
عارف حسین ڈار
ریسرچ اسکالر یونی ور سٹی آف حیدر آباد
ادھورے سپنے
عید گاہ میں تقریباً سبھی لوگ ایک دوسرے کو گلے لگا رہے تھے لیکن زاہد اس قدرپریشان تھا کہ اس نے خوشی کے موقعے پر بھی نہ کسی سے بات کی اور نہ کسی کو گلے لگایا۔ وہ مجمع سے باہر صف بندی کا انتظار کرنے لگا ۔جب موذن نے‘‘ اللہ ہو اکبر’’ کہا تو وہ جلدی سے آخری صف میں شامل ہوگیا اور نماز ادا کرکے گھر کی طرف نکل گیا۔اس کے دوست اسکوٹر پر گھومنے نکل گئے مگر زاہد کو پڑھنے کا اس قدر شوق تھا کہ اس نے دوستوں کے ساتھ اس خوشی کے موقعے پر بھی گھومنے کے بجائے اپنی پڑھائی کو ترجیح دی۔ وہ ساری ساری رات مطالعے میں مصروف رہتا تھا۔ روز کی طرح اس دن بھی وہ اپنے کمرے میں پڑھائی کر رہا تھا ۔چار بج کر پانچ منٹ ہوئے تھے۔ اس کی ماں فاطمہ نے دروازے پردستک دی اور کہا ۔ـ‘‘ بیٹا چائے کیچن میں ہے میں ڈاکٹر کے پاس جا رہی ہوں اب خود ہی گرم کر کے پی لینا ’’
‘‘ٹھیک ہے امی ’’زاہد نے جواباً کہا۔یہ سن کر وہ چلی گئی۔زاہد کو اچانک دوستوں کا خیال آیا اور وہ سوچنے لگا کہ‘‘ ارشد بھی ملازمت کر رہا ہے ۔سبزاربھی پولیس میں بھرتی ہوگیا ۔اب میں ہی بے روزگار ہوں۔ ان کے پاس دولت ہے ،گاڑیاں ہیں، بڑے بڑے مکان ہیں، مگر میرے پاس کیا ہے صرف اعلیٰ تعلیم جو آج ہر کسی کے پاس ہے اور جس کی اہمیت اس مادی پرست دور میں کچھ بھی نہیں !۔مجھ سے اچھا تو جہانگیر ہے جو لکڑی کا کام کرتا ہے اور دن میں پانچ سو تک کما لیتا ہے۔میں کب تک ماں باپ کے پیسوں پر پلتا رہوں گا ۔اب میرے ابو بھی بوڑھے ہوگئے ہیں جو اب کچھ کمانے کے لائق بھی نہیں رہے ۔بہن بھی شادی کی عمر کو پہنچ چکی ہے ۔اس کی بھی شادی کرانی ہے ۔ماں کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں رہتی’’ وہ یہی سب سوچ رہا تھا کہ اچانک اس کے فون کی رنگ بجی ۔اس نے فون نکال کر دیکھا ۔‘‘سبزار!’’۔اس نے جلدی سے فون اٹھانا چاہا مگر فون کا ٹچ خراب ہونے کے سبب وہ لاکھ کوششوں کے باوجود بھی فون نہ اٹھا سکا اور مایوسی کے عالم میں فون نیچے رکھ دیا۔کچھ دیر بعد اس نے سبزار کا میسیج دیکھا ۔ ‘‘میں آپ کو اپناجانی دوست سمجھ رہا تھا اور میں نے دن میں آپ کو اس لیے فون نہیں کیا کیوں میں آپ کو ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتا۔لیکن اب شام کا وقت ہے اس لیے سوچاکہ ہم تھوڑا چکر لگا کر آتے ہیں ۔ خیر آج آپ نے دکھا ہی دیا کہ میں آپ کا دوست نہیں ہوں۔ ٹھیک ہے آج سے مجھے کبھی فون مت کرنا خدا حافظ’’۔ یہ مسیج پڑھ کر زاہد کے غم میں مزید اضافہ ہوا۔حتیٰ کہ زاہد جانتا تھا کہ اب دوست ساتھ چھوڑنے کے لیے بہانہ ڈھونڈ رہے ہیں کیوں کہ ان کے سب دوست امیر خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور ان سب کے پاس روزگار بھی تھا ۔روزگار حاصل کرنے کے لیے اس نے بھی بہت کوشش کی ۔بہت بار فارم بھی بھرے مگر وہ ہر بار ناکام ہی رہا۔اور گھر کی مالی حالت دن بہ دن بگڑتی ہی جا رہی تھی۔والد نے بھی اب بستر پکڑ لیا تھا ۔وہ اپنے تقدیر پر روتا رہا۔‘‘کیا اللہ نے میرے لیے روزگار کا دروازہ بند کردیا ہے؟کیا میں ناقابل ہوں؟کیا میں نے زیادہ گناہ کیے ہیں جس کی مجھے یہ سزا مل رہی ہے؟’’۔یہ سب سوالات اس کے ذہن میں رقص کرنے لگے اور وہ ان سوالات کے جوابات مسلسل ڈھونڈھتا رہا مگر اس کے اختیار میں سوچنے کے سوا کچھ تھا ہی نہیں اور جب وہ خیالوں کی دنیا سے نکل آتا ہے اس وقت صبح ہوچکی ہوتی ہے۔وہ جلدی جلدی نہا دھو کر کیچن میں چائے پینے کے لیے گیا ۔اس کا دوست مدثر ان کے گھر والوں سے محو گفتگو تھا۔مدثر کو دیکھ کر اس کی پریشانی میں تھوڑی بہت کمی ہو جاتی ہے اور اس کے منہ سے بے ساختہ یہ الفاظ نکل جاتے ہیں ۔‘‘یار آج کیسے آنا ہوا ۔آپ تو عید کا چاند ہو گئے ہو!کیا بات ہے گھر میں سب ٹھیک ہے نا؟’’
‘‘ ہاں سب ٹھیک ہے اور آپ کو پتا ہی ہے کہ شادی کے بعد انسان آزاد نہیں ہوتا بلکہ اپنی بیوی کے حکم کے مطابق چلتا ہے ’’
‘‘ ہاں وہ تو ہے ہی’’
‘‘ اچھا اب تم بھی شادی کر لو یا ر!۔اب تمہاری عمر بھی ۳۰ کے قریب ہو چکی ہے پھر شادی کیا بڑھاپے میں کروگے؟’’
‘‘ سمجھاؤ اسے!’’ فاطمہ اچانک بول پڑی۔‘‘ یہ ہماری ایک بھی نہیں مانتا ۔ہم نے اسے کہا تھا کہ اگر تمہیں خود کوئی لڑکی پسند ہے تو ہم ان کے گھر والوں سے بات کرینگے ،نہیں تو اس کے ماموں نے بہت بار کہا تھا کہ اس کی شادی رقیا سے کرینگے۔کیا وہ اچھی نہیں ہے؟ ’’
‘‘ ہاں تم صحیح کہتی ہو امی!۔میں اپنے بھائی کو دولہا دیکھنا چاہتی ہوں ۔اس کے بعد ہی میں اس گھر سے رخصت ہوں گی’’
‘‘ زینب ایسا مت کہو ۔پہلے تمہاری باری ہے ۔اس کے بعد ہی میں سوچوں گا۔’’
‘‘ یار اس میں سوچنا کیا ہے آپ اتنے خوبصورت ہو۔آپ کی شادی تو ایک ہی دن میں پکی ہوجائے گی اور وہ بھی کسی خوبصورت لڑکی سے۔آپ اتنے ذہین ہو ۔آپ کے پاس اتنی تعلیم ہے ۔آپ کے لیے لڑکی ڈھونڈنا مشکل نہیں ہے’’
