You are currently viewing اردو فکشن ’’تنقیدی تناظرات۔حصّہ اوّل‘‘ :ایک تجزیاتی مطالعہ

اردو فکشن ’’تنقیدی تناظرات۔حصّہ اوّل‘‘ :ایک تجزیاتی مطالعہ

اسما ء بدر

ریسرچ اسکالر ،شعبۂ اردو ، کشمیر یونیورسٹی

اردو فکشن ’’تنقیدی تناظرات۔حصّہ اوّل‘‘ :ایک تجزیاتی مطالعہ

اردو فکشن اور فکشن قلم کاروںسے متعلق ان گنت مضامین اور کتابیں شائع ہوچکی ہیں اور آئے دن شائع ہوتی رہتی ہیں۔اردو ادب کے صف ِ اوّل کے ناقدین میں سے شاید ہی کوئی نام ایسا ہوگا کہ جس نے فکشن اور فکشن نگاروں (بالخصوص اردو ناول اور افسانہ) کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار نہ کیا ہوگا ۔ خواہ وہ گوپی چند نارنگ ہوں کہ قاضی افضال حسین، شمس الرحمٰن فاروقی ہوں کہ وارث علوی ، ابوالکلام قاسمی ہوں کہ وزیر آغا وغیرہ وغیرہ ۔ان بلند قامت دانشوروں کے متوازی نوجوان اور نو آموز لکھاریوں کا ایک ایسا طبقہ بھی اس صف میں اپنی اہمیت منوانے کی کوشش میں لگا ہوا ہے جو یا تو ابھی تحقیقی کاموں میں ہی مصروف ہے یا اس سے ر ِہائی پاکر ادبی دنیا میں اپنا نام درج کرانے کی سعی میں لگے ہوئے ہیں ۔ اسی طبقے سے تعلق رکھنے والا ایک اہم نام ’’روبینہ تبسم ‘‘ کا سامنے آیا ہے ۔’’ اردو فکشن : تنقیدی تناظرات ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوچکی آپ کی تنقیدی کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے ۔اوّل ’’افسانے کی تنقید ‘‘اور دوّم ’’ ناول کی تنقید ‘‘۔اس کتاب کا انتساب انھوں نے اپنے والدین کے نام کیا ہے ۔اصل مضامین سے پہلے ’’ اپنی بات ‘‘ کے زیر ِ عنوان تبسم نے اس کتاب میں شامل مضامین کی اہمیت و معنویت اور اردو کی فکشن تنقید میں ان کی انفرادیت سے متعلق اپنے خیالات کا بھر پور اظہار کیا ہے ۔ ’’ جاسوسی ناول کا تاریخی اور فنی جائزہ ‘‘ کے زیر ِ عنوان کتاب میں شامل مضمون کو چھوڑ کرباقی تمام مضامین الگ الگ شخصیات اور ان کے فنی و فکری پہلوؤں کو محیط ہیں ۔موصوف نے اس بات کا اعتراف خود ان الفاظ میں کیا ہے :

 ’’ اس میں ایک مضمون کے سوا باقی سبھی مضامین شخصیت پر ہیں ، شخصیت پہ ہونے کے باوجود حتیٰ الامکان کوشش کی گئی ہے کہ ادیبوں کے بجائے متون پر ساری توجہ مرکوز کی جائے ۔‘‘

(پیش لفظ ۔’’اردو فکشن :تنقیدی تناظرات‘‘ از روبینہ تبسم )

حصہ اوّل یعنی ’’ افسانے کی تنقید ‘‘ میں کل ملا کر نو (۹) مضامین شامل ہیں ۔ جن میں ابتدائی دو مضامین اردو افسانے کے معروف نام ،بے باک اور برصغیر کے تخلیقی ضمیر ’’ سعادت حسن منٹو ‘‘ کی افسانوی کائنات سے متعلق ہیں ۔اس کے بعد چارمضامین ترقی پسندی کو نئی معنویت دینے والے معتبر افسانہ نگار ’’ راجندر سنگھ بیدی ‘‘ کے فکری میلانات کا احاطہ کیے ہوئے ہیں ۔احمد ندیم قاسمی کے افسانوں کے فنی نقطہ ٔ نظرکے حوالے سے دو مضامین جب کہ اردو افسانے کے تخلیقی اعتبار و وقار ’’ قرۃ العین حیدر ‘‘ کی افسانوی جہت کو ایک مضمون میں نمایاں کیا گیا ہے ۔

