ڈاکٹرمحمد رکن الدین ، نئی دہلی
اردوکی نئی بستیوں کے نمائندہ افسانہ نگاروں کا عمومی جائزہ
برصغیرہندوپاک اوربنگلہ دیش کے علاوہ اردوجہاںجہاں بولی اورسمجھی جاتی ہے، ان ممالک کو اردوکی نئی بستیوں سے موسوم کیا جاتاہے۔برصغیر کے مختلف علاقوں میں اردو کی قدیم بستیاں سیکڑوں برس سے موجودہیں۔ یہاں کے باشندے تلاش معاش کے لیے نقل مکانی کے عمل سے دوچار ہوتے رہے ہیں۔ یہی نقل مکانی ان نئی بستیوں کی موجد ہیں جہاں وہ اپنی زبان و تہذیب کے ساتھ آباد ہوتے گیے۔ اردوزبان کی یہ خوش قسمتی ہے کہ ان بستیوں میں آباد لوگوں نے ابلاغ و ترسیل کے علاوہ اپنی تہذیب کو زندہ رکھنے کے لیے اپنی مادری یا علاقائی زبان کا استعمال کیا۔چناں چہ ان ممالک میں اردوکی نئی بستیاں آباد ہوگئیں۔مختلف ملکوں میں اردوکی نئی بستیاں توانااور مستحکم بن کر ابھر رہی ہیںاور ان ممالک کے لوگوں کو بھی اپنی جانب متوجہ کر رہی ہے جو کہ ایک خوش آئند اور اردوکی تابناک مستقبل کی ضامن ہے۔ اردوکی نئی بستیوں میں شعری اصناف کے بعد جن اصناف پر سب سے زیادہ خامہ فرسائی ہوئی وہ فکشن ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ چند دہائیوںسے افسانہ نگاروں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔ برطانیہ، جرمنی، ناروے، سوئیڈن، ڈنمارک، امریکہ، کینڈا، آسٹریلیا،ماریشس، مصر، ترکی، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین، عمان اورکویت میں اردوفکشن باضابطہ طور پر نہ صرف تخلیق کیے جارہے ہیں بلکہ ان کی ادبی حیثیت بھی دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔ ایران، جاپان، ترکی، سوئزرلینڈ، چین، ازبکستان، آذربائیجان، انڈونیشیا، بلجیم وغیرہ کی دانش گاہوں میں اردو زبان وادب کی تعلیم دی جاتی ہے اور تصنیف و تراجم کے ذریعے اردو پر کام ہورہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان بستیوں میں موجود اردو حلقوں تک رسائی کے لیے برصغیر کے اردو دانشور فراخ دلی کا مظاہرہ کریں۔ مجھے یہ لکھنے میں کوئی تامل نہیں ہے کہ دیار غیر کا نام سنتے ہی ہند و پاک کے چند اسکالرروں کو پریشانی ہوجاتی ہے کہ آخر ان بستیوں میں تخلیق ہورہے ادبی فن پاروں کو کیوں اتنی اہمیت دی جائے۔ ایک صاحب کسی موقع پر راقم سے مہجری افسانے پر بات کرتے ہوئے کافی غصہ ہو رہے تھے کہ ’’ وہاں موجود افسانہ نگار صرف ہجرت پر گھڑیالی آنسو بہاتے ہیں، ہجرت کے علاوہ ان کے پاس لکھنے کو کچھ نہیں ہے‘‘۔ یہ ذہنیت ہندوستان میںموجود اردو اسکالر کی ہے۔ ابتدائی زمانوں سے ہی اردو فکشن کے موضوعات کسی نہ کسی واقعات و حادثات کی کہانی سے متعلق رہے ہیں۔ کبھی تعلیم نسواں، کبھی معاشرے میں صنف نازک کی موجودگی صرف تفنن طبع ، کبھی مسلم معاشرے کی خرابی، کبھی ہندوستانی معاشرے میں رائج بھید بھاؤ، کبھی سیاسی جبرو تشدد، کبھی غریب اورکسانوں کے استحصال، کبھی فسادات، کبھی تقسیم ہند وپاک ، کبھی ایمرجنسی تو کبھی ہجومی تشدد۔ بھلا اردو کی نئی بستیوں میں تخلیق شدہ افسانوں کے موضوعات پر ہی یہ سوال کیوں؟ ہمیں خود سے قائم کردہ فرسودہ نظریات، تعصبات اور اس حصار کو توڑنے کی ضرورت ہے جس میں ایک انسان ، دوسرے انسان کو محدود اور مجروح کرنے پر لگا ہوا ہے۔زبان واد ب سماج اور سرحدکے مابین پل ہے جسے گرا نا راستوں کو مسدود کرنا ہے ۔اردو کی نئی بستیوں میں اردو زبان وادب پر ہورہے کام قابل ستائش ہیں۔ ایک خاص طرح کی نظریات کے حامل افراد کی وجہ سے ان کے کارنامے کو سرد بستے میں ڈالنا انصاف پسند ادیب کے لیے کسی بھی صورت میں مناسب نہیں۔ ان ممالک میں مقیم زیادہ ترلوگوں کا ذریعۂ معاش اردونہیں ہے۔ بلکہ وہ ڈاکٹر، انجینئر، کاروباری اور دیگر پیشے سے وابستہ ہیں لیکن مادری زبان سے محبت ، لگاؤ اور ایک تہذیبی تعلق نے دیار غیر میں بھی ایک بستی آباد کردیا ہے۔ ان ممالک میں لوگ اردوزبان میں اپنی تخلیقات پیش کررہے ہیں۔ بے شمار ادبا و شعرا ہمیشہ اخبارات،رسائل اور کتابوں کی شکل میں ہمیں اردو زبان وادب کا گلدستہ پیش کرتے رہتے ہیں جو کہ اردو کی مقبولیت اور توانائی کی دلیل ہے۔ جہاں تک ہجرت سے متعلق سوالات ہیں تو ان کے لیے یہ پہلو زیادہ مناسب ہوگا کہ ہجرت کا عمل بذات خود تکلیف دہ عمل ہے۔ ہجرت صرف ایک خارجی عمل نہیںبلکہ داخلی عمل بھی ہے۔ اس سے انسانی وجود متاثرہوتا ہے۔وہاں کے رنگ وآہنگ میں خود کو ڈھالنایا خودوہاں کے رنگ وآہنگ میں مست ہوجانا۔ اس عمل میں انسان بہت کچھ حاصل کرتاہے لیکن اس کے ساتھ ہی بہت کچھ کھوبھی دیتا ہے۔اس تعلق سے ڈاکٹر محمد زاہد کے قول سے اتفاق کیا جا سکتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’ تارکین وطن کے لئے ہجرت محض ایک خارجی عمل نہیں۔ اس کے اثرات ان کے پورے وجود پر پڑتے ہیں۔یہ نامانوس صورت حال کو اپنے رنگ و آہنگ میں ڈھال لینے یا خود کو اس میں ڈھل جانے کا سبب بنتی ہے۔ اس عمل میں انسان کچھ کھوتا ہے اور کچھ پاتا ہے۔تقسیم ہند کے نتیجے میں ہونے والی نقل مکانی ایک سیاسی جبر تھی، اس میں تہذیبی اجنبیت کم تھی۔تلاش معاش میں نکلنے والے لوگ اپنی زندگی کو آسودہ بنانے کی غرض سے نکلے تھے۔ان کی وطن واپسی کے امکانات کم تھے۔یہ معاشی ہجرت معاشرتی ہجرت بھی ثابت ہوئی ۔ یہاں اجنبیت اور غیریت کے تجربے زیادہ شدید تھے۔ا س کے ساتھ نیا ماحول ، نیا رنگ ڈھنگ ،نئے رسوم ، نئی زبان وغیرہ کے معاملے تھے اور ان کا نباہ کرنا تھا۔