خواجہ کوثر حیات
اورنگ آباد (دکن) بھارت
ادبِ اطفال، درسی شعریات اور حسنین عاقبؔ
جب ہم ادب اطفال کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم ادب کی ابتدائی اور بنیادی شکل کے بارے میں گفتگو کررہے ہیں۔وہ ادب جو بچوں کی ذہنی و جسمانی صلاحیتوں کو جلا بخشے، ان کی اخلاقی تربیت کرے اور ان میں اعلی اقدار و سائنسی نکتہ نظر پروان چڑھائے، وہی آج کے زمانے کا ادب برائے اطفال ہے پھر چاہے وہ ادب نثری قالب میں ہو یا شعری ہیئت میں۔ ادب برائے اطفال کی سب سے اہم ضرورت یہ ہے کہ یہ سلیس،سادہ اور عام فہم زبان میں تخلیق کیا جائے اور یہ طفل مرکوز ہو۔
بچوں کے ادب کے تدریجی ارتقا کا مطالعہ کرتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں کہ موجودہ زمانے میں ادب اطفال سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ اس میںروایتی اور مافوق الفطرت موضوعات سے زیادہ موبائل، کمپیوٹر، لیپ ٹاپ سے، سائنسی تعلیم کی اہمیت، سائنسی معلومات اور سائنسی ایجادات کے بارے میں معلومات سے پر کہانیاں تخلیق ہوں تو بچوں کو جدید علوم و فنون سے ہم آہنگ کرنے میں آسانی ہو گی۔
آج کا بچہ سائنسی ترقی سے اس قدر مانوس ہوچکا ہے کہ محض ایک بٹن دباکر ہزاروں کاموں کو انجام دیتے ہوئے دیکھ رہا ہے اور اسے ملٹی ٹاسکنگ سے بھلی بھانتی واقف ہے تو بھلا اس کے پاس پریوں اور دیو ہیکل جن کی کیا اہمیت! حالانکہ پریوں اور جنوں کی کہانیاں نیز دیگر مافوق الفطرت واقعات بچوں کی قوت متخیّلہ کو پروان چڑھانے کا فریضہ ادا کرتے ہیں۔بہرحال قدیم زمانے سے لیکر آج تک بچوں کے لئے بہت کچھ لکھا جارہا ہے۔ مائل خیر آبادی، شفیع الدین نیرؔ ، ڈاکٹر ذاکر حسین، پریم چند،کرشن چندر، عصمت چغتائی، قرۃ العین حیدر اور صالحہ عابد کی لکھی اخلاقی کہانیوں کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے ۔
ہر زبان و ادب میں بچوں کے ادب پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ بے شمار رسالے اور جرائد بھی شائع ہوتے ہیں. بہرحال قدیم زمانے سے لیکر آج بھی بچوں کے لئے بہت کچھ لکھا جارہا ہے۔ہم اگر نثری میدان پر بات کریں تو سرسید احمد خان،ڈپٹی نذیر احمد، علامہ اقبال جیسے مفکرین نے بچوں کے ادب کی آبیاری کی ہے وہی اردو ادب میں ادب اطفال کے نمائندہ شعراء کو لیا جائے تو امیر خسرو، میر تقی میر،سودا، چکبست، مولانا اسماعیل میرٹھی، اکبر الہ آبادی،شفیع الدین نیر جیسے بلند پایہ بچوں کے شعراء کی خدمات کا اعتراف بچوں کے ادب کا خالق کے طور پر کیا جاتا ہے۔ان تمام نے بچوں کے ادب کی آبیاری کی ہے۔بطور مثال مولانا اسمٰعیل میرٹھی کی ایک نظم ملاحظہ فرمائیں:
پن چکی
پیسنے میں لگی نہیں کچھ دیر
تو نے جھٹ پٹ لگا دیا اک ڈھیر
لوگ لے جائیں گے سمیٹ سمیٹ
تیرا آٹا بھرے گا کتنے پیٹ
بھر کے لاتے ہیں گاڑیوں میں اناج
شہر کے شہر ہیں ترے محتاج
تو بڑے کام کی ہے اے چکی!
