You are currently viewing غالب تحقیقی مقدمات کے تناظر میں

غالب تحقیقی مقدمات کے تناظر میں

ڈاکٹرشمس بدایونی

۵۸، نیوآزاد پرم کالونی،عزت نگر، بریلی

غالب تحقیقی مقدمات کے تناظر میں

اردو ادب میں مقدمہ نویسی کا آغاز غالباً مولانا الطاف حسین حالی (ف۱۹۱۴ء) سے ہوا۔ ’’مقدمۂ شعروشاعری‘‘ دراصل حالی کے مجموعۂ کلام کا مقدمہ تھا جو پہلی بار ’دیوان حالی‘ (مطبوعہ مطبع انصاری، دہلی) کے ساتھ دہلی سے ۱۸۹۳ء میں شائع ہوا تھا۔ اپنی بے پناہ افادیت،مقصدیت اور ایک نئے قسم کے شعریاتی مطالعے کی جہت اور اصول طے کرنے کے سبب، اس نے علاحدہ کتابی صورت میں اشاعت کی راہ ہموار کی اور تب سے آج تک یہ اردو تنقید کے منشور کے طور پر ادب کے طالب علموں کے زیرمطالعہ رہتا ہے۔

حالی کے بعدباقاعدہ ایک نثرپارے کے طورپر مقدمہ کو مقبول عام بنانے اور استحکام دینے میںمولوی عبدالحق (ف۱۹۶۱ء) کے لکھے مقدمات کو فراموش نہیں کیاجاسکتا۔ وہ انجمن ترقی اردو کے سکریٹری(۱۹۱۲ تا ۱۹۴۷ء)اور تقسیم ہند کے بعد انجمن ترقی اردو پاکستان کے تاحیات (۱۹۴۹ء-۱۶؍اگست ۱۹۶۱ء) صدر رہے۔ اُس وقت یہ واحد ادارہ تھا جو علم وادب کی معیاری کتب نئے طور تحقیق و تنقید سے مرتب ومدون اور ترجمہ کراکر شائع کررہا تھا۔ اسی دوران مولوی صاحب نے کچھ اپنی مرتبہ ومولفہ اور کچھ انجمن کی جانب سے لکھوائی گئیں کتب اور بعض معاصرین کی کتابوں پر فرمائشی مقدمات لکھے، جن کی مجموعی تعداد ۵۷ ہے۔ انھوں نے پہلامقدمہ مولوی ظفرعلی خاں (ف۱۹۵۶ء) کی کتاب ’’جنگ روس و جاپان‘‘ پرلکھا۔ مکتوبہ ۱۵؍نومبر ۱۹۰۵ء اور آخری مقدمہ قاموس الکتب اردو جلد اول (انجمن ترقی اردو پاکستان، کراچی ۱۹۶۱ء) پر لکھا۔ مکتوبہ ۲۲؍جون ۱۹۶۱ء؛ گویا ۵۷سال میں ۵۷ مقدمات لکھے۱؎۔ ان کے لکھے ہوئے مقدمات نے علم وادب کی فضا کو منور کردیا اورچہارجانب علم وادب سے شغف کے نظارے دیکھنے کوملنے لگے۔ ان مقدمات میں کتاب، صاحب کتاب اورموضوع کتاب کی اہمیت و قدروقیمت کو کچھ اس انداز سے پیش کیاجاتا تھا کہ قاری، مقدمہ پڑھ کر کتاب سے استفادے کو خودپر فرض تصور کرلیتا تھا اور کتاب کے مطالعے میں مستغرق ہوجاتا تھا۔

ابتدا میں مقدمات، تعارفی، علمی اورتنقیدی ہوتے تھے۔جیسے جیسے کلاسیکی کتب کے متون مرتب کرنے کی روایت پروان چڑھی، مقدموں کا انداز اور اسلوب بدلتا گیا اورجب متن مرتب کرنا باقاعدہ ایک فن قرار پایا اور اسے ایک مستقل نام ترتیب متن، تدوین متن یا متنی تنقید دے کر ادبی تحقیق سے ممیز کردیا گیا، تب مقدمہ، تدوین متن کا ایک جزو لاینفک بن گیا۔ اس طور تحقیقی وتدوینی مقدمات کا ظہور ہوا۔ حافظ محمودشیرانی (ف۱۹۴۶ء)، مولانا امتیاز علی خاں عرشی (ف۱۹۸۱ء)، قاضی عبدالودود (ف۱۹۸۴ء)، سیدمسعود حسن رضوی ادیب (ف۱۹۷۵ء)،مالک رام (ف۱۹۹۳ء)، کالی داس گپتا رضا(ف۲۰۰۱ء)، رشیدحسن خاں (ف۲۰۰۶ء) وغیرہ وغیرہ کے مقدمات بیشتر تدوین متن ہی سے متعلق ہیں اور ان کی نوعیت اُن مقدمات سے جداگانہ ہے، جو محض صاحب کتاب کا علمی وادبی تعارف کرانے اور اس کو وقار وامتیاز عطاکرنے کے لیے لکھے جاتے تھے مثلاً:نشاط روح مصنفہ اصغر گونڈوی پر مرزا احسان احمداعظم گڑھی کامقدمہ، باقیات فانی مصنفہ فانی بدایونی پر رشید احمدصدیقی کا مقدمہ، ریاض رضواںمصنفہ ریاض خیرآبادی پر مولوی سید سبحان اللہ رئیس گورکھپوری کامقدمہ، دنیائے تبسم مصنفہ شوکت تھانوی پر پروفیسر رشیداحمدصدیقی کا مقدمہ وغیرہ۔

یادش بخیر! غالب اکیڈمی دہلی نے ۲۷؍دسمبر ۲۰۰۵ء کو غالب کے ۲۰۸ویں یوم پیدائش کے موقع پر غالب توسیعی خطبے کا اہتمام کیا۔ خاکسار نے یہ خطبہ بہ عنوان ’غالب تنقیدی مقدمات کے تناظرمیں‘ پیش کیا تھا۔ اس میں مرزا کے کلام،شخصیت اور فکروفن پر جو مقدمات تحریر کیے گئے تھے ان کو موضوع بناتے ہوئے تین ممتاز مقدمات پر گفتگو کی تھی۔مقدمۂ عبدالرحمن بجنوری [مکتوبہ پیشتر نومبر۱۹۱۸ء]،مقدمۂ سید محمودغازی پوری [مکتوبہ۱۵؍اکتوبر ۱۹۱۹ء]، مقدمۂ شاکر حسین نکہت سہسوانی [مکتوبہ ۱۸؍اکتوبر ۱۹۳۱ء]۔ اول الذکر دو مقدموں نے غالب کو ربّ النوع ثابت کرنے میں اہم کردار اداکیا اورتیسرے مقدمہ نے غالب کی عظمت کو شعری قواعد و ضوابط کی عدم پیروی کی بنیاد پر ہدفِ تنقیص بنایا تھا۔

