امتیاز احمد
اسسٹنٹ پروفیسر،شعبۂ تربیتِ اساتذہ و نیم رسمی تعلیم
فیکلٹی آف ایجوکیشن،جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی
اردو کے نمائندہ غیر مسلم افسانہ نگاروں کے افسانوں کا تہذیبی و ثقافتی بیانیہ
ادب اور سماج آپس میں ایک دوسرے سے منسلک، ایک دوسرے کامعاون اور ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہے۔ جس طرح سماج مذہب و مسلک، تہذیب وثقافت،سیاست و نظامت اور معاشرت و معیشت سے متاثر ہوتا رہتا ہے اسی طرح ادب بھی سماج و معاشرہ سے متاثر ہوتا رہتا ہے اور جس طرح سماج و معاشرے میں تبدیلی کا عمل برابر جاری و ساری رہتا ہے اسی طرح ادب کے موضوعات، اسالیب اور مقاصد و مطالب بھی بتدریج بدلتے رہتے ہیں۔ یہ سماجی انقلابات اور ترقیات اصناف ادب میں تبدیلی کا اہم موجب بنتے رہتے ہیں۔
کسی بھی قوم وملک کی تہذیب و ثقافت اور ادب آداب کی ترویج اور اشاعت میں اس کے ادب کا بہت اہم رول ہوتا ہے۔ ادب نہ صرف زبان کو فروغ اور ترقی دیتا ہے بلکہ اس زبان سے وابستہ لوگوں کے بود و باش، معیشت و معاش اور رہن سہن کے طرز اور طریقہ کار کو بھی ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقلی کرتا ہے۔ ادب زندگی کا ترجمان اور اس کی سمت و رفتار کی ترقی و ترویج کا ذریعہ ہوتا ہے۔ زندگی اپنی سنگلاخ راہوں سے عبارت ہوتی ہے جہاں مشکلات کے ساتھ آسانیاں بھی ہوتی ہیں۔ انسانی زندگی اپنی لامحدود وسعتوں پر محیط ایک جہد مسلسل اور آزمائشِ پیہم کا نام ہے جس کے دامن میں خوشی و غم اور رنج و راحت کا احساس بدرجہ اتم پایا جاتا ہے۔ زندگی کی اسی بھاگ دوڑ نے انسان کو موجد بنا دیا۔ انسان نے زندگی کی صعوبتوں سے نبردآزما ہونے کے لیے ہمیشہ مسئلہ کا حل تلاشا، تکلیفوں کا ازالہ کیا اور ضرورتوں کو ایجاد کی ماں بنایا۔ ادب کی تخلیق بھی ضرورت کے تحت ہوئی۔ اس کو تخلیقی عمل سے سجانے اور سنوارنے والے فنکار صدیوں کی محنت شاقہ کے بعد ہی سماجی رسومات و اقدار اور تہذیب و ثقافت کی کما حقہ عکاسی کر پاتے ہیں۔ ہندوستان کی مشترکہ تہذیب اور گنگا جمنی ثقافت کے گونا گوں عناصر اور رسومیات ہمیں اردو افسانے میں نظر آتے ہیں۔ یہاں کی دیہی زندگی کے بود و باش، شہری زیست کے رہن سہن اور صنعت و حرفت کی مختلف انواع و اقسام افسانوی اظہار اور بیانیہ کا زینت بنتی رہی ہیں۔ اردو افسانہ نگاروں کی تخلیقات و نگارشات میں تہذیب و ثقافت اور ادب و مدنیت کے عناصر اور عوامل تلاش کرنے سے قبل مناسب ہے کہ تہذیب و ثقافت اور ادب و کلچر کے اصطلاح اور تصور کی تعریف اور تعبیر واضح کر دیا جائے۔
ڈاکٹر جمیل جالبی قومی انگریزی اردو لغت میں تہذیب و ثقافت کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”تہذیب و تمدن انگریزی لفظ سویلائزیشن کے ہم معنی ہے جس کا مطلب انسانی معاشرے کی وہ کیفیت ہے جس کی امتیازی خصوصیات ذہنی، تکنیکی، تمدنی اور معاشرتی ترقی ہوتی ہے۔“ 1
ڈاکٹر سید عابد حسین اپنی کتاب قومی تہذیب کا مسئلہ میں انسانی گروہ کے اجتماعی شعور کو تہذیب قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
”تہذیب نام ہے اقدار کے ہم آہنگ شعور کا جو انسانی جماعت رکھتی ہے، جسے وہ اپنے اجتماعی ادارات میں ایک معروضی شکل دیتی ہے، جسے افراد اپنے جذبات و رجحانات، اپنے سبھاو? برتاؤ میں اور ان اثرات میں ظاہر کرتے ہیں جو وہ مادی اشیاء پر ڈالتے ہیں۔“ 2
مندرزہ بالا اقتباسات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ تہذیب ایک اجتماعی کل ہے جو ایک جگہ رہنے والے انسانوں کی صفات اور خصوصیات کا ترجمان ہوتا ہے اور جس سے اس جماعت یا ایک جگہ رہنے والے انسانوں کی شناخت ہوتی ہے۔ البتہ کیا تہذیب صرف اجتماعی اور ہم آہنگ شعور تک ہی محدود ہے یا اس کی وسعت اور دائرہ میں انسانی زندگی کے جملہ عوامل اور عناصر شامل ہیں؟تہذیب کے متعلق اس پیچیدہ سوال کو ایڈورڈ ٹیلر نے اپنی کتاب Primitive Culture میں بڑی تفصیل سے بحث کیا ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
“Culture or Civilization is that complex whole which includes knowledge, belief, art, morals, law, custom and any other capabilities and habits acquired by man as a member of society.”3
کلچر یا تہذیب وہ پیچیدہ کل ہے جس میں علم، عقیدہ، فنون، اخلاقیات، قانون، رسم و رواج اور وہ تمام صلاحیتیں اور عادتیں شامل ہیں جسے انسان نے بطور سماجی رکن کے حاصل کیا ہے۔
درج بالا تعریفات سے تہذیب و ثقافت کے خد و خال اور ابعاد و جہات کسی حد تک واضح ہو جاتے ہیں اور اس کی ہماگیری بھی ظاہر ہو جاتی ہے۔ مختصر یہ کہ تہذیب، تمدن اور ثقافت سب ایک دوسرے میں پیوست ہیں، ایک دوسرے سے منسلک ہیں، اور ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ انسان کا اپنی مٹی اور اپنی قوم و سماج کے ساتھ وارفتگی اور وابستگی تہذیب و ثقافت کا ہی حصہ ہے۔ مختلف قسم کے تہوار مثلاً عید، بیساکھی، ہولی، دیوالی، اور دسہرا وغیرہ تہذیب و ثقافت کا ہی جزو ہیں۔ ایک تہذیب کے اندر مختلف مذاہب کا ہونا بھی تہذیب و ثقافت ہے۔ مثال کے طور پر ہمارا ملک جہاں ایک شہر میں گردوارہ، گرجا، مندر اور مسجد شانہ بشانہ کھڑے نظر آتے ہیں اور ایک دوسرے سے خطرہ بھی محسوس نہیں کرتے۔