بچوں کے ایک اور شاعر شوکت پردیسی کی ایک نظم دیکھیں۔
علم اسے کہتے ہیں جہاں میں
عظمت جس کی کون و مکاں میں
علم ہے دنیا کی سچائی
دور ہوئی ہے اس سے برائی
بچوں کے ادب کے موضوعات میں وسعت و تنوع وقت کا تقاضہ ہے ۔آج کے بچے ذہین، متجسس، بے باک اور نئی جہتوں کو سمجھنے اور جاننے کے متلاشی ہیں۔اس لئے ادب اطفال تخلیق کرنے والے قلمکاروں کے لیے قدیم و جدید سائنسی معلومات،ایجادات،ماحولیات، ارضیات، فلکیات کو ادب میں شامل کرنا ضرورت بن گیا ہے۔ اور ادب اطفال کی اس ضرورت کو نہایت خلاقانہ انداز میں پورا کرنے کا کام کررہے ہیں معروف شاعرحسنین عاقب جو ادیب، محقق،تنقید نگار اور ماہر لسانیات و تدریسات ہیں۔وہ خود ایک معلم ہیں اور شاعر بھی ہیں اس لیے بچوں کے لیے لکھی گئی ان کی نظموں میں آپ کو ایک ماہر معلم اور فطری شاعر دکھائی دیتا ہے۔حسنین عاقبؔ موجودہ زمانے کے شاعر ہیں اس لیے انہیں بچوں کی شاعری تخلیق کرتے وقت وہ نئے زمانے کے تقاضوں اور بچوں کے لیے نئے موضوعات کی ضرورت کو بالکل نظر انداز نہیں کرتے۔ انہوں نے بچوں کے لیے نظمیں تخلیق کرتے وقت اس بات کا خصوصی خیال رکھا کہ جو درسی مواد بچے اپنی نصابی کتابوں میں پڑھتے ہیں ، آسان اور سہل زبان میں نظموں کی شکل میں اس کی وضاحت اور تشریح نہایت دلچسپ انداز میں کی جائے۔ انہوں نے نئی ٹکنالوجی مثلاً کمپیوٹر اور موبائل کو اپنی شعری تخلیقات کا موضوع تو بنایا ہی ہے لیکن جغرافیہ کے مشکل تصورات مثلاً مدوجزر اور شہابِ ثاقب اور ماحولیات کا ایک برننگ ایشو یعنی اوزون وغیرہ پر نہایت پرتاثیر اور دلچسپ انداز میں روشنی ڈالی ہے۔
ان کی نظم شہاب ثاقب جغرافیائی پس منظر میں بچوں کے لئے لکھی گئی ایک نہایت خوبصورت اور سلیس انداز میں ایک مشکل درسی نکتے کو پیش کرتی ہے۔ نظم کے کچھ اشعار ملاحظہ فرمائیں۔
کیا منظر ہے، کیا ہے نظارہ
جیسے جھلمل گو ٹ کنارا
یہاں آسمان ، نظامِ شمسی ، آسمان پر چمکتے تاروںاورکہکشائوں کے لیے ’جھلمل گوٹ کنارا‘ جیسا ایک نہایت خوبصورت شعری استعارہ استعمال کرنا حسنین عاقبؔ کی بچوں کی نفسیات کی گہری سمجھ کو ظاہر کرتا ہے۔
بچپن میں ہم آسمان کو ستاروں بھرا جھلملاتا چھت سمجھ لیتے ہیں اور جب بھی ہم پچپن میں آسمان کی طرف دیکھتے تو چمکتے سورج کی گرمی سے بچنے کی کوشش کرتے اور رات ہونے پر ٹکٹکی باندھے چاند کو نہارتے رہتے بس یہی تعلق اور شناسائی تھی ہماری آسمان سے مگر حسنین عاقب نے آج کے بچوں کی جہت کو سمجھ کر نظم کے ذریعہ واضح کیا ہے کہ آسمان میں نظام شمسی کے علاوہ جو ذرات اور ٹکڑے سیاروں کے گرد گردش کرتے ہیں وہ شہاب ثاقب ہے۔نظم یوں آگے بڑھتی ہے۔
