وسیم احمد راتھر
ریسرچ اسکالر
کے ایم سی لینگویج یونیورسٹی، لکھنؤ
اردو سفرناموں کی تہذیبی اہمیت
تہذیب سے ہروہ شے مراد ہے جس کے مختلف عناصر دوران حیات انسان اپنی ذات میں جذب کرلیتاہے اور جس کاوہ خود ایک مجموعہ ہے۔ تہذیب کاارتقا انسانی ارتقا کے مترادف ہے یہی وہ میزان ہے جس کی پرکھ سے انسان دیگرحیوانات سے جداہوجاتاہے۔ اس کی غیر موجودگی انسان کو بہت حد تک حیوانات سے قریب کرلیتی ہے اور اسے غیرمہذب کہاجاتاہے۔ تہذیب کادائرہ اس قدر وسیع وعریض ہے کہ زندگی کاہرپہلو اس میں سمٹ آتاہے۔ اس کےعناصر کی کوئی حد نہیں ۔ اس لئے کہ یہ عناصرمادی اور غیرمادی دونوں علاقوں تک پھیلے ہوئے ہیں۔
تہذیب کےلغوی معنی ہیں کانٹ چھانٹ کرنا، پاک صاف کرنا، سنوارنا اور اصلاح کرنا، آراستہ وپیراستہ کرنا، شائستہ بنانا، عیوب کودور کرنا وغیرہ۔ اصطلاح میں تہذیب سے مراد ہے خاص ذہنی ساخت جس سے افراد ملت کے سیرت وکردار کی تشکیل ہوتی ہے۔ آج کل لفظ”تہذیب” کسی قوم کی زندگی کے خد وخال، رسم ورواج، اصول وضوابط اور طرز بودوباش کے لئے استعمال ہوتاہے۔ گویاایک قوم کے خدوخال جو اسے دوسری قوموں سے ممتازکریں تہذیب کہلاتی ہیں۔ لفظ”تہذیب” کاتعلق مراٹھی کے لفظ”سنسکرتی” سے مربوط ہے ۔معنی کے اعتبار سے لفظ”تہذیب” کے مختلف پہلوؤں پر معنی اخذ کئے جاسکتے ہیں۔ دراصل لفظ”تہذیب “ایک وسیع مفہوم والی اصطلاح ہے ۔ تہذیب کوانگریزی کے لفظ Cultureکے منظم معنی میں استعمال کیاجاتاہے۔کلچرتہذیب کی طرح ایک وسیع معنی ومفاہیم کاحامل ہے جوزندگی کے ہر شعبے کے ساتھ جڑاہواہے۔ اس میں اخلاق، عادات، معاشرت، سیاست، مصنوعات، قانون، لباس، خوراک، آرٹ، موسیقی، ادب، فلسفہ، مذہب اور سائنس وغیرہ سب کچھ شامل ہے۔
تہذیب ان تمام خصوصیات کامرکب ہوتاہے جوکسی مخصوس قوم، معاشرے، یاگروہ کے افراد میں مشترک ہوتی ہیں۔ یہ مرکب ان افراد کے عقائد، اقدار، احساسات، قوانین، آداب، رہن سہن کے طور طریقوں، رسوم رواج، اصولوں، ٹکنالوجی، مذہب، تعلیم، خاندان، ادارے، پیشے، جغرافیائی زبان اور علوم وفنون پرمشتمل ہوتاہے ۔ تہذیب کی انہیں خصوصیات کی بنا پر ایک قوم، معاشرے ، گروہ کے افراد اپنی مخصوص پہچان رکھتےہیں ۔ اسی طرح سماج مجموعہ ہے ان افراد کاجومشترکہ کلچر رکھتے ہیں۔ سماج اور کلچر ایک دوسرے کے ساتھ نہایت پیچیدگی سے جڑے ہوئے ہیں۔
اصطلاحی اعتبار سے “تہذیب” کامفہوم بہت وسیع ہے۔ ہرقوم کی زندگی کے ظاہری خدوخال جواسے دوسری قوموں سے ممتاز رکھتاہے اسے تہذیب کانام دیاجاتاہے۔ اس لحاظ سے عام طور پرکسی قوم کے عیوب وآداب، فنون لطیفہ، صنائع وبدائع، اطوار معاشرت، اندازتمدن، اور طرز سیاست کواس میں شامل سمجھاجاتاہے۔ اگربہت غور سے دیکھاجائے تو یہ تہذیب کی اصل نہیں بلکہ اس کے لوازمات ہیں۔ تہذیب دراصل وہ نظریات وتصورات متصور کئے جاتے ہیں جن پرکوئی قوم یاجماعت یقین رکھے اور انہیں مقصد حیات سمجھے۔ ان نظریات کی بنیاد پر جو نظام حیات وجود میں آتاہے وہ اس قوم کی تہذیب کہلاتاہے۔ دراصل ہندوستان کی تہذیب کو سمجھنے کے لئے ہمیں ہندوستان میں صدیوں سے آباد ہندومسلم کی تاریخ کوسمجھناضروری ہے۔ جس طرح ہندو مسلم کے ثقافتی اور تہذیبی میل ملاپ ،زبان وادب کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے اسی طرح دونوں قوموں کی زندگی کے طور طریقے ، فکر ونظر، دین ومذہب، آداب واخلاق ،رہن سہن، رسم ورواج اور علمی وادبی وسماجی ذوق شوق کے ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہونے، سمجھنے اور شیر وشکر ہوجانے سے جن ملی جلی قدروں نے جنم لیاہے وہ مشترکہ طور پر ہندوستانی تہذیب کہلاتی ہے۔
ہندوستانی معاشرت وثقافت، اور تہذیب وتمدن کوسمجھنے اور جاننےکے لئے سفرناموں کامطالعہ ناگزیرمعلوم ہوتاہے۔ اگرچہ ہندوستانی تہذیب وثقافت داستانوں، ناولوں، افسانوں اور تاریخ کی کتابوں میں بھی ملتی ہیں لیکن سفرناموں میں جس طرح ہندوستان یاغیرممالک کی تہذیب وثقافت ملتی ہے وہ کسی اور صنف میں نہیں ملتی۔ اردو کے سفرنامہ نگاروں نے ہندوستان اور بیرون ممالک کے مختلف علاقوں کے سفرناموں میں وہاں کی تہذیب اور اس کے اثرات تفصیل سے بیان کیاہے۔ ظاہر سی بات ہے وہ موازنے سے بھی کام لیتاہے ۔ وہ متعلقہ ملک کی تہذیب کاموازنہ اپنے ملک کی تہذیب کے ساتھ کرتاہے جس سے بالواسطہ طور پر اس کے اپنے ملک کی تہذیب کی جھلکیاں بھی دیکھنے کوملتی ہیں۔
سیاحت کے متفرق گوشے اور نظریے ہوتے ہیں۔ ان زاویوں میں ثقافت وتہذیب کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ تہذیب وثقافت ، سماج ومعاشرت کے علم اور تفہیم سے ہی تاریخ کی بہت سی شاخیں نکلتی ہیں۔ جب کسی زمانے کی سفرکی روداد کورقم کیاجاتاہے تو اس وقت کاسماجی ،تہذیبی ، ثقافتی ، تاریخی اور سیاسی واقعات کاذکر بھی سفرنامے میں موجود ہوگا۔ سفرناموں کے ذریعہ بعض ایسے تاریخی واقعات اور باتیں بھی آتی چلی جاتی ہیں جوتاریخ کی کتابوں سے نہیں ملتی ہیں اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ سفرناموں کے ذریعہ کچھ نئے تاریخی انکشافات ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں سید قمر صدیقی کاایک اقتباس ملاحظہ کیجئے:
“ہندوستانی تہذیب وثقافت سماج اور تاریخ کوجاننے اور سمجھنے کے لئے سفرناموں کامطالعہ بے حد مفید ہے۔ سفرنامے کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے ذریعہ ہندوستانی تہذیب وثقافت کی جیتی جاگتی تصویر دیکھنے کومل جاتی ہے۔ سفرناموں میں چونکہ آنکھوں دیکھاحال بیان کیاجاتاہے لہٰذا وہ معتبر توہوتاہی ہے دلچسپ بھی ہوتاہے اور ہماری معلومات میں بےحد اضافہ بھی کرتاہے۔ غرض کہ سفرناموں کی حیثیت تہذیبی وثقافتی دستاویر کی سی ہے اور ہندوستانی تہذیب وثقافت کے مطالعہ کے لئے نہایت مفید بھی ہے”۔[i]
