ڈاکٹرمحمد عاشق خان
2+ہائی اسکول ،باری ساکھی گدھور چترا( جھارکھنڈ)
اصول ِ تحقیق
حقائق کی بازیافت تحقیق کا مقصد ہے ۔اس کو یوں بھی کہا گیا ہے کہ تحقیق کسی امر کو اُس کی اصلی شکل میں دیکھنے کی کوشش ہے ‘‘ (قاضی عبدالودود) اس کے لیے یہ ماننا ہوگا کہ حقیقت ِ واقعہ (یا اصلی شکل ) بہ ذاتِ خود موجود ہوتی ہے ‘ خواہ معلوم نہ ہو ۔اِسی بنا پر یہ بھی ماننا ہوگا کہ ایسی رائیں جو تاویل اور تعبیر پر مبنی ہوں ‘ واقعات کی مرادف نہیں ہو سکتیں ، کیوں کہ وہ فی نفسہ کسی امر کی اصلی شکل نہیں ہوتیں ۔تعبیرات پر حقائق کا اطلاق نہیں کیا جا سکتا ‘ یہی صورت قیاسات کی ہے۔
کسی امر کی اصلی شکل کا تعیّن اُس وقت ہوگا جب اُس کا علم ہو ۔یہ صحیح ہے کہ کسی چیز کا معلوم نہ ہونا ،اُس کے نہ ہونے کی دلیل نہیں ہو سکتا ! لیکن ادبی تحقیق میں کسی امر کا وجود بہ طورِ واقعہ اُسی صورت میں متعیّن ہوگا جب اصولِ تحقیق کے مطابق اُس کے متعلق معلومات حاصل ہو۔
واقعے کا چھوٹا یا بڑا ہونا یا اہم اور غیر اہم ہونا ادبی تحقیق میں کوئی مستقل حیثیت نہیں رکھتا ۔یہ صفاتی الفاظ صرف اُس صورتِ حال کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس میں اُس واقعے سے کام لیا جا رہا ہے ۔جو بات ایک جگہ کم اہمیت رکھتی ہے ‘ بہ خوبی ممکن ہے کہ دوسری جگہ زیادہ اہمیت رکھتی ہو ۔تحقیق میں ہر واقعہ بجائے خود ایک حیثیت رکھتا ہے اور اُس کے متعلق ضروری معلومات حاصل کی جانی چاہیے ۔اُس معلومات سے کہاں ، کس طرح اور کس قدر کا کام لیا جائے،یہ دوسری بات ہے اور اس کا تعلق ترتیب ِواقعات کے تقاضوں سے ہوگا ۔اس بات کو ایک اور طرح بھی کہا جا سکتا ہے : شاعرانہ مرتبے کے لحاظ سے سب شاعر یکساں حیثیت نہیں رکھتے‘مثلاً آبروؔ اور ناجیؔ بہ حیثیت ِ غزل گو میرؔو دردؔ کے ہم پلّہ نہیں اور یہ بات اپنی جگہ پر بالکل درست ہے ۔لیکن تاریخی ادوار کے لحاظ سے اپنے دور میں ان کی اہمیت ہے اور ارتقائے زبان کی بحث ‘ قواعدِ زبان و بیان اور ترتیب ِ لُغت کے نقطئہ نظر سے آج ان شعرا کی بہت زیادہ اہمیت ہے ۔آبروؔ اور ناجیؔ تو خیر اُس دور کے معروف شاعر تھے ‘ اُن سے کچھ کم درجہ شعرا کے دواوین بھی آج لسانی مباحث کے لیے بڑی حیثیت رکھتے ہیں ۔