اٹھی نظر جو فلک کی جانب
نظر وہ آیا شہاب ثاقب
چلیے اس کا راز بتائیں
سائنس کی پرواز بتائیں
لگتے ہیں جو ہم کو تارے
اصل میں ہیں چٹانی ٹکڑے
ایسے شہابی اک پتھر کے
زمیں پہ آکر گر جانے سے
جھیل بنی لونار کی اپنی
دنیا بھر میں شہرت جس کی
اس نظم میں شاعر بچوں کے تجسس کو برقرار رکھتے ہوئے نظام شمسی سے شہاب ثاقب کے گرنے سے لیکر ان کی چٹانی صورت کو واضح کرتے ہوئے ان کے گرنے سے وقوع پذیر لونار جھیل کے بننے کو خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔
یہ شہاب ثاقب جب زمین پر گرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ چٹانوں کے ٹکڑے ہوتے ہیں ساتھ ہی شہاب ثاقب گرنے سے ہمارے ملک میں مشہور لونار جھیل کے وقوع پذیر ہونے کو نظم میں پیش کرتے ہیں یہ غیر مرئی طور پر بچوں کے تحت الشعور میں جغرافیائی نکتہ نظر پیدا کرنے کا دلچسپ اور منفرد انداز ہے۔چونکہ حسنین عاقب بنیادی طور پر مدرس ہیں۔ درس و تدریس اور بچے ان کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔اسی لئے وہ بچوں کی نفسیات، عادات و اطوار اور ان کی جبلت سے خوب واقف ہیں۔
عموماًبچے جغرافیہ مضمون کو انتہائی خشک مانتے ہیں۔مگر حسنین عاقب جو نہ صرف بچوں کے استاد ہیں بلکہ اساتذہ کی بھی عمدہ تربیت کرتے رہتے ہیں بھلا اپنے مضمون جغرافیہ کو کہاں خشک رہنے دیتے۔ آپ کی نظموں کا خاصہ ہے کہ معلومات کو دلچسپ انداز میں کھیل کھیل میں پیش کرتے ہیں تاکہ بچوں کے لئے عام فہم اور مرغوب بھی بن جائے اور ان کی معلومات میں خاطر خواہ اضافہ بھی ہو جائے۔
’اماں باجی کہتی ہے چاند میں پریاں رہتی ہیں‘
یا پھر
’چاند میں ایک بڑھیا بیٹھی چرخہ چلاتی ہیں‘۔
اس طرح کی نظمیں اگر نسل نو کے بچوں کو ہم سنا دیں تو وہ ہم سے اس کی دلیل مانگیں گے۔
آج انٹرنیٹ کی دنیا نے ساری حقیقتوں کو واضح اور قریب تر کر دیا ہے اسی لیے
حسنین عاقب نے جغرافیہ کاایک اور اہم درسی نکتہ مدوجزر جیسے مشکل عنوان کو سمجھانے کا خوب طریقہ نکالا۔وہ اشعار کے قالب میں معلومات کا خزانہ انڈیل کر بچوں کے سامنے یوں پیش کرتے ہیں۔
نظم مدوجزر کے چند اشعار ؎
مدوجزر ہے مدوجزر ہے
چاند کا اس پر سیدھا اثر ہے
خوب کرشمہ قدرت کا ہے
یہ سر چشمہ حکمت کا ہے؎
دونوں اشعار میں شعری چاشنی بھی ہے اور تدریسی مہارت بھی۔ اگلا شعر کس قدر خوبصورت ہے، ذرا دیکھئے۔
مد کے معنی چڑھنے کے ہے
سطح سمندر بڑھنے کے ہے