ہندوستان ایک ایساملک ہے جس کی تہذیب وتاریخ بہت پرانی ہے۔ یہاں کی وادیاں، ندیاں، پہاڑ، فطری مناظر دنیا بھر میں اپنامقام رکھتے ہیں۔ مختلف ممالک کے سیاحوں نے اپنے سفرناموں میں ان سب کاتذکرہ کیاہے۔ اور وہ ہندوستان کی تہذیب اور ہندوستان کے مقامات سے متاثرنظرآتے ہیں۔ ہندوستان میں متعدد تہذیبیں وثقافتیں ہیں۔ یہاں بہت سی بولیاں اور زبانیں بھی بولی جاتی ہیں۔ اگرہندوستانیوں کومختلف تہذیبوں، زبانوں اوربولیوں کاعجائب گھر کہاجائے تو بے جانہ ہوگا۔ ہندوستان میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پربولیاں اور زبانیں تبدیل ہوتی ہیں۔ تہذیبوں، رسموں، روایتوں اورطرز معاشرت میں بھی تبدیلی دکھائی دیتی ہے۔ بہت سے مقامات اور جگہوں کے موسم بھی الگ ہوتے ہیں۔ ہندوستان ایک وسیع وعریض ملک ہے یہاں کئی نسلوں اور کم وبیش تمام ترمذاہب کے لوگ آباد ہیں۔ مختلف نسلی ومذہبی امتیازات کے باوجود یہاں عوام میں ایک دوسرے کے لئے ہمدردی کاجذبہ موجود رہتاہے۔ یہاں ہر مذہب وملت کے لوگ آئے لیکن ہندوستان کی مٹی میں آکر جذب ہوگئے۔
تہذیب اور شائستگی کامطالبہ یہ ہے کہ انسان اس طرح اپنی زندگی گزارے جس سے اس کی خود کی ذات کوسکون میسر ہو اور دوسروں کوبھی اس سے فائدہ ہو، کیاہم گھر کی چہاردیواری میں رہ کر تہذیب اور شائستگی کی منزل کوپاسکتے ہیں؟ شاید ایساممکن نہیں۔ تہذیب اور شائستگی حاصل کرنے کے لئےسفر کرنابے حد ضروری ہے ورنہ ہم مہذب اور سنجیدہ کیسے ہوتے ہیں؟ دنیا کے عجائبات کودیکھنا اور ہرملک، ہرمذہب کے پیروکاروں کی طرز معاشرت اور طریقہ تمدن کودیکھا نہایت ضروری ہے۔ ہمارے خیالات اس وقت تک بلند اور معیاری نہیں ہوسکتے جب تک ہم دوسروں کے خیالات سے استفادہ نہ کریں۔
سفرنامہ نگار کاتہذیبی، ثقافتی اور تاریخی شعور اس کی تحریروں میں جابجامنعکس ہوتاہے۔ اس کی ذہنی اور علمی وسعت اسے اپنے عہد اور ماضی کی صورتحال کواحاطہ تحریر میں لانے پراکساتی ہے۔ سفرنامہ نگار کی تاریخ پر گہری نظراور مطالعہ اسے تاریخی وتہذیبی گرفت میں لاکر معلومات افزا اور دلچسپ سفرنامہ لکھنے پر مجبور کرتے ہیں۔ سفرنامہ نگار کی تحریروں میں تصورات ، تہذیب وثقافت اور تاریخ ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔
تاریخ یوسفی المعروف عجائبات فرنگ