یہ خطبہ بغور سناگیا، بعدمیں متعدد جگہ شائع ہوا۔ خاکسار کی کتاب ’’تفہیم غالب کے مدارج‘‘ (دہلی ۲۰۱۵ء) میں دیکھاجاسکتا ہے۔ اسی عنوان کو وسعت دیتے ہوئے تازہ ترین مقالہ’’غالب تحقیقی مقدمات کے تناظرمیں‘‘ پیش خدمت ہے۔

آج مطالعۂ غالب اور غالبیات محض تنقیدی نظروخبر سے ممکن نہیں، اب غالب اور غالبیات کا تحقیقی مطالعہ ناگزیر ہے۔محققین نے جس زیرکی، باریک بینی اوردیدہ سوزی سے غالب کی تصانیف نثرونظم کو مرتب و مدون کیا ہے،جس تلاش و تفحص سے ان کی سوانح وشخصیت پر کتابیں مرتب وتالیف کی ہیں اس کا تقاضا ہے کہ اس سے استفادہ کیے بغیر کسی تنقیدی نتیجے تک پہنچنے میں عجلت سے کام نہ لیاجائے۔

غالب پر تحقیقی مقدمات کی تعداد کم وبیش دو درجن ہوگی۔ اگر ان تحریروں، جنھیں مقدمہ کے مترادف الفاظ: دیباچہ، تمہید، تقریب اورپیش لفظ وغیرہ سے موسوم کیا گیا ہے کوبھی مقدموں میں شمار کرلیاجائے تو یہ تعداد زیادہ ہوجائے گی۔

خاکسار کی محدود معلومات میں اب تک غالب پرپہلاتنقیدی مقدمہ عبدالرحمن بجنوری نے اور پہلا تحقیقی مقدمہ مولانا امتیاز علی خاں عرشی نے سپردقلم کیا ہے۔ مولانا عرشی نے اپنی مرتبہ کتاب ’’مکاتیب غالب‘‘ (مطبع قیمہ بمبئی، اول ۱۹۳۷ء)میں سرورق پر کتاب کے نام کے نیچے ’’بہ اضافۂ مقدمہ وحواشی‘‘ کا اندراج کیا ہے۔یہ طویل مقدمہ ۱۷۳ صفحات کو محیط ہے۔ (ص:۱۱ تا ۱۸۳)لیکن فہرست اور زیرگفتگو مقدمہ کی پیشانی پر لفظ دیباچہ لکھاہوا ہے۔ راقم الحروف کو شبہ ہوا کہ شاید یہ کمپوزر کی غلطی ہے لیکن ضمنی عنوانات: دیباچہ کی ضرورت (ص:۱۲) دیباچہ کے مباحث (ص:۱۳)، ماخذ دیباچہ وحواشی (ص:۱۴) کی موجودگی یہ ظاہر کرتی ہے کہ مولانا عرشی نے اپنی اس تحریر کو دیباچہ ہی کا عنوان دیا۔ اس تحریر کا آخری جملہ میرے خیال کی تائید کرتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:’’دیباچہ کے مباحث نے امید کے خلاف کافی وقت لے لیا اس لیے اس عذر کے ساتھ سلسلۂ کلام ختم کرتا ہوں۔ (ص:۱۸۳) ظاہر ہے اتنے صریح اعلان کے بعد اسے مقدمہ لکھنا اور سلسلۂ غالبیات کا پہلا تحقیقی مقدمہ قرار دینا شاید درست نہیں ہوگا۔ حالانکہ اپنے محتویات کے لحاظ سے یہ مقدمہ سے ذرابھی مختلف نہیں۔ اسی طرح کا ایک اندراج ’’نادرات غالب‘‘ (کراچی ۱۹۴۹ء) از آفاق حسین آفاق میں بھی نظر سے گزرا جس کے سرورق پرمقدمہ کا اندراج ہے لیکن اندرپیشانی تحریر پر تمہید۔ یہ بعید ازقیاس معلوم ہوتا ہے کہ کتاب کے ٹائٹل یا سرورق کے ڈیزائن اور اندراجات سے یہ مصنفین ناواقف رہے ہوں؛ لہٰذا یہ قیاس کرنا بھی ایک حد تک درست ہوسکتا ہے کہ یہ دونوں بزرگ دیباچہ وتمہید کو مقدمہ کا مترادف خیال کرتے ہوئے ان میں کسی امتیاز وفرق کے قائل نہ ہوں۔ واللہ اعلم۔

مالک رام کی کتاب ’’ذکرغالب‘‘ (دہلی ۱۹۳۸ء) بھی دراصل ’’سبدچیں‘‘کا دیباچہ تھا، جو طویل ہوجانے کے سبب اس میں شامل نہیں کیاجاسکا۔ علاحدہ کتاب کی شکل میں شائع کیا گیا۔ ذکر غالب طبع پنجم (دہلی ۱۹۷۶ء) میںمالک رام نے اس واقعے کا ذکر کیا ہے (ص:۹) اس سے یہ گمان گزرتا ہے کہ امتیاز علی خاں عرشی اورمالک رام اس وقت تک متن پر تعارفی تحریروں کے لیے لفظ مقدمہ کا استعمال شاید پسند نہیں کرتے تھے۔ خودمولوی عبدالحق کے پہلے مقدمہ کے طورپرجس مقدمہ کو پیش کیاجاتا ہے، اس پر بھی مقدمہ کی جگہ لفظ ’تمہید‘ ثبت ہے،لیکن مقدمات عبدالحق میںجب یہ شامل کیا گیا تومولوی عبدالحق نے اسے مقدمات کے تحت شامل کرنے پراعتراض وارد نہیں کیا۔

[۳]

اس مقالے میں قدرے تفصیلی تعارف وتجزیے کے لیے راقم الحروف کا ہدف شروع میں تین مقدمات تھے:

 (۱)      مقدمۂ دیوان غالب نسخۂ عرشی، از امتیاز علی خاں عرشی، مکتوبہ یکم دسمبر ۱۹۵۸ء، بعد نظرثانی، ۲۵؍مارچ ۱۹۷۱ء

 (۲)     مقدمۂ غالب کے خطوط، از ڈاکٹرخلیق انجم، مکتوبہ ۶؍جنوری ۱۹۸۴ء

(۳)     مقدمۂ گنجینۂ معنی کا طلسم، از رشیدحسن خاں،مکتوبہ ۱۶؍اپریل ۲۰۰۵ء

لیکن مقالے کے طول طویل ہوجانے کے خوف سے صرف ایک مقدمہ ہی تک قلم کو محدود کرلیا۔ قبل اس کے کہ ڈاکٹرخلیق انجم کے تحریر کردہ مقدمہ پر سلسلۂ گفتگو شروع کیاجائے ضروری معلوم ہوتاہے کہ غالب پر لکھے جانے والے تحقیقی مقدمات کے ارتقائی سفرپر بھی مختصراً گفتگو کرلی جائے۔

