You are currently viewing “گردش ِ رنگ چمن” کا اُسلوبیاتی  مطالعہ: معنیاتی تناظرات

“گردش ِ رنگ چمن” کا اُسلوبیاتی  مطالعہ: معنیاتی تناظرات

ڈاکٹر عامر سہیل

صدرِ شعبہ ء اُردو،ایبٹ آباد پبلک  کالج،پاکستان

“گردش ِ رنگ چمن” کا اُسلوبیاتی  مطالعہ: معنیاتی تناظرات

قرۃ العین حیدر  کا شمار اُردو ادب کی اہم اور وقیع شخصیات میں ہوتا ہے۔وہ ایک غیر معمولی تخلیقی  ذہن کی مالک تھیں۔اُن کا ادبی سرمایہ وسیع اور متنوع ہے۔اگر اُن کے علمی و ادبی  کارناموں پر توجہ کی جائے تو اس میں فکشن کے حوالے سے  افسانہ ،ناول اور ناولٹ سب سے نمایاں نظر آتے ہیں لیکن  انھوں نے رپورتاژ اورتراجم(انگریزی سے اُردو اور اُردو سے انگریزی)  کے علاوہ کچھ اہم ادبی کتابوں کی ترتیب و تہذیب میں بھی  اپنی دل چسپی دکھائی ہے۔قرۃ العین حیدر کے حوالے سے اب تک انفرادی حیثیت سے یا جامعات میں جو تحقیقی و تنقیدی کام ہوئے اُن میں زیادہ تر فکری اور سماجی تناظرات پر توجہ صرف کی گئی ہے جب کہ خالص لسانیاتی بنیادوںپر ان  کے اُسلوب کو منکشف کرنے کا کام نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس مقالے میں یہ کوشش کی جائے گی کہ لسانیاتی اصولوں سے مدد لیتے ہوئے ان کے ایک اہم ناول”گردشِ رنگ ِ چمن”(1) کی اُسلوبیاتی اور معنیاتی سطحوں کو دریافت کیا جائے۔

اُردو ادب کی موجود صورتِ حال میں  “اُسلوب “اور” اُسلوبیات” کے مابین فرق کیا جانے لگا ہے۔اب اُسلوب کی بنیاد ادبی متصور ہوتی ہے جب کہ اُسلوبیات کا تمام تر دارومدار لسانیات پر اُستوار ہے۔ لسانیات  ایک وسیع اور پیچیدہ موضوع ہے اس کی حدود اور وسعت کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ ادب کے علاوہ ،تاریخ، نفسیات، عمرانیات،بشریات،فلسفہ،منطق اور اساطیر کے ماہرین اورمحققین بھی اس میں گہری دل دلچسپی رکھتے ہیں۔لسانیات کا یہی  تنوع  اسے ایک ہمہ گیر مضمون بناتا ہےاورادب کی طرح  اس  کا دائرہ  اثر بھی بین  العلومی ہے۔ علم ِلسانیات کی رو سے معنی کا معروضی مطالعہ معنیات((Semantics کہلاتا ہے۔یہ انگریزی لفظ اصل میں یونانی زبان کی اصطلاح “Semantikos” سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے معنی کی طرف اشارہ کرنا یا دلالت کرنا ہے۔علم فلسفہ اور منطق میں بھی معنیات کا عمل دخل بہت زیادہ ہے کیوں وہاں معنی کے تمام سلسلے منطقی  اُصولوں کے تحت ابلاغ  کا فریضہ ادا کرتے ہیں۔فلسفہء لسان یا زبان کی تھیوری میں معنیات ایک کلیدی کردار رکھتی ہے۔معنیات صرف    زبان میں موجود الفاظ  ومرکبات سے ہی بحث نہیں کرتی بلکہ    نشان،علامت یا کوئی بھی ایسی شئے جو معنی  کا درجہ رکھتی ہو اس کی اقلیم میں شامل  ہو جاتی ہے۔

معنیات کا فکری اور نظریاتی پہلو  خا صی وسعتوں کا حامل ہے  جس کی وجہ سے معنی کی تلاش،لفظ اور معنی کا آپسی رشتہ،زبان کی صوری،معنوی،رسمی اور منطقی کارکردگی،معانی کی اقسام،مترادفات،متضاد،استعاراتی اورتشبیہی تلازمات،لفظ کا تاریخی پس منظر اور تناظر،لفظ کے لغوی اور تعبیراتی معنوں کے معاملات بھی معنیات کے بنیادی مباحث کا حصہ ہیں۔ معنی کا ابہام اور دیگر معنوی تغیرات  بھی معنیات میں شامل ہیں۔تاریخی لسانیات میں معنیات  اس امر کا مطالعہ کرتی ہے کہ  ایک لفظ سے پیدا ہونے والی معنوی تغیرات  کی نوعیت کیا ہے اور اس کے اسباب کا تعین کن ذرائع سے ممکن بنایا جا سکتا ہے،تاہم جدید معنیات میں  انھی پیدا ہونے والے معنوں کو ہم کئی اور حوالوں سے جانچ پرکھ کر کسی حتمی نتیجے تک پہنچ سکتے ہیں۔دورِ جدید میں معنیاتی سطحوں کو  “معنی نما” اور ” خیال نما” کے طور پر دیکھنے کا رجحان ملتا ہے ان کا اصل  کام معنی کی تعبیراتی حد بندیوں کا تعین کرنا  ہے۔یہ بظاہر حیران کن امر ہے کہ معنیات کو لسانیات کی اہم شاخ ہونے کے باوجود کافی عرصے تک وہ پذیرائی نہیں مل سکی جو اس کا جائز حق تھا۔ ڈاکٹر عبدالسلام اپنی تصنیف “عمومی لسانیات ایک تعارف “میں لکھتے ہیں:

“ماہرین ِ لسانیات نے بیسویں صدی کے وسط تک اس موضوع پر خاص توجہ نہیں دی۔ہوکٹ اور گلیسن کی کتابیں امریکہ میں اہم درسی کتابیں سمجھی جاتی رہی  ہیں مگر ان میں معنیات کا ذکر نہیں ہے۔اس سے ہم یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ انھوں نے اس موضوع کو لسانیات میں شامل ہی نہیں کیا۔آج بھی بہت سے ساختیاتی ماہرین معنی کے مطالعے کی اہمیت کے قائل نہیں ہیں بقول اسٹیفن اُلمان اِن منفی رویے کا سرا بلوم فیلڈ کی تعلیمات سے جا ملتا ہے۔” (2)

