You are currently viewing اردو کہاوتوں کا سماجی پہلو: ذات پات کے حوالے سے

اردو کہاوتوں کا سماجی پہلو: ذات پات کے حوالے سے

تنزیل عالم ہدوی

اردو کہاوتوں کا سماجی پہلو: ذات پات کے حوالے سے

(Social Aspects of Urdu Proverbs: Insights into Caste Dynamics)

ABSTRACT

The significance of proverbs is universally acknowledged across languages, serving as repositories of collective wisdom, cultural values, and social norms. However, the scholarly attention given to Urdu proverbs remains relatively limited compared to other languages. Urdu proverbs possess both linguistic and sociocultural dimensions, reflecting various aspects of society, including caste, professions, agriculture, customs, and marriage practices. Despite significant social progress, caste continues to be a major factor influencing societal structures and development.

This study explores the intricate relationship between Urdu proverbs and social stratification, with a special focus on caste. A wide range of proverbs reference various castes and communities, including Brahmins, Baniyas, Jats, Kayasths, Ahirs, Gujjars, Nai, Sonar, Telis, Jolahas, Dhobis, Doms, Chamars, Muslims, Shaikhs, Pathans, butchers, and historically marginalized groups. Through an analytical approach, this paper examines how these proverbs reinforce, challenge, or reflect caste-based perceptions and social hierarchies. By shedding light on the sociolinguistic significance of Urdu proverbs, this study aims to contribute to a deeper understanding of their role in shaping cultural narratives and social consciousness.

Key Words: Urdu proverbs, Caste Dynamics, Baniya, Muslims

قدیم زمانے میں کہاوتوں کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی تھی جتنا کہ اب دیا جاتا ہے۔ حالاں کہ کہاوتوں کا استعمال جس طرح قدیم زمانے میں رواج تھا تقریبا ویسا ہی آج بھی یہ رائج ہے۔ کچھ زمانوں تک تو اس کو ادب کا حصہ ہی نہیں مانا جاتا تھا۔ لیکن جب سے محققین کی نظر اس کی طرف گئی تب سے آہستہ آہستہ اس کو لوک ادب کا حصہ بنا دیا گیا۔ حالاں کہ ایسا نہیں ہے کہ جس بھی زبان میں جتنی کہاوتیں موجود ہے تمام کے خالق گمنام ہیں۔ بلکہ ایسی بہت ساری کہاوتیں آپ کو مل جائے گی جس کہنے والے معلوم ہیں۔ پھر بھی ان سب کہاوتوں کو لوک ادب کا ہی حصہ ما نا جاتا ہے۔

          اردو زبان میں کہاوتوں کا کام ابھی تک تشنہ ہے۔ میرے اس مقالہ کا خاکہ تیار کرتے وقت ہندوستان پرچارنی سبھا کی لائبریری میں میری نظر ایسی بہت ساری کتابوں سے گزری جس میں محض بہت ساری کہاوتوں کو ایک کتابی شکل دے کر چھاپ دیا گیا ہے، سوائے چند کتابوں کے جس کی مدد سے میں اس مقالہ کو تیار کیا ہوں۔

          اردو کہاوتوں میں آپ کو قافیہ اور ردیف بھی مل جائے گا جو کہ اس کا لسانی پہلو ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ اس میں آپ کو سماج کی اٹل سچائیوں کی جھلکیاں بھی نظر آئے گی جو کہ اس کا یہ سماجی پہلو ہے۔ اور میری نظر میں اردو کہاوتوں کا سماجی پہلو اس کے لسانی پہلو سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ چونکہ لوک ادب میں آپ کو خال خال ہی لسانی پہلو کے تمام چیزیں دیکھنے کو ملے گی، اور اگر مل بھی جائے گی تو وہ اتفاقی ہوگی۔ چونکہ بولنے والوں نے تو اس کو سماج کی حقیقت اور سچائی کے طور پر بیان کیا ہے، وہ بھی وہ زبان جو کہ اس کے آس پاس بولی جاتی ہوگی۔

اردو کہاوتوں کے سماجی پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر یونس اگاسکر لکھتے ہیں کہ:

’’سماج کا ایک بڑا طبقہ کہاوتوں کو زندگی کی اٹل سچائیوں کے طور پر تسلیم کرتا ہے۔ کہاوتیں ایک طرح سے زندگی سے متعلق عوامی فلاسفی یا عوام کے تصورات حیات کی مظہر ہوتی ہیں۔ زندگی کے مختلف پہلؤوں پر ان میں تبصرہ یا رائے زنی ہوتی ہے۔ اور انھیں سماجی ،اخلاقی و روحانی حقائق تسلیم کرنے والۓ سماج کے اجتماعی شعور اور اخلاق و عادات کا ایک قابل لحاظ خاکہ، ان کی مدد سے تیار کیا جاسکتا ہے‘‘۔ ( اردو میں لوک ادب،  ص 244)

          اردو زبان عہد وسطی کی پیدوار ہے۔ اور جو چیز جہاں پیدا ہوتی ہے اس کا اثر اس پر پڑنا ناگزیر ہے۔ اسی طرح جب زبانيں آپس میں ایک دوسرے کے قریب آتی تو بھی اس کے بہت سارے چھاپ اس آجاتے ہیں۔ اور سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ زبانیں ایک سماجی آلہ جو کہ سماج کے لوگوں کو آپس میں ایک دوسرے سے جوڑتی ہے۔ تو ظاہر سی بات ہے کہ سماج میں جس قسم کا طبقاتی نظام ہوگا، ذات پات کے طریقے رائج ہوں گے تو اس کا اظہار زبان کے ہی ذریعے ہوگا اور جب زبان کے ذریعہ ہوگا تو پھر اس سماج کا اور اس قوم کا رنگ اس زبان میں ضرور ملے گیں۔ اگرچہ وہ قوم یا وہ سماج دنیا سے نیست و نابود ہوچکی ہو پھر بھی اس کا رنگ زبانوں میں ضرور نظر آتا ہے۔ اور ٹھیک یہ عمل اسی طرح چلتا رہتا ہے۔ جب تک کہ اس زبان کا وجود ہی دنیا سے ختم نہ ہوجائے۔

          ذات پات کا یہ طبقاتی نظام دنیا کے ہر جگہ میں موجود ہے۔ البتہ کہیں کم ہیں تو کہیں زیادہ۔ ہندوستان میں بھی قدیم زمانے سے ہند‎ؤوں میں طبقاتی نظام چلا آرہا ہے۔ اور اونچ نیچ کا تصور آج کی بنسبت پہلے زمانے میں بہت مستحکم اور مضبوط تھا۔ اس ذات پات اور اونچ نیچ کے تصور کو ‎شہری اور صنعتی ترقی نے جھٹکا ضرور دیا ہے۔ پھر بھی آج تک یہ نظام کسی نہ کسی طرح ہمارے سماج میں موجود ہے۔

          ذات پات اور اونچ نیچ کے تصور پر اردو زبان میں آپ کو بہت ساری کہاوتیں اور ضرب الامثال دیکھنے کو مل جائے گا۔ کہاوتیں چونکہ سماجی سچائیاں ہوتی ہیں۔ اس لئے سماج میں جو واقعہ یا حادثہ پیش آتا ہے اس کا اظہار کہاوتوں کے ذریعہ سے کیا جاتا ہے۔ کیونکہ کہاوتوں کے آغاز اور ارتقا کے پیچھے سماجی زندگی، انسانی تجربات، فلسفیانہ خیالات، پند و نصیحت، تاریخی واقعات اور لوک کہانیاں ہی ہیں۔

          اردو زبان کے محاوروں اور ضرب الامثال پر ایک سرسری نظر دوڑائے گے تو آپ کو مختاف سماجی پہلؤوں سے متعلق کہاوتیں دیکھنے کو ملے گا۔ جیسےکہ: 1۔ ذات پات، 2۔ پیشے، 3۔ زراعت و کاشتکاری، 4۔ عورتوں کامرتبہ، 5۔ رسم ورواج، 6۔ شادی بیاہ، 7۔ مہمان، 8۔ رشتے ناتے، 9۔ خورد ونوش، 10۔ پوشاک، 11۔ صحت وعلاج، 12۔ توہمات۔

          ذات پات کا نظام ہمارے ہندوستان میں کس طرح پروان چڑھا اس سے سب لوگ واقف ہیں۔ اور یہ نظام ایسا نہیں کہ صرف ہندؤوں ہی میں ہے  بلکہ بہت سالوں سے مسلمانوں میں بھی رائج ہیں۔ اور چونکہ ہندوستان کے اکثر و بیشتر لوگ انہیں دو مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے اردو کہاوتوں میں ان کے متعلق ہی سب کہاوتیں دیکھنے کو ملے گی۔ اور جیسا کہ اردو کی تاریخ لکھنے والوں نے کہا ہے کہ اردو کا جنم ہی ہندو اور مسلمانوں کے ملنے سے ہوا، تو اس کے پیچھے بھی یہ ایک سبب ہوسکتا ہے۔