کسی امر کی اصلی شکل کی دریافت اس لیے ضروری ہوتی ہے کہ صحیح صورتِ حال معلوم ہو سکے ۔اس سلسلے میں جو شہادتیں مہیّا کی جائیں اور جو معلومات حاصل کی جائے وہ ایسی ہونی چاہیے کہ استدلال کے کام آسکے ۔تاکہ واقعات ترتیب میں صحیح طور پر اُس سے مدد ملے اور حدودِ تحقیق کے اندرنتائج نکالے جا سکیں ۔اس لیے یہ لازم ہوگا کہ جن اُمور پر استدلال کی بنیاد رکھی جائے ، وہ اُس وقت تک کی معلومات کے مطابق،بہ ظاہر حالات شک سے بری ہوں اور جن مآخذ سے کام لیا جائے ،وہ قابلِ اعتماد ہوں ۔غیر متعیّن ،مشکوک اور قیاس پر مبنی خیالات کا مصرف جو بھی ہو : اُن کی بنیاد پر تحقیق کے نقطئہ نظر سے قابلِ قبول نتائج نہیں نکالے جا سکتے ۔ایک مثال سے اس کی وضاحت ہو سکے گی :
یہ بات سچ ہے کہ امیرؔ خسرو نے ’’ ہندوی ‘‘ میں بھی شعر کہے ہیں ‘ اس سلسلے میں اُن کا اپنا بیان موجود ہے ۔لیکن یہ نہیں معلوم کہ وہ شعری سرمایہ کہاں ہے ۔خسروؔ کی جو مستند تصانیف ہمارے پاس ہیں ،اُن میں یہ ’’ ہندوی کلام ‘‘ موجود نہیں۔ معاصر تصانیف بھی ایسے کلام سے خالی ہیں ۔اب صورتِ حال یہ ہے کہ بہت سا کلام اُن سے منسوب کیا جاتا ہے ( دو ہے ‘ پہلیاں ‘ کہہ مکرنیاں وغیرہ ) مگر آج تک کسی شخص نے ایسی کوئی سند نہیں پیش کی ہے جس کی بنا پر اُس کلام کا انتساب صحیح مانا جاسکے ۔جو حوالے دیے گئے ہیں ‘ وہ اس قدر موخّر ہیں کہ معتبر ماخذ بننے کی صلاحیت نہیں رکھتے ۔سب سے قدیم حوالہ ایک دوہے کے سلسلے میں سب رس کا پیش کیا جاتا ہے ،جو معروف دکنی تصنیف ہے ۔دیگر بحث طلب اُمور کے علاوہ ، بڑی بات یہ ہے کہ اس کتاب کی تصنیف اور امیر خسرؔو کے عہد میں کم و بیش تین سو سال کا زمانی فصل ہے اور درمیان کی کڑیاں غائب ہیں ۔ میرؔ کے تذکرے نکاتُ الشعرامیں ایک قطعہ خسروؔ سے منسوب کیا گیا ہے ۔ یہاں بھی وہی صورت ہے کہ سیکڑوں برس پر مشتمل زمانی فصل موجود ہے میر نے اپنے ماخذ کا حوالہ دیا نہیں اور خود اُن کا تذکرہ خسرو کے سلسلے میں واحد ماخذبننے کی اہلیت نہیں رکھتا۔محمد حسین آزاد ؔ نے مقدمۂ آب ِ حیات میں متعدّد پہلیاں (وغیرہ ) خسروؔ سے منسوب کی ہیں اور حسبِ معمول حوالہ نہیں دیا ،یہاں بھی وہی صورت ہے ۔
غرض یہ کہ امیر خسروؔ کا ہندوی میں شعر کہنا مسلّم امیر خسروؔ کا ہندوی میں شعر کہنا مسلّم مگر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ ذخیرہ کہا ں ہے ۔اُس کا کچھ حال معلوم نہیں ۔ یہ اب تک کی معلومات کا حاصل ہے ۔ جب تک اس سلسلے میں نئی معلومات حاصل نہ ہوں، اُس وقت تک یہی صورت حال بر قرار رہے گی ۔اگر کوئی شخص نئے قابلِ قبول شواہد کے بغیر روایت کے طور خسروؔ سے منسوب ہندوی کلام کو پیش کرتا ہے تو اُسے قبول نہیں کیا جائے گا۔