‘‘ یار اللہ نے مجھے خوبصورت بنایا ہے اور ذہین بھی اس کے لیے میں اللہ کا بہت شکر گزار ہوں لیکن میرے پاس اس وقت آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں ہے میں بے روزگار ہوں ۔اس وقت میں مشکل سے گھروالوں کی کمائی سے اپنا پیٹ بھر لیتا ہوں ۔اس بے روزگاری میں میرے لیے شادی سے آسان خودکشی ہے۔’’
‘‘ اللہ خیر کرے !میرے لال ایسا نہیں کہتے ۔تم ہمارا اکلوتا سہارا ہو۔ تمہارے لیے ہی تو ہم زندہ ہیں ۔تم پریشان کیوں ہو تے ہو۔ اللہ سب کا ایک ہی ہے وہ تمہیں اچھا روزگار عطا کرے گا ۔بس صبر کرو اور ہمت نہ ہارو سب ٹھیک ہوجائے گا’’
‘‘ اپنی امی اور زینب کے آنکھوں میں آنسو دیکھ کر زاہد سے رہا نہیں گیا ۔اس نے جلدی سے امی کے آنسو اپنے ٹاویل سے صاف کیے اور کہا۔امی رو مت تیرا بیٹا بہادر ہے اس نے کبھی نہ ہمت ہاری ہے اور نہ ہارے گا ۔ایک نہ ایک دن آپ کا بیٹا بڑا آفیسر بن کے دکھائے گا۔تیرا بیٹا بہت ذہین ہے ۔تم پریشان کیوں ہو تی ہو۔وقت کے ساتھ ساتھ سب ٹھیک ہو جائے گا ’’
‘‘ یار تم ٹھیک کہتے ہو امی رو مت! سب ٹھیک ہو جائے گا ۔اچھا زاہد اب میں چلتا ہوں ۔میری بیوی میرا انتظار کر رہی ہوگی۔’’
‘‘ ٹھیک ہے یار موقع ملے تو پھر سے ہمارے غریب خانے میں تشریف رکھنا ۔’’
‘‘ ہاں کیوں نہیں ۔میں تو موقع ملتے ہی آجاوں گا ۔اللہ حافظ ’’
‘‘ اللہ حافظ ’’
روز کی طرح زاہد آج بھی اپنے موبائل فون میں ملازمت کی نوٹیفیکشن ڈھونڈتا رہا ہے۔اچانک اس کی نظر اسسٹنٹ پروفیسرکی نوٹیفیکیشن پر پڑی ۔جس میں لکھا تھا کہ اردو کے لیے ساٹھ سیٹیں خالی ہیں اور فارم بھرنے کی آخری تاریخ ۲۶ جنوری ہے۔ جو لوگ فارم بھرنا چاہتے ہے وہ ۲۶ تاریخ تک اپنا فارم اور فیس جمع کرا سکتے ہیں۔زاہد یہ نوٹیفیکشن دیکھ کر بہت خوش ہوجاتا ہے اور اسے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ نوٹیفکیشن صرف اور صرف اس کی بے روزگاری کو مدنظر رکھ کر نکالی گئی ہو۔وہ جلدی جلدی کیچن میں دوڑ کرچلا جاتا ہے۔ ‘‘ابو !،امی!،زینب !یہ دیکھو اسسٹنٹ پروفیسرکے لیے فارم نکلے ہیں ۔میں دو سال سے اس کا انتظار کر رہا تھا ۔آج آخر نکل ہی گئے’’۔
‘‘ بیٹا مجھے آپ پر فخر ہے آپ نے آج تک کبھی بھی مجھے پیسوں کے لیے تنگ نہیں کیا اور نہ ہی کسی برے کام کا ساتھ دیا ۔آپ تو ہمیشہ صادق اور امین بن کے رہے ہیں اور آپ کی وجہ سے ہی گاؤں والے میری عزت کرتے ہیں ۔اللہ آپ کو کامیابی و کامرانی سے نوازے۔’’
‘‘ آمین !’’
