You are currently viewing اردو تحقیق میں محمد حسین کے امتیازات

اردو تحقیق میں محمد حسین کے امتیازات

محمد باقر حسین

گورنمنٹ کالج ، ٹونک

اردو تحقیق میں محمد حسین کے امتیازات

تحقیق نہ صرف پتّہ مارنے کا کام ہے بلکہ وسعتِ مطالعہ اور محنتِ شاقہ کا مطالبہ بھی کرتی ہے۔ یہ ایک طرف اکتسابی طریقۂ کار ہے تو دوسری جانب ادراک و وجدان اور تجزیاتی صلاحیتوں سے بھی منسوب ہے۔ اس اعتبار سے یہ ادب کے دوسرے شعبوں کے مقابلے میں زیادہ صبر آزما اور زیادہ زیرک کہی جا سکتی ہے۔ اسی سے اندازہ کیا جا سکتاہے کہ ہمارے یہاں شعرا اور تنقید نگاروں کے جمِّ غفیر میں معتبر محققین کی اتنی کمی کیوں ہے؟

         عہدِ حاضر میں ادبی تحقیق کا جائزہ لیا جائے تو بہت کم ایسے محققین ملیں گے جنھیں اس فن سے طبعی شغف اور فنکارانہ دلچسپی ہو۔ آج کے عہد میں قاضی عبد الودود، مالک رام، رشید حسن خاں اور ظفر احمد صدیق کے ہم پلّہ ہونے کا تو خیر تصور ہی محال ہے لیکن ان کے قریب پہنچنے والا بھی کوئی تازہ کار محقق نظر نہیں آتا۔ ان حالات میں جب ڈاکٹر محمد حسین کی تحقیقی خدمات سامنے آتی ہیں تو ایک خوش گوار حیرت ہوتی ہے کہ اردو کی ادبی تحقیق نے ابھی اپنی بساط نہیں سمیٹی ہے بلکہ سنجیدگی کے ساتھ تحقیق کا حق ادا کرنے والے ایسے ادیب موجود ہیں جن سے ہمارے بزرگوں کی تحقیقی روایت کو قائم رکھنے اور آگے بڑھانے کی امیدیں وابستہ کی جا سکتی ہیں۔

         ڈاکٹر محمد حسین استاد کے ساتھ ایک شاعر ، محقق اور خطیب بھی ہیں۔ انھیں عروض و بلاغت سے بھی شغف ہے۔وہ مطالعے کی عادت، سنجیدگی سے مواد کی تلاش اور تجزیاتی ذہن رکھتے ہیں۔ اس کا واضح ثبوت ہمیں ان کی مندرجہ ذیل تصانیف سے فراہم ہوتا ہے۔

         ۱۔       اردو تحقیق کا ارتقاء (۲۰۱۰ء)                            ۲۔      امعان و ابتغا (۲۰۱۶ء)

         ۳۔      دفتر الشعراء از مولوی سلیم الدین تسلیمؔ(تدوین) (۲۰۱۶ء)   ۴۔      اردو میں شعری و لسانی مباحث (۲۰۲۰ء)

         ۵۔      صنم خانۂ خواب (۲۰۱۶ء)     ۶۔ قندیل ِ ہنر(۲۰۲۴)      ۷۔ بوند بوند سمندر (۲۰۲۴)

         ‘‘صنم خانۂ خواب ’’ آپ کا شعری مجموعہ ہے جس میں ۶۷ غزلیں ہیں اور اس کی سب سے اہم خوبی یہ ہے کہ انھوں نے کسی بھی غزل میں مقطع نہیں کہا ہے۔محمد حسین اپنا تحقیقی و تنقیدی موقف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :

         ‘‘لکھنا بڑی ذمہ داری کا کام ہے، اس کے لیے پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ کا لکھنا آنا چاہئے۔ دوسری بات یہ کہ آپ کے پاس لکھنے کے لیے کچھ ایسا ہونا چاہئے جو لوگوں کے علم میں اضافہ کرے۔’’(۱)