غالب پر لکھے جانے والے مقدمات میں پہلاتحقیقی مقدمہ ڈاکٹر عبدالستار صدیقی (ف۱۹۷۲ء) کا نوشتہ ہے جو مولوی مہیش پرشاد (ف۱۹۵۱ء)کے مرتبہ ’’خطوط غالب‘‘ (ہندوستانی اکیڈمی الہ آباد ۱۹۴۱ء) پر لکھاگیا، مکتوبہ ۱۰؍مارچ ۱۹۴۱ء۔ عبدالستار صدیقی نے اس مجموعے کے متن کی نظرثانی اور چھاپے کی نگرانی کی تھی، لہٰذا ان کا حق بنتا تھا کہ وہ اس پرمقدمہ لکھیں۔ ۱۶صفحات پرمشتمل اس مقدمے میں،متن کی تصحیح، تصحیح کے ماخذ، اغلاط کتابت، روشِ أملا اور تصحیح کتابت پر سیرحاصل گفتگو کی گئی ہے۔ تصانیف غالب میں پائی جانے والی املا اور روش کتابت کی اغلاط کا ذکرکرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’غالب کی کوئی تصنیف ان کی نگرانی میں نہیں چھپی۔ زیادہ سے زیادہ کاپی آتی تووہ بنادیتے کاپی نویس نہ بناتا۔ غلط الفاظ جوں کے توں رہتے۔ جو لوگ چھاپے کے ذمہ دار تھے انھوں نے ہمیشہ بے پروائی سے کام لیا اور غالب عمربھر کاتبوں کے ظلم کی فریاد کرتے رہے۔‘‘        (ص:۹)

اس مقدمے کے سارے بیانات متن پر نظرثانی سے متعلق ہیں۔ عام قاری کے لیے دلچسپ اور معلوماتی حصہ وہ ہے جس میں انھوںنے غالب کے خطوط سے املا سے متعلق ان کی ہدایات وتنبیہات کی مثالیں جمع کردی ہیں اوران پر عالمانہ گفتگو کی ہے۔

دوسرا اہم مقدمہ سیدمسعودحسن رضوی ادیب کا نوشتہ ہے، جو ان کی کتاب ’’متفرقات غالب‘‘ (مطبوعہ ہندوستانی پریس، رامپور ۱۹۴۷ء) میں شامل ہے۔

سیدمسعودحسن رضوی ادیب کو اپنے ذاتی کتب خانے میں مخزونہ ایک بیاض میںمرزا کے پانچ مکتوب الیہ کے نام ۴۹ خطوط اورچند منظومات ملیں، جن کا تعلق غالب کے کلکتہ کے دوران قیام سے تھا۔ یہ ایک ایسانادر معلومات افزا مواد تھا جو غالب کے سفر کلکتہ کے احوال اورمتعلقات سفرپر بھرپور روشنی ڈالتا تھا۔ مسعودحسن رضوی نے اسے مع مقدمہ مرتب کردیا۔مقدمہ میں بیاض کا تعارف، بیاض میں مندرج خطوط اور ان کے مکتوب الیہ کے احوال اور مرزا سے ان کے تعلق کی نوعیت، کلکتہ میں پیش آئے معرکے اوربیاض میں موجود کلام پرسیرحاصل گفتگو کرتے ہوئے تفہیم غالب میں اس مواد کی اہمیت کو آشکارا کیا گیا ہے۔ مقدمہ پرتاریخ تحریرکا اندراج نہیں ہے،یہ صفحہ نمبر:۱۰ سے ۳۳ کو محیط ہے۔ مقدمہ مسلسل ہے، ذیلی عنوانات کا سہاراقطعی نہیں لیا گیا۔

تیسرا قابل ذکرمقدمہ مولوی غلام رسول مہر(ف۱۹۷۱ء)کا تحریر کردہ ہے۔ انھوں نے یہ مقدمہ اپنی تالیف خطوط غالب جلد اول (کتاب منزل لاہور ۱۹۵۱ء) پربحیثیت جامع خطوط لکھاتھا۔ مکتوبہ۱۴؍مئی ۱۹۵۱ء، یہ مقدمہ ۴۹ صفحات کو محیط ہے۔ اسے بغیر کسی تمہید کے ۳۳ ذیلی عنوانات میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ترتیب متن سے متعلق صرف چھ عنوانات ہیں، باقی عنوانات کا تعلق غالب کی ادبی وشعری شخصیت، تصانیف اورخصوصیات خطوط سے ہے۔

غلام رسول مہر نے خطوط غالب کی دوضخیم جلدیں مرتب کی تھیں، لیکن یہ ان کی کتاب ’’غالب‘‘ (لاہور ۱۹۳۶ء) کی طرح مقبول نہ ہوسکیں۔ اغلاط کتابت ومتن اس کی مقبولیت میں مزاحم ہوئیں بایں سبب اس کا مقدمہ بھی بہت زیادہ مقتبس نہیں کیاجاسکا۔

غلام رسول مہر کے بعدغالب صدی ۱۹۶۹ء تک جو مقدمات مطالعۂ غالب کو وسعت، مقبولیت اور توانائی سے ہم کنار کرسکے ان میں یہ چند قابل ذکر ہیں:

مقدمۂ دیوان غالب نسخۂ مالک رام (آزادکتاب گھر، د ہلی، اول ۱۹۵۷ء)

