You are currently viewing اصلی گھر

اصلی گھر

شاہینہ یوسف

ریسرچ اسکالر شعبہ اردو سینٹرل یونی ورسٹی آف کشمیر۔

                      افسانہ ۔۔۔۔۔اصلی گھر

میں اکثر یہ سوچتی رہتی تھی کہ گھر اور مکان میں کیا فرق ہے ؟یوں تو عام لوگوں کے لیے واقعی ا ن دونوں میں کوئی تفاوت نہیں ‘ لیکن میرے ذہن میں ان دونوں کے درمیان ویسا ہی فرق محسوس ہوتا تھا جیساکہ زندہ انسان اور ُمردہ انسان میں ۔ایک دن پتہ نہیں کیوں اس خیال نے مجھے کچھ زیادہ ہی ستانا شروع کیا تو میں نے اپنے   ابو سے یہی سوال پوچھا:

  ’’ابو مجھے گھر اور مکان کے بیچ کا فرق سمجھائیے ‘‘۔

ابو یہ سن کر تھوڑا مسکرائے اور بولے:

       ’’ بٹیا۔۔۔ہر گھر مکان تو ہوسکتا ہے لیکن ضروری نہیں کہ ہر مکان کو گھر گردانا جائے ۔مکان کو گھر اس میں

       رہنے والے لوگ بناتے ہیں یا اگر ہم یوں بھی کہیںکہ مکان کو گھر اس گھر کی عورت بناتی ہے تو غلط نہ ہوگا۔‘‘

   یہ تسلی بخش جواب سن کر میں ابو کے کمرے سے باہر نکلی اور اپنے کمرے میں چلی گئی۔میں ابھی بیٹھی بھی نہ تھی کہ پڑوسی کے گھر سے شورشرابہ اور رونے کی آوازیں آئیں ۔لڑائیاں ،جھگڑے ،ناراضگیاں ویسے یہ سب کس گھر میں نہیں ہوتا ہے ۔لیکن اتنا شور شرابہ اس سے پہلے پڑوسی کے گھر وںسے کبھی کسی نے نہیں سنا تھا ۔

         میں نے کھڑکی کھول کر بہت چاہا کہ میں ان لوگوں کے درمیان لڑائی جھگڑے کی وجہ جان سکوں لیکن میں کسی بھی آواز کو صاف طور سے سُن نہ پائی ۔ویسے بھی کسی گھر کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے ‘یہی سوچ کر میں نے کھڑکی بند کرکے کمرے کی بتی بجھائی ۔صبح بیدار ہونے کے بعدجوں ہی ہم سب چائے پینے کے لیے ایک ساتھ کچن میں جمع ہوئے تو ہمیں اب اسی گھر سے دوبارہ رونے کی آوازیں سنائی دیں اور ہم سب افرادِ خانہ کا دھیان چائے سے ہٹ کر ان کے رونے کی طرف چلاگیا۔آج کل کی دنیا میں انسان کا ایک دوسرے سے تعلق یوں تو نا ہونے کے برابر ہے لیکن ابھی بھی دنیا میں کچھ لوگ ایسے ہیں کہ جنہیں دوسروں کے دکھ سے تکلیف ہوتی ہے اور دوسروں

کے اس درد کو دور کرنے کی وہ بھر پور سعی کرتے ہیں۔مجھ پر بھی ابھی تک اللہ کی ایسی ہی مہربانی ہے کہ میں بھی اگر کسی کو

دکھی دیکھوں تو میں بے قرار ہوجاتی ہوں اور یہی حال اس وقت بھی ہوا ۔میں ان پڑوسیوں کے رونے سے بے قرار