         ڈاکٹر محمد حسین نے اپنی لسانی تحقیق میں اردو زبان پر سنسکرت کے اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے پرکرات الفاظ کو ترک کرکے مقبول اور رائج فارسی و عربی کے الفاظ کو بیان کیاہے۔ چونکہ اردو پر شورسینی اپبھرنش کا اثر ہے اور مقامی بولیوں پر غیر معمولی توجہ دی گئی اور صوفیائے کرام نے اپنے خیالات کا اظہار بھی مقامی بولیوں کے ذریعے خصوصاً اودھی اور کھڑی بولی کے ذریعے کیا ہے لیکن صوفی سنسکرت زبان سے بھی واقف تھے۔ اس ضمن میں محمد حسین لکھتے ہیں:

         ‘‘حضرت بندہ نواز گیسودرازؒ سنسکرت زبان سے واقف تھے، انھوں نے سنسکرت کی بعض کتابوں کا مطالعہ کیا تھا۔ بعد کے زمانے میں حضرت شیخ محمد غوث گوالیاریؒ نے صوفیا کے اعمال و مجاہدات کی تعین میں یوگا سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور ‘بحر الحیات’ کے نام سے سنسکرت کی کتاب ‘‘امرت کنڈ’’ کا ترجمہ کیا۔’’(۲)

         صوفیائے کرام نے اپنے خطبوں میں ہندی الاصل اصنافِ سخن مثلاً دوہا، اشلوک، شبد ، گیت وغیرہ کی مدد سے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔خواجہ بندہ نواز گیسودراز سے لے کر ولیؔ کی دہلی آمد اور ایہام گوئی کی تحریک تک اردو زبان میں مقامی اور پراکرت الفاظ استعمال کیے جاتے تھے ۔ دہلی کے طبقۂ اول کے شاعر مرزا مظہر جان جاناںؔ نے ایہام گوئی کی ضد میں اصلاح زبان تحریک شروع کی جس کا منشور اور عملی نمونے ان کے ہمعصر شاہ حاتمؔ نے اپنے ‘‘دیوان زادہ’’ کے مقدمے میں مرتب کیے۔ اصلاحِ زبان میں‘ لفظ’ پر توجہ کی گئی ۔ حاتمؔ نے ‘دیوان زادہ’ کے مقدمے میں اصلاحِ زبان سے متعلق شعراء کو سات ہدایات دی ہیں اور زبان کے قواعد و ضوابط مرتب کیے ہیں۔اس کے علاوہ محقق موصوف نے مرزا محمد اسماعیل طیش دہلوی کی کتاب‘‘ شمس البیان فی مصطلحات ہندوستانی’’ کا ذکر کیا ہے۔ جس کا ذریعۂ اظہار فارسی ہے۔ اس کتاب کے لیے محمد حسین لکھتے ہیں :

         ‘‘اردو زبان و محاورے کو بنیاد بنا کر لکھی جانے والی یہ پہلی کتاب ہے۔’’

         محقق موصوف نے اس کتاب کا موازنہ ‘‘عزائب اللغات’’ اور ‘‘نوادر الالفاظ’’ لغات سے کیا ہے اور بتایا ہے کہ ‘شمس البیان ’صرف لغت نہیں ہے بلکہ اس میں دہلی کے روزمرہ کے تتبع کا جذبہ کار فرما ہے۔

         اصلاحِ زبان کی تحریک میں دہلوی شعراء کے علاوہ دبستانِ لکھنؤ کے شعرا نے بھی نہ صرف عملی حصہ لیا بلکہ اردو قواعد کے اصول بھی مرتب کیے۔ اس امر میں انشاء اﷲ خاں انشاء ؔکو اولیت حاصل ہے، جنھوں نے دریائے لطافت عنوان سے اردو کی قواعد منضبط کی ہے۔ ‘دریائے لطافت’ کے متعلق ڈاکٹر محمد حسین فرماتے ہیں:

         ‘‘اس کتاب میں اردو زبان کے بہت مسائل کو موضوعِ تحقیق بنایا گیا ہے۔ انشاء ؔنے متروکاتِ سخن پر بھی ایک باب قائم کیا ہے۔ ان کے مطابق فصاحت کے لیے لازمی ہے کہ وہ تنافرِ حرف و تنافر کلمات، تعقید، غرابت لفظی اور مخالفتِ قیاس لغوی سے پاک ہو۔ انھوں نے دہلی کے محاوروں کے سلسلے میں تحقیق سے کام لیتے ہوئے ہر فرقہ کی زبان کے نمونے پیش کیے ۔ اس کتاب کا ایک امتیازی پہلو یہ ہے کہ اس میں لہجے کی اہمیت پر زور دیا گیا۔’’(۳)

