فاطمہ محمود
ریسرچ اسکالر(جی سی ویمن یونیورسٹی،سیالکوٹ)
سی ٹی آئی فکلٹی شعبہ اردو (جی سی ویمن یونیورسٹی،سیالکوٹ)
اقبال مسلم فکر کا ارتقاء ایک تجزیاتی مطالعہ
ڈاکٹر عطیہ سید کا پسندیدہ موضوع فلسفہ ہے۔زیر نظرکتاب بھی ایک فلسفیانہ کتاب ہے۔جس میں مسلم فکر کے ارتقاء کا جائزہ اقبال کی نظر سے لینے کی سعی کی گئی ہے۔
کتاب کا نام:اقبال_مسلم فکر کا ارتقاء
نام مصنفہ:ڈاکٹر پروفیسر عطیہ سید
نوعیت کتاب:تاریخی(فلسفیانہ افکار کی تاریخ)
ابواب کی تعداد:14
کل صفحات:171
ناشر:نیاز احمد
ادارہ اشاعت:سنگ میل پبلی کیشنز
سال اشاعت:1994ء
کتاب کی قیمت:99روپے
پیش لفظ:پیش لفظ مصنفہ نے تعارف کے عنوان سے لکھا ہے۔
تعارف مصنفہ (عطیہ سید):
ڈاکٹر پروفیسر عطیہ سید مشہور و معروف ادیبہ،افسانہ نگار،دانشور ،فلاسفر،اور استاد ہیں۔آپ ملک کے مشہور دانشور،ماہر تعلیم، نقاد اور ادیب ڈاکٹر سید عبداللہ کی صاحبزادی ہیں۔ آپ کا قلمی سفر 3 دہائیوں پر مشتمل ہے۔ڈاکٹر پروفیسر عطیہ سید نے آٹھویں جماعت میں لکھنا شروع کیا ۔اور ان کا سب سے پہلا تخلیقی مضمون “میں اگر بلبل ہوتی” کے نام سے شائع ہوا۔پی ٹی وی PTV پر اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ ان کا بچپن عام بچوں سے مختلف تھا۔آپ ڈائری لکھا کرتی تھیں۔ناول پڑھتی تھیں۔انکے والدین میں شاعری کا ذوق موجود تھا اور وہ عطیہ میں بھی یہ ذوق دیکھنا چاہتے تھے۔اورمختلف شعراء کے اشعار یاد بھی کرواتے تھے۔لیکن عطیہ سید نے نثر کا انتخاب کیا۔اپنے انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ جس طرح سعادت حسن منٹو کہا کرتے تھے کہ میں ایک نثری آدمی ہوں۔اسی طرح میں بھی کہتی ہوں کہ:
“میں ایک نثری خاتون ہوں۔” 1
ڈاکٹر پروفیسر عطیہ سید نے پنجاب یونیورسٹی لاہور ایم اے فلسفہ میں اول پوزیشن حاصل کی اور گولڈ میڈل حاصل کیا۔امتیازی پوزیشن حاصل کرنے پر انھیں گورنمنٹ کالج لاہور سے رول آف آنرز کا اعزاز بھی عطا ہوا۔انھوں نے پی ایچ ڈی فلاسفی بھی کی۔ فارغ التحصیل ہونے کے بعد وہ لاہور کالج برائے خواتین میں فرائض انجام دیتی رہیں۔
1980ء میں اعلی تعلیم کے لیے نیویارک یونیورسٹی چلی گئیں۔یہاں انھوں نے پہلے ایم۔اے کیا۔پھر تعلیمی نفسیات اور معاشرتی نفسیات کے سیمینار کورس میں شرکت کی۔اسکے بعد انہوں نے مشہور جرمن فلسفی تائیڈ گر پر تحقیق کی۔وطن واپس آنے کے بعد وہ لاہور کالج برائے خواتین میں بطور صدر شعبہ فلسفہ اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں۔انکے کئی فلسفیانہ مضامین ملکی و غیر ملکی جرائد میں شائع ہوچکے ہیں۔انھوں نے باقاعدہ افسانہ نگاری کی ابتداء 1980ء میں کی۔ جب وہ امریکہ گئی تھیں۔اور ان کا پہلا افسانہ 1986ء کو احمد ندیم قاسمی کے رسالہ فنون میں شائع ہوا۔
