محمد نوید رضا
اردوافسانوں میں دلت مسائل کی عکاسی
روز ازل ہی سے انسانی دنیا کے مختلف علاقوں میں انسان ایک دوسرے پر اپنی فضیلت و افضلیت ثابت کرنے کے لیے اپنے سے کمتر کا استحصال کرتا رہا ہے۔خود کو افضل منوانے کے لیے مختلف وسائل اور ہتھکنڈوں کا سہارا بھی لیتا رہا ہے۔ کہیں قواعد و ضوابط کے نام پر انسانوں پر ظلم و جبر کیا گیا اور انسانیت کا استحصال کیا گیا تو کہیں علاقہ، زبان اور ذات پات کو ظلم و ستم کا سہارا بنایا گیا۔غرض کہ انسانیت پر ظلم و ستم ڈھانے کے لیے ہر طرح کے مکر و فریب سے کام لیا گیا۔تاریخ بنی نوع انسان میں ہم کو ایک باب ایسا بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ جہاں ایک مخصوص طبقے نے اپنی افضلیت و بالادستی کو ثابت کرنے کے لیے کچھ ایسے اصول و ضوابط بھی بنائے جن کو مذہب سے جوڑا گیا ،اور ان مذہبی قوانین و اصول کی آڑ میں انسانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے گئے۔ ہندوستان میں بھی آریوں کی آمد کے بعد کچھ اسی طرح کے ظالمانہ و جابرانہ اصول وضع کئے گیے جن سے ایک خاص طبقہ کا استحصال کیا جا سکے۔ورنہ آریوں کی آمد سے قبل ہندوستان میں کوئی ذات پات کا نظام نہیں تھا۔ان شیطانی قوانین کو آسمانی احکام بتا کر ایک خاص طبقے کا استحصال کیا گیا۔ کہیں مذہب کے ٹھیکے داروں نے اس کے بنیادی حقوق سے اس کو محروم رکھا تو کہیں زمین داروں نے اس کا استحصال کیا۔اس طبقے کے بنیادی حقوق کی آواز اٹھانے کے لیے مختلف تنظیمیں اور تحریکیں بھی وجود میں آئیں۔ چنانچہ امریکہ اور یورپ میں جب نسلی بھید بھاؤ کے خلاف وہاں کے ادبا اور دانشوروں نے صدائے احتجاج بلند کی تو اس کی گونج دنیا کے مختلف گوشوں میں سنائی دی، اس احتجاج سے متاثر ہو کر ہندوستانی دانشوروں نے بھی علم بغاوت بلند کیا۔ مہاتما جیوتی با پھولے نے 1872 میں ایک کتاب “غلام گیری” کے نام سے تخلیق کی جس میں ہندوستان میں ہونے والے اس طبقے کے خلاف ظلم و استحصال اور حقوق کی پامالی کے خلاف آواز اٹھائی گئی۔۱۹۴۶ میں بھیم راؤ امبیڈکر نے ایک کتاب شودر کون تھے شائع کی جس میں انہوں نے برہمن واد کو ظلم کی سب سے بڑی جڑ قرار دیا۔نظام ذات پات کو نشانہ تنقید بنایا اور شودروں کوان کے مساوی حقوق دینے پر زور دیا ۔علاوہ ازیں مختلف دانشوروں نے اس حوالے سے اہم کردار ادا کیا۔اور دیکھتے دیکھتے دلت ادب ایک ایسی تحریک کے طور پر ابھرکر سامنے آیا ،جو ہندو مذہب میں ذات پات کی تقسیم کے خلاف مزاحمت کی علامت کے طور پر متعارف ہوا۔ اس کا مقصد نچلی ذاتوں کے خلاف روا رکھے جانے والے استحصال کو ختم کرنا، ظلم و زیادتی کے خلاف آواز بلند کرنا، تعلیم ، مساوات اور آزادی وغیرہ بنیادی حقوق کے لئے صدائے احتجاج بلند کرنا تھا، اور آج بھی اس کا بنیادی موضوع یہی ہے۔
