
ڈاکٹر مجاہد الاسلام (اسسٹنٹ پروفیسر)
شعبۂ اردو ،مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی ،لکھنؤ کیمپس،لکھنؤ
اردو کی بقا: فاروقی کی فکر اور ہمارا رویہ
اردو زبان محض ایک لسانی وسیلہ نہیں بلکہ برصغیر کی اجتماعی روح اور تہذیبی حافظے کی جیتی جاگتی علامت ہے۔ یہ صدیوں پر پھیلی مشترکہ تاریخ، رنگا رنگ ثقافتوں اور مختلف مذاہب کے درمیان ایک مضبوط پل کی حیثیت رکھتی آئی ہے۔ شمس الرحمن فاروقی ہمیشہ اس حقیقت پر زور دیتے ہیں کہ اردو کو کسی ایک مذہب، طبقے یا قومیت کی جاگیر سمجھنا، اس کے اصل مزاج اور وسعت کے ساتھ ناانصافی ہے۔ ان کے نزدیک اردو سے وابستگی صرف زبان سے محبت نہیں بلکہ تہذیبی خودشناسی اور تاریخی شعور کا اظہار ہے۔اسی موقف کی وضاحت کرتے ہوئے وہ نہایت دوٹوک الفاظ میں کہتے ہیں:
’’ڈاکٹر گیان چند یا کسی بھی مسلمان یا غیر مسلم بڑے آدمی یا ادیب کے کہہ دینے سے حقیقت نہیں بدلتی، حقیقت یہ ہے کہ اردو صرف مسلمانوں کی زبان نہیں ہے۔ اردو برصغیر کی غالبا ًواحد زبان ہے جس کے لکھنے اور پڑھنے والوں میں ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی، پارسی، بدھ، جین، ہندوستانی اور غیر ملکی شانہ بشانہ نظر آتے ہیں۔ بعض لوگوں نے اپنی سیاسی مصلحت یا فائدے کی بنا پر اردو کو مسلمانوں کی زبان کہہ دیا تو اس سے حقیقت تو نہیں بدل گئی۔ یہ بات صحیح ہے کہ آج ہندوستان میں اردو بولنے والوں کی زیادہ تر تعداد مسلمان ہے، لیکن سارے اردو بولنے والے، پڑھنے والے مسلمان نہیں ہیں۔۔۔۔۔ میں ایسے متعدد ہندوؤں کو جانتا ہوں جو ہندی کے طالب علم تھے لیکن انہوں نے اردو کی محبت میں اردو زبان سیکھی، اس کا رسم الخط سیکھا اور اس میں شعر گوئی یا افسانہ نگاری کو اختیار کیا۔‘‘(فاروقی محو گفتگو،مرتب :رحیل صدیقی ،رعنا کتاب گھر ،نئی دہلی ، 2004ص18)
یہ اقتباس اس بات کی روشن مثال ہے کہ اردو کا دائرہ محض کسی ایک طبقے یا مذہب تک محدود نہیں، بلکہ اس کا مزاج سب کو ساتھ لے کر چلنے والا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فاروقی نوجوان نسل کو پیغام دیتے ہیں کہ وہ اس زبان کے بارے میں کسی قسم کے احساسِ کمتری یا مدافعانہ رویے کا شکار نہ ہوں، بلکہ اسے اپنی شناخت اور فخر کا حصہ بنائیں۔اقتباس ملاحظہ ہو:
’’نوجوان نسل اردو زبان، اس کے رسم الخط اور املا کے بارے میں کسی قسم کا مدافعانہ یا شرمندگی کا رویہ نہ رکھے بلکہ ڈنکے کی چوٹ پر کہے کہ ہمیں زبان پر فخر ہے اور اس سے محبت ہے۔ ہمیں اس میں کوئی برائی نظر نہیں آتی، اور اگر کوئی برائی ہو بھی تو ہم اسے اچھائی ہی سمجھتے ہیں کیونکہ محبت کرنے والے کو محبوب میں اچھائیاں ہی نظر آتی ہیں۔ نئے لوگ اردو زبان کے بارے میں یہ نہ گمان کریں کہ یہ لشکری زبان ہے یا صرف مسلمانوں کی زبان ہے، بلکہ یہ جانیں کہ اردو برصغیر میں پیدا ہوئی اور برصغیر کے تمام باسیوں کا اس پر حق ہے۔‘‘(ایضاً، ص :278)
