You are currently viewing سید احمد قادری کی افسانہ نگاری

سید احمد قادری کی افسانہ نگاری

علیزے نجف

سرائے میر ، اعظم گڑھ

سید احمد قادری کی افسانہ نگاری

دنیائے ادب میں سید احمد قادری کا نام کئی حوالوں سے پہچانا جاتا ہے وہ نہ صرف ایک بہترین افسانہ نگار ہیں بلکہ وہ ایک بااصول صحافی اور محقق و ناقد بھی ہیں پچھلے پچاس سالوں میں انھوں نے اپنے بیباک قلم کے ذریعے اپنے افکار و خیالات کو لوگوں تک پہنچایا ہے۔  ان کے تخلیقی مزاج سے تدین اور جدت پسندی صاف ظاہر ہوتی ہے اور ان کی تحریریں بدلتے وقت کے تقاضوں کی ترجمانی کرتی ہیں، احمد قادری صاحب نے اب تک بےشمار افسانے لکھے ہیں، ان کے افسانوں کا چار مجموعہ بھی شائع ہو چکا ہے۔ ان کے تقریبا تمام افسانوں کا موضوع اسی جیتی جاگتی دنیا سے متعلق ہے انھوں نے اپنے ارد گرد کے مسائل اور صورتحال کی عکاسی بڑی خوبصورتی کے ساتھ اپنے افسانوں میں کی ہے۔
سید احمد قادری کے افسانوں کو پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ سارے کردار ہمارے اردگرد ہی سے لئے گئے  ہیں خلائی اور مافوق الخیال حقیقتوں کی منظر کشی کرنے سے انھوں نے ہمیشہ اجتناب کیا ہے۔ ان افسانوں سے احمد قادری صاحب کے مشاہدے کی وسعت کا بھی بخوبی اندازہ ہوتا ہے وہ افسانوں کو لفظوں کی بہتات سے بوجھل کرنے کے قائل نہیں ہیں۔ ان کے افسانوں میں اختصار کے ساتھ اپنی بات کہہ جانے کا ہنر پایا جاتا ہے جو کہ اپنے آپ میں ایک قابل تعریف ہنر ہے۔
ان کے چار افسانوی مجموعے ریزہ ریزہ خواب، دھوپ کی چادر، پانی پر نشان، اور ملبہ کے نام سے شائع ہوئے ہیں۔ ان کے افسانوں میں موضوعات کا تنوع پایا جاتا ہے، انھوں نے اپنے افسانوں کے کردار کو اس خوبصورتی کے ساتھ برتا ہے کہ کہیں بھی بوجھل پن کا احساس نہیں ہوتا۔
ان کا ایک افسانہ ہے ‘دوپہر’ جو یہ احساس دلاتا ہے کہ کچھ لوگوں کی زندگی کیسی کیسی مجبوریوں سے جکڑی ہوئی ہوتی ہے جہاں ضروریات منہ پھاڑے خواہشات کو نگلتی رہتی ہیں چھوٹی چھوٹی خوشیاں بھی ان کی دسترس سے دور ہوتی ہیں رامو ہمارے معاشرے کا ایسا ہی ایک کردار ہے جو ہمیں ہر طرف دکھائی دیتا ہے بشرطیکہ دیکھنے والی آنکھ کے ساتھ محسوس کرنے والا دل بھی ہو  لیکن  ہم اکثر و بیشتر ٹھنڈی بوتل والے دکاندار کی طرح ان کا درد سمجھنے کی کبھی بھی کوشش نہیں کرتے۔ رامو جیسے لوگوں  کی ضروریات ختم نہیں ہوتی اور ہماری خواہشات بےکنار ہوتی ہیں جو کہ حرص کا درجہ رکھتی ہیں جو کہ ایک المیہ ہے۔  یہ افسانہ ہمیں تھوڑی دیر کے لئے ہی سہی سوچنے پہ مجبور ضرور کرتا ہے کہ ہم ذرا سا اپنا ظرف بڑا کر کے کسی کو وہ چھوٹی سی خوشی ضرور دے سکتے ہیں جو چھوٹی ہونے کے باوجود رامو جیسے لوگوں کی استطاعت سے باہر ہوتی ہے۔