ڈاکٹر پروفیسر عطیہ سید کو مختلف اوقات میں مختلف اعزازات سے نوازا گیا جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں۔
Ø ڈاکٹر عطیہ سید کو انکی ادبی خدمات کے صلے میں حکومت پاکستان کی جانب سے تمغہ امتیاز کا سول ایوارڈ بھی دیا گیا۔
Ø استنبول یونیورسٹی کی جانب سے ڈاکٹر عطیہ سید کو Life Time Achievement Award۔ سے بھی نوازا گیا۔
Ø ڈاکٹر عطیہ سید کو بہترین نثری تصنیف کا ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔
ان کی 12 کتب منظر عام پر آچکی ہیں۔ جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں۔
- شہر ہول
- سپوتنک
- حکایات جنوں
- خزاں میں کونپل
- دشت،بارش اور رات
- غبار
- دریا کنارے
- اقبال_مسلم فکر کا ارتقاء
- فلسفیانہ مطالعات
- ادراکات
“اقبال_مسلم فکر کا ارتقاء ایک تجزیاتی مطالعہ”
اقبال_مسلم فکر کا ارتقاء ایک فلسفیانہ تقابل اور تجزیاتی پہلو کی حامل کتاب ہے۔ڈاکٹر عطیہ سید نے اس کتاب کو 14 ابواب اور 5 حصوں میں تقسیم کیا ہے۔
- حصہ اول میں اقبال کی نظر سے یونانی فلسفہ، مسلمانوں سے اس کا تعلق، یورپ سے تعلق اور اسکی ہمہ گیریت کو موضوع بنایا گیا ہے۔حصہ اول ایک ہی باب پر مشتمل ہے۔
- حصہ دوم میں معتزلہ اور پھر اشاعرہ کی شکل میں انکے ردعمل کو موضوع بحث بنایاگیا ہے۔حصہ دوم 2 ابواب پر مشتمل ہے ۔
- حصہ سوم میں تصوف،اس کا پس منظر،تصوف کی ابتداء، قرآنی جواز، صوفیاء اور تصوف کی مابعدالطبیعات پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔حصہ سوم2 ابواب پر مشتمل ہے ۔
- حصہ چہارم میں بعد کے ایرانی افکار کو موضوع بنایا گیا ہے۔حصہ چہارم 4 ابواب پر مشتمل ہے ۔
- حصہ پنجم 5 ابواب پر مشتمل ہے ۔حصہ پنجم میں ان مسلم ماہرین فن کو شامل بحث کیا گیا ہے ۔جو بنیادی طور پر فلسفی نہیں تھے۔لیکن اقبال نے مسلم فکر کے مجموعی ارتقاء میں ان کے کردار کو تسلیم کیا ہے۔ان کو اس کتاب میں ایک الگ گروہ کی شکل دی گئی ہے۔ان میں البیرونی،عراقی، ابن تیمیہ اور ابن خلدون وغیرہ شامل ہیں۔اسی حصہ میں حاصل بحث نامی باب بھی شامل ہے ۔جو ڈاکٹر عطیہ سید کی تاریخی تحقیق وتفتیش کا نچوڑ ہے۔
ڈاکٹر عطیہ سید نے اقبال کا یونانی فلسفہ کے بارے میں رویے کا بھرپور تجزیہ کیا ہے ۔ایک مورخ کا کہنا ہے کہ یونانی افکار سدا بہار ہیں۔اسکی بنیادی وجہ ان کا دوسروں سے بہت پہلے حیات، کائنات اور انکے باہمی تعلقات پر غوروخوص کا آغاز کرنا ہے ۔آج دنیا بھر میں جس مغربی تہذیب کا چرچا ہے۔اسکی بنیاد یونانی فلسفہ پر رکھی گئی ہے ۔مسلمانوں کا یونانی فلسفہ سے ربط بہت پرانا ہے ۔آٹھویں صدی میں خلیفہ منصور نے تراجم کا آغاز کیا اور نویں صدی میں المامون نے بغداد میں بیت الحکمت کی بنیاد رکھی ۔اس سے ارسطو اور دیگر کی تصانیف کے بیشتر حصے مسلمانوں اور عربوں کے حلقہ رسائی میں آگئے تھے۔ حتی کی تحقیق کے مطابق اہل یورپ اس وقت اپنے ناموں کے ہجے سیکھ رہے تھے۔