تحقیق ایک مسلسل عمل ہے ۔ نئے واقعات کا علم ہوتا رہے گا ،کیوں کہ ذرائع ِ معلومات میں اضافہ ہوتا رہتا ہے ۔یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کون سی حقیقت کتنے پرودوں میں چھپی ہوئی ۔
تحقیق کے مسائل
تحقیق کا راستہ مشکلوں سے بھرا ہوا ہے، اِ س میں دو چار سے کہیں زیادہ سخت مقام آتے ہیں ۔ادبی تحقیق کے اصول بجائے خود صبر آزما ہیں ،لیکن اب اُن مشکلوں میں کچھ ایسے اضافے بھی ہو رہے ہیں جن کا زیادہ تعلّق کام کرنے کے طریقوں سے اور بعض دوسرے اُمور سے ہے ۔ضرورت ہے کہ اِ ن مسائل پر گفتگو کی جائے ۔
اُردو میں تحقیقی کام کرنے والوں کو جن مآخذ سے استفادہ کرنا پڑتا ہے ، اُن میں سے بیش تر فارسی میں ہیں ۔یہ کہا جا رہا ہے کہ ایسی کتابوں ،خاص طور پر تذکروں کا اُردو میں ترجمہ ہونا چاہیے ۔اس فصل میں حوالے کی کتابوں کے ترجمے کے مسائل پر گفتگو کی جائے گی ۔اس سلسلے میں جو کچھ لکھا جائے گا ،اُس کا تعلق صرف ادبی تحقیق کے اُن بنیادی مآ خذ سے ہوگا جو فارسی میں ہیں ۔
اُنیسوں صدی کے اوا خر تک ہندوستان میں فارسی کے اثرات کا ر فرما رہے ہیں اور اس سے پہلے تو اُسی کی فرماں روائی تھی۔اُس طویل عہد کی عام تصانیف ،تاریخی کتابیں ،تذکرے ،روزنامچے ،بیاضیں ،مکاتیب ،فرامین (وغیرہ ) عموماً فارسی میں ملتے ہیں ۔یہ ایسے مآ خذ ہیں جن کی طرف رجوع کیے بغیر کوئی شخص اُس عہد سے متعلق کسی ادبی موضوع پر تحقیق کا حق ادا نہیں کر سکتا ۔یہ بھی ذہن میں رہنا چاہیے کہ ان مآخذ سے استفادے کے لیے،فارسی میں شُد بُد کا فی نہیں ۔اس زبان سے اچھی طرح واقف ہونا ضروری ہے ۔
ہر سال طالب علموں اور اُستادوں کی قابلِ ذکر تعداد ایسے موضوعات ِ تحقیق کو منتخب کرتی ہے جن کا حق ادا کرنے کے لیے فارسی سے بہ خوبی واقف ہونالازم ہے ۔ لیکن اکثر طلبا اور بعض اساتذہ بھی اس شرط کو پورا نہیں کرتے ۔کچھ لوگ’’ است ‘‘ اور’’ بود‘‘ کی حد تک فارسی جانتے ہیں اور کچھ لوگ اتنی بھی نہیں جانتے ۔اس کے بجائے کہ ایسے موضوعات کو منتخب نہ کیا جائے ،یہ کوشش کی جاتی ہے کہ آسان پسندی کے لیے پیدا کی جائے ۔حوالے کی کتابوں کو اُردو میں منتقل کرنے کی ضرورت بھی اکثر انہی حضرات کو محسوس ہوتی ہے ،یا پھر تاجرانہ ذہن اس ضرورت کی یاد دلاتا ہے ۔
ایک زبان کی کتاب کو دوسری زبان میں منتقل کرنا اچھی بات ہے ،لیکن تذکروں یا دوسرے مآخذ کے ترجموں کی حیثیت بالکل مختلف ہے اس سلسلے میں بنیادی سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کسی ترجمے کو اصل مآخذ کا درجہ دیا جا سکتا ہے ؟ یا یوں کہیے کہ ایسے کسی حوالے کو ،جو ترجمے پر مبنی ہو ،قبول کیا جا سکتا ہے ؟
