You are currently viewing اردو غزل میں محبت کے تصورات کا موسمی اتار چڑھاؤ

اردو غزل میں محبت کے تصورات کا موسمی اتار چڑھاؤ

 

 

وقار سلیم

ایم فل اسکالر، شعبہ اردو ، جی سی یونی ورسٹی لاہور

 

اردو غزل میں محبت کے تصورات کا موسمی اتار چڑھاؤ

 

شاعری محض لفظوں کا کھیل نہیں ہے بلکہ یہ ان جذبات و احساسات کی ترجمانی کا نام ہے جن کا اظہار انسان عمومی حالات میں کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔ شاعری کا تعلق انسان کی اندرونی فضا سے ہے۔ اگر انسان کا داخلی منظر پر سکون اور کیف انگیز ہے تو جو الفاظ اس سے برآمد ہوں گے ان کا مجموعی تاثر بھی طربیہ ہوگا اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہو، انسان کے اندر تلاطم برپا ہو، کسی صورت بھی چین نہ پڑتا ہو تو پھر اس ٹکسال سے جو سکے تیار ہوں گے، ان کے اندر شکست، برہمی، معاشرتی بے حسی، احساس لاشئیت، داخلی کرب اور بے معنویت کا رنگ غالب ہوگا۔ جب سے انسان نے شعوری ادراک حاصل کیا ہے، اس وقت سے آج تک اچانک خوشی یا اچانک غم کی خبر ملنے پر اس کے آنسو چھلک پڑتے ہیں۔ اگر ان آنسوؤں کا مالک ایک ایسا آدمی ہو جو تخلیقی ذہنیت کا حامل ہو تو وہ ان کا اظہار ایسی صورت میں کرے گا کہ جو کوئی بھی ان الفاظ کو پڑھے گا وہ وہی جذبہ محسوس کرے گا جو ان الفاظ کے خالق نے محسوس کیا تھا اور موزوں الفاظ کو موزوں ترتیب میں لاتے ہوئے شاعری تخلیق کی تھی۔ شعوری ادراک حاصل کرنے کے نکتے کو ذہن میں رکھا جائے تو شاعری کی عمر،  معلوم انسانی تاریخ سے بھی زائد عرصے پر محیط ملے گی۔ اسے یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ جب سے انسان نے لفظوں کا استعمال سیکھا، وہ شاعری کے ہنر سے آشنا ہے۔ اگر اس مقولے کو انسان تک محدود رکھنے کے بجائے آفاقی سیاق میں پرکھا جائے تو یوں کہا جا سکتا ہے کہ کائنات کی تخلیق کے ساتھ ہی شاعری جنم لے چکی تھی۔ کیونکہ شاعری موزوں ترتیب، ردھم، آہنگ اور موسیقیت وغیرہ کا نام ہے۔ یہ تمام عناصر کائنات کے ذرے ذرے میں موجود ہیں۔ پرندوں کی بولیاں، جانوروں کی آوازوں کا ردھم، ہوا سے پتوں کی صرصراہٹ، پتیوں کا چٹکنا حتیٰ کہ ہر چیز میں ایک موزونیت موجود ہے۔ اس منظر نامے کو براج نرائن چکبست کی نظر میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ:

زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب

موت کیا ہے انہیں اجزاء کا پریشان ہونا 1

اگر عناصر میں ترتیب کا ظہور زندگی ہے تو یہ ترتیب تو شاعری میں بھی پائی جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ شاعری کا اس وقت ظہور ہو چکا تھا جب کائنات مختلف عناصر میں ترتیب کے سبب وجود میں آ رہی تھی۔ یہ بڑا عمیق نکتہ ہے۔ اگر اس پر غور کیا جائے تو نتائج حیران کن حد تک بڑی معنویت کے حامل ہو سکتے ہیں۔ شاعری کو بیان کرنے کا ایک وسیلہ درکار ہوتا ہے اور یہ بات ظاہر ہے کہ اس کے بیان کا سب سے بڑا اور بنیادی ذریعہ زبان ہے۔ ہر زبان کی اپنی حرکیات ہوتی ہیں۔ یہ وہ دائرہ ہے جو ہر زبان کی شاعری کو ایک دوسرے سے مماثلت کے باوجود انفرادی خصوصیت عطا کرتا ہے۔ اردو زبان کی شاعری بھی ایسی ہی ہے۔  یہ بات تاریخ دان متفقہ طور پر تسلیم کرتے ہیں کہ اردو زبان مختلف زبانوں کے اختلاط سے وجود میں آئی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس زبان کی شاعری میں ان زبانوں کی روایت کا شامل ہونا ناگزیر تھا جن کے باہمی ملاپ سے اس زبان نے جنم لیا۔ آج اکیسویں صدی میں بیٹھ کر گزشتہ صدیوں کے اردو شاعری کے منظر نامے کو دیکھا جائے تو اس کی تمام اصناف میں عربی اور فارسی شاعری کے اثرات بڑے واضح نظر آتے ہیں۔ بلکہ اگر اس بات کو یوں کہا جائے کہ اس کی تمام شعری اصناف عربی اور فارسی زبان سے درآمد شدہ ہیں تو غلط نہ ہوگا۔

اردو شاعری کی روایت کا باقاعدہ آغاز گیارہویں صدی عیسوی میں ہوا۔ اس کا پہلا باقاعدہ شاعر مسعود سعد سلمان لاہوری تھا، جس کی وفات 1121ء کے قریب ہوئی۔ ڈاکٹر تبسم کاشمیری “اردو ادب کی تاریخ، ابتداء سے 1857ء تک” میں اس حوالے سے یوں لکھتے ہیں کہ:

“شمالی ہند میں اردو کے سلسلے میں ہمیں جس قدیم ترین شاعر کا نام ملتا ہے وہ مسعود سعد سلمان لاہوری ہے۔ وہ غزنوی دور کا شاعر ہے۔ اس کا زمانہ حیات 1048 – 1121ء ہے۔ محمد عوفی نے “لباب الالباب” میں مسعود سعد سلمان کے عربی، فارسی اور ہندی دیوان کا تذکرہ کیا ہے۔”2

اس کا دیوان اب موجود نہیں مگر مختلف روایات سے یہ بات ملتی ہے کہ مسعود سعد سلمان لاہوری نے ایک دیوان مرتب کیا تھا۔ یہ بات امیر خسرو کے ہاں بھی موجود ہے کہ مسعود سعد سلمان لاہوری نے ایک “دیوان ہندوی” لکھا تھا۔ یہاں یہ نکتہ قابلِ غور ہے کہ اس وقت نئی زبان جو مختلف علاقوں میں مختلف ناموں سے اپنی پہچان رکھتی تھی ابھی اس کو نہ ہی مرکزیت حاصل تھی اور نہ ہی کوئی ایک باقاعدہ نام اسے ملا تھا، اس لیے مسعود سعد سلمان لاہوری کے دیوان کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انہوں نے جس زبان میں شاعری کی اور دیوان مرتب کیا وہ زبان واقعی اردو تھی یا اس کی ہم شکل۔ اس کے بعد بابا فرید، امیر خسرو اور کبیر کے ہاں ہمیں ایسی زبان ملتی ہے جسے اردو شاعری کے ابتدائی نقوش کہہ سکتے ہیں۔ شمالی ہند میں شاعری کی اس روایت کے ساتھ ساتھ گجرات میں بھی شاعری کی روایت جاری تھی جس کے سرخیل بہاؤ دین باجن،  محمود دریائی، خوب محمد چشتی اور علی جیو گام دھنی تھے۔ اس زبان میں ہونے والی شاعری کی حیثیت بھی اردو زبان کے ابتدائی نقوش کی شاعری کی ہے۔ بہمنی دور میں اس شاعری کی روایت میں نئے رنگ کا اضافہ ہوا اور زبان میں آہستہ آہستہ نکھار آتا گیا۔ اس دور کے شعراء میں نظامی، مشتاق، لطفی، فیروز اور اشرف بیابانی کے نام اہم ہیں۔ مگر ان کی زبان آج کے دور میں اتنی غیر مانوس ہے کہ اسے اردو نہیں کہا جا سکتا، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسے کسی اور زبان کا نام دے کر الگ خانے میں رکھا جائے۔ یہ زبان اردو کی ابتدائی شکل ہے۔ اور اس وقت اردو ایک نئی زبان بننے کے مراحل سے گزر رہی تھی۔ جنوبی ہند میں بیجاپور اور گولکنڈا کی شاعری کی روایت اتنی اہمیت کی حامل ہے کہ اس کے بیان کے بغیر اردو شاعری کی روایت کو مکمل طور پر نہیں سمجھا جا سکتا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اردو کے پہلے صاحبِ دیوان شاعر کا تعلق بھی گولکنڈا سے تھا۔ بیجاپور میں عادل شاہی دور ادب نواز دور تھا۔ بیجاپور کے حکمرانوں نے ریاستی سطح پر شاعری کی سرپرستی کی اور اسے پروان چڑھایا۔ بیجاپور کے شعراء میں برہان الدین جانم، امین الدین اعلیٰ، عبدال، شوقی، نصرتی اور مقیمی اہم ہیں۔ ان شعراء کی پہچان وہ مثنویاں ہیں جو انہوں نے شاہی دربار سے وابستہ ہوتے ہوئے یا محض ذاتی سطح پر تحریر کیں۔ اس حوالے سے نصرتی کی مشہور مثنوی “علی نامہ” یوں اہمیت کی حامل ہے کہ اس میں علی عادل شاہ، جو کہ بیجا پور کا ایک حکمران تھا، کے عشق کی کہانی کو بیان کیا گیا ہے۔ گولکنڈا صحیح معنوں میں ایک ایسی جگہ کی حیثیت رکھتا تھا جسے شاعری کا دارالامان کہا جا سکتا ہے۔ قطب شاہی حکمران نہ صرف خود شاعر تھے بلکہ وہ شعراء کی حوصلہ افزائی بھی کرتے تھے۔ ملا وجہی، جس کی تصنیف “سب رس” کو اردو کی پہلی باقاعدہ نثری تصنیف کہا جاتا ہے، بھی شاہی دربار سے وابستہ تھا۔ اس کے علاؤہ غواصی اور ابن نشاطی جیسے شاعر قطب شاہی دربار سے ہی وابستہ تھے۔ محمد قلی قطب شاہ جو کہ گولکنڈا کا حکمران تھا کو اردو کا پہلا صاحبِ دیوان شاعر ہونے کا شرف حاصل ہے۔ اس کی شاعری عشق و محبت کے تانے بانے کے گرد گھومتی ہے۔ اس کی شاعری کے کردار اس کی وہ حقیقی بارہ رانیاں ہیں جن سے وہ عشق لڑایا کرتا تھا اور انہیں مختلف محلات میں رکھا ہوا تھا۔ اس کی شاعری میں عشق و محبت کے حوالے سے شعر دیکھیے کہ:

رنگیلی سا میں تھے توں رنگ بھری ہے

سگڑ سندر سہیلی گن بھری ہے

لٹکنا بجلی نمنے اس سہاوے

وہ ہندی چھوری بھوچھند شہ پری ہے

سبھی حوراں نہ آسیں آج تج سم

کہ توں بالاں میں سب عنبر بھری ہے

گگن منڈپ ستاریاں سوں سنوارے

اوہاں گاؤن سو زہرہ مشتری ہے 3

ڈاکٹر محی الدین قادری زور نے محمد قلی قطب شاہ کی شاعری میں ان کی زندگی کی تصاویر کی عکس بندی کے متعلق یوں لکھا ہے کہ:

“دنیا کا کوئی شاعر اپنے کلام میں اپنی زندگی کو اتنا عریاں نہیں پیش کر سکتا تھا جتنا محمد قلی نے کیا۔”4

جس دور میں محمد قلی قطب شاہ نے اپنا دیوان ترتیب دیا تب جنوبی ہند میں ہونے والی شاعری پر فارسی اثرات کم تھے یا یوں کہنا چاہیے کہ جنوبی ہند میں بولی جانے والی زبان مقامی پن کے اثرات لیے ہوئے تھے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بہمنی سلطنت کے قیام سے سترویں صدی کے آخر تک جنوبی ہند مغلیہ سلطنت کے زیر انتظام نہیں تھا۔ جب 1686ء اور 1687ء میں  بیجا پور اور گولکنڈہ کا سقوط ہوا تو یہ علاقے براہ راست مغلیہ سلطنت کا حصہ بن گئے، یوں مرکز جو روایت کا آغاز ہوا۔ اس مرکز جو روایت سے جو نئی زبان وجود میں آنے لگی اس پر فارسی کا غلبہ بڑھنے لگا۔ اسی زبان کا استعمال سراج اورنگ آبادی اور ولی دکنی کے ہاں ملتا ہے۔ ولی دکنی کو اردو شاعری کا باوا آدم کہا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو زبان ولی دکنی کے ہاں ملتی ہے بعض اوقات وہ اتنی صاف دکھائی دیتی ہے جیسا کہ وہ اکیسویں صدی میں کی جانے والی شاعری کی زبان ہو۔

دل کوں لگتی ہے دل ربا کی ادا

جی میں بستی ہے خوش ادا کی ادا

گل ہوئے غرق آب شبنم میں

دیکھ اس صاحب حیا کی ادا 5

ولی دکنی حسن و عشق کا شاعر ہے وہ بھونرے کی مانند ہر خوبصورت پھول کا شیدائی ہے۔ اس وجہ سے ان کی شاعری میں فکر و فلسفہ کے بجائے جذبات کا غلبہ ہے۔  ولی دکنی کی شاعری کے متعلق ڈاکٹر تبسم کاشمیری یوں لکھتے ہیں کہ:

“ولی کی شاعری فکر و فلسفہ کی جگہ حواس، محسوسات اور جذبات کی شاعری ہے۔ اس شاعری کے منظر نامے میں فطرت کا کردار بہت اہم ہے۔ زمین، آسمان، چاند، سورج، پھول، رنگ، باغ، میدان، پہاڑ اور خوشبو کے مظاہر چاروں طرف بکھرے نظر آتے ہیں۔ ولی ان مظاہر کا ان تھک تماشائی ہے۔”6

ولی دکنی کے بعد جعفر زٹلی اردو ادب کی تاریخ میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ پہلا ایسا شاعر ہے جس نے حکومتی سطح پر ہونے والی زیادتیوں کے خلاف آواز اٹھائی۔ مگر یہ آواز صرف تب بلند کرتا جب اس کی مرضی کے خلاف کوئی قدم اٹھایا جاتا۔ اس کی شاعری ہجو گوئی اور طنز ومزاح کے دائرے میں گھری ہوئی ہے۔ اس کی ہزلیہ شاعری کے سبب اسے 1712ء میں پھانسی دے دی گئی۔ اس وجہ سے جعفر زٹلی کو اردو ادب کا پہلا شہید شاعر ہونے کا بھی درجہ حاصل ہے۔ جعفر زٹلی کے ہاں جہاں ہزلیہ شاعری ہے وہاں وہ اردو کا ایسا پہلا شاعر بھی ہے جس نے اپنے دور کی بے معنویت، انتشار اور زوال کو نہ صرف محسوس کیا بلکہ اسے تخلیقی اظہار کا ذریعہ بھی بنایا۔ اورنگزیب عالمگیر کی وفات 1707ء کے بعد جعفر زٹلی نے ان کے لیے یوں نظم لکھی کہ:

کہاں اب پائیے ایسا شہنشاہ

مکمل اکمل و کامل دل آگاہ

رکت کے آنسوؤں جگ روتا ہے

نہ میٹھی نیند کوئی سووتا ہے

صدائے توپ و بندوق است ہر سو

بہ سر اسباب و صندوق است ہر سو

دوا دو ہر طرف بھاگڑ پڑی ہے

بچہ درگور و سر کھٹیا دھری ہے

جعفر زٹلی کی شاعری کے متعلق ڈاکٹر تبسم کاشمیری یوں لکھتے ہیں کہ:

“جعفر اپنے دور کا انتہائی بے باک اور نڈر شاعر تھا۔ وہ اردو کا پہلا شاعر تھا کہ جس نے شاعری کے روایتی اسالیب کو ترک کیا۔ اس نے غزل کی روایتی تکنیک اس کی دیو مالا، تہذیب اور عشق و عاشقی کے مروجہ تصورات سے بغاوت کی۔ وہ اپنے عہد کا ایک بڑا باغی تھا کہ جو ریاست سے بھی ٹکرا جانے میں خوف محسوس نہ کرتا تھا۔ زٹلی اردو کا پہلا شاعر تھا جسے تخلیقی اظہار کی سنگین پاداش میں سزائے موت کا سامنا کرنا پڑا۔” 7