سید احمد قادری کے سارے ہی افسانوں کو موضوع بحث نہیں بنایا جا سکتا اس لئے چنندہ افسانوں کی روشنی میں ان کی افسانہ نگاری کے کمال کو پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔  عزت دار، سلسلہ بھوک کا، بوجھ زندگی کا احمد قادری کے یہ ایسے افسانے ہیں جس میں انھوں نے زندگی کی سچائیوں کو پرونے کی کوشش کی ہے بےبسی کا تعلق خواہ کسی بھی چیز سے ہو یہ انسان کے جذبات کو یکسر بدل دیتی ہے اس کا پورا زاویہء نظر تبدیل ہو جاتا ہے۔ انھوں نے قارئین کو خیالی جنت کی سیر کرانے کے بجائے جیتی جاگتی حقیقت سے متعارف کروایا ہے احمد قادری صاحب کو اس حقیقت کا بخوبی علم ہے کہ خوش فہمی خواہ کتنی ہی کیوں نہ خوبصورت ہو کبھی حقیقت کو تبدیل نہیں کر سکتی اس لئے انھوں نے اس سے قطعاً پرہیز کیا۔
افسانوں کی ایک بڑی خوبصورتی یہ ہوتی ہے کہ یہ آپ کو تفریح فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ تعمیری نکات سے بھی آشنا کراتی ہے یہ قاری کے ذہن کو بوجھل ہونے نہیں دیتے افسانے واقعات اور حالات کو اس طرح پیش کرتے ہیں گویا وہ ہمارے سامنے منعکس ہو رہے ہیں سید احمد قادری نے اس افسانوی خوبی کا بھرپور استعمال کیا ہے ۔
سید احمد قادری کے افسانے منفرد اسلوب اور اعلی فکر و نظر کے حامل ہیں انھوں نے قاری کے احساسات کے ساز کو چھیڑا ہے، انسانیت کو بیدار کیا ہے اور قاری کو سوچنے کا ایک ایسا انداز دیا ہے جو تہذیب حاضر کی چکاچوند میں گم ہوتا جا رہا تھا۔
آئینے کی گرد سید احمد قادری صاحب کا ایک ایسا افسانہ ہے جو ہمارے معاشرے کی چبھتی ہوئی حقیقت ہے جس سے ہم نظریں تو چرانا چاہتے ہیں لیکن بےسکونی کی وجہ سے اکثر ناکام ہی رہتے ہیں۔ لوگ زندگی میں عیش و عشرت کے حصول کے لئے ایسے ایسے کام کر جاتے ہیں جو کہ ان کی پرتعیش زندگی میں دہکتے ہوئے شعلوں جیسی اذیت پیدا کر دیتی ہے۔ ہم نے تقلید کی ایک ایسی روش اپنا لی ہے جہاں سوچنے اور سمجھنے کے لئے ہم کوئی دریچہ بھی کھلا نہیں چھوڑتے ہم ساری زندگی حرام و حلال کا فرق مٹائے اپنے نفس اور ہوس کا پیٹ بھرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں جو کہ کسی طور بھرتا محسوس نہیں ہوتا یہاں تک کہ ایک مدت کے بعد ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہم نے کتنا خسارے کا سودا کیا ہے پھر وہی آسائشیں کانٹوں کی طرح چبھنا شروع ہو جاتی ہیں۔  اس حقیقت کو انھوں نے ائینے کی گرد میں بحسن خوبی سمیٹا ہے۔
بحیثیت افسانہ نگار کے احمد قادری صاحب نے اپنے افسانوں میں روایت کی بہترین منظر کشی کی ہے انھوں نے روایت کے خلاف جانے سے ہمیشہ گریز کیا انھوں نے اپنے افسانوں کے ذریعے ایک طرف معاشرے کے ان منفی عناصر کو شامل کیا ہے جو انسانی تہذیب اور اقدار کے منافی ہیں وہیں  افسانوں کے آخر میں انھوں نے مثبت عناصر کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا ہے۔ تاکہ قاری کے سامنے تصویر کے دونوں رخ آ سکیں اور ان کے لئے صحیح اور غلط میں تمیز قائم کرنا آسان ہو۔
سید احمد قادری کی افسانہ نگاری پہ تبصرہ کرتے ہوئے اصغر علی انجینئر نے ایک مضمون میں لکھا تھا ” قادری میں فنکارانہ صلاحیتیں موجود ہیں نظریاتی وابستگی بھی ہے اور مشاہدہ بھی ہے کہانی کہنے کا فن بھی آتا ہے، لیکن ابھی ارتقاء کی کئی منزلیں طئے کرنا ہے۔۔۔۔۔۔ لیکن جن کرداروں کو قادری نے اپنے صاف اور سیدھے بیانیہ انداز کی تصویر کشی میں کامیابی حاصل کی ہے ان میں کوئی الجھاؤ اور اندرونی گہرائی کی گتھیاں نہیں ہیں۔ منٹو اور بیدی کے کردار بہت الجھے ہوئے اپنے دروں میں جھانکتے نظر آتے ہیں لیکن یہ کوئی کمزوری نہیں ہے۔ کھلی ہوا میں سیدھے جھولنے والوں میں گھماؤں اور پیچیدگی نہیں ہوتی”