         ڈاکٹر محمد حسین نے اصلاح زبان سے متعلق جن مستند دستاویزات کی روشنی میں اپنی لسانی تحقیق کی ہے اس کی دو خصوصیات ہیں۔ اول سبھی فارسی نثر میں لکھے گیے ہیں۔ دوم اصلاح زبان قائم کی اصول سازی کاکام از خود مکمل کیا ہے۔ چونکہ اصلاح زبان میں ناسخؔ کا نام صفِ اول کے شعراء میں شمار کیا جاتا ہے لیکن ان کے بتائے گئے اصول تحریری یاکتابی شکل میں موجود نہیں ہیں۔ لہٰذرشید حسن خاں ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ :

         ‘‘ اس سلسلے میں سب سے زیادہ اہم غلط فہمی یہ ہے کہ ناسخؔ نے زبان کی اصلاح کی اور اس سے مراد یہ بھی لی جاتی ہے کہ متاخرین کے یہاں قواعد شاعری، متروکات اور تذکیر و تانیث کی جو بحثیں عام رہی ہیں ان سب کی شیرازہ بندی ناسخؔ نے کی تھی۔’’

         اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر محمد حسین نے اپنی لسانی تحقیق میں عام روش کو ترک کرتے ہوئے مستند دلیلوں اور جدید تحقیق کی مبادیات کی روشنی میں اپنے تنائج کا استنباط کیا ہے۔

         اصلاح زبان تحریک سے اردو کو بہت فائدہ ہوا۔ اس سے اردوزبان کے صرف و نحو درست ہوئی۔ تذکیر و تانیث کے قواعد اور اصول مرتب ہونے کے ساتھ دبستانِ دہلی اور لکھنؤ کے مطابق کتابی شکل میں ان کی فہرست بنائی گئی۔ محاوروں، ضلع جگت، واحد جمع ، مترادفات، اور اصطلاحات کے بر محل استعمال پر کتابیں، لغات اور فرہنگیں لکھی گئیں۔ اور ان کی سند معروف اور استاد شعراء کے اشعار سے دی گئیں۔ اس طرح کی بنیادی اور قدیم کتابوں پر محمد حسین نے نہ صرف تحقیق کی بلکہ ان غیر معمولی اور نایاب کتابوں کا تعارف کرایا اور ادب میں ان کی اہمیت بھی واضح کی ہے۔ جس سے اردو کی نئی نسل اپنے کلاسک ادب سے روشناس ہو سکے اور تحقیق میں معاون ثابت ہو۔ ان کتابوں میں سے کچھ اس طرح ہیں کہ سید فرزند احمد صغیر بلگرامی کی کتاب رشحات صغیر، ہندوستانی مخزن المحاورات از منشی چرنجی لال دہلوی، فرہنگ آصفیہ از مولوی سید احمد دہلوی، اصطلاحات اردو از قدر بلگرامی، نظام اردو از آرزو لکھنوی، ضلع جگت از کشن پرشاد شاد وغیرہ۔ ان لغات اور فرہنگوں کو لکھنے کا مقصد دہلی اور لکھنؤ کے چلن کی روشنی میں تذکیر و تانیث، محاوروں، اصطلاحوں، واحد جمع اور ضرب الامثال کی صراحت، صحتِ زبان، الفاظ کا بر محل استعمال اور متروکات کی نشاندہی اور زخیرۂ الفاظ ہے۔ مثال کے لیے مولوی سید احمد دہلوی اپنی لغت فرہنگ آصفیہ کے مقدمے میں رقم طراز ہیں :

         ‘‘حال کی زبان میں کون کون سے الفاظ متروک ہوئے اور کون کون سے ان کی جگہ لائے گئے۔ اس زمانے میں کس قسم کے الفاظ مخلوط کیے جاتے ہیں اور کس قسم کے خارج ۔ اولیاے ہند، فقراے ہند، علماے زمانہ کا ذکر بترتیبِ سنین اس میں پایا جاتا ہے۔ عموماً مذہبی تحقیقات و کتبِ سماوی کا مختصر حال اس میں ملتا ہے۔ ہندی لغتوں کے مادۂ تحقیق، اکثر سنسکرت، پالی، پراکرت زبان سے لے کر فارسی تک جہاں سے ان دونوں کا ایک ہونا ثابت ہے، کی ہے۔ اور اگر ہندوستانی قدیم زبان کا کوئی لفظ آیا ہے تو اسے بھی جتا دیا ہے کہ یہ سنسکرت کے رواج سے پہلے کی نشانی ہے۔’’(۵)