          اردو کہاوتوں میں ذات پات کے حوالے سے مندرجہ ذیل ذاتوں کا نام سر فہرست نظر آئے گا۔

1۔ برہمن         2۔ بنیا             3۔ جاٹ 4۔ کایستھ 5۔ اہیر و گوجر               6۔ نائی            7۔ سنار            8۔ تیلی            9۔ جلاھا          10۔دھوبی        11۔ڈوم                   12۔چمار         13۔ مسلمان      14۔ شیخ

برہمن

          سر ہربرٹ رزلے نے اپنی کتاب “پیپل آف انڈیا” میں کہاوتوں میں ذات پات کا اثر کتنے نمایا ہے۔ اس کے متعلق سے ایک مستقل باب اس عنوان سے Caste In Proverbs and Polular Sayingsسے باندھا ہے۔ اور اس کے تحت سب سے پہلے برہمن سے متعلق بات کی ہے۔ ہندؤوں میں ذات پات کے حوالے سے برہمن کا درجہ سب سے اونچا ہے۔

ڈاکٹر یونس اگاسکر لکھتے ہیں کہ:

          ’’سر رزلے کے خیال میں ہندستان کی مختلف زبانوں کی مثلوں کے سہارے گاؤں کے مختلف طبقات کے نمایندوں کی ایک پورٹریٹ گیلری ترتیب دی جاسکتی ہے۔ جس میں سب سے نمایاں تصویر برہمن کی ہوگی اسی لئے انھوں نے سب سے پہلے برہمن سے متعلق کہاوتوں کا جائزہ پیش کیا ہے۔ اردو میں برہمنوں سے متعلق کہاوتیں تعداد کے اعتبار سے اولیت کا درجہ نہیں رکھتیں مگر سینکڑوں برس سے انہیں سماجی برتری حاصل رہی ہے۔ اس لئے ہم نے بھی اپنی پورٹریٹ گیلری میں ان کی جگہ سب سے پہلے رکھی ہے‘‘۔ (ص 131، اردو کہاوتیں اور ان کا سماجی و لسانی پہلو،)

برہمن مذہبی رہنما ہونے کی وجہ سے ظاہری اعتبار سے کتنا ہی اچھا دکھاتا ہو۔ البتہ اس کا دل اور اس کا باطن اتنا ہی کالا اور قصائی جیسا ہے۔ اس کی اس حقیقت اور دکھاوپن کو اس کہاوت نے ظاہر کیا ہے:

          اس دنیا میں تین قصائی، پسو، کھٹمل، برہمن بھائی۔

          ایک برہمن کی یہ ہمیشہ سے دلی خواہش رہتی ہے کہ وہ اپنے کو سب کے سامنے اپنی علمی حیثیت اور سماجی برتری کا مظاہرہ کرے۔ اس کے لئے ایک ناسمجھ برہمن جوکہ چار ویدوں کا عالم تھا اس نے اپنی علمی برتری ثابت کرنے کے لئے کہہ دیا کہ میں چھے ویدوں کا عالم ہوں۔ حالاں کہ ہندؤوں میں مقدس وید صرف چار ہیں۔ اس وجہ جو چار ویدوں کا عالم ہوتا ہے اسے چترویدی (چوبے)، اور تین والوں کے لئے ترویدی، اور دو ویدوں والوں کے دو ویدی(دوبے)۔ اس برہمن کی ناسمجھ پر ایک کہاوت ہے کہ:

                   چوبے گئے تھےچھبے ہونے، دوبے ہو آئے۔

          برہمن چونکہ ہندؤوں کا مذہبی رہنما ہوتا ہے۔ اس وجہ جب بھی سماج شادی بیاہ اور موت واقع ہوتی ہے، تو اس کے رسموں کی ادائیگی کے لئے اسی کو بلایا جاتا ہے۔ اور انہیں جیسے موقعوں پر اس کی کمائی بھی ہوتی ہے۔ اس وجہ سے وہ دل ہی دل میں خوش بھی ہوتا ہے۔ ایسے موقع پر برہمن کی دلی حالت اور کیفیت کیا ہوتی ہے۔ اس کہاوت میں بخوبی واضح نظر آتی ہے۔