کسی قوم و ملک کا تہذیبی و تمدنی تکثیریت کا حامل ہونا ہی اہم نہیں ہوتا ہے بلکہ ان گوناگوں تہذیب و ثقافت اور مدنیت و معاشرت کی تحفظ، بقا اور ترویج و اشاعت کے لیے متفکر ہونا اور موزوں و مناسب اقدامات کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ اور اس کے لیے ہر قوم و ملک کو اپنی زبان اور ادب کے فروغ کے تئیں سنجیدہ اور منصف و مخلص ہونا لازمی ہو جاتا ہے کیونکہ تہذیب و ثقافت اور معاشرت و مدنیت کی اشاعت اور ترقی میں زبان و ادب کا بہت غیر معمولی رول ہوتا ہے۔ وہ قومیں مہذب کہلاتی ہیں جن کے ادیب اور قلم کار فعال و متحرک فکر و خیال کے حامل ہوتے ہیں اور اپنے زورِ قلم سے نونہالانِ وطن میں تہذیبی شعور اور ثقافتی روایت کی آبیاری کرتے ہیں۔ نیز اپنی ادبی تخلیقات سے سماج و معاشرہ کو مہذب اور شائستہ بنانے کی کوشش فراواں کرتے ہیں۔ تخلیقی فن پارے نہ صرف رشتے ناطے استوار کرنے میں معاون ہوتے ہیں بلکہ یہ تہذیبی ورثے اور قومی میراث کو نسل در نسل منتقل کرنے میں بھی غیر معمولی کردار ادا کرتے ہیں۔ تخلیقی فن پارے جہاں ادیب کی شخصیت کی عکاسی کرتے ہیں وہیں اس کے عہد کے سماجی، سیاسی، معاشی اور علمی و ادبی منظر نامے کی بھی ترجمانی کرتے ہیں۔
افسانے کی بنیاد کسی نہ کسی حادثہ، واقعہ یا کہانی پر ہوتا ہے خواہ یہ کہانی عملی زندگی میں وقوع پذیر ہو چکا ہو یا پھر ہمارے تخیلی و تخلیقی ذہن میں موجود ہو۔ یہ کہانیاں کسی نہ کسی کردار کے سہارے آگے بڑھتی ہیں۔ اس کے کردار اپنے عہد، علاقہ اور مذہب کی تہذیب و ثقافت کی نمائندگی کرتے ہیں اور اپنے افعال و اعمال اور گفتار سے بچوں کی ذہنی تربیت کرتے ہیں۔ ان میں شجاعت و بہادری، اخلاقی اقدار اور ہمت و حوصلہ کا جوہر بڑھتے ہیں۔ خاندانی رسوم و رواج، سماجی تعلقات، طرزِ حیات اور آداب گفتگو غرض کہ تہذیب و ثقافت کی گوناگوں دولت سے مالا مال کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ افسانے کو سماجی مسائل و مصائب کے بیان اور تہذیب و ثقافت کی ترویج و اشاعت اور ابلاغ و ترسیل کا سب سے بڑا ذریعہ شمار کیا جاتاہے۔ اردو کے بیشتر افسانہ نگاروں نے اپنے افسانوں کے توسط سے ہندوستان کی تہذیب و ثقافت اور کلچر کے ابلاغ اور ترویج و اشاعت میں نمایاں مقام حاصل کیا ہے۔ پریم چند سے لے کر تاحال کے افسانوی ادب پارے ہمیں ہندوستان کے مشترکہ تہذیب اور گنگا جمنی تمدن کی مختلف جھلکیاں دکھاتے ہیں۔
اردو افسانے میں سماجی حقائق اور تہذیب و تمدن کو پیش کرنے میں سب سے نمایاں نام پریم چند کا ہے۔ انہوں نے ہندوستان کے دیہاتی معاشرے کی خوبیوں اور خامیوں کو اپنا موضوع بنایا ہے۔ ان کی افسانوی تخلیقات کے توسط سے ہمیں اس دور کی زبان و ادب، تہذیب و ثقافت، مذہبی عقائد و تصورات، طریقہئ بود و باش حتی کہ طبقاتی کشمکش اور سماجی استحصال دیکھنے کو ملتے ہیں۔
پریم چند نے اپنے افسانوں کے ذریعے ان تمام مذہبی و مسلکی رسوم و رواج، عقائد و توہمات اور حد بندیوں پر چوٹ کیا ہے جن سے سماج میں معاشرتی انتشار، طبقاتی استحصال اور مذہبی فرقہ واریت کی فضا قائم ہوتی ہے۔ بے جوڑ شادی، ازدواجی تناؤ، نفسیاتی بحران، تہذیبی تصادم، بیواؤں کی مظلومیت اور سماج و مذہب کے بے جا تصورات و توہمات کی قید میں سسکتی ہوئی صنف نازک کے کوائف جیسے متعدد مسائل کو زینتِ قلم بنایا اور ان کی اصلاح کی سعی و کوشش کی۔ انہوں نے عورت کے قید و بند اور آزادی و خود مختاری کی کشمکش کو اپنے افسانہ برات میں قلم بند کیا ہے۔ اقتباس ملاحظہ ہو:
”اس بدمزگی کا باعث کیا تھا؟۔ معاشرتی معاملات میں اختلاف؟۔ دیوکی ناتھ پرانی تہذیب کا قائل تھے، پھول وتی نئی روشنی کی دلدادہ۔ پرانی تہذیب پردہ چاہتی ہے، تحمل اور صبر چاہتی ہے۔ نئی روشنی آزادی چاہتی ہے، اعزاز چاہتی ہے، حکومت چاہتی ہے۔ دیوکی ناتھ چاہتے ہیں پھول وتی میری ماں کی خدمت کرے، بغیر اجازت گھر سے قدم نہ نکالے، لمبا سا گھونگٹ نکال کر چلے۔ پھول وتی کو ان باتوں میں سے ایک بھی پسند نہ تھی، دونوں میں مباحثے ہوئے، سخت کلامیوں کی نوبت آئی۔“ 4
مذکورہ اقتباس سے قدیم و جدید اور مشرق و مغرب کی تہذیب و ثقافت کے مابین تصادم اور تضاد واضح ہوتا ہے۔ اس تصادم اور تضاد کی ذمہ دار تنہا عورت نہیں بلکہ مرد بھی اس میں برابر کا شریک ہے۔ جدید تعلیم اور مغربی تہذیب کے چکا چوند نے مرد کے ظاہر کو تو بدل دیا لیکن اس کے باطن اب بھی قدامت پسندی سے وابستہ ہے۔ وہ اپنے ذوق کی تسکین کے لیے تعلیم یافتہ بیوی تو چاہتا ہے لیکن جدید تعلیم کے نتیجے میں عورت کے ظاہر و باطن میں نمو پذیر ان تبدیلیوں کو قبول کرنے سے انکار کرتا ہے جن سے ان کی انا اور اختیارات کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ پریم چند نے مرد کی اس جھوٹی انا اور بے جا اختیارات کا مقابلہ کرنے کے لیے پھول وتی کو عملی احتجاج کا نمونہ بنا کر پیش کیا ہے اور ایک ایسے تہذیب و ثقافت اور سماج و معاشرہ کے قیام پر زور دیا ہے جس میں مرد اور عورت دونوں کی ذمہ داریاں، ترجیحات اور اختیارات مساوی ہوں۔
پریم چند نے اپنے مختلف افسانوں میں مذہب و مسلک اور تہذیب و ثقافت کے مستقل بنیادوں پر مخصوص طبقہ کی اجارہ داری اور ان کے غیر منصفیانہ تصرف کو موضوع بنا کر دھرم کے نام پر ہونے والے ناانصافی، ظلم و جبر اور استحصال کو بے نقاب کیا ہے۔ انہوں نے مذہبی عقائد اور تصورات کی بنیاد پر کی جانے والی تشدد کی تصویر کشی افسانہ سوا سیر گیہوں میں کیا ہے۔ اقتباس ملاحظہ ہو:
”شنکر کانپ اٹھا۔ ہم پڑھے لکھے لوگ ہوتے تو کہہ دیتے اچھی بات ہے ایشور کے گھر ہی دیں گے۔ وہاں کی تول یہاں سے کچھ بڑی تو نہ ہوگی۔ کم سے کم اس کا کوئی ثبوت ہمارے پاس نہیں پھر اس کی کیا فکر؟۔ مگر شنکر اتنا عقلمند، اتنا چالاک نہ تھا۔ ایک تو قرض وہ بھی برہمن کا۔ بہی میں نام رہے گا تو سیدھے نرک میں جاؤں گا۔ اس خیال سے ہی اس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ بولا۔ مہاراج تمہارا جتنا ہوگا یہی دوں گا۔ ایشور کے یہاں کیوں دوں؟۔ اس جنم میں تو ٹھوکر کھا ہی رہا ہوں، اس جنم کے لیے کیوں کانٹے بوؤں؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں تو دے دوں گا۔ لیکن تمہیں بھگوان کے یہاں جواب دینا پڑے گا۔“5
اس اقتباس میں جہاں ایک طرف مذہب کے نام پر ہونے والے استحصال، تشدد اور ناانصافی کو محسوس کیا جا سکتا ہے وہیں دوسری جانب مرنے کے بعد بھگوان کے سامنے جوابدہ ہونے یعنی سزا و جزا کے عقائد اور تصورات کو بھی دیکھا جا سکتا ہے جو کہ ہندوستانی تہذیب و ثقافت اور تمدن و معاشرت کا ایک لازمی جزو ہے۔
مذہبی استحصال اور جبر و استبداد کا سلسلہ محض لین دین تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس کا سلسلہ زندگی کی بنیادی حقیقتوں مثلاً پیدائش و موت، شادی بیاہ اور نام کرن وغیرہ تک اس طرح پھیلا ہے کہ کوئی فرد اس کی زد سے باہر نہیں نکل سکتا۔ افسانہ راہ نجات کا بدھو گرہ پرویش کے دان دکھشنا تو خوشی خوشی برداشت کر لیتا ہے لیکن گؤ ہتھیا کا ڈنڈا اس کی کمر ہی توڑ دیتا ہے۔ گائے زرعی معیشت اور کسان کی ضرورت و آمدنی کا لازمی حصہ ہے لیکن یہی گائے برھمن دیوتا کے لیے کسان کے استحصال کا سب سے بڑا ذریعہ بھی ہے۔ پریم چند اس مہاپاپ کی دردناک تصویر کشی اس انداز میں کرتے ہیں:
”برہمن۔ شاستروں میں اسے مہاپاپ کہا ہے۔ گؤ کی ہتھیا برہمن کی ہتھیا سے کم نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔برہمن۔ دیوتا کا بھی اس کے پرائشچت کرانے میں فائدہ تھا۔ بھلا ایسے موقع پر کب چوکنے والے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بدھو کو ہتھیا لگ گئی۔ برہمن جی اس سے جل رہے تھے۔ کسر نکالنے کا موقع ملا۔ تین ماہ تک بھیک مانگنے کی سزا دی گئی۔ پھر سات تیرتھوں کی جاترا۔ اس پر پانچ سو برہمنوں کا کھلانا اور پانچ گائیوں کا دان۔ بدھو نے سنا تو ہوش اڑ گئے۔ رونے پیٹنے لگا، تو سزا گھٹا کر دو ماہ کر دی گئی۔ اس کے سوا کوئی رعایت نہ ہو سکی۔ نہ کہیں اپیل، نہ کہیں فریاد۔ بیچارے کو یہ سزا قبول کرنی پڑی۔“6
مذہب اور مذہبی رہنماؤں کے استبدادی جکڑ بندیوں اور استحصالی فضاؤں سے متعلق افسانہ نجات ایک شاہکار تخلیق ہے جس میں پریم چند نے نچلے طبقے کو اپنی تمام تر مجبوریوں، کمزوروں اور مذہبی طبقے کو اس کی تمام تر منافقت اور تضادات کے ساتھ پیش کیا ہے۔ افسانہ کے کردار دکھی ایک چمار ہے جو سماج کے سب سے نچلے طبقے کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ اس کا وجود پنڈت اور اس کے پورے طبقے کے لیے پلیدہ و ناپاک ہے لیکن اسی پلید و ناپاک وجود سے مذہبی رسوم کی ادائیگی کے بدلے مزدوری لی جا رہی ہے۔ نجات میں دکھی کے وجود سے مزدوری کرا کر خراج حاصل کیا جا رہا ہے۔ دودھ کی قیمت میں بھنگن کا بیٹا منگل، راہ نجات کا بدھو، سوا سیر گیہوں کا شنکر، زاد راہ کی سوشیلہ، مجبوری کی کیلاشی، مندر کی سکھیا اور ٹھاکر کا کنواں میں گنگی کا شوہر ایسے کردار ہیں جو مذہب کی بالادستی، استحصال، طبقاتی امتیاز و تفریق اور چھوت اچھوت کی سولی چڑھ گئے۔ اور پھر اشلوکوں اور ویدوں کی وجہ سے سوا سیر گیہوں کا شنکر پروہت کا، راہ نجات کا بدھو برہمن کا، زاد راہ کی سوشیلہ برادری والوں کا، مجبوری کی کیلاشی محلے والوں کا اور مندر کی سکھیا گاؤں والوں کے ظلم و جبر اور استحصال و استبداد کا مقابلہ نہیں کر سکے۔ ڈاکٹر صغیر افراہیم نے مذہبی بالادستی کی اہمیت اور اس کے استحصالی پہلو کو اجاگر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”دیہی زندگی میں زمین دار اور اس کے ہرکاروں کے علاوہ پنڈت اور ساہوکار کی بھی بڑی اہمیت ہوتی تھی۔ اس طرح دیہی معاشرے میں برطانیہ سرکار کے کارندوں، مذہبی ٹھیکیداروں اور مہاجنوں کی ایسی تثلیث قائم ہوئی جو پورے معاشرے کا نفسیاتی، تہذیبی اور اقتصادی استحصال کرتی تھی۔ برسہا برس سے چلنے والی مذہبی رسوم کی ادائیگی پنڈت ہی کے واسطہ سے ہوتی تھی اور مذہب کے تعلق سے وہ سارے امور پر حکم آخر کی حیثیت رکھتا لیکن در پردہ وہ عموماً زمیندار طبقے کے اور اپنے مفادات کو مقدم رکھتا تھا۔ ان ہی اغراض و مقاصد کے پیش نظر وہ اشلوکوں کی تشریح کرتا تھا۔“7
پریم چند کے افسانوں میں موجود تہذیب و ثقافت، کلچر و تمدن، سیاست و معیشت اور سماج و معاشرہ کے اصلاحی عناصر کے مطالعے سے بظاہر لگتا ہے کہ وہ مذہبی عقائد و رسومات اور سماجی تصورات و اقدار کے مخالف تھے لیکن جب ہم ان عناصر کا بچشمِ غائر تجزیہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ مذہب کے نام پر ہونے والے ناانصافی، غلط کاری اور استحصالی رویے کے خلاف تھے۔ وہ اس کی اصلاح اور درستگی کی آرزو اور خواہش رکھتے تھے جس کا اظہار انہوں نیافسانہ ’قہر خدا کا‘میں دیناناتھ کی زبان کیا ہے۔