         اسی طرح لسانی مباحث کے زمرے میں مشنی چرنجی لال دہلوی کی کتاب ‘‘ ہندوستانی مخزن المحاورات (۱۸۸۶) غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے۔ تقریباً دس ہزار محاورات پر مبنی اس کتاب کے مقدمے میں الفاظ کے سنسکرت مآخذ کی نشاندہی کی گئی ہے۔ بقول ڈاکٹر محمد حسین :

         ‘‘مقدمے میں مثالیں دے کر بتایا گیا ہے کہ کس طرح سنسکرت کا لفظ پراکت سے ہوتا ہوا اردو کا روپ اختیار کر گیا۔’’(۶)

         اردو تنقید کئی مراحل سے گزری ہے جس کی پہلی منزل اصلاحِ سخن کی روایت ہے۔ اس منزل میں اساتذہ عروض کی روشنی میں جائزہ لے کر ان کی رہنمائی کرتے تھے۔ مثال کے لیے اس کی اولین تحریری شکل تذکروں میں نظر آتی ہے۔ اساتذہ اور سخن فہم لوگوں نے فنِ شاعری اور اس کے اسرار و زموز، محاسن و معائب کو مخصوص کتابوں کی صورت میں پیش کیے۔ ڈاکٹر محمد حسین نے ان کتابوں پر تحقیق کی اور ان کا تعارف اور ادب میں ان کے امتیازات سے قارئین کو روشناس کرایا۔ یہاں اصلاح سخن سے متعلق محمد عبد العلی شوقؔ سندیلوی کی کتاب ‘‘اصلاح سخن’’ پر گفتگو بہت ضروری ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ اردو میں قاری اساس تنقید کی پہلی کتاب ہے۔ چونکہ اردو میں قاری اساس تنقید کی ابتداء جدید نظریۂ تنقید سے مانی جاتی ہے اور اسی نظریہ کی روشنی میں عملی نمونے پیش کیے جاتے رہے ہیں۔ مثلاً شعبۂ اردو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے شائع ہونے والی ششماہی میگزین‘ تنقید ’۲۰۰۸ء میں علامہ اقبالؔ کی نظم ‘‘ذوق و شوق’’ پر مختلف نقادوں کے مضامین شائع کیے گئے۔ لیکن محمد حسین نے اپنی تحقیقی کتاب ‘‘لسانی شعری مباحث’’ میں بتایا ہے کہ ۱۹۲۶ء میں محمد عبد العلی شوق سندیلوی نے اپنی سولہ (۱۶) غزلیں اصلاح کے لیے ملک کے مختلف اساتذہ کو ارسال کیں اور ان پر جو آرا موصول ہوئیں ان کو ‘‘اصلاح سخن’’ نام سے کتاب کی شکل میں شائع کیا۔ محمد حسین لکھتے ہیں :

         ‘‘مرتب نے اپنی ۱۶؍ غزلیں اصلاح کے لیے ملک کے مختلف اساتذہ کو ارسال کرکے ان اصلاحوں کو یک جا کیا ہے۔ اس طرح ایک ہی غزل پر متعدد اساتذہ کی اصلاحیں جمع ہو گئیں ہیں ۔’’(۷)

         اس اقتباس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جب ادباء، ادبی تھیوری اور نظریوں سے ناآشنا تھے تب بھی اردو میں قاری اساس تنقید کے نمونے موجود تھے۔اسی حوالے سے مہذب لکھنوی کی کتاب ‘‘دور شاعری’’ بھی ہماری توجہ کا مرکز بنتی ہے۔ اس کتاب کا انداز مکالماتی ہے۔ اس میں ایک فرضی استاد لکھنوی اپنے دو فرضی شاگردوں : نواب اور مولانا کو سوال و جواب کے ذریعے رموز شاعری سکھاتے ہیں اور ان دونوں کی غزلوں پر صراحت کے ساتھ اصلاح بھی کرتے ہیں۔ اس کتاب کے متعلق ڈاکٹر محمد حسین لکھتے ہیں :