اس کا جواب بہت صاف اور واضح ہے اور وہ یہ کہ ترجمے کو اصل مآخذ کی حیثیت سے نہ پیش کیا جاسکتا ہے اور نہ قبول کیا جا سکتا ہے۔ تصنیف اور ترجمہ ، دو مختلف چیزیں ہیں ۔ اصل تصنیف کو اصل ماخذ کی حیثیت حاصل ہو سکتی ہے ، مگر اُس کے ترجمے کی حیثیت ثانوی ماخذ کی ہوگی ۔اور اس صورت میں یہ معلوم ہے کہ اصل مآ خذ کے مقابلے میں ثانوی مآخذ کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔ تذکرے ،عام لوگوں کی دل چسپی کی چیز نہیں اور خواص ‘ جو ایسے مصادر و مآخذ سے سرو کار رکھتے ہیں ‘ اُن کے لیے یوں بے کار ہیں کہ وہ بہ ہر صورت اصل مآخذ کی طرف رجوع کرنے پر مجبور ہوں گے ۔یہ لوگ ترجمے کو بہ طورِ حوالہ تو پیش کر نہیں سکتے ،اس لیے اُن کے نقطئہ نظر سے بھی یہ بے مصرف ہوں گے در حقیقت یہ ایسا فضول کام ہے جو فضول ہونے کے ساتھ ساتھ گم راہ کن بھی ہے۔اسی سلسلے میں ایک اور مسئلہ سامنے آتا ہے ۔ہمارے یہاں اعلیٰ تعلیم کی ایک خامی یہ ہے کہ طالب علم اُصول تو بہت سے پڑ ھ لیتا ہے مگر اُن اُصولوں کا جس ادب سے تعلق ہے ۔اُس کو صحیح طور پر پڑھنے کی توفیق بہت کم کو نصیب ہو پاتی ہے ۔رجب علی بیگ سرورؔ کے حالات اور اُن کے عہد پر درس دے سکتے ہیں لیکن فسانہ عجائب کی چند سطروں کو صحیح طور پر پڑھنا مشکل ہوگا ۔یہ صورت طلبا ہی کی نہیں بہت سے اساتذہ بھی اسی ذیل میں آتے ہیں وہ اُصولوں کی ہواؤں میں بہت اونچے اُڑیں گے انگریزی کی کتابوں کے حوالوں کے انبار لگا دیں گے اور لفظوں کے طوطا مینا بنائیں گے کہ واہ واہ اور سبحان اللہ مگر نثر کی کسی اہم کتاب کا ایک صفحہ بہ مشکل پڑھ پائیں گے ۔
تحقیق کے مسائل میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اُردو میں ابھی تک خالص علمی سطح پر کسی منصوبے کے تحت مل جل کر کام کرنے کی صالح روایت نہیں بن سکی ہے اس سلسلے میں سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ہم ابھی تک اخلاقیات تحقیق کا کوئی ضابطہ مرتب نہیں کر سکے ہیں اور اس کے بغیر آج ہی نہیں آئندہ بھی کوئی اجتماعی تحقیقی کارنامہ عالم وجود میں نہیں آئے گا ۔
تحقیق کے طریقہ کار
ش اختر صاحب کی شخصیت کسی کے لیے بھی غیر معروف نہیں ہے ۔انہوں نے علمی و ادبی خدمات بہترین طور پر انجام دی ہے۔وہ شروع سے ایسے ماحول سے وابستہ رہے جہاں ادب اور علم کا ساتھ رہا ۔انہوں نے کئی کتابوں کے ساتھ ساتھ بے شمار مضامین بھی لکھے ۔تحقیق کے طریقہ کار ان کی ایسی بھر پور کتاب ہے جس کی ہرسطر میں علمیت اور تجربے کی روح سمٹ آئی ۔