مختصر یہ کہ پریم چند کے افسانوں میں جا بجا تہذیب و ثقافت، تمدن و مدنیت، سماج و معاشرت اور انسان و انسانیت کی بقا و تحفظ کے ایسے مناظر نظر آتے ہیں جہاں امیر و غریب اور ادنیٰ و اعلیٰ کے درمیان کوئی امتیاز و تفریق نہیں ہوتا ہے۔ سچا فنکار قوم، نسل اور مذہب کی کسی تفریق کو تسلیم بھی نہیں کرتا ہے بلکہ وہ انسانوں کو اخوت، صلہ رحمی اور آپسی عزت و احترام کے رشتوں سے متصف و منسلک دیکھنا چاہتا ہے اور اپنے فن پارے کے ذریعے تہذیب و ثقافت، عقائد و رسومات اور سماج و معاشرہ کے مختلف مفید اور کارآمد مظاہر اور پہلوؤں کو اجاگر کرنا اپنا فریضہ سمجھتا ہے۔
پریم چند کے بعد جن غیر مسلم افسانہ نگاروں نے قومی تہذیب و ثقافت کی ترویج و اشاعت اور پیغام انسانیت و اخوت کے فروغ و ترقی میں اپنا زورِ قلم صرف کیا ہے ان میں کرشن چندر، راجیندر سنگھ بیدی اور بلونت سنگھ قابلِ ذکر ہیں۔
کرشن چندر کے افسانوں میں مٹتی ہوئی تہذیبی اقدار، ہندو مسلم کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج اور زوال پذیر مشترکہ کلچر کی بحالی کی سعی اور کوشش نظر آتی ہے۔ وہ ان تمام پابندیوں اور حد بندیوں کے مخالف نظر آتے ہیں جو انسانوں کے مابین علیحدگی اور مذہبی و سماجی تقسیم کا سبب بنتی ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ جب سماج و معاشرہ تقسیم ہوتا ہے تو اس کے ساتھ ہی انسانی فکر و خیال، آپسی بھائی چارہ اور رشتے ناطے سبھی منتشر ہو کر رہ جاتے ہیں اور ملک و معاشرہ اختلاف و انتشار، استحصال و استعداد، منافرت و مجادلت اور رقابت و عداوت کے غیر منقطع بیڑی میں جکڑ جاتا ہے۔ کرشن چندر کے بیشتر افسانے پیغامِ انسانیت، انسان دوستی، مواخات، صلہ رحمی اور مشترکہ تہذیب و ثقافت کے بیانیے سے معمور نظر آتے ہیں۔ وہ صرف ایک کہانی کار ہی نہیں بلکہ ایک مفکر، مصلح اور آدمیت نواز تھے۔ ان کا افسانہ انسانیت نوازی اور احترامِ آدمیت کی عمدہ مثال ہے۔ ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
”میں سیاست دان نہیں ہوں، ستار بجانے والا ہوں۔ حاکم نہیں ہوں، حکم بجانے والا ہوں لیکن شاید ایک نادار مغنی کو بھی یہ پوچھنے کا حق ہے کہ اس نئی دنیا کی تعمیر میں کیا ان کروڑوں بھوکے ننگے آدمیوں کا بھی ہاتھ ہوگا جو اس دنیا میں بستے ہیں؟ میں یہ سوال اس لیے پوچھتا ہوں کہ میں بھی ان بڑے رہنماؤں کی دنیا میں رہنا چاہتا ہوں، مجھے بھی فسطائیت، جنگ اور ظلم سے نفرت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب تک میری ستار کا ایک تار بھی بے آہنگ ہوتا ہے اس وقت تک سارا نغمہ بے آہنگ وہ بے ربط رہتا ہے۔ میں سوچتا ہوں یہی حال انسانی سماج کا بھی ہے۔ جب تک دنیا میں ایک شخص بھی بھوکا ہے، یہ دنیا بھوکی رہے گی۔ جب تک دنیا میں ایک آدمی بھی غلام ہے، سب غلام رہیں گے۔ جب تک دنیا میں ایک آدمی بھی مفلس ہے، سب مفلس رہیں گے۔“ 8
اس اقتباس میں کرشن چندر نے قوم و ملک کی تعمیر، تہذیب و ثقافت کی ترویج، سماجی و سیاسی اور معاشی ترقی اور فروغ میں ادنیٰ و اعلیٰ، امیر غریب اور سرمایہ دار و مزدور سب کی یکساں تعاون اور بھاگیداری کو اجاگر کیا ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ یہ نئی دنیا کسی ایک طبقے کی تعمیر کردہ مسکن نہیں ہے بلکہ اس کی تعمیر و تشکیل میں اعلیٰ سے لے کر ادنیٰ اور امیر سے لے کر غریب طبقے کے لوگوں کا ہاتھ شامل رہا ہے۔ لہٰذا زندگی کی بنیادی چیزوں پر جتنا حق اعلیٰ طبقے کا ہے اتنا ہی ان متوسط، دبے کچلے اور ادنیٰ طبقوں کا بھی ہونا چاہیے۔
پشاور ایکسپریس کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیے جس میں انہوں نے زوال آمادہ تہذیب و ثقافت، عنقا ہوتے آپسی اعتماد و اعتبار، قصہئ پارینہ بنتے سماجی و معاشرتی اخوت و صلح رحمی کا نقشہ کھینچ کر ایک ایسے ملک اور معاشرے کی قیام پر زور دیا ہے جہاں نہ کوئی ہندو ہو، نہ مسلمان ہو بلکہ سب انسان ہو اور انسانیت نواز۔ اقتباس دیکھیے:
”میں لکڑی کی ایک بے جان گاڑی ہوں۔ لیکن پھر بھی چاہتی ہوں کہ اس خون اور گوشت اور نفرت کے بوجھ سے مجھے نہ لادا جائے۔ میں قحط زدہ علاقوں میں اناج ڈھوؤں گی۔ میں کوئلہ اور تیل اور لوہا لے کر کارخانوں میں جاؤں گی۔ میں کسانوں کے لیے نئے ہل اور نئی کھاد مہیا کروں گی۔ میں اپنے ڈبوں میں کسانوں اور مزدوروں کی خوش حال ٹولیاں لے کر جاؤں گی اور باعصمت عورتوں کی میٹھی نگاہیں اپنے مردوں کا دل ٹٹول رہی ہوگی اور ان کے آنچلوں میں ننھے منے خوبصورت بچوں کے چہرے کنول کے پھولوں کی طرح کھلے نظر آئیں گے اور وہ اس موت کو نہیں بلکہ آنے والی زندگی کو جھک کر سلام کریں گے جب نہ کوئی ہندو ہوگا نہ مسلمان بلکہ سب مزدور ہوں گے اور انسان ہوں گے۔“ 9
کرشن چندر نے اپنے افسانوی مجموعہ ہم وحشی ہیں میں شامل چھ افسانوں کے ذریعے فرقہ وارانہ فسادات کے دوران رونما ہوئے قتل و غارت، لوٹ مار، عصمت دری اور آتش زنی کے دل دوز واقعات اور سانحات کا بلا کم و کاست اور برملا اظہار کیا ہے۔ وقار عظیم اپنی کتاب ’نیا افسانہ‘ میں ہم وحشی ہیں کے متعلق لکھتے ہیں:
”ہم وحشی ہیں کے سارے افسانے 1947 کے فسادات سے متعلق ہیں۔ اس لحاظ سے ان افسانوں کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ ان میں ایک اچھے فنکار نے اپنے فن کے ذریعے ایک وقتی ہنگامی مقصد کے حصول کی کوشش کی ہے۔ فسادات کے زمانے میں انسان کی وحشت اور درندگی یا دوسرے لفظوں میں اس کی بدی کے جو مظاہرے ہوئے کرشن چندر اپنے افسانوں کے ذریعے اس بدی کو آشکار اور بے نقاب کرنا چاہتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ نیکی کی ان قوتوں کو ابھارنے اور ظاہر ہونے کا موقع دیتے ہیں جنہیں بدی کی قوتوں نے کچل کر رکھ دیا ہے۔“ 10
