ڈاکٹرمہیمنہ خاتون
سابق گیسٹ فیکلٹی کشمیر یونیورسٹی، کارگل کیمپس
ادبِ اطفال کے اوّلین معمارقلق ؔمیرٹھی
بیسویں صدی نصف اوّل کے شعراء میں قلق ؔمیرٹھی ایک اہم نام ہے۔وہ صرف شاعر ہی نہیں مدرس ، مترجم ،حکیم اور خوش نویس بھی تھے۔ان کا پورا نام محمد غلام مولیٰ اور قلق ؔتخلص تھا۔1833میں میرٹھ میں پیدا ہوئے ۔ ان کے اجداد نادر شاہ بادشاہ کے ساتھ ایران سے ہندوستان آئے اور یہیں مقیم ہو گئے ۔میرٹھ میں ابتدائی تعلیم عربی و فارسی کی حاصل کرنے کے بعد وہ1844-45میں مزید تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے دہلی آئے اور دہلی کالج جو اس وقت مدرسہ غازی الدین کے نام سے موسوم تھا،میں داخلہ لے لیا۔اس وقت ان کی عمر بارہ برس تھی۔ امام بخش صہبائی ان کے فارسی کے استاد ہوئے ۔انہی سے انہوں نے فارسی شعر گوئی میں اصلاح بھی لی۔جب انہیں پتہ چلا کہ کالج میں انگریزی سیکھنے والے طلباء کو وظیفہ دیا جائے گا توانہوں نے انگریزی پڑھنا شروع کر دی ۔ جس سے انہیں دوہرا فائدہ حاصل ہوا۔ ایک ان کو مالی تنگی سے نجات مل گئی دوسرے انہوں نے انگریزی کی اخلاقی نظموں کو اردو میں ترجمہ کیا جو ان کی شہرت کا باعث بنا اور وہ ایک مترجم کی حیثیت سے بھی جانے جانے لگے۔اردو شاعری میں انہوں نے مومنؔ کی شاگردی اختیار کی ۔جب 1857کا غدر ہوا تو انہوں نے دلّی چھوڑ کر راجہ گلاب سنگھ والیٔ کچیسر کی ملازمت اختیار کر لی۔کچیسر اس وقت بلند شہر (یوپی ) کا حصّہ تھا،لیکن وہاں ادبی محفلیں منعقد نہ ہونے کی بناء پروہ ملازمت چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے میرٹھ آ گئے۔میرٹھ میں بھی ادبی محفلیں نہیں ہوا کرتی تھیں جیسی دلّی میں ہوا کرتی تھیں۔لہذا قلق جیسے پڑھے لکھے اور ادبی ذوق رکھنے والے شخص کے لیے یہاں ٹہرنا بھی محال تھا ۔ لہذافرماتے ہیں:
میرٹھ میں ہے قلق ؔ تو مگر بلبلِ غریب
افسوس ہے کہ تیرا کوئی ہم زباں نہیں
خوش قسمتی سے انہیں یہاں 1960میںسر رشتۂ تعلیم میں ملازمت مل گئی جس کی وجہ سے انہیں علمی پیاس بجھانے کا اچھاموقع مل گیا۔یہیں انہوں نے وہ لا فانی کام کیا جس کی وجہ سے وہ ادبی دنیا میں سرخ رو ہوئے۔وہ کام تھا پندرہ انگریزی نظموں کا اردو زبان میں ترجمہ۔ دراصل1864میں انہوں نے بحکم محکمۂ تعلیم، انگریزی کی اخلاقی نظمیں جنہیں افسرِ تعلیم جناب کیمسن کے حکم سے انسپکٹر ٹی جے کین حلقۂ میرٹھ نے نصابی کتاب میں داخل کیا تھا، کا اردو میں ترجمہ کیا اوراپنے اس ترجمہ کو ’’جواہر منظوم‘‘ نام دیا ۔یہ مجموعہ گورنمنٹ پریس الہ آباد سے 1864میں شائع ہوا۔اس ترجمہ کے متعلق گارساں دتاسی اپنے سولہویں خطبہ بتاریخ3دسمبر1866میں لکھا ہے:
’’انگریزی کے بعض نظمیں ایسی ہیں جن کا اردو میں خاطر خواہ ترجمہ کرنا دشوار ہے لیکن مترجم نے نہایت سلیقے اور خوبی کے ساتھ اس کام کو انجام دیا ہے ۔ انگریزی اور اردو کی نظمیں ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہوتی ہیں ۔ خیالات اور محاورے ایک دوسرے کے ساتھ بالکل کوئی مناسبت نہیں رکھتے مترجم میں جب تک خاص طور پر ایسی صلاحیت نہ ہو کہ اصل کو اپنے الفاظ کے ذریعہ ظاہر کر سکے اس وقت تک اس کام کو سلیقے کے ساتھ پورا کرنا مشکل ہے‘‘۔1؎
پندرہ نظموں کا یہ مجموعہ اردو میں پہلا ترجمہ کردہ مجموعہ ہے۔مرزاغالبؔ نے ان نظموں
کو بغور اصلاح دیکھا اور قلق ؔمیرٹھی کی تعریف بھی کی۔اس مجموعہ کے متعلق حسن الدین احمد لکھتے ہیں :
’’جواہر منظوم کو جس سے انگریزی سے کیے گئے منظوم ترجموں کی ابتدا ہوتی ہے ایک مثالی اور ابتدائی Pioeeringپراجیکٹ قرار دیا جا سکتا ہے۔ جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح انگریزی حکام نے ایک اردو شاعر اور محکمۂ تعلیمات کا وظیفہ یاب استاد منشی غلام مولیٰ قلقؔمیرٹھی(وفات1880)کا انتخاب کر کے ان کو درسی کتابوں میں شامل چھوٹی چھوٹی انگریزی نظموں کے منظوم ترجمے کے لیے مامور Commissionکیا جب یہ کام مکمل ہوا تو ان منظوم ترجموں کو اصلاح کے واسطے اردو کے نامی گرامی شاعر اسد اللہ خاں غالبؔ کے پاس بھیجا گیا۔ اس کے بعد ڈائریکٹر تعلیمات کے دفتر میں ملاحظہ اور منظوری کے لیے پیش ہوا‘‘۔2؎
اردو میں ترجمہ نگاری کی ضرورت اس وقت سے محسوس ہونے لگی تھی جب اردو 1840میں ذریعۂ تعلیم بنی۔حیدر آباد اور لکھنؤ میں بہت سے تراجم ہو چکے تھے ۔ قلقؔ میرٹھی نے اردو میں منظوم تراجم کی بنیاد ڈالی ۔سر سید تحریک سے جڑے ادباء و شعراء نے اس روایت کو آگے بڑھایا۔1900کے بعد اس فن کو اور ترقی حاصل ہوئی یہاں تک کے اس دور کو تراجم کا دور کہا جانے لگا۔ بقول ڈاکتر عنوان چشتی:
’’ غلام مولیٰ قلق میرٹھی اور اسماعیل میرٹھی نے منظوم تراجم کی روایت ڈالی جس کو 1900کے بعد زبردست فروغ ملا ۔ 1900کے بعد منظوم تراجم کو دیکھ کر اس دور کو دورِ تراجم کہا جا سکتا ہے‘‘۔3؎
یہ اخلاقی نظمیں مندر جہ ذیل عنوانات پر مشتمل ہیں :اوصاف اخلاقِ شتر، بیانِ کر مک، حکایت پسرِ نا خدا، بیانِ جنت، میرا باپ کشتی بان ہے، بیانِ ہندوستان، داستان اندھے لڑکے کی، داستان شاہ کینیوٹ، قصّہ و یم ٹیل ساکن سوئزرلینڈ، خواہش ِ طفل، عرضی موش محبوس، لڑکپن کی پہلی مصیبت، دربان تمیز حق و باطل، ذکر ابابیل بدیسی کا، سادگی طبیعت کی خواہش۔