یہ سلسلہ زیادہ عرصہ قا ئم نہیں رہا کیوں کہ آنے والے لسانی  ماہرین نے  معنیات کا راستہ ہموار کردیا خصوصاً جب نوم چامسکی نے معنیات کو اپنی قواعد میں شامل کیا تو   اسے بھی رفتہ رفتہ علم السنہ کی ایک شاخ کا درجہ حاصل ہو گیا اور زبان و ادب کے مطالعات میں اس  کی اہمیت مسلمہ ہوگئی۔اس تمہید کے بعد معنیات کی تعریف   پر ایک نظر ڈالنا ضروری ہےتا کہ اس کے مزید پہلو  اُجاگر ہو سکیں۔اس ضمن میں اردو اور انگریزی دونوں مآخذ سے رجوع لازمی ہے کیوں کہ معنیات کے تمام علمی مباحث انگریزی کے توسط سے اُردو میں روشناس ہو رہے ہیں۔ڈاکٹر گیان چند  اپنی تصنیف ” لسانی مطالعے” میں حد درجہ اختصار لیکن جامعیت  کے ساتھ لکھتے ہیں:”معنیات  (semantics)میں لفظوں اور جملوں کے مفہوم سے بحث کی جاتی ہے”(3) اس تعریف کے بطون میں  یہ نکتہ  موجود ہے کہ جملوں میں مفہوم کی تلاش کا معاملہ لسانی حوالے سے  طے پائے گا اور اس کی نوعیت زیادہ تر افادی ہو گی اگرچہ جدید لسانی حکما  جمالیاتی عناصر کو بھی اس بحث  میں شامل کرنے کی سفارش کر تے ہیں تاہم کوئی حتمی رائے تاحال سامنے نہیں آ ئی۔ڈاکٹر الہیٰ بخش اختر اعوان نے “کشاف اصطلاحاتِ لسانیات” میں معنیات کے بارے میں لکھا ہے:

“لسانیات کا وہ شعبہ جو معانی پر بحث کرتا ہےیعنی جو حوالے اور محول کے تعلق کو زیرِ غور لاتا ہے اور ان محولات (الفاظ یا لسانی علامات) کے معانی کی تاریخ اور ان میں آنے والی تبدیلیوں کا تجزیہ کرتا ہے۔”(4)

معنیات کی تکنیکی بحث  اُس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتی جب تک کیٹی ویلس((Katie Wales کی اُسلوبیاتی قاموس کو اس میں شامل نہ کیا جائے۔ویلس نے معنیات کو درج ذیل چار حصوں میں منقسم کر دیا  ہے  تا کہ اس کی افادیت نکھر کر سامنے آ سکے:

(ا)        لغوی معنیات     ((Lexical Semantics

(2)     جملے کی معنیات    ((Sentence Semantics

(3)     بیانیہ معنیات      ((Narrative Semantics

(4)     ادبی معنیات               ((Literary Semantics (5)

ان تمام حوالہ جات کی روشنی میں یہ کہنا مناسب رہے گا کہ معنیات میں زبان کی لفظیات  کا عمل زیرِ بحث آتا ہے اور یہ دیکھا جاتا ہے کہ معنی کا تعین  ہم کیسے کر سکتے ہیں۔لسانیاتی فارم میں معنیات کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے اور تخلیقی ادب میں اس کی معاونت زبان و بیان کے نئے در وا کرتی ہے۔معنیات کی وجہ سے زبان میں موجود نشان،علامت اور دیگر رموز کی گرہ کشائی ممکن  ہو سکتی ہے۔معنیات کی ایک سادہ تعریف ڈیوڈ کرسٹل نے کی ہے اگر ایک نظر اسے بھی دیکھ لیا جائے تو تفہیمی عمل میں سہولت پیدا  ہو گی:

“معنیات وہ علم ہے جو معنی یا لسانیاتی فارموں کے معنیوں کا مطالعہ کرتا ہے۔اس علم میں سب سے پہلے یہ بتایا جاتا ہے کہ ان فارموں کا آپس میں کیا رشتہ ہے،اس کے بعد یہ دیکھا جاتا ہے کہ لسانیاتی فارموں اور  خارجی دنیا کے حقیقی مظاہر کے درمیان کیا رشتہ ہے جن کی جانب یہ فارمیں  اشارہ کرتی ہیں گویا معنیات کو اسما اور اشیا کے درمیان رابطے کا علم بھی کہا جا سکتا ہے۔”(6)

ڈیوڈ کرسٹل خود بھی یہ مانتا ہے کہ یہ تعریف سادہ ہے لیکن اس کے باوجود معنیات کے وہ  تمام لوازم  یہاں موجود ہیں جو  موضوع  پر روشنی ڈالتے ہیں۔اس کلاسیکی تعریف کا ذکر   کرنا یوں بھی ضروری  تھا تا کہ معنیات  کا  قدیم اور جدید تسلسل قائم رہ سکے۔معنیات کا جدید تصور اب نظریاتی اور فکری ماڈل کی بات کرتا ہے جہاں ہیئت کا معاملہ بھی شمولیت اختیار کرتا ہے اور  پھریہ بحث معنی کی ثقافتی جہتوں کو اپنے اندر سمیٹ لیتی ہے۔لسانیات کا یہ علمی مظہر معنی کی پیداواری صلاحت کو پوری قوت سے منکشف کرتا ہے۔معنیات کے ان بنیادی اور کلیدی مباحث کے بعد اب  قرۃ العین حیدر کے ناول “گردشِ رنگ ِچمن” کی طرف رجوع کرتے ہیں اور وہاں معنیات کی اطلاقی صورتوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

لسانی  انحراف یا فورگراونڈنگ کا  استعمال

         اُسلوبیاتی تنقید میں صرف تخلیقی متون کو زیرِ بحث لایا جاتا ہے کیوں کہ یہاں تحریر کا مقصد  براہِ راست اظہار نہیں  ہوتا بلکہ  ادبی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے  اشاروں اور کنایوں میں دل کی بات کہہ دی جاتی ہے۔تخلیقی اظہاریوں میں زبان جہاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو تی ہے وہاں  اس کی تخلیقیت متن کی جمالیاتی قدروں کو بھی منکشف کرتی چلی جاتی ہے۔زبان جب مقررہ لسانی ضابطوں سے انحراف کرتی ہے تو اس میں ندرت،تازگی اور وسعت آ جاتی   ہے  جس کی وجہ سے اظہار میں شدت اور جامعیت کی خصوصیات پیدا ہو نے لگتی ہیں۔تخلیقی زبان میں انحراف کا یہ عمل معنیاتی عدم مطابقت یا معنیاتی بے آہنگی بھی کہلاتا ہے۔لسانی انحراف یا فور گراؤنڈنگ کی جامع تعریف کے ضمن میں  درج ذیل مثال روشنی فراہم کرتی ہے:

” فور گراؤنڈنگ ادبی متن کا انحراف ہوتا ہے۔عموماً تخلیقی فن پارہ زبان کے نارم اور مروجہ قواعد کو توڑ کر ایک اجنبیت کی تعمیر کرتا ہے۔یہ “اجنبیت” لسانی اور معنوی سطح  پر موجود ہوتی ہے۔فور گراؤنڈنگ زبان کے نت انداز سے منفرد طرز ِ اظہار کو جنم دیتی ہے۔جس ادبی زبان کا استعمال جتنا زیادہ مروجہ قواعد سے ہٹا ہوا ہو گا اس زبان کی فورگراؤنڈنگ اتنی ہی زیادہ طاقت ور ہو گی۔فورگراؤنڈنگ نہ صرف فن پارے کو نت نئے لسانی ذائقوں کو آشنا کرواتی ہے بلکہ مروجہ زبان کے تخلیقی امکانات سے جمالیاتی سطح کو بھی زرخیز کرتی ہے۔” (7)

