You are currently viewing اردو کی نئی بستیوں میں فکشن نگار طارق محمود مرزا

اردو کی نئی بستیوں میں فکشن نگار طارق محمود مرزا

ڈاکٹر رفعت جمال

(برکت اللہ یونیورسٹی، بھوپال)

اردو کی نئی بستیوں میں فکشن نگار طارق محمود مرزا

اردو دنیاکے حدود پھیلنے کے ساتھ ساتھ نئے نئے امکانات روشن ہوئے ہیں۔ برعظیم ہندوپاک کے باہر اردو بولنے اور پڑھنے والوں کی آبادی بڑھنے کے ساتھ عالمی سطح پر تہذیبی رابطوںکی جو راہیں کھلیں، ان میں زبانوں کا بڑا حصّہ ہے۔ جو پہلے رسل و رسائل کی پابندیوں کی بناء پر اپنے علاقوں کے باہر بہت کم جانی جاتی تھیں۔ ہندوستان کے مختلف علاقوں کی زبانیں آزادی کے بعد جس تیزرفتاری سے بیرونِ ملک پہنچیں اور وہاں کے مقامی لوگوں نے ان کو سیکھنے اور سکھانے کی طرف توجہ دی، اس لیے زبانیںبھی مالامال ہوئیں اور مختلف علاقوں کی تہذیبوں میں بھی نئے رنگوں کی آمیزش ہونے لگی۔ آج دنیا کے ہر خطے میں اردو آبادی نہ صرف موجود ہے بلکہ ہمارے ادب کا سرمایہ وسیع ہورہا ہے۔ محفلوں، تقریبوں اور جلسوں کے ذریعہ نئی نئی آوازیں وہاں کی فضا میں گونجنے لگی ہیں۔ ان ہی کے ساتھ رسالوں، کتابوں اور اخبارات کی اشاعت بھی بڑھ رہی ہے۔ اردو کی نشرواشاعت میں جدید ٹیکنالوجی سے کام لیا جارہا ہے۔ اس نئے ماحول کی یہ دین ہے کہ ہم آئے دن ایسے ادب سے روشناس ہوتے ہیں جو برّعظیم سے باہر نئی زمینوں میں جنم لے رہا ہے۔ نئی اور اجنبی فضا میں لہجوں، ہیئتوں اور اصناف کے نئے نئے روپ سامنے آرہے ہیں۔

اردو کی نئی بستیاں آباد کرنے والے وہ لوگ ہیں، جنھوں نے برصغیر سے باہر دوسرے ممالک میں سکونت اختیار کرلی ہے۔ اردو کی نئی بستیوں سے مراد یہ نہیں ہے کہ کسی ایک علاقے نے اردو کو اپنی زبان بنانے کا فیصلہ کرلیا اور اُردو وہاں رائج کردی گئی اور اس علاقہ کو اردو کی نئی بستیوں میں  شمار کرلیا گیا۔ ’’بستی بسنا کھیل نہیں یہ بستے بستے بستی ہیں‘‘۔ لہٰذا یہ بستیاں آہستہ آہستہ آباد ہوئی ہیں۔ جب اردو بولنے اور پڑھنے والے ایک علاقہ میں جمع ہوتے اور ایک دوسرے سے رابطہ کرتے تو اردو کا سہارا لیتے، حالانکہ ان لوگوں کا تعلق ماضی میں برصغیر کی مختلف علاقائی زبانوں اور تہذیب و تمدن سے جڑا ہوا تھا۔ لیکن باہر انھیں آپس میں اسی زبان سے جوڑے رکھا۔ اس طرح سے اردو کی نئی بستیوں میں پرانی ادبی روایت کو فروغ ملتا رہا ہے۔

’’خوشبو کا سفر‘‘ (سفرنامہ) ، ’’سفرِعشق‘‘ (رودادِ حج) اور ’’تلاشِ راہ‘‘ (افسانے) میرے عزیز گرامی جناب طارق محمود مرزا کی تین کتابیں مجھے سڈنی (آسٹریلیا) سے موصول ہوئی ہیں، میں نے انھیں پڑھا تو دل نے مختلف رنگوں اور کیفیتوں میں ڈوبی اِن کتابوں پر کچھ لکھنے کی تحریک کی۔