کرشن چندر نے ان افسانوں میں مذہبی تصادم، فرقہ واریت، سماجی انتشار و خلفشار اور تہذیبی و ثقافتی بے راہ روی کی اصلاح پر زور دیا ہے، محبت و بھائی چارہ، ملکی سالمیت و اتحاد اور امن و آشتی کے قیام اور فروغ پر آمادہ کیا ہے اور ایک ایسے سماج کی تشکیل و تعمیر پر ابھارا ہے جس میں بچے نسل اور مذہب و مسلک کی قید سے آزاد ہو کر انسان بن کر زندگی بسر کریں اور مذہب کے بجائے انسانیت کو اپنا سب کچھ سمجھیں۔ افسانہ میرا بچہ ان کی اسی خواہش اور کوشش کا ترجمانی کرتا ہے۔ اقتباس ملاحظہ ہو:
”شاید یہ ممکن نہیں۔ لیکن یہ تو ممکن ہے کہ میں اس کا کوئی نام نہ رکھوں۔ کوئی مذہب نہ رکھوں۔ اسے کسی قوم سے، کسی ملک سے منسوب نہ کروں۔ اس سے صرف اتنا کہہ دوں کہ بیٹا تو انسان ہے۔ انسان اپنے خمیر کا، اپنی تقدیر کا، اپنی زمین کا خود خالق ہے۔ انسان قوم سے، ملک سے، مذہب سے بڑا ہے۔“ 11
انسانوں کے باہمی تعلقات، رشتے ناطے، وابستگیوں اور رفاقتوں کی بنیاد میں کارفرما ادب آداب، تہذیب و ثقافت اور مدنیت و معاشرت کی افہام و تفہیم اور تعبیر و ترویج کوئی سہل کام نہیں کیونکہ انسانی تعلقات اور معاملات کی ڈور اور منطق سیدھی اور سادہ نہیں ہوتی بلکہ مبہم احساسات و جذبات، رجحانات و میلانات اور مختلف نوع کے خیالات و تصورات کے زیرِاثر یہ مسلسل تبدل و تغیر کے مراحل سے دوچار ہوتی رہتی ہے۔ لہذا تہذیب و ثقافت اور سماجی اقدار و رسومات کو تخلیقی کینوس میں ڈھالنا ایک فنکار اور تخلیق کار کے لیے جوئے شیر لانے کے مانند ہے۔اس تخلیقی پیش کش میں تخلیق کار کو تہذیب و ثقافت اور معاشرت سے اچھی طرح واقف ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی نفسیات کے پیچ و خم، رجحانات و میلانات کے خد و خال اور احساسات و جذبات کے مد و جزر سے مکمل آگہی بھی ضروری ہے۔ راجندر سنگھ بیدی تہذیب و ثقافت اور ادب آداب کے مقتضیات اور لوازمات سے بخوبی واقف تھے۔ انہوں نے انسانی نفسیات، جذبات و احساسات اور اعمال و افعال کے اظہار اور پیش کش کے لیے سماجی و تہذیبی محرکات اور عناصر کو بروئے کار لایا اور اپنی بات مؤثر انداز میں لوگوں تک پہنچانے کے لیے استعاراتی اور اساطیری طرزِ بیان اختیار کیا اور افسانوی ادب میں اپنی ایک منفرد شناخت قائم کیا۔ شمس الحق عثمانی اپنی کتاب بیدی نامہ میں بیدی کے فن کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”یہ ایک ایسے حساس، دردمند، معصوم اور زندہ جذبات رکھنے والے ہندوستانی کا فن ہے جو اپنے وطن کی گرم و سرد ہواؤں، کبھی مکھن سی ملائم، سوندھی، ممتا والی، تو کبھی سنگ لاخ و شعلہ فشاں اور کبھی لہو لہو زمین، کبھی آسمانوں کے رحیم و کریم، تو کبھی پر عتاب موسموں اور رنگوں کو دیکھنے، سمجھنے، بھوگنے والے انسانوں کو ان کی انفرادی، اجتماعی، حسی، جذباتی، معاشرتی، معاشی، نفسیاتی، جنسی، تہذیبی اور روحانی حیثیتوں میں شناخت کرنے کی تپسیا سے دوچار ہے۔“ 12
راجندر سنگھ بیدی کے افسانوں میں پنجابی معاشرے کے جملہ مظاہر و مناظر اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ ان کے افسانوں کے کردار ہندوستانی سماج و معاشرے کے وہ افراد ہیں جن کا تعلق متوسط طبقے سے ہے۔ ان کرداروں کے ذہنی و جذباتی رویوں کو متعین کرنے میں ان سماجی عوامل کی واضح کار فرمائی نظر آتی ہیں جن سے مل کر ہندوستان کا مشترکہ تہذیب بنتاہے۔ ان کے افسانوی کردار تہذیبی و ثقافتی مزاج کے لحاظ سے اپنی شناخت خود قائم کرتے ہیں۔ بیدی نے کرداروں کے اس تہذیبی مزاج کو واضح کرنے کے لیے اپنے افسانوں کی تشکیل و تعمیر میں تقریباً سبھی تہذیبی و ثقافتی عوامل و عناصر کا استعمال کیا ہے۔ وہ اساطیر و دیومالا، مذہبی روایات و عقائد اور فکر و فلسفہ کے عناصر سے اس ہندوستانی معاشرے کی فضا کی تخلیق کرتے ہیں جس کا بنیادی وصف اساطیر اور مذہب کا باہمی امتزاج و آویزش ہے کیونکہ ہندوستان میں اکثریت کا مذہب اور اساطیر باہم ملے ہوئے ہیں۔ ان ہندوستانی اساطیر اور ہندو مذہب کا امتزاج و اتحاد بیدی کے افسانوں کی معاشرتی فضا کے تخلیقی اظہار کا ذریعہ بنتا ہے۔ افسانہ اپنے دکھ مجھے دے دو اور گرہن اساطیری اور استعاراتی اظہار کی بہت عمدہ مثال ہیں جس میں اندو اور چاند گرہن کو بطور استعارہ استعمال کیا گیا ہے۔
راجیندر سنگھ بیدی کے زیادہ تر افسانوں کا سماجی پس منظر پنجاب اور اس کے متوسط طبقے کے تہذیب و ثقافت اور معاشرت و مدنیت پر مبنی ہے۔ پنجاب کے جغرافیائی محل وقوع اور تقسیم وطن کے المیے نے بیدی کے تخلیقی تجربات کے لیے ایک موزوں و مناسب فضا فراہم کیا اور وہ جذبہ، خلوص اور آئیڈیل کی بازیافت کے لیے پنجاب کے متوسط طبقے کے خارجی عناصر کو اپنی تخلیقی داخلیت میں اس طرح شامل کر سکے کہ دونوں کے امتزاج نے ان کے افسانوں میں تہذیبی مظاہر کی پیش کش میں ایک فنکارانہ بالیدگی اور گہرائی پیدا کیا۔ وارث علوی اپنی کتاب راجندر سنگھ بیدی میں رقمطراز ہیں:
”بیدی کے افسانوں میں بڑی رنگا رنگی اور تنوع ہے۔ وہ کسی ایک موضوع کی تکرار نہیں کرتے۔ وہ کسی ایک تکنیک، طریقہئ کار اور اسلوب کے بھی اسیر ہو کر نہیں رہ جاتے۔ ان کے افسانوں میں مسلسل ارتقا دیکھا جا سکتا ہے۔ بیدی کی کہانیاں زندگی کے ہر پہلو کا احاطہ کرتی ہیں۔ ان کے کرداروں میں غضب کی انفرادیت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بیدی کی کردار نگاری کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ مختلف قسم کے کرداروں کو ان کے پیشوں کی رعایت سے پیش کرتے ہیں۔ طبقاتی اور پیشہ وارانہ پس منظر انہیں جزئیات نگاری کے خوبصورت مواقع فراہم کرتا ہے۔ بیدی نے اپنے افسانوں کے ذریعہ کسی تصورِ حیات کو تھوپنے کی کوشش نہیں کی۔ ان کے افسانے زندگی کی وہ بصیرت عطا کرتے ہیں جو کھلی آنکھ سے انسانی تماشہ دیکھنے سے پیدا ہوتی ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ بیدی کے افسانوں میں ہندوستان کی روح جاگتی ہے۔“ 13
راجندر سنگھ بیدی کے افسانوی کرداروں کا تہذیبی روایت سے وابستگی رسم و رواج کی پابندی کی شکل میں سامنے آتی ہیں۔ کہیں پر قدامت پرستی کا جذبہ کرداروں کے سماجی رویے کا تعین کرتا ہے تو کہیں پر قدیم طرزِ زندگی، اصول و نظریات اور اقدار کی پابندی اور وابستگی کرداروں کی سماجی شناخت کی بنیاد بنتا ہے۔ ہندوستانی سماج میں تہذیبی روایات اور ثقافتی اقدار سے وابستگی عام انسان کی سائیکی میں شامل ہے۔ ہندوستانی عوام و خواص پر ان کی ان منٹ چھاپ آج کے سائنسی دور میں بھی واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ بیدی نے جابجا بڑی فنکارانہ مہارت سے تہذیب کے اس پہلو کو پیش کیا ہے۔ ایک مثال ملاحظہ ہو:
”میں دراصل عورت کے اس جذبے سے فائدہ اٹھا رہا تھا جس سے وہ مرد کو کبھی بھوکا نہیں دیکھ سکتی۔ وہ لڑے گی، جھگڑے گی، گالیاں دے گی۔ لیکن پھر کیسے بھی کہیں سے بھی بندوبست کر کے آپ کا پیٹ بھرے گی۔ پھر گالیاں دے گی، پھر وہی کرے گی۔ اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں۔ مرد جب بچہ ہوتا ہے تو وہ اسے اپنی چھاتی سے دودھ پلاتی ہے۔ بڑا ہوتا ہے تو اس کے لیے روٹیاں پکاتی ہے۔ اس کی ہر بھوک کا سامان کرتی ہے۔“ 14
ہندستانی سماج و معاشرہ اور دیہی و شہری بود و باش کے اظہار پر بیدی کو جو قدرت حاصل ہے اس کی بنا پر وہ اپنے افسانوں میں تہذیب و ثقافت، ادب و آداب اور معاشرت و مدنیت کی عکاسی کے نقطہئ نظر سے اپنے ہم عصر فنکاروں کے مقابلے میں زیادہ کامیاب ہیں۔ مکر سنکرانتی کے تہوار کے موقع پر ادا کی جانے والی رسمیں ہوں یا بسنت کے تہوار کی رنگا رنگ رواج۔ بیدی نے ہندوستان کے دیہی معاشروں میں منائے جانے والے تہوار کے رنگا رنگ رسوم ورواج اور اس کے اہتمام میں سجائی جانے والی محفل و مجلس کی چہل پہل کے مناظر کو بے حد خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ یہ رسمیں جن میں کچھ کی نوعیت مذہبی ہوتی ہے اور کچھ کی خالصتاً تہذیبی و ثقافتی، ہندوستانی تمدن کا اہم ترین حصہ ہیں۔ مذہبی نوعیت کی رسوم کی ادائیگی کسی مذہب کے ماننے والوں کے ذریعے عمل میں آتی ہے لیکن تہذیبی بنیادوں پر جو رسمیں معاشرے کا حصہ بنتی ہیں ان کو ہر مذہب و ملت کے لوگ اپناتے ہیں۔ مثلاً بسنت کے تہوار۔ اس تہوار کا تعلق ایک مخصوص موسم سے ہے۔ اس موسم میں کھیتوں میں سرسوں کے پھول دور دور تک نظر آتے ہیں۔ بہار کی آمد ہوتی ہے اور بسنت کے مناسبت سے اس دن زرد رنگ یا بسنتی رنگ کے کپڑے پہنے جاتے ہیں۔ یہ خالصتاً ایک موسمی تہوار ہے اور اسے ہندو مسلمان سب مل کر بنا مناتے ہیں۔
ہندوستان میں چونکہ الگ الگ مذہب و ملت کے ماننے والے صدیوں سے آپس میں مل جل کر رہتے آ رہے ہیں۔ اس لیے یہاں کے رہن سہن کا طریقہ، رسم و رواج اور تہوار وغیرہ دو الگ تہذیبوں کے خوبصورت اتصال سے وجود میں آئی ہے جو مشترکہ تہذیب اور گنگا جمنی ثقافت کی ایک ایسی فضا تیار کرتی ہے جو بے حد حسین ہونے کے ساتھ ساتھ زندگی سے بھرپور بھی ہے۔ زندگی سے بھرپور یہ تہذیبی فضا بیدی کی افسانوں میں غالب عنصر کی حیثیت رکھتی ہے۔ وہ ان تہواروں، رسموں، رواجوں اور میلوں ٹھیلوں کے اندرون میں پائی جانے والی اس تہذیبی روح کی عظمت کا عرفان رکھتے ہیں جو ہماری ہزار سالہ مشترکہ تہذیبی وراثت کی امین اور پاسدار ہے۔ بیدی کی اس فنی چابکدستی اور ہنرمندی کا تجزیہ کرتے ہوئے سید محمود کاظمی لکھتے ہیں۔
”بیدی۔۔۔۔۔۔۔۔۔اپنے کرداروں کے ذہنی و جذباتی رویوں کی عکاسی کرتے وقت ان علاقائی و معاشرتی خصوصیات کی جانب بھی اشارہ کرتے ہیں جو ان کے کرداروں کے سماجی رویہ کو متاثر کرتی ہیں۔ اس ضمن میں وہ اساطیر و مذہب، اقدار و روایات، زبان و ادب اور تہذیب و ثقافت سے مکمل استفادہ کرتے ہیں۔“ 15
ہندوستانی تہذیب و ثقافت کا ایک تاریک پہلو وہ سماجی حد بندیاں ہیں جنہوں نے انسانوں کو مختلف ذاتوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ امیر و غریب، اعلیٰ و ادنیٰ، چھوت چھات، سماجی نابرابری اور عدم مساوات نے جبرو تشدد، استحصال و استبداد، بھوک و افلاس اورر جہالت و ناخواندگی کی ایک ایسی فضا آباد کر رکھی ہے جس نے انسانی زندگی کی مکمل فرحت و مسرت اور سکون و انبساط کو سماج کے ایک بڑے طبقے کے لیے خواب بنا کر رکھ دیا ہے۔ بیدی نے اپنے افسانوں میں بارہا اس صورتحال کو پیش کرتے ہوئے اس کے خطرناک نتائج کی طرف توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی ہے۔ وہ اپنے افسانوں میں ایسے مناظر کی عکاسی کے وقت گہرے سماجی شعور اور فنی گرفت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ان کا افسانہ تلادان سماج کے اس ناسور کی نقاب کشائی کرتا ہے جس کی وجہ سے ایک دھوبی کا بچہ اپنی عزت نفس اور ذاتی احترام کے حصول کے لیے مجبور و لاچار نظر آتا ہے۔ اور اپنے سماجی حیثیت کے تعین کے لیے عدمِ مساوات اور ذات پات کی بنیاد پر قائم سماجی ڈھانچے کے خلاف بغاوت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس معصوم بچے کی کمزور سی بغاوت سماجی نظام میں کوئی دراڑ تو نہیں پیدا کر سکی مگر اس کی موت کہانی پڑھنے والوں کو سماجی نابرابری اور ظلم و جبر کے خلاف بغاوت کرنے پر آمادہ کر دیتی ہے۔