اس مقالے میں اُسلوبیات اور معنیات کے حوالے سے(بخوف ِ طوالت) صرف چار جہتوں پر بات  کی جائے گی جن میں لسانی انحراف،انگریزی الفاظ کی معنیاتی افادیت،شماریت اور سلینگ((Slang شامل ہیں۔اس خصوص میں سب سے پہلے”گردشِ رنگ ِچمن ” سے لسانی انحراف کی کچھ مثالیں پیش کی جاتی ہیں:

رات بھیگ چلی تھی مگر آستانے پر حسبِ معمول بے انتہا چہل پہل،گیس کی روشنیاں،مہانوں کی آمد و رفت۔”(8)

“اُنھوں نے آسیب زدہ ہجوم کی تصویریں کھینچیں۔”(9)

“صدر دروازے پر  گیس کی لالٹینیں،جنگل میں بھیگی ہوئی ہوائیں سنسنایا کیں۔اندر صحن سے بشاش قہقہوں کی آوازیں آرہی تھیں۔”(10)

” اب غنچوں کو نیند آرہی ہے۔تالاب کے کنارے جگنو اُڑ رہے ہیں۔خوابیدہ پھولوں کے درمیان باجیوں کا مکالمہ۔”(11)

ان  امثلہ پر ذرا غور کرنے کی ضرورت ہے۔بھیگنے کا عمل عموماً پانی سے مشروط ہے  جیسا کہ کپڑوں کا بھیگ جانا یا پودوں کا اوس میں بھیگ جانا لیکن یہاں رات  کے ایک خاص پہر کو بھیگ جانے سے مناسبت دی گئی ہے جس کی وجہ سے لسانی انحراف پیدا ہوا ہے۔اسی طرح کوئی گھر یا جگہ تو آسیب زدہ ہو سکتی ہے لیکن “آسیب زدہ ہجوم” کہنا اصل میں ایک ایسا خوب صورت اور معنی خیز اظہاریہ ہے جو محض لسانی انحراف کی وجہ سے وجودپذیر ہوا۔”بھیگی ہوئی ہوائیں” اور بشاش قہقہے” بھی   معنی خیزی کے عمل سے گزرے ہیں   اور ان میں لسانی انحراف کی وجہ سے  نئی قوت حاصل ہوئی ہے۔”غنچوں کا نیند آنا” اور پھولوں کا “خوابیدہ” ہوجانا بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اس تغیر کو “متبادل اظہارات” کا نام بھی دیا گیا ہے۔ لسانی انحراف کیوں کر پیدا ہوتا ہے اور ادب میں اس کی افادیت کیسے ظاہر ہوتی ہے اس ضمن میں مرزا خلیل احمد بیگ کی رائے بہت اہم ہے:

“جب کوئی شاعر یا ادیب اپنے تخلیقی اظہار کا استعمال کرتا ہے تو وہ اسے اس کی اصلی حالت میں نہیں برتتا،بلکہ اکثر اُس میں تنوع،جدت اور ندرت پیدا کرتا ہے جس کے لیے اُسے زبان میں تراش خراش،کاٹ چھانٹ اور توڑ ٌپھوڑ سے بھی کام لینا پڑتا ہے۔ اس عمل سے اگرچہ شعری اظہار میں سہولت اور زبان میں وسعت پیدا ہوتی ہے لیکن زبان اپنے روایتی ڈھرے سے ہٹ جاتی ہے جسے لسانی ضابطوں اور اصولوں سے انحراف کا نام دیا گیا ہے۔”(12)

ہر بڑا تخلیق کار خارج میں موجود  اشیا کو اپنے منفرد طرزِ احساس کے ساتھ باندھ کر پیش کرنے کا عادی ہوتا ہے اور اُس کی یہی ضرورت لسانی انحراف پیدا کرتی ہے۔یہ انحراف معنوی اور جمالیاتی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ قرۃ العین حیدر کو لسانی انحراف سے گہرا شغف ہے۔وہ اس ضمن میں بنے بنائے راستوں پر چلنا پسند نہیں کرتیں بلکہ ہر لحظہ نئی آن نئی برقِ تجلی  کی صورت  نئے نئے لسانی اظہاریے تراشتی رہتی ہیں۔وہ زبان سے کھیلتی ہیں اور دلی کیفیات کو بیان کرنے کی خاطر انوکھے اور اچھوتے الفاظ و مرکبات متعارف کراتی ہیں۔مذکورہ بالا  تمام مثالوں میں لسانی انحرافات کے جدید انداز اور پیٹرن نظر آتے ہیں۔

انگریزی زبان کے الفاظ وتراکیب

قرۃ العین حیدر کے ناولوں میں انگریزی زبان کے الفاظ ومرکبات جس روانی اور تواتر سے آتے ہیں وہ قاری کو کسی نہ کسی حوالے سے اپنی جانب متوجہ ضرور کرتے ہیں۔ان کی شاید ہی کوئی ایسی تحریر ہو جس میں انگریزی لفظیات  نظر نہ آئے ورنہ ہر ناول،ناولٹ،افسانہ اور دیگر متفرقات میں انگریزی بہانے بہانے سے اپنی جھلک دکھا جاتی ہے۔تاہم یہ امر واضح رہے کہ  انگریزی کا ہر لفظ اپنے ماحول  اور موقع محل کے تابع ہے۔کہیں کوئی کردار ایسا نکل آتا ہے جس کی زبان پر انگریزی  کی چھاپ  اتنی گہری ہوتی ہے کہ اس کے بغیر گزارا مشکل نظر آتا ہے۔عینی آپا کے ناولوں میں در آنے والے انگریزی الفاظ کی سادہ درجہ بندی یوں کی جاسکتی ہے:

1-مفرد الفاظ( انگریزی کے الفاظ اُردو میں لکھنے کی روش)

2-مرکب الفاظ اور تراکیب

3-انگریزی زبان کے الفاظ کو انگریزی میں لکھنا

4-انگریزی الفاظ کو اُردو میں تحریر کرنا(یہ رجحان حاوی ہے)

یہ معاملہ تو انگریزی کے ساتھ ہے لیکن اگر عینی آپا کا نمائندہ ناول “آگ کا دریا” دیکھا جائے تو  وہاں سنسکرت الفاظ،تراکیب،علامات،استعارے اور تشبیہات کا بے مثال ذخیرہ   موجود  نظر آتا ہے۔اس ناول میں  فنونِ لطیفہ کی پوری جادو نگری آباد ہے اور قاری  زبان وبیان کی کرشمہ سامانیوں  کا اثر قبول کرنے کے ساتھ ساتھ  ایک خاص عہد کی تہذیب و ثقافت  کا لطف بھی اُٹھاتا چلا جاتا ہے۔اگر یہ کہا جائے کہ قرۃ العین حیدر کے ناولوں  میں عالمی سماجیات  کےتمام اہم رنگ  موجود ہیں تو کچھ غلط نہ ہو گا۔صدیق الرحمٰن قدوائی  لکھتے ہیں:

“قرۃ العین حیدر کی تحریروں میں رقص،موسیقی اور پینٹنگ وغیرہ کی باریکیاں موجود ہیں۔ان کی تحریروں میں اتنے زیادہ خطے اور زندگی کی سطحیں تھیں کہ ظاہر ہوتا ہے  ان کی واقفیت ہندوستان سے ہی نہیں بلکہ دنیا سے بہت گہری تھی اور پھر اپنے علم و آگہی کو فکشن  کا رنگ دینا،یہ ایک غیر معمولی خلاقانہ مہارت چاہتا ہے۔وہ اُن غیر معمولی مصنفین میں ہیں جن کے یہاں ذہن کی نشوونما ہمیشہ ہوتی رہی اور وہ کسی ایک منزل پر ٹھہری نہیں۔”(13)

قرۃ العین حیدر کے ناولوں میں ویدک فلسفہ،بدھ مت،اسلام کی رنگا رنگی،ہندوستان کی کلاسیکی معاشرت  اور وہاں کی  چلتی پھرتی تصویریں،بنگال کی سیاسی اور انقلابی تحریکات،لکھنؤ کا تہذیبی عروج و زوال،جدید سماج کا بیانیہ،انقلابی اور اشتراکی نظریات کی جولانیاں،تصوف  کے گہرے فکری مسائل،جاگیر داری کی فسوں کاری اور ذہنی جلاوطنی کے تلخ تجربات بکھرے پڑے ہیں۔

         اس رنگا رنگ  اور تنوع پذیر ادبی واقداری دنیا کی تجسیم و ترسیل کی خاطر قرۃ العین حیدر کو لسانی سطح پر کئی محاذ کھولنے پڑ گئے تھے۔اس وجہ سے ایک عام قاری کو بھی ان کے ناولوں میں زبان و بیان کے متنوع ذائقے متاثر کرتے ہیں۔ذیل میں سب سے پہلے ان کے تخلیقی متون  میں انگریزی الفاظ  کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا جاتا ہے۔تاہم یہ بات بھی خاطر نشین رہے کہ  قرۃالعین حیدر کے کسی ایک ناول کو سامنے رکھ کر  یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ وہ اپنی تحریروں میں انگریزی اور انگریزیت کا استعمال کس حد تک کرتی ہیں،اس کے لیے اُ ن کا ہر ناول الگ الگ داستان سناتا ہے اور بہتر طریقہ یہی ہے کہ عینی آپا کے ہر ناول کو فرداً فرداً زیرِ بحث لا کر اُس میں شامل انگریزی کو نشان زد کیا جائے تا کہ آخر میں مجموعی تجزیات و نتائج تک ہماری رسائی ممکن ہو سکے۔اس صورتِ حال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یو ں تو کسی بھی ناول سے آغاز کیا جاسکتا ہے لیکن “گردشِ رنگِ چمن”کا متن اس حوالے سے خاص ہے کہ یہاں انگریزی مثالوں کی  کثرت ہمارے مطالعے میں معاونت کرتی ہے۔ اس ناول میں انگریزی کے   موضوعی اور ارتباطی دونوں قسم کے الفاظ شامل ہیں بلکہ ناول کی فہرست میں ہی “پورٹریٹ آف اے ناچ گرل” اور “ہیلتھ کلب” جیسے مرکبات ہمارے سامنے آنا شروع ہو جاتے ہیں،مزید کچھ مثالیں ملاحظہ ہوں:

(ا)  “ابھی ماشا میں ایک باتھ روم جو Addکرنا ہے ۔”(14)

2) ” ہاں،تاکہ انگلش کنٹری سائیڈ کی یاد دلاتا رہے،تمھاری امی جب فلاور شو میں اپنے گلاب بھیجیں تو انھیں چاہیئے  کہ کارڈ پر محض گل عندلیب لکھ دیں۔۔۔کیوں کہ عندلیب بانو ان کا نام ہے اور Hybrid گلاب اُگانا اُن کا مشغلہ۔تم اپنے کچن گارڈن  کے پھول گوبھی  بھیج دینا۔”(15)

3) ” پھر تم ایسے سوفیسٹی کیٹڈ کیوں  کربنے۔؟ لمبا قصہ ہے بائیس سال کی عمر سے برٹش اور امریکن اَپر کلاس والوں کی صحبت۔دس سال Boston Brahminsکاعلاج  معالجہ۔لیکن تمھیں ایک بات بتاوں؟ اپنے اوریجن کو نہیں بھولا۔۔اوریجن یاد رکھنا ضروری ہے۔”(16)

اگر یہ کہا جائے کہ “گردشِ رنگِ چمن” میں انگریزی الفاظ بلکہ انگریزیت کی بھرمار ہے تو کچھ ایسا غلط نہ ہو گا۔صفحوں کے صفحے انگریزی الفاظ و تراکیب سے لدے نظر آتے ہیں۔صفحہ نمبر 552 پر تو ایک انگریزی گیت کا متن  تک لکھ دیا گیا ہے۔انگریزی الفاظ کو اُردو رسمِ خط میں لکھنے کا رجحان بھی اس ناول میں حد درجہ عام ہے۔یہاں قاری کا واسطہ بار بار ایسے الفاظ سے پڑتا ہے:تھینک یو،رائٹ،انٹروڈیوس،آؤٹ،گٹ آؤٹ،اوریجن،ریسرچ،سٹائل،ٹیلنٹ، انڈین آرٹ ، اوریجنل ، سوری،گریٹ گرینڈ فادر،واک آؤٹ،ہیڈ کک،مرچنٹ بزنس،فیچر،سو فیسٹی کیٹڈ،یس میم،ویٹنگ روم، اور فوٹو گراف۔کہیں تو آدھا لفظ اُردو اور آدھا انگریزی کا لگا کر بات مکمل کرنے کی سعی ملتی ہے جیسا کہ”ناچ گرل”،”سوشلسٹ انقلاب”،”رومینٹک چیز”،”تاریخی سیچوئشن “اور “شرمناک سکینڈل” وغیرہ۔ اس کے ساتھ ساتھ انگریزی الفاظ انگریزی رسمِ خط میں بھی دل کھول کر لکھے گئے ہیں،مثلاً Caption,Absurd,Silly Goose,Hope,Wog,Figure of Tragedy,Dominate.ایسے انگریزی الفاظ بھی اس ناول میں بکثرت ملتے ہیں اور اکثر جگہوں پر گرانی کا احساس  گہرا ہوتا چلا جاتا ہے۔ قرۃ العین حیدر کے اُسلوب میں کہیں کہیں انگریزیت  کا راج  نظر آتا ہے جس کی وجہ سے فقروں کے فقرے  انگریزی زدہ ہونے کا تاثر دیتے ہیں اور ان کا لسانی اُسلوب اجنبیت اور مغائرت کا احساس بھی دلاتا ہے۔عینی آپا کے معاصرین میں  بھی یہ جدت نظر نہیں آتی جس کی وجہ سے یہ اُسلوب اور بھی زیادہ نامانوس لگتا ہے۔ اس مقام پر ایک عام ناقد یہ بات بھول جاتا ہے کہ  عام ڈگر سے ہٹ کر ہی کسی نئے اُسلوب کو متعارف کرایا جاسکتا ہے۔