یہ بھی بتاتی چلوں کہ محترم طارق محمود مرزا صاحب پاکستانی نژاد لیکن آسٹریلیا میں مقیم ہیں، اُن کی تحریریں آسٹریلیا، پاکستان اور ہندوستان کے اخبارات و رسائل کی زینت بنیں تو بزرگوں اور ساتھیوں نے کاغذ وقلم کے اِس رشتہ کو مزید پروان چڑھانے کا مشورہ دیا جسے اُنھوں نے حکم و ہمت افزائی تصور کرکے اِس کاروبارِ شوق کو مزید بڑھاوا دیا، یوروپ کے سفر پر گئے تو وہاں کا سفرنامہ ’’خوشبو کا سفر‘‘ کے نام سے لکھ دیا، عازمِ حج ہوئے تو ’’سفرِ عشق‘‘ رقم کردیا جو دلی جذبات، محبتِ رسولؐ اور عشقِ الٰہی کا نہایت مؤثر مرقع ہے۔ طارق محمود مرزا صاحب بقول خود اُن کے بنیادی طور پر کہانی کار ہیں، یوں تو اُنھوں نے سیاسی، سماجی، معاشرتی اور فکاہیہ مضامین اور ڈرامے بھی قلم بند کیے لیکن کہانیاں لکھنا اُن کا سب سے محبوب مشغلہ رہا ہے۔ اِن کہانیوں کا ایک انتخاب’’تلاشِ راہ‘‘ کے زیرِ عنوان اُنھوں نے مرتب کرکے شائع کرایا ہے، خاص بات یہ ہے کہ یہ افسانے اُن کے ذاتی مشاہدے، مطالعے اور تجربے پر مشتمل ہیں اور اُن کے کردار عام کہانیوں سے قدرے مختلف ہیں۔ اِن میں ملکی اور بین الاقوامی سبھی طرح کے کردار ملتے ہیں، جن کو اُنھوں نے جیسا دیکھا، پرکھا، محسوس کیااُسی طرح من و عن اُن کی عکاسی کردی ہے۔ اِسی لیے یہ کہانیاں اپنے موضوع و مواد کے لحاظ سے کافی مختلف ہیں، اِن میں سے کئی کہانیوں کا ترجمہ انگریزی کے علاوہ دیگر زبانوں میں بھی ہوا ہے اور قارئین کی پسند کی سند بھی اُنھیں حاصل ہوئی ہے، ہدوپاک کے مختلف شہروں اور علاقوں سے اُنھیں خط اور ای میل کے ذریعے قارئین کے جذبات و احساسات ملتے رہتے ہیں۔

اِن کہانیوں کا پڑھ کر یہ اندازہ لگانے میں دیر نہیں لگتی کہ محترم طارق مرزا ایک دلِ دردمند کے مالک اور جذباتی انسان ہیں، اُن کی نظر میں انسانیت اور اُس سے وابستہ قدروں کا بڑا پاس ولحاظ ہے، وہ ایک تعمیری فکر اور مثبت نقطۂ نظر کے مالک ہیں جس کے اظہار کے لیے وہ زبان بھی بڑی سلیس و شاستہ استعمال کرتے ہیں، طارق صاحب کے مذکورہ افسانوں میں مجھے انسانی دکھ و تکالیف کا انعکاس، سماجی اونچ نیچ کے خلاف واضح ردّعمل اور معاشی و معاشرتی تفریق کی عکاسی جابجا نظر آئی اور ایسا محسوس ہوا کہ ہم بھی اُن کی کہانیوں کا حصّہ ہیں۔ مصنف نے افسانوں کے اِس مجموعہ میں دو کے سوا سبھی وہی کہانیاں منتخب کی ہیں جو پہلے ادبی رسائل میں شائع ہوکر مقبول ہوچکی ہیں صرف ’بازگشت‘ اور ’تلاشِ راہ‘ غیرمطبوعہ کہانیاں ہیں۔ اِن میں بھی آخری کہانی اُن کی اپنی سرگزشت ہے اور پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ اِس کی ایک اور کہانی ’’چاچا ٹیکسی‘‘ کا انگریزی سمیت کئی زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔

’’خوشبو کا سفر‘‘ محترم طارق محمود کا وہ سفرنامہ ہے جو اُنھوں نے یوروپ کے سفر سے لوٹ کر لکھا اور یہ عام سفرناموں سے کافی مختلف ہے۔ اِس میں پڑھنے والے کو یوروپ کی تاریخ و جغرافیہ ہی نہیں، وہاں کی معاشرت، تہذیب اور متنوع کردار بھی مل جاتے ہیں اور امریکہ، آسٹریلیا نیز جنوبی افریقہ کے لوگوں کے رہن سہن، مسائل و معاشرت سبھی کا تعارف ہوجاتا ہے اِسی لیے اِسے اردو ادب کے معیاری سفرناموں میں ہم شمار کرسکتے ہیں بحیثیت مجموعی ڈاکٹر محمودالرحمن کے الفاظ میں:

’’طارق محمود مرزا ’’خوشبو کے سفر‘‘ کے عنوان سے جو سفرنامہ لے کر آئے ہیں، وہ ایسی تحریر کا درجہ رکھتا ہے جو مختلف ملکوں کے سیاسی حالات، طرزِ جہاں بانی، لوگوں کے رہن سہن، تہذیب و تمدن اور نظریاتِ زندگی کا ٹھوس ثبوت فراہم کرتی ہے۔ اِس سفرنامے نے ہر خطے کے باسیوں کا خط وخاک اور رنگ و روپ اُجال دیا ہے، انھوں نے وہاں کے رہنے والوں کے من میں جھانک کر شعور کی رو اور ’خوئے حوا‘ کے جلترنگ کو بھی گننے کی کوشش کی ہے‘‘۔

   طارق محمود صاحب کی رودادِ سفر ’سفرِ عشق‘ درحقیقت موصوف کے جسمانی و روحانی تجربات کی روئیداد ہے۔ اِسے ہم روزنامچہ نہیں کہہ سکتے کیونکہ یہ اُن کی عقیدتوں کا سفرنامہ ہے جس میں اُنھوں نے مقامات مقدسہ کا حال ہی بیان نہیں کیا وہ قاری کو اپنے اندر کے محسوسات کی دنیا میں لے جاتے ہیں، خاص طور پر جب اُن کا قلم حرمین شریفین، روضہؐ رسول، میدانِ عرفات، وادیٔ منیٰ،مزدلفہ اور صفا ومروہ کا حال بیان کرتا ہے تو اُن پر وہ کیفیت طاری ہوجاتی ہے جس کو ہم شرفِ قبولیت سے تعبیر کرسکتے ہیں، اِس چھوٹے سے مضمون میں زیادہ مثالیں تو پیش نہیں کی جاسکتیں ایک دو ملاحظہ ہوں، روضۂ رسول نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر حاضری کے وقت اُن پر گزری کیفیت کو وہ اِن الفاظ میں بیان کرتے ہیں:

’’ہم نے روضۂ اقدس کا اپنی آنکھوں سے طواف کیا۔ چھونے کی اجازت نہیں تھی لیکن ہماری آنکھوں اور ہمارے دل نے اُن جالیوں، ان محرابوں کو، ان دروازوں کو چوما، اِتنا چوما کہ میرے دل کی کالک بھی دُھلنے لگی۔ ایسے لگا کہ اندر اور باہر دونوں طرف سے دُھلنے لگا ہوں۔ ایک روشنی دل و دماغ میں سرایت کرتی محسوس ہورہی تھی‘‘۔ (ص: ۹۸)

  مصنف کے یہ الفاظ صاحبِ ایمان قاری کے دل کی آواز ہے۔ کیا خوب کیفیتِ قلبی کا نقشہ کھینچ کر رکھ دیا ہے! یہ روداد پڑھتے ہوئے بیساختہ ماہرالقادریؒ یاد آگئے۔

کس بیم و رجا کے عالم میں طیبہ کی زیارت ہوتی ہے

اِک سمت شریعت ہوتی ہے، اِک سمت عقیدت ہوتی ہے

طیبہ کے ببولوں کے کانٹے پھولوں سے بھی نازک تر نکلے

تلوؤں کو بھی لذت ملتی ہے، آسودہ طبیعت ہوتی ہے

مزید لکھتے ہیں:

’’روضۂ رسولؐ کی زیارت میری زندگی کا اہم واقعہ ہے۔ اس کی زیارت کے لیے کب سے آنکھیں ترس رہی تھیں… یہ میرے عشق کا نقطہ وصال تھا… یہ ایک ایسا احساس تھا جس کا بیان ممکن نہیں۔ جذبوں کو لفظوں کا جامہ پہنانا بہت مشکل ہے۔ ان جذبوں اور اس احساس کو صرف محسوس کیا جاسکتا ہے‘‘۔ (ص۹۸)

سبحان اللہ کیا والہانہ انداز ہے! روضۂ رسولؐ پر حاضری کی سعادر حاصل کرنے والا ہر قاری یوں ہی محسوس کرے گا کہ وہایک بار پھر اس مقام رفیع پر بنفسِ نفیس حاضر ہے۔ یہی ہوتا ہے بیانیے کا کمال!

ارضِ مدینہ منورہ پر اس زائر حرمین نے متعدد تاریخی مقامات کی زیارت کی۔ جنت البقیع بھی گئے، میدانِ احد، خندق کی جگہ(اگرچہ اس کے آثار اب معدوم ہوچکے ہیں تاہم وہ مساجد موجود ہیں جو مختلف سالارانِ جہادکے کیمپ (کمان پوسٹ) تھے، مسجد قبلتین اور مسجد قبا دیکھتے ہوئے مدینہ منورہ کا شہر بھی دیکھا۔ لوگوں سے ملاقاتوں کے دلچسپ واقعات بھی قلمبند کیے ہیں۔

 مکہ مکرمہ میں بیت اللہ کی زیارت کی کیفیات مصنف نے اس طرح بیان کی ہیں:

’’خانہ کعبہ کو دیکھتے ہی میرے جسم پر کپکپی سی طاری ہوگئی… ہماری آنکھیں نم ناک ہوگئیں اور زبان گنگ ہوکر رہ گئی… یہ دنیاکے سب سے بڑے دربار کا رعب تھا… اس نے ہماری طاقت سلب کرلی تھی‘‘۔ (ص: ۱۸۹) دراصل یہ محض دنیا ہی نہیں پوریکائنات اور دوجہانوں کا سب سے بڑا دربار ہے۔ ’’اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضَعَ لَلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبَارَکاً وَّ ھُدَی لَلْعٰلَمِیْن(آل عمران: ۳:۹۶) بیشک سب سے پہلی عبادت گاہ جو انسانوں کے لیے تعمیر ہوئی وہ وہی ہے جو مکہ میں واقع ہے۔ اُس کو خیروبرکت دی گئی اور تمام جہان والوں کے لیے مرکزِ ہدایت بنایا گیا تھا۔

دنیا کے بتکدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا

ہم اُس کے پاسباں ہیں، وہ پاسباں ہمارا

مکہ مکرمہ کے قیام کے دوران انھیں جگہ جگہ بلند عمارات، ہوٹل اور محل نما بلڈنگیں نظر آئیں جنھیں انھوں نے بجاطور پر خانہ کعبہ کے مقابلے میں کوئی اہمیت نہیں دی۔ مصنف حج کے لیے مکہ سے منیٰ پہنچے، پھر عرفات کا سفر کیا، عرفات میں انھوں نے لاکھوں مسلمان حاجیوں کو اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں مانگتے دیکھا۔ اس منظر کو بھی انھوں نے گہری عقیدت کے ساتھ قلمبند کیا ہے۔

’’میدانِ عرفات میں جس طرح پیشوا نے دعا مانگی، اُس طرح ہم روزانہ نہیں ہفتہ عشرہ میں مانگیں تو ہمارے دلوں پر زنگ نہیں جمے گا۔ میرے رب کو اپنے بندوں کی اطاعت، فرماں برداری اور دعائیں بہت پسند ہیں، یہی تو وہ چاہتا ہے کہ اُسکے بندے کسی غیر کے آگے نہیں، اُس کے آگے ہاتھ پھیلائیں‘‘۔ (صفحہ: ۲۳۸)

اِس رودادِ عشق کا بیان جتنا جذباتی ہے، اُتنا ہی پُرکشش و دل نشیں بھی ہے، میری دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اُن کی اِس قلمی کاوش کو شرفِ قبولیت سے آراستہ فرمائے۔ (آمین)

٭٭٭

Leave a Reply