فاروقی کا یہ موقف ایک وسیع المشرب اور غیرمتعصب فکری رویے کی عکاسی کرتا ہے جو اردو کو تقسیم نہیں بلکہ وحدت کی پہچان سمجھتا ہے۔ ان کے نزدیک اردو کا رسم الخط، املا اور لسانی حسن صرف ادبی یا فنی نہیں بلکہ تہذیبی ورثے کی علامت ہیں، جن کی حفاظت ماضی کو زندہ رکھ کر حال اور مستقبل کو تقویت دیتی ہے۔ یہی طرزِ فکر نوجوان نسل کے لیے زبان سے رشتہ مضبوط کرنے کی اصل بنیاد فراہم کرتا ہے، اور اردو کو محض ماضی کی یادگار نہیں بلکہ ایک زندہ، سانس لیتی حقیقت میں بدل دیتا ہے۔
شمس الرحمن فاروقی کے نزدیک زبان کا رسم الخط محض تحریری علامتوں کا مجموعہ نہیں بلکہ اس کی تاریخی شناخت، تہذیبی وراثت اور فکری روح کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ ان کے خیال میں رسم الخط کو بدل دینا دراصل زبان کی بنیادی ساخت اور اس کے تاریخی تسلسل کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہر زبان کے مروجہ رسم الخط کے تحفظ کو ناگزیر سمجھتے ہیں، اور اردو کے معاملے میں یہ یقین اور بھی مضبوط اور غیر متزلزل ہو جاتا ہے۔ ان کے نزدیک اردو کے رسم الخط میں تبدیلی صرف ایک لسانی مسئلہ نہیں بلکہ تہذیبی حافظے کو مٹانے کے برابر ہے۔ جیسا کہ وہ واضح کرتے ہیں:
’’میں اس موضوع پر ایک سے زیادہ بار اظہارِ خیال کر چکا ہوں، میں ہر زبان کو اس کے رائج رسم الخط میں قائم رکھنے کے حق میں ہوں۔ اردو کے بارے میں تو میری مصمم رائے یہ ہے کہ اس کے رسم الخط میں تبدیلی اس کے لیے سمِ قاتل ہوگی۔‘‘(ایضاً، ص :17)
فاروقی کا یہ موقف ایک گہری تہذیبی بصیرت کا اظہار ہے، جو رسم الخط کو محض لکھنے کا طریقہ نہیں بلکہ شناخت، روایت اور زبان کی بقا کا ضامن سمجھتا ہے۔ ان کے نزدیک اگر اردو اپنا رسم الخط کھو دے تو وہ اپنی معنوی، تاریخی اور جمالیاتی قوت کا ایک اہم حصہ کھو بیٹھے گی۔ اسی لیے وہ متنبہ کرتے ہیں کہ زبان کا تحفظ صرف الفاظ کے ذخیرے کو محفوظ رکھنے سے ممکن نہیں، بلکہ اس کے رسم الخط اور اس سے جڑی تہذیبی علامتوں کو قائم رکھنے سے ہے۔فاروقی اردو زبان کے رسم الخط کو اس کی شناخت اور وجود کا لازمی جزو قرار دیتے ہیں۔ فاروقی کے نزدیک آزادی کے بعد اردو پر جو دبا ؤڈالا گیا، اس کی اصل غرض محض لسانی تبدیلی نہیں بلکہ زبان کو کمزور اور اس کی بنیاد کو متزلزل کرنا تھی۔ وہ رسم الخط کی تبدیلی کی مہمات کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور اسے جبر کی ایک صورت قرار دیتے ہیں:
’’اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ملک کی آزادی کے بعد اردو پر جو کڑا وقت پڑا، اس سے گھبرا کر بعض ترقی پسند بزرگوں نے رائے ظاہر کی کہ اردو کی بقا کے لیے ضروری ہے کہ اس کا رسم الخط دیوناگری کر دیا جائے۔ان بزرگوں میں احتشام صاحب مرحوم بھی شامل تھے، لیکن جلد ہی انہوں نے اپنی رائے بدل لی تھی۔ چنانچہ ایک بار جب بعض ترقی پسند ادیبوں، مثلا عصمت چغتائی مرحومہ وغیرہ، نے پھر یہ تجویز رکھی، تو میری درخواست پر احتشام صاحب نے ایک مضمون لکھا، جسے میں نے ’شبِ خوں ‘میں شائع کیا تھا۔ اس مضمون میں احتشام صاحب نے بہت زور دے کر رسم الخط کی تبدیلی کی مخالفت کی اور یہاں تک کہا کہ جو لوگ اردو رسم الخط بدل کر دیوناگری کرنا چاہتے ہیں، وہ فاشی ہیں۔‘‘(ایضاً، ص :273)
فاروقی کے نزدیک رسم الخط کی تبدیلی محض ایک لسانی بحث نہیں بلکہ تہذیبی شناخت پر براہِ راست حملہ ہے۔ وہ خبردار کرتے ہیں کہ ایسی تجاویز کو قبول کرنا گویا اردو کی روح کو ختم کرنے کے مترادف ہے، اس لیے زبان کے تحفظ کے لیے رسم الخط کی بقا پر ہر حال میں اصرار ضروری ہے۔
شمس الرحمن فاروقی اردو زبان کو صرف ایک فنی اظہار کا وسیلہ نہیں سمجھتے بلکہ اسے تہذیبی وقار، فکری نزاکت اور جمالیاتی لطافت کا گہوارہ مانتے ہیں۔ ان کے نزدیک زبان کی اصل خوبصورتی اس کے خالص ذخیروں، محاوروں اور تاریخی معنویت میں مضمر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ غیر ضروری لسانی آمیزش کو اردو کی روح کے لیے مضر سمجھتے ہیں، اور اس پر کھل کر بات کرتے ہیں:
’’پاکستان کی اردو میں پنجابی، سندھی اور انگریزی کے الفاظ نظر آتے ہیں تو ہندوستان کی اردو میں ہندی کے الفاظ و محاورات اور انگریزی کے الفاظ و استعمالات نظر آتے ہیں۔ غیر زبانوں کی یہ درآمدات اگر نئے تصورات، نئے معنی ہماری زبان میں لا رہی ہیں تو بڑی خوبی کی بات ہے، لیکن افسوس یہ ہے کہ ہندوستانی اور پاکستانی دونوں ملکوں کی اردو میں غیر زبانوں کے الفاظ و استعمالات اردو کے خوبصورت، سبک اور شیریں الفاظ و استعمالات کو بے دخل کر کے لائے جا رہے ہیں… یہ بات بہت تشویش ناک ہے، اردو بولنے لکھنے والے کو اس کی مکمل روک تھام کی کوشش کرنی چاہیے۔‘‘(ایضاً، ص :16)
یہ فکر محض لسانی قدامت پسندی نہیں بلکہ زبان کے حسن اور اس کی تہذیبی شناخت کی بقا کی جدوجہد ہے۔ فاروقی بارہا اس بات پر زور دیتے ہیں کہ تخلیقی اظہار کے لیے زبان کا بامحاورہ، شستہ اور مربوط ہونا ضروری ہے، اور غیر ضروری الفاظ کی آمیزش اس کے فطری آہنگ کو نقصان پہنچاتی ہے۔ اسی تناظر میں وہ ایک اور موقع پر یوں نصیحت کرتے ہیں:
’’اپنی زبان کو سادہ شستہ با محاورہ بنائیں۔غیر زبانوں کے الفاظ سے گریز کریں خاص کر جب اردو زبان میں ان کے متبادل الفاظ موجود ہیں۔‘‘(ایضاً، ص : 22)
فاروقی کا یہ موقف محض نظری سطح تک محدود نہیں رہا بلکہ وہ اس پر تفصیلی وضاحت بھی پیش کرتے ہیں کہ تخلیقی فنکار کو ضرورت پڑنے پر دوسری زبانوں سے الفاظ لینے کا حق ضرور ہے، مگر اس سے پہلے اپنی زبان کے ذخیرے کو برتنا چاہیے۔ اس فکر کو انہوں نے ایک اور گفتگو میں نہایت واضح پیرائے میں بیان کیا:
’’ہم لوگ اس وقت اردو زبان کے ساتھ بہت ہی ظلم کر رہے ہیں ۔۔۔۔جب تک آپ کی زبان اچھی نہیں ہوگی، بامحاورہ، شائستہ، مربوط، غیر زبانوں کے غیر ضروری الفاظ سے پاک اور آزاد نہیں ہوگی تب تک آپ تخلیقی اظہار کی ضرورتیں پوری نہیں کر سکتے۔۔۔۔تخلیقی فنکار کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی زبان سے جو لفظ چاہے اس کو استعمال کرے۔۔۔۔ لیکن پہلے اپنی زبان کے امکانات کو کھنگال کر دیکھ لو کہ تمہارے مافی الضمیر کو ادا کرنے کے لیے تمہارے یہاں لفظ ہے کہ نہیں۔۔۔۔ اب یہ ہو رہا ہے کہ۔۔۔۔ اردو کے اچھے، سبک، خوبصورت، رائج، شیریں اور بامعنی الفاظ کو نکال کر انگریزی اور ہندی کے غیر ضروری الفاظ رکھے جا رہے ہیں۔۔۔۔ اس سے آپ کی تخلیق کی اظہاراتی قوت کم ہو رہی ہے۔۔۔۔۔ رائج زبان تو کچھ بھی نہیں ہوتی۔۔۔۔۔‘‘(ایضاً، ص :296)
یوں فاروقی کی نظر میں اردو زبان کا اصل حسن اس کے اپنے مروجہ اور لطیف الفاظ میں پوشیدہ ہے۔ ان کے نزدیک زبان کو سنوارنے کا عمل صرف الفاظ کے انتخاب تک محدود نہیں بلکہ اس کی تہذیبی شناخت، ادبی وقار اور اظہار کی قوت کو محفوظ رکھنے کا نام ہے۔ یہی وہ رویہ ہے جو اردو کو محض ایک رابطے کی زبان نہیں بلکہ تہذیب و فکر کا آئینہ دار بناتا ہے۔
فاروقی اردو کے مستقبل کو محض ادبی خواب یا جذباتی وابستگی کی نظر سے نہیں دیکھتے بلکہ تاریخ، سیاست اور معاشرتی جدوجہد کی روشنی میں پرکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک اردو کی بقا ایک مسلسل مزاحمت اور استقامت کی داستان ہے، جو تقسیمِ ہند سے پہلے ہی شروع ہو چکی تھی۔ وہ نشاندہی کرتے ہیں کہ اردو کے خلاف اقدامات نہ حادثاتی تھے اور نہ ہی وقتی، بلکہ ایک منظم منصوبے کا حصہ تھے جن کا مقصد زبان کو تعلیمی اور سرکاری دائرے سے نکال کر اس کی تہذیبی بنیادوں کو کمزور کرنا تھا:
’’حکومتِ ہند کا ایک بڑا افسر ہوتے ہوئے بھی میں نے یہ بات کہی اور بار بار کہی کہ 1949 آتے آتے یو پی میں اردو کوبالکل ختم کر دیا گیا… اردو پر ظلم کا زمانہ 1947 میں نہیں بلکہ 1935 میں شروع ہوا… اردو کو ختم کرنے کے لیے آخری حملہ 1975 میں یو پی میں کیا گیا… لیکن اردو پھر بھی زندہ رہی، پھولتی پھلتی رہی… کچھ لوگ کہتے ہیں، پاکستان اردو کو لے کر 1947 میں بھاگ گیا،یہ غلط ہے، اردو ہندوستان میں اب بھی موجود ہے، اردو والا مرا نہیں ہے۔‘‘(ایضاً، ص : 210)
فاروقی کے نزدیک اردو کی تاریخ صرف زوال اور محرومی کی نہیں بلکہ ایک ایسی داستان ہے جو بار بار کچلے جانے کے باوجود زندہ رہنے کی قوت رکھتی ہے۔ ان کے نزدیک یہ زبان نہ کسی ایک خطے کی جاگیر ہے نہ ماضی کی مٹی میں دفن ہو چکی ہے۔وہ زبان کی اصل طاقت ریاستی سرپرستی کے بجائے عوام کی عملی وابستگی میں دیکھتے ہیں۔ فاروقی اپنے مشاہدات سے بتاتے ہیں کہ کس طرح عوام نے سرکاری بے اعتنائی کے باوجود عمل کا راستہ اپنایا، مذہبی و تعلیمی اداروں نے خاموشی سے کردار ادا کیا، اور دیہات سے شہروں تک اردو کی شمع جلتی رہی:
’’کچھ ہم لوگوں نے ، اردو کے اپنے بولنے والوں نے زور لگایا کچھ اس میں تھوڑا سا مذہبی معاملہ بھی لایا گیا ۔۔۔۔۔دینی تعلیمی کونسل نے بلا کسی شور و غل کے دیہاتوں میں اسکول کھولے… آخر کار عام اردو والوں کو بھی سمجھ میں آ گیا کہ سرکار سے مانگنے سے کچھ ملتا ولتا نہیں، یہ تو لڑ کر ملے گا… لیکن اگر اپنے گھروں میں اردو پڑھو اور پڑھا ؤاب پہلے سے فرق پڑ گیا ہے۔‘‘(ایضاً، ص :256)
فاروقی کا پیغام واضح ہے۔زبان کی بقا کا حقیقی راز گھریلو ماحول اور عوامی عمل میں ہے۔ اگر اردو گھروں میں زندہ رہے تو کوئی سیاسی سازش یا تعلیمی پالیسی اسے مٹا نہیں سکتی۔ یہ مزاحمت محض دفاع نہیں بلکہ ایک تخلیقی کوشش ہے جو ماضی کی وراثت کو محفوظ رکھتے ہوئے مستقبل کو روشن بناتی ہے۔ یہی یقین فاروقی کو اردو کے لیے پرامید اور پرعزم رکھتا ہے۔
فاروقی کا یہ بیان واضح کرتا ہے کہ زبان کی بقا کا انحصار صرف ریاستی یا ادارہ جاتی منصوبوں پر نہیں بلکہ عوامی سطح پر اس کے زندہ استعمال اور گھریلو تربیت پر ہے۔ ان کے نزدیک کوئی بھی مخالفت یا سازش اس وقت تک اردو کو ختم نہیں کر سکتی جب تک اس کے بولنے والے گھروں، محلوں اور روزمرہ زندگی میں اسے پڑھتے، لکھتے اور سکھاتے رہیں۔ یہی طرزِ عمل نہ صرف اس کے ماضی کی حفاظت کرتا ہے بلکہ اس کے روشن مستقبل کی ضمانت بھی بنتا ہے۔اسی حقیقت کو مزید واضح کرتے ہوئے فاروقی گھریلو ماحول اور والدین کی دلچسپی کو زبان کے تحفظ کا بنیادی عنصر قرار دیتے ہیں۔ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ تعلیمی ادارے زبان کے فروغ میں اپنا کردار ضرور ادا کرتے ہیں، لیکن اصل تربیت اور لسانی ذوق گھر ہی سے جنم لیتا ہے۔ اپنی ذاتی زندگی کی مثال پیش کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ ان کے خاندان میں مختلف نسلوں کے درمیان اردو سے وابستگی کا معیار کس طرح بدلتا رہا:
’’ہم لوگ دونوں طرف سے بہت ہی پرانے عالم۔۔۔ میرے باپ ظاہر کہ ہے فارسی خوب جانتے تھے، اردو خوب جانتے تھے، عربی جانتے تھے، انگلش تو جانتے ہی تھے۔ہم کو انہوں نے بتایا کہ فارسی اور اردو وغیرہ گھر میں پڑھا کرو ،تو اسکول جانے سے پہلے ہم لوگوں نے گھر پر پڑھی۔۔۔۔ میرا جو چھوٹا بھائی ہے ۔۔۔۔وہ بھی اردو پڑھ لکھ لیتا ہے ،جو بیچ کے تین بھائی ۔۔۔۔ ہیں وہ اردو پڑھ لکھ تو لیتے ہیں لیکن اس میںCompetentنہیں ہیں۔۔۔۔ پھر میرے آخری دو بھائی جو ہیں وہ کچھ ٹھیک سے اردو پڑھ لیتے ہیں۔۔۔۔ ایسے گھرانے میں جس میں کہ اردو کے بارے میں خیال تھا کہ یہ تو گھر کی لونڈی ہے۔۔۔۔ اس گھر میں یہ ہوا کہ میرے تیسرے چوتھے سگے بھائی۔۔۔۔ بالکل اسکولی بچوں کی سطح کے اردو پڑھتے لکھتے بولتے ہیں۔۔۔۔۔ یہ فرق پڑا ہے۔۔۔۔۔ اس روداد کے آئینے میں تم اردو کا حال کچھ دیکھ سکتے ہو۔ ہاںجو نسل میرے بعد کی ہے یعنی ہمارے بیٹیاں بیٹے تو ان سب کو اردو آتی ہے۔۔۔۔ یہ ان کے والدین کی دلچسپی پر منحصر ہے۔‘‘(ایضاً، ص :257)
فاروقی اس تجربے سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ زبان کا تحفظ اداروں سے زیادہ گھریلو تربیت اور روزمرہ کے استعمال پر موقوف ہے۔ اگر والدین بچپن سے بچوں کو زبان پڑھنے، سننے اور بولنے کا ماحول فراہم کریں تو یہ دلچسپی اور مہارت نسل در نسل منتقل ہوتی ہے۔ اسی لیے وہ اردو کے مستقبل کو گھر کی فضا اور والدین کے ذوق سے جڑا ہوا سمجھتے ہیں۔فاروقی کی نظر میں اردو محض برصغیر کی زبان نہیں بلکہ ایک عالمی زبان ہے۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اگرچہ اردو عمر کے اعتبار سے نسبتا نئی ہے اور اس کے بولنے والوں کے پاس عربی بولنے والوں جیسی سیاسی طاقت نہیں، پھر بھی اس نے جغرافیائی سرحدیں اور ثقافتی فاصلے عبور کر کے دنیا کے ہر کونے میں اپنی موجودگی درج کرا لی ہے:
’’اگرچہ اردو ایک چھوٹی زبان ہے اور عمر بھی اس کی ابھی بہت کم ہے، اس کے بولنے والوں کی کوئی سیاسی قوت نہیں ہے جیسی عربی بولنے والوں کی ہے لیکن پھر بھی اردو اس وقت دنیا کی چند ایک زبانوں میں ہے جو بھی حقیقی طور پر بین الاقوامی ہیں۔ یعنی آپ کو اردو بولنے والا، اردو لکھنے والا، اردو میں شعر کہنے والا، اورتخلیقی کام کرنے والا دنیا کے ہر کونے میں مل جائے۔ اب یہ لوگ اکثر ملکوں میں اتنی تعداد میں مل جائیں گے کہ وہ اپنی ایک حیثیت، اپنی جماعت، اپنی انجمن قائم کر سکتے ہیں۔۔۔۔ لیکن میں اتنا کہہ سکتا ہوں کہ شاید کوئی بہت ہی بدنصیبی کا معاملہ ہو تو ہو، ورنہ عام طور پر اگر ایک شخص اردو بولتا ہوا نکلے تو وہ ٹوکیو سے الاسکا تک بخوبی زندہ رہ سکتا ہے۔‘‘ (ایضاً، ص :195)