اٹھارویں صدی عیسوی کے آغاز میں شمالی ہند میں شاعری کا دائرہ وسیع ہونے لگا اور کئی شعراء ولی دکنی کا رنگ اپناتے ہوئے ریختہ میں شعر کہنے لگے۔ یہاں یہ نکتہ قابلِ غور ہے کہ ولی دکنی سے پہلے فارسی شاعری کا عروج تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ درباری زبان فارسی تھی اور اس زبان کو ذریعہ اظہار بنانے والوں ہی کو انعام و اکرام سے نوازا جاتا تھا۔ دربار میں شاعروں کے باقاعدہ عہدے ہوا کرتے تھے۔ اس وقت ریختہ (موجودہ اردو) کو صرف بول چال کی زبان تصور کیا جاتا تھا اور یہ خیال کیا جاتا تھا کہ اس زبان کو اس مقام پر تخلیقی ظہار کا ذریعہ نہیں بنایا جا سکتا جہاں فارسی موجود ہے اور نہ ہی اس کا ذخیرہ الفاظ اتنا وسیع ہے کہ تخلیقی سطح پر اس کو نئے مضامین کے بیان کے لیے استعمال کیا جا سکے۔ مگر جب ولی دکنی کا دیوان شمالی ہند پہنچا تو اس کی دھوم مچ گئی۔ دلی کی گلیوں میں ولی دکنی کے اشعار گائے جانے لگے۔ یہ صورتحال دیکھ کر دلی کے شعراء ریختہ میں شعر کہنے لگے۔ یہ تمام شعراء جن میں مرزا مظہر جان جاناں، شاہ حاتم، شاہ مبارک آبرو اور شاکر ناجی جیسے شعراء شامل تھے، اصل میں فارسی زبان کے شاعر تھے اور کبھی کبھی ریختہ میں بھی شعر کہہ لیتے تھے۔ اس دور میں ایہام گوئی کی تحریک چلی۔ یعنی ایک ہی لفظ کو اس طرح استعمال کیا جائے کہ وہ بیک وقت دو معنی، ایک قریب کا اور دوسرا دور کا معنی، دے۔  ایہام کی تعریف ڈاکٹر انور سدید یوں کرتے ہیں کہ:

“ایہام رعایت لفظی کے ایک مخصوص انداز کا نام ہے اور اس کا تمام تر دارومدار زومعنی الفاظ کے فنکارانہ استعمال پر ہے۔”8

ایہام گوئی کے حوالے سے شاکر ناجی کا شعر دیکھیے کہ:

نہ ٹوکو یار کو کے خط رکھاتا یا منڈاتا ہے

مرے نشہ کی خاطر لطف سے سبزی بناتا ہے 9

ان شعراء کا زندگی کو دیکھنے کا نظریہ بہت محدود تھا اور یہی وجہ ہے کہ ایہام گوئی کا دور ختم ہوتے ہی یہ شاعری بھی مٹتی چلی گئی۔ ایہام گو شعراء کی اہمیت یہ ہے کہ انہوں نے لفظوں کے استعمال کرنے کے کئی طریقے وضع کیے اور نئے نئے الفاظ کی کھوج کی۔ ڈاکٹر تبسم کاشمیری ایہام گوئی کے حوالے سے یوں لکھتے ہیں کہ:

“ایہام گوئی نے لفظوں سے کھیلنے کا سبق سکھایا۔ لفظوں کی آویزش و آمیزش سے معنوی باریکیوں کے حصول کا طریقہ دریافت کیا۔ یہ لفظی مناسبت کی ایک ان دیکھی دنیا کا سفر تھا۔ جہاں شاعر لفظوں کی مناسبت سے معنی کی عجیب عجیب شکلیں دریافت کرتا تھا۔ ایہام گوئی نے لفظوں سے متعلق معنویت کے سلسلوں کو وسعت دی اور یہ ثابت کر دیا کہ شاعر لفظی مناسبتوں سے بہت دور کے معنی تک بھی پہنچ سکتا ہے۔”10

اس کے بعد اردو شاعری کا ایسا دور شروع ہوتا ہے جس میں میر تقی میر، مرزا رفیع سودا اور خواجہ میر درد جیسے شعراء اردو شاعری کو نئی معراج عطا کرتے نظر آتے ہیں۔مرزا محمد رفیع سودا کی انفرادیت یہ ہے کہ انہوں نے اردو ادب میں قصیدہ گوئی کو عروج بخشا۔ انہوں نے اس کے لیے جو زبان استعمال کی وہ وقیع اور بھاری بھرکم تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قصیدہ کسی ایسی شخصیت کے لیے لکھا جاتا ہے جو معاشرے میں بلند مقام رکھتی ہو۔ اس لیے زبان بھی ایسی ہی استعمال کرنا جو عام بول چال کی سطح سے بلند خالص ادبی زبان ہو ضروری ہوتا ہے۔ مرزا محمد رفیع سودا نے جس دوران مشقِ سخن کی ابتداء کی تب ایہام گوئی کی تحریک عروج پر تھی، مگر وہ اپنی صلاحیت کی بنا پر تازہ گوئی کی جانب متوجہ ہوئے کیونکہ وہ ایہام گوئی کے حبس زدہ ماحول میں اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال نہ کر سکتے تھے۔ سودا کی غزل کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ اس پر قصیدہ کے اثرات ہیں اور مرزا سودا نے غزل لکھتے ہوئے قصیدہ کی زبان استعمال کی ہے۔ یہ معاملہ کسی حد تک درست ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ سودا کی غزل گوئی الگ پہچان نہیں رکھتی یا اس کا مرتبہ ان کے قصائد سے کم ہے۔ اشعار دیکھیے کہ:

نگاہِ مست نے ساقی کی عالم کو چھکا ڈالا

کہیں مدہوش ہے شیشہ کہیں پتھر ہے متوالا

کرے کیا دل صفِ مژگاں نہ یہ خنجر ہے نہ بھالا

کہ تیرے روئے ترکش یاں وہی اک بے اثر نالا

نہ کرے اے گرمیِ شوق اس سے تو انداز بوسے کا

ڈروں ہوں میں نہ پڑ جاوے کہیں اس لب پہ بتخالہ 11

خواجہ میر درد اردو شاعری کی روایت میں پہلے ایسے شاعر ہیں جنہیں تصوف کا شاعر کہا جاتا ہے۔ ان کی صوفیانہ شاعری کے در پردہ محرکات میں ان کی خاندانی روایت اور ان کے والد خواجہ ناصر عندلیب کی پرورش کا بھی اثر ہے۔ خواجہ ناصر عندلیب دلی کے معتبر صوفیاء اکرام میں شمار ہوتے تھے۔ خواجہ میر درد کی شاعری میں تصوف کے علاوہ حسن و عشق کے موضوعات بھی موجود ہیں اور ایسے اشعار کی بھی کثرت ہے جنہیں معاملہ بندی کے خانے میں رکھا جاتا ہے۔ مگر یہاں یہ نکتہ قابل غور ہے کہ خواجہ میر درد کی شاعری میں معاملہ بندی والے اشعار میں روئے سخن لڑکوں کی طرف ہے۔ اس کے دو معنی نکل سکتے ہیں ایک یہ کہ خواجہ میر درد کی ایسی شاعری دلی کے اثرات کے تحت تھی۔ اور دوسرا یہ کہ ان کی شاعری اس تصوف کی روایت کے پیروی کرتی ہے جس میں یہ کہا جاتا ہے کہ لڑکوں سے محبت کا اظہار اس لیے کیا جاتا ہے کیونکہ اس میں ہوس کا ہونا ممکن نہیں اور نہ ہی ہم بستری ہو سکتی ہے۔ اس کے باوجود ان کی شاعری کا غالب رنگ صوفیانہ ہے جس بنا پر انہیں صوفی شاعر کہا جاتا ہے۔ کچھ امثال دیکھیے کہ:

گر دیکھئے تو مظہرِ آثارِ لقا ہوں

اور سمجھیے جوں عکس مجھے محو فنا ہوں

کرتا ہوں پس از مرگ بھی حل مشکل عالم

بے حس ہوں پہ ناخن کی طرح عقدہ کشا ہوں

ممنون مرے فیض کے سب اہل نظر ہیں

جوں نور ہر اک چشم کو دیدار نما ہوں  12

میر تقی میر کو خدائے سخن کہا جاتا ہے۔ انہوں نے نہ صرف اردو شاعری کی اس وقت رائج ہر صنف کو اظہار کا ذریعہ بنایا بلکہ غزل کے شہنشاہ بھی کہلائے۔ میر تقی میر کے زمانے میں دلی کئی مرتبہ اجڑی۔ احمد شاہ اور نادر شاہ کے حملوں کی وجہ سے ہر طرف سناٹے چھا گئے اور لوگوں کے دلوں میں ڈر بیٹھ گیا۔ میر تقی میر کیونکہ تخلیقی ذہنیت کے حامل تھے اس لیے انہوں نے اس اداسی اور یاسیت کو تخلیقی اظہار کا ذریعہ بنایا۔ دلی کی اس تباہی کا تذکرہ میر تقی میر نے اپنی خود نوشت “ذکرِ میر” میں یوں لکھا ہے کہ:

“ایک دن میں ٹہلنے نکلا اور شہر کے تازہ ویرانوں سے گزرا۔ ہر قدم پر روتا اور عبرت حاصل کرتا تھا۔ جوں جوں آگے بڑھا حیرت بڑھتی گئی۔ مکانوں کو شناخت نہ کر سکا۔ کسی گھر کا پتہ تھا نہ کسی عمارت کے آثار۔ نہ ان کے مکینوں کی خبر…… نہ وہ بازار تھے جن کا بیان کروں۔ نہ بازار کے وہ حسین لڑکے۔ وہ حسن کہاں جس کی پرستش کیا کرتا تھا، وہ یارانِ عاشق مزاج کدھر گئے…… ہر طرف وحشت برس رہی تھی۔”13