         ‘‘یہ فن شاعری سکھانے کا ایک عملی طریقہ ہے۔ اس سے شعری و فنی مسائل کی تفہیم نسبتاً آسان ہو جاتی ہے۔ دلچسپی بھی بنی رہتی ہے۔ اس میں نہ صرف فنِ شاعری بلکہ قواعدِ زبان پر بھی بہت دلچسپ اور عالمانہ گفتگو کی گئی ہے۔ کتاب میں کچھا ور کردار بھی بیچ بیچ میں نظر آتے ہیں جن سے شعر و ادب کے مختلف مسائل پر گفتگو کی گئی ہے۔ فنِ شاعری کے ساتھ لکھنؤ اسکول کے حوالے سے بھی اظہارِ خیال کیا گیا ہے۔’’(۸)

         اس طرح کی کتابیں انفرادی حیثیت رکھتی ہیں جنھیں منظرِ عام پر لانا بہت ضروری ہے۔ جس سے فنِ شاعری پر تحقیق میں آسانی ہوگی۔ وہ لکھتے ہیں:

         ‘‘جدید علوم کی روشنی میں جدید مشرقی شعریات مرتب کرنے کی طرف توجہ دی جائے تاکہ ہماری کلاسکی شعریات کے تمام مباحث یکجا ہو سکیں۔’’(۹)

         تذکروں کو تنقید کا اولین نمونہ تسلیم کیا گیا ہے۔ اردو میں تذکرہ نگاری پر سید عبد اﷲ اور منظر اعظمی نے کتابیں بھی لکھی ہیں۔ رسالہ ‘نقوش’ بھی تذکرہ نمبر شائع کر چکا ہے۔ اور ‘‘ تذکرۂ شاعرات’’ اور ‘‘اردو تذکرہ نگاری ۱۸۳۵ ء کے بعد’’ وغیرہ کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ لیکن عہد جدید کے محقق محمد حسین نے ہندوستان میں لکھنے جانے والے ولے تذکرو ں سے نہ صرف متعارف کرایا بلکہ ان کی خصوصیات بھی بیان کی ہیں۔

         اپنے تحقیقی مضمون ‘ہندوستان میں شعرائے فارسی کے تذکرے ۱۸۰۰ء تک’’ میں فارسی کے ان تذکروں میں خان آرزوؔ کا ‘‘مجمع النفائس’’ بھی شامل ہے جس کا ذکر میر تقی میرؔ نے ‘‘نکات الشعراء’’ میں کیا ہے۔ مثال کے لیے معز فطرت موسی پر رائے زنی کرتے ہوئے میرؔ ‘نکات الشعرا’ میں لکھتے ہیں :

         ‘‘ ان کے حالات سراج الدین علی خاں آرزوؔ کے تذکرے میں ہو بہو درج ہیں جو بندے کے استاد اور پیرو مرشد ہیں۔’’(۱۰)

         تحقیق ایک مسلسل عمل ہے اس کے ذریعے نہ صرف حقائق کا علم ہوتاہے بلکہ ذرائع معلومات میں بھی اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ محمد حسین کی تحقیق سے ایسے متعدد انکشافات ہوئے ہیں جن پر ان سے پہلے کسی نے غور نہیں کیا ہے۔ مولوی سلیم الدین تسلیمؔ کا مخطوطہ ‘‘دفتر الشعراء’’ اس کی عمدہ مثال ہے۔ اس مخطوطے کی تدوین کاکام پہلی بار محمد حسین نے انجام دیا۔ اس میں عروض و بلاغت زبان کی پیدائش، ذوقؔ و غالبؔ کی شاعری کا موازنہ، غالبؔ کی سخن فہمی، اصنافِ سخن، دبستانِ دہلی اور لکھنؤ کے شعراء کا ذکر وغیرہ موجود ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے معلوم ہوتاہے کہ تسلیمؔ نے اردو کے مخلوط زبان ہونے کا نظریہ قائم کیا تھا۔ لکھتے ہیں :

         ‘‘ حضرت صاحب قران کے عہد سعات مہد میں جب اطراف بلاد کے لوگ دہلی میں مجتمع ہوئے تو بہ اعتبار اختلاط ہر قسم کی بول چال پر روز مروں کی زبان ہندی نے ایک رنگ نیا نکالا۔ وہ زبان مخلوط اردوئے معلی لشکر شاہی میں پھیلی ۔ اس وجہ سے اس کو زبانِ اردو کہتے ہیں۔ ’’ (۱۱)