وقت نے آنے والوں کو مطابقت کرنا سیکھا دیا ۔ تارکین کی پہلی نسل کو شروع میں پریشانی ہوئی مگر دوسری نسل کے لئے نسبتاً سہل اور تیسری نسل کے لئے آزادی کا پروانہ ثابت ہوئی‘‘۔(1) ذیل میں چند اہم بستیوں اور وہاں کے نمائندہ تخلیق کاروں پر سرسری روشنی ڈالی جارہی ہے۔ اردوکی نئی بستیوں میںسب سے اہم اورقدیم بستی برطانیہ ہے۔ برطانیہ اور ہندوستان کے مابین آمدورفت کا سلسلہ ہندوستان میں کمپنی کے استحکام سے پہلے شروع ہوچکا تھا۔1804 میں گل کرسٹ ہندوستان سے لندن واپس ہوگیا۔ لندن واپسی پر اردو تدریس کے لیے ایک کالج قائم کیا جوکہ لیسٹراسکوائر میں واقع تھا۔ اس کالج کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ جو انگریز ملازمت کی غرض سے ہندوستان آتے انہیں اردوزبان کی تعلیم دی جاتی۔ 1857کے بعد جب ہندوستان کے طول و عرض پر انگریزی سامراج کا تسلط ہوگیا تو اس کے بعد انگلستان میں تعلیم اور سیروتفریح کے لیے ہندوستانی آنے لگے۔ آکسفورڈ اورکیمبرج میں اردوززبان کی تعلیم دی جانے لگی۔ سول سروس کے امتحان کا مرکز ہونے کی وجہ سے طالب علموں کی تعداد بڑھنے لگی۔ 1930 میں لندن اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز کا قیام عمل میں آیا۔ یہاں سے اردو درس وتدریس کا کام لیا جانے لگا۔ جس سے اردو زبان وادب کے تئیں انگریز وںمیں بیداری پیدا ہوئی۔ آزادی کے بعد ہندوپاک سے کثیر تعداد میں لوگ یہاں آتے جاتے رہے۔شواہدسے معلوم ہوتا ہے کہ برطانیہ سے پہلی مرتبہ محمودہاشمی نے 1961 میں ہفت روزہ’مشرق‘ نکالا تھا۔ اس کے بعد سے آج تک متعدد روزنامے، ہفتہ وارماہنامے اورسہ ماہی رسالے نکل رہے ہیں۔ یہاں بڑی تعداد میں ادبی ادارے اور تنظیمیں قائم ہیںجو ادبی وشعری اجتماع کرتے رہتے ہیں ۔ وہاں موجود اردو کے قلم کار اپنی پیشہ ورانہ اوقات سے کچھ وقت نکال کر اردو زبان و ادب کے لیے کام کررہے ہیں ۔ جن کی تعداد روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔ برطانیہ میں مندرجہ ذیل افسانہ نگاروں نے اب تک اپنی تخلیقات پیش کی ہیں: جتندر بلو، مقصود الٰہی شیخ، فیروزہ جعفر، عطیہ خان، گلشن کھنہ، امجد مرزا، انور نسرین، خالدیوسف، نجمہ عثمان، فہیم اختر، محسنہ جیلانی، طلعت سلیم، صفیہ صدیقی، ایم صدیقہ تبسم، سلطانہ مہر، بانو ارشد، مصطفی کریم، ستارہ لطیف خانم، آغامحمدسعید، عمران مشتاق، احمدسعیدانور، یعقوب مرزا، حمیدہ معین رضوی، شاہد احمد وغیرہ ۔ جتندر بلوکا اصل نام دیولانبہ ہے۔انھوں نے پشاورمیں آنکھیں کھولی، دہلی میں بچپن کا لطف اٹھایا، بمبئی میں مختلف جگہوں پر ملازمت کی اور پھر لندن میں سکونت اختیارکرلی۔ان کو اپنی تہذیبی روایات سے بے حد لگاؤ ہے۔ مغرب میں مشرقی تہذیب کا جنازہ نکلتے ہوئے دیکھ کرپریشان ہوجاتے ہیں۔ انہیں گنگاجمنی تہذیب بہت عزیزہے۔ بھیدبھاؤ سے سخت نفرت ہے۔کیوں کہ رنگ ونسل کی تفریق انسان ہی کو نہیں انسانیت کو بھی بانٹنے کا کام کرتی ہے۔ سیاہ فام کی کمتری اورسفید فام کی برتری سے وہ بہت نالاں ہیں۔ مشرقی اقدارسے مغربی اقدار یقینا بہت مختلف ہیں چناں چہ ان اقدارکا آپس میں ٹکراؤ ایک مشکل عمل ہے۔ موصوف ان تصادم کو دیکھ کر بہت رنجیدہ اور نالاں ہوتے ہیں اور ایک صالح معاشرے کی تشکیل کے لیے کمر بستہ ہوجاتے ہیں۔ جتندر بلو کے تین ناول اورچھ افسانوی مجموعے اب تک شائع ہوچکے ہیں اور ’’ آخری پڑاؤ‘‘ زیر طبع ہے۔ جن میں مذکورہ مسائل کی عکاسی جابجادیکھنے کو ملتی ہے۔ان کا پہلا ناول ’’ پرائی دھرتی اپنے لوگ‘‘ 1977میں شائع ہوا تھا۔دوسرا ناول ’’ مہانگر‘‘ 1990 میں شائع ہوا ۔ان دونوں ناولوں کو اترپردیش اردو اکادمی نے انعام سے نوازا ۔ تیسرا ناول ’’وشواس گھات ‘‘ ہے جو 2003 میں شائع ہوا تھا۔ افسانوی مجموعے ’’ پہچان کی نوک (1986)، جزیرہ (1994)، نئے دیس میں (1998)، انجانا کھیل (2001)، چکر (2007)، درد کی حد سے پرے (2009)‘‘ شائع ہوچکے ہیں۔مذکورہ تمام تخلیقی جواہر نے موصوف کو شہرت دوام بخشی ۔ان تمام تخلیقات میں تخلیق کار اپنی نگاہ سے کائنات کی سیر کرتا ہے۔ اس سیر و تفریح میں تفنن قلب سے زیادہ کائنات کے مسائل کا انبار ہے ۔ اس انبار کو کرداروں کا لبادہ پہنا کر آس پاس کی گندگی کو ختم کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ان کا ایک مشہورافسانہ ’ آخری پڑاؤ‘ ہے۔ ’آخری پڑاؤ‘کہانی میں مشرقی اورمغربی تہذیب کا ٹکراؤ ہے۔ سرجو جوکہ اب سریش ہے ضعیف اور بیمار باپ کے لیے خود سے کئی بار لڑتا ہے۔ کبھی بیوی اور بچوں کا پیارذہنی سکون میںمخل ہوتا ہے تو کبھی باپ کی کمزوری اور بیماری سے دل برادشتہ ہوجاتا ہے۔ضعف وکمزوری سے نڈھال باپ اسی سرجو کی تلاش میں سرگردا رہتا ہے اور ہمہ وقت اسی کوشش میں رہتا ہے کہ اسے وہی سرجو مل جائے جو بچپن میں ہواکرتا تھا۔اس کہانی کا آخری اقتباس دیکھیے: ’’ سرجو ! میرے بیٹے۔۔۔میں اپنا کل اثاثہ تمہارے نام چھوڑے جارہا ہوں ۔۔۔ بیٹی ڈالی پبلک اسکول میں ہی تعلیم پائے گی ایک بات اور ۔۔۔کل صبح گیارہ بج کر دو منٹ پر میں اس جہاں میں نہیں رہوں گا ۔ تم دوپہر میں پہلاجہاز پکڑ کر زیورک چلے آنا۔‘‘ ’’ میری ڈینڈباڈی Dead Dody لندن لا کر میرا انتم سنسکار اپنی برادری میں شان دار طریقے سے کرنا اور سب کو کھانا بھی مندر میں کھلا دینا۔۔۔ڈالی اور ببلو سے کہنا کہ گرینڈ پا ان سے بہت پیار کرتا تھا۔وہ فیونر میں ایک دو منٹ میرے بارے میںضروربولیں‘‘۔