’’حکایت پسرِ ناخدا‘‘ Felicia Hemanکی نظمCasalanceکا اردو ترجمہ ہے۔اس نظم میں بتایا گیا ہے کہ 1798ء میں انگریزوں اور فرانسیسیوں کے مابین ہوئی جنگ میں فرانسیسیوں کا ایک جہاز جل گیا تھاجس میں ایک بچہ کا باپ جو جہاز کا کپتان تھا، مارا گیا اور جہاز کا پورا عملہ بھاگ گیا، یہ بچہ اپنے باپ کی لاش کے پاس معصومیت اور بہادری کے ساتھ کھڑا رہا، بعد میں یہ جہاز غرق ہو گیا تو یہ بچہ بھی ڈوب گیا۔ اس انگریزی نظم کا ایک بند جسے قلق نے اردو میں ترجمہ کیا ہے، نقل کیا جاتاہے:
ترجمہ: ایک جنگی جہاز میں جو آگ لگ گئی آدمی گئے سب بھاگ
نا خدا کا رہا فقط لڑکا کھم سا بالائے بام حجرہ کھڑا
سی سبّر( C.Cibber)کی نظم’’ The blind boyدی بلائنڈ بوائے ‘‘کا انہوں نے’’داستان اندھے لڑکے کی ‘ کے عنوان سے ترجمہ کیا ۔ اس میں ایک اندھے لڑکے کے صبر و تحمل کو دکھایا گیا ہے جو سنتا آیا ہے کہ سورج روشن ہے، چمکدار ہے ، گرمی پہنچاتا ہے ، دن میں نکلتا ہے اور رات میں ڈوب جاتا ہے ۔ یہ سب سن کر وہ کہتا ہے کہ میرے لیے تو رات و دن سب برابر ہیں ۔ یہ سب باتیںمیں صرف سن سکتا ہوں رات اور دن میں تمیز نہیں کر سکتا ،مگر میں سورج کی گرماہٹ اور رات کی ٹھنڈک کو محسوس کر سکتا ہوں، میری آنکھیں کیا کچھ نہیں دیکھ سکتیں اس کا مجھے کوئی افسوس نہیں میں اس کمی کو برداشت کر سکتا ہوں ، جب میں یہ جا نتا ہی نہیں کہ بینائی کیا چیز ہوتی ہے تو میں اس کے کھو جانے کا غم کیوں کروں ۔
دیکھتے ہو عجائباتِ جہاں کہتے ہو آفتاب ہے رخشاں
گرم پاتا ہوں اس کو میں لیکن نہیں معلوم را ت ہے یا دن 4 ؎
فلیشیا ہیمین(Felicia Heman)کی نظمThe child first grief”ـدی چائلڈ فرسٹ گریف‘‘ کا ترجمہ ’’لڑکپن کی پہلی مصیبت‘‘ کے عنوان سے کیا۔ اس میں ایک لڑکے کا ذکر ہے جس کا بھائی کہیں چلا گیا ہے ۔وہ اپنے بھائی سے بے انتہا محبت کیا کرتا تھا اور دونوں ہمیشہ ایک ساتھ ہی رہتے تھے۔ اس کے اچانک چلے جانے پر لڑکا کہتا ہے:
آہ پھر بھائی کو میرے بلواؤ مجھ کو اور اس کو ایک جا کھلواؤ
گل کھلے بر اڑے بہار آئی ہے بتاؤ کہاں میرا بھائی
اسی نظم کو تلوک چند محروم نے ــ’’بچّے کا پہلا احساسِ غم‘‘ کے عنوان سے ترجمہ کیا ہے۔علاوہ ازیں انگریزی کی ان اخلاقی نظموں کا ترجمہ اور بھی بہت سے شعراء نے کیا ہے جن میں سید احمد کبیر، سید راحت حسین، سعید الدین خاں سعید، بدرالزماں بدر، رنجور عظیم آبادی، محمد حسین آزاد حیدر آبادی اور فضل الرحمن شامل ہیں ۔مگر ان حضرات کے ترجمے سلیس ،رواں اور عام فہم نہیں ہیں جب کہ قلقؔ کے ترجمے مختصر، سادہ ،جامع اور سلیس اردو میںہیں ۔جو بچوں کی ذہنی استعداد کو دیکھتے ہوئے کیے گئے ہیں اور بچے کو یہ ترجمہ شدہ نظمیں اوران کا مفہوم بآسانی سمجھ میں آجاتا ہے۔