آ جائیں ہم نظر جو کوئی دم بہت ہے یاں

مہلت ہمیں بسان شرر کم بہت ہے یاں

ہم رہروان راہ فنا دیر رہ چکے

وقفہ بسان صبح کوئی دم بہت ہے یاں

اس بت کدے میں معنی کا کس سے کریں سوال

آدم نہیں ہے صورت آدم بہت ہے یاں

شاید کہ کام صبح تک اپنا کھنچے نہ میرؔ

احوال آج شام سے درہم بہت ہے یاں 14

دبستان لکھنؤ میں کئی ایسے نام ملتے ہیں جنہوں نے اردو شاعری میں نئے موضوعات کا اضافہ کیا اور بعض شعراء نے نئے نئے تجربات کرتے ہوئے نئی اصناف بنا ڈالیں۔ جرأت، رنگین اور انشاء کے نام اس حوالے سے اہم ہیں۔ رنگین وہ شاعر ہے جس نے ریختی کو متعارف کرواتے ہوئے اپنی پہچان بنائی۔ مگر دبستان لکھنؤ کے سرخیل آتش اور ناسخ ہیں۔  لکھنؤ میں شاعری معاملہ بندی بن کر رہ گئی تھی، بناوٹ اور تصنع کا اس قدر غلبہ ہو چکا تھا کہ اصل شاعری کہیں دب کر ہی دم توڑنے لگی۔ اس دور میں خواجہ حیدر علی آتش ہی ایسے شاعر تھے جنہوں نے لفظی مرصع سازی کے ساتھ ساتھ خالص شاعری کو اپنی تجربہ گاہ بنایا۔ آتش کے دور میں لکھنؤی تہذیب داخلیت کے بجائے خارجیت کو معتبر خیال کرتی تھی۔ اس لیے تمام شاعر خارجی رنگوں کو برتنے پر مامور تھے اور اسی کو شاعری کا کمال گردانتے تھے مگر خواجہ حیدر علی آتش نے خارجیت پر داخلیت کو  ترجیح دیتے ہوئے شاعری کی۔  اس حوالے سے ڈاکٹر تبسم کاشمیری یوں لکھتے ہیں کہ:

“آتش کی شاعری کو ہم ایک نئی شعری جہت سے تعبیر کرتے ہیں۔ لکھنؤ کی وہ شعری روایت جو خارجی عناصر سے ازبس معمور ہو کر داخلی توانائی سے محروم ہو گئی تھی، آتش نے اس کو داخلی رنگوں سے معمور کیا۔ لکھنؤ کی شاعری میں پیدا ہونے والے ایک بڑے باطنی خلا کو پر کرنے والا شخص حیدر علی آتش ہی تھا۔”15

اشعار دیکھئے کہ:

چشمِ بیمار کا یا رب کوئی بیمار نہ ہو

زلف کے پھندے میں دشمن بھی گرفتار نہ ہو

برہمن آنکھوں کو ملتا ہے جو پائے بت پر

رشک آتا ہے مجھے سنگِ درِ یار نہ ہو

متصل نالوں کی آواز چلی آتی ہے

جسم خاکی قفسِ مرغ گرفتار نہ ہو16

امام بخش ناسخ کو اردو شاعری کی روایت میں اسلوب پرست شاعر کے حوالے سے یاد کیا جاتا ہے۔ انہوں نے اصلاحِ زبان کی تحریک شروع کی جس کا مقصد یہ تھا کہ اردو شاعری میں مقامی اثرات کو زائل کرتے ہوئے فارسیت کو غالب کیا جائے۔ اس کا براہ راست اثر الفاظ پر پڑا اور کئی الفاظ ناسخ نے متروک قرار دیتے ہوئے شاعری سے نکال باہر کیے۔ اس کے ساتھ ساتھ نازک خیالی اور دور ازکار مضامین کو باندھنے کا رجحان پروان چڑھا۔ ناسخ کی نازک خیالی اور خیال بندی کا ایسا جادو چڑھا کہ  مصحفی جیسا شاعر بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ ناسخ کی نازک خیالی کا یہ اثر ہوا کہ اس کی شاعری حسی تمثالوں سے عاری ہو کر محض لفظوں کا کھیل قرار پائی۔ اس حوالے سے تبسم کاشمیری یوں لکھتے ہیں کہ:

“تمثال سازی کے اعتبار سے ناسخ کا متخیلہ خوفناک طور پر اجاڑ ہے۔ بالخصوص محبوب سے متعلق رنگوں، خوشبوں اور جذبوں کی حرارت سے وہ ایسی حسی تمثالیں بنانے میں بری طرح ناکام رہا جن میں اس کے ہم عصر شاعر آتش کو درجہ کمال حاصل تھا۔ ناسخ کی بنائی ہوئی خنک تمثالوں میں جذبات و احساسات کی شدید کمی محسوس ہوتی ہے۔ اسی سطح پر وہ ان تصویروں میں رنگ بھرنے کا شعور نہیں رکھتا۔”17

خط سے غمگیں نہ ہو، اصلاح سے کر صاف عذار

محو جو ہو نہ سکے، یہ خطِ تقدیر نہیں

بد زبانی ہے وہاں، گرچہ ہے معدوم دہن

یاں ہے موجود دہن، خوف سے تقریر نہیں

کیوں دمکتا ہے وہ کندن کی طرح سر تا پا

جائے خاک اس کے عناصر میں جو اکسیر نہیں 18

یہ اشعار واضح تصویر بناتے ہوئے ملتے ہیں مگر ان کی امثال منتخب کرنا لکھاری کی شعوری کاوش کا نتیجہ ہے۔

جب لکھنو میں آتش اور ناسخ کے فن کو تسلیم کیا جا چکا تھا وہاں دلی میں مومن خاں مومن، ذوق اور غالب بھی اساتذہ تسلیم کیے جا چکے تھے۔ شیخ ابراہیم ذوق نے شاعری میں اس زبان، محاورے اور روز مرہ کو برتا جو دلی کی اشرافیہ کی زبان تھی۔ بعض اوقات ذوق کے ہاں زبان کو اتنی اہمیت حاصل ہو جاتی ہے کہ شاعری کہیں پیچھے رہ جاتی ہے اور زبان حاوی ہو کر شاعری کا باطن داغدار کر دیتی ہے۔ مگر اس وقت کیونکہ ابراہیم ذوق دربار میں استادِ شاہ کا درجہ رکھتے تھے، اس لیے ذوق کے رنگ کی اتنی اہمیت تھی کہ غالب جیسے شاعر کی شاعری پر اشکال پسندی کا الزام لگایا جاتا اور انہیں ذوق کے رنگ میں لکھنے کی ترغیب دی جاتی۔

