محمد عادل
اردو غزل کی لفظیات سائنس کے آئینہ میں
کسی بھی ادبی فن پارے کی قدر و منزلت کا اندازہ اس کی لفظیات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔یہ لفظیات کا ہی جادو ہوتا ہے جو قاری کو متاثر کرتا ہے۔اور جس کے سبب قاری ادبی فن پارے میں دلچسپی لیتا ہے۔اگر یہ کہا جائے کے لفظیات ادبی فن پارے کی روح ہے جس کے ذریعے مصنف فن پارے کو زیور سخن سے آراستہ کرتا ہے تو ہرگز غلط نہ ہوگا۔
شعری فن پارے میں بھی لفظیات کی اہمیت و افادیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا ہے۔دراصل اردو شاعری میں یہ ایک اصطلاح کے طور پر ابھرتی ہے۔ جسے انگریزی میں Diction کہتے ہیں۔
جہانگیر ارد ولغت میں لفظیات کی تعریف کچھ اس طرح دیکھنے کو ملتی ہے:
’’الفاظ کا ذخیرہ، کسی خاص موضوع یا مصنف کا لفظی سرمایہ‘‘ ۱؎
ڈاکٹر جمیل جالبی کے مطابق:
’’طرز کلام، طرز تحریر، کلام یا تحریر میں کسی شخص کا انتخاب الفاظ، بولنے یا گانے میں ادائیگی الفاظ کا ڈھب، تلفظ،بندش ۔‘‘ ۲؎
مذکورہ لفظیات کی تعریف سے کافی حدتک لفظیات کے بارے میں ایک خاکہ ذہن میں تعمیر ہو جاتا ہے۔لیکن لفظیات صرف الفاظ کے ذخیرے،اور طرز تحریر تک ہی محدود نہیں ہے۔بلکہ یہ گاگر میں ساگر کی سی کیفیت رکھتی ہے۔شاعری کی زبان کو بلند ی اور بصیرت عطا کرتی ہے۔دراصل یہ الفاظ کا حسین ترین انتخاب ہے جس کو مصنف اور شاعر اپنی تحریر کے اندر استعمال کرتا ہے۔ اس کے ذریعے وہ اپنے جذبات،احساسات، مفہوم و مطالب کو قاری تک پہنچاتا ہے۔یہ ڈکشن ہی ہے جو شاعر کے پیغام،مزاج،نفسیات اور لہجے کو پہنچانے میں قاری کی مدد کرتا ہے۔اگر یہ غزل کے پیرہن میں ڈھل جائے تو اس کے توسط سے شاعر بڑے بڑے مفاہیم کی ادائیگی علامت کے پیرائے میں کر سکتا ہے۔اور یہ علامتی نظام اپنے اندر اتنی وسعت رکھتا ہے جس میں ہر دور کی ترجمانی اس کے عہد کے مطابق کی جا سکتی ہے۔
عہد حاضر جو کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے اس کے تقاضے گزشتہ صدیوں سے الگ ہیں۔اس لئے عہد حاضر کا قاری جس آب و ہوا میں سانس لے رہا ہے یا جس ماحول سے دوچار ہے اسی کے عین مطابق چیزوں کو دیکھتا اور پرکھتا ہے۔یہاں تک ادبی فن پاروں کے معنی و مطالب بھی وہ اپنے نظریات کے مطابق نکالتا ہے۔اردو غزل کی بات کریں تو جو اشعار کلاسیکی دور میں حسن و عشق،تصوف،فلسفہ و منطق وغیرہ کے مطابق تحریر کئے گئے تھے ان اشعار کی تشریح وہ سائنس کے نقطۂ نظر سے کرتا ہے۔اور وہاں بھی سائنسی موضوعات تلاش کر لاتا ہے۔خیر یہ الگ بحث کا موضوع رہا۔جس میں قاری خود مختار ہے کیوں کہ فن پارہ تخلیق ہونے کے بعد محدود نہیں رہتا یہ قاری کی ملکیت ہوجاتا ہے۔قاری جس طرح چاہے اس فن پارے کے متعلق اپنے خیالات کااظہار کرے۔اس مختصر سے مضمون میں اردو غزل کی وہ مخصوص لفظیات جو سائنسی موضوعات میں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں ان کو زیر بحث لایا گیا ہے۔آئیے ایک ایک کر کے ایسی لفظیات پر روشنی ڈالتے ہیں۔
مشاہدہ (Observation) :
سائنسی نقطۂ نظر سے کسی چیز کو دیکھنے یا سمجھنے کے عمل کو مشاہدہ کہا جاتا ہے۔سائنس میں مشاہدہ حقائق یا واقعات کو نوٹ کر کے معلومات اکٹھا کرنے کا عمل ہے۔جہاں کسی خاصیت کی موجودگی یا عدم موجودگی کو نوٹ کیا جاتا ہے۔سائنس کے میدان میں مشاہدہ ایک اہم عمل ہے۔جس کے لئے سائنسداں مختلف آلات کا سہارا لے کر ڈیٹا(Data) اکٹھا کرنے کے بعد ریکارڈ تیار کرتے ہیں۔جو انھیں مفروضوں اور نظریات کو بنانے اور جانچنے کے قابل بناتا ہے۔
