ادرایہ
۲۰۲۱ کا یہ آخری مہینہ نئے سال کی آمدکا مژدہ ہے ۔دنیا کے بیشتر ممالک میں نئے سال کے جشن کی تیاریاں ابھی سے زور شور پر ہیں ۔ یہ ماہ و سال تو محض ایام شماری کے لیے ہیں ورنہ اس سے زیادہ اس کی اہمیت کچھ اور نہیں لیکن اب یہ رسم دنیا ہے تو دنیا کے تقریباً تمام خطوں میں نئے سال کی آمد کا استقبال منفرد انداز میں کیا جاتا ہے ۔کچھ افراد و اقوام نئے عزائم کو اپنی زنگیوں کا ہدف بناتے ہیں اور آنے والے سال کے لیے لائحہٴ عمل مرتب کرتے ہیں۔ نئے سال کا جشن منانے کا یہ طریقہ کئی اعتبار سے احسن ہے مگر شرط یہ ہے کہ عزائم مرتب کرنے کا عہد محض رسم نہ بن کر رہ جائے ۔
اردو زبان و تہذیب کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو ہمیں نئے سال کی آمد کا اہتمام اس اعتبار سے ضرور کرنا چاہیے ۔وجہ یہ ہے کہ موجودہ صارفی دنیا میں ہر فرد ذاتی ، خانگی اور معاشرتی مسائل کے انبار میں گھرا ہواہے ۔ ایسے میں ملک و قوم کے مسائل کی جانب متوجہ ہونا “کارے دارد” کے مترادف ہے ۔مگر وہ زندگی ہی کیا جس میں محض آسانیاں ہوں ، ایسے میں ان آسانیوں اور آشائشوں کا لطف بھی نہیں رہ جاتا۔مزہ تو جب ہے بقول اقبال( جس کی ادائیگی ابلیس کی زبانی ہوتی ہے) ” میرےطوفاں یم بہ یم ، دریا بہ دریا جو بہ جو ” اسی تحرک سے زندگی میں نئی منزلوں کا سامنا ہوتا ہے اور نئی ایجادات و انکشافات کے ساتھ ساتھ تسخیر کی قوتوں کا کرشمہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔
ہم احبابِ اردو کو بھی اس نئے سال میں اپنی زبان و ثقافت کی بقا اور ترویج و اشاعت کے لیے کچھ عزم و حوصلہ کی بنیاد رکھنی چاہیے ۔آج زبان و تہذیب کو سب سے بڑا مقابلہ اس صارفی دنیا سے ہے ۔کیوں نا صارفی دنیا کے تقاضوں اور مطالبوں کو سمجھتے ہوئے اردو زبان کو ان تقاضوں سے اس طرح ہم آہنگ کیا جائے کہ اس کی بنیادی شناخت پر کوئی آنچ نہ آئے اور نہ کوئی سمجھوتا ہی کرنا پڑے ۔ ۔۔۔ یہ بڑا سوال ہے مگر یہ ناممکن نہیں ہے ۔ اس صارفی دنیا کا ایک بڑا میدان یا ایک ’نیا ورلڈ‘ سائبر ورلڈ ہے ۔ یہ ایک ایسا میدان ہے جہاں اردو تو مو جود ہے مگر اس میں وہ توانائی نہیں ہے جو دیگر زبانوں کی قوت ہے ۔
اس عمل کو انفرادی اور اجتماعی طور پر کرنے کی ضرورت ہے ۔دنیا میں بہت سے اہم کام افراد کے ہاتھوں ہی عمل میں آیاہے ۔ اردو کی بات کریں تو اس کے فروغ اور ترویج میں جس قدر اداروں نے کام کیا ہے اسی قدر افراد نے بھی کام کیا ہے ۔ اردو اور ٹکنالوجی کی بات کریں تو یہاں بھی معاملہ ایسا ہی ہے ۔ اردو کا یونی کوڈ فونٹ ” جمیل نوری تستعلیق ” مزرا جمیل احمد کی کوششوں کا نتیجہ ہے جس کا اجرا ۲۰۰۸ میں ہوا۔آج دنیا بھر میں اسی فونٹ کا استعمال کیا جاتاہے ۔ اس کے بعد اس کے کئی اَپ ڈیٹس بھی سامنے آئے ۔ اسی طرح اردو کے بہت ہی کامیاب سوفٹ وئیرس افراد کی کوششوں سے نیٹ پر مفت دستیاب ہیں اردو دنیا جس سے استفادہ کررہی ہے۔
ابھی اس سمت میں کئی اہم کام باقی ہیں ۔ اگر سمت میں کوشش کی جائے تو عنکبوتی دنیا کے دوش بدوش ہماری زبان بھی ترقی کے منازل طے کرسکے گی۔۔۔۔ اس سمت میں جو احباب دلچسپی رکھتے ہیں ان سے رابطے کی خواہش ہے تاکہ اس اپنے طور پر اس مہم کا آغاز کیاجاسکے۔
آن لائن رسالہ “ترجیحات ” اسی سمت میں ایک ادنیٰ سی کوشش ہے ۔دنیا کی ترقی یافتہ زبانوں میں اس طرح کے بے شمار اور معیاری جنرلس موجود ہیں ۔ اردو کے دامن کو وسیع کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اہل اردو اس جانب بھی متوجہ ہوں ۔
مجھے اس کا اعتراف کرنا چاہیے کہ اس رسالے کے جاری ہوتے ہی اس کو عوامی مقبولیت ملی ۔ در اصل یہ بھی اشاریہ ہے اس بات کا کہ اردو احباب ہر طرح کے وسائل کو استعمال کرنا چاہتے ہیں ۔
“ترجیحات ” کا یہ چھٹا شمارہ آپ ملاحظہ کررہے ہیں ۔ گذشتہ کی طرح اس شمارے میں بھی مضامین کو دیکھیں تو اندازہ ہوگا تحقیق، تنقید، تخلیق ہر صنف میں قابل قدر مضامین موجود ہیں جو نئی معلومات کے ساتھ نئے نقطہٴ نظر کی نشاندہی کرتے ہیں۔
نئی نسل کے لکھاریوں سے ہم بہت پُر امید ہیں ۔ مستقبل میں بھی ہم آپ کے قلمی تعاون کے خواستگار ہیں ۔
نئے سال کے لیے پیشگی نیک تمنائیں
خواجہ محمداکرام الدین
مدیر اعلیٰ
Very good blog post. I absolutely appreciate this website. Keep it up!