شعر میں ایسی خوبی ہے کہ بہ آسانی یہ شعر بچوں کی زبان پر چڑھ جائے گا اور پھر اس ایک شعر میں ہی مد کی مکمل تشریح اور وضاحت بھی موجود ہے۔ یعنی ’مد‘ کے معنی اور اس کی وضاحت سمجھنے کے لیے کسی دوسرے شعر کی محتاجی محسوس نہیں ہوتی۔
چاند کی جانب آب سمندر
کھنچ جائے تو’ مد‘ ہو ظاہر
سطح آب جو نیچے اترے
جزر ہم اس کو ہم ہیں کہتے
چاند زمین کی محوری گردش
سورج کی اور چاند کی کاوش
حسنین عاقب اس نظم کے ذریعہ بچوں کو واضح کرتے ہیں کہ چاند زمین کی سطح پر موجود پانی کو متاثر کرتا ہے اور سمندر کے مدو جزر چاند کی کشش کے باعث ہی پیدا ہوتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اپنی نظم میں وہ وضاحت کرتے ہیں مدّ و جَزَر سے مراد چاند و سورج کی ثقلی قوتوں اور زمین کی گردش کے مجموعی اثرات کی وجہ سے سمندری سطح کا اُتار چڑھاؤ ہے۔ اِسے عام زبان میں جوار بھاٹا بھی کہا جاتا ہے۔تاکہ سمندر میں پیدا ہونے والے جوار بھاٹا کو بچے کوئی ناگہانی کیفیت نہ سمجھیں۔ اسی طرح شاعر اس نظم میں سورج اور چاند کی محوری گردش کو خوبصورتی سے پیش کرتا ہے۔
نظم میں ’مد‘ کے معنی چڑھنے کے ہیں۔وغیرہ جیسے مصرعے اور دیگر اشعار ایسے ہیں جن میں آپ کو بین المتونییت یعنی intertextuality ملتی ہے۔سائنس یا جغرافیہ کی بات کرتے ہوئے وہ دفعتاً زبان کا مواد لے آتے ہیں اور غیر محسوس طریقے سے طلبہ کو مد اور جزر کے معنی سمجھادیتے ہیں۔
آج ہم ٹکنالوجی کے بغیر زندگی کاتصور بھی نہیں کر سکتے۔نئی دور کی ٹیکنالوجی سے آگاہی اور اپنے بچوں کو دیے گئے آلات سے واقفیت بھی بے حد ضروری ہے۔اس ضمن میں بھی شعراء اور ادیب بچوں کے لئے فائدہ مند نظمیں و مضامین تحریر کررہے ہیں جس کی مدد سے آنے والے تکنیکی دور کے لیے مستقبل کے معماروں کو تیار کیا جاسکتا ہے۔انگریزی زبان میں کافی عرصے سے ٹکنالوجی اور سائنس کے مضامین پر بچوں کے لیے شعری تخلیقات رقم کرتے آرہے ہیں ۔ اردو میں یہ روایت اب بھی رواج میں نہیں آپائی ہے۔ ہمیں انگریزی زبان کے آسٹریلین شاعر کین نیسبیٹ کی یہ نظم ملاحظہ کرنی چاہیے جس میں ہمیں زبان اور ٹکنالوجی، دونوں کا مزہ ملتا ہے۔پوری نظم ایک بچے کی سیلفی لینے کی کوشش اور اس کوشش میں شامل اس کی جدوجہد ماہر نفسیات پاؤلو کی trial and error میتھڈ کی عکاسی کرتی نظر آتی ہے۔
خاص طور پر نظم کے آخر میں جو انگریزی محاورہ to break the Internet استعمال کیا گیا ہے وہ دلچسپی سے خالی نہیں۔یہاں انہوں نے اس محاورے کے لفظی معنی دے کر مزاح اور برجستگی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔
I tried to take a selfie
when I was all alone
ْ I never should have done it.