یہاں تحقیق کی نوعیت اور اس کے تقاضے پر بھر پور روشنی ملتی ہے ۔ش اختر صاحب کے خیال میں تحقیق کا موضوع خاصا پے چیدہ اور خشک ہے یہ جدید علم نہیں ہے ۔انسانی زندگی سے اس کا رشتہ بہت قدیم ہے ۔تحقیق ،تلاش ،کھوج ،انسانی جبلتوں کا ایک حصہ ہے ،تجسس کی رفتار اگر رک جائے تو انسانی دنیا کا ارتقا بھی ٹھہر جائے گا ۔اس رفتار کو تحقیق کے مختلف طریقہ کا رہی آگے بڑھاتے ہیں ۔خاص طور سے سائنس اور سماجی علوم کی دشوار راہیں اس کے بغیر طے نہیں کی جا سکتیں کسی بھی چیز کی تہہ تک پہنچنے کے لیے تحقیق لازم ہوتی ہے ۔اس طرح دنیا کا نظام اس پر قائم رہتا ہے ۔یہاں پر یہ اہم پہلو ہے کہ اسکالر اپنے نگراں کا انتخاب کیسے کرے۔ اگر نگراں تحقیق سے دلچسپی نہیں رکھتا ہے سماجی علوم اور تحقیق سے اسے واقفیت نہیں تو وہ ایک اچھا نگراں نہیں بن سکتا ۔نگراں کے فرائض میں یہ بھی شامل ہے کہ موضوع کے انتخاب میں اس کا خاص خیال رکھے کہ موضوع سے متعلق تحقیقی کام جدید انکشافات کرے اور وہ معتبر بھی ہو تحقیق کے کام کو آگے بڑھانے میں مفروضہ تصوراور حقیقت کی تلاش کا جذبہ بہت معاون اور مددگار ہوتا ہے ۔نگراں اپنے اسکالر کی دلچسپی اور ان کے ذوق کے پیش نظر اسے کسی تحقیقی موضوع پر کام کرنے کی صلاح دیتا ہے ۔وہ اپنے نظریات کو اس پر مسلط نہیں کرتا ،موضوع کے انتخاب کے بعد سن آپسس بنانے میں دیباچہ کی ضرورت پڑتی ہے ۔موضوع کا تعارف ،دائرہ ،پس منظر اور مقصد کو اس لحاظ سے اہمیت حاصل ہوتی ہے کہ ان کے ذریعہ ریسرچ اسکالر کے دائرے اور اس کی حد بندیوں سے واقفیت ہو جاتی ہے ۔دیباچہ پیش کرتے وقت اس بات کا خاص دھیان رکھنا چاہیے کہ منفرد اسلوب میں موضوع سے متعلق مسائل کی تشریح کرے اور داخلی جذبات و احساسات پر سائنسی نقطہ نظر کو فوقیت ہوتا کہ یہ انسانی خوشیوں کی راہ ہموار کرنے میں معاون ثابت ہو۔ معاشرہ کی تشکیل میں انسانی مفاد کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے ۔بہتر معاشرہ کی تخلیق تہذیبی قدروں کو پروان چڑھانے کے ساتھ ساتھ عام انسانی زندگی کے مسائل پر بھی اپنی توجہ مرکوز رکھتی ہے ۔حقائق کا جائزہ اور اس کے نتیجے بہتر صحت مند ذہنی رویے کے ساتھ ساتھ نئے معاشی نظام بھی استوار کرتے ہیں ۔اس لیے تحقیق میں علمی متانت ،سنجیدگی ،اور دیانت داری کا ہونا ضروری ہے ۔ان سے بیگانگی کا عمل تحقیق کے مقصد کو مجروح کرتا ہے ۔تحقیق و تنقید کے عمل میں مصروف ذہنوں کے لیے علم کے معرفت اور دانش وری لازم ہے اور تحقیق کے فن کا سب سے اہم تقاضا بھی ہے ۔یہ امتحان کی ایسی منزل ہے جس کی بنیاد تلاش و جستجو اور مشاہدوںو تجربوں پر قائم ہے ۔