مختلف ہندوستانی زبانوں میں دلت ادب نمایاں ہے، خاص طور پر مراٹھی اور ہندی میں اس کی منفرد شناخت موجود ہے۔اردو ادب میں بھی دلت مسائل و مصائب کو ابھارا گیا اور ان کے حقوق کے لئے صدائے احتجاج بلند کی جاتی رہی ہے ۔چنانچہ پریم چند سے لیکر آج تک اردو ادب نے اس حوالے سے اہم کردار ادا کیا ہے جس کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ دلت مسائل کو اردو ادب میں بڑی بے باکی اور صداقت سے پیش کیا گیاہے ۔چناچہ اس حوالہ سے پریم چند ،کرشن چند، سعادت حسن منٹو، راجندر سنگھ بیدی ،خواجہ احمد عباس ،عصمت چغتائی، حیات اللہ انصاری، واجدہ تبسم، سلام بن رزاق، مشرف عالم ذوقی، اسرار گاندھی، سالک لکھنوی ،اعظم کریوی ، احمدندیم قاسمی، سہیل عظیم آبادی ،محمد حسن ،وہاب اشرفی، اقبال مجید، انور عظیم، غیاث احمد گدی ، کلام حیدری ، ذکیہ مشہدی، شوکت حیات، طارق چھتاری، احمد صغیر اور اسلم جمشید پوری و غیرہم قابل ذکر ہیں، جنہونے اپنے افسانوں میں دلت مسائل و مصائب کی بھرپور عکاسی کی ہے۔ اور ذات پات کےمسائل کو مختلف زاویوں سے بیان کیا ہے۔
پریم چند نے اپنے بیشتر افسانوں کو دلت مسائل کا حصہ بنایا ۔ذات پات اور چھوا چھوت کے حوالے سے ان کے کئی افسانے منظر عام پر آئے ہیں۔مثلاً کفن،پوس کی رات ، صرف ایک آواز، نیک بختی کے تازیانے، تالیف، نجات، دودھ کی قیمت، ٹھاکر کا کنواں، مندر، خون سفید، گھاس والی اور قوم کا خادم وغیرہ اس موضوع پر قابل ذکر افسانے ہیں۔
پریم چند کے افسانوں میں طبقاتی زندگی دیہاتی زندگی اور اخلاقی اقدار کی بڑی خوبصورت عکاسی دیکھنے کو ملتی ہے۔پریم چند کی شناخت پسماندہ طبقات بالخصوص دلت سماج کے مسائل کو ابھارنے اور ان کی ترجمانی کرنے کے لیے ہے۔مذکورہ بالا کہانیوں میں دیہاتی معاشرت، طبقاتی نظام اور دلت سماج پر ظلم و جبر اور ان کے استحصال کے خلاف لکھا گیا ہے۔پریم چند دلتوں پر ظلم و جبر اور ان کے استحصال کا باعث مذہبی عقائد، برہمن وادی نظام، سماجی رسم و رواج اور ضعیف الاعتقادی کو قرار دیتے ہیں۔انہوں نے اپنی کہانیوں میں جا بجا اس طرح کے مسائل و موضوعات کو اٹھایا ہے۔میں اس مقام پر ان کے ایک افسانہ ’’دودھ کی قیمت‘‘ پر گفتگو کرنا چاہتا ہوں جس میں انہوں نے معاشرے میں ذات پات کے نظام، چھوا چھوت، اور طبقاتی استحصال کے خلاف ایک شدید احتجاجی بیانیہ پیش کیا ہے۔ افسانہ’’ دودھ کی قیمت ‘‘میں ایک دایہ (دلت عورت) کی کہانی بیان کی گئی ہے، جو زچگی کے عمل میں مدد فراہم کرتی ہے اور معاشرتی بھلائی کے ایک مقدس کام کو انجام دیتی ہے، لیکن اس کے باوجود سماج میں اسے انتہائی ذلت و حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ بابو مہیش ناتھ کی بیوی کے دودھ نہ اترنے کی وجہ سے اس کے بچے کے لیے جب خوراک کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے، تو یہی دلت عورت جس نے زچگی جیسا نیک اور بھلائی کا کام کیا تھا اب انسانی ہمدردی کے تحت اپنے خود کے تین ماہ کے بچے کا حق کم کر کے اس نومولود کو دودھ بھی پلاتی ہے۔ مگر یہی سماج، جو اس کے ایثار اور قربانی سے فائدہ اٹھاتا ہے، بعد میں اسے اور اس کے بچے کو “اچھوت” قرار دے کر حقارت و نفرت کی نظر سے دیکھتا ہے۔ اس کے با وجود یہ عورت اپنی پوری زندگی ان آقاؤں کی خدمت و تابعداری میں گزار دیتی ہے اور بالآخر مہیش ناتھ کے مکان کی صفائی کرتے ہوئے اپنی جان تک گنوا دیتی ہے۔
اس کی ان خدمات اور جاں نثاری کا صلہ اس کو یہ ملتا ہے کہ اس کے یتیم بیٹے کو جانوروں سے بری زندگی گزارنی پڑتی ہے۔ منگل دن بھر مہیش بابو کے دروازے پر منڈلاتا رہتا تاکہ ان کے پس خوردہ سے اپنا پیٹ بھر سکے۔دور ہی سے اس کو مٹی کے ایک سکورے میں کھانا ڈال دیا جاتا ۔گانوں کے لڑکے اس سے دور ی برتتے اور اس کو ذلت و خواری کا احساس دلاتے ۔مکان کے سامنے نیم کے ایک درخت کے نیچے اس کا ڈیرا تھا ۔ایک پھٹا سا ٹاٹ کا ٹکڑا دو سکورے اور سریش کی اتراون ایک دھوتی یہ منگل کی زندگی کا کل سرمایہ تھا ، جو سخت جاڑے ، گرمی کی لو اور موسلے دھار بارش میں یکساں کام کرتا۔ یوں تو پورے گانوں میں سوائے اس ایک کتے کے ،جو پس خوردہ کھانے میں اس کا شریک ہوا کرتا تھا کوئی اور رفیق نہ تھا۔ لیکن ایک دن تین لڑکے کوئی کھیل کھیل رہے ہوتے ہیں جس میں جوڑی پوری کرنے کے لئے منگل سے کھیلنے کو کہا جاتا ہے۔اور یہاں بھی اس کو محض اس لئے مدعو کیا جاتا ہے تاکہ وہ تینوں لڑکے اس کو اپنا ٹٹو بنا کر سوار ہو سکیں ۔ منگل اس بات پر بضد تھا کہ اس کو بھی سواری کرنے کا موقع ملے۔لیکن اس دلت کو اپنی پیٹھ پر سوار کون کرتا؟ نتیجۃً تینوں نے مل کر منگل کو زبردستی گھوڑا بنا دیا ۔’’سریش اپنا وزنی جسم لے کر اس کی پیٹھ پر بیٹھ گیا اور ٹک ٹک کرکے بولا۔’’چل گھوڑے چل‘‘ مگر اس کے بوجھ کے نیچے غریب منگل کے لیے ہلنا بھی مشکل تھا، چہ جائے کہ دوڑ سکے۔ ایک لمحہ تو وہ ضبط کیے چوپایہ بنا کھڑارہا۔ لیکن ایسا معلوم ہونے لگا کہ ریڑھ کی ہڈّی ٹوٹی جاتی ہے۔ اس نے آہستہ سے پیٹھ سکوڑی اور سریش کی ران کے نیچے سے سرک گیا سریش گدسے گر پڑا۔‘‘؎۱
سریش روتے ہوئے گھر آیا ماں کے استفسار پر روتے ہوئے بتایا کہ ’’منگل نے چھوا دیا ‘‘پہلے تو ماں کو یقین نہ آیا۔کہ اتنا بڑا ظلم منگل کیسے کر سکتا ہے ،لیکن جب سریش قسمیں کھانے لگا تو یقین لانا لازم ہوگیا۔ اس نے منگل کو بلوایا اور ڈانٹ کر بولی: ’’کیوں رے منگلو ا!اب تجھے بدمعاشی سوجھنے لگی۔ میں نے تجھ سے کہا تھا کہ سریش کو کبھی چھونا نہیں۔ یاد ہے کہ نہیں، بول۔منگل نے دبی آواز سے کہا، یاد ہے۔