(2) مغربی سماج کا بھی عجیب رکھ رکھاؤ ہے۔ایک کمزرو باپ چند مہینے بیٹے کے یہاں اس حالت میں بھی قیام کرنے سے گھبرا رہا ہے۔حالاں کہ مشرقی سماج میں اس طرح کے واقعات شاید ہی نظرآتے ہیں۔ مشرق خاص طور پر برصغیر کے سماج میں ، سماجی تانا بانا کے لیے ہر ایک کی ضرورت سمجھی جاتی ہے۔انسانی سماج متعدد اکائیوں سے ہی بنتا ہے۔برصغیر میں ایک گھر اور ایک خاندان کا تصور صدیوں سے چلا آرہا ہے۔ مشرقی سماج میں بوڑھے ماں باپ کے لیے بچے سہارا ہوتے ہیں، اسی مشرقی سماج کے پروردہ انسان مغرب میں اپنی تہذیب اور روایت کا جنازہ نکالتے نظر آتے ہیں۔ جتندر بلو اس سماج سے سخت نالاں نظر آتے ہیں۔ گوکہ مغرب میں سماج کا تصور مشرق سے مختلف ہے لیکن مشرقی لوگ کب تک اس سماج کی پیروی میں آباؤ اجدادکی روایات سے روگردانی کرتے رہیں گے۔جتندربلو اپنی کہانیوں کے ذریعے ان نکات کی طرف اشارہ کرتے رہتے ہیں۔ جو سہی معنوں میں ہم سب کے لیے درس عبرت ہے۔ مقصود الٰہی شیخ کا وطن گجرات (پاکستان) تھا۔ایک اپریل 1934کو ان کی ولادت ہوئی۔ دہلی سے انھوں نے ابتدائی تعلیم حاصل کی اور میٹرک پبلک ہائی اسکول گجرات سے پاس کیا۔ بی اے کی تعلیم ایس ایم کالج (1959۔1955 ) پنجاب یونیور سٹی سے حاصل کی۔ مئی 1962 میں انگلستان آگئے اور پھر 1965 میں بریڈ فورڈ چلے گیے اور1970 میں Justice of Peace بنا دیے گیے۔ان کا کہنا ہے کہ وہ پہلے پاکستانی تھے جنہیں اس اعزاز سے نوازا گیا۔بریڈ فورڈ میں سکونت اختیار کر لینے کے بعد مقصود صاحب نے صحافت کے میدان میں قدم رکھا اور1972۔ 1971 تک بریڈ فورڈ میں روزنامہ’’جنگ‘‘ لندن میں اپنی خدمات انجام دیں۔بریڈ فورڈ سے شائع ہو نے والے ایک مشہور ہفت روزہ ’’المشتہر‘‘ کا 1975 میں نظم و نسق سنبھال لیا اور پھرمقصودصاحب نے اس کا نام بدل کر ’’راوی‘‘ رکھ دیا اور اس رسالے کو1999 تک باقاعدگی کے ساتھ شائع کرتے رہے۔ مقصود الٰہی شیخ کی ایک منفردشناخت ہفت روزہ ’’راوی‘‘سے ہوتی ہے اور دوسری شناخت ان کی افسانہ نگاری سے ہوتی ہے۔ ان کے افسانوں کے چھ مجموعے ’’پتھر کا جگر ‘‘ (1966) ’’برف کے آنسو‘‘ (1975) ’’جھوٹ بولتی آنکھیں‘‘ (1992) ’’دل ایک بند کلی‘‘(1994) ناولٹ، ’’پلوں کے نیچے بہتا پانی‘‘، فریب تماشا‘‘کے نام سے منظر عام پر آچکے ہیں۔ مقصود الہٰی کا شمار اردو کی نئی بستیوں کے اہم افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔وہ عرصۂ دراز سے برطانیہ میں مقیم ہیں لیکن اس کے باوجود اپنی زبان اور تہذیب سے وابستہ ہیں یہی وجہ ہے کہ وطن کی مٹی کی خوشبو انہیں بار باراپنے وطن کی گلیوں میں کھینچ لاتی ہے۔ وطن سے محبت کا یہ جذبہ ان کے یہاں ناسٹلجیائی صورت اختیار نہیں کرتا بلکہ تعمیری انداز میں ظاہر ہوتا ہے۔مقصود الہٰی شیخ کی تخلیقی شخصیت کی مختلف جہات ہیں جن میں سے ایک جہت افسانہ نگاری ہے۔یہاں تمام افسانوں پر فرداًفرداً ذکر کرنا ممکن نہیں۔ ان کا ایک مشہور ومعروف افسانہ ’’ پتھر نہیں مرتے‘‘کو پڑھنے کے بعد یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اس کہانی کا ایک ایک لفظ اکیسویں صدی کی بربریت ،وحشی،ظالم اورانسانیت کے لیے خطرہ ممالک کی نشاندہی کررہا ہے۔ جس کا مقصد دنیا سے اطمینان و سکون ختم کرکے پوری دنیامیں بے اطمینانی پیدا کرنا ہے۔ اس جنگ میں انسان کی ذاتی، ملکی، مسلکی، عائلی، سیاسی، مذہبی افراط وتفریط کا اصل امتحان ہوتا ہے کہ وہ کس قدر انسانیت کا خیال رکھتا ہے۔ ’پتھر نہیں مرتے‘ جیسی کہانی میں گم شدہ بچی کا ذکر کبھی شام، کبھی فلسطین، کبھی برما، کبھی یمن اور اسی طرح ظلم وستم کے شکار ممالک کے لیے ہمیشہ انسانیت سوز مسائل پیدا کرتے رہیں گے۔ہم نہ سہی کوئی اور اس ظلم وستم کے شکارہوتے رہیں گے۔اس افسانے میں جنگ،محاذ جنگ اوراس سے پیدا ہونے والے انسانیت سوز مسائل کے انبار ہیں جو کبھی ختم نہیں ہوسکتے۔افسانہ نگار خود ایک کردار کے ذریعے سوال کرتا ہے’’کیا یہ گورکھ دھنداہے۔انسان اپنے تحفظ کے لئے مکان، شہر اوربستیاں بساتاہے۔انہیں بستیوں کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی جان نچھاورکردیتا ہے۔انسان مرجاتے ہیں،شہرزندہ رہتے ہیں‘‘۔اس پوری کہانی میں افسانہ نگارنے محاذجنگ کے واقعات کی خوب صورت عکاسی کی ہے ۔ جن سے موجودہ وقت میں چند بڑے ممالک کو سبق لینے کی ضرورت ہے۔ مقصود الٰہی شیخ کی ادبی خدمات اور مقبولیت کا اندازہ امجد مرزاا مجد صاحب کی تحریر سے لگا سکتے ہیں۔ موصوف لکھتے ہیں: ’’ برطانیہ میں ان کی طویل ترین اردو خدمات کے اعتراف میں بریڈ فورڈ کی یونیورسٹی نے محترم شیخ صاحب کو ان کی آدھی صدی کی انتھک محنت اور اردو ادب کی طویل ترین خدمات کے اعتراف میں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازا۔اس سے قبل چند سال پہلے حکومت پاکستان نے بھی شیخ مقصود الٰہی صاحب کی طویل اردو ادب کی خدمات کے صلہ میں انہیں پاکستان ہائی کمیشن لندن میں بلا کر بہت بڑے ہجوم کے سامنے ستارہ پاکستان سے نوازا جہاں راقم الحروف بھی موجود تھا‘‘۔(3) لندن کی معروف و مشہور اور ہر دل عزیز ادبی وسماجی شخصیت امجد مرزاامجدکئی اصناف میں اپنی انفرادی شناخت رکھتے ہیں۔ 1961میں برطانیہ آگیے جب ان کی عمر محض اٹھارہ سال کی تھی۔متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔بیک وقت افسانہ نگار، انشائیہ نگاراورشعری ذوق وشوق کے مالک ہیں۔