریہ

ترجیحات اسم بامسمی ہے۔ مہذب معاشرت اپنی ترجیحات کے سبب پہچانی جاتی ہے ۔ علمی اور ادبی معاملات میں اس کی حساسیت دوچند ہوجاتی ہے۔ اسی لیے جریدہ کے تصور کو ترجیحات سے تعبیر کیا جانا طے پایا کہ یہ ولڈ اردو ایسوسی ایشن کے منشور  کا نہ صرف ترجمان ہے بلکہ ترجیحاتی بنیادوں پر یہ اپنے وقت کے لٹریری، علمی و ثقافتی اورمعاصرا ذہان وا فکار سے وابستہ سرگرمیوں کا علم بردار بھی ہے۔ گو کہ   اپنی  اشاعت کے ابتدائی  مراحل   میں یہ اپنی شناخت اور شبیہ  کی پیش کش میں قدرے محتاط ہے  اور یہی غایت احتیاط اس کے ترجیحاتی تعین قدر کا بھی کنایہ ہے۔ چنانچہ متمول اورصحت مند ادبی قدروں کی بازیافت، اس کی مبادیات اورمقاصد کا حصہ ہیں۔ یہیں سے اس کے افادی پہلو کا اشارہ بھی ملتا ہے۔ روشن خیالی کے نام پر اقدار عالیہ نے جس قدر چوٹ کھائی ہے اور اس کے فیض رساں قدروں  کوفطری اور انسانی رویوں   کی تہذیب سے دور رکھ کر دیکھنے کا جو وطیرہ اپنایاگیا ، وہ لمحہ فکریہ ہے۔

سرسید کے یوم پیدایش ۱۷اکتوبرکے زریں موقع کے حوالے سے   ادب و ثقافت کے شعبے میں افادیت پسندی سے متعلق ہماری ترجیحات کی تجدید ہواچاہتی ہے کہ علی گڑھ تحریک نے ہمارے ادبی سرمایے کو حشو و زاید سے پاک کیا بلکہ اس کے راست منشا کی نشاندہی بھی کی۔بعد میں یہی  روش  ادب کا صحت مند منشا قرارپائی۔ عبارت آرائی اور ادبی    بوہیم ازم سے نکل کر ادب کو آج بھی  ایک شفاف اور راحت بخش تحریک  کی تلاش ہے، جو ادب کی رہنمائی کا فریضہ انجام دے ۔سرسید کی  روشن تحریک برصغیر پاک و ہند میں اپنے اسی اقداری سیاق میں علی العموم  ہندوستانیوں  اور بالخصوص مسلمانان ہند کا فکری حوالہ ہے۔  فکر کے اس سرچشمے کی بازیافت اور اس کی تجدید ہمارا اہم مقصد ہے۔  علم و ادب  اور تعلیم کا یہ وہی انقلابی سبق ہے، جس کے نمایندے مشرقی ادب میں سنائی، عطار اور مولانا رومی سے لے کر خسرو، حافظ، بیدل، بالمیکی، وید ویاس اور بھرتری ہری سے لے کر کبیر، میرا، بلھے شاہ اور لطیف شاہ رہے ہیں۔سبھی گہوارہ مذہب و اخلاق کے پروردہ اور امین تھے۔ اسی طرح علم و وجدان کے سبھی شعبوں کے مانند عالمی ادب کا پورا منظرنامہ عہد عتیق سے ہی مذہبی اقدار و روایات  سے قوت کشید کرتا رہا ہے۔ اردو ادب کی موقر شخصیات سرسید، اور ان کی لایق جماعت کے بیشتر احباب کا تعلق بھی آگہی کے  اسی روشن  اقدار فکر سے  رہا ہے؛یہ وہ ناگزیر ادبا اور معلم ادب ہیں جن کے بغیر ادب کی عمارت آدھی ادھوری ہی سمجھی جاتی ہے۔ اردو ادب کا کوئی منظرنامہ سرسید، حالی، شبلی کے بغیر نامکمل ہے  تاہم ادھر زائد از ڈیڑھ صدی میں انھیں نہ صرف درکنار کیا گیا بلکہ روشن خیالی کے نام پر دہریت نے وہ تماشا کھڑاکیا کہ متذکرہ روش کو علمی مباحثوں اور مجالس میں شجر ممنوعہ قراردئے جانے کا عام فیشن بھی اپنایا گیا۔پھر بہ آسانی اسی راہ سے ادب کے نام پر اباحیت کی دراندازی شروع ہوئی ۔ آج عالم یہ ہے کہ ادبی حلقوں  میں ادب عالیہ کا نام لینا دشوار ہے،  اقداری  ادب کے نام ہی سے ازکاررفتہ ، روشن فکری اور ترقی پسندی سے گریزاں  خیال  کرلیاجاتا ہے۔عالمی سطح پر ادب کے زوال کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ تعمیر پسنداقدار حلقوں  نے روشن فکری کے نام پر غیر صحت مند ادبی رویوں کے سامنے خود کو بصورت چیلنج پیش نہیں کیا۔ ایسے میں اب ہر سالم ذہن کی ذمے داری ہے کہ وہ صالح ادب کی پاسداری کے لیے کمربستہ ہو اور ذہنی طور پر خود کو کم ترخیال نہ کریں۔ترجیحات ادب کے انہی متین اور فطری افکار و خیالات کی بازیافت کا نام ہے۔