تو پھر تونے اسے کیوں چھوا؟
میں نے نہیں چھوا۔
تونے نہیں چُھوا ۔ نہیں تو یہ روتا کیوں ؟
یہ گر پڑے اس لیے رونے لگے۔
چوری اور سینہ زوری۔دیوی جی دانت پیس کر رہ گئیں۔ ماریں تو اسی وقت اشنان کرنا پڑتا۔ قمچی تو ہاتھ میں لینا ہی پڑتی اور چھوت کہ برقی روقمچی کے راستہ ،ان کے جسم میں سرایت کر جاتی ۔اس لیے جہا ں تک گالیاں دے سکیں، دیں۔ اور حکم دیا کہ اسی وقت یہاں سے نکل جا۔ پھر جو تیری صورت نظر آئی تو خون ہی پی جاؤں گی۔ مفت کی روٹیاں کھا کھا کر شرارت سوجھتی ہے۔‘‘؎۲
یہ اس کہانی کا ایک دردناک موڑہے کہ منگل پر ظلم و زیادتی کرنے کے بعد اسی کو مجرم ٹھہرایا گیا۔پریم چند نے اس افسانے میں چھوا چھوت، ذات پات کی تفریق، اور انسانی ہمدردی کے ساتھ ہونے والے دہرے معیار کو انتہائی موثر انداز میں اجاگر کیا ہے۔ انہوں نے دکھایا ہے کہ ایک دلت عورت، جو خود بھی ایک ماں ہے، اپنی ممتا قربان کر کے دوسرے کے بچے کو دودھ پلاتی ہے، لیکن یہی سماج اس کے اپنے بیٹے کو ناپاک سمجھتا ہے۔ یہ ایک المیہ ہے کہ انسانی جان بچانے والی ایک عورت کو ذلیل کیا جاتا ہے، اور جس بچے کو اس کی قربانی نے زندہ رکھا، اور اپنا خون جگر پلاکر بڑا کیا ،وہی بچہ بڑے ہو کر اس عورت کے بچے کو چھونے سے ناپاک ہو جاتا ہے۔
افسانہ دودھ کی قیمت نہ صرف ذات پات کے نظام پر ایک سخت تنقید ہے بلکہ یہ انسانی رشتوں میں موجود تضادات کو بھی بے نقاب کرتا ہے۔ پریم چند نے یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ اصل ناپاکی کسی ذات یا پیشے میں نہیں بلکہ ان فرسودہ خیالات اور تعصبات میں ہے جو انسانوں کے درمیان تفریق پیدا کرتے ہیں۔یہ افسانہ ذات پات پر مبنی طبقاتی نظام اور چھواچھوت کے جبر پر ایک گہری تنقید ہے۔ ہندوستانی سماج میں اشرافیہ طبقہ صدیوں سے اپنی اجارہ داری برقرار رکھنے کے لیے دبے کچلے طبقات پر ظلم کرتا آیا ہے۔ خاص طور پر منو وادی سوچ رکھنے والے افراد نے اچھوتوں کو ایک کمتر درجے پر رکھ کر انہیں بنیادی اور انسانی حقوق سے محروم رکھا ہے۔
تاریخی طور پر اچھوتوں کو مندروں، تالابوں، کنوؤں، اور دیگر عوامی سہولیات کے استعمال سے روکا جاتا تھا۔ اگر وہ غلطی سے بھی ان جگہوں میں داخل ہو جاتے تو انہیں انتہائی سخت سزائیں دی جاتیں۔ ذات پات کی وجہ سے دلتوں کو اس حد تک ناپاک سمجھا جاتا ہے کہ اشرافیہ طبقہ کے لوگ ان کی پرچھائی تک سے پرہیز کرتے ۔شہروں میں ان کا داخلہ ممنوع تھا، اگر داخل ہو بھی جائیں تو اس کی کچھ شرائط مقرر تھیں جن کی پاسداری رکھنا ازحد ضروری تھا۔مثلاً اگر کوئی دلت شہر میں داخل ہونا چاہتا تھا تو اس کے لئے یہ شرائط تھیں کہ شہر میں داخل ہونے سےقبل کالا کپڑا پہنے، گلے میں تھوکنے کے لئے ہانڈی لٹکائے اور کمر سے جھاڑو باندھے تاکہ جس راستے سے گزرے اس راہ کی نجاست کا ازالہ ہو سکے۔