اسے ہم نے بہت ڈھونڈا نہ پایا

اگر پایا تو کھوج اپنا نہ پایا

جہاں دیکھا کسی کے ساتھ دیکھا

کبھی ہم نے تجھے تنہا نہ پایا

لحد میں بھی تیرے مضطر نے آرام

خدا جانے کہ پایا یا نہ پایا 19

مرزا غالب کو اردو ادب کا شہنشاہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ انہوں نے اس دور میں جب شاعری عشق و عاشقی کا دوسرا نام تھی اور عاشق محبوب کے رحم و کرم پر ہوا کرتا تھا، شاعری کو عشق و عاشقی سے نکال کر دیگر مضامین سے آشنا کیا اور عاشق کو خوددار بنایا۔ انہوں نے محبوب اور عاشق کو ایک ہی پلڑے میں رکھا اور شاعری میں ایسے مضامین باندھے کہ اگر محبوب انکاری ہے تو عاشق بھی انا پرست ہے۔ غالب کے ہاں تصورِ رشک اچھوتا موضوع ہے جہاں وہ بیک وقت کئی طرح کے حربے استعمال کرتے ہیں۔ ایک ہی غزل سے کچھ اشعار دیکھیے کہ:

حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں

مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں

چھوڑا نہ رشک نے کہ ترے گھر کا نام لوں

ہر اک سے پوچھتا ہوں کہ جاؤں کدھر کو میں

جانا پڑا رقیب کے در پر ہزار بار

اے کاش جانتا نہ ترے رہگزر کو میں20

مومن خاں مومن نے اپنے دور کے چلن کے مطابق شاعری کی روایت کو آگے بڑھایا مگر انہوں نے اس میں علمِ نجوم اور طب جیسے مضامین کو بھی شامل کیا۔ اس سے ایک مسئلہ یہ ہوا کہ مومن خاں مومن کے اشعار میں ابہام اور اشکال پیدا ہو گیا۔ یہ صرف عام لوگوں کے لیے ہی مسئلہ نہ تھا بلکہ اردو شاعری سے مناسبت رکھنے والوں کا بھی یہی کہنا ہے کہ مومن خاں مومن کے ہاں ابہام اور اشکال موجود ہے۔ پروفیسر ضیاء احمد ضیاء مومن خاں مومن کی شاعری  کے متعلق یوں لکھتے ہیں کہ:

“مومن کی شاعری اپنی چند دار چند خصوصیات کی بنا پر اردو شاعری میں ایک منفرد حیثیت رکھتی ہے۔ تراکیب کی جدت، خیالات کی نزاکت کے علاوہ ان کی اصل چیز ان کے مخدوفات شعری ہیں جن سے اگر ایک طرف ندرت اور لطافت پیدا ہوئی تو دوسری طرف ایک طرح کا اشکال و ابہام بھی پیدا ہو گیا ہے جس سے عام طور پر ان کے کلام سے لطف اندوز ہونا دشوار ہو گیا ہے۔”21

اشعار دیکھیے کہ:

شبِ غم فرقت ہمیں کیا کیا مزے دکھلائے تھا

دم رکے تھا سینے میں کمبخت جی گھبرائے تھا

یا تو دم دیتا تھا وہ یا نامہ بر بہکائے تھا

تھے غلط پیغام سارے کون یاں تک آئے تھا22

مرزا داغ دہلوی اردو شاعری کی روایت میں منفرد مقام رکھتے ہیں۔ اردو زبان کے جس پیرائے کو ذوق نے برتا، مرزا داغ دہلوی نے اس پیرائے میں جمالیاتی لطافت شامل کرتے ہوئے اسے محسوسات میں بدلنے کی سعی کی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ داغ دہلوی اردو زبان کے بادشاہ ہیں۔ ان کی کلام میں زبان کی سلاست، چٹخارا، صفائی، رنگینی، شوخی، سحر آفرینی اور چلبلاہٹ بلا کی پائی جاتی ہے۔ داغ کے ہاں معاملہ بندی بھی موجود ہے مگر وہ جرات، انشاء اور رنگین کی معاملہ بندی سے مختلف ہے۔ رنگین، انشاء اور جرات کے ہاں جو معاملہ بندی کے اشعار موجود ہیں ان میں بناوٹ، تصنع اور خارجی نمود و نمائش پر توجہ  ہے اور جسمانی اعضاء کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ مگر داغ دہلوی کے ہاں ایسے موضوعات میں تمام معاملات کے باوجود ایک جمالیاتی پردہ موجود ہے جو ان کی شاعری کو انفرادی پہچان دیتا ہے۔

داغ دہلوی کی شاعری کی مثال کے لیے اشعار دیکھیے کہ:

تمہارے خط میں نیا اک سلام کس کا تھا

نہ تھا رقیب تو آخر وہ نام کس کا تھا

وہ قتل کر کے مجھے ہر کسی سے پوچھتے ہیں

یہ کام کس نے کیا ہے یہ کام کس کا تھا

وفا کریں گے نباہیں گے بات مانیں گے

تمہیں بھی یاد ہے کچھ یہ کلام کس کا تھا23

علامہ اقبال کو نظریہ ساز شاعر کہا جاتا ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کو ایک قومیت کا تصور دیا اور ان کے نزدیک قومیت یہ ہے کہ تمام مسلمان بغیر کسی رنگ و نسل کے ایک قوم ہیں اور ان کے لیے ایک ایسا وطن تجویز کیا جو ان کے لیے اسلامی آماجگاہ بن سکے۔ علامہ اقبال کی شاعری مختلف ادوار میں بانٹتے ہوئے پرکھی جائے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ جب علامہ اقبال نے مشقِ سخن کا آغاز کیا، ان پر اردو شاعری کی روایت کے گہرے اثرات تھے اور ان کے پہلے دور کی شاعری میں ایک عاشق کا دھڑکتا ہوا دل محسوس ہوتا ہے۔ مگر آہستہ آہستہ ان کی شاعری نکھرتی چلی گئی اور اس کی وہ صورت نکل کر سامنے آئی جس سے آج ہم اقبال کی شاعری سے موسوم کرتے ہیں۔ کچھ امثال دیکھیے کہ:

دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا رب

کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو

مانا کہ تیری دید کے قابل نہیں ہوں میں

تو میرا شوق دیکھ مرا انتظار دیکھ

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

شاعری کی یہ روایت جب بیسویں صدی میں شامل ہوتی ہے تو نظم کے عروج کا زمانہ آتا ہے جس میں فیض احمد فیض، ن م اشد، میرا جی اور مجید امجد جیسے شاعر سامنے آتے ہیں۔ محبوب خزاں انہی شعراء کے ہم عصر شاعر ہیں۔ ان کے ہاں جو موضوعات ہیں وہ جہاں راویت سے تسلسل قائم رکھتے ہیں وہاں وہ ایک ایسا رنگ بھی بکھیرتے ہیں جو محبوب خزاں کا انفرادی رنگ ہے۔ اس حوالے سے بات اگلے باب میں کی جائے گی کہ کیسے محبوب خزاں کی شاعری انفرادیت کی حامل ہے اور اس کی وجوہات کیا ہیں۔

حوالے

  1. محمد نجم الحسن، منتخب غزلیں، مرتب، لکھنؤ، اتر پردیش اردو اکادمی، 1999ء، ص 128
  2. ڈاکٹر تبسم کاشمیری، اردو ادب کی تاریخ (ابتدا سے 1857ء تک)، لاہور، سنگِ میل پبلی کیشنز، 2003ء، ص 28۔
  3. محمد قلی قطب شاہ، انتخاب محمد قلی قطب شاہ، نئی دہلی، مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، 2012ء ص 76
  4. محمد قلی قطب شاہ، کلیاتِ محمد قلی قطب شاہ، ڈاکٹر محی الدین قادری زور، مرتب، حیدر آباد، سلسلہ یوسفیہ، 1940ء، ص 20
  5. ڈاکٹر سید نور الحسن، کلیاتِ ولی، مرتب، لکھنؤ، نامی پریس، 1982ء، ص 66
  6. ڈاکٹر تبسم کاشمیری، اردو ادب کی تاریخ (ابتدا سے 1857ء تک)، لاہور، سنگِ میل پبلی کیشنز، 2003ء، ص 221
  7. ایضاً، ص 252
  8. ڈاکٹر انور سدید، اردو ادب کی تحریکیں، کراچی، انجمن ترقی اردو پاکستان، 2021ء، ص 180
  9. ایضاً، ص 185
  10. ڈاکٹر تبسم کاشمیری، اردو ادب کی تاریخ (ابتدا سے 1857ء تک)، لاہور، سنگِ میل پبلی کیشنز، 2003ء، ص 277
  11. مرزا محمد رفیع سودا، انتخاب کلیاتِ سودا، فاروق ارگلی، مرتب، نئی دہلی، فرید بک ڈپو، 2005ء، ص 67
  12. خواجہ میر درد، دیوانِ درد، نئی دہلی، مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، 1979ء، ص 49
  13. ڈاکٹر نثار احمد فاروقی، ذکرِ میر، مرتب، لاہور، مجلسِ ترقی ادب، 1996ء، ص 271
  14. ڈاکٹر حامد کاشمیری، انتخاب غزلیات میر، نئی دہلی، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، 2003ء، ص 95
  15. ڈاکٹر تبسم کاشمیری، اردو ادب کی تاریخ (ابتدا سے 1857ء تک)، لاہور، سنگِ میل پبلی کیشنز، 2003ء، ص 582
  16. خواجہ حیدر علی آتش، کلیاتِ آتش، کراچی، اردو اکیڈمی سندھ، 1963ء، ص 294
  17. ڈاکٹر تبسم کاشمیری، اردو ادب کی تاریخ (ابتدا سے 1857ء تک)، لاہور، سنگِ میل پبلی کیشنز، 2003ء، ص 597
  18. شیخ امام بخش ناسخ، کلیاتِ ناسخ، جلد اوّل، یونس جاوید، مرتب، لاہور، مجلسِ ترقی ادب، 1987ی، ص 215
  19. محمد ابراہیم ذوق دہلوی، کلیاتِ ذوق، ڈاکٹر تنویر احمد علوی، مرتب، لاہور، مجلسِ ترقی ادب، 1967ء، ص 169-170
  20. مرزا غالب، دیوانِ غالب جدید، بھوپال، مدھیہ پردیش اردو اکادمی، 1982ء، ص 279
  21. حکیم مومن خاں مومن، دیوانِ مومن، ضیاء احمد ضیاء، مرتب، الہ آباد، شانتی پریس، 1934، ص ب
  22. مومن خاں مومن، دیوانِ مومن، نئی دہلی، مشورہ بک ڈپو، سن ندارد، ص 13
  23. مرزا داغ دہلوی، دیوانِ داغ، دہلی، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس، 2004ء، ص 20

 

Leave a Reply