اسی طرح دیگر نظموں کا ترجمہ قلق ؔ نے انتہائی سادہ، آسان اور سلیس زبان میں کیا ہے ، یہی وجہ ہے کہ یہ نظمیں اُس وقت اسکول کے بچوں کے درسی نصاب میں بھی شامل کی گئیں ۔قلقؔ کے ان تراجم سے اردو کے بہت سے شعراء نے استفادہ کیا۔انہی منظوم ترجموںکو پڑھ کر بچوں کے جانے مانے ادیب و شاعر اسماعیل میرٹھی جن کی عمر اس وقت محض سولہ برس تھی اور وہ بحیثیت کلرک محکمۂ تعلیمات میں ملازم ہوئے تھے ،بھی بچوں کی نظموں کی طرف راغب ہوئے اور آگے چل کربچوں کے شاعر کی حیثیت سے مشہور ہوئے۔ان کے علاوہ محمد حسین آزادؔ اور الطاف حسین حالیؔ نے بھی منظوم ترجمہ کرتے وقت اسی طرز کو اپنایا۔ بقول گوپی چند نارنگ:
’’1867میں جب آزاد ؔ ابھی اس سلسلے میںخود کوذہنی طور پر تیار کر رہے تھے غلام مولیٰ قلق میرٹھی کا پندرہ انگریزی نظموں کا ترجمہ ’’جواہر منظوم‘‘ کے نام سے دوسری بار شائع ہو چکا تھا‘‘۔5؎
محمد حسین آزادؔ نے کرنل ہالرائیڈ کے حکم سے موضوعاتی نظموں کا سلسلہ 1874میں ’’انجمن پنجاب‘‘ قائم کر کے کیا ۔اس وقت تک قلق کا ترجمہ’’ جواہر منطوم‘] شائع ہوئے دس سال کا عرصہ ہو چکا تھا اور اس کے چار ایڈیشن جو ہزاروں کی تعداد پر مشتمل تھے، شائع ہو چکے تھے۔ قلق ؔ جانے مانے شاعر تو ضرور تھے لیکن جو شہرت محمد حسین آزاد کو’’ انجمن پنجاب ‘‘کے موضوعاتی سلسلہ سے حاصل ہوئی وہ قلقؔ کو نہیں مل سکی ۔ اس کی وجہ صاف اور واضح تھی۔ انجمن پنجاب کے زیر اثر نظمیں اس لیے مقبول ہوئیں کیونکہ انہیں اخبار و رسائل میں کثرت سے جگہ ملی جب کہ قلقؔ کی نظمیں محکمۂ تعلیمات نے نصابی نقطۂ نظر سے ترجمہ کرائی تھیں۔ اس لیے وہ رسائل و اخبار کا حصّہ نہیں بن سکیں۔ لیکن ان ترجمہ کردہ نظموں سے بچوں کا ادب تخلیق کرنے والے تمام شعراء نے استفادہ ضرور کیا ہے۔ خواہ وہ محمد حسین آزاد ؔہوں، اسماعیل ؔمیرٹھی ہوں یا الطاف حسین حالیؔ ہوں۔اسی لیے ہم انہیں ادبِ اطفال کا اوّلین معمار مانتے ہیں۔علاوہ ازیں ان نظموں کی روانی و سلاست کااعتراف کرتے ہوئے ڈاکٹر جلال انجم نے اپنی کتاب میں لکھا ہے :
’’ ان میں بلا کی روانی پائی جاتی ہے ۔ ان نظموں کی جہاں تاریخی اہمیت مسلّم ہے وہیں فنّی نقطۂ نظر
سے بھی یہ نظمیں بے عیب ہیں ۔ لیکن افسوس کے کرنل ہالرائیڈ کی طرح مسٹر کیمسن اگر کوئی انجمن بنا لیتے تو ان کی عظمت کا اعتراف ہر شخص کرتا‘‘۔ 6