                   آئی کناگت پھولی کانس، بامھن اچھلیں نو نو بانس۔

          یہ بات تو سب کو پتا ہے کہ عالموں میں اختلاف رائے بہت زیادہ ہوتی ہے۔اگر یہ معاملہ صرف اختلاف رائے تک ہی تو اچھی بات ہے۔ البتہ اس کی وجہ سے آپسی پھوٹ اور نااتفاقی بہت زیادہ ہوجاتی ہے۔ کوئی ایک دوسرے کو دیکھنے نہیں مانگتا ایسی حالتیں پیدا ہوجاتی ہے۔ اور اس اختلاف رائے کا اثر آج ہم سب دیکھ رہے ہیں ۔ اس کے برعکس دیہاتیوں میں یکتائی اور اتحاد دیکھنے کو ملتی ہے، ان میں نااتفاقی اور آپسی پھوٹ ہوتا بھی ہے تو بہت کم۔ برہمن چونکہ اپنے مذہب کا عالم ہوتا ہےاس وجہ سے ان میں بھی آپسی پھوٹ اور نااتفاقی دیکھنے کو ملتی ہے۔ اسی کااظہار اس کہاوت میں کیا گیا ہے ۔

                   بارہ برہمن بارہ باٹ، بارہ دیہاتی ایک گھاٹ۔

          کسی نچلے ذات کی سماجی حیثیت میں اضافہ کے لئے اس نچلے ذات کی لڑکی کا برہمن کے گھر میں شادی ہونا کافی ہے۔ ٹھیک اس کے برعکس اگر برہمن کی بیٹی کی شادی کسی نچلے ذات والے لڑکے سے ہوجاتی ہے تو اس کے خاندان کا ناک کٹ جاتا ہے۔ یہ سب باتیں اور روایت جس طرح پہلے موجود تھا اسی طرح سے آج بھی یہ سب روایتیں کسی نہ کسی صورت میں آج بھی موجود ہیں۔ اسی حقیقت کا اظہار مندرجہ ذیل کہاوتیں کرتی ہیں۔

                   جاٹ کی بیٹی برہمن کے گھر آئی۔

                   بامھن کی بیٹی، گوکل کی گائے، کرم پھوٹیں تو باہر جائے۔

          برہمن کی معاشی حالت عام طور سے بہت خراب ہوتی ہے۔ چونکہ ان کا گزر بسر عام طور سے بھجن گانے اور شادی بیاہ اور موت کے موقع پر جو رسمیں ادا کی جاتی اس پر ہوتی ہے۔ اگرچہ سماج میں ان کا درجہ کتنا ہی اونچا کیوں نہ ہو، ان کی مفلوک الحالی کہاوتوں سے نہیں چھپی۔ برہمن کی اس سچائی کا اظہار اس کہاوت نے کیا ہے۔

                   ایک جوئے کی سولہ روٹی، بھگت کہے بھگتاین کھوٹی۔

          برہمن کی اس حالت کا اظہاراکبر الہ آبادی نے اپنے اس شعر میں کیا ہے۔

                             شیخ صاحب برہمن سے لاکھ برتیں دوستی

                             بے بھجن گائے تو مندر سے ٹکا ملتا نہیں

بنیا

          جس طرح مذہبی زندگی کا سرتاج ایک برہمن ہوتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح سے دنیوی معاملوں میں بنیا کی اہمیت مسلم ہے۔ بنیا کا پیشہ چونکہ دوسروں کو قرضہ دینا، اناج اور غلہ کا کاروبار کرنا ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے اس اندر چالاکی اور عیاری کوٹ کوٹ کر بھری رہتی ہے۔ سماج میں تمام طبقوں کے مقابلے میں بنیا کی معاشی حالت دوسروں سے بہتر ہوتی ہے۔ اردو کہاوتوں میں بنیا کے اخلاقیات اور اس کے روش اور چلن کا اظہار جگہ جگہ پر ملتا ہے۔

          کوئی شخص اگر اپنے آپ کو بنیا سے زیادہ چالاک اور عیار پابت کرنے کی کوشش کرتا ہے تو سمجھ لو کہ وہ پاگل اور دیوانہ ہے۔ چونکہ چالاکی اور عیاری میں بنیا کا مقابلہ کوئی نہیں کرسکتا ہے۔ اسی کا اظہار اس کہاوت میں ہے۔