اگر کوئی دلت اشرافیہ طبقے سے ٹکرا جائے تو اس کے لیے طرح طرح کی سزائیں مقرر تھیں ۔، دلت طبقہ جن عمارتوں ، مندروں ، کنؤوں اور محلات کو تعمیر کرتا ، جب یہ پایہ تکمیل کو پہونچ جاتے ہیں، تو انہیں ان میں داخل ہونے کا حق نہیں دیا جاتا۔ ان کی محنت، فنکاری، اور خون پسینے سے بنی عمارتیں ان کے لیے شجر ممنوعہ بن جاتی ہیں۔پنڈت اور مذہبی پیشوا، جو چھوت چھات کے اصولوں پر سختی سے عمل کرتے ہیں، دعا، تعویذ، اور چڑھاوے کے نام پر اچھوتوں کے پیسے اور اناج لینے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔ ان سے گھریلو خدمت ،مکانوں، مندروں اور کنوں کی تعمیر کرانے میں انہیں چھواچھوت یاد نہیں آتی، ان کی عصمت دری کرتے وقت ان کو چھوت نہیں لگتا لیکن جیسے ہی اچھوت اپنے بنیادی حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں تو ان کا دھرم بھرشٹ ہوجاتا ہے۔پریم چند اور دوسرے ادیبوں نے اپنے افسانوں کے ذریعے اس نظام کے کھوکھلے پن اور اس میں چھپی منافقت کو بے نقاب کیا ہے۔ یہ ادب آج بھی ہمیں اس سماجی ناہمواری کے خلاف آواز بلند کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔میں یہاں اعظم کریوی کے ایک افسانے ’’اچھوت‘‘ کا ذکر کرکے اپنی گفتگو ختم کرنا چاہتا ہوں ۔اعظم کریوی نے دلت مسائل کو اپنے دیگر افسانوں میں بھی ابھارا ہے۔مثلاً بھکارن، اچھوت ، شیخ و برہمن، کنول اور پنچایت اس حوالے سے قابل ذکر ہیں۔لیکن میں یہاں “اچھوت” کو موضوع گفتگو بنانا چاہتا ہوں جس میں انہوں نے ذات پات کی ناانصافی، برہمن وادی جبر، اور دلتوں پر ہونے والے مظالم کو بڑی بے باکی سے بیان کیا ہے،اور یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح صدیوں سے مذہب اور ذات پات کے نظام کو ایک استحصالی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس کہانی کا مرکزی کردار شکروا ایک غریب دلت مزدور ہے، جو زمیندار رام پر شاد کی خدمت میں لگا رہتا ہے، مگر بالآخر ظالم سماج کا شکار ہو جاتا ہے۔شکروا کا بیٹا بینی اپنے باپ سے ایک دھوتی کی خواہش ظاہر کرتا ہے کہ جس طرح مالک کے یہاں سب اچھے کپڑے پہنتے ہیں میں بھی ایک دھوتی پہنوں گا۔شکروا جواباً کہتا ہے کہ پاگل نہ بن ہم غریب وہ امیر ہمارا ان کا کیا مقابلہ؟”بینی بڑی معصومیت سے قوت فکر کو جھنجھوڑنے والے سوالات کرتا ہے ۔
’’ہمیں غریب اور ان کو امیر کس نے بنایا؟
’’ہا ہا ہا‘‘شکروا نے قہقہ مار کر کہا :تو بڑا پاگل ہے۔ بھگوان بنائیں ہیں اور کون بنا سکتا ہے!‘‘
تو بھگوان نے ہم کو امیر کیوں نہیں بنایا؟
اب رام جانیں اگلے جنم میں ہم سے کوئی غلطی ہو گئی ہوگی۔ اسی کی سزا ملی ہے۔