دراصل مشاہدہ انسانی فطرت میں شامل ہے۔جب سے انسان نے اس دنیا میں قدم رکھا ہے تب سے وہ اس کائنات کے بارے میں مشاہدہ کرتا آرہا ہے کیوں کہ اس کا تجسس اس کو اس کام کے لئے آمادہ کرتا ہے۔جب بھی وہ اپنے اطراف میںہو رہی تبدیلی پر غور و فکرکرتا ہے اس وقت اس کے ذہن میں متعدد سولات جنم لیتے ہیں۔ان سولات کے درست جوابات صرف اور صرف سائنسی مشاہدات کے بعد حاصل معلومات سے ہی اخذ کئے جا سکتے ہیں۔
اردو شعر و ادب کا جائزہ لیںتو یہ بات آشکار ہوتی ہے کہ ایک ادیب اور شاعر بھی بڑا متحرک ذہن رکھتا ہے اور وہ اپنے ماحول اور اطراف میں ہو رہی تبدیلوں پر ہر لمحہ غور و فکر کرتا رہتا ہے۔اس لئے اردو شعر و ادب میں بھی لفظ ’مشاہدہ ‘ایک اہم لفظ کے طور پر ظاہر ہوتا ہے۔یہ مشاہدہ ہی ہے جس کے سہارے شاعر تخیلات کے سمندر میں غرق ہو کر گوہر نایاب تلاش کر لاتا ہے۔لیکن جب ہم لفظ مشاہدہ کا سائنسی نقطۂ نظر سے جائزہ لیتے ہیں تو اس لفظ کے پس پردہ ہمیں ایک نئی فکر آشکار نظر آتی ہے جو قاری کے تجسس میں اضافہ کرتی ہے۔غالب ؔکہتے ہیں:
اصل شہود و شاہد و مشہود ایک ہے
حیراں ہوں پھر مشاہدہ ہے کس حساب میں
مرزا غالبؔ
غالبؔ نے اپنے اس شعر میں ’’ شہود و شاہد و مشہود‘‘ کا ذکر کیا ہے ۔ جس سے مراد کائنات،انسان اور خدا سے لی جاسکتی ہے۔یعنی انسان اس کائنات میں مشاہدے کے ذریعے خدا وندے عالم کے تخلیق کردہ قدرتی رازوں سے بخوبی آشنائی کر سکتا ہے۔اور اس طرح اس کو سائنسی علوم کا ادراک ہو جاتا ہے۔
غالبؔ اپنے شعر میں مشاہدہ (Observation) کے پروسیس(Process) کو بڑے ہی منفردانداز میں پیش کر رہے ہیں یہ عمل جس طرح وجود میں آتا ہے۔ان تمام چیزوں کو غالب ؔ نے اپنے شعر کے پہلے مصرع میں بیان کر دیا ہے۔ در اصل مشاہدے کے درست طریقے کے لئے ایک object جس کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے،ایک observer جو مشاہدہ کر رہا ہے اس کی کافی اہمیت ہوتی ہے۔کیوں کہ وہ موجودہ صورت حال میں موجود اشیاء کا مشاہدہ کرنے کے بعد درست نتیجہ نکلتا ہے۔
جوش ملیح آبادی بھی اپنے ایک شعر میں ذرّے کے مشاہدے کی بات کر تے ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ جوہر (Atom)کی ساخت کا مشاہدہ کر کے اس سے متعلق شواہد سے قاری کی آگہی کر وا رہے ہیں۔شعر ملاحظہ کریں:
حریم انوار سرمدی ہے ہر ایک ذرہ بہ رب کعبہ
مرا یہ عینی مشاہدہ ہے فریب وہم و گماں نہیں ہے
جوشؔ ملیح آبادی
جوشؔ کا خطابیہ لہجہ اور اس پر رب کعبہ کی قسم سے ظاہر ہوتا ہے کہ جوشؔ اپنی بات کو پورے وثوق کے ساتھ پیش کر رہے ہیں۔ساتھ ہی عینی مشاہدے کا بھی ذکر کر رہے ہیں۔جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جوشؔ کا مشاہدہ کوئی عام مشاہدہ نہیں ہے۔یہ وہ مشاہدہ ہے جو ہر طرح کے فریب اور وہم و گماں سے پاک ہے۔یعنی جوشؔ جو ذرے کے بارے میں کہہ رہے ہیںوہ ان کے نزدیک صداقت پر مبنی ہے۔ٹھیک کسی سائنسداں کی طرح جب وہ اپنی تحقیق پر بات رکھتا ہے تو اس کے لئے دلیل پیش کرتا ہے اور کہتا ہے میرے مشاہدے میں یہ چیز آئی ہے اور میں اس کا عینی شاہد ہوں تاکہ اس کی بات کو سامعین پوری توجہ کے ساتھ سنیں اور اس پر غور و فکر کریں۔بالکل اسی طرح جوش ؔ اپنے خطابیہ لہجے میں قاری کو اسی منزل تک لے جانا چاہتے ہیں۔تاکہ قاری بھی ذرہ کی حرمت اور اس کی عظمت سے واقف ہو سکے جس میں ایک الگ کائنات پوشیدہ ہے۔