مسلمانوں کا یونانی تہذیب و ثقافت اور فلسفے سے تعلق اہل یورپ کی نسبت بہت پرانا ہے۔ مسلمان حکماء کے افکار پر یونانی فلسفہ کے اثرات بہت نمایاں ہیں۔اقبال نے ان کا بہت گہرا تجزیہ کیا ہے۔ڈاکٹر پروفیسر عطیہ سید نے باب اول میں ان اثرات کو دو زاویوں سے جانچا ہے۔ایک فردا فردا اور دوسرا اقبال کے عمومی زاویے سے جو وہ یونانی فکر کے بارے میں رکھتے تھے۔ایم ایم شریف مسلم مفکرین کو عقل و وحی کے بارے میں مختلف انداز فکر رکھنے کے باعث 3 گروہوں میں تقسیم کرتے ہیں۔
- اول متکلمین
- دوم صوفیاء
- سوم عقلیت پسند
لیکن اقبال نے اپنی کتاب ”The Reconstruction of the Religious Thoughts in Islam ” میں جو درجہ بندی کی ہے۔اس کے مطابق مسلمان مفکرین کی تقسیم یوں ہے۔
- نو افلاطونی ارسطاطیسی
- مسلم عقلیت پسند
- مثالیت پسند اور حقیقت پسند
- صوفیاء
اقبال معتزلہ کو مسلم عقلیت پسند مفکرین خیال کرتے ہیں۔اور ان کی ابتداء کو اسلامی فکر کی دنیا میں عقلیت پسندی کے ارتقاء سے تعبیر کرتے ہیں۔اقبال کا کہنا ہے کہ معتزلہ کے بہت سے نظریات میں سچائی کا عنصر شامل تھا ۔اور اس نے آنے والوں کو متوجہ کیا اور آنے والوں نے اس فکر کو بہتر انداز میں پیش کیا۔مثال کے طور پر معتزلہ کے مادے کے بارے میں نظریے کو اشاعرہ نے چند ترامیم کے ساتھ بہتر شکل میں پیش کیا۔
اقبال کے ہاں اشاعرہ کا بھی بھرپور تذکرہ ملتا ہے۔ ابتدائی عباسی خلفاء کی سرپرستی میں پروان چڑھنے والی عقلیت پسندی کو نویں صدی کے ابتدائی نصف میں شدید قدامت پسند ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔جس کا علمبردار اشعری تھا۔اس نے عقلیت پسند معتزلہ ہی کے ہتھیاروں سے وہ بلندوبالا عمارت زمین بوس کردی ۔جو انھوں نے بڑے اہتمام سے تعمیر کی تھی۔
جہاں تک تصوف کی ابتداء کا تعلق ہے ۔مستشرقین اسے اسلام پر غیر ملکی،تہذیبی، فکری اور مذہبی اثرات کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔تصوف کے خارجی ماخذ میں ہندوستانی مذاہب یعنی بدھ مت اور ویدانت کو بھی شامل کیا جاتا ہے۔گیارھویں صدی سے پہلے مشرقی ایران میں بدھ مت کی تعلیمات مقبول تھیں۔بلخ میں کئی بدھ خانقاہیں موجود تھیں۔بلخ وہی شہر ہے جس نے کئی صوفیوں کو جنم دیا۔Goldziherکے نکتہ نظر سے صوفی ابراہیم بن ادھم کی کہانی دراصل بدھ کی کتھا ہی کی ایک شکل ہے۔نکلسن کا خیال ہے کہ صوفیوں نے بدھ بھکشووں سے بہت کچھ سیکھا ۔جیسے کہ فنا کا تصور بھی نروان ہی کی ایک شکل ہے۔