’’ منٹو تنقید ۔۔۔ایک جائزہ ‘‘ اس مضمون میں موصوف نے سعادت حسن منٹو سے متعلق اردو کے قدآور ناقدین کی تحریروں کو حوالے کے طور پر پیش کر کے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اگرچہ ایک طرف ان تحریروں کے سامنے آنے سے سعادت حسن منٹو ( جو کہ ایک طویل عرصے تک اُس مقام کے حق دار تسلیم نہیں کئے گئے جس کے وہ حقیقتاً مستحق ہیں )کو ادبی حلقوں میں ایک عظیم افسانہ نگار کے طور پر قبول کرلیا گیا ۔یہاں تک کہ وہ لوگ بھی ،جو انھیں محض فحش پرست اور جنسی مریض کی حیثیت سے دیکھتے تھے، اُن کی معنویت اور وسیع النظری کے گُن گانے لگے۔ نئی تنقیدی شعریات کے وجود میں آنے سے سعادت حسن منٹو کے اُن افسانوں کو بھی غور و فکر اور مطالعے کا حصہ بنایا گیا جنھیں اب تک حاشیے پر ہی رکھا گیا تھا ۔ دراصل منٹو کے افسانوں میں ایسی تہہ داری ہے کہ ہر قرأت پر اُن کی تخلیقی بصیرت کی ایک نئی جہت سامنے آتی ہے ۔لیکن دوسری طرف ان کا ماننا ہے کہ منٹو کے افسانوں کا نفسیاتی ، سماجی ، حقیقی ، پس نو آبادیاتی تناظر میں نیز نئے تنقیدی نظریات کے اطلاق کے باوجود بھی بعض معنوی گوشے آج بھی نظروں سے پوشیدہ ہیں ، لہٰذا منٹو تنقید ابھی بھی نامکمل ہے ۔

روبینہ تبسم نے ان معنوی گوشوں کو اُجاگر کرنے کے سلسلے میں کئی ایک افسانوں کی مدد لی ہے جن کا جائزہ لے کر اردو فکشن کے ناقدین نے منٹو کے تخلیقی وجدان میں نئی جہتیں تلاش کرنے کی اپنی اپنی طور پر کامیاب کوششیں کی ہیں تاہم موصوف کا خیال ہے کہ یہ کہانیاں(جو کہانیاں انھوں نے شامل کی ہیں ان میں بانچھ ، پھوجاحرام دا ، کبوتروں والا سائیں ، ٹوبہ ٹیک سنگھ ، بو، پھاہا ، بلاؤز، دھواں اور شو شو وغیرہ) کسی واحد مسئلے اور مرکزی نقطے پر فوکس نہیں ہے ، بلکہ ان کی داخلی ساخت میں ایک سے زائد کہانیاں اور متعدد سوالات پنہاں ہیں ۔طوالت کے خوف کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہاں پر محض ایک ہی افسانے کو بطور ِ مثال پیش کرنے پر اکتفا کیا جائے گا ۔افسانہ ’’ بانچھ ‘‘ جو دراصل ایک ایسے کردار (نعیم ) کے گرِد گھومتا ہے جس نے اپنی تخیلاتی دنیا میں پیار کی ایک ایسی کہانی ایجاد کی ہے ، جس کو نہ صرف وہ دوسروں کو سچ بنا کر سناتا ہے بلکہ اس میں رہتے ہوئے وہ خود بھی اس کو سچ سمجھنے لگتا ہے ۔قاضی افضال حسین نے اس افسانے کی معنوی جہت کو اُجاگر کرتے ہوئے اس کو ’’ بانچھ پن ‘‘ کے برعکس ’’ تخلیقی قوت اور اس کے مظاہر ‘‘ کے موضوع کو محیط بتادیاہے ۔ وہ لکھتے ہیں:

’’ ایک خاص کردار اور اس کے حوالے سے محبت کے متعلق ایک تخلیقی متن کی تشکیل بھی ، تخلیقی قوت کے اظہار کا ایک ہی مستند وسیلہ قرار پاتی ہے جیسے عورت میں ولادت کی صلاحیت یا جیسے انسان میں محبت کی قوت ، جو اگر کسی خارجی وجود سے مربوط نہیں ہوپاتی تو ایک ایسے محبوب سے متعلق کا خیالی افسانہ تشکیل دینے پر قادر ہے جو اس کے لیے اتنا حقیقی ہوپائے کہ ’’ زہرہ کی آواز اور اس کی ہنسی ‘‘نعیم کے کانوں میں گونجنے لگتی ہے اور نعیم اس کی سانسوں کی گرمی تک محسوس کرنے لگتا ہے ۔‘‘(بحوالہ۔اردو فکشن : تنقیدی تناظرات ۔روبینہ تبسم ۔ص ۱۶)

مصنفہ کے نزدیک مذکورہ افسانے کی اس نئی جہت کے باوجود بھی یہ افسانہ اپنے اندر اس قدر وسعت اور تنوع رکھتا ہے کہ اس کا کوئی حتمی تجزیہ ممکن نہیں ۔یہ سوالوں کی گہری دھند میں اب بھی لپٹا ہوا ہے ۔ گرچہ نعیم نے کہانی کی ابتدا سے جھوٹ بولنا شروع کردیا تھا لیکن کیا اس کے خط کو سچا مان کر اس کی سنائی ہوئی کہانی کو بھی جھوٹ پر محمول کیا جاسکتا ہے ؟ان کا مزید کہنا ہے کہ عین ممکن ہے کہ خط اور کہانی دونوں جھوٹے ہوں یا پھر پورے افسانے کی بنیاد ہی جھوٹ پر مبنی ہو یعنی یہ منٹو کے تخلیقی قوت کا توانا اظہار ہو ۔ غرض یہ کہ زیر ِ تبصرہ افسانے کا نئے سرے سے تجزیہ کرنے والے پروفیسر قاضی افضال حسین بھی اس جھوٹ اور سچ کے حتمی فیصلے تک پہنچنے سے قاصر رہے ہیں۔بانچھ کے علاوہ دوسرے افسانوں کا تجزیہ کرتے ہوئے ان پوشیدہ گوشوں کو بھی اُجاگر کرنے کی کامیاب سعی کی گئی ہے جو آج تک ناقدین کی نظروں سے اوجھل ہی رہے ہیں ۔

دوسرا مضمون ’’ منٹو کے افسانوں میں تکنیک کے تجربات ‘‘ کے نام سے کتاب میں شامل ہے ۔اس موضوع کے آغاز میں مصنفہ نے لفظ ’’ تکنیک ‘‘ کے مفہوم اور معنی پر بحث کرتے ہوئے اس کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے کہ:

 ’’ کوئی بھی موضوع یا مواد مکمل ہئیت اور مکمل افسانہ بننے تک جن طریق کار سے دوچار ہوتا ہے یا افسانے کی تعمیر میں جس مخصوص ،مروّج یا تجرباتی طریقہ سے مواد یا فکر ڈھلتی ہے ، دراصل وہی تکنیک ہے ۔‘‘(اردو فکشن : تنقیدی تناظرات ۔روبینہ تبسم ۔ص ۳۶)