زاہد نے اپنے دوست سبزار کو فون کر کے بتا یا۔‘‘ بھائی آج میں بہت خوش ہوں ۔تم مجھے سے مل سکتے ہو؟ ’’
‘‘کیوں نہیں !میں اس وقت بجبہاڑہ میں ہوں اور دس منٹ کے بعد میں گھر پہنچ جاوں گا توضرور ملیں گے’’یہ کہہ کر اس نے فون رکھ دیا۔تھوڑی دیر بعد سبزاران کے گھر آیا ۔
‘‘کہیں تمہاری شادی توطے نہیں ہوئی ؟’’سبزار نے آتے ہی سوال کیا ۔
‘‘ نہیں بھائی !شادی تو طے نہیں ہوئی البتہ نوکری لگنے کے بہت چانسزہیں۔یہ دیکھو اطلاع نامہ’’
‘‘اچھا ٹھیک ہے! ۔میرے لیے اگر کوئی حکم ہے تو بتائیے۔تمہارا دوست ہمیشہ تمہارے ساتھ ہے اور میں نے تم سے کئی بار کہا کہ اللہ اپنے وقت پر سب کو عطا کرتا ہے ۔تمہیں یاد ہے نا!۔ ’’
‘‘ہاں یار مجھے سب یاد ہے’’ زاہد نے پرانی یادوں کو دوہرانا بہتر نہیں سمجھا اور کہا۔ ‘‘یار اس فارم میں ایک ہزار کا فیس بھرنا ہے تم میری مدد کردو۔ میں تمہیں امتحان کے بعد واپس کروں گا ۔میں نے آج تک آپ کو کبھی کچھ نہیں مانگا لیکن آج میں مجبور ہوں میرے ابو بیمار ہیں۔’’
‘‘ یار یہ بھی کوئی بات ہے!۔تم پریشان مت ہو ۔میری تنخوہ ۲۴ کو آئے گی تو میں تمہیں ایک کے بجائے دو ہزار دوں گا۔آخر تمہارا دوست ہوں تمہاری بے بسی مجھ سے کیسے برداشت ہو سکتی ہے۔اچھا مجھے گھر میں تھوڑا بہت کام ہے اور کل سویرے مجھے ڈیوٹی پر بھی جانا ہے اس لیے مجھے اجازت دو۔’’
‘‘ آپ نے تو میری پریشانی ہی دور کردی ۔اپنا خیال رکھنا ’’
یہ کہ کر زاہد سوچنے لگا کہ سبزار کتنا اچھا ہے ۔میں نے اس کے خلاف کیا کیا سوچا تھا لیکن وہ کیسا نکلا ۔میں ہی غلط ہوں ۔اصل میں کسی انسان کو جانچنا ایک بیوقوفانا عمل ہے اور وہ بھی دوستی میں ۔خدا مجھے معاف کرے’’کچھ دنوں کے بعد وہ سبزارکو فون کرتا ہے۔لیکن اس کا فون سوچ آف آرہا تھا۔زاہد کی پریشانی پھر سے بڑھ گئی ۔اس نے دو دن لگاتارسبزارکو فون ملایا ۔اس کا فون یا تو سوچ آف آرہا تھا یا کبھی کبھی وہ ویٹنگ میں ہوتاتھا۔زاہد جلدی جلدی اپنا فون دکان دار کے پاس بیچنے کے لیے لے جاتا ہے۔
‘‘ جناب مجھے اپنا فون بیچنا ہے کتنا دو گے’’
‘‘ کون سا فون ہے ذرا دکھاؤ’’
‘‘ یہ دیکھو جناب ’’
‘‘ ایک ہزار دوں گا چاہیے’’
‘‘ ٹھیک ہے دے دو ’’
پیسے لے کر زاہد فارم بھرنے چلا گیا اور امتحان کی تیاری میں اس قدر مصروف رہنے لگا کہ کبھی کبھی دو دن کے بعد اسے کھانا یاد آتا تھا۔امتحان دینے کے بعد وہ بہت خوش ہو ا کیونکہ ۱۰۰ میں سے اس کے ۹۸ مارکس ٹھیک ہوگئے ۔ اس کے گھر میں خوشی کا ماحول تھا ۔امی ،ابو،بہن سب خوش تھے۔ بیس دن کے بعد اس کا وائیوا ہوا اور تمام سوالوں کے جواب اس نے آرام سے دے دیے ۔
ابھی دروازے سے باہر قدم رکھا ہی تھا کہ اس کے سامنے دو تین لڑکے کھڑے ہو گئے اور ان سے سوال کرنے لگے۔