  بڑا تخلیق کار کبھی طرزِ کہن پر چلنا پسند نہیں کرتا اور اپنی شخصیت اور  میلان طبع کے مطابق ورثے میں ملنے والی زبان کواپنی تخلیقی ضرورت اور منشا کے مطابق استعمال کرتا چلا جاتا ہے۔عینی آپا نے اپنے ناولوں میں جس طبقے کی عکاسی کی ہے اُس کا بھی یہ تقاضا تھا کہ انگر یزی مکالموں کو مناسب جگہ دی جائے اور پھر  جس ماحول کو پیش کیا گیا اُس کی بھی یہی مجبوری  تھی کہ مکالمے انگریزی الفاظ سے مزین ہوں۔عینی آپا کے ناول “گردشِ رنگِ چمن” میں  اس طرز کی مثالیں جگہ جگہ بکھری ہوئی ہیں اور بسااوقات حیرت بھی ہوتی ہے کہ وہ اپنے ماحول اور کرداروں کی طبعی ضرورت کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے انگریزی لفاظیت کا بے دریغ استعمال کر جاتی ہیں۔اسی ناول کے صفحہ 380 پر ایک پورا اقتباس انگریزی میں  لکھ دیا گیا ہے اور کئی ایک مقامات پر  کچھ اُردو جملوں کے بعد ایک جملہ انگریزی کا در آتا ہے۔انگریزی زبان کا ہر جملہ اور لفظ خود مکتفی ہے اور کہیں بھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ وہ ان سب کواُردو زبان کے متبادلات  یا مترادفات کے طور پر لانے کی خواہش مند ہیں۔  عینی آپا کی  انگریزیت پسندی کو اُن کی کامیابی یا   اور ناکامی کے حوالےسے پرکھ کر کوئی اقداری فیصلہ کرنا کسی طور مناسب علمی رویہ نہیں ہو سکتا،کیوں کہ یہاں قاری اس بات کا مکلف نہیں کہ وہ اپنی ذاتی پسند اور نا پسند کی بنیاد پر اُسلوبیاتی دعاوی یا فیصلوں کا سزاوار ہو اور تخلیقی فن پاروں کو سادہ،دقیق،موزوں،مرصع، رواں،انگریزی زدہ یا شاعرانہ کہہ کر بات ختم کر دے۔جب ہم اُسلوبیات کا مطالعہ صرف لسانی بنیادوں پر کریں گے تو پھر کسی اُسلوب کو کامیاب یا ناکام کہنا بھی ممکن نہیں رہتا کیوں کہ اُسلوب کا لسانی   تجزیہ ہمیشہ معروضی اور سائنسی ہوتا ہے،البتہ افادی پہلو کواپنی رائے میں شامل کیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔قرۃ العین حیدر کے اس ناول میں انگریزی الفاظ کی کثرت  بہ یک وقت درج ذیل نکات  کی طرف ہماری رہنمائی  کرتی ہے:

ا)  اُ ن کا تخلیقی اظہار ممکنہ وسائل کو برتنے کی طرف مائل ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے کرداروں کو نبھانے کی خاطر  انگریزی زبان کا آزادانہ استعمال کر جاتی ہیں۔  ب)  انگریزی زبان کے مفرد اور مرکب الفاظ کے ساتھ ساتھ پورے پورے جملے  انگریزی میں لکھ دیے جاتے ہیں،بظاہر یہ سب کچھ اُردو کے بنیادی اُسلوب کے خلاف نظر آتا ہے لیکن یہ اصل میں لسانی انتخاب کا معاملہ ہے۔

ج)  قرۃ العین حیدرکے اُسلوبی ساخت اور ہیئت کی بہتر تفہیم صرف اُسی صورت میں ممکن ہے جب ہم اُسلوب کی جدید تعریفوں کے ضمن میں کینتھ،بروکس اور رابرٹ پن وارن کی معروضات سے رہ نمائی حاصل کریں کیوں کی ان حکما نے اُسلوب کو” انتخاب” کی روشنی میں دیکھنے اور دکھانے کی جستجو کی ہے۔

د)   ان انگریزی الفاظ پر غور کیا جائے تو علم ہوتا ہے کہ یہاں جو الفاظ استعمال کیے جا رہے ہیں وہ مجموعی طور پر ایک ڈسکورس کو جنم دے رہے ہیں۔

ر)  زبان و بیان کی ہمہ گیریت میں اضافہ ہوا ہے اور تخلیق کار کے تبحر علمی کا ٹھیک ٹھیک اندازہ ہوتا ہے۔

ز) ان انگریزی الفاظ کی مدد سے کرداروں کی سماجی حیثیت اور ترجیحات بآسانی متعین ہو سکتی ہیں۔انگریزی کا یہ لب و لہجہ اور الفاظ کا چناؤ فرد کے سماجی سٹیٹس کو بھی ظاہر کرتا ہے۔

قرۃ العین حیدر کے نقادوں نے اس انگریزیت پر بہت اعتراضات کیے اور انھیں انگریزی زدہ ادیب تک کہا گیا لیکن اُنھوں نے اپنے دفاع  میں کبھی کوئی بیان نہیں دیا۔یہ الفاظ محض انگریزی دانی کے شوق میں قلم بند نہیں ہوئے بلکہ کسی فرد یا کردار کی نفسیاتی حالت،ذہنی رویے اور داخلی اورخارجی و خارجی زندگی کی عکاسی کرنے کے لیے قلم برداشتہ سرزد ہوئے ہیں۔یہ تمام انگریزی بیانیے اپنے سیاق سے پوری طرح جڑے ہوئے اور بامعنی ہیں اور ناول کی جدید تکنیک میں دیگر زبانوں  کے مقبول اظہاریوں کی طرح موضوعاتی اور تخیلی وسعتوں کا باعث بنتے ہیں۔قرۃ العین حیدر کی اُسلوبیاتی ہئیت میں حقیقت پسندی کا رجحان بھی اسی انگریزیت کے ساتھ منسلک ہے۔       یہ حقیقت پسندی ہی تو ہے کی عینی آپا اپنے نامیاتی کرداروں کو زندگی کی تمام تر سچائیوں اور فطری  رعنائیوں کے ساتھ پیش کرتی ہیں۔ناول میں انگریزیت کا ایک اضافی فائدہ یہ بھی ہوا ہے کہ ناول کا ہر کردار اپنے کامل شعور کے ساتھ ناول کی تخلیقی فضا کو ہموار رکھتا ہے۔شعور کے اسی پردے پر ناول کی تمام بنت کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے جس میں موضوع،مرکزی خیال، پلاٹ  اور عصری آگہی سب کچھ سمٹ کر ایک  ارفع مقصد کی خاطر جمع ہو گئے ہیں۔عینی آپا کے ناولوں میں انگریزیت کا پہلو اُن کی حقیقت پسندی  کا بلیغ اشاریہ ہے۔اگر یہ حقیقت پسندی اُن کا مسئلہ نہ ہوتی تو ہمیں وہاں انگریزی کا دخل  بھی نظر نہ آتا ۔اس نکتے کی بہتر تفہیم درج ذیل اقتباس سے ہو  جاتی ہے:

” ہمارے ناول نگار حقیقت پسندی کی طرف مائل ہو چکے تھے۔انھوں نے  سچائی کا مشاہدہ داخلی و خارجی حقائق کی روشنی میں کرنا شروع کر دیا تھا۔خارجی زندگی،ماحول اور سماج کا تجزیہ کر کے پیش کی جانے لگی تھی اور داخلی زندگی کو سمجھنے کے لیے تحلیل نفسی کو پیش نظر رکھا گیا تھا۔ظاہر ہے جب ناول نگار نئی فضا،نئے ماحول اور نئی تبدیلی کو تخلیق کرتا ہے تو اس کی ہئیت بھی متاثر ہوتی ہے۔شاید یہی بنیادی وجہ ہے کہ بیسویں صدی کی تیسری،چوتھی اور پانچویں دہائیوں کے ناولوں میں ہئیت کا جو تنوع ملتا ہے وہ پہلے کبھی نہیں تھا۔”(17)

سلینگ زبان کا استعمال

دنیا کی دیگر زبانوں کی طرح اُردو زبان و ادب میں  بھی سلینگ کا استعمال تحریری اور تقریری دنوں جگہوں پر موجود ہے اور اس کا مطالعہ زبان کے کئی دل چسپ پہلوؤ ں کو سامنے لاتا ہے۔اُردو زبان میں سلینگ کے لیے تاحال کوئی متبادل لفظ سامنے نہیں آیا بلکہ ڈاکٹر رؤف پارکھ جیسے اعلیٰ زبان شناس اور زبان دان نے اپنی لغت کا نام بھی”اولین سلینگ اُردو لغت” رکھا اور کتاب کے مقدمے میں اس بات کی وضاحت بھی کر دی ہے کہ سلینگ کا متبادل ابھی تک دستیاب نہیں ہوا اور ممکن ہے کہ یہی لفظ جلد قبولِ عام کی سند حاصل کر جائے۔قرۃ العین حیدر کے ناولوں میں سلینگ کا جائزہ لینے سے قبل ضروری ہے کہ اس اصطلاح کی تعریف اور حدود پر بات کر لی جائے تا کہ آگے آنے والی بحث  میں کوئی لفظی یا تشریحی ابہام باقی نہ رہے۔ڈاکٹر   رؤف پاریکھ اس ضمن میں رقم طراز ہیں:

“اُردو زبان میں انگریزی لفظ سلینگ  Slangکے لیے کوئی باقاعدہ مترادف موجود نہیں ہے۔سلینگ کا مفہوم ادا کرنے کے لیے بالعموم ” عامیانہ الفاظ و محاورات”، “بازاری ز با ن ” ، “سوقیانہ الفاظ و محاورات”،” عوامی الفاظ و محاورات”،”ناشائستہ الفاظ”،”مبتذل زبان” اور ” غیر ثقہ الفاظ و محاورات ” جیسی عبارتیں ملتی ہیں۔سلینگ کی اصطلاح ان غیر رسمی( لیکن اظہار اور ابلاغ سے بھرپور) الفاظ و محاورات کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو زبان کے “معیاری”،مستند اور ٹکسالی ذخیرہ الفاظ کا حصہ نہیں سمجھے جاتے لیکن عام بول چال میں بے تکلفی سے استعمال کر لیے جاتے ہیں۔”(18)

سلینگ کی نوعیت اور استعمال  پرکئی طرح کے نکات سامنے آتے ہیں،پہلی بات تو یہ ہے کہ سلینگ میں در آنے والے تمام الفاظ و تراکیب غیر رسمی ہوتے ہیں۔ایک زمانہ تھا کہ سلینگ کا استعمال صرف زبانی گفتگو تک محدود تھا لیکن رفتہ رفتہ یہ ادبی اور صحافتی تحریروں میں شامل ہونے لگے اور آج حالت یہ ہے کہ دنیا کا تقریباً ہر بڑا ادیب اپنی تحریروں میں سلینگ کے استعمال کو جائز خیال کرتا ہے۔اُردو کے ادیبوں میں یہ رجحانات میڈیا کی بدولت بہت عام ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتےمشتاق احمد یوسفی، اشفاق احمد اورمستنصر حسین تارڑ جیسے سنجیدہ لکھنے والوں کے ہاں بھی سلینگ کی مثالیں   نظر آنا شروع ہو گئیں۔دورِ حاضر میں تو سلینگ کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ بڑے بڑے صدور مملکت اپنی زبانی  تقریروں میں سلینگ برت کر عوام کا دل جیتنے کی کوشش کرتے ہیں۔سلینگ کی ظاہری اور باطنی  خصوصیات پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر رؤف پاریکھ لکھتے ہیں:

” سلینگ کی تین خصوصیات ہیں:اول،عام بول چال اور بے تکلفی کی زبان((Colloquialہونا؛دوم،غیررسمی  ((Informalہونا؛نئی بات کہنا یا پرانی بات کو نئے انداز سے کہنا۔نیز یہ کہ سلینگ کو “مستند” زبان سے کم تر بھی سمجھا جاتا ہے۔حتیٰ کہ اسے Lingo of the gutter بھی کہا گیا۔سلینگ کی دیگر خصوصیات میں یہ بھی شامل ہے کہ اس کی سرحدیں کبھی کبھی بے ادبی اور گستاخی سے بھی جا ملتی ہیں۔ کبھی سلینگ کا مقصد”جھٹکا”((Shockدینا ہوتا ہے۔یہ فحش بھی ہو سکتا ہے۔(19)

یہ طے شدہ امر ہے کہ سلینگ اصل میں سماجی ضرورت کی دین ہے اور ہماری کئی ذہنی کیفیات،احساسات،سماجی رویے اور  اقدار سے منسلک عادات و اطوار کے اظہاریے اسی سلینگ کی وجہ سے مکمل ہوئے ہیں۔سلینگ نے کئی ان دیکھے جہاں روشن کر دیے ہیں۔دورِ جدید میں سوشل میڈیا نے اور پھر ایس ایم ایس اور ای میلز نے بھی سلینگ کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ ٹیکسٹ میسج کی زبان سکڑتے سکڑتے اتنی کم رہ گئی ہے کہ حیرت ہوتی ہے کہ اس کٹی پھٹی زبان سے بھی اظہار و ابلاغ کے تمام تقاضے بطریقِ احسن ادا ہو رہے ہیں۔ہماری نئی پودزبان کے اسی ادھورے سانچے کے سائے میں پل کر جوان ہو رہی ہے،بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ سلینگ اب ہمارے نوجوانوں کا روز مرہ بن چکا ہے تو کچھ غلط نہ ہو گا۔

قرۃ العین حیدر کے ہاں بھی سلینگ کا چلن بعض ناولوں میں عام مل جاتا ہے اور یہ امر بظاہر بہت حیران کن ہے کہ ان جیسی کلاسیکی مزاج کی حامل تخلیق کار کتنی ہنزمندی سے  سلینگ کو معیاری زبان کے پہلو بہ پہلو جگہ دیتی چلی جاتی ہیں۔اس بات سے کم از کم یہ اندازہ تو ضرور ہوتا ہے کہ عینی آپا کا لسانی شعور بہت پختہ تھا  اور وہ زبان کو ایک زندہ اکائی سمجھ کر لکھ رہی تھیں۔زبان کا یہ نامیاتی تصور اُن کے ادب پاروں میں ایسا نکھار اور وقار پیدا کرتا ہے کہ  نصف صدی پہلے کے لکھے ہوئے ناولوں کی زبان ایسی ہے جیسے یہ ابھی چند دن پہلے لکھے گئے ہوں۔ قرۃ العین حیدر جیسی ثقہ بند اور نستعلیق لکھاری اپنے ناولوں میں معیاری اُردو زبان لکھنے کے ساتھ ساتھ سلینگ((Slangکا استعمال بھی حد درجہ بے تکلفی سے کر جاتی ہیں۔یہ بہت دل چسپ مطالعہ ہے اور اپنی نوعیت اور اہمیت کے پیش ِ نظر الگ مقالے کا متقاضی ہے۔تاہم یہ بات خاطر نشان رہے کہ ان کے باقی ناولوں کی نسبت” گردشِ رنگِ چمن” میں سلینگز الفاظ کی  تعداد زیادہ نظر آتی ہے۔چند نمائندہ مثالیں درج کی جاتی ہیں:

” تیرا تو،اس کا جہاں آراء کا تو کسی دڑھیل مولوی سے بیاہ ہو گا،جناب مولوی بے نوجیراالدین احمد صاحب! موٹی مسخری رومولا نے منہ پھاڑ کر ہاہا کرتے ہوئے کہا اور چنے پھانکتی رہی۔”( 20)

” لو دم لگاؤ۔۔۔لو ایک سُوٹا۔۔لگے دم مٹے غم۔۔۔معا ف کیجئے گا آپ مداری ہیں یا ویشنو؟۔”(21)

” جو انگریز اس جادو گرنی کی ہلاکت کے ہلاکت خیز سحر کا شکار ہوا وہ بہت جلد اپنا کردار  کھو بیٹھا،پھٹیچر ہو گیا۔”(22)

ان کے علاوہ اسی ناول میں ہمیں سلینگ کی جو  مزید  صورتیں نظر آتی ہیں اُن میں”ففٹا گھر”،”بٹھال”،”ملکہ  ٹوریہ”،”بھونپو”،”لفنگا”،”عاسکی معسوکی”(عاشقی معشوقی)،”عسک مجاجی تھا عسک حکیکی”(عشقِ مجازی تھا یا عشقِ حقیقی”،”میرا بھیجا آؤٹ ہو گیا”،”اے گم کے مارو”( اے غم کے مارو)،”خدا تمہارا گم دور کر دے”(خدا تمھارا غم دور کر دے)،”سڑن”،”نوٹنکی کرنا”،”چالُو”،”گڑ بڑ جھالے”،”ولائتی پن”،”کلچر ولچر”،”اَمیوں”(امّی کی جمع)” بے بانگی کے مرغے”،”ڈیر ے دارنی”اور”خرانٹ”وغیرہ شامل ہیں،ان سلینگ الفاظ کی ادائیگی مختلف کرداروں کے توسط سے عمل میں آئی ہے۔        قرۃ العین حیدر کا یہ ناول(گردشِ رنگِ چمن)  کسی حد تک نیا ہے کیوں کہ یہ 1987ء میں منظر  پر آیا تھا۔اس کی زبان  کو ابھی اتنا عرصہ بھی نہیں  گزرالیکن اس میں استعمال ہونے والے تمام سلینگ دیکھتے ہی دیکھتے  آج کی روز مرہ کا حصہ بن چکے ہیں۔قرۃ العین حیدر زبان کا جو گہرا شعور رکھتی ہیں اُس کی وجہ سے اُن کے ہاں مصنوعیت کے بجائے فطری پن کا احساس ہوتا ہے۔وہ سماج سے کٹ کر نہیں بلکہ سماج سے جُڑ کر اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کرتی ہیں جس کی وجہ سے اُن کے بیان میں ایک ندرت اور شدت  پید ا ہو جاتی ہے اور اُن کا بیانیہ پوری قوت کے ساتھ قاری کے دل و دماغ پر اثرات مرتسم کرتا چلا جاتا ہے۔

شماریت( (Enumerationکا معنیاتی نظام

اُسلوبیاتی تجزیات و توضیحات میں شماریت ایک اہم وسیلہ ہے۔اس میں عموماً ایک جنس سے تعلق رکھنی والی اشیا یا متفاوت صفات ، الفاظ ،یاپھر تصورات  کا ذکر ایک خاص منطقی ترتیب میں کیا جاتا ہے۔مرزا خلیل احمد بیگ اس ضمن میں لکھتے ہیں :

 “شماریت بیان کا ایک طرز ہے جس میں مختلف اشیا یا  افعال کا ایک ایک کرکے  نام گنا یاجاتا ہے جس سے ایک زنجیر سی بن جاتی ہے۔اس سے جملے کی نحوی ترتیب میں کوئی فرق نہیں آتا۔جن اشیا کا ایک ایک کر کے نام لیا جاتا ہے وہ بالعموم ایک زمرے یا قبیل سے تعلق رکھتی ہیں اور ان میں ایک قسم کا معنیاتی ربط پایا جاتا ہے اور یہ طرزِ بیان کسی بھی طرح تسلسل ِ بیان کو مجروح نہیں ہونے دیتا۔”(23)

یہ تعریف بظاہر  ایک حد تک مکمل ہے لیکن اس میں یہ اضافہ کرنے کی ضرورت ہے  کہ اگر اشیا کا تعلق  ایک زمرے یا ایک قبیل سے نہ بھی ہو تو لفظوں کا  وہ معنیاتی گروہ شماریت کی ذیل میں آئے گا۔اصل معاملہ الفاظ و تصورات کے درمیان باہمی اور منطقی ربط کا ہے اگر یہ اُستوار ہے تو شماریت کے تمام  تقاضے پورے ہو جاتے ہیں۔تخلیقی ادب میں شماریت کا استعمال عام ہے اور اکثر وبیش تر تخلیق کاروں نے اپنی اپنی افتادِ طبع اور سہولت کے مطابق اسے برتا ہے۔

گردشِ رنگِ چمن” میں شماریت کی مثالوں کا معنیاتی انداز کچھ یوں ہے:

“نوابن کی آنکھ پرستان میں میں کھلی اُدا اطلسمی لحاف،نیچے فیروزی رنگ کا ریشمی ترکی قالین،اس کے نیچے یہ موٹا گبھا۔خود کشمیری شال میں پارسل کی طرح لپٹی ادھر نفیس طشت میں دھری انگیٹھی،اونچے دروازوں پر ولایتی مشجر کے پردے ایک طباقچے میں گلاب کی کلیوں کا ڈھیر، طاقچوں میں گلاب پاش اور عود سوز،سبز تابدانوں سے چھنتی آفتاب کی نارنجی شعاعیں ایک ننھی سی مرمریں ولایتی مورتی کو دمکا رہی تھیں۔”(24)

“بھائی ہم کو مکروہاتِ زمانہ نے فرصت نہ دی ورنہ ہم بھی مابعد الطبیعاتی موشگافیاں کرتے،نتیجہ کچھ نہ نکلتا۔یکساں مسٹک اصطلاحات تلمیحات کے باوجود کرشن اور رادھا اور گوپیاں اور برائیڈ آف کرائسٹ اور اولیا کا وصال  اور عرس اور گوری سوئے سیج پر مکھ پہ ڈالے کیس۔ اور یہ کہ مولانا حسرت موہانی سری کرشن کو اونچا عارف سمجھتے تھے۔اور یہ کہ صوفیا کا محبت کا باغ مدھیہ کال اودھ کے پریم مارگی صوفیوں کا پریم بن اور مرگاوتی اور مدھو مالنی۔۔دی ورکس۔۔قوموں کی بالکل اندرونی سائیکی پر زیادہ فرق نہیں پڑا۔ذرا سا  کریدو تو اک آخری امید سیکولر ہیومنزم سے تھی وہ ہو گئی فیل۔۔۔ ساری دنیا میں۔”( 25)