تکنیک کوئی جامد شے نہیں ، افسانے کے وجود میں آنے سے لے کر اب تک اس میں نت نئے تجربات ہوئے ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری و ساری ہے۔تکنیک میں افسانے کے آغاز ، انجام ، پلاٹ ، کردار نگاری ، زماں و مکاں ، فضا اور ماحول وغیرہ کا بڑا دخل ہے ۔ان سب یا پھر ان میں سے کسی ایک کو بنیاد بنا کر افسانے لکھے گئے ہیں ۔ پہلے پہل افسانے کی ابتداء طویل منظر کشی سے ہوا کرتی تھی لیکن بعد میں جو افسانے تخلیق کئے گئے ان کا آغاز ہی اصل موضوع سے ہونے لگا اور بقول مصنفہ یہی منٹو کی بھی  انفرادیت ہے کہ ان کے تقریباً سبھی افسانوں کا آغاز کہانی کے اصل موضوع سے ہی ہوا ہے۔مذکورہ مضمون میں سعادت حسن منٹو کے افسانوں میں ہوئے تکنیکی تجربات کو مفصل اور مدلل انداز میں پیش کیا گیا ہے۔اپنے دعوے کی تصدیق کے لیے افسانوں سے مناسب مثالیں بھی پیش کی گئی ہیں ۔یہی وہ استدلالی اندازہے جواس کتاب اور مصنف ِ کتاب کے وقار کو دوبالا کرتا ہے ۔سعادت حسن منٹو کے افسانوں میں جن تکنیکی اور ہئیتی تجربات کو برتا گیا ہے ان میں وقفہ بیانی (Aposiopesis)اشاراتی اسلوب (Symbolic Style)،فلیش بیک ، فلیش فارورڑ ، شعور کی رو ، آزاد تلازمۂ خیال ، مونولاگ ، استعاراتی اسلوب وغیرہ اہم ہیں ۔اس مضمون کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اس میں مذکورہ تکنیکی تجربات کا مفصل جائزہ پیش کرکے ان کے پسِ منظر اور پیش منظر کو بھی نمایاں کیا گیا ہے ۔مثال کے طور پر ’’وقفہ بیانی ‘‘ تکنیک کے حوالے سے مصنفہ یوں رقمطراز ہیں کہ :

’’ آج کل افسانوں میں وقفہ بیانی کی تکنیک کا استعمال ہورہا ہے ۔مکالمہ نگاری میں نامکمل مکالمے کے ذریعے مفہوم ادا کرنا Aposiopesisکہلاتا ہے ۔ مثال کے طور پر ’’ آج میرے والد صاحب بہت ناراض ہیں اگر میں گھر جاؤں تو ۔۔۔۔۔‘‘ اب ظاہر ہے کہ ’’جاؤں تو ‘‘ کے بعد کیا ہوگا کسی بھی قاری کی تفہیم کے لئے مشکل نہیں ۔ اس تکنیک کے دو فائدے ہیں ۔ ایک تو یہ کہ افسانہ نگار غیر ضروری الفاظ کے استعمال سے بچا رہے گا اور دوسرا یہ کہ افسانے میں قاری کو اپنی شمالیت کا احساس ہوگا ۔‘‘(اردو فکشن : تنقیدی تناظرات ۔روبینہ تبسم ۔ص ۳۸)