                   بنیا سے سیانا وہ دیوانہ۔

          سماجی سطح پر لوگوں میں یہ بات مشہور ہے کہ بنیا سب کو ٹھگتا ہے، یہاں تک کہ وہ اپنے باپ اور بیٹے اور رشتہ داروں کو بھی نہیں بخشتا ہے۔ اسی وجہ سے بنیا سے دوستی کرنا خود کو ہلاکت میں ڈالنا ہے۔ اور چونکہ بنیا ایک کاروباری آدمی ہے تو منافع کے لئے یہ سب حرکت کرنا بعید از قیاس نہیں ہے۔ اس لئے اس سے دوستی کرنے سے پرہیز کرنا چاہئے۔ جیسا کہ کہاوت ہے۔

                   بنیا جس کا یار اس کو دشمن کیا درکار۔

          یونہی اس کی ٹھگی اس زمانہ میں کتنا مشہور تھا اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے۔

                   بنیا مارے جان کو ٹھگ مارے انجان کو۔

          آزادی کے قبل اور اس کے چند سال بعد تک بھی بنیا سماج کے لئے ایک بینک کا کام کیا کرتا تھا۔ اگر کسی کو پیسہ کی ضرورت ہوتی تھی تو وہ سیدھا بنیا سے قرض لے لیتے تھے۔ اور بنیا کی ذمہ داری بنتی تھی کہ وہ اس قرض کے متعلق اپنی ڈائری میں نوٹ کرلے۔ لیکن چونکہ وہ ہمہ وقت مشغول رہتا تھا اس وجہ سے کبھی کبھی کسی کا قرضہ لکھنا بھول جاتا تھا۔ اب بھولنے کے بعد جب اس قرض کے بارے میں پوچھا جاتا تو وہ تھوڑا زیادہ پیسہ بتاتا، یہ اس کی عادت تھی۔ اسی کے بارے میں ایک کہاوت ہے کہ(بنیا بھولتا ہے تو زیادہ ہی بتاتا ہے)۔

          آج ہمارے زمانہ میں جس طرح ایک ڈاکٹر کا لکھا صرف ایک ڈاکٹر ہی پڑھ سکتا ہے۔ اسی طرح اس زمانہ میں قرض والے کاغذ پر بنیا جو لکھتا تھا۔ اس کو صرف وہی پڑھ سکتا تھا۔ اور ہمارے زمانہ میں تو کوڈ لینگویج کا رواج زیادہ ہی ہوگیا ہے۔ جس کو صرف وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں۔ اس کا اظہار اس کہاوت میں کیا گیا ہے۔ (بنیا لکھے پڑھے کرتار)۔ اسی طرح بنیا سے قرض لینے میں ہمیشہ احتیاط برتنا چاہئے۔ جس طرح ایک آدمی گھوڑے کی ریس کی برابری نہیں کرسکتا اسی طرح ایک بنیا کی قرض سے وہ چھٹکارا نہیں پاسکتا۔ جیسا کہ کہا گیا ہے کہ (بنیا کا قرض، گھوڑے کی دوڑ برابر ہے)۔

          آج کے زمانے میں مڈل کلاس کا آدمی اپنی زنگی کی پوری کمائی صرف مکان اور شادی میں خرچ کردیتا ہے۔ بنیا کی بھی معاشی حالت دوسروں سے بہتر ہوتی ہے اس وجہ سے وہ بھی مکان بنانے میں اور شادی میں دل کھول کے خرچ کرتا ہے۔ جیسا کہ کہاوت ہے (بنیا کی کمائی، بیاہ یا مکان نے کھائی)۔

جاٹ

          ’’سماجی درجہ بندی کے اعتبار سے جاٹوں کا درجہ خاصا نیچا ہے خصوصا برہمنوں کے مقابلے میں انہیں کافی کمتر خیالل کیا جاتا ہے، اس لیۓ برہمنوں سے ان کے تقابل کا چلن شمالی ہند کے کہاوتی ادب میں عام ہے چناچہ کسی کی سماجی حیثیت کسی اونچی ذات یا مرتبے والے شخص یا خاندان سے تعلق پیدا ہونے کے سبب بڑھ جائے تو کہاوت میں “جاٹ کی بیٹی برہمن کے گھر آئی” کا استعاراتی انداز اختیار کیا جاتا ہے‘‘۔ (اردو کہاتوں کا سماجی ولسانی پہلو، ص 139)