         ‘دفتر الشعراء’ کی تدوین سے ایک اور نئی حقیقت سامنے آتی ہے اس کتاب کے چھٹے دقیقہ میں تسلیمؔ اساتذہ شعرائے اردو کے بیان میں حرف تہجی کے اعتبار سے اردو کے اہم ۳۴ شعراء کا تذکرہ مرتب کیا ہے۔ اور سند کے لیے مصطفی خاں شیفتہ ؔ کے تذکرے گلشنِ بے خار سے براہِ راست استفادہ کیا ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے ایک یہ نئی بات معلوم ہوتی ہے کہ غالبؔ کے پہلے نقاد الطاف حسین حالیؔ نہیں بلکہ سلیم الدین تسلیمؔ ہیں۔       تسلیمؔ ‘ دفتر الشعراء’ (۱۸۷۰ء)میں غالبؔ کی سخن فہمی سے متعلق رقم طراز ہیں :

         ‘‘اس شخص کاکام تھا ۔ کیا فہم تھا! تمام دقائق شعر یہ کام جاننا اس کے مضامین کے موارد کو پہچاننا ، مغز گفتار تک پہنچنا؛ ایک تکریم خاص تھا، اس کے قامت والا پر درست ہے۔ اﷲ رے فکر بلند، بل بے فہم جست آور۔’’ (۱۲)

         انھیں نکات کو ‘یادگارِ غالبؔ’ (۱۸۹۷) میں الطاف حسین حالی ؔ نے اس طرح لکھا ہے :

         ‘‘شعر فہمی اور کتاب فہمی میں وہ ایک مستثنیٰ آدمی تھے۔ کیا ہی مشکل مضمون ہو وہ ایک سرسری نظر میں اس کی تہہ کو پہنچ جاتے تھے۔ ’’(۱۳)

         حالیؔ اور تسلیم ؔ دونوں نے ہی غالبؔ کی سخن فہمی کے لیے شیفتہ ؔکا قول بطور سند پیش کیا ہے لیکن اس میں اولیت تسلیمؔ کو حاصل ہے۔ شیفتہ ؔکا قول ملاحظہ کیجئے :

         ‘‘حیث قال فی تذکرتہ، تحت ترجمۃ ‘‘مضامین شعر را کما ہو حقہ می فہمد۔ و بجمیع نکات و لطائف پی می برد، ایں فضیلتے است کہ مخصوص بعض اہلِ سخن است۔ اگر طبع سخن شانس داری بہ ایں نکتہ می رسی۔ چہ خوش فکر، ایگر کمیاب است، اماخوش فہم کمیاب تر۔ خوشا حال کسے کہ از ہر دو شر بے یافتہ و حظے ربود، بالجملہ چنیں نکتہ سنجِ نغز گفتار کم تر مرئی شد’’ انتہی کلامہ، فی الجنتہ مقامہ۔ باقی حالت اس بزرگ کے بالتمام انشاء اﷲ تزکرہ شعرائے فارسی’’ (۱۴)

         ‘دفتر الشعراء’ میں تسلیمؔ نے ذوقؔ و غالبؔ کی شاعری کا موازنہ بھی کیا اور بتایا ہے کہ کیوں لوگ غالبؔ کے مقابلے ذوقؔ کی شاعری کو پسند کرتے ہیں۔اکسیویں صدی میں غالبؔ سے متعلق دو تحقیقی کتابیں منصہ شہود پر آئیں۔ ایک ‘دفتر الشعراء’ جس کے مدون اور مرتب ڈاکٹر محمد حسین اور دوسری‘‘ غالبؔ ، باندہ اور دیوان محمد علی’’ جس کے مرتب صغیر افراہیم ہیں۔

         ‘‘دفتر الشعراء’’ تدوین متن کی شرطوں اور اصولوں پر پورا اترتا ہے۔ مفرس و معرب زبان میں لکھے ہوئے اس مخطوطے کو مدون کرنا محمد حسین جیسے عالم اور محقق کا ہی کام ہے۔ انھوں نے بڑی جگر کاوی اور باریک بینی سے اس مخطوطے کی تحقیق، تدوین اور ترتیب کی ہے۔