ترجیحات کا تازہ شمارہ  ادب کے متنوع الوان کا مجموعہ ہے۔ اس میں نثر اور جہان شعرو سخن وری پر مقالہ اور مباحث کو نمایاں جگہ دی گئی ہے۔    اس کی ابتدا ”اردو کی نعتیہ شاعری میں شاعرات کا حصّہ” سے ہوتی ہے۔ماہ  ربیع الاول  کے تناظر میں اس کی اہمیت کو سمجھنا چنداں دشوار نہیں۔ ڈاکٹر  نزہت  عباسی ، پاکستان، نے بڑے سلیقے سے نعتیہ صنف سخن وری میں طبقہ اناث کی کارگزاریوں سے بحث کی ہے۔ نعت  بنیادی اعتبار سے تقدس اور احترام کا فن ہے ، جس میں اردو زبان نے عربی اور فارسی کے بعد نمایاں کامیابی حاصل کی ہے۔ شعر و سخن وری کے ضمن میں  ڈاکٹرشاہ جہاں بیگم گوہرؔ نے ‘  ‘علامہ اقبالؔ اور احمد شوقی کے کلام میں مماثلت” کی تلاش کی ہے اور اپنے عہد کے دو ناگزیر شعرا کے فکری قرابت  اور فنی مماثلتوں  کا جائزہ لیا ہے۔اقبال شاعر مشرق ہیں تو شوقی مصر کا قومی شاعر؛ دونوں جہاں دیدہ،  مغرب کے افکار سے آگاہ اور مشرق کے داد خواہ،دونوں  نے حقیقت حال کے ترجمانی کی ہے اور مغرب کی فکری کج رویوں کے شاکی رہے ہیں ۔ یہ مقالہ خوب ہے اور قابل مطالعہ بھی۔نئی غزل کے موسسین میں بشیر بدر کا نام اور مقام بہت ارفع ہے۔ علیزےنجف کا مقالہ   “شعری افق کا ایک تابناک ستارہ ۔۔ بشیر بدر”ڈاکٹر بدر سے ہمیں متعارف کراتا ہے اور ان کے شعری نظام اور تلازمات کی نئی بنت اور معنیات پر بھی ہمیں متوجہ  کرتا ہے۔ مقتدا حسن ندا فاضلی ہمارے عہد کے ایک نامچیں شاعرہیں۔ان کی شاعری انسانی بالخصوص مشرقی تہذیب کی علم بردار ہے۔ ڈاکٹرشیخ ریحانہ بیگم نے  “نداؔفاضلی کی شاعری میں تہذیبی حوالے” سے عمدہ بحث کی ہے اورانھیں بجا طور پر  ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کا ادبی سفیربتایا ہے۔ فاضلی نے ساری دنیا میں ہندوستان کی مٹی کی خوشبو پھیلائی ہے ۔ ان کی شاعری ارتباطِ باہمی اور ہندوستان کی رودار رنگا رنگ کلچر کی نیابت کرتی ہے۔ زبان اور لسانیات کے زمرے میں ڈاکٹر محمد صادق شاہ کا مقالہ   “اردو اور گوجری کے لسانی اشتراکات اور ڈاکٹر محمد احمد نعیمی کا مقالہ ” دیوانِ نوری میں ہندی، ہندوستانی اور علاقائی زبانوں کا استعمال” خوب ہے۔  ان پر مستزاد اس شمارہ میں  ادب اطفال، ترجمہ، نثر نگاری، اسلوبیاتی مطالعہ،  تجزیہ و توضیح ، فکشن مطالعہ،  جدید تنقیدی تناظر میں مغرب اور مشرق کی تانیثیت ، تلاش و تحقیق  اور جہان تنقید سے متعلق مقالات و مطالعات    کی پیش کش کو یقینی بنایا گیا ہے۔

فکشن کے تحت چار افسانے شامل ہیں۔ افسانوں میں ایک آئینہ زیست، اندھیروں سے اُجالوں تک، بلیک فنگس ، شطرنج کی بازی جو باالترتیب پروین شیر، ناہید طاہر، شیبا کوثر، رمّانہ تبسم نے خلق کئے ہیں۔ یہ سارے افسانے جدید زندگی اور عصری نظام حیات کی تفہیم کراتے ہیں۔ شعری حصے میں حمد باری تعالیٰ، کارو بار نفس  کو جگہ دی گئی ہے۔