راجندر سنگھ بیدی کی افسانہ نگاری سے متعلق جو چار مضامین کتاب میں شامل ہیں ان کے عنوانات بالترتیب یوں ہیں ، بیدی کے افسانوں میں موضوعات کا تنوع ، بیدی کے افسانوں میں کردار نگاری ، بیدی کے افسانوں میں بچو ّں کی نفسیات اور بیدی کا افسانہ ’’ غلامی ‘‘ :ایک تجزیاتی مطالعہ ۔ان مضامین میں راجندر سنگھ بیدی کی افسانہ نگاری کا موضوعاتی اور ہئیتی و تکنیکی غرض ہر دو اعتبار سے بڑی عرق ریزی سے مطالعہ پیش کیا گیا ہے ۔وہ کون سی خصوصیات اور خوبیاں ہیں جو بیدی کو اپنے معاصر افسانہ نگاروں سے ممتاز و منفرد مقام عطا کرتی ہیں ، اُن کی بہ خوبی نشاندہی کی گئی ہے ۔بیدی نے شہری زندگی کے برعکس زیادہ ترہندوستان کی دیہی زندگی سے متاثر ہوکر اپنی کہانیوں کی بنت تشکیل دی ہے ۔اُن کے یہاں ہندوستانی تہذیب ، یہاں کے رسم و رواج ، تیج و تہوار ، کریا کرم ، چھوت چھات ، انسانی رشتوں کی پاسداری ، روز مرہ کے مسائل ، غربت ، استعاراتی ، اساطیری اور دیومالائی عناصر کی فضا وغیرہ اپنے پورے جلو کے ساتھ موجود ہیں۔بیدیؔ کی افسانوی کائنات کے بغور مطالعے سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ اُن کے یہاں کم و بیش تمام موضوعات کا احاطہ ملتا ہے خواہ وہ سیاسی ہو کہ سماجی ، جنسی ہو کہ نفسیاتی ، اقتصادی ہوکہ طبقاتی وغیرہ ۔انھوں نے جس موضوع پر بھی قلم اُٹھایا ہے اُس کے ساتھ بھر پور انصاف کیا ہے ۔بیدی افسانے کے فنی لوازمات کا ہمیشہ پاس و لحاظ رکھتے تھے یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں ایسے افسانوں کی کم وقلیل تعداد موجود ہے جنھیں کم تر درجے کے افسانوں کے زمرے میں شامل کیا جاسکتا ہے ۔اسلوب احمد انصاری نے صحیح کہا ہے :

’’ مواد اور فن کے اعتبار سے اگر اردو کے دو بڑے کہانی لکھنے والوں کا نام لیا جائے تو بلاشبہ وہ پریم چند اور راجندرسنگھ بیدی ہی ہوسکتے ہیں ۔‘‘( اسلوب احمد انصاری ، ترقی پسند ادب ، مرتبہ ۔عزیز احمد ۔ص ۱۰۴)

موضوعات کے انتخاب اور اُن کی قابل ِ تحسین پیش کش کے علاوہ بیدی کی وہ دوسری اہم خصوصیت ،جس نے اُنھیں اردو افسانہ نگاری کی روایت میں زندہ جاوداں عطا کیا ہے، ان کی کردار نگاری ہے ۔ان کے افسانے مختلف قسم کے کرداروں کا نگار خانہ ہیں ۔انھوں نے امیر ، غریب ، جوان ، بوڑھے ، مرد ، عورت حتیٰ کہ بچو ّں تک کی نفسیات اور معصومیت کوپیش کیا ہے ۔ کرداروں کی سائکی اور ان کے طبعی ماحول پر مضبوط گرفت ہونے کے سبب یہ کردار ان کی تخلیقی شناخت بن گئے ۔ اس حوالے سے مصنفہ اپنے خیالات کا اظہار ان الفاظ میں کرتی ہیں :

’’ انھوں نے (بیدی ) اپنے کرداروں کا طبقاتی ، معاشرتی ، معاشی پس منظر قائم کیا اور ان کی زندگی کے تلخ و شیریں حالات و کیفیات سے ہمیں روشناس کرایا ۔ان کرداروں میں کہیں بھی جھول نہیں ۔فطری انداز میں ترقی کے مراحل طے کرتے ہیں ، حتٰی کہ ان کی پرورش و پرداخت بھی بالکل فطری انداز میں ہوئی ہے ۔‘‘(اردو فکشن : تنقیدی تناظرات ۔روبینہ تبسم۔ص ۳۸)

بیدیؔ کو انسانی نفسیات کا نباض تک کہا گیا ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے انسانی نفسیات کا بڑی گہرائی سے مطالعہ کرکے اس کی مختلف کیفیتوں کو اپنی تحریروں میں فن کارانہ انداز میں پیش کیا ہے ۔ایک عظیم فن کار کی عظمت کا راز اسی بات میں مضمر ہے کہ وہ کس حد انسانی نفسیات کو جانچنے اور پرکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔اس سلسلے میں بیدیؔ کا نام اپنی مثال آپ ہے۔بیدیؔ کے کئی افسانوں(بھولا ، تلادان) کے حوالے سے بیدی کی انسانی نفسیات بالخصوص بچو ّ ں کی نفسیات پر مکمل گرفت اور ان نفسیاتی کیفیات کو پیش کرنے کے منفر د اور انوکھے انداز کی نشاندہی اس کتاب کی معنویت میں مزید اضافہ کرتی ہے ۔