ماہرین کے مطابق مشاہدہ کا پروسیس ایک مسلسل پروسیس ہے جو لگاتار چلتا رہتا ہے۔نئے سائنسداں پہلے سے پیش کئے گئے مشاہدوں کے نتائج پر تحقیق کرنے کے بعد نئے نئے نتائج نکالتے رہتے ہیں۔لیکن یہ کہیں نہ کہیں پرانے مشاہدات اور زایوں پر منحصر ہوتا ہے۔عاصم واسطی کا ایک شعر اس فکر کی ترجمانی میں ملاحظہ کریں:
مری نظر مرا اپنا مشاہدہ ہے کہاں
جو مستعار نہیں ہے وہ زاویہ ہے کہاں
عاصم واسطی
اسی طرح شیخ امام بخش ناسخ بھی اپنے ایک شعر میں اہل سخن کا ذکر کے مشاہدے کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈال رہے ہیں:
سوائے اہل سخن ہو مشاہدہ کس کو
نہاں ہے شاہد معنی سخن کے پردے میں
امام بخش ناسخ
مشاہدے میں غور و فکر اور مراقبے کی بھی کافی اہمیت ہوتی ہے۔بغیر چیزوں پر غور کئے درست نظریات پیش نہیں کئے جا سکتے
صفی اورنگ آبادی اپنے ایک شعرمیں اس فکر کی ترجمانی کرتے ہوئے کہتے ہیں:
مراقبے میں ہے کیا کیا مشاہدہ اے شیخ
بغیر اس کے نظر میں اثر نہیں آتا
صفی اورنگ آبادی
اگر مشاہدے کے دوران کسی ماہر شخص کی مدد لی جائے یا اس کے نظریات اور تحقیقات کے نتائج سے فیض حاصل کیا جائے تو مشاہدہ کرنے میں آسانی ہوتی ہے اس سے متعلق شعر دیکھیں:
کبھی اس کی نگہ میسر تھی
کیسے کیسے مشاہدے کیے تھے
جواد شیخ
مفروضہ(Assumption/Hypothesis):
مفروضہ بھی سائنسی تحقیقی عمل میں ایک اہم مقام رکھتا ہے۔جس کو سائنسداں اپنے مشاہدات اور ڈیٹاکی روشنی میں پیش کرتے ہیں۔پھر اس پر مزید تحقیق کی جاتی ہے تاکہ اس کے حقائق کو ثابت کیا جا سکے۔درا صل مفروضہ کسی چیز کے لئے ایک خیال یا وضاحت ہے جو معلوم حقائق پر مبنی ہے۔لیکن ابھی تک ثابت نہیں ہوا ہے۔
اردو غزل کے شعراء نے بھی لفظ ’مفروضہ‘ کو جگہ جگہ اپنی شاعری میں بڑے منفرد انداز میں برتا ہے۔عذرا نقوی کا ایک شعرملاحظہ کریں:
کوئی منزل کوئی مفروضہ نہ تھا پیش نظر
زیر پا اک رہگزر تھی رہ گزر رہنے دیا
عذرا نقوی
عذرا نقوی اپنے اس شعر میں بڑے منفرد انداز میں مفروضے کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈال رہی ہیں۔عذرا نقوی کے مطابق اگر منزل پر پہنچنا ہے یعنی کوئی تحقیقی عمل انجام دینا ہے تو ہمیں اپنے پیش نظر مفروضات رکھنے ہوں گے کیوں کہ انھیں پر تحقیق کر کے ہم صحیح رہگزر پر چل سکتے ہیںاور درست نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔اگر ہمارے پیش نظر مفروضہ نہیںہے تو صرف رہگزر رہ جاتی ہے جس پر عمل کئے بغیر کوئی منزل یا نتیجہ نہیں حاصل کیا جاسکتا ۔گویا عذرا نقوی سائنسی مفروضات کی اہمیت کو بیان کر رہی ہیں کہ کسی سائنسی تحقیق میں اس کا کیا عمل دخل ہے۔اس طرح گوہر ہوشیار پوری کا ایک شعر مفروضے کے حوالے سے لکھتے ہیں:
اندازے جب ہار گئے
پھر مفروضے پیش ہوئے
گوہر ہوشیارپوری
گوہر ہوشیار پوری اپنے اس شعر میں اندازے اور مفروضے کے درمیان فرق واضح کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔دراصل اندازے بغیر کسی تحقیق کے پیش کئے جاتے ہیں جب کہ مفروضے مشاہدات اور تحقیق پر مبنی ہوتے ہیںجنھیں ثابت کرنے کے لئے سائنسداں دلیل اور شواہد پیش کرتے ہیں۔شعر میں ’اندازے‘ کی ہار اور ’مفروضے‘ پیش کئے جانے کی بات اسی فکر کو ظاہر کرتی ہے۔
تجربہ(Experiment):