نسخۂ مالک رام کا متن غالب کی زندگی میں مطبوعہ نسخۂ نظامی کانپور (۱۸۶۲ء) پر مبنی ہے۔ اس میں نسخۂ حمیدیہ کا غیرمتداول کلام اورتتمہ عنوان کے تحت، کچھ نودریافت کلام بھی شامل کیا گیا ہے۔ مالک رام نے اس پر ۳۰ صفحات پرمشتمل مقدمہ بھی لکھا(ص:۷ تا۳۶) جس نے شیدائیان غالب کو ازحد متاثر کیا۔ نتیجتاً ایک ہی سال ۱۹۵۷ء میں اس کے متعدد ایڈیشن شائع ہوئے۔ کلام غالب سے رغبت، شغف اور شوق پیداکرنے میں مالک رام کے اس مقدمہ کی حصہ داری کو فراموش نہیں کیاجاسکتا۔ یہ مقدمہ ۳۰؍مارچ ۱۹۵۷ء کامکتوبہ ہے۔ اس طور یہ مقدمہ، دیوان غالب نسخۂ عرشی مکتوبہ یکم دسمبر ۱۹۵۸ء پر زمانی فوقیت رکھتا ہے۔ اسی نسخے کے صدی ایڈیشن ۱۹۶۹ء پررشیدحسن خاں کے سخت تبصرے بہ عنوان’’دیوان غالب، صدی ایڈیشن‘‘ (مشمولہ: ادبی تحقیق مسائل اور تجزیہ ، علی گڑھ ۱۹۷۸ء) نے بھی اس کی شہرت کو دوچند کردیا۔ رشیدحسن خاں کے اس تبصرے سے مالک رام کے علمی وقار کو ضرور دھچکا لگا لیکن اس تبصرے کی اشاعت کے بعد بھی دیوان غالب نسخۂ مالک رام کی خواندگی میں کمی واقع نہیں ہوئی۔ شاید اس کی وجہ مالک رام کاسلیقۂ تالیف اور دلنشیں، شگفتہ اور رواں اسلوب تحریر تھا جو تحقیقی ہوتے ہوئے بھی تحقیق کے بوجھ سے عاری تھا۔

انجمن ترقی اردوہند دہلی نے مولانا امتیاز علی خاں عرشی کامرتبہ ’’دیوان غالب اردو نسخۂ عرشی‘‘ ۱۹۵۸ء میں پہلی بار شائع کیا۔ اس پرمولانا عرشی نے۱۲۰ صفحات کا طویل مقدمہ لکھا۔ مکتوبہ یکم دسمبر ۱۹۵۸ء، جسے دیباچہ کا عنوان دیا، لیکن طبع دوم (۱۹۸۲ء) میں مزید بیس صفحات کے اضافے کے ساتھ اسے مقدمہ کا عنوان دیا۔ مکتوبہ ۲۵؍مارچ ۱۹۷۱ء۔ یہ مقدمہ ۸۳ ذیلی سرخیوں کے تحت غالب کی شعری شخصیت: آغاز شاعری، رویۂ شاعری، تتبعِ شاعری،موضوعاتِ شاعری، کل اردو سرمایۂ شاعری (۴۸ ذیلی عنوانات) اور تدوین متن کے اصول و طریقۂ کار (۳۵ذیلی عنوانات) پربسیط،عالمانہ، محققانہ، ناقدانہ اوربنیادی واصولی گفتگو کرتا ہے۔ تصانیف غالب پر اب تک جو مقدمات لکھے گئے ان میں یہ مقدمہ تحقیق، تدوین، تنقید، املا، رموزِ اوقاف، اصول تحقیق وتدوین، اخلاقیات تحقیق اور شگفتہ زبان وبیان ہرلحاظ سے فوقیت رکھتا ہے۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ تنقید میں جو حیثیت مولانا حالی کے مقدمہ ’’شعروشاعری‘‘کو حاصل ہے۔ تدوین متن میں وہی اہمیت مولانا عرشی کے مقدمہ کو دی جاتی ہے۔ جس طرح حالی کا مقدمہ اردو تنقید کا منشوربن چکا ہے، بعینہ اردو محققین کے نزدیک مولانا عرشی کامقدمہ تدوین متن کی شریعت میں ایک صحیفہ کی حیثیت رکھتا ہے۔

مولانا عرشی نے غالب کے دیوان فارسی کی تدوین کا بھی بیڑااٹھایا تھا مگر بہ وجوہ یہ کام مکمل نہیں ہوسکا۔ اس کے مقدمہ کے مباحث کا وہ حصہ جس میں کلام فارسی کی تدوین وطباعت زیربحث آئی ہے انھوں نے بہ عنوان: ’’مقدمہ دیوان غالب فارسی (نسخۂ عرشی) کے چند اوراق‘‘ شائع کرادیا تھا (ماہنامہ ’شاعر‘ بمبئی ،غالب نمبر، فروری-مارچ ۱۹۶۹ء) یہ مقدمہ امتیاز علی عرشی کی غالب شناسی مرتبہ ثاقب عمران (ناشر رضالائبریری رامپور ۲۰۱۸ء) میں دیکھاجاسکتا ہے۔

 غالب صدی کے دوران۱۹۶۹ء اور اس کے بعد تصانیف غالب کے متعدد ایڈیشن شائع ہوئے۔ بعض خطی نسخے مثلاً ’’دیوان غالب بخط غالب‘‘ اور ’’گلِ رعنا مع آشتی نامہ‘‘، ’’نامہ ہائے فارسی غالب‘‘ کی دریافت اور ان کی متعدد اشاعتیں؛ غالب کے دوسرے خطی نسخوں کی عکسی وتدوینی اشاعتیں وغیرہ وغیرہ کوبھی اگر شامل کرلیاجائے تو میں اپنے ہدف ’’مقدمۂ غالب کے خطوط‘‘ تک پہنچنے میں ناکام رہوں گا۔

میراخیال ہے کہ غالب پر تحقیقی مقدمہ نگاری کے ارتقائی سفر کو سمجھنے کے لیے مذکورہ بالا مختصر روداد کافی ہے۔ غالب صدی کے بعد لکھے جانے والے مقدمات کے لیے علاحدہ مقالہ لکھنے کی کوشش کی جائے گی۔ راقم الحروف نے ۲۰۱۹ء میں ’’غالب صدی کے بعد دیوان غالب کی قابل ذکراشاعتیں‘‘ عنوان سے ایک مقالہ لکھا تھا، جس میں کم وبیش درجن بھر دیوان غالب کی اشاعتیں زیرتحریر آئی تھیں۔ (مطبوعہ:اردو دنیا، دہلی، جولائی ۲۰۱۹ء) تاہم اس دوران لکھے جانے والے دوتین مقدمات کا ذکر کردینا ضروری سمجھتا ہوں، جنھوں نے تفہیم کلام غالب، تحقیق غالب اور تدوین غالب کے امکانات کو روشن کیا اور انھیں نئی جہتوں سے روشناس کرایا۔ میری مراد ’’دیوان غالب بخط غالب نسخۂ عرشی زادہ‘‘ (دہلی ستمبر ۱۹۶۹ء) پراکبرعلی خاں عرشی زادہ (ف۱۹۹۷ء) کے ۲۰ صفحات پرمشتمل مقدمہ سے ہے (ص:۱۲ تا ۳۱) جس نے ’’بیاض غالب بخط غالب‘‘ کی بحث کو فیصلہ کن شکل دی، اسی طرح سید قدرت نقوی (ف۲۰۰۰ء) کا مرتبہ ’’گل رعنا مع آشتی نامہ‘‘ (کراچی ۱۹۷۵ء) کا مقدمہ جو ۵۹ صفحات پرمشتمل ہے جو گل رعنا اور اس سے متعلق جملہ دستیاب نسخوں کے حوالے سے حتمی تحقیق پیش کرتا ہے۔