ش اختر صاحب کے لفظوں میں :
’’ ریسرچ حرکت ہے ،تحریک ہے ،فتح ہے ایک نئی حقیقت کی تلاش و جستجو کی کھلی اور علمی کوشش ہے یہ کہنا درست نہیں کہ یہ عقل وخردکی دشمنی ہے یا اسے معطل کر دیتی ہے ۔فکر و نظر میں انجما پیدا کردیتی ہے ۔ بلکہ اس کے بر عکس ریسرچ کے منطق نتائج تمام سماجی ،سائنسی و ادب کے بے حد مفید ثابت ہوتا ہے۔‘‘
ریسرچ ایک نئی حقیقت کی تلاش کی علمی اور سائنسی کوشش ہے یہ کوشش انسانی ذہن کو تلاش و جستجو کے نئے نئے گوشوں سے ہم کنار کرتی ہے ۔جس سے علم و فن کی نئی راہیں سامنے آتی ہیں عام طور پر اس کے دو حصے ہوتے ہیں ۔(۱) اندراج اور (۲) اطلاق دونوں کا مقصد حق کی تلاش ہے ۔یہ تلاش ریسرچ اسکالر سے دیانت داری کا مطالبہ کرتی ہے ۔ریسرچ اسکالر علم و صداقت پر یقین رکھتا ہے ۔دوسری تمام باتوں کو وہ ثانوی حیثیت دیتا ہے ۔یہاں تحقیق کی مختلف قسموں کے بارے میں بھی بتایا گیا ہے ۔اس کے مختلف اقسام میں تجزیاتی ،تحقیقی ،فصاحتی تحقیق،کلینکی تحقیقی اور تاریخی تحقیق شامل ہیں اور یہ سبھی قسمیں تحقیق کے سلسلے میں سو د مند ہوتی ہیں ۔
ریسرچ کے دوحصے ہوتے ہیں ۔پرائمری اور سکنڈری ابتدائی تحقیق میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ جس پر ریسرچ اسکالر تحقیق کرنا چاہتا ہے ۔اس سے براہ راست استفادہ ہے یا نہیں ۔اس سلسلہ میں یہ بات دھیان میں رہے کہ جو ادیب یا فن کار مر چکے ہیں ۔ان کی تحریر ہی اسکالر کے لیے پرائمری ذرائع ہوں گے ۔سکنڈری (ثانوی ) میں تذکرے ، تاریخ ،اورموضوع سے متعلق کتابوں کے مطالعہ سے اخذ کیے گئے نتائج شامل ہوتے ہیں ،ریسرچ اسکالر کا اپنا نقطہ نظر بڑی اہمیت رکھتا ہے ۔روشنی میں کیا نتیجہ اخذ کیا اس کے بعد کتابیات کے حوالے سے تمام کتابوں کے ساتھ مصنفوں کے نام پیش کرتے ہوئے حوالے دیے جائیں تو کام بے حد آسان ہو جائے گااور تحقیق کی راہیں ہموار ہوں گی ۔اس کی مزید و ضاحت مصنف نے مثالوں کے ذریعہ کی ہے ۔ تحقیق کے سلسلے میں سوال ناموں کے بھی دو طریقے ہیں ۔پہلا طریقہ یہ ہے کہ سوال نامہ تیار کرکے ان کے جوابات ہاں یا ناں میں مانگے جائیں اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ رو برو سوال و جواب کیے جائیں اور کوئی نتیجہ اخذ کیا جائے لیکن یہاں پر ایک دوسرے کی نفسیات سمجھنے کی شرط لازمی ہے ۔