”جب اپنے دوست سکھی نندن کو ملنے کے لیے بابو نے آگے بڑھنا چاہا تو ایک شخص نے اسے چپت دکھا کر وہیں روک دیا۔ اور کہا خبردار! دھوبی کے بچے۔۔۔۔دیکھتا نہیں کدھر جا رہا ہے۔ بابو تھم گیا۔ سوچنے لگا کہ اس کے ساتھ لڑے یا نہ لڑے۔ جھیور کا تنو مند جسم دیکھ کر دب گیا اور یوں بھی وہ ابھی بچہ تھا۔ بھلا اتنے بڑے آدمی کا کیا مقابلہ کرے گا۔ اس نے ایک اداس اچٹتی ہوئی نظر سے اچھی جگہ پر بیٹھ کر کھانے والوں اور نیم سوختہ اوپلوں کی راکھ اور جوتوں میں پڑے ہوئے انسانوں کو دیکھا۔ اور دل میں کہا اگرچہ سب ننگے پیدا ہوئے ہیں مگر ایک کارندے اور براہمن میں کتنا فرق ہے۔“ 16
راجندر سنگھ بیدی کی افسانوی کائنات کا جب ہم بغور جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے افسانوی کینوس پر ہر طرح کے کردار یعنی بچے، نو عمر لڑکے لڑکیاں، شادی شدہ اور غیر شادی شدہ نوجوان، جوان، بوڑھے مرد و عورت اور بیوائیں سب شامل ہیں۔ ان سب کرداروں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے فعل و عمل میں کسی نہ کسی دوسرے کردار سے ضرور تعلق رکھتا ہے اور عمل و رد عمل کی زنجیر میں بندھ کر ایک دوسرے سے ہم رشتہ ہو جاتا ہے۔ کرداروں کی یہ باہمی تعلقات صرف افسانے کے دائرے تک محدود نہیں رہتے ہیں بلکہ جب ہم افسانے کی باہری دنیا پر نظر دوڑاتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ بیدی کے کرداروں کے باہمی تعلقات بھی وہی ہیں جو عام سماجی افراد کے مابین کارفرما ہیں۔
تقسیم ملک کے تناظر میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات، لوٹ مار اور ظلم و بربریت کے بعد سنبھلتی اور ابھرتی ہوئی تہذیب اور اس کے کد و کاوش کو جن افسانہ نگاروں نے پوری آب و تاب کے ساتھ بیان کیا ہے ان میں بلونت سنگھ کا نام بھی سر فہرست ہے۔ انہوں نے متنوع موضوعات پر افسانے تحریر کیا بالخصوص پنجاب کے دیہات کو اپنے افسانوں میں جگہ دی۔ پنجاب کے دیہات کو کھلی کتاب کی طرف پیش کرنے کے ساتھ انہوں نے دیہاتی عوام کے مسائل اور ان کے طرز زندگی کو موضوع بنایا جس سے ان کی تحریروں میں ہمیں پیار و محبت، ہمدردی اور انسانیت کے بے پناہ مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ افسانہ پہلا پتھر ہو، کالے کوس ہو یا تعمیر ہر ایک میں انسان دوستی، اخوت اور ہمدردی و صلہ رحمی کے جذبات اور احساسات کو ا اجاگر کیا گیا ہے۔ افسانہ حد فاصل فساد کے موضوع کے ساتھ ساتھ اس مشترکہ تہذیب و ثقافت کو بھی دکھاتا ہے جس میں ہندو مسلم اور سکھ ایک خاندان کی طرح رہتے تھے۔ نہ ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے اور نہ ہی کسی کے خلاف کوئی سازش رچتے تھے۔ اس تہذیب و ثقافت کو بلونت سنگھ نے اس طرح پیش کیا ہے:
”ہمارے صحن میں کافی رونق رہتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں گوشوں پر دو کنویں بنے ہوئے ہیں۔ ایک ہندو کا اور ایک مسلمان کا۔ یہ تقسیم ایک پڑھے لکھے انسان کو بے ہودہ سی معلوم ہوتی ہے۔ لیکن ہمارے یہاں بظاہر ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ بس اس کی حیثیت ایک رواج کی سی ہے۔ بے ضرور رواج۔ لطف یہ ہے کہ دونوں کنویں ایک مسلمان کے بنوائے ہوئے ہیں۔ یعنی میرے والد صاحب کے۔ سب انہیں سائیں دے کھوہ کے نام سے پکارتے ہیں۔ سچ پوچھئے تو مسلمانوں کو پانی کے معاملے میں پرہیز نہیں ہے۔ جب مسلمان کنویں پر بھیڑ ہوتی ہے تو مسلمان ہندو کنویں کا پانی بخوشی قبول کر لیتے ہیں۔ گو وہ کنویں پر نہیں چڑھتے کوئی ہندو ہی پانی ڈال دیتا ہے۔ مسلمان ہندو کی الگ پانی والی ضد پر پیار سے صاد کر دیتے ہیں۔ سکھ بھی ہندو کنویں کا پانی پیتے ہیں۔“ 17
بلونت سنگھ نے اس افسانے کے ذریعے ہندوستان کے اس مشترکہ تہذیب اور معاشرت کو اجاگر کیا ہے جس میں مختلف رنگ و روپ اور مسلک و مذہب کے افراد ایک ہی نظام اور ایک ہی مالک کے پابند ہوتے ہیں گرچہ وہ اس نظام کو چلانے والے کو مختلف ناموں سے پکارتے ہیں۔ کوئی اللہ کہتا ہے، کوئی ایشور تو کوئی وائے گرو۔ لہٰذا ہمیں آپس میں مل جل کر اور پیار محبت سے رہنا چاہیے اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں ساتھ دینا چاہیے۔
بلونت سنگھ کا افسانہ کالے کوس تقسیم ملک کے فسادات کے وقت برپا خون خرابہ، عصمت دری اور ہجرت کے المیہ کو بیان کرتا ہے۔ یہ تقسیم نہ صرف دو ملکوں کے بیچ وجود میں آیا بلکہ اس نے لوگوں کے دلوں کا بھی بٹوارا کر دیا۔ اس خونی ماحول کے اظہار کے لیے بلونت سنگھ نے ایسے کردار کو سامنے لایا ہے جو انسانیت، اخوت، ہمدردی اور دوستی کا مظہر ہے۔ اور جو مذہب اور مسلک کی بنیاد پر قطع تعلق اور بھید بھاؤ نہیں کرتا بلکہ وہ ہر ایک کو انسان کی شکل میں دیکھتا ہے۔ چاہے وہ مسلمان ہو یا ہندو۔ اس افسانہ میں گاما اور پھلورا سنگھ نہ صرف انسانی تہذیب و ثقافت اور سماج و معاشرت میں بھائی چارے کے معنی و مطلب اور اہمیت و افادیت سے واقف کراتا ہے بلکہ اپنے گفتار و کردار اور افعال و اعمال سے فرقہ واریت اور تقسیم کے زیر اثر پیدا شدہ خوف و دہشت اور مذہب و فرقے کی بنیاد پر سادہ و معصوم عوام کو ایک دوسرے سے لڑانے اور الگ کرنے والے سماج کے سازشی اور زہریلے لوگوں کے ذہنوں کی نقاب کشائی کرتا ہے۔ افسانے کے کردار گاما کی شخصیت تقسیم ملک کی ہولناکی، ہجرت کے کرب اور دم توڑتی انسانیت اور آپسی اخوت و معاونت کے دو لازوال کرداروں سے روبرو کراتا ہے۔ علاوہ ازیں افسانہ ’کالی تیتری‘، ’ویلے 38‘، ’جگا‘، ’پہلا پتھر‘ اور ’گمراہ‘ ایسے افسانے ہیں جو سماجی میں پنپ رہی ڈاکہ زنی، مذہبی ریاکاری، سماجی بدکاری اور نفسیاتی و اخلاقی بے راہ روی کی برائیوں اور اس کے نقصانات کو بڑے سلیقے سے منظر عام پر لاتے ہیں۔ وہیں افسانہ ’ہندوستان ہمارا‘،’سنہرا دیس‘، ’بابو مانک لعل‘ اور ’تین باتیں‘ ہمیں سماجی اقدار و روایات، قومی حمیت و غیرت اور ذاتی اصلاح پسندی اور بہتری کے جذبات سے مزین کرتے ہیں۔