کالی داس گپتا رضا، مالک رام کی طرح دوسرے ماہرغالبیات ہیں۔ مالک رام مولانا امتیازعلی خاں عرشی اورکالی داس گپتا رضا، تینوںنے دیوان غالب کی تدوین کی ہے۔ کالی داس گپتا رضا کا ’’دیوان غالب کامل نسخۂ رضاتاریخی ترتیب سے‘‘ (بمبئی اول ۱۹۸۸ء) نسخۂ عرشی کی طرح بڑا کارنامہ ہے،۔ اس کا مقدمہ ۱۱۴ صفحات پرمشتمل ہے۔ (باردوم ص:۱۵تا۱۲۸) جس میں کلام غالب کی تاریخی ترتیب اور اس کے اطراف و متعلقات پر سیرحاصل گفتگو کی گئی ہے۔ زیرنظر ذیلی عنوانات سے مقدمہ کی اہمیت کا کچھ اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

کلام غالب کی تاریخی ترتیب کیوں، تعارف، غالب کا اولین اردو منظوم کلام، عمدۂ منتخبہ میں ذکرغالب، حرف

نامعتبر، غالب کے بعض غیرمتداول اشعار کا زمانۂ فکر، غالب کے کچھ ہنگامی مصرعے اورشعر، دیوان غالب

طبع اول، غالب کی زندگی میں دیوان غالب کی اشاعت، توقیت غالب۔

مولانا عرشی کے مقدمہ کے بعد اس مقدمہ کامطالعہ بھی ناگزیر ہے۔ یہ کلام غالب کے تاریخی تسلسل کو سمجھنے میں پوری طرح معاون ہوتا ہے۔

غالب جس مشکل پسندی کے لیے مشہور ہیں اس میں علاوہ مضمون کی پیچیدگی ان کی وضع کردہ تراکیب لفظی کا بھی بڑا دخل ہے۔ رشیدحسن خاں نے ان کے دیوان اردو کا لفظی اشاریہ بناکر یہ ثابت کردیا کہ غالب کایہ دعویٰ سو فیصد درست ہے کہ:

گنجینہ معنی کا طلسم اس کو سمجھیے

جو لفظ کہ غالب مرے اشعار میں آئے

یہ اشاریہ باسم ’’گنجینۂ معنی کا طلسم‘‘ تین جلدوں میں غالب انسٹی ٹیوٹ دہلی سے شائع ہوا۔ اس کی جلد اول مطبوعہ ۲۰۱۷ء پر ۲۲صفحات کامقدمہ ہے (۸تا۳۰) مکتوبہ ۱۶؍اپریل ۲۰۰۵ء۔ مقدمہ کے آٹھ ذیلی عنوانات ہیں: بنیادی ماخذ، املا، ترتیب الفاظ، بہ سلسلۂ مرکبات، چند وضاحتیں، استثنا، غیرمعتبر کلام۔

غالب کے اردو دیوان میں کتنے مفرد اور کتنے مرکب لفظ ہیں اور یہ اپنے استعمال سے کن معنوی جہتوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں، ایک ہی لفظ کے مختلف مرکب شعر میں کن معنوی وسعتوں اور شعری رنگارنگیوں کا مظاہرہ کرتے ہیں، ان کی استعمال کی نوعیت کیا ہے اور ان کو غالب نے کب کہاں، کتنی بار کس شعر میں استعمال کیا ہے؛ ان تمام باتوں کو مقدمہ میں مع صراحت وضاحت پیش کرتے ہوئے اس سلسلے کے بنیادی ماخذ، اشاریہ اور الفاظ کی ترتیب کے طریقۂ کار، املا، اوقاف وغیرہ پر گفتگو کی گئی ہے۔

یہ مقدمہ عالمانہ بصیرت کا ثبوت پیش کرتا ہے اور لفظیات غالب پر ایک ایسا انفرادی محاکمہ پیش کرتا ہے جو محققین سے زیادہ ناقدوں کے لیے مفید مطلب ہے۔

[۴]

ڈاکٹرخلیق انجم(ف ۲۰۱۶ء) ہمارے دو رکے معروف غالب شناس ہیں۔ انھوںنے غالب سے اپنی دلچسپی اورشغف کا اظہار ۱۹۶۱ء میں ’’غالب کی نادرتحریریں‘‘ مرتب کرکے دیا، ۱۹۷۴ء میں ان کی دوسری کتاب ’’غالب اورشاہانِ تیموریہ‘‘ آئی۔ ۱۹۸۴ء میں ’’غالب کے خطوط‘‘ جلد اول کی اشاعت ہوئی۔ ۱۹۹۱ء میں ’’غالب کچھ مضامین‘‘ اور ۲۰۰۵ء میں ’’غالب کا سفرکلکتہ اور کلکتے کا ادبی معرکہ‘‘ شائع ہوئی۔ اپنے موضوع کے لحاظ سے (بہ استثناغالب کچھ مضامین) یہ کتابیں منفرد ہیں۔ خصوصاً ’’غالب کے خطوط‘‘ نے کلیات خطوط غا لب کی حیثیت حاصل کرکے خطوط غالب کے دستیاب جملہ مجموعوں سے بے نیاز کردیاہے۔

یوں تو خلیق انجم نے ’’غالب کی نادر تحریریں‘‘ کتاب پر بھی تقریباً بیس صفحات کا مقدمہ لکھا تھا،لیکن غالب کے خطوط جلد اول پر جو مقدمہ لکھا ہے وہ اپنی ضخامت اور موضوع کی وسعت کے لحاظ سے خطوط غالب کا بھرپور تحقیقی وتنقیدی جائزہ پیش کرتا ہے۔

غالب کے خطوط جلد اول، طبع ثانی (مطبوعہ غالب انسٹی ٹیوٹ، دہلی ۱۹۹۳ء) پیش نظر ہے۔ مرتب نے اس میں حرف آغاز (طبع اول ودوم) کے بعد مقدمہ بہ عنوان: ’’کچھ اس تنقیدی ایڈیشن کے بارے میں‘‘ (ص۱۳ تا ۱۲۸) شامل کیا ہے۔ یہ مقدمہ ۲۱۶ صفحات کو محیط ہے۔ مولانا عرشی کی طرح خلیق انجم نے اسے کوئی اصطلاحی عنوان: دیباچہ، تمہید، پیش لفظ، پیش گفتار وغیرہ نہیں دیا ۔ جو عنوان دیا ہے، وہ طوالت تحریر اور وسعت معلومات کے لحاظ سے لفظ ’کچھ‘ کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ بایں سبب راقم الحروف نے اسے مقدمہ کی صورت میںقبول کرتے ہوئے اپنے مطالعے کا حصہ بنالیا۔