It broke my mobile phone.
I guess I’m not so pretty.
I thought that I was cuter.
I snapped one with my laptop
and busted the computer.
I cracked my father’s camera.
My mother’s iPad too.
This shouldn’t be so difficult.
I don’t know what to do.
At last I
got a selfie;
perhaps the worst one yet.
I posted it online today.
It broke the Internet.
— Kenn Nesbitt
گزشتہ صدی سے شعبۂ سائنس میں مسلسل حیران کن ترقی ہوتی جارہی ہے۔جس کی بدولت انسان کی زندگی آسان تر بن گئی ہے۔ وہیں ان ایجادات کا بے جا استعمال بنی نوع انسان کے لئے خطرناک ثابت ہورہا ہے۔ حسنین عاقب اپنی نظم اوزون میں بچوں کو واقف کرواتے ہیں کہ اوزون آکسیجن کی وہ شفاف تہہ ہے جو سورج کی خطرناک تابکار شعاعوں کو نہ صرف زمین کی طرف آنے سے روکتی ہے بلکہ زمین پر اس کے نقصان دہ اثرات کا خاتمہ بھی کرتی ہے۔ اوزون نظم کے کچھ اشعار پیش خدمت ہے ؎
بات پتے کی تمہیں سنائیں
کیا ہے یہ اوزون بتائیں
ہوائی کُرّے سے بس لگ کر
ایک پرت اوزون کی اوپر
مضر شعاعوں کو دھرتی ہے
سب کی حفاظت کرتی ہے
یہاں تک نظم کتنی آسانی اور فطری بے ساختگی کے ساتھ موضوع کو برتتی دکھائی دیتی ہے۔ خصوصی طور پر اس شعر کو دوبارہ دیکھئے۔
مضر شعاعوں کو دھرتی ہے
سب کی حفاظت کرتی ہے
اس شعر میں بھی زبان زدِ عام ہونے کی صلاحیت موجود ہے۔ اس کے بعد نظم اوزون کے سائنسی اور تکنیکی پہلوئوں کو نہایت اچھے طریقے سے واضح کرتی ہے۔
تیز دھواں اور سارے ایسڈ
کاربن اور یہ سب آکسائیڈ
پھر اپنی حد سے گزرنے ہیں
اوزون کو پتلا کرتے ہیں
اس تحفۂ انمول کو اپنے
صاف رکھیں ماحول کو اپنے
اپنی اس نظم میں وہ مزید کار آمد معلومات اور احتیاطی تدابیر اختصار سے سمجھاتے ہیں کہ آج انسانوں کے بنائے ہوئے مرکبات کی مہلک گیسیں اوزون کی تہہ کو متاثر کر رہی ہیں جس کی وجہ سے اوزون کی تہہ باریک ہورہی ہے۔اوزون کی تہہ میں شگاف پڑھنا زمین پر موجود جانداروں کی صحت کے لیے نہایت مضر ہے۔ اس سنگین مسئلہ کو ماہرانہ انداز میں اشعار کے ذریعہ سمجھایا گیا ہے تاکہ بچوں کو ابھی سے ان تکنیکی چیزوں کا اعتدال سے استعمال کرنا آجائیں۔۔ اس لئے اعلیٰ اخلاق کی تربیت، سائنس اور ٹکنالو جی کی بنیادی معلو مات کے ساتھ ساتھ بچوں کو نئی نئی چیزوں کو تعارف بچپن سے کروانے کا کام اپنی قلم سے حسنین عاقب نے خوب انجام دیا ہے۔ ان کی نظم کمپیوٹرایک ہلکا پھلکا تعارف ہے جس میں بچوں کی تفریح کی تفریح اور معلومات بھی۔
نظم کے دو اشعار ملاحظہ فرمائیں۔۔۔