اردومیں سفر نامہ نگاری کاباقاعدہ آغاز 1847ء سے تسلیم کیاجاتاہے اور یوسف خان کمبل پوش کاسفرنامہ تاریخ یوسفی کواردو کاپہلا سفرنامہ قرار دیاگیاہے۔ اس سفرنامے کادوسرا نام عجائبات فرنگ بھی ہے۔ پہلاسفرنامہ ہونے کے باوجود فن سفرنامہ نگاری کے جدید معیارات پرپورا اترتاہے۔ اس کااسلوب، اندازبیان، تحیر وتجسس اور حیر انگیز معلومات نے اسے آج بھی قابل مطالعہ بنایاہواہے۔ عجائبات فرنگ سب سے پلے 1847ء میں پنڈت دھرم نرائن کے زیراہتمام دہلی کے کالج کے مطبع العلوم پریس سے شائع ہواجسے بعدمیں تحسین فراقی نے پرمغزمقدمے کے ساتھ ازسرنو1983ء میں مرتب کرکے شائع کرایا۔ اس بارے میں تحسین فراقی لکھتے ہیں:
“کمبل پوش ‘تاریخ یوسفی’ یا’عجائبات فرنگ’ اردو کاپہلا سفرنامہ ہی نہیں سفرنامے کااہم ترین سنگ میل بھی ہے اور اس پرجدید سفرنامے کی اصطلاح کااطلاق بھی بہت حد تک ہوتاہے۔ جہاں تک سفریورپ کاتعلق ہے اردو میں اب تک اس باب میں 30-35 سفرنامے لکھے جاچکے ہیں جس کاسلسلہ کمبل پوش سے عطاء الحق قاسمی تک پھیلاہواہے۔ لیکن عجائبات فرنگ ان میں اولیت کے اعتبار سے ہی نہیں بلکہ اسلوب اور لوازمے کے اعتبار سے بھی ایک بے مثال سفرنامہ ہے”[ii]
عجائبات فرنگ میں نہ صرف انگلستان ،فرانس ،مصر اور ہندوستان کے سیاحانہ مرقعے پیش کئے گئے ہیں بلکہ ان ممالک کے طرز معاشرت اور عوامی زندگی کی جھلکیوں کاہندوستان کے رسوم ورواج اور سیاسی اداروں سے موازنہ بھی کیا گیاہے۔ جسے بڑی حد تک حقیقت پر مبنی کہاجاسکتاہے۔ اس کے مطابق جدید تعلیم اور ترقی یافتہ سیاسی اصولوں پرقائم انگریزی نظام ہے جب کہ دیسی راجاؤں ،نوابوں اور زمین داروں کی پس ماندہ فکر پرمبنی ہندوستان کاسیاسی وسماجی نظام ہے۔تیسری طرف ہندوستان میں اپنااقتدار پھیلاتی ہوئی کمپنی کی سامراجی حکومت ہے جوہندوستان میں لوٹ کھسوٹ کرنے کے لئے قائم کی گئی ہے۔ ان سب پہلوؤں پر اس سفرنامے میں خاص مواد موجود ہے۔
عجائبات فرنگ میں کمبل پوش انگلستان سے بیحد متاثر نظرآتےہیں۔ وہاں کی عمارتوں، سڑکوں، سرائے خانوں، عجائب گھروں، ہوٹلوں ،، تاریخی مقامات، عجائب ونوادر، انتظام حکومت، قواعد انگریزی، فوج، مقام طلسمات، میوزیم، نقل گھر میں ہونے والے کھیل تماشے وغیرہ نے مصنف کو انگشت بدنداں ہونے پر مجبور کردیا ۔ متحرک و ترقی یافتہ اقوام کی طرز زندگی ، لوگوں کی علم دوستی، مستقبل شناسی، مہمان نوازی، اور لندن کی سماجی، معاشی وصنعتی برتری مصنف کوحیرت زدہ کردیتے ہیں۔ اور ایسے وقت میں انہیں اپنے وطن ہندوستان کی یاد آئی۔ وہ دونوں ملکوں کاموازہ کرتےہیں اور ہندوستان کی پسماندگی وبدحالی پرایک سچے مصلح قوم کی طرح غور وفکر کرتے ہیں۔ انگریزی قوم کی ترقی اور ہندوستانیوں کی تنزلی کے اسباب بیان کرتے ہوئے کمبل پوش رقمطرازہیں:
“جوقدت اختراعی وصنعف وکاریگری فقیر نے انگلستان میں دیکھی یہاں عشرعشیر اوس کی بھی نہ پائی۔ شمہ یہ کہ وہاں کلیں، آہنی توپ اور بندوق اور تلوار اور کاغذ کپڑے وغیرہ کی کھڑی کی ہیں کہ گھڑی بھر میں اوس سے ایک رقم کی ہزاروں چیزیں بنتی ہیں۔ یہاں کوئی اوس کی خبرنہیں رکھتا ہے بلکہ نام ونشان بھی نہیں جانتاہے۔ رئیس ہندوستان کے خواب خرخوش میں پڑے رہتے ہیں۔ شیر یامرغ یاکبوتر یاپتنگ بازی وغیرہ میں عمربرباد کرتے ہیں کوئی تحصیل علم وہنر کاشوق نہیں رکھتا۔ صد آفریں امیران انگلستان پرکہ اون میں سےکوئی تمام دن ایک گھڑی اپنی برباد نہیں کرتا”۔[iii]
یورپ کی تہذیب وثقافت ، تاریخ وتمدن، سماجی واقتصادی حالات کوکمبل پوش بڑی حسرت سے دیکھتے ہیں۔ اپنے پورے سفرنامے میں وہ پیش آئے واقعات وحادثات ومناظر سے لطف اندوز ہوتے ہوئے نظر آتےہیں اور اپنے تاثرات ومحسوسات کواس دلچسپی وخوبصورتی سے بیان کرتے ہیں کہ پورا شہرقاری کی نظروں سے جیتاجاگتا اور سانس لیتاہوانظرآتاہے۔اچھابراجوبھی واقعہ پیش آیا اس کوبلاجھجک بیان کردیا۔ جوچیزدیکھی جیسی دیکھی اس کومن وعن قاری کے سامنے پیش کردیا۔ عجائبات فرنگ میں نہ صرف یورپ کی تہذیب وتمدن اورآثارقدیمہ کی عکاسی ہوتی ہے بلکہ اس میں ہندوستان کے متعلقہ عہد کے مختلف حالات مثلاً ہندوستان کی بے حسی، غفلت، عیش پسندی، آرام طلبی، حکومتوں، ریاستوں اور بادشاہوں کے افسوسناک حالات بھی سامنے آتے ہیں۔ مجموعی طور پر یوسف خان کمبل پوش نے واضح اندازمیں یورپ کانقشہ ہماری آنکھوں کے سامنے کھینچا اور س کی حقیقت سے قاری کوروبرو کرانے میں کامیاب رہے ہیں اس ضمن میں تحسین فراقی لکھتےہیں:
“آج انگلستان ، فرانس، مصر اور عربستان سفرکی سہولتوں اور تعارفی لٹریچر کی ارزانی اور سریع الحصول کے باعث ہمارے لئے ہرگز اجنبی نہیں رہے، لیکن آج سے کم وبیش ڈیڑھ سوسال پہلے کی یورپی، مصری اور خود ہندوستانی معاشرت ہمارے لئے جس طرح اجنبی تھی اس اجنبیت کاقفل توڑنے والے چند ابتدائی لوگوں میں کمبل پوش کابھی شمارکیاجاتاہے[iv]۔
انیسویں صدی سفرنامہ نگاری کی ارتقائی صدی رہی ہے اس دور میں اردو ادب میں جتنے بھی سفرنامے تحریر کئے گئے ان میں بیشتر کے مقاصد زیادہ تر غیر ملکی تہذیب وتمدن اورعلمی ترقی سے ہندوستان کوروشناس کرانا تھا۔ یوسف خان کمبل پوش ، سرسید احمد خان، محمد حسین آزاد، اور شبلی جیسے باوقار دانشوروں نے اپنے ملک کوچھوڑکریورپ اور ایشیا کوچک کے ممالک کی خاک چھان ماری۔ جس کے پیچھے انہیں محض سیر وتفریح کامقصد نہیں تھا بلکہ اپنے خستہ اور کمزور ملک کے لئے ترقی کی راہیں ہموارکرناتھیں۔ ان لوگوں نے غیرملکی تعلیمی اداروں، کتب خانوں اور وہاں کے موجود تعلیمی نظام کابغورمشاہدہ کیا ۔ اپنی قیمتی تجربات اورمشاہدات کولے کر جب یہ لوگ اپنے ملک لوٹے تو ان کے ذہنوں میں ایک ایسے منفرد نظام کی تشکیل کاخواب تھا جس میں سے قوم اپنے سنورتے مستقبل دیکھ سکے۔