قلقؔ کو استاد شاعر مانتے ہوئے آگے لکھتے ہیں:
’’ قلق میرٹھی میرٹھ کی ادبی و شعری تاریخ میں استاد الاساتذہ کا درجہ رکھتے ہیں ۔ ان کی شاعری کی تمام تر نشو و نما دہلی کی ادبی فضا میں ہوئی جہاں مومن خاں مومنؔ کی سرپرستی نے ان کے فن کو جلا بخشی جس سے ان کا مرتبہ استاد شعراء کے رو برو تسلیم کر لیا گیا‘‘۔ 8؎
قلق ؔ میرٹھ کے رہنے والے تھے مگر ان کی ادبی نشو و نما کا شہرا سر زمین دہلی کو جاتا ہے۔ ان کی زبان و بیان پر دہلی کے ادبی ماحول کا بھر پور اثر پایا جاتا ہے اس میں بلا وجہ محاورں کی بھر مار نہیں ہے کہیں کہیں ضرورتِ شعری کی بناء پر انہوں نے محاوروں کو برتا ہے جیسے؛
اشک کے گرتے ہی آنکھوں میں اندھیرا چھا گیا
کون سی حسرت کا یا رب یہ چراغ ِ خانہ تھا
ان نظموں کے علاوہ قلقؔ میرٹھی کی کلیات میں غزل، رباعی، تضمین، مسدس، واسوخت، مرثیہ ، قطعات اور منظوم رقعات بھی ملتے ہیں ۔ انہوں نے مثنویاں قصیدے اور اخلاقی ، مذہبی، سماجی، عشقیہ، فلسفیانہ اور ذاتی رباعیاں بھی لکھیں ۔جن میں انہوں نے حسبِ ضرورت صنعتوں کا استعمال کیا ہے۔ ان اخلاقی رباعیوں میں اخلاقی اقدار اور تہذیبی روایات کی تعلیم پائی جاتی ہے ۔ایک رباعی میں یہ اخلاقی درس دیتے ہیں کہ آدمی خواہ کتنا ہی زبردست سرکش کیوں نہ ہولیکن وہ بھی موت کے آگے بے بس ہے ، پھر بھی اس کی اکڑ و نخوت کا یہ عالم ہے کہ مر کر بھی نوابوں کی طرح کاندھوں پر سوار ہو کر جاتا ہے:
تھا آدم خاکی غضب بے زنہار پر موت کے ہاتھوں سے ہواہے ناچار
سچ ہے قلقؔ انساں ہے کیا کچھ سرکش مر کر بھی تو ہوتا ہے یہ کاندھوں پہ سوار
موت ایک یقینی چیز ہے اور ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے ۔اس لیے قلقؔمیرٹھی موت کی تیاری کرنے پر ابھارتے ہوئے کہتے ہیں :
اس بزم سے میداں میں جانا ہوگا
ایوان سے بیاباں میں جانا ہوگا
ھشیار ہو، تیار ہو، زنہار نہ سو
کیا جانیے کس آن میں جانا ہوگا 8؎
جدید نظم نگار کی حیثیت سے محمد حسین آزاد ؔ بھی جانے جاتے ہیں ۔مگراس صنف مین استاد کا درجہ قلق کو ہی حاصل ہے۔ کیونکہ 1864میں ’’جواہر منظوم‘‘ شائع ہو گیا تھا جو کہ نظم ِ جدید کا اوّلین نمونہ تھا ۔’’ انجمن پنجاب‘‘1874میں قائم ہوئی جس کے زیر اثر موضوعاتی نظموں کا سلسلہ شروع ہوا ۔ 1864سے 1874تک درمیان کے دس سالوں میں جواہر منظوم کے چارایڈیشن شائع ہو چکے تھے جن کی تعداد ہزاروں میں تھی۔ اسمعیل میرٹھی نے اس بات کا کھل کر اعتراف بھی کیا ہے کہ انہوں نے انہی نظموں کو دیکھ کر اپنے فن کی بنیاد رکھی۔ اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ قلقؔ اردو شعر و ادب میں استاد کا مرتبہ رکھتے ہیں اور جدید نظم نگاری کے بانی ہیں۔