شعری مجموعہ ’’ہوائے موسم گل ‘‘ اور افسانوی مجموعے ’کانچ کے رشتے‘، ’سونے کی صلیب‘ ، ’ دوریاں‘، ’تنہائیاں‘، ’ جھوٹے لوگ‘ اور’ توبہ ‘ اب تک شائع ہوچکے ہیں۔انشائیوں کے مجموعے ’پھلواری ‘ اور ’ دھنک کے رنگ‘ اور پنجابی زبان میں افسانے اور شاعری ’اوکھے پینڈے‘ اور ’یاداں‘ بالترتیب اب تک شائع ہوچکے ہیں۔ ان کا ایک افسانہ ’’حد ہوگئی‘‘ہے جس میں ایک پاکستانی جوڑے کی رودادہے۔فیض احمد اورنسرین کی دواولاد ہیں۔ ایک لڑکا بابراورایک لڑکی پنکی۔یہی دونوں اس کہانی کے مرکزی کردارہیں۔’ حد ہوگئی‘ کہانی پر اظہار خیال کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد زاہد نے لکھا ہے : ’’ نسرین نے ماں کے انتقال کے بعد اپنے باپ کو انگلینڈ اس لئے بلوایا تھاکہ ان کی تنہائی دورہوجائے ۔ اب یہ مصیبت تھی کہ وہ روز مغرب میں رہنے والوں ، مغربی تہذیب اور انگریزوں کی برائی بھی کررہے تھے اور اسی ملک میں مستقل قیام کا ارادہ بھی کررہے تھے۔ ایک دن اچانک نسرین کے والد شاپنگ کرتے ہیں اور پاکستان واپس چلے جاتے ہیں۔ بابر اس واقعہ کا پس منظر بیان کرتا ہے ’’ ہمارا یہ معمول بن گیا کہ ہر ہفتہ کو دس پاؤنڈ لاٹری میں لگاتے ۔۔۔(ایک دن لاٹری لگ گئی تو) انعام کی رقم ملتے ہی میں نے انہیں ان کا حصہ نوے ہزار پونڈ دے دیا جو انہوں نے اسی ہفتے اپنے بینک میں ٹرانسفر کرادیا اور پھر دس دنوں میں واپس بھی چلے گئے‘‘ مشرقی قدروں کے دلدادہ فیض کے سسر کی واپسی کا سبب یہ تھا کہ انہیں نکاح ثانی کی جلدی تھی۔انہوں نے ایک رشتہ دیکھ رکھا تھا مگر لڑکی والے ان کی عمر کے سبب پانچ لاکھ حق مہر مانگ رہے تھے۔لاٹری کی رقم نے سارے مسائل حل کر دیئے۔امجد مرزا نے حقیقی کردار اور حقیقی ماحول کی تخلیق کی ہے اور بڑی نفاست کے ساتھ افسانہ میں تضاد بیانی کو نمایاں کیا ہے۔ایسے کرداروں سے ہر جگہ واسطہ پڑتا ہے جو صرف خود کو اچھا اور دوسروں کو برا کہتے نہیں تھکتے اور جب وقت آتا ہے تو ناجائز باتیں ان کے لئے جائز ہوجاتی ہیں‘‘۔(4) امجد مرزانے اس کہانی میں حقیقی کرداراورمعاشرے میں موجود حقیقی احوال کو بیان کیاہے۔انسان میںروپوش تضادصفت کی بخیہ کنی کی ہے۔اس طرح کے کردارہم سب کے سامنے آئے دن مل جاتے ہیں۔قول وفعل میں تضاد ہی تضادنظرآتا ہے۔ گویا انسانی شکل میں دومتضادصفات کے مالک افرادکی ترجمانی اس افسانے کا اہم حصہ ہے۔ برطانیہ کے کہانی کاروں میں فہیم اختر اپنے منفرداسلوب کی وجہ سے قدرکی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔فہیم اختر کا تعلق کلکتہ سے ہے۔ انھوں نے کلکتہ ہی میں آنکھیں کھولی اور تعلیمی سفر کا آغاز یہیں سے کیا۔فہیم اختر بیک وقت افسانہ نگار، کالم نویس اور سماجی خدمت گارہیں۔ 2014 میں ’’ایک گریزاں لمحے‘‘ کے نام سے افسانوی مجموعہ اور2018میں ’’لندن کی ڈائری‘‘ نام سے کالموں کا مجموعہ شائع ہوچکاہے۔موصوف اخبارمشرق کلکتہ کے لیے مستقل کالم بنام’’لندن کی ڈائری‘‘ لکھتے ہیں۔ جو اتوار اڈیشن میں شائع ہوتا ہے۔فہیم اختر کے افسانوی جہان کا خاص موضوع مغربی ومشرقی سماج ومعاشرے میں رائج طبقاتی جبر وتشدداورذہنی و نفسیاتی کش مکش ہے۔ ان کے مشہور افسانوں میں ’کتے کی موت، ایک گریزاں لمحہ، وندے ماترم، بیوٹی پارلر ، سرکل لا ئن ، دیو دا سی ، ڈرو بیل ، گئو ماتا، تشنگی، پیاسی ندی ، ٹوٹے بندھن ، آخری سفر، درگا مہتر، گواہی ، لال کرسی ، رکشہ والا، سروپ سنگھ، رشتوں کا درد، کالی پتلون وغیرہ قابل ذکر ہیں۔افسانہ’ کتے کی موت‘ ایک انگریز شخص ڈیوڈ کے ارد گرد گھومتا ہے۔ اس کہانی میں ڈیوڈ ایک ایساشخص ہے جو مغربی سماج یا یہ کہہ لیں کہ موجودہ مادیت پرست دنیا کی عکاسی کرتا ہے۔ افسانے کا آخری حصہ ملاحظہ کیجیے: ’ ڈیوڈ! پلیز، ائی ایم سوری۔ مجھے کل ہی تمہاری ماں کی موت کی خبر معلوم ہوئی۔ ’ وہ ہاں، مائی مدر۔۔۔، ’ تم ۔ تم ٹھیک توہو‘ ’’ وہ یس۔ وہ بوڑھی تھی یار ، ڈونٹ وری!‘‘ ڈیوڈ یہ کہہ کر ہنستے ہوئے گاڑی میں بیٹھ گیا۔‘‘ اس کہانی میں بنیادی طور پر ڈیوڈ اس سماج کی پیداوار ہے جس کے لیے ایک کتا بہت اہمیت رکھتا ہے۔ میںیہ بات اس لیے کہہ رہا ہوں کہ جب ڈیوڈ کا کتا مرگیا تھا تو اس کے غم میں ڈیوڈ نے کھانا پینا چھوڑ دیا تھا،کتے کی موت پر ڈیوڈبہت بے قرار تھا۔ افسانہ نگار اس کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے اسے کی ماں کی موت کے بارے میں بتاتے ہوئے جھجھک محسوس کررہا تھا لیکن ڈیوڈ کی بات سن کر افسانہ نگاریہ سوچنے پر مجبورہوجاتاہے کہ ایک بیٹا کو ماں کی موت کا غم نہیں ہے لیکن کتے کی موت کے غم میں کئی دن بے قرار رہتا ہے۔ حالاں کہ ماں نے ڈیوڈ کو پیدا کیا ،پھر بھی کتے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتیں۔ اس افسانے کا اختتامیہ انسانی فکرو شعور کو نہ صرف جھنجھوڑکر رکھ دیتا ہے بلکہ بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیتا ہے کہ آخرماں سے اہم کتا کیسے ہوسکتا ہے۔محترمہ مہوش نور فہیم اختر کی کہانیوں پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتی ہیں: ’’فہیم اختر اپنے افسانوں کے لیے انہیں موضوعات کا انتخاب کرتے ہیں جو ان کے تجربات و مشاہدات کا حصہ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانے ہمیں حقیقی زندگی کے پیچ و خم سے روشناس کراتے ہیں۔ اس لیے ان کا قلم کبھی انسانوں کی بے حسی، تو کبھی حکمرانوں کے ظلم و ستم، انسانی نفسیات اور انسانی رشتوں کے نشیب و فراز کی داستان بیان کرنے لگتاہے۔ کبھی مغربی تہذیب کو اپنے طنز کا نشانہ بناتے ہیں۔ انہیں خوبیوں کی وجہ سے ان کے افسانوں میں سانس لینے والے کردار ہمارے سماج اور معاشرے کے ہی کردار نظر آتے ہیں‘‘۔(5) اردوکی نئی بستیوں میں مردکے ساتھ خواتین بھی قلمی تعاون پیش کررہی ہیں۔خواتین تخلیق کاروں کی ایک طویل فہرست ہے۔ فیروزہ جعفرجو 1968میں کراچی سے لندن آئیں۔ان کے افسانوی مجموعہ ’’پہلی بوند سمندر‘‘1987میں شائع ہوچکاہے۔ محسنہ جیلانی کا تعلق ہندستان سے ہے۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی اے کیااور 1965 میں برطانیہ آگئیں۔ ان کا افسانوی مجموعہ ’’عذاب بے زبانی ‘‘1988 میں شائع ہوچکا ہے۔ ’میں سمندراوروہ‘ ان کا نمائندہ افسانہ ہے۔اس افسانے میں ایک بے سہارا لڑکی کی داستان ہے۔ لڑکی اپنا تعارف جیکی نام سے کراتی ہے۔دربدری جیکی کا مقدربن چکاتھا۔ اچانک جیکی کی ملاقات افسانہ نگارسے ہوتی ہے ، گویا خودافسانہ نگارراوی ہے۔اس افسانے کا ایک اقتباس دیکھیے: ’’جب میں سولہ سال کی تھی تو میرے بھائی نے مجھے ایک مالدار عرب کے ہاتھ بیچ دیا۔ میں بہت روئی پیٹی ۔ چلائی لیکن بے سود ۔۔۔یہ انسان نما جانور اپنے خاندان کے ساتھ مجھے یہاں لے آیا۔۔۔ایک دن جب کہ گھر کے تمام افراد باہر گئے تھے میں گھر میں بند تھی۔ دروازہ پر تالہ لگا تھا۔ میں ہمت کرکے بیڈروم کی کھڑکی سے نیچے کود گئی۔۔۔میری ملاقات جیک سے ہوئی ۔اس نے میرا ہاتھ تھاما ، میری ہمت بندھائی اور زندگی بھر ساتھ دینے کا وعدہ کیا۔اب میں اس کے ساتھ رہتی ہوں ۔میراکوئی مذہب نہیں ۔ میں بس ایک انسان ہوں۔‘‘ اس کہانی میں جیکی کی وہ تمام خواب روپوش ہیں جو وہ اپنی زندگی میں دیکھ سکتی تھیں لیکن گھریلوجبروتشدد نے اسے کہاں لاکھڑا کیا تھا۔ اس کے لیے ایک ہمدرد شخص ایک فرشتہ کی شکل میں جیک مل گیا۔ اس کہانی پر اظہار خیال کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد زاہد لکھتے ہیں: ’’ جیکی نے اپنی کہانی سنا دی ۔ وہ اکیلی نہیں، اس جیسی ہزاروں لڑکیاں ہیں جو غموں سے گزرتی ہیں۔وہ کیا سے کیا بن جاتی ہیں۔ انہیں کوئی جیکی نہیں ملتا جو ان کی زندگی کو سنواردے۔کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ان کے اپنے ، ہم نسل ،ہم زبان اور ہم مذہب ان کا استحصال کرتے ہیں اور کوئی غیر ناخدا بن کر کھڑا ہوجاتاہے۔محسنہ جیلانی کا افسانہ انسانیت کا نوحہ ہے۔‘‘( 6) حمیدہ معین رضوی آگرہ میں پیدا ہوئیں ۔ تعلیم وتربیت سیالکوٹ میں ہوئی ۔1968میں برطانیہ آگئیں ۔بچپن ہی سے شوق مطالعہ نے ہم عمروں میں ایک نمایاں مقام دیا۔ان کا پہلا افسانہ 1957 میں رسالہ ’ علم و ادب‘ میں شائع ہوا تھا جب وہ تیرہ سال کی تھیں۔ ان کا پہلا تنقیدی مضمون 1960میں ’ اقبال اور اشتراکیت‘ کالج میگزین’ افق‘ میں شائع ہوا تھا۔ اس کے بعد موصوفہ پاکستان کے معروف ادبی جرائد ’ لیل ونہار، ادب لطیف، فنون، سیپ اور نقوش ‘ وغیرہ میں لکھتی رہی ہیں۔موصوفہ برطانیہ کی پہلی خاتون شاعرہ ہیں جو حافظ قرآن ہیں اور حجاب و چادر میں ہمیشہ ملبوس رہتی ہیں۔ان کی شعری جہاں میں حسن اخلاق، انسانیت کا درس اور مذہب کا رنگ غالب ہے۔ان کے افسانوی جہان میں بھی انسانی درد، مذہبی وتدریسی رنگ نمایاں ہے۔ شعری ونثری دونوں صنف میںتخلیقات موجود ہیں۔ان کے افسانوی مجموعے ’’فن کی دہلیز(1972)، مردہ لمحوں کے زندہ صنم (1984)، اجلی زمین میلاآسمان (1988)، بے سورج بستی (2000)، داستاں در داستاں، ناولیٹ، افسانے (2010)‘‘ اورایک شعری مجموعہ ’’شیش نگر‘‘(1998) میں منظرعام پر آچکاہے۔ شاہدہ احمدبرطانیہ کے دو افسانوی مجموعے ’’بھنور میں چراغ‘‘ (1992) اور ہجرتوں کے بھنور‘‘(2000)میں شائع ہوچکے ہیں۔افسانوں کے علاوہ اسٹیج ڈراموں سے بھی دل چسپی رکھتی ہیں۔عطیہ خان متعددرسائل میں شائع ہوتی رہیں۔’’تجربات وحوادث‘‘ان کاافسانوی مجموعہ ہے۔ان کا نمائندہ افسانہ’’محافظ‘‘ہے۔ بانوارشداپنی بے باکی اور منفرد لب ولہجے کی وجہ سے جانی اور پہچانی جاتی ہے۔ ان کی کہانیوں کے مجموعے ’’بانوکے افسانے‘‘ (1977) اور ’’بانوکی کہانیاں ‘‘ (1999) میں شائع ہوکر اردو کی نئی بستیوں کے خاتون قلم کاروںمیں مقبولیت حاصل کرچکے ہیں ۔’بتوخالہ‘ان کی مشہورکہانی ہے۔اس میں برطانیہ کی ایک فیملی کی رودادہے۔اس کہانی کا لب لباب گھریلوکش مکش،ماڈرن ایج کی آزادی اورہم جنس پرستی ہے۔ ’بتوخالہ ‘اپنے ایجازو اختصارکے سبب بہت متاثرکن افسانہ ہے۔ بانو ارشد اپنی تخلیقات میںبڑی باریک بینی سے پیغام قارئین تک پہنچاجاتی ہیں جوان کا منفرداسلوب ہے۔اردوفکشن کی تاریخ میں ہم جنس پرستی کے باب میں ’’لحاف‘‘کو شاہکارماننے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس موضوع پر متعدد خواتین قلم کاروںنے خامہ فرسائی کی ہیں لیکن بانوراشدکا بیانیہ سب سے جداگانہ ہے۔ اس تعلق سے ڈاکٹرمحمد زاہد لکھتے ہیں: ’’ یہ افسانہ( بتوخالہ)اپنے ایجاز اور اختصار کے سبب بہت متاثر کن ہے۔بانو ارشد اسی فنکارانہ چابک دستی کے استعمال اپنی تحریروں میں کرتی ہیں۔ہم جنسی کے موضوع پر عصمت چغتائی کی کہانی ’’ لحاف‘‘ شاہکار مانی جاتی ہے۔دوسروں نے بھی اس موضوع کو اٹھایا ہے لیکن جتنے سلیقے سے بانو نے اسے سمیٹا ہے وہ قابل تعریف ہے۔‘‘(7) صفیہ صدیقی کی پیدائش ہندستان میں ہوئی۔تقسیم ہند کے بعد پاکستان چلی گئیں۔شادی کے بعد 1961میں لندن منتقل ہوگئیں۔