          جاٹوں کا آبائی پیشہ کھیتی باڑی کرنا ہے۔ جاٹ ایک محنت کش طبقہ اس کی دنیا اور زندگی دوسرے طبقوں کے مقابلے میں محدود ہوتی ہے۔ کیونکہ وہ عام طور سے گھر سے کھیت اور پھر کھیت سے گھر کرتا رہتا ہے۔ اس کی بنا پر سماج والے اس کے نادانی کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ان کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ ضدی اور ہٹ دھرم ہوتے ہیں اس وجہ سے لوگ ان کو “جاہل جٹ، گنوار کا لٹھ” کہتے ہیں۔

          جاٹ سے عداوت اور دشمنی کرنے میں خود کا ہی نقصان زیادہ ہے۔ چونکہ وہ مار کرنے میں بہت آگے ہوتے ہیں۔ اور دوسروں کے مقابلے میں وہ سخت جان ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے لوگ کہتے ہیں کہ”ہاتھ میں ڈنڈا ہو تو جاٹ دوست ہے”۔ اسی طرح ایک کہاوت ہے کہ ” سانپ کو چھوڑو، جاٹ کو مارو”۔ افسوس ہے کہ اس کی زندگی کی قیمت سانپ سے بھی کم ہے!

          اسی طرح ایک دوہے کی شکل میں ایک کہاوت ہے کہ:

                   جاٹ کہے، سن جاٹنی، اسی گاؤں میں رہنا

                   اونٹ کو بلی، لے گئی، ہاں جی، ہاں جی کہنا۔

اس کہاوت سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جاٹ کو سماج والوں سے اختلاف کرنے میں کتنا خوف و ہراس ہے۔ ان کو اپنی رائے رکھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔صرف دوسروں کے ساتھ ہاں میں ہاں ملانا ہے۔

کایستھ

          سماج کے دیگر طبقوں کے مقابلے میں کایستھ تعلیم یافتہ زیادہ ہوتا ہے۔ ان کی تاریخ بھی زیادہ روشن ہے۔ کیونکہ مغل کے زمانے میں دربار میں غیر معمولی اثر ورسوخ حاصل تھا اور یہ سلسلہ انگریز کے زمانے میں بھی موجود رہا۔ انگریز کے زمانے میں بڑے بڑے سرکاری عہدوں پر ان کا قبضہ رہتا تھا۔ اس طبقہ نے ہندو مسلم تہذیب کے مشترکہ عناصر کو فروغ دیا۔ اور یہ عمل سب سے زیادہ سلطنت مغلیہ میں تھا۔ اسی وجہ سے ان کو “کایستھ تو آدھا مسلمان ہوتا ہے” کہا جاتا ہے۔

          ایک کہاوت یہ بھی ہے کہ”کایستھ کا بیٹا قلم کی نوک سے جیتا ہے” ۔ یہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ مغل اور انگریزوں کے زمانے میں انہوں نے اپنی علمی لیاقت کے بنا پر حکومت کے اعلی عہدوں پر یہ فائز رہتے تھے۔ اور اسی کے ذریعے ان کی روزی روٹی چلتی تھی۔

          انگریزی تعلیم اور سرکاری ملازمتوں کی وجہ سے ان میں دن بدن مغرب پرستی کا رجحان زیادہ ہوگیا، اور یہ لوگ انگریزی شراب کے عادی ہوگئے۔ ان اس اخلاقی پہلو کو اردو کے اس کہاوت (شراب تو کایستھ کی گھٹی میں پڑی ہوتی ہے)  نے ظاہر کیا ہے۔

اہیر وگوجر

آج بھی دیہاتوں میں اہیر وگوجر سب ایک ہی گاؤں میں بستے ہیں یہ ان کے اتحاد و اتفاق کی نشانی ہے۔ ان کا پیشہ گائے، بھینس اور بھیڑ بکری وغیرہ پالنا ہے۔ اور ان سب کا دودھ بیچ کر وہ پیسہ کماتے ہیں۔ ان کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ یہ لوگ اپنے پیشہ کے لئے جہاں خالی جگہ مل جائے وہاں جابستے ہیں۔ اسی وجہ سے اردو میں کہا گیا ہے کہ “یا بسے گوجر یا رہے اوجڑ”۔