تجربہ ایک ایسا طریقۂ کار ہے جو کسی مفروضے کی تائید یا تردید کے لئے کیا جاتا ہے۔یا کسی ایسی چیز کی افادیت یا امکان کا تعین کرتاہے جس کا پہلے سے تجربہ نہ کیا گیا ہو۔
اردو غزل کے شعراء کے یہاں بھی لفظ تجربہ اپنے مختلف مفاہیم کے ساتھ ابھرتا ہے۔کبھی شاعر اپنی ذات پر تجربہ کرتا ہے تو کبھی اپنے ماحول اور اطراف پر تجربہ کرتا ہوا نظر آتا ہے۔لیکن جب ’تجربے‘ لفظ کا سائنسی نقطۂ نظر سے جائزہ لیا جائے تو اس کے اندر ایک نئے مفہوم اور رجحان کا پتہ چلتا ہے۔اشعار دیکھیں:
اپنی تلاش اپنی نظر اپنا تجربہ
رستہ ہو چاہے صاف بھٹک جانا چاہئے
ندا فاضلی
ندا فاضلی اپنے اس شعر میں اپنے تجربے کے ذریعے نئے نظریے کی تلاش کرنے پر ذہن کو آمادہ کر رہے ہیں یعنی وہ سائنسی جذبے کو قاری میں بیدار کرنا چاہتے ہیں۔سائنسداں جب کسی شئے پر تجربہ کرتے ہیںتو اس سے متعلق شواہد اور مفروضات پر مکمل طورپر اعتماد نہیں کرتے ہیں بلکہ وہ تجربے پر بڑا غور و خوض کرتے ہیں اور یہ ہی سائنسی تجربے کے Accurate ہونے میں مدد گار ثابت ہوتا ہے۔اس لئے ندا فاضلی کہتے ہیں کہ اگر آپ کے سامنے راستہ صاف ہو اورکسی تجربے کے بعددرست نظریات ہی کیوں نہ ہوں پھر بھی ان کو مشکوک نگاہوں سے دیکھنا چاہئے کیوں کہ یہ عمل نئے تجربات کے لئے راستہ کھولتا ہے۔ ندا فاضلی کا ایک اور شعر ملاحظہ کریں جس میں وہ ستاروں کو چھونے کا تجربہ کرنے کی بات کر رہے ہیں:
کہا گیا ہے ستاروں کو چھونا مشکل ہے
یہ کتنا سچ ہے کبھی تجربہ کیا جائے
ندا فاضلی
ندا فضلی اپنے اس شعر میں علم فلکیات (Astronomy) کا علم حاصل کرنے کے لئے قاری کے ذہن کو آمادہ کرتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ان کا خطابیہ لہجہ ’’کہا گیا ہے ستاروں کو چھونا مشکل ہے‘‘ اس مصرعے سے آشکار ہوتا ہے۔شاعر کا یہ اندازِ تخاطب ظاہر کرتا ہے کہ اس کے ذہن میں’ ستاروں کو چھونے‘ یعنی اس سے متعلق رازوں کو جاننے کی خواہش پورے عروج پر ہے۔جس کے لئے وہ تجربہ کرنے کو بھی تیار ہے۔
علم نفسیات (Psychology) سائنس کی وہ شاخ ہے جو دماغ اور رویے کا مطالعہ کرتی ہے۔اس میں بھی تجربے کی ایک الگ اہمیت ہے۔نفسیات ذہنی عمل،جذبات،ادراک،سماجی تعاملات کے مختلف پہلوؤں کی کھوج اور انسان کے اندر آئی تبدیلی کے بارے میں تحقیق اور تجربے کرتی ہے۔علم نفسیات میں انسان کے بدلتے ہوئے رویوں اور اس کے اندر مختلف جذبات و احساسات پر مخصوص تجربے کئے جاتے ہیں۔تاکہ انسان کی نفسیاتی بیماریوں کا علاج کیا جاسکے۔اس عمل میں ماہرین ِ نفسیات جس شخص کے مرض کا علاج کرتے ہیں اس کو مخصوص ماحول میں رکھا یا رہنے کو کہا جاتا ہے۔تاکہ یہ دیکھ سکیں کہ کس طرح کسی خاص ماحول کا کسی شخص پر کیا اثر پڑتا ہے۔اسعد بدایونی کا ایک شعر ملاحظہ کریں جس میں وہ اسی طرح کے تجربہ کی بات کر رہے ہیں:
بچھڑ کے تجھ سے کسی دوسرے پہ مرنا ہے
یہ تجربہ بھی اسی زندگی میں کرنا ہے
اسعد بدایونی
شعر پڑھنے کے بعد ظاہر ہوتا ہے کہ شاعر شعر میں کسی چیز سے بچھڑنے کی بات کر رہا ہے۔علم نفسیات کے مطابق یہ کوئی بری عادت یا نفسیاتی کیفیت بھی ہو سکتی ہے۔جس کو ترک کر کے کسی اچھی عادت پر ’مرنے‘ یعنی اس کو زندگی کا حصہ بنانے کی بات کی جارہی ہے۔اگر یہ تجربہ کامیاب رہا تو اس کے ذریعے انسان کی نفسیات کو تبدیل کر کے اس کے ذہن کو کسی دوسری طرف مرکوزکیا جاسکتا ہے۔اس طرح اس کے نفسیاتی امراض کا علاج ممکن ہو سکتا ہے۔اسی طرح نعمان شوق کا ایک شعر ملاحظہ کریں جو نفسیاتی تجربہ کا عکاس ہے:
بتاؤں کیسے کہ سچ بولنا ضروری ہے
تعلقات میں یہ تجربہ ضروری ہے
نعمان شوق
نعمان شوق اپنے اس شعر میں سچ بولنے کی بات کر رہے ہیں۔ایسا ظاہر ہوتا ہے جیسے ایک ماہرِ نفسیات کسی ایسے شخص سے محوِگفتگو ہے جو نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہے۔اور وہ اسے سچ بولنے کی بات کر رہے ہیں۔یعنی اس شعر میں شاعر اس شخص کی کیس ہسٹری جاننے کا خواہش مند ہے کہ آخر اس کے ساتھ ایسی کون سی پریشانی ہے جس کے سبب وہ سچ بولنے سے گھبرا رہا ہے۔یعنی اپنے مسائل اور روداد بیان کرنے سے گریز کر رہا ہے۔ایسی صورت حالت میں ماہر نفسیات اور مریض کے درمیان ایک اچھا تعلق قائم نہیں ہو پارہا ہے۔ہونا تو یہ چاہئے کہ ماہرنفسیات اور مریض کے درمیان کوئی راز پوشیدہ نہ رہے اور وہ کھل کر اپنے ماضی کے واقعات کو بیان کرے۔آخر اس کے ساتھ کون سا واقعہ پیش آیا ہے جس کی وجہ سے وہ تعلقات نبھانے سے خوف زدہ ہوتا ہے۔اگر اس کے ماضی کے بارے میں معلومات ہو جائے تو پھر اس پر تجربہ کیا جاسکتا ہے۔لیکن یہ جب ہی ممکن ہے جب وہ سب سچ سچ بول کر اپنے ماضی کے بارے میں بتائے۔کہ آخر اس کا کیا سبب ہے جس کی وجہ سے وہ کسی ذہنی بیماری میں مبتلا ہے۔
اسی طرح کیمیائی تجربے سے متعلق نواز دیو بندی کا ایک شعر ملاحظہ کریں جس میں وہ ریڈوکس ریکشن(Redox Reaction)کی ترجمانی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں:
کچھ نہ کچھ پہلے کھونا پڑتا ہے
مفت میں تجربہ نہیں ہوتا
نواز دیوبندی
ریڈوکس ریکشن یہ ایک ایسا کیمیائی رد عمل جس میں دو مادوں(Substances)کے درمیان الیکٹران (Electrons)کی منتقلی شامل ہوتی ہے۔اس عمل کو آکسیڈیشن ریڈکشن(Oxidation Reduction) کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ الیکٹرانوں کو کھونے والے مادے کو Oxidizedکہا جاتا ہے، اور حاصل کرنے والے کو reduced کہا جاتا ہے۔مثال کے طور پر زنگ آلودہ لوہا،پانی کی موجودگی میں آئرن آکسیجن کے ساتھ مل کر زنگ بناتا ہے۔اس ردعمل میں، آکسیجن کم ہو جاتی ہے کیونکہ یہ لوہے سے الیکٹران کو قبول کرتی ہے۔ نواز دیوبندی کا یہ شعر اسی عمل کا عکاس ہے۔ شعر کا پہلا مصرع’’کچھ نہ کچھ پہلے کھونا پڑتا ہے‘‘ اسی رد عمل کی طرف ذہن کو مرکوز کرتا ہے۔
انسان کوکبھی کبھی ایسے تجربے بھی حاصل ہوتے ہیں ۔جو وہ کرتا نہیں ہے بلکہ قدرتی طور پر اس کے سامنے آجاتے ہیں۔پھر وہ اس تجربے سے نتائج حاصل کر لیتا ہے۔مثال کے طور پر ایک کہانی پیش کی جاتی ہے نیوٹن(Newton) کے سر پر ایک سیب آکر گرا تو اس نے اس تجربے کے ذریعے قوتِ کشش کا قانون دریافت کیا۔اس طرح عہد قدیم سے ہی انسان اپنے تجربے کے ذریعے سائنسی قوانین کے بارے میں معلومات حاصل کرتا چلا آرہا ہے۔ ایک شعر دیکھیں جس میں عالم خورشید ایک ایسے ہی سائنسی تجربے پر روشنی ڈال رہے ہیں:
اب ذرا سا فاصلہ رکھ کر جلاتا ہوں چراغ
تجربہ یہ ہاتھ آیا ہاتھ جل جانے کے بعد
عالم خورشید
شاعر اپنے اس شعر میں ایک شخص کا نقشہ کھینچ رہا ہے جس کا ہاتھ چراغ جلانے کے سبب جل گیا ہے۔یہ تجربہ ہونے کے بعد وہ بڑی احتیاط کے ساتھ چراغ جلاتا ہے۔
میڈیکل سائنسی کے تجربے سے متعلق ایک شعر ملاحظہ کریں۔جس میں فرحت احساس بغیر نیند کے سونے کی بات کر رہے ہیں۔گویا وہ نیند نہ آنے کی بیماری میں مبتلا افراد کا نقشہ کھنچ رہے ہیں۔جس میں نیند نہ آنے پر مریض کو دوا دے کر سلا دیا جاتا ہے:
عجیب تجربہ آنکھوں کو ہونے والا تھا
بغیر نیند میں کل رات سونے والا تھا
فرحت احساس
اظہر عنایتی ’’ ایروڈینامکس‘‘ (Aerodynamics) کے تجربے سے متعلق ایک شعر میں کہتے ہیں:
حادثے اونچی اڑانوں میں بہت ہوتے ہیں
تجربہ تجھ کو نہیں ہے مرے بازو لے جا
اظہر عنایتی
دراصل ایروڈینامکس اس بات کا مطالعہ ہے کہ اشیاء ہوا کے ذریعے کیسے حرکت کرتی ہے اور ٹھوس اشیاء ہوا کو کیسے متاثر کرتی ہے۔اس علم کے اندر ہوائی طیاروں کی تشکیل اور اس سے متعلق مسائل پر تجربے کئے جاتے ہیں تاکہ ہوائی جہاز اڑتے ہوئے کسی حادثے کا شکار نہ ہو سکے۔اظہر عنایتی کا یہ شعر ایسی فکر کا عکاس ہے۔
عداد و شمار (ڈیٹا)Data:
سائنسی تحقیق میںا عداد و شمار یعنی ڈیٹا کی بڑی اہمیت و افادیت ہوتی ہے۔اس کے استعمال سے کسی مفروضے کی تصدیق یا رد کیا جاسکتا ہے۔جو بنیادی طور پر تحقیقی منظر نامے کو تبدیل کر سکتا ہے۔اس طرح ایک مخصوص مطالعہ کے نتائج کے حوالے سے توقع کی جاتی ہے کہ ا عداد و شمار دوسرے تجربے کے لئے بھی مدد گار ثابت ہوں گے۔اگر کسی تجربے کے دوران کوئی کوتاہی رہ جاتی ہے تو غلط ڈیٹا دریافت ہونے سے ایک محقق کو اہم دریافتوں سے پردہ اٹھانے میں پریشانی ہو سکتی ہے۔اس لئے ا عدداد و شمار لیتے وقت بڑی احتیاط سے کام لیا جاتا ہے۔اس سے متعلق صغیر ملال کا ایک شعر ملاحظہ کریں:
بس اتنی دیر میں اعداد ہو گئے تبدیل
کہ جتنی دیر میں ہم نے انہیں شمار کیا
صغیر ملال
صغیر ملال اپنے اس شعر میں اعداد و شمار کے تبدیل ہونے کا ملال کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔کیوں کہ وہ بخوبی واقف ہیں کہ کسی تجربے کے دوران ذرا سی کوتاہی حاصل ہونے والے نتائج کو بدل کر رکھ دیتی ہے۔اور اعداد کے تبدیل ہونے سے ہم درست نتیجہ حاصل نہیں کر پاتے۔اس فکر کی ترجمانی میں ایک اور شعر ملاحظہ کریں جس میں شاعر اعداد و شمار کے غلط ہونے کا شکوہ کر رہا ہے:
تجربہ ہم کریں تو کیسے کریں
سب ہیں اعداد اور شمار غلط
اسی طرح ایک شعر میں ہلال نقوی کائنات کے ڈیٹا پر غور و فکر کرنے کے لئے قاری کو آمادہ کر رہے ہیںتاکہ اس کا ڈیٹا حاصل کرنے کے بعد کائنات کی وسعت کا درست اندازہ لگایا جاسکے:
غور کچھ اس پہ کرو اس کا نکالو ڈیٹا
کیسی وسعت لئے پھرتی ہے بدن کے اندر
ہلال نقوی
تجزیہ(Analysis) :
کسی بھی پیچیدہ چیز کو بہتر طور پر سمجھنے کے لئے اس کا تفصیلی معائنہ کرنا تاکہ اس کی نوعیت کوسمجھ کر اس کی ضروری خصوصیات کا درست تعین کیا جاسکے تجزیہ کہلاتا ہے۔اس عمل میں ایک پیچیدہ موضوع یا مادے کو چھوٹے حصوں میں توڑنا شامل ہے۔ سائنسی علوم کی مختلف شاخوں میں تجزیہ کی بہت اہمیت ہے۔جیسے ڈیٹا کی جانچ، مسائل کا حل،حالات کی نوعیت،کسی موضوع سے متعلق بصیرت حاصل کرنے اور درست نتائج اخذ کرنے کے لئے تجزیہ کرتے ہیں۔
سائنسی طریقے کے تجزیے کے مرحلے میں تجربے کے دوران جمع کئے گئے ڈیٹا کو توڑنا اور اس کی تشریح کرنا شامل ہے۔ یہ عمل کسی مفروضے کی تصدیق، ترمیم یا رد کرنے کے لیے اہم ہے، جو تحقیقی منظر نامے کو بدل سکتا ہے۔
تجزیہ پیچیدہ موضوعات کو چھوٹے حصوں میں تقسیم کرکے اور ان کی ساخت، عناصر اور عمل کا مطالعہ کرکے سائنسدانوں کو سمجھنے میں مدد کرسکتا ہے۔ اعداد و شمار کی درجہ بندی بطور دوٹوک یا مسلسل استعمال کرنے کے لیے مناسب تجزیاتی طریقوں اور شماریاتی تکنیکوں کا تعین کرنے میں مدد کرتی ہے۔ تجزیہ کا عمل سائنسدانوں کو ان اعداد و شمار کی بنیاد پر نتائج اخذ کرنے میں مدد کرتا ہے جو انھوں نے تجربے کے دوران جمع کئے ہیں۔