1990 میں پہلا افسانوی مجموعہ ’’پہلی نسل کا گناہ‘‘1994 میں دوسرا افسانوی مجموعہ’’چاندکی تلاش‘‘ اور 2001 میں تیسراافسانوی مجموعہ ’’چھوٹی سے بات‘‘کے نام سے شائع ہوا۔صفیہ نے ایک اہم کام یہ کیا ہے کہ برطانیہ کے خواتین افسانہ نگاروں کے افسانے انگریزی میں ترجمہ کرکے دی گولڈن کیج (The Golden Cage) کے نام سے شائع کیا۔ انہیں کالم نگاری سے دل چسپی اورشعری ذوق وشوق بھی ہے۔ ان کا مشہور افسانہ ’’ڈبویا مجھ کو ہونے نے،نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا‘‘ ہے۔ اس افسانہ میں ایک عورت اور اس کے تین بچوں کی کہانی ہے۔ان کے افسانوی موضوعات دیگر افسانہ نگاروں کے بہ نسبت مختلف ہیں۔بقول محمد زاہد’’صفیہ صدیقی نے ایسے موضوع کو چنا ہے جس پر اردومیں بہت کم لکھا گیا ہے۔ مغربی معاشرہ بکھر چکاہے۔مشرقی تہذیب میں والدین اوراقرباکی اہمیت کم ہورہی ہے۔تیز رفتارزندگی کی یہ الجھنیں اپنا حل چاہتی ہیں۔‘‘(8) کناڈا میں اردو قلم کارخاصی تعداد میں قیام پذیر ہیں۔ ان میں ڈاکٹرشان الحق حقی(مرحوم)، سید تقی عابدی، جاوید دانش، بیداربخت، ولی عالم شاہین، خالد سہیل، عبدالقوی ضیا، اخترجمال، اکرام بریلوی، رضاالجبار، معین اشرف، نسیم سید، رحیم انجان، عابد جعفری، فیصل فارانی، زہرہ زبیری ، روبینہ فیصل ،رشید منظر حسین،سلطان جمیل،تسلیم الٰہی زلفی،اطہررضوی،اشفاق حسین، خواجہ ناظم الدین مقبول اورجمال انجم وغیرہ کے علاوہ ایک طویل فہرست ہے۔اخترجمال کے اب تک چارافسانوی مجموعے، ایک ناول اورایک خاکہ ’’زردپتوں کا بن‘‘شائع ہوچکے ہیں۔شان الحق حقی مرحوم کی ادبی کاوش آب زرسے لکھنے کے قابل ہے۔ ان کا اہم کارنامہ ’انگریزی اردولغت‘ہے جو آکسفورڈیونیورسٹی پریس سے شائع ہوئی ۔ان کی متعدد کارناموں میں ’بھگوت گیتا‘ کا ترجمہ بھی بہت اہم کارنامہ ہے۔’شاخانے‘ان کا افسانوی مجموعہ ہے۔ اکرام بریلوی نے ڈرامہ، افسانہ، ناول، تنقید و تراجم تمام اصناف پر قدرے اطمینان بخش کام کیا ہے۔ افسانوی مجموعے میں ’تیزہوا میں پتے‘ اور’تیسری نسل‘ شائع ہوچکے ہیں۔ ناول میں ’پل صراط‘ اور’آشوب سرا‘مقبول عام وخاص ہوچکے ہیں۔ خالد سہیل نے ناول ، افسانہ، شاعری اور تنقیدمیں نمایاں کارنامہ انجام دیا ہے۔ موصوف اردو، انگریزی اورپنجابی میں لکھتے ہیں۔ ’دوکشتیوں میں سوار‘ اور ’کالے جسموں کی ریاضت‘ ان کی مشہورتصنیفات ہیں۔ عبدالقوی ضیامرحوم نے متعددکہانیاں لکھیں ۔ان کی آٹھ کتابیں اردو ادب کے اہم سرمایے ہیں۔معین اشرف ’ترچھے راستے‘کی وجہ سے مشہور ہوئے۔ رضاالجبارکے بھی اب تک پانچ افسانوی مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ جمیل اختر نسیم کا ایک افسانہ’بے اختیار‘ہے ۔ اس افسانے کا بیانیہ بہت کمزورہے لیکن وقت کی اہمیت کیا شئے ہے ’ بے اختیار‘ میں دیکھ سکتے ہیں۔ ’ بے اختیار‘ پر اظہار خیال کرتے ہوئے محمد زاہد لکھتے ہیں: ’’ اس افسانہ کی منظر کشی کمال کی ہے۔ اگر چہ لفظوں کا ضرورت سے زیادہ استعمال ہوگیا جس کی وجہ سے کہانی کی گرفت کمزور پڑجاتی ہے۔ وقت کی اہمیت کو اچھے انداز میں اجاگر کیا گیا ہے۔افسانہ نگار کی یہ ایک اچھی کاوش ہے۔‘‘( 9) عابد جعفری کا افسانہ’پرندہ‘توہمات کے اردگردگھومتا ہے۔ خالد سہیل کا افسانہ ’کٹی ہوئی پتنگیں‘تجربات پر مبنی افسانہ ہے۔نقل مکانی آج ایک عالمی مسئلہ بن گیاہے۔ دیہات سے شہر کی طرف انسانی ہجوم کی کثرت پتنگ کی طرح ہے۔کبھی کامیاب اور کبھی ناکام۔ گویا نقل مکانی کو پتنگ سے تشبیہ دی گئی ہے۔ براعظم آسٹریلیا میں بھی متعددافسانہ نگار موجود ہیں۔ ان میں نگہت نسیم، کنیزفاطمہ کرن،اوم کرشن فرحت،فریدہ لاکھانی اور ساوتری گوسوامی قابل ذکرہیں۔ نگہت نسیم پیشے سے ڈاکٹر ہیں۔ سائکالوجسٹ کی حیثیت سے سڈنی کے ایک ہاسپٹل میں اپنی خدمات انجام دیتی ہیں۔ عالمی اردو اخبار میں سب ایڈیٹر ہیں۔ان کے دو افسانوی مجموعہ اب تک منظر عام پر آچکے ہیں۔ ’گردباد حیات‘ (2004) اور ’مٹی کاسفر ‘(2009) اس کے علاوہ ’سفید جھیل‘(نظموں کا مجموعہ) 2011، ’یہی دنیا ہے یہیں کی باتیں‘ (کالمز کا مجموعہ) 2011، ’خاک دان‘(افسانوں کا مجموعہ) ’ منظوم دعاؤں کا مجموعہ‘، ’نظموں کا مجموعہ‘، ’اہل بیت اظہار کی حیات مبارکہ‘ وغیرہ جیسی تصنیفات ہیں جن میں کچھ شائع ہوچکے ہیں اور کچھ زیر طبع ہیں۔ ان کے افسانوں کے بنیادی موضوعات ہجرت اوریاد وطن ہیں۔احمد ندیم قاسمی نگہت نسیم کے افسانوں پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ڈاکٹر نگہت نسیم کے افسانوں کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ وہ بظاہر معمولی سے واقعے یا کرداروں کے اختلاف رائے سے افسانے کا آغاز کرتی ہیں اور اس میں برجستہ مکالموں سے سجاتی چلی جاتی ہیں۔‘‘(10) براعظم افریقہ کے کئی ممالک میں اردوکی نئی بستیاں آبادہیں۔ان میں کینیا۔سوڈان،لیبیا،مصر اورماریشس قابل ذکر ہیں۔ ماریشس میں متعدد اردوادارے اورادبی انجمنیں قائم ہیں۔ یہاںکالج اوریونیورسٹیوں میں اردوشعبے بھی قائم ہیں۔اسکول اور مدرسوں میں اردوزبان کی تعلیم دی جاتی ہے۔مذہبی جلسے جلوس اورمسجدوں میں تقریراردومیں کی جاتی ہے۔ماریشس کے اردوقلم کاروں میں عنایت حسین عیدن،فاروق رجل، حنیف کنہائی، رشید مینو، صابرگودڑ،قاسم ہیرا،فاروق حسنو،سعید میاں جان،طاہر دومن، ریاض گوکھل،شہزادعبداللہ،فاروق باؤچہ وغیرہ قابل ذکرہیں۔اردوکی نئی بستیوں میں ماریشس کو یہ اعزازحاصل ہے کہ یہاں اردوڈرامے پر خاص توجہ دی جاتی ہے۔یہاں کے بیشتر ادبانے صنف ڈرامہ میں طبع آزمائی کی ہے۔ عنایت حسین عیدن،صابرگودڑ،فاروق حسنو،حنیف کنہائی،رشید مینووغیرہ افسانوں میں اپنا منفردمقام رکھتے ہیں۔ سوڈان میں نیلماناہیددرانی اپنی افسانوی اختصاص کی وجہ سے مشہورہیں۔ ’’ٹھنڈی عورت‘‘نام سے ان کاافسانوی مجموعہ شائع ہوچکا ہے۔ان کا نمائندہ افسانہ ’جنگلی جانور‘ہے ۔ جس میں گھریلوزندگی میں عورت پر ہونے والے برے سلوک یعنی گھریلو استحصال کی گونج سنائی دیتی ہے۔کینیا میں شیخ اسماعیل افسانہ نگاروں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ان کا نمائندہ افسانہ’پناہ گیر‘ہے۔ جس میں کینیاکے قبائلی واقعات وحادثات، خانگی و خاندانی زندگی کا تصور، فسادات، لوٹ وگھسوٹ کی داستان ، سیاسی وسماجی چپقلش، سیاست اور مذہب کے نام پر تشدداورغارت گری کا واضح بیان ہے۔ خلیجی ممالک میں شعری صنف سخن عروج پر ہے۔مشاعروں سے اردوزبان کی شمع روشن ہے۔یہاں مختلف ادبی انجمنیں قائم ہیں۔ رسائل وجرائد ، ریڈیواورٹیلی ویژن سے اردوزبان وادب کا فروغ ہورہا ہے۔کویت میں مقیم زیبا صدیقی افسانہ نگار ہیں ان کا ایک افسانہ ’کایا پلٹ ‘ ہے۔ اس افسانے کا موضوع ہندوستان میں موجود اکثریتی سماج میں رائج اونچ اورنیچ ہے۔ سماجی بھید بھاؤ اور معاشرتی تنگ نظری ایسے مسائل ہیں جن سے ہندوستانی سماج صدیوں سے برسر پیکار ہے۔ زیبا نے بڑی خوب صورتی سے اپنی کہانی میں ذات پات پر مشتمل سماج کی نشاندہی کی ہے۔ امریکہ میں اردوزبان و ادب کے لیے بہت ساری تنظیمیں متحرک ہیں۔ یہاں جن لوگوں نے اردوزبان کی بستی بسائی ان میں مامون ایمن، فیروز عالم، رشیدہ عیاں، عبدالقادر فاروقی، اشرف شیخ، اخلاق احمد خان، یونس کھوکھر، عبدالرحمان عبد، انور علی رومی، توفیق انصاری، جاوید ریاض، حسن چشتی، حامد امروہوی، رضیہ فصیح احمد اور غوثیہ سلطانہ قابل ذکر ہیں۔ یہاں کے افسانہ نگاروں میں عبدالقادر فاروقی، سید سعید نقوی، شائستہ سیدایمن اورفیروزعالم گوناگوںخصوصیات کی وجہ سے منفردشناخت رکھتے ہیں۔ فیروزعالم کا ایک کالم نما افسانہ’’دہشت گرد‘‘ہے ۔’’یہ افسانہ خطوط کے پیرائے میں لکھا گیا ہے‘‘۔اس افسانے کا موضوع اورانداز پیش کش قابل ستائش ہے جس میں پاکستان کا المیہ، خودکش دھماکے اورڈرون حملے کی کہانی ہے۔اس میں پاکستانی شہری ہی مارے جاتے ہیں جنہیں غیر ملکی اوردہشت گرد کہہ کر اپنے ہی ملک کی توہین کی جاتی ہے۔اس کالم نما افسانہ کے تعلق سے محمد زاہد لکھتے ہیں: ’’موضوع اور انداز بیان کے پیش نظر فیروز عالم کا یہ افسانہ قابل ستائش ہے۔پاکستان کا یہ المیہ ہے کہ چاہے خود کش دھماکے ہوں یا ڈرون حملے ، سب میں اس کے شہری ہی مارے جاتے ہیں۔انہیں ’’ غیر ملکی‘‘ اور ’’ دہشت گرد‘‘ کہہ کر اپنے ہی لوگوں کی توہین کی جاتی ہے۔باہری ملکوں کی طاقت کے سامنے یہ پسپائی شرمناک ہے‘‘۔( 11) ’قطرہ قطرہ زندگی‘، ’دھنک کا آٹھواں رنگ‘، ’آج کی مریم‘ اور ’سونامی‘ وغیرہ فیروز عالم کے بہترین افسانے ہیں۔ عبدالقادرفاروقی کا افسانوی مجموعہ ’اور خون جلتارہا‘ میں بارہ افسانے شامل ہیں۔ان میں ’ یتیم کی عید‘ فاروقی صاحب کا نمائندہ افسانہ ہے۔اس افسانے میں ایک یتیم کی کہانی ہے ۔ والدین کا سایہ سر سے اٹھتے ہی ایک ننھی منی بچی اپنی زندگی میں اس قدر محتاج ہوجاتی ہے کہ درد بدر کی ٹھوکریں کھانا اس کی زندگی کا حصہ ہوجاتا ہے۔ یورپ میں برطانیہ کے بعد جرمنی اردوکی نئی بستیوں میں اہم مقام رکھتا ہے۔جرمنی میں اردوداں افراد تمام اصناف سخن میں طبع آزمائی کر رہے ہیں۔ علامہ اقبال سے روحانی فیض حاصل کرتے ہوئے آج حیدر قریشی، منیرالدین احمد، نعیمہ ضیاالدین، عشرت معین سیما، سرورغزالی، ثریا شہاب اور ہماخالدوغیرہ جہانِ فکشن میںمنفردشناخت رکھتے ہیں۔ ثریا شہاب کے افسانوی مجموعے ’سرخ لباس‘ اورناول ’سفرجاری ہے‘ شائع ہوکرداد وصول کرچکے ہیں۔ احمدکے دوافسانوی مجموعے’ زرد ستارہ‘ اور ’بنت حرام‘ اور نعیمہ ضیاالدین کے دوافسانوی مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ سرور غزالی اپنے منفرداسلوب کی وجہ سے معاصر میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ برلن، جرمنی میں قیام پذیر ہیں۔ اب تک دو افسانوی مجموعے ’بکھرے پتے‘، اور ’بھیگے پل ‘اور ایک ناول’دوسری ہجرت‘ منظر عام پر آکر مقبول ہوچکے ہیں۔ سرورغزالی کے تمام افسانوں میں ایک شئے مشترک ہے یعنی تمام افسانے حقیقت کے عکاس ہیں۔ چوںکہ ناول کے بعد افسانوی ادب کا فروغ وقت کی قلت کے پیش نظرہوا اس لیے سرور غزالی نے افسانوی غرض وغایت کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنے تخلیقی جوہر کو بروئے کار لایا اور بہترین نمونہ پیش کیا ۔ ان کے تمام افسانے اس قدرمختصرہیں کہ افسانچوں کا گمان ہوتا ہے۔ سرورغزالی ایک زندہ دل ادیب کے ساتھ ساتھ سماجی فکروشعور سے آراستہ ہیں۔آپ نے اپنی تخلیقات میں معاشرے میں درپیش موضوعات کو جگہ دی ہے اور تخیلاتی و رومانی موضوعات سے اپنی تخلیقات کو دوررکھا ہے۔ فن پارہ صرف تفنن طبع ہی نہیں بلکہ اس سے اصلاحی و معاشرتی فلاح وبہبودکا کام بہتر طورپر لیاجاسکتا ہے۔سرورغزالی نے اپنے فن پاروں میں سماج کے دکھتی رگوں پر ہاتھ رکھا ہے۔تاکہ ان افسانوں کی قرأت کے بعد سماج میں رائج برائیوں کی طرف توجہ مبذول ہوسکے اور ایک صالح معاشرے کا خواب شرمندہ ٔ تعبیرہوسکے۔ان کی تخلیقات خوداحتسابی کے لیے بھی دعوت فکر فراہم کرتی ہیں تاکہ انسان اپنے قلب کی صفائی پر بھی توجہ دے سکے۔