قلقؔنے نثرنگاری میں برائے نام کام کیا ہے لیکن ان کا نثری کام بھی اعلیٰ پیمانے کا ہے۔یہ نثری کام بچوں کے لیے نہیں ہے ۔ در اصل یہ تین تقاریظ ہیں ۔ پہلی فارسی زبان میں ہے جو انہوں نے ’’ دیوانِ مومن‘‘مرتب کرتے وقت لکھی۔ دوسری تقریظ ’’ تذکرہ بہارستان ِ ناز ‘‘ جو خواتین کا پہلا تذکرہ ہے اورجس کے مؤلف حکیم فصیح الدین رنجؔ میرٹھی ہیں، پر لکھی۔ تیسری تقریظ مرزا غالبؔ کے ان خطوط پر لکھی جو ’’عودِ ہندی‘‘ کے نام سے شائع ہوئے۔
ان کے دور کے مایہ ناز شعراء و ادباء میں ان کے استاد امام بخش صہبائی اور مومن خاں مومن کے علاوہ مرزااسد اللہ غالبؔ، شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ، محمد حسین آزادؔ، الطاف حسین حالیؔ،نواب ابراہیم داغؔ، میر حسن تسکینؔ، غلام احمد تصویرؔ عرف میاں ببّن، فصیھ الدین رنج ؔ میرٹھی، عبد الکریم سوز، نواب محمد مصطفی خاں شیفتہؔ، سید ظہیر الدین حسین ظہیرؔ دہلوی، سید احمد فرقانی اور اسمعیلؔ میرٹھی شامل ہیں ۔
آج اردو سے انگریزی منظوم ترجمہ نگار کی حیثیت سے قلقؔ میرٹھی صفِ اوّل میں شامل ہیں ۔ ان کی ترجمہ کی ہوئی نظمیں بچوں کے لیے اصلاحی اور تربیتی پہلو رکھتی ہیں۔ بلا شبہ انہوں نے جدید نظم نگاری میں محمد حسین آزادؔ سے قبل قدم رکھا اسی لیے وہ جدید نظم نگاری کے بانی مانے جاتے ہیں۔اپنی لازوال علمی و ادبی یاد گار چھوڑ کر وہ1880میں میرٹھ میںانتقال فرما گئے۔
حواشی
(1) (ص528-9، خطبات گارساں دتاسی، دتاسی، انجمن ترقی اردو اورنگ آباد، دکن1935)
(2) (ص86،احمد،حسن الدین، انگریزی شاعری کے منظوم اردو ترجموں کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ، ولا اکیڈمی حیدر آباد،مئی1884)
(3) 3؎ (ص66، معنویت کی تلاش، از ڈاکٹر عنوان چشتی، رنگ محل پبلیکیشنز، مظفر نگر،1983)
(4) (ص233-38، انجم ، ڈاکٹرجلال ، قلق میرٹھی حیات اور کارنامے، فیض پبلیکیشنز، بلی ماران ، دہلی ،دسمبر1987)
(5) ( ص 4،اسماعیل میرٹھی حیات و خدمات از ڈاکٹر سیفی پریمی، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، دہلی)
(6) (ص242، قلق میرٹھی حیات اور کارنامے، از ڈاکٹر جلال انجم، نامی بکڈپو، اسمعیل نگر، میرٹھ,1992)
(7) (ص255، قلق میرٹھی حیات اور کارنامے، از ڈاکٹر جلال انجم، نامی بکڈپو، اسمعیل نگر، میرٹھ1992)
(8) (ص259، فائقؔ، کلب علی خاں، مرتب،کلیات قلق، مجلس ترقی ادب ، لاہور،دسمبر1966 )
***