اقبال کا کہنا ہے کہ یہ نظریات تعلیل کے ایک ایسے تصور پر مبنی ہیں ۔جو بنیادی طور پر غلط ہے۔ اقبال تعلیل کے صحیح منطقی تصور کو سامنے رکھتے ہوئے حالات کا تجزیہ پیش کرتے ہیں۔جو آٹھویں اور نویں صدی کے اولین نصف کے دوران مسلم دنیا میں موجود تھے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ تصوف بطور مسلک حیات کے پہلے ظہور پذیر ہوا اور بطور فلسفیانہ جواز بعد میں ۔اقبال کے نزدیک ابتدائی صوفیاء کی زندگی پر اسلامی اور سامی نظریات کی چھاپ واضح تھی۔جبکہ بعد میں ایرانی اور آریائی افکار کے اثرات ایران کی بتدریج سیاسی خودمختاری کے متوازی بڑھتے نظر آتے ہیں۔مذہبی، فکری اور اقتصادی صورتحال بھی صوفیانہ روش حیات اور انداز فکر کے فروغ کا سبب بنی۔مسلمان تصوف کے داخلی ماخذ یعنی تصوف کے ابتدائی دور کے سیاسی، معاشی، معاشرتی اور مذہبی حالات کے علاوہ خود قرآن و حدیث وہ سرچشمے ہیں جن سے مسلم تصوف کا شجر پھوٹا اور دیکھتے ہی دیکھتے تناور درخت کی شکل اختیار کر گیا۔تصوف حقیقت کے تین عکس پیش کرتا ہے ۔جو ایک دوسرے کو خارج نہیں کرتے یعنی مانع نہیں بلکہ ایک دوسرے کے معاون ہیں۔یہ تین عکس 3 زاویوں کے ترجمان ہیں ۔
- ایک زاویے سے حقیقت بنیادی طور پر باشعور ارادہ ہے۔
- دوسرے زاویے سے حقیقت بنیادی طور پر حسن کا نام ہے۔
- تیسرے زاویے سے حقیقت بنیادی طور پر فکر، نور اور علم کا نام ہے۔
تاریخی اعتبار سے شفیق بلخی، ابراہیم ادھم اور حضرت رابعہ بصری کا مکتبہ فکر پہلے آتا ہے۔جن کے مطابق حقیقت قوت ارادی کی نوعیت کی حامل ہے۔اور کائنات اس کا محدود عمل ہے۔یہ مکتبہ خیال بنیادی طور پر واحدانی اور بقول اقبال سامی بھی ہے۔اس سے تعلق رکھنے والے صوفیاء میں تقوی، ترک اور خدا کے لیے شدید محبت کے رویے نظر آتے ہیں۔ان کا مقصد فلسفیانہ تفکر اور علم نہیں بلکہ زندگی کے ایک خاص نصب العین کا حصول ہے۔اسی لیے ان کہ ہاں باقاعدہ جامع مابعدالطبیعات کا ارتقاء نہ ہو سکا۔دوسرے مکتبہ فکر نے نو افلاطونی نظریہ صدور کو اپنایا ۔لیکن بعد میں اپنی وحدت الوجودیت کی بنا پر اس کو مکمل طور پر رد کرنے پر مجبور ہوگئے۔بوعلی سینا کی طرح وہ بھی حقیقت کو ابدی حسن تصور کرتے تھے ۔جو کائنات کے آئینے میں منعکس ہے۔اقبال اس کے بارے میں اپنی کتاب ایران میں مابعدالطبیعات کا ارتقاء میں لکھتے ہیں کہ اس تصور کی نشونما میں بدھ مت اور ویدانت کا کافی حصہ ہے۔یہ غیر اسلامی اثرات حسین منصور کی صورت میں اپنی انتہا کو پہنچے۔ تصوف کے تیسرے مکتبہ فکر کے مطابق حقیقت نور یا فکر ہے۔اس کے دو پہلو ہیں ۔ایک پر ایرانی روح حاوی ہے اور دوسرے پر عیسائی اثرات نمایاں ہیں۔مگر دونوں کی قدر مشترک یہ ہے کہ دنیا کے تنوع کا تقاضہ ہے کہ خود حقیقت کے اندر اصول کثرت موجود ہے۔اس کے بعد ڈاکٹر عطیہ سید نے ان مسلم مفکرین اور ان کے نظریات کا بھرپور تجزیہ کیا ہے جو اقبال کے نزدیک قابل التفات ہیں۔
