شاہینہ یو سف
ریسرچ اسکالر شعبئہ اردو سینٹرل یونی ور سٹی آف کشمیر گاندر بل۔
ای میل:۔Shaheenayusuf44@gmail.com
افسانہ ۔۔۔۔وعدہ
سوچنا بھی نہایت سخت عمل ہے ۔کبھی سوچیں انسان کو بلندیوں کی پرواز کراتی ہے تو کبھی یہی سوچیں انسان کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑی کرتی ہے۔شاید یہی سب کچھ عشرت کے ساتھ بھی ہو رہا تھا ۔وہ ہر آن ان ہی سوچوں کے دلدل میں پھنستی جا رہی تھی لیکن آج اس نے اپنے آپ سے وعدہ کیا کہ وہ اب بیتی باتوں کو یاد کر کے خود کو سزا نہیں دے گی ۔ویسے اگر کہا جائے کہ انسان ماضی کی قید سے کبھی بھی آزاد نہیں ہوتا ،یادیں ہمیشہ انسان کے دماغ پر اس طرح پہرا جمائے ہوتی ہیں جیسے کوئی سانپ خزانے پر بیٹھ کر پہرا دیتا ہے۔انسان اگرچہ اپنا ماضی بھولنا بھی چاہتا ہے لیکن اسے کوئی نہ کوئی بات ،کوئی نہ کوئی اشارہ ماضی کی یاد دلا کر ہی رہتا ہے۔اسی طرح ہر ذی روح کی طرح نا چاہتے ہوئے بھی عشرت کے دماغ میں وہ سوالات ابھر رہے تھے جن کا جواب سوائے اللہ کے کسی کے پاس نہیں نہ تھا۔عشرت کی عمر یوں تو صرف انیس سال کی تھی لیکن قدرت نے اُس کو اس قدر ہدایت بخشی تھی کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ ساتھ اپنے عزیز و اقارب کی بھی آنکھ کا تارا تھیں۔اُس کا چہرہ بھی اس قدر روشن تھا کہ جیسے نو ر کی برساتیں ہو رہی ہو ۔اُس کی سب سے اچھی سہیلی یاسمین تھی جس سے وہ ہمیشہ کالج کے ساتھ ساتھ گھر میں بھی ملتی ۔کالج جاتے وقت آج وہ پھر اپنی ہم جھولی یاسمین سے ملی ۔یاسمین جو کہ عشرت کی بہت زیادہ قریب رہنے والی سہیلی تھی ۔یاسمین ہی ایک ایسی انسان تھی جو عشرت کو ہمیشہ جینے کی ایک نئی اُمید دے جاتی اور یاسمین نے ہی عشرت کو بُرائی کے ایسے دلدل سے نکالا جہاں سے اُس کا لوٹنا شاید محال تھا۔ویسے قسمت کی بات ہوتی ہے کسی کو زندگی میںکسی ایسے شخص سے سروکار پڑتا ہے جو اُس شخص کو غلط راہ پر لے جاتا ہے لیکن کئی لوگوں کی زندگی میں اللہ یاسمین جیسے دوست کو بھیجتا ہے۔عشرت ہر بار اپنی زندگی کی غلطیوں پر نادم ہو کر پچھتایا کرتی اور ساتھ ہی ساتھ اللہ سے اس بات کا شکریہ بھی ادا کرتی کہ اس نے اسے توبہ کی توفیق عطا فرمائی۔خیرعشرت جب آج یاسمین سے ملی تو وہ دونوں اُسی ( parlour ice cream ) پر گئے جہاں وہ دونوں مستی کیا کرتی تھیں ۔یہ لمحے بھی نا کتنی جلدی گزر جاتے ہیں جس وقت انسان ان لمحوں کو سمیٹنا چاہتا ہو ،اورجب انسان وقت کو جلدی گزارنے کی فراق میں ہو تب ایک دن بھی ایک سال کے برابر ہوجاتا ہے ۔آج یاسمین اور عشرت روزمرہ کی باتوں کے علاوہ بچپن کے ان ہی نایاب لمحوں کو یاد کررہے تھے جنہیں وہ اکثر یادکیا کرتے تھے ۔آج وقت کا کچھ پتہ ہی نہیں چلا عشرت نے یاسمین سے جانے کاکہہ کر اپنی بہن کے لیے ایک ٰIce Cream))خریدی اور دونوں نے گھر کی راہ لی۔