ش اختر صاحب کے خیال میں تحقیق کے لیے تخلیق سے مواد کی ضرورت پڑتی ہے اور مواد کی فراہمی کے کئی ذرائع ہوتے ہیں جن میں لائبریریاں اور عوام کی دنیا بھی ہے ۔انہیںPeople Paper Source,Source بھی کہا جاتا ہے ۔اس سلسلے میں خطوط ٹیپ ریکارڈ نگ ،فن اعداد و شمار کی تحقیق ریسرچ رپورٹ ،ذاتی ڈارئری ،خودنوشت سوانح حیات اور اپنا فیلڈروک بڑی اہمیت کے حامل ہیں ۔اس سلسلہ میں اپنی باتوں کی صداقت کے لیے اکثر اقتباس پیش کرنا پڑتا ہے ۔اشعار دینے پڑتے ہیں اس پیش کش میں ٹھوس بنیادوں کا ہونا لازمی ہے :
’’ مگر ان تمام باتوں کے لیے جس خصوصیت کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ اسکا لر کی تربیت ہے اگر اسکالر ریسرچ کے طریقہ کار سے بالکل ہی نا آشنا ہے اور اس کے نگراں کا بھی وہی حال ہے تو وہ نہ رویوں کا مطالعہ کر سکے گا ۔نہ ان ٹولس سے مدد لے سکے گا ۔‘ ‘
مضمون نگارنے ایک ریفر یشر کور س کو اہم بتایا ہے جس کے ذریعہ تحقیق کے طریقہ کار سے واقفیت کرائی جا سکے۔ کتاب کو پڑھنے کے بعد یہ احساس ہوتا ہے کہ اگر سماجی سائنس سے رشتہ جوڑا جائے تو ریسرچ کے موضوعات میں تنوع پیدا ہوگا ہی ایسے حالات ہوتے ہیں جو تحقیق کے زمرے میں لائے جائیں تو سیاسی ،سماجی اور تہذیبی مطالعے کی مشترکہ صورتیں سامنے آتی ہیں ۔اس سلسلے میں موضوعات کا انتخاب ایسا ہو جس سے ہماری جمالیاتی اور سماجی شعور متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ بالیدہ ہوں ۔
ریسرچ (تحقیق) کے سلسلے میں کئی باتیں بے حد اہم بیان کی گئی ہیں ۔ جن میں دیانت داری کا ہونا بھی ہے اور دیانت داری کا ایک رشتہ ریسر چ اسکالر اور نگراں کے درمیان بھی لازم ہے ۔یہ ایمان داری اپنا احتساب کرنے اور اپنی صلاحیتوں کو پرکھنے پر زور دیتی ہے ۔نقل نویسی اور تحقیق میں امتیاز کرنا سکھاتی ہے ۔ورنہ اس کے تمام قاعدے قانون کے تقاضے بے معنی ہو جائیں گے ۔کوئی بھی ریسر چ اس وقت تک نہ مکمل ہوتا ہے اور نہ صحیح معنوں میں اپنا دائرہ مکمل کرتا ہے ۔جب تک اس کا پوری طرح تجزیہ نہ ہو ،مشاہدات حاصل کرنے کے کئی طریقے ہوتے ہیں اور تجربے بھی کئی ذرائع سے ملتے ہیں ۔مشاہدوں اور تجربوں کو ڈاٹا کیس اسٹڈی اور سوال ناموں کے ذریعہ بھی حاصل کیا جا سکتا ہے ۔اور اکثر حالات بھی کسی کسی خاص موقع پر گہرے تجربے عطا کر جاتے ہیں ۔لیکن جب ہم ریسرچ کا کام شروع کرتے ہیں تو ہمیں اس کے عناصر ترکیبی یا ان نکتوں پر دھیان دینا لازمی ہوتا ہے ۔ جس کے سہارے تحقیق کا کام حقیقی معنوں میں آگے بڑھے گا۔
***