یوں توتدوین متن سے متعلق جملہ کتب پر تحقیقی مقدمہ ہی لکھاجاتا ہے لیکن مرتب نے اس کے دو حصے کیے ہیں: پہلا تحقیقی اور دوسر اتنقیدی۔ دوسرے حصے کو انھو ںنے مستقل ایک عنوان :’’خطوط غالب کا تنقیدی مطالعہ‘‘ دیا ہے۔ مقدمہ کو جن ذیلی عنوانات میں تقسیم کیاہے ان پر نظرڈالنے سے مقدمہ کی نوعیت و کیفیت کا اندازہ لگایاجاسکتا ہے:

lتحقیقی حصہ: کچھ اس تنقیدی ایڈیشن کے بارے میں (۱۳ تا ۲۲) خطوط غالب کے مختلف ایڈیشن اور ری پرنٹ (۲۳تا۵۹) غالب کی اردو املا کی خصوصیات (۶۰ تا ۷۶) غالب کی زبان پر فارسی کے اثرات، انگریزی الفاظ کا استعمال (۷۷تا۹۲) غالب کے اردو خطوط کی مجموعی تعداد (۹۳ تا ۹۷) یہ حصہ ۸۹ صفحات کو محیط ہے۔

lخطوط غالب کا تنقیدی مطالعہ: غالب سے قبل اردو کا نثری سرمایہ اور اردو مکتوب نگاری کاآغاز (۱۰۱ تا ۱۳۶) غالب کا پہلا دستیاب اردو خط (۱۷۷-۱۲۳) مکتوب نگاری کا فن (۱۲۴ تا ۱۳۶) شگفتن گل ہائے ناز (۱۳۷-۱۷۱) بنتی نہیں ہے بادہ وساغر کہے بغیر (۱۷۲-۲۲۸)

یہ وہ عنوانات ہیںجو مقدمہ میں علاحدہ علاحدہ جلی سرخی کے طورپر لکھے گئے ہیں۔ ہر عنوان کی متعدد ذیلی سرخیاں ہیں۔ ان سرخیوں کی مدد سے یہ مقدمہ خطوط غالب اور اس کے متعلقات، تدوین سے متعلق جملہ معاملات کو صراحت ووضاحت کے ساتھ پیش کرتا ہے۔البتہ مقدمہ نگار تدوین متن کے اس اصول سے انحراف کرتانظر آتا ہے جس کے تحت مقدمہ نگا رکو تنقیدی بحث سے گریز کرنا چاہیے۔ تنقید سے متعلق یہ حصہ تحقیقی حصے سے قدرے طویل یعنی ۱۲۷ صفحات پرمشتمل ہے۔ عنوانات کے بموجب مقدمہ میں متعدد مباحث ہیں یہاں صرف دوتین اہم مباحث اور نکات کی طرف متوجہ کیاجاتا ہے۔

خلیق انجم نے اپنے اس مقدمہ میں غالب کے اُن ۲۱؍اہم مجموعہ ہاے خطوط کا تعارف پیش کیا جو ان کی ترتیب وتدوین سے قبل مرتب ومدون ہوچکے تھے۔ اس تعارف میں انھو ںنے بعض نسخوں (مکاتیب غالب، خطوط غالب، نادرات غالب وغیرہ) کی تعریف وتحسین کی ہے لیکن دوسرے مجموعوں کی ترتیب کے نقائص کی طرف بہ دلائل متوجہ کیا ہے۔ اس دوران تدوین کے وہ اصول بھی زیربحث آئے ہیں جنھیں مرتبین اپنے اپنے مرتبات میں بروے کار نہیں لاسکے اور املا سے متعلق یہ بحث بھی زیرگفتگو آئی کہ ترتیب کے دوران جدید املا یا وہ املا جو مصنف کے متن میں اختیار کیا گیا، کون سا قابلِ ترجیح ہے؟ وہ لکھتے ہیں:

’’میں اس حق میں ہوں کہ متن کی املا جدیدہونی چاہیے کیوں کہ اول تو ہم متن اپنے عہد کے لوگوں کے لیے تیار کررہے ہیں اور دوسرے یہ کہ تنقید نگار کا مقصد متن کی بازیافت ہے ، املا کی بازیافت ہرگزنہیں۔‘‘ (ص:۱۹)

خطوط غالب کے حوالے سے چند تنقیدی مفروضات کا بھی انھو ںنے بہ دلائل رد کیا ہے۔ مثلاً یہ بیانات دیکھیے:

’’غالب جدید اردو نثر کے موجدہرگز نہیں تھے کیوں کہ ان کی نثرنگاری کے آغاز سے تقریباً پچاس سال قبل اردو نثر جدیدیت کے راستے پر گامزن ہوچکی تھی۔‘‘ (ص:۱۰۸)

’’جوش عقیدت میں ہمارے بہت سے ناقدین نے اردومکتوب نگاری کا موجدغالب کو قرار دے کر مکتوب نگاری کی تاریخ ہی غالب سے شروع کردی۔‘‘ (ص:۱۰۹)

ان مفروضات پر بحث کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

’’یہ بھی ایک اہم مسئلہ ہے کہ اردو مکتوب نگاری میں کس نے پہلی بار طرزجدید کو اختیار کیا؟ (ص:۱۰۹)

اس سلسلے میں وہ ماسٹر رام چندر(ف۱۸۸۰ء) کا مکتوب نگاری سے متعلق ایک ہدایتی نوٹ اور ’’پنج آہنگ‘‘ کے آہنگ اول سے غالب کے اصول مکتوب نگاری پربحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’جدید طرزپرمکتوب نگاری کے آغاز کا سہرا نہ توماسٹر رام چندر کے سرباندھاجاسکتا ہے اورنہ غالب کے سر… طرزجدید کا شعور عام ہوچکا تھا…لیکن غالب کے خطوط اردو مکتوب نگاری کا بیش قیمت سرمایہ ہیں۔‘‘ (ص:۱۰۹)

انھو ںنے غالب کی املا پر بھی طویل گفتگو کی ہے۔ اس سلسلے کے ان کے یہ مختصر بیانات قابل ذکر ہیں:

’’دنیا کی کوئی زبان ایسی نہیں ہے جس کے تمام الفاظ ٹھیک اسی طرح لکھے جاتے ہیں جس طرح ان کا تلفظ اداکیاجاتا ہے۔‘‘(ص:۶۰)

عہدغالب میں اردو املا کے مسائل پر سنجیدگی سے غور کیاجانے لگا اور اردو املا میں سب سے زیادہ تبدیلیاں اسی عہد میں رونماہوئیں۔‘‘(ص:۶۱)