گھر پہنچ کر عشرت نے معمول کی طرح اپنی ماں کا ہاتھ بٹایا اور شام کو کھانے کے بعد جلدی ہی اپنے کمرے میں سونے گئی ۔صبح نیند سے بیدار ہونے کے بعد وہ حسبِ معمول اپنے والدین کے کمرے میں چلی گئی اور اپنے والدین کو نماز ادا کرنے کے لیے کہنے لگی ۔اس کے والد کو اللہ نے یوں تو بہت ساری خوبیوں سے مالا مال کیا تھا لیکن ساتھ ہی ساتھ دنیاوی کام میں ہمیشہ پھنسے رہنے کی وجہ سے وہ نماز ادا کرنے سے قاصر تھے ۔عشرت اگر چہ پہلے بہت شریر تھی لیکن الللہ کی عنایت اور کچھ اس کی سہیلی کی کوششوں سے وہ ا ب ایسی اولاد بن گئی جس کی تمنا شاید ہر والدین کرتے ہیں ۔عشرت یوں تو اپنے والدین اور اپنی بہن سے صوم و صلاۃ کا درس روز دیتی لیکن آج اس کی نصیحت سے کچھ درد بھی عیاں ہورہا تھا کیوں کہ اس نے آج ایک بزرگ کو خواب میں دیکھا تھا جو اُسے اس فانی دنیا کی حقیقت سے باخبر کراتا ہے،اور اسی خواب کے مدِ نظر اس کی باتوں میں آج بے انتہا فکر تھی۔کمرے میں جاتے ہی وہ اپنے والدین سے مخاطب ہو کر بولی :
’’ــــــــ امی ابو اٹھیے اور نماز ادا کیجییے ۔‘‘
’’آپ کو رب کا ڈر نہیں ‘‘
’’کب آپ کو اس ناپائیدار دنیا کی حقیقت کا علم ہوگا ۔‘‘
عشرت کے والد صاحب اُس وقت اٹھ کھڑے ہوئے تھے اور ہمیشہ کی طرح آفس کا کام کرنے لگے ۔عشرت نے اپنے والد کو بہت مجبور کیا لیکن ان پے کام کا اس قدر بوجھ تھا یا ہم یوں بھی کہے کہ ان پے شیطان کا اس قدر زور تھا کہ وہ نماز کے لیے ااُٹھ نا پائے اور اس نے اپنی بیٹی سے یہ وعدہ کیا کہ وہ کام ختم کر کے کل سے نماز ضرور پڑھیں گے ۔
’’بیٹا آج ایک تو آفس کا کا م بے انتہا ہے دوسرا تمہاری ماں کے نکھرے،اس نے بھی مجھے پریشان کر دیا ہے‘‘ ۔عشرت کے والد نے یوں تو اپنی بیوی کا ذکر مذاقاََ کیا تھا لیکن عورت کا مزاج ہی ایسا ہے کہ اسے کبھی کبھی کوئی چھوٹی سی بات بھی تکلیف پہنچا دیتی ہے اور کبھی کبھی کوئی بڑی مصیبت بھی اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتی ۔اسی طرح عشرت کی ماں کے دل پے بھی یہ بات لگ گئی۔ حامد نے کافی کوشش کی کہ بیوی کی ناراضگی دور ہو جائے لیکن آج زبیدہ جیسے روٹھنے کے ہی موڑ میں تھی ۔وہ یہی بات سوچتے سوچتے کچن میں چلی گئی ۔اسے وہ دن یاد آیا جب اسے اس گھر میں بیا ہ کے لایا گیا تھا اور اس نے اپنی شخصیت کس طرح اس گھر کے نام کی تھی ۔یہ شرف صرف اللہ نے چند عورتوں میں رکھا ہوتا ہے کہ وہ جس گھر میں بھی جاتی ہے اسے جنت بنا تی ہے ۔ایسی عورتیں اپنی سجاوٹ تک کا وقت بھی اس گھر ہی کی نظر کرتی ہے ۔یہی حال زبیدہ کا بھی تھا اس نے بھی ا س گھر میں آکر اس گھر کو جنت سے کچھ کم نہ بنایا تھا ،لیکن اسے حامد کی اس بات سے بے حد تکلیف ہوئی ۔وہ بار بار یہ جملے دہرا کر خود کو اداس کر رہی تھی :