علاوہ ازیں یہ شماریت کہیں سادہ اور کہیں پیچیدہ  تکنیک میں اپنے ہونے کا جواز فراہم کرتی ہے۔شماریت کی معنیات کے حوالے سےایک اہم بات یہ بھی دیکھنے میں آئی ہے کہ وہ حقیقت نگاری اور حقیقت پسندی کا دامن بہت مضبوطی سے تھامے رکھتی ہیں۔شماریت کی تمام مثالوں سے ان کی اُسلوبیاتی قوت کا احساس ہوتا ہے۔عینی آپا اپنی تخلیقی نثر کو بعض اوقات اتنا سجا کر پیش کرتی ہیں کہ  قاری اُن کی نثر میں خود کو گم کر دیتا ہے اور اُس کی نظروں سے وہ چھوٹے  چھوٹے لیکن اہم مقامات اوجھل ہو جاتے ہیں جو ناول کی کہانی یا اُس کے اُسلوب کو واضح کرتے ہیں۔شماریت میں اگرچہ معمولی معمولی باتو ں کا ذکر بھی  آ جاتا ہے لیکن یہ معمولی باتیں کسی غیر معمولی  فکر یا موضوع  کو ظاہر کرنے میں کلیدی کردار اداد کرتی ہیں،فرانسیسی ناول نگار اور نقاد میلان کنڈیرا اپنی کتاب “ناول کا فن” میں کہتا ہے:

“ناول کی روح پیچیدگی کی روح ہے۔ہرناول اپنے قاری سے کہتا ہے۔”چیزیں اس قدر سادہ نہیں جتنا تم سمجھتے ہو”مگر آسان اور سریع جوابات کے نقار خانے میں ،جو سوال سے پہلے ہی نمودار ہو جاتے ہیں،اس سچائی کو سننا آہستہ آہستہ مشکل تر ہوتا چلا جاتا ہے اور بالاآخر اس کا راستہ رک جاتا ہے۔۔۔۔ناول کی روح تسلسل کی روح ہے۔”(26)

اُسلوبیات اور معنیات کا موضوع کسی ناول کے تناظر میں وسیع  اور گہرے موضوعات کا متقاضی ہوتا ہے اس لیے یہاں صرف اس کے کچھ بنیادی اور اہم تصورات ستےتعرض کیا گیا ہے تاکہ اُردو زبان و ادب میں ایک تعارفی بیانیہ تشکیل دیا سکے۔ورنہ اس مقالے میں موجود ہر نکتہ اور ذیلی عنوان ایک مستقل مقالے یا کتاب کا موضوع بن سکتا ہے۔

(حوالہ جات)

1)قرۃ العین حیدر کا یہ ناول مکتبہ دانیال،کراچی سے 1987ء  میں پہلی مرتبہ شائع ہوا۔ میرے پیشِ نظر اس ناول کی طبع  دوم ہے جسے  سنگ ِ میل پبلی کیشنز، لاہور نے 2014ء میں  شائع کیا۔

2) عبدالسلام،ڈاکٹر ،عمومی لسانیات ایک تعارف،رائل بک کمپنی،لاہور،1993ء،ص233،231

3) گیان چند ،ڈاکٹر،لسانی مطالعے،ترقی اُردو بیورو،نئی دہلی،1991ء،ص 27

4) الہیٰ بخش اختر اعوان،ڈاکٹر، کشاف اصطلاحاتِ لسانیات،مقتدرہ قومی زبان،اسلام آباد،1995ء،ص417

5) Katie Wales,A Dictionary of Stylistics,Routledge,London,2014,P 379

6) ڈیوڈ کرسٹل،لسانیات کیا ہے،اردو ترجمہ،ڈاکٹر نصیر احمد خان،نگارشات،لاہور،1997،ص 76

7) قاسم یعقوب،اُسلوبیات کی  اہم اصطلاحات،مشمولہ،اُردو میں اُسلوبیات  کے مباحث، مرتبہ قاسم یعقوب ،سٹی بک       پوائنٹ،کراچی،ص 399

8) قرۃ العین حیدر،گردشِ رنگِ چمن،سنگ میل  پبلی کیشنز،لاہور،طبع دوم،2001ء،ص 560

9) قرۃ العین حیدر،گردشِ رنگِ چمن،سنگ میل  پبلی کیشنز،لاہور،طبع دوم،2001ء،ص563

10) قرۃ العین حیدر،گردشِ رنگِ چمن،ص566

11) گردشِ رنگِ چمن،ص622

12)مرزا خلیل احمد بیگ،ادبی تنقید کے لسانی مضمرات،بک ٹاک،لاہور،2018ء،ص124

13) صدیق الرحمٰن قدوئی،قرۃ العین حیدر: ادیبوں کے تاثرات(مضمون) مشمولہ،ماہ نامہ اُردو دنیا،جلد نمبر 9،شمارہ 10،اکتوبر 2007،ص 10

14) قرۃ العین حیدر،گردشِ رنگِ چمن،سنگ میل  پبلی کیشنز،لاہور،طبع دوم،2001ء،ص15

15) قرۃ العین حیدر،گردشِ رنگِ چمن،سنگ میل  پبلی کیشنز،لاہور،طبع دوم،2001ء،ص16

16) قرۃ العین حیدر،گردشِ رنگِ چمن،سنگ میل  پبلی کیشنز،لاہور،طبع دوم،2001ء،ص20

17) نصیر احمد خان،ادبی اُسلوبیات،پورب اکادمی،اسلام آباد،طبع 2013ء،ص80

18) ڈاکٹر رؤف پاریکھ،اولین اُردو سلینگ لغت،فضلی سنز لمیٹڈ،کراچی،2006ء،ص10

19) ڈاکٹر رؤف پاریکھ،اولین اُردو سلینگ لغت،فضلی سنز لمیٹڈ،کراچی،2006ء،ص11

20) قرۃ العین حیدر،آخر شب کے ہم سفر، سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور،2005ءص14

21) قرۃ العین حیدر،آخر شب کے ہم سفر، سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور،2005ءص143

22) قرۃ العین حیدر،آخر شب کے ہم سفر، سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور،2005ءص187

23) مرزا خلیل بیگ،اُسلوبیاتی تنقید(نظری بنیادیں اور تجزیہ)بھٹی سنز،لاہور،2019ء،ص 249

24) قرۃ العین حیدر،گردشِ رنگِ چمن،سنگ میل  پبلی کیشنز،لاہور،طبع دوم،2001ء،ص181

25) قرۃ العین حیدر،گردشِ رنگِ چمن،سنگ میل  پبلی کیشنز،لاہور،طبع دوم،2001ء،ص581

26) میلان کنڈیرا،ناول کا فن،اکادمی ادبیات پاکستان،اسلام آباد،2017،ص23

***

Leave a Reply