ہوگئی۔میں نے امی کو ان کے گھر جانے کو کہہ دیا ۔یہ سنتے ہی امی نے فوراََ ان کے گھر کی راہ لی ۔ وہاں سے واپس آنے کے بعد امی نے بتایا کہ ان پڑوسیوں کی اکلوتی بیٹی جو ایک سال پہلے شادی کر کے اپنے گھر رخصت ہوگئی تھی ‘کی آج سسرال میں موت ہوگئی ہے۔جوں ہی میں نے روحی کی موت کی خبر سُنی تو میں حواس باختہ ہو کر رہ گئی ۔کچھ پل مجھے محسوس ہوا کہ میں کوئی خواب دیکھ رہی ہوں لیکن امی کے بار بار کہنے پرمجھے یقین کرنا ہی پڑا۔روحی اور میں نے بچپن سے جوانی کی دہلیز پر اکھٹے قدم رکھا تھا ۔ہم ایک ساتھ کھیلتے بھی تھے اور ایک ہی اسکول میں تعلیم بھی حاصل کی تھی۔

                  مجھے روحی کے ساتھ بچپن سے لے کر جوانی تک کے وہ سارے لمحے یاد آنے لگے جو ہم نے ایک ساتھ گزارے تھے ۔روحی یوں تو بچپن سے ہی بہت حساس تھی اور اس نے اسی لیے زندگی میں کئی سمجھوتے کیے ۔کبھی کسی کے غصے کو نظر انداز کیا تو کبھی کسی کی بے رُخی کو ۔کبھی اپنے تئیں دوسروں کے غلط رویوں کو برداشت کیا ۔لیکن شاید روحی کو کبھی بھی ایسا شخص نہ ملا جو اس سے سمجھ لیتا اور اگر ایساہوا ہوتا تو یقیناََ روحی آج ہمارے درمیان زندہ ہوتی۔میں یوں تو پڑوسیوں کے یہاں کم ہی جاتی ہوں لیکن روحی کی موت سے میرے دل کے تار جیسے ہل گئے اور میں خود پے قابو نہ پا کر اپنی سہیلی کو آخری بار دیکھنے چلی گئی۔وہاں پہنچ کر جوں ہی میں نے روحی کا چہرہ دیکھا تو وہ آج بھی مجھ سے وہی سوال کر رہا تھا جو سوال روحی نے مجھ سے شادی کے ایک ہفتے بعد کیا تھا:

    ’’ ہم لڑکیوں کا حقیقی گھر آخر کون سا ہے ؟ جب میکے میں ہوتے ہیں تب وہاں ہمیں روز یہی سُننے کو ملتا ہے

 کہ اس سے شادی کے بعد اپنے گھر جانا ہے اور جوں ہی شادی ہوجاتی ہے تو وہاں ہمیں کبھی بھی اس گھر پے حق جتانے نہیں دیا جاتا جس گھر کے لیے ہم میکے کے عیش و آرام چھوڑ کے آئے ہوتے ہیں اور وہاں بھی ہر دن یہی سننے کو ملتا ہے کہ یہ دوسرے گھر سے آئی ہے اور اس گھر پے اس کا کوئی اختیار نہیں۔‘‘

روحی نے جیتے جی جب مجھ سے یہ سوالات کئی بار پوچھے تب میں اس کے کسی بھی سوال کا کوئی جواب نہ دے پائی تھی‘ شاید وجہ یہ بھی تھی کہ اُس وقت روحی کے سوال کا میرے پاس کوئی معقول جواب نہ تھا لیکن آج روحی کی موت سے مجھے اس سوال کا جواب خود بہ خود سمجھ میں آگیا کہ واقعی مرنے کے بعدہی عورت کو ایک ایسا گھر ملتا ہے جہاں اُس سے کوئی دوسرے گھر بھیجنے کی تاک میں نہیں ہوتا اور نا ہی اس سے کوئی وہاں طعنے دے کر نکال سکتاہے ۔روحی کی والدہ نے مجھے

گلے لگا کر کہا:

’’ شیمہ بیٹا میری روحی کو بیدار کرو اس غنودگی سے ،اس سے کہو کہ اس کی والدہ اس کی کمی کا ازالہ نہیں کر پائے گی ‘‘۔

 مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے روتے روتے روحی کی والدہ سے پوچھا :

’’آخر۔۔۔۔۔۔آخر روحی ایسا کیا برداشت کر رہی تھی جو اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور اس نے موت کو گلے لگایا۔‘‘

روحی کی والدہ مجھ سے کچھ کہنے ہی والی تھی کہ میری نظر روحی کی بند مٹھی پر پڑ ی۔ مجھے اس مٹھی میں ایک کاغذ کا کچھ حصہ دکھائی دیا ۔میں نے اس کی مٹھی کو کھولنے کی کافی کوشش کی لیکن میں ناکام رہی ۔میں نے روحی کے ساتھ ہی بیٹھے اس کے بھائی یاسر کی بھی اس طرف توجہ مرکوز کی اور ہم دونوں نے روحی کے ہاتھ سے یہ کاغذنکالنے کی کوشش کی اوربہت تگ ودو کے بعد ہم نے روحی کے ہاتھ سے وہ پرچہ صحیح سلامت نکالا جو روحی نے آخری بار تحریر کیا تھا ۔ہم نے جوں ہی وہ ورق کھولا تو اس میں کچھ یوں لکھا تھاکہ:

’’ میں نے کافی کوشش کی کہ میں اپنے شوہر کو خوش رکھوں ،اس سے ویسے ہی باتیں کروں جیسے ہر میاں بیوی کرتے ہیں ،اس کے ساتھ دوست کی طرح رہوں ،لیکن میں جتنی بھی کوشش کرتی گئی وہ اتنا ہی مجھ سے ناراض ہوتے رہے۔شاید ایسا  اس لیے تھا کہ وہ شروع سے ہی مجھے ناپسند کرتے تھے۔اگر ایسا ہی تھا تو کاش اس نے مجھے شادی سے پہلے ہی بتایا ہوتا تو میں اس رشتے کے لیے انکارکر دیتی۔ وہ مجھے روز طعنے دیتے اور مجھے میکے جانے کے لیے کہتے رہتے ۔میں یہ سن کر سوچتی رہتی کہ میرا اپنا حقیقی گھر کون سا ہے؟ اس بات کا جواب ڈھونڈنے کی میں نے کافی کوشش کی لیکن مجھے اس سوال کا ابھی تک کوئی جواب نہ مل پایا ۔اس لیے میں نے سوچا کہ شوہر سے لڑ کر اگر میں میکے چلی بھی گئی تو وہاں میری بھابی اور گھر کے باقی افراد مجھے سسرال بھیجنے کے لیے مجبور کر یںگے جبکہ ان دونوں گھروں میں میرا حقیقی گھر کوئی ہے ہی نہیں ۔اس لیے میں نے یہی فیصلہ کیا کہ میں موت کو ہی گلے لگاؤں اور اپنے رب کے پاس جا کر اسے یہی سوال کروں جس کا جواب مجھے آج تک نہیں ملا کہ لڑکی کا حقیقی گھر آخر کو نسا ہوتا ہے؟تاکہ کبھی کسی لڑکی کو میری طرح اللہ سے پوچھنے کے لیے اپنی جان نہ دینی پڑے ۔‘‘

یہ پڑھتے پڑھتے میں زاروقطار رونے لگی اور میری آنکھوں سے گرے ہوئے اشکوں سے یہ خط بھی تر ہوگیا ۔میں نے یہاں بیٹھنے کی بجائے گھر جانے کو ترجیح دی ۔گھر پہنچ کر میں نے کافی کوشش کی کہ میں کچھ دیر کے لیے سو جاؤں لیکن میں جوں ہی آنکھیں بند کر تی توایک طرف ابو کا جملہ یاد آتا کہ ’’مکان کو گھر اس گھر کی عورت بناتی ہے ۔‘‘اور دوسری جانب میرے دل کو روحی کا یہی جملہ پارہ پارہ کرتا کہ آخر لڑکی کا اصلی گھر کون سا ہے۔۔؟

***

Leave a Reply