‘‘ زاہد ‘‘ زبانی امتحان ’’کیسا رہا ؟’’سب نے ایک ساتھ کہا۔
‘‘ جی الحمدواللہ بہت اچھا رہا ۔آپ سب کا کیسا رہا؟’’یہ سن کر وہ سب ہنسنے لگے ۔
‘‘ کیوں کیا بات ہے آپ لوگ جواب دینے کے بجائے ہنس کیوں رہے ہو؟’’
‘‘ زاہد صاحب ہم لوگوں نے پندرہ پندرہ لاکھ دیے ہیں اور ہماری سلیکشن وائیوے کے بغیر ہی پکی ہے اور ہاں جتنی بھی سیٹیں ہیں ان سب کے لیے ہم نے پہلے ہی مال بھر دیا ہے۔آج کے دور میں قابلیت نہیں مال چلتا ہے جس کے پاس مال ہوگا وہی نوکری حاصل کر ے گا۔یہ سب کہنے کے بعد وہ سب پھر سے ہنسنے لگے ، زاہد یہ سن کر کسی اور ہی عالم میں کھو گیا لیکن اس نے ہمت کی اور اپنے روم پر دوڑ کے چلا گیا۔ رات کے دس بج گئے تھے وہ ابھی بھی اپنے بستر میں ان باتوں کو یاد کرکے رو رہا تھا ۔ اچانک فون کال دیکھ کر وہ ششدر رہ گیا۔ابو۔
‘‘بیٹا امتحان کیسا رہا؟’’
‘‘ بہت اچھا رہا ’’
‘‘ ٹھیک ہے بیٹا اللہ کامیاب کرئے ۔اچھا گھر کب آؤ گے ؟’’
‘‘ ابو کل تک نتائج آجائیں گے اور میں بھی کل ہی آجاوں گا’’
فون رکھتے ہی وہ سوچنے لگا کہ میرا زبانی امتحان تو بہت اچھا ہوا ہے ۔میری سلیکشن ہو کر ہی رہے گی۔سب سے پہلے میں اپنی امی اور ابو کو حج کراوں گا ۔اس کے بعد اپنی بہن زینب کی شادی دھوم دام سے کروں گا، غریبوں مسکینوں کی مدد تو میں بچپن سے کرنا چاہتا تھا لیکن قلیل آمدنی کی وجہ سے نہ کر سکا ۔اب انشاء اللہ مجھے موقع ملے گا۔یہ سب سوچ کر وہ ان لڑکوں کے باتوں کو بھول ہی جاتا ہے اور رات کیسے گزرتی اسے پتا ہی نہ چلتا۔ صبح کے دس بج چکے تھے ۔اس نے فون دیکھا ۔نتائج کی فہرست پر نظر پڑتے ہی اس نے اپنا نام تلاش کرنا چاہا مگربے سود ، فہرست میں صرف وہی لڑکے شامل تھے جن کے بارے میں اس نے پہلے ہی سنا تھا۔یہ سب دیکھ کر اس کے ذہن میں وہی خیا ل دوڑنے لگے۔‘‘ زاہد صاحب جس کے پاس مال ہوگا وہی نوکری کرسکتا ہے’’ اس نے کچھ سوچے سمجھے بغیر ہی تیسری منزل سے چھلانگ لگائی۔لوگ دوڑتے دوڑتے اس کی طرف آنے لگے ۔اور اس کی لاش کو ان کے گھر تک پہنچانے کا بندوبست کرنے لگے۔اس کے گھر کے سامنے جب لوگوں کی آوازیں رقص کرنے لگی تو ان کے والد نے اپنی بیوی سے کہا۔
‘‘ دیکھ فاطمہ شاید آپ کا بیٹا کامیاب ہو کر آیا ہے اسی لیے محلے والے ہمارے گھر کے سامنے جمع ہو گئے ہیں ۔ آپ کے بیٹے نے شاید گاوں کا نام روشن کیا ہے۔ذراکھڑکی سے تو دیکھو’’۔فاطمہ نے جب کھڑکی کھولی تو اس کی نظر تابوت پر پڑی اس کو چکر آگیاجس کی وجہ سے اس کی موت واقع ہوجاتی ہے۔اس کا ابو پہلے سے ہی مہلک بیماری میں مبتلا تھا ۔وہ بھی کھڑکی کی طرف بڑے بڑے ڈگ بھرنے لگا ۔جب اس کی نظر اپنے لخت جگر کے چہرے پر پڑتی ہے تو وہ کھڑکی سے چھلانگ مارتا ہے جس کی وجہ سے اس کی بھی موت واقع ہو جاتی ہے۔
***