مسکویہ کا پورا نام احمد بن محمد ابن یعقوب تھا۔اسکی دلچسپی کیمیا سے اس حد تک وابستہ تھی کہ وہ اپنا بیشتر وقت اس کے مطالعہ میں صرف کرتا۔اقبال اس کا شمار ایران کے نوافلاطونی ارسطالیسیوں میں کرتے ہیں۔عموما ابن مسکویہ کی شہرت کا سبب اسکی اخلاقیات کو قرار دیا جاتا ہے۔لیکن اقبال ابن مسکویہ کی مابعدالطبیعات کو اہم تصور کرتے ہیں۔اقبال نے ابن مسکویہ کو جن وجوہات کی بنا پر ممتاز خیال کیا ہے ۔ان میں سے ایک ابن مسکویہ کا خدا کے وجود کو ثابت کرنے کے لئے دلائل پیش کرنا بھی ہے۔اقبال ہر جگہ انسان کی یکتائی اور انفرادیت کا ذکر کرتے ہیں ۔اور باوجود تمام خامیوں اور کمیوں کے اسے زمین پر خدا کا نمائندہ قرار دیتے ہیں۔اقبال انسانی شخصیت کے ارتقاء کے علمبردار ہیں ۔اور اس ارتقاء کی نوعیت روحانی ہے۔مسکویہ کا ارتقاء بھی روحانی ہے۔ابن مسکویہ ساری کائنات میں روحانی میلان کو جاری وساری پاتا ہے۔اس لیے ابن مسکویہ جس ارتقاء کا ذکر کرتے ہیں ۔وہ حیاتیاتی ہوتے ہوئے بھی روحانی ہے۔اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اقبال باقی مسلم مفکرین کے مقابلے میں مسکویہ سے اس لیے ایک گونہ یگانگت محسوس کرتے ہیں۔بقول ڈاکٹر پروفیسر عطیہ سید:
وہ(اقبال) خود بھی زمین پر انسانی خلافت اور خودی کے ارتقاء کے قائل ہیں۔اسکے ساتھ ساتھ یہ ان کا ایمان ہے کہ سوچ کی یہی روش(جو ان کے اور مسکویہ کے ہاں کئی لحاظ سے مشترک ہے) قرآن کی روح کے عین مطابق ہے۔ 2
ابو علی الحسین ابن عبداللہ ابن سینا کو دنیائے اسلام کے مقتدر مفکرین کی صف اول میں شمار کیا جاتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ابن سینا کے نظریات میں یونانی عناصرواضح طور پر موجود ہیں۔لیکن اس کا نظام فکر مجموعی طور پر انفرادیت کا حامل ہے۔اور اس میں اسکی شخصیت کا رنگ جھلکتا ہے۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ وہ اپنے بنیادی نظریات کو بار بار اپنی مختلف تصانیف میں دوہراتے ہیں ۔جو کہ تبھی ممکن ہے جب افکار منظم ہوں۔اور محض متفرق ذرائع سے مستعار نہ لیے گئے ہوں۔اقبال نے اپنی کتاب ایران میں مابعدالطبیعات کا ارتقاء میں ابن سینا کو یہ خراج تحسین پیش کیا ہے کہ ابتداء کے ایرانی فلسفیوں اور مسلمان نوافلاطونیوں میں وہ واحد مفکر تھا۔جس نے خودانفرادی طور پر کچھ سوچنے کی کوشش کی۔اور اپنے نظام فکر کی تشکیل کی سعی کی۔اقبال نے ابن سینا کے نظریات عشق وروح پر توجہ مرکوز کی ہے۔