انیسویں صدی میں ایسے متعدد سفرنامے لکھے جاچکے ہیں جن میں بیرون ملک اور اندرون ملک کی تہذیبی اور سماجی زندگی کی عکاسی کی گئی ہے۔ اسی تناظرمیں انیسویں صدی کے چند نمائندہ سفرناموں کو یہاں پیش کیاجائےگا۔
یوسف خان کمبل پوش کے علاوہ اس صدی میں سرسید احمد خان بھی ایک اہم سفرنامہ نگار ہیں جنہوں نے سفرنامے میں یورپی تہذیب اور سماجی زندگی کااحاطہ کیاہے۔ سرسید احمد خان کی تعلیمی اور تحقیقی کاوشوں میں “مسافران لندن” کو بڑی اہمیت حاسل ہے۔ یہ ایک ایسے معاشرے کاسفرنامہ ہے جوعلم وہنر کی تلاش میں نکلا تھا اور علوم وفنون کی نئی راہیں، نئی منزلیں تلاش کرناچاہتاتھا۔ ان کے اس سفرکامقصد انگریزوں کی عمدہ وتعلیم وتہذیب سے روشناس ہوکر اپنے ملک وقوم کو اس سے فیضیاب کرناتھا۔ سرسید چونکہ ایک مخصوص مقصد کے تحت یورپ گئے تھے ۔ ان کی آنکھوں کے سامنے اپنی منتشرقوم جلوہ گر تھی۔ اس قوم کے لئے وہ ایک ایسالائحہ عمل تیارکرناچاہتے تھے جس کی بدولت ہندوستانی قوم خاص کرمسلمان ترقی کی راہ پر گامزن ہوجائے۔ اس غرض سے انہوں نے یورپ کے ترقی یافتہ قوم کی تہذیبی وتمدنی روایت کی مرقعہ کشی کی ہے تاکہ ان کی مشاہدات اور مناظرات سے مسلمان قوم بیدارہوجائے۔
سرسید نے لندن کے مختلف اسکولوں، کالجوں، دانش گاہوں، تعلیمی نظام ، طریقہ درس اور کتب خانوں کاباریکی سے جائزہ لیا۔ عورتوں کی تعلیم وتربیت، تہذیبی آثار وثقافت اور معاشرت کا بغور مشاہدہ کیا۔سفرنامہ کے مطالعے سے یہ اندازہوتاہے کہ لندن کی کامیابی دیکھ کرسرسید اگرخوش ہوتے تھے تو ہندوستان کی خستہ حالی اور افلاس وتنگی انہیں کرب میں مبتلاکردیتی تھی۔ مجموعی طور پر “مسافران لندن” سرسید احمد خان کی صاف ستھری ، سادہ زندگی ، سلجھی ہوئی شخصیت اور خلوص ومحبت وہمدردی کاموثراظہارہے۔
محمد حسین آزاد نے جس طرح اردواداب کے ارتقامیں اہم رول اداکیا ہے اسی طرح اردو سفرنامے کے فروغ میں بھی غیرمعمولی کارنامہ انجام دیاہے۔ انہوں نے دوسفرنامے یادگار چھوڑے ہیں۔ “وسط ایشیا کی سیر” ، “سیرایران” کے نام سے مشہور ہے۔ “سیرایران” محمد حسین آزاد کے سفرایران کی ایک دلچسپ روداد ہے ۔ انہوں نے ایران کے لوگوں کی طرز زندگی کے مختلف پہلوپیش کئے ہیں۔
محمد حسین آزاد نے ایران کے لوگوں کاحلیہ ان الفاظ میں پیش کیاہے:
“شیراز کے لوگ اب تک لباس ووضع میں اپنے بزرگوں کی تصور ہیں، علماء اور ثقہ لوگ عمامہ باندھتے ہیں، عباپہنتے ہیں ، خاندانی ترک کلاہ وپوست برہ کی پہنتے ہیں”۔[v]
آزاد نے یہاں بڑے دلکش انداز میں نہ صرف ایرانی باشندوں کاحلیہ پیش کیاہے بلکہ ان کی تہذیبی وتمدنی روایت کی ٹھاٹھ بھی پیش کی۔ محمد حسین آزاد “سیرایران” کے دیباچہ میں سفرنامہ کی تاریخی اور سماجی اہمیت پرروشنی ڈالتے ہوئے رقمطرازہیں:
“علم تاریخ کے متوالے جانتےہیں کہ جس طرح آج ہرایک علم وفن ایجادواختراع کا منبع ولایت انگلینڈ ہے، اسی طرح ایک زمانے میں ایران سمجھاجاتاتھا۔ خاص کرہمارے مشرقی علوم تو اسی راستے بہہ کر ہم تک پہنچتے تھے”۔[vi]
مجموعی طور پرسفرنامہ میں ایران کے تمام ترحالات خصوصاًتہذیبی ، تاریخی وعلمی پس منظر کی عمدہ عکاسی ملتی ہے۔
شبلی نعمانی امت مسلمہ کے سچے ہمدرد اور خیرخواہ تھے۔ وہ مسلمانوں کی فلاح وبہبود اور خوشگوار زندگی کے لئے ہمہ وقت فکرمند رہتے تھے۔ وہ اسلامی طرزمعاشرت اور آثارقدیمہ کے قریب سے دیکھنے کی خواہش رکھتے تھے۔ اپنے اسلاف کے کارنامے بتاکرمسلمانان ہند کویہ باور کراناچاہتے تھے کہ ان کی کامیابی وکامرانی کاراز اسلامی طریقہ کار میں پنہاں ہے۔ تہذیبی اور سماجی اہمیت کے تناظر میں شبلی نعمانی کاسفرنامہ “سفرنامہ روم ومصر وشام” اہمیت کاحامل ہے۔ شبلی نعمانی کاخاص مقصد ترک کی طرز زندگی اور طرزتعلیم کے ساتھ ساتھ تہذیبی وسماجی زندگی کابھی احاطہ کرنا تھا۔ شبلی کایہ سفرنامہ ترکوں کی زندگی کامکمل آئینہ ہے۔ جس میں سے قارئین ان کے عادات واطوار، مذہبی رسومات، تعلیمی نظام، سماجی اورمعاشی زندگی کے خد وخال دیکھتے ہیں۔ شبلی
نے ترکوں کےلباس ووضع کے بارے میں بھی تفصیل کے ساتھ لکھا ہے۔ اس ضمن میں لکھتے ہیں:
“تعجب یہ ہے کہ یہاں مذہبی گروہ یعنی علماء اور مدرسین بھی یورپ کے اثر سے نہیں بچے ۔ ان کےپائے جاموں میں پتلون کی طرح بٹن ہوتےہیں ۔ صرف یہ فرق ہے کہ اوپر گھیرہوتاہے اور خوبصورتی کے ساتھ چنیں ہوت ہوتی ہیں، کرتا اور اچکن کے بجائے صرف واسکوٹ ہوتاہے ،واسکوٹ کے اوپر عباپہنتے ہیں اور یہی امتیازی علامت ہے جوان کواور گروہ کے آدمیوں سے الگ کرتی ہے”۔[vii]
ڈاکٹرقدسیہ قریشی “سفرنامہ روم ومصر وشام” کے بارے میں یوں رقمطرازہیں:
“شبلی نے اپنے سفرنامہ میں ترکوں کی تہذیب وشائستگی کی جوخوبصورت تصویر ہمارے سامنے پیش کی ہے وہ اس زمانے کے یورپ کے عام لٹریچر سے بالکل مختلف ہے”۔[viii]
سفرناموں میں جہاں سماجی رسومات کوجگہ دی گئی ہے وہیں ان سفرناموں میں غیرملکی تہذیب اور ثقافت کوبھی پیش کیاگیاہے۔ ان سفرناموں میں تاریخی عمارتوں، مسجدوں اور شاہی محلوں کی بھی منظرکشی کی گئی ہے۔
[i] اردو سفرناموں میں ہندوستانی تہذیب وثقافت، مرتب خواجہ محمد اکرام الدین، مضمون نگارسید قمر صدیقی، ص 23
[ii] مقدمہ عجائبات فرنگ ،یوسف خان کمبل پوش ، مرتب تحسین فراقی، ص47
[iii] عجائبات فرنگ ،یوسف خان کمبل پوش ، مرتب تحسین فراقی، ص246-247
[iv] مقدمہ عجائبات فرنگ ،یوسف خان کمبل پوش ، مرتب تحسین فراقی،ص85
[v] سیرایران، محمد حسین آزاد، ص17
[vi] ایضاص7
[vii] سفرنامہ روم ومصر وشام، شبلی نعمانی، ص33
[viii] اردو سفرنامے انیسویں صدی میں ،قدسیہ قریشی، ص316