         اس کے علاوہ بھی محمد حسین نے اردو نثر کا ارتقاء، حلقہ ٔارباب ذوق اور ترقی پسند ادبی تحریک کا موازنہ ، امیر خسروؔ کی وطن پرستی ، پروفیسر فیروز احمد کی کتاب ‘‘راجستھان اور اردو’’ مخمورؔ سعیدی اور ابوالفیض عثمانی کی ادبی خدمات پر بھی تحقیقی و تنقیدی مضامین لکھے ہیں۔

         اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ محمد حسین نے ہمیشہ اپنے مقصد ‘‘آپ کے پاس لکھنے کے لیے کچھ ایسا ہونا چاہئے جو لوگوں کے علم میں اضافہ کرے’’ کے تحت اپنی تحقیق سے اردو میں نئے ابواب کا اضافہ کیا ہے۔ اور اصلاح سخن، اصلاح زبان، اردو نثر کا ارتقا اور غالبؔ پر تحقیقی مقالات لکھ کر اپنے موضوع سے انصاف کیا ہے۔ آئندہ کے محققین کے لیے محمد حسین کی یہ نگار شات مشعلِ راہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ محقق موصوف کی نگارشات کو پروفیسر فیروز احمد نے ‘‘ادب کے تناظر میں ایک نئی بشارت’’ سے تعبیر کیا ہے۔

حواشی :

۱۔       امعان و ابتغا از ڈاکٹر محمد حسین، گلوبل اردو کمپیوٹرس اینڈ پرنٹرس، جے پور، ۲۰۱۶، ص-۷

۲۔      امعان و ابتغا از ڈاکٹر محمد حسین، گلوبل اردو کمپیوٹرس اینڈ پرنٹرس، جے پور، ۲۰۱۶ء، ص- ۵۲

۳۔      اردو میں شعری اور لسانی مباحث ، گلوبل اردو کمپیوٹرس اینڈ پرنٹرس، جے پور، ۲۰۲۰ء، ص- ۲۵

۴۔      انتخاب ناسخؔ مرتب رشید حسن خاں، مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، نئی دہلی، ۲۰۱۱ء، ص-۷۵

۵۔      اردو میں شعری اور لسانی مباحث، گلوبل اردو کمپیوٹرس اینڈ پرنٹرس، جے پور، ۲۰۲۰ء، ص- ۵۶

۶۔      اردو میں شعری اور لسانی مباحث،گلوبل اردو کمپیوٹرس اینڈ پرنٹرس، جے پور، ۲۰۲۰ء، ص- ۵۲

۷۔      اردو میں شعری اور لسانی مباحث،گلوبل اردو کمپیوٹرس اینڈ پرنٹرس، جے پور، ۲۰۲۰ء، ص- ۱۲۵

۸۔      اردو میں شعری اور لسانی مباحث،گلوبل اردو کمپیوٹرس اینڈ پرنٹرس، جے پور، ۲۰۲۰ء، ص- ۲۱۴

۹۔      اردو میں شعری اور لسانی مباحث،گلوبل اردو کمپیوٹرس اینڈ پرنٹرس، جے پور، ۲۰۲۰ء، ص- ۲۱۷

۱۰۔     تذکرہ نکات الشعراء از میر تقی میر ، مترجم حمیدہ خاتون، جے کے آفسیٹ پرنٹرس، دہلی ۱۹۹۴ء، ص ۱۷

۱۱۔      دفتر الشعراء، از مولوی سلیم الدین تسلیمؔ، تدوین و تحقیق ڈاکٹر محمد حسین، اپلاٹڈ بکس، نئی دہلی، ۲۰۱۶ء ص-۱۵۰

۱۲       دفتر الشعراء، از مولوی سلیم الدین تسلیمؔ، تدوین و تحقیق ڈاکٹر محمد حسین، اپلاٹڈ بکس، نئی دہلی، ۲۰۱۶ء ص-۴۲۱

۱۳۔     یادگارِ غالبؔ از الطاف حسین حالیؔ، ص-۷۶

۱۴۔     دفتر الشعراء، از مولوی سلیم الدین تسلیمؔ، تدوین و تحقیق ڈاکٹر محمد حسین، اپلاٹڈ بکس، نئی دہلی، ۲۰۱۶ء ص-۴۲۱

٭٭٭

Mohammed Baqir Hussain

Assistant Professor

Department Of Urdu

Government College Tonk

baquir97@gmail.com

9214000097

Leave a Reply