اردو کہاوت میں اہیر کے پکوان کو نشانہ بناتے ہوئے کہا گیا ہے کہ “اہیر کیا ججمان، لپسی کا کیا پکوان”۔ اس میں ان کے کھانے کا مذاق اڑایا گياہے۔ چونکہ ایک اہیر کے گھر دودھ اور دہی کی کبھی کمی نہیں ہوتی ہے۔ اسی اس کے گھر میں “لپسی” جو کہ دودھ کا ایک پکوان ہے وہ اکثر بنایا جاتا ہے۔

اہیر و گوجر سے نیکیوں کی توقع کبھی نہیں کرنی چاہئے۔ کیونکہ تھوڑے زیادہ منافع کے لئے یہ لوگ دودھ میں پانی ملا کر بیچتے ہیں، اس لئے ان کی طبیعت بھی ملاوٹ ہوتی ہے۔ ان کی انہیں باتوں کا اظہار اس کہاوت (اہیر سے تب گن نکلے، بالو سے جب گھی) میں کیا گیا ہے۔

نائی

          دور حاضر میں نائی کا جو آبائی پیشہ تھا اس کو بہت سے دوسرے طبقوں نے بھی بے روزگاری کے چلتے اپنا لیا ہے۔ ورنہ پہلے زمانے اور کہیں کہیں آج بھی بہت ساری جگہوں آج بھی بائی لوگ اپنا آبائي پیشہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ نائی کا کام صرف بال کاٹنا، حجامت بنوانا، اور فصد کھلوانا ہی نہیں تھا بلکہ وہ لوگ سماج کے ایک سفیر کی حیثیت سے کام کیا کرتے تھے۔ ان کا کام شادی کا نیوتا دینا، لڑکا لڑکی کا رشتہ بھی لگوانا بھی تھا۔نائی سماج کا ایک ایسا شخص تھا سب کے ساتھ رازدرارانہ باتیں کیا کرتا تھا۔ اسی وجہ سے لوگ اس کی باتوں پر یقین نہیں کرتے تھے، چونکہ وہ افواہیں پھیلانے میں بھی بہت مشہور تھا۔ اسی طرف اشارہ کر کے اردو میں ایک کہاوت کہا گیا ہے کہ “نائی بات گنوائی”۔

یونہی نائی کے بچوں پر ایک اردو میں کہاوت ہے کہ”کٹے گا ججمان کا، سیکھے گا نائی کا”۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عام طور سے نائی اپنے بچوں کو حجامت سیکھانے کے لئے ، بچوں کی حجامت کروانے پر بیٹھا دیتا تھا۔ اب اگر نائی کا بچہ حجامت کے دوران کسی کے بچے کا بال خراب کاٹ دے تب ایسے موقع کے لئے عام طور کوگ یہ بولا کرتے تھے۔

نائی کا کام اکثر وقت گھر سے باہر رہنا ہوتا تھا۔ اور اس کی چالاکی اور عیاری بھی لوگوں میں مشہور تھی اس لئے کہا جاتا ہے کہ”پرندوں میں کوا، اور انسانوں میں نائی”۔ یونہی نائی شاید اپنے آپ کو ٹھاکر کہلانا پسند کرتا تھا، یا پھر ان سماج میں مرتبہ دیکھ خود کو ان کے جیسا کہلوانے کی کوشش کرتا تھا، جوکہ اس کہاوت (نائی کے بارات میں سب ٹھاکر)  میں ظاہر ہے۔اسی طرح نائی کو شادی کے موقع پر جو رسم یا کام اس کے ذریعہ کروائے جاتے تھے، اس کو بس اپنے پیسوں سے مطلب ہوتا تھا، دولہا اور دلہن کا کیا نقصان ہورہا ہے اس سے اس کو کچھ بھی سروکار نہیں رہتا تھا۔ اس لئے کہا گیا ہے کہ”دولہا مرے کہ دولہن مرے، نائی کو اپنے ٹکوں سے کام”۔

مسلمان

اسلام میں در اصل بھید بھاؤ کا تصور ناپید ہے۔ لیکن مسلمان جہاں بھی ہوتے ہیں وہاں کے رسم ورواج اور رہن سہن کا ان کی زندگی کے ہر پہلو پر بڑا گہرا اثر پایا جاتا ہے۔ مسلمانوں میں اپنے چچازاد بھائی بہنوں کا نکاح صحیح سمجھا جاتا ہے۔ لیکن یہی تصور ہندؤوں میں خلاف دھرم سمجھاجاتا ہے۔ مسلمانوں میں ایسی ہی شادیوں پر اردو کی مندرجہ ذیل دو کہاوتیں بولی جاتی ہیں۔