فاروقی کے نزدیک اردو کی یہ عالمی موجودگی محض اعداد و شمار کا معاملہ نہیں بلکہ اس کی ادبی اور تہذیبی وسعت کا ثبوت ہے۔ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے بولنے والوں کے ذریعے یہ زبان نہ صرف برصغیر کی تہذیبی پہچان لیے ہوئے ہے بلکہ کثیرالثقافتی ماحول میں بھی زندہ اور موثر رہنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہی پہلو اسے بین الاقوامی سطح پر ادبی و لسانی مکالمے کی ایک اہم قوت بناتا ہے۔
شمس الرحمن فاروقی اردو اور انگریزی کے تعلق کو توازن اور حقیقت پسندی کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ وہ انگریزی کو حصولِ علم اور پیشہ ورانہ ترقی کے لیے اہم تسلیم کرتے ہیں، لیکن اس بنیاد پر اردو کو پسِ پشت ڈالنے کو ناانصافی اور خود فریبی سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک اصل مسئلہ زبان کی افادیت نہیں بلکہ اس کے بارے میں ہمارا رویہ ہے ایسا رویہ جو سہل پسندی اور بہانہ تراشی پر مبنی ہوتا ہے۔ اس طرح کے رویے پر سخت تنقید کرتے ہیں:
’’میں یہ کہتا ہی نہیں کہ تم اپنے بچوں کو اردو سکھاؤ انگریزی مت سکھا ؤ یہ تو کوئی نہیں کہہ سکتا۔ ہندوستان میں ہمارے بعض ترقی پسند بزرگوں نے اتنا بڑا جھوٹ بولا کہ اردو اس لیے ترقی نہیں کر سکتی کہ روزی روٹی سے اردو کا معاملہ جڑا نہیں ہے۔ یہ فقرہ ہی بتا رہا ہے کہ اس کا بنانے والا اردو سے نا بلد ہے۔ آج پاکستان، ہندوستان میں آپ کو صرف ہندی یا اردو پڑھ کر کون سی نوکری مل سکتی ہے؟ آج کوئی آدمی ہندوستان میں ایسا نہیں ہے جو صرف ہندی کے بل بوتے پر کسی بڑے ادارے کا سربراہ ہو، کسی یونیورسٹی میں ہندی کے علاوہ کسی مضمون کا پروفیسر ہو یا انجینیئر ہو۔ میں تو صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ یہ کہنا کہ اردو پڑھنے سے نوکری نہیں ملتی محض نہ پڑھنے کا بہانہ ہے۔ لوگ اپنے بچوں کو کئی کئی میل دور انگریزی پڑھنے کے لیے بھیج سکتے ہیں لیکن انہوں نے اردو اس بہانے سے نہیں پڑھاتے کہ پاس میں کوئی اردو اسکول نہیں ہے۔‘‘(ایضاً، ص :209)