ٹی وی جیسا دیکھنے والا
بنا کہے سب لکھنے والا
علم سے اس کا پیٹ بھرے گا
جو بھی کہہ دو پل بھر میں کرے گا
یہاں شاعر کمپیوٹر کے بیرونی روپ کی مثال دیتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ کمپیوٹر ٹی۔وی کی شکل کا ہوتا ہے۔ لیکن اس کے بعد کا مصرعہ نہایت اہم اور منفرد نوعیت کا ہے۔
بنا کہے سب لکھنے والا
یعنی کمپیوٹرپر لکھنے کے لیے آپ کو املا کروانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس مصرعے میں بہت سے پہلو چھپے ہوئے ہیں۔
اگلا مصرعہ دیکھئے۔
علم سے اس کا پیٹ بھرے گا
علم سے پیٹ بھرنے کا مطلب کیا ہوسکتا ہے؟
شاید شاعر کہنا چاہتا ہے کہ کمپیوٹر میں ہم جو فیڈ کرتے ہیں، دراصل وہی اس کا ’اِن پُٹ‘ علم ہوتا ہے۔ اور یہ اِن پُـٹ
جو بھی کہہ دو ، پل میں کرے گا
کی عملی تصویر بناتا ہے۔ چونکہ حسنین عاقبؔ بنیادی طور پر انگریزی کے مدرس ہیں اس لیے یہ مضمون ان کی توجہ سے بچ پانا ممکن نہیں تھا۔ یوں بھی وہ تیس سالوں سے انگریزی پڑھارہے ہیں ۔ اس لیے انہوں نے بہت عمدہ طریقے سے بچوں کو انگریزی کے ’پارٹس آف اسپیچ‘ ازبر کروانے اور ان سے متعارف کروانے کی کوشش کی ہے۔ اسی عنوان سے ان کی نظم دیکھئے۔
لکھیں اور بولیں گے انگریزی فرفر
مگر پہلے سیکھیں ہم اس کا گرامر
ہے لفظوں کی قِسموں پہ مبنی گرامر
بس اک کھیل سمجھیں ہم اس کو سراسر
یہاں انہوں نے گرامر کو ’ایک کھیل سراسر‘ کہہ کر انگریزی گرامر سے بچوں کے ڈر کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے آٹھوں پارٹس آف اسپیچ کو مزیدار انداز میں اردو شعر وں میں ڈھالا ہے کہ اردو میں بھی یہ اشعار بچوں کی زبان پر چڑھ جائیں۔ یہ نظم طویل ہے لیکن ہم محض چند زیادہ اہم اشعار ہی پیش کریں گے ۔
نائون:
ان الفاظ کی قِسم پہلی ہے نائون
رِور، مین، ٹیبل ہے، جس میں ہے ٹائون
پرونائون:
پرونائون آتا ہے پھر بعد اس کے
تعارف کو کرلو ذرا یاد اس کے
نہ ہی اہمیت میں نہ معنوں میں کچھ کم
جگہ پر یہ نائون کی آتا ہے ہردم
ایڈجیکٹیو:
فریش، ریڈ ، ہنڈریڈ ، نیو کہہ رہے ہیں
جسے آپ ایڈجیکٹیو کہہ رہے ہیں
یہ نائون کی تفصیل لاتا ہے باہر
صفت اور تعداد کرتا ہے ظاہر
ورب:
جسے فعل اردو میں کہتے ہیں ہم سب
وہی جاکے انگلش میں کہلاتا ہے ورب
ایڈورب:
اگر کوئی ایڈجیکٹیو کو لگائے
بس انگلش کے دوحرف ، ایل اور وائے
تو لفظوں میں اکثر وہ ایڈورب پائے
پڑھے خود بھی اور دوستوں کو پڑھائے
پری پوزیشن:
دکھاتا ہے یہ لفظ ، نائون کہاں ہے
مقام اس کا کیا ہے، یہ رہتا جہاں ہے
کن جنکشن:
ملائے یہ سب کو کسی کو چھوڑے
دو لفظوں، دو فقروں، دوجملوں کو جوڑے
انٹر جیکشن:
اب آخر میں ہے انٹر جکشن کی باری
کہ کرتا ہے احساسِ دل سے یہ یاری
نہیں ہیں ان الفاظ کے گرچہ معنی
مگر اہمیت ان کی ہم سب نے جانی
جیسے ہم نے پہلے ہی بتا یا ہے کہ یہ نظم ایک طویل نظم ہے جس میں ہم نے محض ایک یا دو اشعار کو ہی نمونے کے طو رپر پیش کیا ہے۔ لیکن یہ نمونے کے طور پر پیش کئے گئے اشعار کیا ادبِ اطفال تخلیق کرنے والے شعراء کو ترغیب اور تحریک نہیں دیں گے؟ یقینا دیں گے، ہمیں اس بات کا بھروسہ ہے۔
اس مقالے میں ہماری کوشش یہ ہے کہ ہم ادبِ اطفال میں منفرد شعری موضوعات کو آسانی اور فطری طریقے سے تخلیق کرنے والے شاعر حسنین عاقبؔ کی ان تخلیقی جہتوں سے شناسائی حاصل کریں جن کا تعلق صرف درسیاتی اور نصابی موضوعات سے ہے۔ ہم نے جو مثالیں اب تک چنی ہیں ا ن میں سائنس ، ٹکنالوجی، جغرافیہ، ماحولیات اور انگریزی زباندانی جیسے اہم درسی موضوعات پر شعری تخلیقات کا جائزہ لیا گیا ہے ۔ حسنین عاقبؔ نے تاریخ اور شہریت جیسے خشک اور بچوں کے لیے دوسرے مضامین کے مقابلے میں مشکل مانے جانے والے مضامین کو بھی نہایت آسانی سے شعری شکل میں ڈھال دیا ہے۔ ان کی ایک نظم ’یومِ جمہوریہ‘ جیسے موضوع پر ہے جس میں انہوں نے بہت الگ انداز میں بچوں کے سامنے ہماری تاریخ پیش کی ہے۔
چھبیس جنوری انیس سو پچاس
دن ہماری زندگی میں ہے یہ خاص
اس شعر میں شاعر نے اس بات کا بھی اشارہ دے دیا ہے کہ یہ تاریخ ہمارے دو قومی تہواروں میں سے ایک یعنی یومِ جمہوریہ کی تاریخ ہے۔ اب یومِ جمہوریہ کا مقصد بیان کرتے ہوئے شاعر کہتا ہے۔
لیکن اک دستور تھا مطلوب بھی
جو موافق سب کے ہو، محبوب بھی
جس سے آساں ہو چلانا ملک کو
ایک آئیں تھا بنانا ملک کو
ان اشعار میں شاعر نے بہت عمدگی کے ساتھ آئین کے ضرورت اور اس کا مقصد واضح کردیا ۔ اب آگے سیکولرازم اور غیر دینی آئین کی تشریح کتنی آسانی سے کردی ہے کہ بچے بغیر کسی تکلیف اور الجھن کے سمجھ جائیں۔
جس میں سارے ہی مذاہب ہوں شریک
ہو سماجی ڈھانچہ بالکل ٹھیک ٹھیک
اس شعر کے پہلے مصرعے میں ہمارے آئین کے ’ سارے مذاہب کی شمولیت‘ والا اور غیر دینی دستور اور پھر سماجی ڈھانچے کا بالکل ٹھیک ٹھیک ہونا یعنی سماجی مساوات کے نظریات کو بچوں کے لیے آسان بنادیا گیا ہے۔ آخری حصے میں اشعار دیکھئے۔
سلسلے آزادیوں کے ڈھب پہ ہوں
حق ملیں سب کو، فرائض سب پہ ہوں
حکم، محکوم اور حاکم ، سب عوام
ہوگیا جمہوریت کا طے نظام
بس اسی دن ہوگیا اعلان یہ
یعنی سیکولر ہے ہندوستان یہ