ظاہر ہے اس سے انفرادی طورپر بہتر سماج کوپروان چڑھایاجاسکتا ہے۔ان کا ہر افسانہ زندگی کے ایک نئے رخ کو پیش کرتا ہے اورہر رخ کے ظاہروباطن کا تجزیہ کرتاہے۔ ’’بکھرے پتے ‘‘ میں شامل ایک افسانہ ’’ویزا‘‘ہے۔ ویزا کی فراہمی ہجرت کی دعوت دیتا ہے۔ دراصل اس افسانے میں برصغیر کے ان افرادکو ٹارگیٹ کیاگیا ہے جو بیرون ممالک کو جنت تصورکرتے ہیں۔ انہیں یہ لگتا ہے خلیجی ممالک، یورپ وامریکہ میں سب کچھ بہت اچھا ہے۔اپنے ملک میں رہ کر کچھ حاصل نہیں ہوسکتا چنانچہ وہ ویزا کے لیے دردرکی ٹھوکریں کھانے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔اس آمادگی میں جنونیت حائل ہوجاتی ہے جس سے انسان پیسوں کے لیے بھیک نہیں مانگتے بلکہ ویزاکی بھیگ مانگتے ہیں کہ مجھے دوبئی کا ویزا دلوا دو۔اس عہد کا ایک اہم مسئلہ سرورغزالی نے ویزا میں بیان کیا ہے۔ افسانہ ’’تعویذ‘‘بھی دل چسپی سے خالی نہیں۔ عہد حاضرمیں دعا اور تعویذ کے پس پشت جو عجیب وغریب کاروبارکیا جارہا ہے ۔ ان سے ذی شعور افراد بہرحال بدظن ہیں۔عجیب وغریب ٹوٹکے، فرمان اوربے جا فرسودہ نظریات کا فروغ اپنے آپ میں ایک لعنت ہے چہ جائیکہ قوم وملت پر تجربے کیے جائیں۔ اس افسانے کا ایک اقتباس دیکھیے: ’ ’ ہاں جی بالکل میر ے سامنے ہی خانے بنائے اور ہر خانے میں ایک ہندسہ لکھا اور ہاں مجھے پرچی تھماتے ہوئے بولیں۔ اسے صرف بد عقیدہ لوگو ں کے لئے استعمال کر نا یہ تعویذ صرف ان ہی لوگوں پر اثر کرتا ہے‘‘(12) اس طرح کے غیرسماجی حرکات وسکنات صرف منفی فکرونظرکو قوت فراہم کرتا ہے۔ حیدرقریشی بیک وقت ادیب ، شاعراورصحافی ہیں۔’روشنی کی بشارت‘ اور’قصے کہانیاں‘ ان کے افسانوی مجموعے ہیں۔ان کا نمائندہ افسانہ ’ اپنے وقت سے تھوڑا پہلے‘ ہے۔ ناروے میں ہری چرن چاولہ منفردلب ولہجہ کی وجہ سے منفردشناخت رکھتے ہیں۔ان کے متعدد افسانوی مجموعے شائع ہوچکے ہیں جن میں ’’عکس اورآئینہ،ریت سمندراورجھاک،آتے جاتے موسموں کا سچ،دل دماغ اوردنیا‘‘قابل ذکرہیں۔ناول میں ’’درندے،چراغ کے زخم ،بھٹکے ہوئے لوگ اورآگے سمندرہیں‘‘ منظر عام پر آچکے ہیں۔ہری چرن چاولہ کے علاوہ علی اصغر شاہد، نوید امجد، جمشید مسرور، سعید انجم اورفیصل نوازچوہدری وغیرہ بھی یہاں کے ادیب ہیں۔سعید انجم کے دوافسانوی مجموعے’’سب اچھا ہوگا ‘‘اور’’سوتے جاگتے‘‘شائع ہوچکے ہیں۔فیصل نوازکے بھی دوافسانوی مجموعے بشمول سفرنامے پانچ کتابیں منظرعام پر آچکی ہیں۔ان کا ایک افسانہ’ موٹروے‘ہے۔ ڈنمارک کے نمائندہ تخلیق کاروں میں نصر ملک کا نام سرفہرست ہے۔ نصر ملک کے دوافسانوی مجموعے’’ہوئے مرکے ہم جورسوا‘‘ اور ’’قسط درقسط زندگی‘‘شائع ہوچکے ہیں۔ان کے افسانوں میں مہاجرین کے مسائل ہیں۔ہجرت جو کہ خود تکلیف دہ عمل ہے اس پر مستزاد یہ کہ انہیں بنیادی سہولتیں فراہم نہ ہوں۔دیار غیر میں روز گار، سکونت کے ٹھکانے اور نہ جانے اس طرح کے کتنے مسائل نصر ملک کے افسانوں میں پائے جاتے ہیں۔ جمیل اصغر سویڈن کی نمائندگی کرتے ہیں۔ عمران مشتاق کے افسانوں میں مذہبی رنگ اور اعتدال پسندی نمایاں ہیں۔ ان کانمائندہ افسانہ’’ایک جلوس کی کہانی‘‘ہے۔اسی طرح گلشن کھنہ اپنی متعدد تخلیقات کی وجہ ہمیشہ یاد کیے جائیں گے۔ اردوکی نئی بستیوں کے تخلیق کاروں کی ایک طویل فہرست ہے۔بہت سارے تخلیق کاروں کا ذکر اس لیے نہیں کرسکا کیوں کہ مواد کی کمی کا شدت سے احساس ہے ۔مہجری افسانہ نگاروں کے موضوعات میں تنوع اوراسلوب صاف شفاف ہے۔ اشاروں کنایوں میں تخلیقات پیش کرتے ہیں لیکن مطالب بہت گنجلک نہیں ہوتے۔ قارئین زیادہ ترافسانوں کی تہہ میں جلدی پہنچ جاتے ہیں لیکن کبھی کبھار اسلوب اس قدرگنجلک ہوتے ہیں کہ مضامین سمجھنا بہت مشکل ہوجاتاہے۔ان بستیوں میں موجودادباپر سنجیدگی سے غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اردوادب کی تاریخ میں انہیں بہترمقام مل سکے۔
حواشی:
1۔محمدزاہد، ڈاکٹر،اردو کی نئی بستیوں کے افسانے۔ جائزہ وانتخاب،ہمارا چمن پبلی کیشنز، مٹیا برج، کلکتہ ، 2016، ص14
2۔امجد مرزا امجد،برطانیہ کے ادبی مشاہیر،36،ہیزل وڈ روڈ،والتھ مسٹو، لندن،برطانیہ۔ ص 146
3۔امجد مرزا امجد،برطانیہ کے ادبی مشاہیر،36،ہیزل وڈ روڈ،والتھ مسٹو، لندن،برطانیہ۔ ص 443
4۔محمدزاہد، ڈاکٹر،اردو کی نئی بستیوں کے افسانے۔ جائزہ وانتخاب،ہمارا چمن پبلی کیشنز، مٹیا برج، کلکتہ ، 2016،ص 18
5۔احمد ، امتیاز گورکھپوری، ماہنامہ اردو آنگن، ممبئی، جولائی 2018
6۔محمدزاہد، ڈاکٹر،اردو کی نئی بستیوں کے افسانے۔ جائزہ وانتخاب،ہمارا چمن پبلی کیشنز، مٹیا برج، کلکتہ ، 2016، ص 24
7۔محمدزاہد، ڈاکٹر،اردو کی نئی بستیوں کے افسانے۔ جائزہ وانتخاب،ہمارا چمن پبلی کیشنز، مٹیا برج، کلکتہ ، 2016، ص26
8۔محمدزاہد، ڈاکٹر،اردو کی نئی بستیوں کے افسانے۔ جائزہ وانتخاب،ہمارا چمن پبلی کیشنز، مٹیا برج، کلکتہ ، 2016، ص 28
9۔محمدزاہد، ڈاکٹر،اردو کی نئی بستیوں کے افسانے۔ جائزہ وانتخاب،ہمارا چمن پبلی کیشنز، مٹیا برج، کلکتہ ، 2016،ص31
10۔ نگہت نسیم ،ڈاکٹر،گرد باد حیات،مثال پبلشرزرحیم سینٹر،پریس مارکیٹ،امین پوربازار،فیصل آباد، 2004 ،ص 25
11۔محمدزاہد، ڈاکٹر،اردو کی نئی بستیوں کے افسانے۔ جائزہ وانتخاب،ہمارا چمن پبلی کیشنز، مٹیا برج، کلکتہ ، 2016، ص 42
12۔سرورغزالی سید،بکھرے پتے، رہبر پبلی کیشن ،برلن ،جرمنی 2018ء ، ص 18
Postel Address : Md Ruknuddin Room No 312, Kaveri Hostel, JNU, New Delhi 110067
***