          1۔ گھر کی بیٹی گھر کی بہو۔

          2۔ آدھا آنگن سسرال اور آدھا آنگن میکا۔

          ہندوستان میں جب مسلمانوں کا عروج تھا اس وقت عام طور سے مسلمانوں کے درمیان تین طبقات ہوا کرتے تھے۔ دنیوی اعتبار امراء، اور اگر پاس میں کچھ بھی نہ ہو تو فقیروں کا بھیس اور مرنے کے بعد پیر اور ولی اللہ ہوجاتے تھے۔ اسی بات کی طرف اس کہاوت (بڑھا تو امیر، گھنا تو فقیر، مرا تو پیر) میں اشارہ کیا گیا ہے۔

          مسلمانوں کے درمیان جہاد کی اہمیت مسلم تھی اسی وجہ سے جنگ آزادی میں مسلمانوں نے اپنے خون سے اس سرزمیں کو آزاد کروایا ہے۔ اس بات پر اختلاف رائے کی گنجائش نہیں ہے۔ مسلمانوں میں جہاد کے جذبے کو دیکھتے ہوئے نیچے کی دو کہاوتیں اردو میں موجود ہے۔

                   1۔ مرے تو شہید نہیں تو غازی۔

                   2۔ بچے تو غازی نہیں تو شہید۔

مسلمانوں کی پھوٹ اور آپسی نااتفاقی پر اردو میں کہاوت ہے کہ ” دوگھر مسلمانی، اس میں بھی آنا کانی”۔ اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو کہ آج بھی ہمیں سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔

          مغلوں کے ہندوستان میں آنے کی وجہ سے وسطی ایشیا کی کھانے پینے کی بہت سی چیزیں ہندوستان میں آئی۔ اسی میں سے ایک نان بھی ہے۔ عام طور سے مسلمان گھرانوں میں ہوتا یہ تھا کی گھر میں سالن بنالیتے تھے اور بازار سے نان لیکر کے آجایا کرتے تھے۔ مسلمانوں کی دیکھا دیکھی ہندؤوں میں بھی اس کا رواج ہوگیا ۔ اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ کہاوت (رام جی نے بیٹا دیا وہ بھی مسلمان کا، پوری کچوری کھاتا نہیں ، مانگے ٹکڑا نان کا) اس زمانے کی سچائی بتاتی ہے ۔

          اونچ نیچ یا ذات پات کا تصور کسی زبان کے کہاوتوں میں ہونے سے اس زبان کی قدر وقیمت کم نہیں ہوتی ہے۔ اردو زبان کی کہاوتیں اپنے ماضی کے ہندو مسلم کی تہذیب کے مشترکہ عناصر کو اپنے اندر محفوظ کئے ہے۔ یہ مقالہ اس سیمنار کو پیش نظر رکھ کر کے ترتیب دیا گیا ہے۔ اس میں اور ساری باتیں بھی تھی جوکہ خوف طوالت سے بیان نہیں کیا گیا ہے۔ ذات پات کے حوالے جو کہاوتیں اوپر بیان کی گئی وہ ایک جھلک ہے کہ ہماری زبان میں اس زمانے کے تصورات اور سماج کے طبقاتی نظام کا نقشہ کس طرح سے موجود ہے۔

مصادر و مراجع

          1۔ قمر رئیس، اردو میں لوک ادب، نریندر ناتھ سوز، 1990۔

          2۔ شریف احمد قریشی، کہاوتیں اور ان کا حکایتی و تلمیحی پس منظر، خدا بخش لائبریری، پٹنہ، 2003

          3۔شریف احمد قریشی، اردو کہاوتیں، بک کانر ، پاکستان، 2016۔

          4۔یونس اگاسکر، اردو کہاوتیں اور ان کا سماجی و لسانی پہلو، موڈرن پنلیشنگ ہاؤس، دریاگنج، نئی دہلی، 2004۔

          5۔نذر عابد، مالک رام، اردو محاوروں اور کہاوتوں کی سماجی توجیہہ، گوپی چند نارنگ، مجلس نذر عابد، نئی دہلی، 1974۔

          6۔ سیفی پریمی، کہاوت اور کہانی، مکتبہ پیام تعلیم، نئی دہلی، 1983۔

          7۔Risley Herbert, The People of India, Calcutta & Shimla: Thacker, Spink & Co. 1915

Thanzel Alam Hudawi

PM Yuva Author and Research Scholar

Leave a Reply