اگر بھگوان ہم سے خوش ہو جائیں تو کیا وہ ہم کو امیر کر دیں گے؟
اور نہیں تو کیا؟ بھگوان کے ہاتھوں میں سب کچھ ہے۔
تو بھگوان کیسے خوش ہوتے ہیں؟
پوجا پاٹ سے۔
تو ہم پوجا پاٹ کریں گے۔
لیکن ہم مندر میں نہیں گھس سکتے۔
کیوں؟
ہم لوگ اچھوت ہیں۔ پنڈت لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے گھسنے سے مندر ناپاک ہو جائے گا۔
تو کیا بھگوان مندر ہی میں رہتے ہیں اور کہیں نہیں؟
نہیں بھگوان تو ہر جگہ ہیں۔
تو میں بھی اپنی جھونپڑی میں ایک چھوٹا سا مندر بناؤں گا اور بھگوان کی پوجا کیا کروں گا۔
لیکن بغیر کسی پنڈت کی مدد کے پوجا نہیں مانی جائے گی۔بینی کادل ٹوٹ گیا اور کچھ پوچھ ہی نہ سکا۔‘‘؎۳
یہ سوالات درحقیقت سماج کو بیدار کرنے کے لئے تازیانے کا کام کرتے ہیں۔ بینی سمجھتا ہے کہ غربت اور امیری کوئی فطری چیز نہیں بلکہ سماجی نا انصافی کا نتیجہ ہے، مگر شکروا، جو صدیوں کے استحصالی نظریے کا شکار ہے، اسے اگلے جنم میں کی ہوئی غلطی کی سزا کہ کر خاموش کر دیتا ہے۔اس افسانے میں برہمنوں کو ایک ایسے طبقے کے طور پر دکھایا گیا ہے جو دلتوں کو مندروں میں داخل ہونے سے روکتے ہیں۔اور خود مذہب کے نام پر دولت، طاقت اور حکومت تک حاصل کرتے ہیں۔نچلی ذات کے لوگوں سے خدمت کرواتے ہیں مگر انہیں چھونا بھی نا پاکی سمجھتے ہیں۔
یہ منافقت اسی افسانہ کے ایک منظر میں کھل کر سامنے آتی ہے جب شکروا گھر جانے کی اجازت کا منتظر ، ایک طرف لنگوٹی باندھے چپ چاپ کھڑا تھا کہ ’’ایک تلک دھاری پنڈت شبو شنکر لٹیا میں گنگا جل لئے کھڑاؤں پہنے رام رام کی مالا جپتے ہوئے اس طرف سے نکلے ۔زمین کچھ اونچی نیچی تھی۔ پنڈت جی لڑکھڑائے اور ان کا بدن شکروا چمار سے چھو گیا ۔بات معمولی سی تھی ۔ پنڈت جی اپنے گھر کی مرمت اچھوتوں سے ہی کراتے تھے ۔ مہاراجن کا ڈولہ چمار ہی اٹھاتے تھے۔ ‘‘؎۴
لیکن پنڈت جی اس معمولی سی غلطی پر آگ بگولا ہو گئے۔تعلقہ دار صاحب دوڑے دوڑے پوچھنے آئے کہ مہاراج کیا بات ہے؟ مہاراج نے بگڑ کر کہا :
’’جہاں پنڈتوں کو بھوج دیا جاتا ہے وہاں چماروں کا کیا کام؟ دیکھیے نا اس پاپی نے جان بوجھ کر مجھے چھو لیا اب آپ ہی بتائیے مجھے غصہ کیوں نہ آئے۔رام رام! آپ نے چماروں کو بہت سر چڑھا رکھا ہے۔مہاراج کے آخری جملے نے تعلقہ دار کو آگ بگولہ کر دیا ۔ انہوں نے شکروا چمار سے پوچھنے کی ضرورت ہی نہ سمجھی۔ پیادوں کو اشارہ کر دیا کہ ’’مار سالے کو‘‘؎۵ اور شکروا کو اتنا مارا گیا کہ وہ وہیں مر گیا۔