سید احمد قادری کی افسانہ نگاری پہ بات کرتے ہوئے مناظر عاشق ہرگانوی نے کہا کہ “سید احمد قادری اپنے ہر افسانے میں موضوع سے منسلک ابعاد کو اجاگر کرتے ہیں۔ زندگی اور معاشرہ کی نوع بہ نوع شکل کو اعلامیہ بناتے ہیں اور محور تلاش کرتے ہوئے تزکیہ نفس کی صورت کو معنی پہناتے ہیں ساتھ ہی تہہ دار حقیقت اور ارتباطی دانش و بینش سے پر نکتہ رسی کو فطرت،فضا، حالات، اور نشاط زیست و انتشار جمال کی کائنات بناتے ہیں۔ سماج اور معاشرے کے عکاس ان کے افسانے حادثات امروز و فردا کی نئی دنیا رکھتے ہیں”
ادبی بساط کی بہت سی نامور شخصیات نے ان کے افسانوں اور ان کی شخصیت پہ اپنی قیمتی آرا دی ہیں جو اس بات کی غماز ہیں ان کے قاری میں اعلی ادبی شخصیات کا بھی شامل ہیں اور ان کے فن پہ ان کی گہری نظر ہے۔
سید احمد قادری کے افسانوں کا اسلوب بیانیہ ہے انھوں نے ہر طرح کے احساسات و جذبات کی ترجمانی کرنے کی پوری کوشش کی ہے انھوں افسانوں میں ابہام پیدا نہیں ہونے دیا ہے ان کا ایک  افسانہ ‘اداسیاں’ ہے اس میں بیان کیا جانے والا کردار اخلاقی روایات کے منافی ہوتے ہوئے بھی ہمارے معاشرے کا جزو لازم بن گیا ہے حالات کی گردش انسان کو ایسے موڑ پہ لا کھڑا کر دیتی ہے جس کا کہ وہ تصور بھی کرنا نہیں چاہتا اس کہانی کا مرکزی کردار ایک بوڑھا شخص ہے جو کہ باپ ہونے کی سزا کاٹ رہا ہے وہ ساری زندگی جس پودے کی آبیاری کرتا رہا تھا اس کی چھاؤں بھی اس کے مقدر میں نہیں تھی اسے مفلوک الحال بنانے والے ہمارے معاشرے کا ہی ایک حصہ ہیں جنھوں نے اپنی بےحسی سے اس بوڑھے شخص کو اداسیوں کے ایک ایسے بھنور میں چھوڑ دیا ہے جو دن بہ دن اپنا دائرہ وسیع تر کرتا جا رہا ہے اس افسانے کا ایک اقتباس آپ بھی پڑھئے جس میں  وہ اپنے پالتو جانوروں کو اپنا رفیق بتاتے ہوئے کہتا ہے۔
“دیکھا بچو تم لوگوں نے میرے دوستوں کو میری تنہائی کے ساتھی، میرے دکھ، تکلیف کے دوست یہی ہیں کبھی میں بھی جوان تھا میرے دم سے یہ گھر آباد تھا۔ اس گھر میں بھی کبھی طوطی بولتی تھی بیٹے لیکن۔۔۔۔ قصور میرا اتنا ہے کہ میں اب بوڑھا ہوگیا ہوں۔اپنے بچوں کو اعلی تعلیم دلائی ان کے مستقبل کو سنوارنے کی ہر ممکن کوشش کی انھیں اس قابل بنایا کہ وہ زمانہ وقت حالات کا مقابلہ کر سکیں اور۔۔۔۔۔ اور لیکن مجھے ان سب کا کیا صلہ ملا یہ تمھارے سامنے ہے”
اس بوڑھے شخص کی بےبسی ہمارے معاشرے کی بےحسی کو اجاگر کرتی ہے اس بےحسی کو احمد قادری صاحب نے بنا کسی آمیزش اور تاویل کے بیان کیا ہے۔
سید احمد قادری کے تمام ہی افسانے عام فہم اور قابل توجہ ہیں انسانیت، اخلاقیات کے روشن پہلوؤں کو واشگاف کرتے ہیں انھوں نے ستر کی دہائی سے لے کر اب تک کے پیش آمدہ حالات کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے ایک بہترین ناقد اور صحافی ہونے کے ناطے معاشرے کی ہر چھوٹی بڑی حقیقت پہ  گہری نظر رکھتے ہیں۔۔۔۔

۔***

Leave a Reply