’’کیا عورت کو صرف کام کاج کے لیے ہی دوسرے گھر میں شادی کر کے بھیجا جاتا ہے ‘‘۔
’’کیا اس کی خود کی کوئی پہچان نہیں ہوتی ‘‘
یہ سب کہتے کہتے گرم چائے اس کے ہاتھ پے گِر گئی ،اس کے منہ سے چیخ نکل گئی اور عشرت دوڑتے ہوئے آئی اور ماں کے ہاتھ پر دوائی لگائی۔اس کے بعد عشرت اپنے والد کے پاس پھر سے گئی اور اس کے والد نے اسے یہ کہہ کر بھگایااور اسے وعدہ کیا کہ وہ کل سے کسی بھی صورت میں نماز ادا کرے گے۔ عشرت یہ سن کے خوش تو بہت ہوگئی لیکن وہ اور زیادہ خوش ہوتی اگر وہ کل کی جگہ اپنے والد سے آج ہی سے نماز ادا کرنے کا سُنتی۔
’’یہ بچے بھی نا بڑے ضدی ہوتے ہیں اپنے والدین سے کوئی بھی بات دیر یا سویر منوا کے رہتے ہیں ۔‘‘حامد نے خود کے ساتھ ہی بڑبڑاتے ہوئے کہا۔ناشتہ کر کے حامد اپنے کام کو چلا گیا اور کچھ مدت بعد عشرت بھی کالج چلی گئی ۔کالج پہنچ کر اُس نے اس واقعے کا ذکر اپنی سہیلی سے کیا ۔یاسمین عشرت کی اس طرح کی حرکت سے بے حد خوش ہوگئی اور اس کی داد دی ۔عشرت اتنی خوش تھی کہ وہ بار بار یہ بات دہرا رہی تھی کہ میرے والد کل سے نماز ضرور پڑھیں گے ۔آج وہ بہت جلدی گھر جانا چاہتی تھی کیوں کہ اس کو اپنی والدہ کو بھی خوش کرنا تھا اور والدین کے درمیان ہوئی ناراضگی کو دور کرانا تھا ۔اس نے یاسمین سے اجازت لے کر گھر کی راہ لے لی۔گھر پہنچ کر عشرت نے ماں سے باتیں کی اور اپنے کمرے میں چلی گئی ۔اتنے میں فون کی گھنٹی بج گئی ،عشرت نے فون اٹھا یا اور سلام کی ،چند ہی لمحوں کے اندر عشرت کے پیروں سے جیسے زمین نکل گئی اور اس کے ہاتھ سے فون گر گیا اور وہ غش کھا کر گر گئی،ماں سے بیٹی کی حالت دیکھی نہ گئی اور وہ دوڑی ہوئی آئی اور فون اپنے ہاتھ میں لے کر سننے لگی کہ کیا ماجرا ہے اتنے میں فون کے دوسرے طرف سے آواز آئی کہ حامد صاحب کی کار کے ساتھ حادثہ پیش آیا ہے اور وہ موقعے پر ہی اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں ۔ایک گھنٹے میں ہم ان کی لاش کو گھر پہنچانے والے ہیں ۔عشرت کی ماں کی آنکھوں سے بھی آنسوں بے تحاشا بہہ گئے اور وہ یاد کرنے لگی کہ ابھی ابھی تو اس گھر میں رونق تھی ابھی ابھی یہ کیا ہوگیا ۔کچھ ہی مدت کے بعد عشرت ہوش میں آئی ا اور وہ یہی جملہ بار بار دہرا رہی تھی
’’ میرے ابو کل سے نماز ضرور پڑھیں گے انھوں نے مجھ سے وعدہ کیا ہے‘‘ ۔
ہم انسان بھی نہ جانے کس بنیاد پے وعدے کرتے ہیں جب کہ ہم اپنی مرضی سے ایک دن تو کیا ایک سانس بھی
نہیں لے سکتے۔۔۔۔۔۔۔۔
Shaheena Yusuf
Research Scholar Deptt.of Urdu
Central University of Kashmir.191201
Email Id: Shaheenayusuf44@gmail.com