یہ منظر اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ذات پات کا نظام ایک استحصالی ڈھانچہ ہے، جو کمزوروں کو صرف خدمت اور غلامی کے لیے زندہ رکھتا ہے، مگر ان کے حقوق دینے کو تیار نہیں۔افسانے کا اختتام ایک ایسی تبدیلی پر ہوتا ہے جو نچلے سماج کو اپنے مستقبل پر غور و فکر کرنے کے لئے مجبور کرتا ہے۔ 20 سال بعد وہی غریب دلت لڑکا بینی، جس کا باپ مذہبی ڈھیکے داروں اور برہمنوں کے ظلم کی بھینٹ چڑھا تھا، اب ایک اعلیٰ افسر “مسٹر ڈیوڈ” بن چکا ہے۔رام پرشاد، جو کبھی بینی کے باپ کو حقیر سمجھ کر بیگار پر لگاتا تھا، اب وہی زمیندار بینی سے ہاتھ ملانے کے لیے بے تاب ہے۔ مگر بینی، جو اب ڈیوڈ بن چکا ہے، اس سے ہاتھ نہیں ملاتا اور اسے حقیقت کا آئینہ دکھاتا ہے۔ایک خیمے میں دونوں کی ملاقات ہوتی ہے ۔
رائے صاحب خیمے میں داخل ہو کر نہایت ادب سے صاحب کو جھک کا سلام کرتے ہیں اور ہاتھ ملانے کے لیے آگے بڑھتے ہیں’’ لیکن ڈیوڈ صاحب نے ان سے ہاتھ نہ ملایا اور کہا :معاف کیجئے میں آپ جیسے عالی خاندان پنڈتوں سے ہاتھ نہیں ملا سکتا کیونکہ میں اچھوت ہوں۔حضور ایسی باتیں نہ کریں ۔راج کو ہم ایشور کا سایہ سمجھتے ہیں۔لیکن میں اچھوت ہوں۔وہ کیسے؟ یہ آپ کو بہت جلد معلوم ہو جائے گا۔ہاں تو بتائیے آپ کے گاؤں میں کوئی شکروا رہتا تھا؟جی ہاں میرا ایک اسامی اس نام کا ضرور تھا لیکن اس کو مرے ہوئے 20 سال ہو گئے۔میں نے سنا ہے آپ نے اس کو جان سے مار ڈالا تھا۔رائے صاحب تن گئے۔ جھوٹ بالکل جھوٹ۔بھلا کہیں ایسی جیو ہتیا ہو سکتی ہے؟جی ہاں !آپ بے درد ،تنگ نظر لوگوں سے جیو ہتیا ہو سکتی ہے۔ رائے صاحب !ادھر دیکھئے ۔ جس کو اس وقت آپ حضور کہہ کر فخر کر رہے ہیں۔ جس کو سلام کرنے آپ یہاں حاضر ہوئے ہیں۔ وہ اسی بد نصیب شکروا چمار کا لڑکا بینی ہے۔رائے صاحب یہ سن کر بے ہوش ہو گئے۔ ڈیوڈ صاحب نے انہیں گھر بھیج دیا۔‘‘ ؎۶
وہ اس صدمے سے اتنے دل برداشتہ ہوئے کہ بالآخر ان کی موت ہو گئی۔یہ مکالمہ سماج میں دلتوں کے احتجاج اور مزاحمت کی ایک علامت ہے۔ بینی نے صرف انتقام نہیں لیا بلکہ اعلیٰ تعلیم اور طاقت کے ذریعے ناانصافی کے خلاف کھڑےہو کر ظلم کو بے نقاب کر دیا۔ زمیندار کا اس صدمے کو برداشت نہ کر کے مر جانا یہ اس بات کی علامت ہے کہ استحصالی نظام کی موت نا گزیر ہے، بشرطیکہ دلت تعلیم اور بیداری کے ذریعے خود کو مضبوط کریں۔
حواشی
(۱)دودھ کی قیمت ۔ منشی پریم چند ص۸ ناشر، عصمت بک ڈپو ، دہلی ۱۹۳۰
((2دودھ کی قیمت۔ منشی پریم چند ص۸-۹ ناشر، عصمت بک ڈپو ، دہلی ۱۹۳۰
(3)اردو افسانے کی روایت۔ مرزا حامد بیگ ص ۳۸۰-۳۷۹ ناشر ،عالمی میڈیا پرائیویٹ لمیٹیڈ، دہلی ۲۰۱۴
(4)اردو افسانے کی روایت۔ مرزا حامد بیگ ص۳۸۰ ناشر ،عالمی میڈیا پرائیویٹ لمیٹیڈ، دہلی ۲۰۱۴
(5) اردو افسانے کی روایت ۔مرزا حامد بیگ ص ۳۸۱ ناشر ،عالمی میڈیا پرائیویٹ لمیٹیڈ، دہلی ۲۰۱۴
(6) اردو افسانے کی روایت ۔مرزا حامد بیگ ص ۳۸۱-۳۸۲ ناشر ،عالمی میڈیا پرائیویٹ لمیٹیڈ، دہلی ۲۰۱۴