تجزیہ نہ صرف سائنس و ٹکنالوجی میں اہم مقام رکھتا ہے بلکہ زندگی کے ہر شعبہ میں اہم ہے۔اس لئے غزل کے شعراء کے یہاں بھی تجزیہ کا یہ عمل واضع طور پر نمایاں نظر آتا ہے جس کی ترجمانی وہ اپنے کلام میں بھی کرتے ہیں۔اگر ان کے کلام کی سائنسی نقطہ ٔ نظر سے تشریح کی جائے تو اس میں معنی و مفاہیم کے در وا ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔اشعا ملاحظہ کریں:
پہلے اپنا تجزیہ کرنے پہ اکسایا مجھے
پھر نتیجہ خیزیوں کو بے زبانی دے گیا
اقبال اشہر
اقبال اشہر اپنے اس شعر میں ایک ایسی شئے کا تجزیہ کرنے کی بات کر رہے ہیں جس کی کشش نے انھیں اکسایا ہے اور اس کا جائزہ لینے کے لئے آمادہ کیا ہے۔ٹھیک کسی سائنسداں کی طرح جب وہ کسی شئے کی ماہیت سے متاثر ہوتا ہے تو اس پر تحقیق کرتا ہے۔پھر تجزیہ کے بعد جو نتائج نکلتے ہیں ان کو آنے والے تجزیہ نگاروں کے لئے چھوڑ دیتا ہے تاکہ نئے محقق ان نتائج کی روشنی میں نئے نئے تجربے اور تجزیے کر سکیں۔ شعر کا دوسرا مصرع اس بات کا ترجمان ہے کہ سائنس کسی بھی تجزیے کے بعد حاصل ہونے والے نتائج پر مکمل اعتقاد نہیں کرتی بلکہ ان تنائج کو بنیاد بنا کر تجزیہ کرنا جاری رکھتی ہے۔جس کے سبب کبھی کبھی پرانے نتائج اصول وضوابط رد بھی ہو جاتے ہیں اور نئے شواہد جنم لیتے ہیں۔
صغیر ملال کا ایک شعر دیکھیں جس میں وہ اپنے تجزیے سے متعلق ذکر کر رہے ہیں:
آخری تجزیہ یہی ہے ملالؔ
آدمی دائروں میں رہتا ہے
صغیر ملال
شعر کے دوسرے مصرع کو اگر سائنسی نقطۂ نظر سے دیکھیں تو یہ مصرع سائنس کے مختلف موضوعات پر صادق آتا ہے۔اور قاری کو اس بات پر تجزیہ کرنے کے لئے آمادہ کرتا ہے کہ وہ کون کون سے دائرے ہیں جن کے درمیان آدمی زندگی بسر کر رہا ہے۔سراج الدین ظفر کا ایک شعر تجزیے سے متعلق ملاحظہ کریں:
میں نے کہا کہ تجزیۂ جسم و جاں کرو
اس نے کہا یہ بات سپرد بتاں کرو
سراج الدین ظفر کا یہ شعر انسانی جسم کی ساخت اور بناوٹ یعنی انوٹمی پر تجزیہ کرنے کے لئے آمادہ کرتا ہے۔
آتے جاتے موسموں کا رنگ نظروں میں رہے
کون منظر کس طرح ہے تجزیہ کرتے رہو
شبنم نقوی کا یہ شعر موسمیات اور ماحولیات پر تحقیق اور تجزیہ کرنے کے لئے آمادہ کرتا ہوا نظر آتا ہے۔اسی فکر سے متعلق دیگر شعر دیکھیں:
میں جب بھی تجزیہ کرتا ہوں تیرا اے دنیا
اس آئینے میں تجھے بد چلن سی پاتا ہوں
ماجد دیوبندی
ماجد دیوبندی اس شعر میںدنیا کے بد چلن ہونے یعنی چلن سے ہٹ کر کام کرنے کے تجزیے کو پیش کر رہے ہیں۔گویا وہ قدرتی نظام کے درہم برہم ہونے یعنی انسان کے ذریعے پھیلانے والی آلودگی کے تجزیے پیش کر رہے ہیں۔
نتیجہ(Conclusion):
نتیجہ تجربے کے بعد حاصل ہوتا ہے۔مفروضے اور ڈیٹا کی بنیاد پر تجربے کے نتائج کا ایک مختصر خلاصہ نتیجہ کہلاتا ہے:
مرے جنوں کا نتیجہ ضرور نکلے گا
اسی سیاہ سمندر سے نور نکلے گا
امیر قزلباش
امیر قزلباش اپنے اس شعر میں ایک ماہر فلکیات کی ذہنی کشمکش کی عکاسی کر رہے ہیں۔جو دن رات خلائوں پر نظریں جمائے رہتے ہیں اور ان پر یہ جنون طاری رہتا ہے کہ خلاء میں موجود اجرام فلکی پر تحقیق کرنے کے بعد اس سے متعلق نئے نئے انکشافات کرسکیں جس کے لئے وہ ستاروں سے آنے والی روشنی پر تحقیق کرتے ہیں تاکہ اس سے کچھ نتیجہ اخذ کر سکیں۔شعر میں دوسرا مصرع ”اسی سیاہ سمندر سے نور نکلے گا” ذہن کو خلاء میں موجود Darkness اور اجرام فلکی سی آنے والی لائٹ ویو کی طرف ذہن کو مرکوز کرتا ہے۔