’’غالب کی اردو تحریروں میں پرانی املا بھی ملتی ہے اوروہ تبدیلیاں بھی نظر آتی ہیں جو اس عہد کے املا میں ہورہی تھیں۔‘‘(ص:۶۲)

غالب نے بعض الفاظ کی املا اپنے عہد کے رائج املا سے اس طرح مختلف کی ہے کہ ہم اسے غلط املا کہنے پرمجبور ہیں۔‘‘(ص:۷۵)

خطوط غالب کی مجموعی تعداد پر بھی انھوں نے مقدمہ میں گفتگو کی ہے۔ طبع اول ۱۹۸۴ئمیں درج کردہ تعداد خطوط کوکالعدم قرار دیتے ہوئے انھوںنے ۹۲ مکتوب الیہم (جن میں پانچ نامعلوم ہیں) کے نام ۸۸۶ خطوط کی نشاندہی کی ہے (ص:۹۷) لیکن یہ تعداد غالب کے خطوط جلد ۵مطبوعہ دہلی ۲۰۰۰ء میں ۸۹۴ ہوگئی ہے (ص:۱۶۵) یعنی آٹھ خطوط کا مزید اضافہ ہوا۔ ڈاکٹرکاظم علی خاں (ف۲۰۱۲ء) نے اپنی کتاب توقیت غالب (دہلی ۱۹۹۹ء) میں اکتوبر ۱۹۹۴ء تک دستیاب خطوط کی تعداد ۸۹۲ دی تھی۔

غالب نے پہلا اردو خط کب لکھا؟ اس پر مختلف آرا ہیں۔ خلیق انجم نے اس سلسلے میں محتاط رویہ اختیار کرتے ہوئے لکھا ہے:

غالب کے پہلے اردوخط کی نشاندہی کرناکسی طرح ممکن نہیں، البتہ غالب کے اس پہلے اردو خط کی نشاندہی کی جاسکتی ہے جو ہمیں دستیاب ہوا ہے۔(ص:۱۱۸)

اس سلسلے میں انھوں نے تین خطوط کی نشاندہی کی ہے:

خط بنام ہرگوپال تفتہ، مکتوبہ اگست ۱۸۴۹ء، نشان دہندہ مولوی مہیش پرشاد

خط بنام جواہر سنگھ جوہر، مکتوبہ یکم دسمبر ۱۸۴۸ء، نشان دہندہ مولوی غلام رسول مہر

خط بنام ہرگوپال تفتہ، مکتوبہ اوائل ۱۸۴۷ء، نشان دہندہ، خلیق انجم

نہ جانے کیوں ڈاکٹر خلیق انجم نے منشی نبی بخش حقیر اکبرآبادی (ف۱۸۶۰ء)، تلمیذ غالب کے نام غالب کے خط مکتوبہ ۹؍مارچ ۱۸۴۸ء کا ذکر نہیں کیا، جو نادرات غالب از آفاق حسین آفاق (کراچی ۱۹۴۹ء، حصہ دوم،ص:۲) میں شامل ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ وہ اس مجموعۂ خطوط سے واقف نہیں تھے۔ انھوں نے مقدمہ میں مجموعہ ہاے خطوط غالب کے ضمن میں اس کا تعارف بھی کرایا ہے (ص:۵۱) غالباً یہ خط سہواً ان کی نظر سے نہیں گزرسکا۔ ڈاکٹرکاظم علی خاں نے اپنی کتاب توقیت غالب میں منشی نبی بخش حقیر کے نام اسی خط مکتوبہ ۹؍مارچ ۱۸۴۸ء کو غالب کا پہلا اردو خط قرار دیا ہے(ص:۷۲) ظاہر ہے اس سلسلے میں خلیق انجم نے حتمی رائے دینے سے گریز کیا ہے۔

تنقیدی حصے میں انھوں نے غالب کے خطوط کی وہ خصوصیات بیان کی ہیں جن سے عام طور پر سبھی متعارف ہیں۔ یعنی خطوط کی علمی وادبی حیثیت، ان کا اچھوتا اسلوب وغیرہ جس سے ہم صرف نظر کرتے ہیں۔

اس مقدمہ کی خصوصیت یہ ہے کہ ادب کا ایک عام طالب علم اوراسکالر دونوں، بیک وقت خطوط غالب کی جمع آوری کی روداد، (از اول تا ایں دم)، مشکلات، اختلافات، جملہ اہم مجموعہ ہاے خطوط اور ان کی متعدد اہم اشاعتیں، جملہ دستیاب خطوط کے عکس،خطوط کی تاریخیں، املا، رقمیں، بنیادی نسخے، خطوط کے جملہ مآخذ، جملہ خطوط اورمکتوب الیہم کی تعداد، خطوط کی علمی وادبی حیثیت اور اسلوب کی رنگارنگی سے واقف  ہوجاتے ہیں۔

کسی بھی بڑے تحقیقی وتدوینی کام میں اغلاط وتسامحات کا راہ پاجانا، یا ایسے پہلوؤں کا ذکر آجانا جن سے اختلاف کرنے کی معقول وجوہ موجود ہوں کو غیرفطری نہیں کہاجاسکتا۔ خلیق انجم نے بڑا کام کیا۔ ان کے پیش نظر تدوین متن کے اصول بھی تھے اور ان سے اعتنا نہ کرنے کی مثالیں بھی۔ اردومیں تدوین متن کے اصول اور طریقۂ کار پر پہلی کتاب (متنی تنقید، مطبوعہ عرشیہ پبلی کیشنز، دہلی ۱۹۶۷ء) کے وہی مصنف بھی تھے، لیکن خطوط غالب کی تدوین کے دوران انتہائی محتاط رہتے ہوئے بھی وہ ان تسامحات کا شکار ہوگئے جن پر وہ اپنے پیش رومرتبین خطوط غالب کی سخت گرفت کرچکے تھے۔

پروفیسر حنیف نقوی (ف۲۰۱۲ء) نے جلد اول پر تین قسطوں میں بہ عنوان: ’’غالب کے خطوط ایک جائزہ‘‘طویل تبصرہ کیا ہے۔ (ڈیمائی سائز کے ۹۱صفحات) جس میں بیشتر موضوع بحث مقدمہ اور اس میں شامل خطوط کے اقتباسات رہے ہیں۔ انھوں نے عودہندی اوراردوے معلی کے مختلف ایڈیشنوں کے کتابی کوائف کے اندراجات سے اختلاف، اردو املا سے متعلق بحث اور نثر غالب پر فارسی زبان کے اثرات کے تحت غالب کے یہاں لفظوں کے استعمال کی نوعیت،مواقع اور اعداد وشمار سے متعلق خلیق انجم کے متعدد نتائج اور دعوؤں کا بہ دلائل رد کیا ہے۔ یہ طویل تبصرہ ایک مقالے کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ اترپردیش اردو اکیڈمی لکھنؤ کے دوماہی آرگن ’’اکادمی‘‘ میں تین قسطوںمیںشائع ہوا تھا۔ قسط اول ستمبر-اکتوبر ۱۹۸۶ء، دوم نومبر-دسمبر۱۹۸۶ء، سوم جنوری-فروری ۱۹۸۷ء۔