فاروقی کے اس موقف میں واضح پیغام ہے کہ زبان کا مستقبل اس کے بولنے والوں کی ترجیحات اور عزم پر منحصر ہے۔ انگریزی سیکھنا زمانے کی ضرورت سہی، لیکن اس کے ساتھ اردو کی تعلیم کو ترک کرنا اپنی تہذیبی اور لسانی شناخت سے دستبرداری کے مترادف ہے۔ ان کے مطابق اردو کی بقا کے لیے سنجیدہ رویہ اور عملی اقدامات ضروری ہیں، نہ کہ محض بہانے تراشنے کی عادت۔یوں فاروقی کے نزدیک اردو محض ایک زبان نہیں بلکہ ایک تہذیبی وجود ہے۔ اس کی بقا رسم الخط کی حفاظت، خالص لسانی ذخیرے کے تحفظ، والدین کی دلچسپی اور سماجی وقار سے ممکن ہے۔
فاروقی کے خیالات اس بات کا ثبوت ہیں کہ اردو کا مستقبل محفوظ ہے، بس شرط یہ ہے کہ ہم اپنی زبان سے وہی محبت کریں جو انہوں نے ساری عمر کی۔فاروقی کی فکر ہمیں یہ باور کراتی ہے کہ اردو صرف ایک زبان نہیں بلکہ برصغیر کی تہذیبی روح اور اجتماعی حافظے کا استعارہ ہے۔ ان کے نزدیک اس کی بقا رسم الخط کے تحفظ، خالص لسانی ذخیرے اور جمالیات کی حفاظت، گھریلو تربیت اور سماجی وقار پر منحصر ہے۔ وہ رسم الخط کو زبان کی تاریخی شناخت کا لازمی جزو سمجھتے ہیں اور اس میں تبدیلی کو تہذیبی بنیاد پر حملہ قرار دیتے ہیں۔ ان کا اصرار ہے کہ غیر ضروری لسانی آمیزش اردو کی مٹھاس اور وقار کو مجروح کرتی ہے، اس لیے بامحاورہ اور خالص الفاظ کو زندہ رکھنا ضروری ہے۔
فاروقی کے نزدیک زبان کی اصل حفاظت گھروں میں اس کے روزمرہ استعمال اور والدین کی دلچسپی سے ممکن ہے، نہ کہ صرف ادارہ جاتی سطح پر۔ وہ اردو کو فرقہ وارانہ یا طبقاتی قید سے آزاد سمجھتے ہیں اور اسے وحدت کی علامت قرار دیتے ہیں۔ انگریزی یا کسی دوسری زبان سیکھنے کی ضرورت کو وہ تسلیم کرتے ہیں، مگر اس بہانے اردو کو پسِ پشت ڈالنے کو تہذیبی خودکشی سمجھتے ہیں۔ وہ اردو کو ایک بین الاقوامی زبان کے طور پر دیکھتے ہیں جو دنیا کے ہر خطے میں اپنے بولنے والوں کے ذریعے زندہ ہے، لیکن ان کے نزدیک زبان کی اصل قوت اس کے چاہنے والوں کی محبت اور عملی وابستگی ہے۔فاروقی کا پیغام یہ ہے کہ اردو کی بقا کا انحصار ریاستی پالیسیوں سے زیادہ ہمارے رویے، محبت اور مستقل کوششوں پر ہے۔ اگر ہم اپنی زبان سے وہی تعلق قائم رکھیں جو انہوں نے اپنی زندگی میں رکھا، تو آنے والے زمانے میں بھی اردو اپنی تہذیبی شان کے ساتھ زندہ اور تابندہ رہے گی۔ جیسا کہ وہ خود اپنے بارے میں نہایت سادگی اور خلوص سے کہتے ہیں:
’’ہاں اردو ادب کے حوالے سے یہ کہوں گا کہ میں نے اردو ادب کی خدمت ایسے کی ہے جیسے کوئی اپنے والدین کی خدمت کرتا ہے۔‘‘(ایضاً، ص : 192)
یہ جملہ محض دعوی نہیں، بلکہ فاروقی کی پوری زندگی کا نچوڑ ہے۔ اس میں محبت، احترام، قربانی اور خدمت کا وہ جذبہ جھلکتا ہے جو کسی زبان کو صرف علمی نہیں بلکہ تہذیبی سطح پر بھی زندہ رکھتا ہے۔ ان کے نزدیک زبان کے ساتھ یہ تعلق ہی اس زبان کی بقا کی سب سے بڑی ضمانت ہے۔(ختم شد)
9628845713
mujahiddr@gmail.com