ترجیحات کے مشمولات پر نظر ڈالتے ہی اندازہ ہوتا ہے کہ  تنقید و تجزیہ کے ساتھ تخلیق پر بھی ہماری نظر ہے۔ اور ہم شعر و نثر دونوں زمروں میں  کی تخلیقات سے قاری کو روبرو کرانا چاہتے ہیں۔ نسل نو کی نمایندگی کے ساتھ  طبقہ نسواں کی حصہ داری کا بھی خاصا اہتمام کیا گیا ہے۔ علم و ادب کی دنیا میں ان دونوں طبقات کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے۔ امید قوی ہے کہ ہمارے  ترجیحاتی اقدامات آپ کے ذوق طبع کی تسکین کا بھرپور سامان کریں گے  ۔ ہمیں رسالے کے مندرجات پر آپ کی آرا کا انتظار رہے گا۔

 نومبر ۲۰۲۱                                                                         پروفیسر خواجہ محمد ااکرا م الدین

نئی دہلی                                                                                    مدیر اعلیٰ ترجیحات

فہرست  مضامین

  1. اداریہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خواجہ محمد اکرام الدین
  2. ہیئت و مواد کے رشتے کی وضاحت                 ۔۔۔۔۔۔۔                  ڈاکٹر محمد نورالحق
  3. اردو کی نعتیہ شاعری میں شاعرات کا حصّہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر  نزہت  عباسی
  4. گردش ِ رنگ چمن” کا اُسلوبیاتی مطالعہ: معنیاتی تناظرات۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر عامر سہیل
  5. منشا یاد کے افسانوں میں تہذیبی عناصر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صائمہ اقبال، سعدیہ منیر
  6. اردو اور گوجری کے لسانی اشتراکات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر محمد صادق شاہ
  7. دیوانِ نوری میں ہندی، ہندوستانی اور علاقائی زبانوں کا استعمال۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر محمد احمد نعیمی
  8. ابوالکلام آزاد کا طرزِ نگارش نثری ادب کا عظیم شاہکار۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر منور حسن کمال
  9. اسپ کِشت مات ۔۔حقیقت اور علامت کا امتزاج۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کرن اسلم
  10. علامہ اقبالؔ اور احمد شوخی کے کلام میں مماثلت۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹرشاہ جہاں بیگم گوہرؔ
  11. نداؔفاضلی کی شاعری میں تہذیبی حوالے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹرشیخ ریحانہ بیگم
  12. مشرقی ومغربی تانیثیت :جدید تنقیدی تناظرات۔۔۔۔۔۔۔۔غوثیہ سلطانہ نوری ،شکاگو امریکہ
  13. ڈاکٹر جمیل جالبی بطور مترجم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زیبا گلزار
  14. سید نذیر نیازی:ایک تعارف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ افشانہ نذیر،ڈاکڑ مشتاق احمد گنائی
  15. شعری افق کا ایک تابناک ستارہ ۔۔ بشیر بدر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔علیزےنجف
  16. فارسی ادب میں نعمت علی خان عالیؔ کی خدمات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر سید محمدجواد
  17. درخشاں باب ” تحریک ریشمی رومال”۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شہزاد علی
  18. 18اخبار ’الجمیعتہ‘ کے دو اہم نام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ساجد علی
  19. پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی ۔بچّوں کے ادیب۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر ترنم
  20. اردو کی نئی بستیوں میں فکشن نگار طارق محمود مرزا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر رفعت جمال
  21. یاخدا:ایک تجزیاتی مطالعہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محمد طارق
  22. ڈاکٹر الطاف انجم کی کتاب” اردو میں ما بعد جدید تنقید   (اطلاقی مثالیں، مسائل و ممکنات)”  : ایک تعارف۔۔۔۔۔۔۔ محمد باقر حسین
  23. “لوگ در لوگ” ایک جائزہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کومل شہزادی

 افسانے

  • ایک آئینہ زیست ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پروین شیر
  • اندھیروں سے اُجالوں تک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ناہید طاہر

26.بلیک فنگس ” (افسانہ  )۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شیبا کوثر

27.شطرنج کی بازی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رمّانہ تبسم

  شعری تخلیق

28.حمد باری تعالیٰ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شوکت محمود شوکتؔ

.29کارو بار نفس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پروین شیر

This Post Has One Comment

  1. خالدحیدر

    بہت خوب بہت مبارکباد
    خدا آپ کے خلوص کو قبول فرمائے ابھی تو صرف اداریہ ہی پڑھ سکا ہوں آپ نے واضح اور دو ٹوک انداز میں رسالے کا موقف ظاہر کر دیا ہے جس سے قارئین اور قلمکاروں کو اس رسالہ سے اپنے تعلقات کو کس طرح استوار کرنا ہے یا نہیں کرنا ہے
    اس اداریہ میں بس دو الفاظ کھٹک رے
    ہیں اگرچہ آج کی صحافتی دنیا میں یہ معروف ہو چکے ہیں لیکن میرے خیال میں ادبی رسالے میں اس قسم کے الفاظ سے ہمیں نہ صرف پرہیز کرنا چاہیے بلکہ اسے درست کرنے کی کوشش بھی کرنا چاہیے۔
    اپنی اس پر خلوص کاوش پر ایک بار پھر مبارکباد قبول فرمائیں ۔
    آپ کا
    خالد حیدر

Leave a Reply