اسے اتفاق کہیے کہ ’اکادمی‘ لکھنؤ (جولائی، اگست ۱۹۸۶ء) کے شمارے میں حنیف نقوی کا ایک اور تبصرہ بہ عنوان’’تلامذۂ غالب (طبع ثانی) پر ایک نظر‘‘ شائع ہواتھا جس میں تلامذۂ غالب (دوم ۱۹۸۴ء) کے بعض تسامحات کی نشاندہی کی گئی تھی۔ خلیق انجم نے موقع غنیمت جانا اوراپنے اختلاف و انتقام کو منجانب مالک رام کردیاجبکہ مالک رام اسی ایڈیشن میں حنیف نقوی کے تعاون کا اعتراف کرچکے تھے۔ خلیق انجم نے ماہنامہ شانِ ہند دہلی کے مدیر سرورتونسوی کے قلم سے ایک تحریر نومبر ۱۹۸۶ء کے شمارے میں شائع کرائی جس کا عنوان تھا: اردو کے ہندوادیبوں کے خلاف منظم سازش (حنیف نقوی نامی ایک شخص کی دریدہ دہنی) اس مضمون میں حنیف نقوی کے اس عمل کو سستی شہرت حاصل کرنے، بزرگوں کی ٹوپی اچھالنے، غنڈہ گردی اور ادبی سازش سے تعبیر کیا ہے۔ آخرمیں لکھا ہے:

’’آخر میں ایک بات اور کہنا چاہتے ہیں کہ اکادمی ایک سرکاری ادارے کا رسالہ ہے۔ اس میں کسی بھی قیمت پر غنڈہ گردی اورشرفا کی ٹوپی اچھالنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ ہم اترپردیش کے گورنر، وزیراعلیٰ و وزیرتعلیم اوردوسرے ذمہ داروں کو خطوط لکھ کر اس ادبی غنڈہ گردی کی طرف ان کی توجہ مبذول کرارہے ہیں۔‘‘(ص:۷)

اس غیرعلمی اورغیرشائستہ زبان کے حنیف نقوی متحمل نہیں ہوسکے، بعض بزرگوں کی مداخلت کے سبب انھوں نے غالب کے خطوط کی دوسری جلدوں پر لکھنے سے اجتناب کیا۔

پروفیسر نذیراحمد (ف۲۰۰۸ء) نے بھی ایک مقالے میں ’’غالب کے خطوط‘‘ میں درآئے بعض فارسی اشعار کے صحیح متن اور تخریج پر گفتگو کی تھی۔ یہ بڑا معلومات افزا مقالہ تھا۔ افسوس اس وقت اس کا حوالہ دینے سے قاصر ہوں۔

اس طوریہ کہاجاسکتا ہے کہ خطوط غالب پر خلیق انجم کا مقدمہ حرف آخر نہیں، ہاں یہ خطوط پر اب تک لکھے جانے والے مقدمات میں زیادہ مفصل، خطوط غالب اور ان کی تدوین کے جملہ مسائل پر حاوی ہے۔ حنیف نقوی و پروفیسرنذیراحمد کے اعتراضات واصلاحات کے باوجود اس کی تاریخی حیثیت سے انکار نہیں کیاجاسکتا۔

حواشی:

(۱)      حقیقت یہ ہے کہ یہ تعداد پچھتر کے قریب جاپہنچی ہے۔ مقدمات عبدالحق کے مرتب ڈاکٹر عبادت بریلوی ان کی تلاش سے قاصر رہے۔ ڈاکٹر شہاب الدین ثاقب (علی گڑھ) نے ان مقدمات کو ڈھونڈ نکالا اوروہ انھیں مرتب کررہے ہیں۔

(۲)     نمعلوم کیوں، مجھے ایسامحسوس ہوتا ہے کہ ہمارے بزرگ قلم کار دیباچہ کی جگہ لفظ مقدمہ کا استعمال درست نہیں سمجھتے تھے۔ اس کی چارمثالیں مولانا عرشی کے مرتبات میںملتی ہیں:

         (۱)مکاتیب غالب، مطبوعہ ۱۹۳۷ء، دیباچہ ۱۷۳، صفحات (۱۱-۱۸۳)

         (۲)انتخاب غالب،مطبوعہ ۱۹۴۲ء، دیباچہ ۳۱ ، صفحات(۱۰-۴۰)

         (۳)فرہنگ غالب،مطبوعہ ۱۹۴۷ء، دیباچہ ۱۹، صفحات(۸-۲۷)

         (۴)دیوان غالب،مطبوعہ ۱۹۵۸ء، دیباچہ ۱۲۰، صفحات(۱-۱۲۰)

         حالانکہ یہ دیباچے تدوینات پر لکھے جانے والے مقدمات ہی کے مماثل ہیں،انھیں مقدمہ کہنا اورلکھنا کسی طور بھی غلط نہیں ہوگا۔ جن لوگوں نے مذکورہ بالا دیباچوں کے بیانات کو نقل کیا ہے یاان کا حوالہ دیا ہے، انھوںنے دیباچہ کی جگہ لفظ مقدمہ ہی کا اندراج کیا ہے۔ ڈاکٹرخالدمبشر نے اپنی کتاب مقدماتی ادب (دہلی ۲۰۱۹ء)میں اس مسئلے پر گفتگو کی ہے اور لفظ دیباچہ، پیش لفظ، تقریب، تعارف وغیرہ کو مقدمہ کا مترادف قرار دیا ہے (ص۷۵ تا۱۱۲)

(۳)     ان قسطوں کی تلاش ایک عرصہ سے تھی۔ نقوی صاحب کی حیات میں کئی بار ان سے ان قسطوں کے عکس حاصل کرنے کی کوشش کی گئی مگر انھوں نے اس فرمائش کو ہمیشہ نظرانداز کردیا۔ جناب محسن خان (لکھنؤ) کا شکرگزار ہوں کہ ان کی کوشش سے اکادمی کی لائبریری سے یہ عکس حاصل ہوئے۔

***

This Post Has One Comment

  1. رانا شہزاد رضا

    السلام علیکم آپکی کاوش بہت اعلیٰ ہے۔۔اس پرواقعی پہلے بہت کم کام ہوا ہےآپ اور ادارہ داد کے مستحق ہین
    ۔

Leave a Reply