احمد ندیم قاسمیؔ کا شمار اردو کے نامور اور معروف ترقی پسند افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے ۔ قاسمی اگرچہ ترقی پسند تحریک سے گہرا لگاؤ رکھتے تھے لیکن انھوں نے اس تحریک کے زیر ِ اثر راہ پانے والی انتہا پسندی اور کٹر پسندی سے ہمیشہ اپنے آپ کو محفوظ رکھا ہے ۔وہ ادبی شعریات کو کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کرتے ہیں ۔ان کے یہاں اگرچہ بعض ایسے افسانے بھی دیکھنے کو ملتے ہیں جو فنی و فکری اعتبار سے زیادہ اہمیت کے حامل نہیں ہیں تاہم ایسے افسانوں کی بھی ان کے یہاں کوئی کمی نہیں جنھیں دوسری زبانوں کے معیاری افسانوں کے مقابلے میں پیش کیا جاسکتا ہے ۔انھوں نے بیدیؔ ہی کی طرح ہندوستان کی دیہی زندگی بالخصوص پنجاب کے دیہاتوں سے متاثر ہو کر اپنی کہانیوں کے تار و پود تیار کئے ہیں ۔یہ وہ زمانہ ہے جب لکھنے والوںکی ایک بڑی کھیپ اپنے خیالات و مشاہدات کو افسانوی قالب میں اُتار کر قارئین کو دعوت ِ فکر دیتے رہے ۔ان میں ان گنت نام ایسے ہیں جنھیں زمانے کی تبدیلی نے اپنی لپیٹ میں کچھ اس طرح لیا کہ ہمیشہ کے لئے زمین بوس کردیا لیکن بعض ایسے افسانہ نگار بھی ہیں جنھیں یہ روایت کبھی فراموش نہیں کرسکتی بلکہ جن کی اہمیت وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور بھی بڑھ جاتی ہے ، انہی لکھنے والوں میں احمد ندیم قاسمی کا شمار بھی ہوتا ہے۔اس کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ انھوں نے اردو افسانے کی پہلے سے چلی آرہی روایت سے کسی قدر انحراف کر کے موضوع کے ساتھ ساتھ تکنیکی سطح پر بھی نئے اور جدید تجربات کو اپنی تحریروں میں راہ دی ۔ ان کی تحریروں میں وہ تمام پہلوؤ بدرجہ اتم موجود ہیں جو ایک کامیاب فن پارے کے ضامن ہوتے ہیں ۔ان کے افسانوں کے بغور مطالعے کے بعد مصنفہ نے ان کے یہاں فنی رچاؤ اور تکنیکی تجربات کو سامنے لایا ہے جو مصنفہ کی وسیع النظری اور گہری بصیرت کا پتہ دیتا ہے ۔

کتاب کے حصہ ٔ اوّل کا آخری مضمون اردو کی معتبر اور مقبول ِ عام فکشن نگار ’’ قرۃ العین حیدر ‘‘ کی افسانہ نگاری کے حوالے سے ’’ قرۃ العین حیدر کے افسانوں میں مشترکہ تہذیبی عناصر ‘‘ کے زیر ِ عنوان ہے ۔اس مضمون کے آغازمیں مصنفہ نے ’’تہذیب ‘‘ کے معنی و مفہوم واضح کرنے کی سعی کی ہے اور ساتھ ہی ساتھ ہندوستان میں مختلف تہذیبوں کی آپسی آویزش و آمیزش سے متعلق بھی ایک مفصل بحث قائم کی ہے۔اس سلسلے میں انھوں نے مختلف اہل علم اور دانشور حضرات کے خیالات کو بھی اس مضمون کی زینت بنایا ہے ۔اس کے بعد نفس ِ مضمون کے طور پر قرۃ العین حیدر کے افسانوں کا جائزہ لیتے ہوئے ان میں موجود مشترکہ تہذیبی عناصر کی نشاندہی بڑی خوبصورتی کے ساتھ کی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ :

’’یوں تو متعدد افسانہ نگاروں کے افسانوں میں مشترکہ تہذیبی عناصر کی جھلک دیکھنے کو ملتی ہے ۔البتہ اس کی کارفرمائی قرۃ العین حیدر کے طویل و مختصر افسانوں میں نظر آتی ہے ۔مثلاً جلا وطن ، ہاوسنگ سوسائٹی ، فقیروں کی پہاڑی ، نظارہ درمیاں ہے ، دریں گرد سوارے باشد اور کہرے کے پیچھے وغیرہ ۔ان کے افسانے محض ہندو مسلم مشترکہ تہذیب کے وجود اور ان کے خاتمے ہی کا مرثیہ نہیں ہیں بلکہ ان کی وسعت و تنوع اس سے کہیں زیادہ بڑھی ہوئی ہے ۔ یہ افسانے جہاں ایک جانب ہندو مسلم اتحاد ، اتفاق اور یگانگت کی مثالیں ہیں وہیں دوسری طرف اس میں انگریزی ، فرانسیسی ، جرمنی ، اٹیلین وغیرہ تہذیب بھی دیکھنے کو ملتی ہے ۔اور قرۃ العین کا یہ اہم کارنامہ ہے کہ انھوں نے اس مشترکہ تہذیب کو آفاقیت عطا کی۔‘‘(اردو فکشن : تنقیدی تناظرات ۔روبینہ تبسم ۔ص ۱۰۹)

قرۃ العین حیدر کی تحریروں میں جہاں ہندوستانی مشترکہ تہذیبی روایت کے وہ خوش نما پہلو بھی موجودہیں جو عالم ِ انسانیت کے لیے ہمیشہ باعث رشک رہے ہیں لیکن انگریزوں کی ملک میں آمد کے بعد یہ ہندو مسلم مشترکہ تہذیب کس طرح متاثر ہوئی اور لوگ رنگ و نسل ، ذات پات ، دھرم مذہب اور عقائد و تصورات وغیرہ کو بنیاد بنا کر کس طرح ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے ، وہ دلدوز اور دل دہلانے والے واقعات بھی ان کے یہاں دیکھنے کو ملتے ہیں ۔قرق العین حیدرایک تجربہ کار اور نہایت ہی حساس شخصیت کی مالک ادیبہ گزری ہیں ۔ آپ کا مطالعہ وسیع اور مشاہدہ قوی تھا ۔آپ نے بقول ِ روبینہ تبسم اخلاقی زوال ، مشترکہ تہذیب کی تباہی ، ظلم و جبر ، سماجی نابرابری ، نا انصافی ، طبقاتی کشمکش ، عدم مساوات اور انسانی دکھ درد کو نہ صرف محسوس کیا بلکہ اس کا اپنی تحریروں میں بھر پور اظہار بھی کیا ہے۔

مجموعی طور پر یہ کہ کتاب میں شامل تمام مضامین کسی نہ کسی طور پر اردو کی افسانوی تنقید میں نمایاں اضافے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کی مدد سے مذکورہ افسانہ نگاروں کی تحریروں کا عصری افسانوی شعریات کے حوالے سے تجزیہ کرکے ان کی عصری معنویت و اہمیت کا بھر پور احساس دلایا گیاہے ۔یہ کتاب اردو ادب سے بالعموم اور اردو فکشن سے بالخصوص دلچسپی رکھنے والے حلقے اور ریسرچ اسکالرز کے لیے ایک اہم کارنامہ ثابت ہوسکتی ہے ۔نیز موجودہ ادبی منظر نامے سے متعلق بھر پورواقفیت اور اس سے اپنے آپ کو جڑے رکھنے کے سلسلے میں اس نوع کی تصانیف کا مطالعہ از حد ضروری ہے ۔

Leave a Reply