ان اشعار نے اس بات کو صاف کردیا ہے کہ ایک معلم اگر شاعر ہو تو وہ درسیات اور نصابیات کے ساتھ بھی نئے نئے موضوعاتی تجربات کرسکتا ہے جیسے حسنین عاقبؔ نے کیا ہے۔ انہوں نے ادبِ اطفال کی جانب توجہ دینے والے ان شعراء کے لیے ایک مثال پیش کردی ہے جو مدرس بھی ہیں۔ بچوں کے ادب کو بھی پرانے موضوعات سے باہر آنا چاہیے، ہمارا یہی ماننا ہے۔ ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ بہت سے ادباء و شعرائے اطفال درسی موضوعات پر لکھ بھی رہے ہیں لیکن ان کی تعداد میں اضافہ ہونا چاہیے، ہمارا یہ خیال ہے۔
یہاں یہ بات بتانا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ حسنین عاقب نے انگریزی گرامر کے موضوع پر ملک کے پہلے کل ہند درسی مشاعرے میں اپنی نظم ’پارٹس آف اسپیچ‘ پیش کی جس نے انہیں قومی سطح پر اول انعام دلوایا۔ یہ ایک معلم ہی کرسکتا تھا۔
حسنین عاقبؔ نے سائنس اور ٹکنالوجی کے ساتھ ساتھ درسیات اور نصابیات کے ایسے ایسے موضوعا ت پر بچوں کے لیے نظمیں تخلیق کی ہیں جن کی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔مقالے کے آخر میں ہم یہی کہیں گے کہ ادب اطفال کو مضبوط و مستحکم بنانے کے لئے ادیبوں اور شعراء نے وقت کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ بچوں کی ذہنی قوت اور نفسیات کے عین مطابق علم و فن اور سائنسی نکتہ نظر و حقائق پر مبنی جدتوں سے پر مواد کا اضافہ کرنا چاہیے اور ادب کی آبیاری کرنیوالے ہر شخص کو اس کی ترویج اور استعمال کے لئے کوشاں ہونا ضروری ہے۔
ادب اطفال پر چنندہ جرائد اور رسائل اردو زبان میں ادب اطفال پر بھر پور محنت کررہے ہیں جن میں گل بوٹے (ممبئی )، بچوں کی دنیا(نئی دہلی)، جنت کے پھول(ممبئی)،ماہنامہ پھول (بھٹکل)، فنکار (حیدر آباد)،امنگ (نئی دہلی ) ، بچوں کا ساتھی (بجنور) اور دیگر کئی قابل ذکرِ بچوں کے رسائل ہے۔ جو تفریح و تفنن اور اعلیٰ اخلاق و ہمہ جہت ترقی پر توجہ دے رہے ہیں۔ ان میں دیو، جن، بھوت اور پری وغیرہ جیسے مافوق الفطری کرداروں کو موضوع بنا کر یا کسی واقعہ کے ذریعہ اخلاقی درس دیا جاتا آرہا ہے۔ لیکن موجودہ دور الیکٹرانک میڈیا کا دور ہے جو کہ زندگی کی بنیادی ضرورت بن چکا ہے۔ساتھ ہی ادب اطفال کو عام کرنے کے لیے نامور شعراء کی لکھی بچوں کی نظموں اور معروف ادیبوں کی تحریر شدہ کہانیوں کی پیش کش کے لیے وقتاً فوقتاً مقابلہ جات کئے جائیں تاکہ نسل نو ان کے لیے تیار کئے جانے والے ادب سے روبرو ہوں اور اس سے استفادہ کرسکیں ۔
***