ظفر اقبال کا ایک شعر ملاحظہ کریں جو نتیجہ(Conclusion) کے عمل کی کیا خوب ترجمانی کرتا ہوا نظر آتا ہے:
نکلا نہیں ہے کوئی نتیجہ یہاں ظفرؔ
کرنے کے باوجود نہ بھرنے کے باوجود
ظفر اقبال
دراصل درست نتیجہ حاصل کرنے میں تجربے اور ڈیٹا کی کافی اہمیت ہوتی ہے۔درست نتیجہ برائے راست تجربے کے عمل اورا عداد و شمار (Data) کے درست ریڈنگ پر منحصر کرتا ہے۔ظفر اقبال اپنے شعر میں اسی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔شعر کا دوسرا مصرع ’’کرنے کے باوجود نہ بھرنے کے باوجود‘‘تجربے اورا عداد و شمار کی غلطی کو ظاہر کرتا ہے۔جس کا شکوہ ظفر اقبال اپنے شعر میں کر رہے ہیں کہ غلط تجربہ کرنے اور صحیح اعداد و شمار نہ بھرنے کے سبب درست نتیجہ نہیں نکلا ہے:
سوچتے کچھ ہیں عمل کچھ ہے نتیجہ کچھ ہے
ایسی صورت میں کوئی مسئلہ حل کیسے ہو
اشفاق حسین
اشفاق حسین اپنے اس شعر میں تحقیق کرنے والوں پر طنز کرتے ہوئے معلوم دیتے ہیں۔کہتے ہیں جو افراد تحقیق کرنے میں مصروف ہیں انھیں چاہئے کہ وہ تجربہ کے دوران درست طریقے سے عمل کرے اور پوری سوجھ بوجھ کے ساتھ کام کوانجام دیں۔اگر ان کا ذہن پورے Concentration کے ساتھ تجربے میں نہیں لگے گا تو نتیجہ کس طرح درست حاصل ہوگا۔اور یہاں جو تحقیق کر رہے ہیں ان کے ذہن میں کچھ اور چل رہا ہے،عمل کچھ کر رہے ہیں،تو نتیجہ بھی کچھ اور ہی حاصل ہوگا۔ایسی صورت میں کوئی تحقیق کا کام کس طرح ہو سکتا ہے۔اور نہ ہی کسی مسئلہ کا حل ممکن ہوگا۔
اسماعیل میرٹھی بھی اپنے ایک شعر میں اسی فکر کی ترجمانی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں:
نتیجہ کیوں کر اچھا ہو نہ ہو جب تک عمل اچھا
نہیں بویا ہے تخم اچھا تو کب پائو گے پھل اچھا
اسماعیل میرٹھی
اسماعیل میرٹھی اپنے اس شعر میں تجربہ کرنے والوں پر طنز کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں جب تک تجربے کا عمل اچھا نہیں ہوگا تو درست نتیجہ حاصل نہیں ہوگا۔اس کے لئے وہ تخم اور پھل کی بھی مثال دیتے ہیں۔یہاں اس شعر میں تخم اور پھل بطور استعارے کے استعمال ہوئے ہیں۔تخم سے مراد تجربے کا عمل ہے اور پھل سے مراد نتیجہ لیا جاسکتا ہے۔
الغرض اردو شاعری میں ان لفظیات کے علاوہ اور بھی ایسی بہت سی لفظیات موجود ہیں۔جو سائنسی علوم اور ادب دونوں جگہوں پر دیکھنے کو ملتی ہیں۔اور جن کو سائنسی نقطۂ نظر سے پرکھنے پر شاعری کے نئے معنی و مفاہیم قاری پر ظاہر ہوتے ہیں۔یہ لفظیات اپنے دامن میں بڑی وسعت ،گہرائی و گیرائی رکھتی ہیں۔جس کے پیرائے میں نہ صرف ادبی فن پارے عروج حاصل کرتے ہیں بلکہ اس کے توسط سے کائنات کے مختلف مضامین کی بھی حیرت انگیز عکاسی کی جاسکتی ہے۔عصر حاضر کے شاعر اور ان کی لفظیات اس بات کا کھلا ثبوت ہیںکیوں کہ انھوںنے اپنی شاعری کے ذریعے کے نت نئی لفظیات کو سجا سنوار کر اردو شاعری قالب میں ڈھال کر پیش کیا ہے۔
حواشی:
۱۔جہانگیر اردو لغت،وصی اللہ کھوکھر،جہانگیر بکس،لاہور،ص: ۱۳۰۷
۲۔قومی انگریزی اردو لغت جلد اول،مرتبہ: ڈاکٹر جمیل جالبی،ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس،۲۰۰۷،ص:۵۷۳
***