گوپی چند نارنگ اپنی کتاب بلونت سنگھ کے بہترین افسانے میں بلونت سنگھ کی افسانوی کائنات کا خد و خال اجاگر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
”بلونت سنگھ کے یہاں کردار فقط کردار نہیں یا واقعات فقط واقعات نہیں، بلکہ سب کچھ اس وسیع منظر نامے پر تشکیل پاتا ہے جس کو ثقافتی جغرافیہ کہنا چاہیے۔ اس میں قصبوں کی فضا اور مٹی کی بو باس تو ہے ہی، لیکن فقط کھیت کھلیان یا سرسوں کا پھول ہی نہیں، طور طریقے، رہن سہن، پوجا پاٹھ، شبد کرتن، میلے ٹھیلے، تیج تہوار، گانا بجانا، رسم عقیدے، سبھی کچھ، جس سے پوری سائیکی اور ثقافت عبارت ہے۔ یہ کردار زندہ اس لیے لگتے ہیں کہ یہ اپنے ثقافتی خلقیہ میں سانس لیتے ہیں اور یہ ثقافتی خلقیہ اور سائیکی ان میں سانس لیتی ہے۔ یعنی یہ سب فقط تناظر نہیں، بیانیہ کی بافت میں شامل ہے، اور بلونت سنگھ کے فن میں بطور جمالیاتی یا ادبی قدر کے اسی طرح رواں دواں ہیں جیسے رگوں میں لہو۔“18
بلونت سنگھ نے جس طرح سے زندگی کو مختلف رنگوں اور شکلوں میں دیکھا اسی طرح اپنے افسانوں کو ہر رنگ اور ہر شکل میں پیش کیاہے۔ انہوں نے پنجاب کے کسانوں اور ظالم زمینداروں کو قریب سے دیکھا، وہاں کی کھیتی باڑی، جاگیردارانہ معیشت، جہالت، مفلسی اور ان سب سے پیدا ہونے والے وہ سب حالات جن کا دباؤ آدمی کو جرائم کے راستے پر لگا دیتا ہے۔
بلونت سنگھ نے دیہی زندگی کے ساتھ ساتھ شہری زندگی اور اس کے مسائل کو بھی اپنے افسانوں میں کمالِ ہنرمندی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ انہوں نے محسوس کیا کہ شہری زندگی مادی طور پر دیہی زندگی سے زیادہ ترقی یافتہ اور خوش حال سہی لیکن یہاں پر بھی افراد کی زندگی جذباتی اور اقتصادی سطح پر مسائل کی گرفت سے آزاد نہیں ہے۔ شہری زندگی کے مسائل بھی بڑے سنگین ہیں۔ یہاں بھی انسان بے روزگاری اور بیکاری کے بوجھ تلے دبا ہوا پریشان حال ہے۔ یہاں کلرک، مزدور، بیوپاری، وکیل، افسر، لیڈر، چور اچکے، طوائف اور دلال سبھی ہیں اور ان سب سے جڑی ہوئی طبقاتی کشمکش ہے اور سب سے بڑھ کر لاتعلقی اور اجنبیت کا زہر ہے جو رفتہ رفتہ انسان کی شخصیت کو کھوکھلا کرتا جا رہا ہے۔ مگر اس کے باوجود انسان اپنے حالات سے نبرد آزما ہے۔ وہ اپنے حالات سے جنگ کر رہا ہے اور جی رہا ہے۔ اس کی اسی زندگی میں خوشحالی بھی ہے، رنگینی بھی ہے اور بے فکری کا ایک ماحول بھی ہے۔
حوالہ جات
1۔ ڈاکٹر جمیل جالبی، قومی انگریزی اردو لغت، اسلام آباد: الحمرا پبلشنگ، 2002، ص: 363
2۔ سید عابد حسین، قومی تہذیب کا مسئلہ، دہلی: ترقی اردو بیورو، 1980، ص: 15
۔3Tylor, E. B)۔1891۔(Primitive Culture: Researches into the development of mythology, philosophy, religion, art and custom, 3rd Ed. Albemarle street John Murray, London۔
4۔ پریم چند، برات مشمولہ آخری تحفہ، لاہور: نرائن دت سہگل اینڈ سنز،1939، ص: 194
5۔ مدن گوپال (مرتب)، سواسیر گیہوں مشمولہ کلیات پریم چند، جلد 11،نئی دہلی: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، 2001، ص: 383
6۔ مدن گوپال (مرتب)، راہِ نجات مشمولہ کلیات پریم چند، جلد 11،نئی دہلی: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، 2001، ص: 271
7۔ ڈاکٹر صغیر افراہیم، اردو افسانہ ترقی پسند تحریک سے قبل، علی گڑھ: ایجوکیشنل بک ہاؤ س، 2009، ص: 48
8۔ کرشند چند، ان داتا، دہلی: اراولی پبلشر، وجے مارکیٹ رجا پور، روہنی، 2004، ص: 56-55
9۔ کرشن چندر، پشاور ایکسپریس مشمولہ ہم وحشی ہیں، بمبئی: کُتُب پبلشرز، 1949،ص: 111-110
10۔سید وقار عظیم، نیا افسانہ، علی گڑھ: ایجوکیشنل بک ہاؤس، 1996، ص:217
11۔ کرشن چندر، میرا بچہ مشمولہ اجنتا سے آگے، بمبئی: کتب پبلشرز لمیٹڈ، 1948، ص: 52
12۔ شمس الحق عثمانی، بیدی نامہ (راجندر سنگھ بیدی کی شخصیت اور فن کا مطالعہ)، نئی دہلی:مکتبہ جامعہ لمیٹڈ دریاگنج،1986، ص: 116
13۔ وارث علوی، راجندر سنگھ بیدی، دہلی: ساہتیہ اکادمی، 1989، ص: 59
14۔ راجندر سنگھ بیدی، جنازہ کہاں ہے مشمولہ ہاتھ ہمارے قلم ہوئے، نئی دہلی: مکتبہ جامعہ لمیٹڈ،1988، ص: 192
15۔ سید محمود کاظمی، راجندر سنگھ بیدی:ایک سماجی و تہذیبی مطالعہ، دہلی: عفیف آفسیٹ پرنٹرس، 2011، ص: 100-99
16۔ راجندر سنگھ بیدی، تلادان مشمولہ دانہ و دام، لاہور: مکتبہ اردو، 1939، ص: 95-194
17۔جمیل اختر (مرتب)، حد فاصل مشمولہ کلیات بلونت سنگھ، نئی دہلی: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، 2009، ص: 65-64
18۔گوپی چند نارنگ، بلونت سنگھ کے بہترین افسانے، دہلی: کلر پرنٹ،1995، ص: 70-69