عراقی کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کا واحد ذریعہ ایک مقدمہ ہے۔جو انکے نام سے منسوب ہے۔ہمدان میں پیدا ہوئے۔انکی شاعری اعلی پائے کی تھی۔عشق حقیقی اور عشق مجازی کے بیان کرنے کا منفرد اسلوب رکھتے تھے۔ان جیسا اسلوب فارسی میں کسی اور کو نصیب نہ ہوا ۔عراقی کی تصانیف پر ابن البیرونی کے اثرات منعکس ہیں۔اقبال نے عراقی کا ذکر نظریہ زماں کے حوالے سے کیا ہے جس کی ہاں زماں کا لامحدود تنوع پایا جاتا ہے جو ہستی کے مختلف مدارج سے وابستہ ہے۔
زیر نظر کتاب میں ڈاکٹر پروفیسر عطیہ سید نے سب مسلم مفکرین پر تبصرہ نہیں کیا بلکہ صرف ان مفکرین کو شامل کتاب کیا گیا ہے۔جن کا ذکر اقبال کی نثری تصانیف میں ملتا ہے ۔کیونکہ یہ کتاب اقبال کے حوالے سے مرتب کی گئی ہے۔اور اقبال مسلم افکار کی تاریخ میں ایک وحدت اور منطق دیکھتے ہیں۔اور اسی نکتہ کو ڈاکٹر پروفیسر عطیہ سید نے پوری کتاب میں ملحوظ خاطر رکھا ہے۔یونانی افکار سب سے زیادہ قدیم اور ہمہ گیریت کے حامل ہیں۔کیونکہ اس سے پہلے کسی اور تہذیب نے اس حوالے سے کوئی کام نہیں کیا تھا۔آج دنیا بھر میں جس مغربی تہذیب کا چرچا ہے۔اسکی بنیاد یونانی فلسفہ پر رکھی گئی ہے۔مسلمان قوم کا یونانی فلسفے سے ربط بہت پرانا ہے۔اور یہ تعلق یورپ کی نسبت زیادہ قدیم ہے۔اقبال کا ہدف یونانی فلاسفروں کے ذریعے دراصل یونانی تہذیب و ثقافت ہے۔
ڈاکٹر پروفیسر عطیہ سید نے اس کتاب میں تمام یونانی، ایرانی اور سامی فلاسفروں کا حوالہ دیتے ہوئے اقبال کے نکتہ نظر کی وضاحت کی ہے۔جیسے کہ سقراط،افلاطون، ارسطو،ابن خلدون، ابن مسکویہ، ابن سینا،الغزالی، ابن رشد،البیرونی، عراقی اور ابن تیمیہ سبھی کا ذکر موجود ہے۔ڈاکٹر پروفیسر عطیہ سید نے ان فلاسفروں کے حالات سے بحث کرنے کی بجائے انکے نظریات اور اقبال کے ان نظریات کے بارے میں تاثرات کو قلمبند کیا ہے۔اور اقبال نے ان فلاسفروں کا کب ،کہاں،اور کن الفاظ میں ذکر کیا ہے ۔ان سب کا جامع اور مکمل تذکرہ کیا ہے۔
اقبال کے مطابق سقراط نے صرف انسانی دنیا پر توجہ مرکوز کی ہے۔اور تمام متعلقات سے قطع نظر کیا ہے۔اور اقبال کا کہنا ہے کہ قرآن ان سبھی متعلقات پر غوروخوص کی دعوت دیتا ہے۔اور سقراط ان سے دور ہے۔لہذا یہ تصور قرآن کی روح کے منافی ہے۔ڈاکٹر پروفیسر عطیہ سید لکھتی ہیں کہ اسی وجہ سے اقبال سقراط کے لیے روحانی عظمت اور فکری قدوقامت کے باوجود یگانگت محسوس نہیں کی۔ڈاکٹر پروفیسر عطیہ سید نے اقبال کے مسلم فکر کے ارتقاء پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔سقراط سے افلاطون نے بھی وہی کچھ سیکھا۔افلاطون نے سقراط ہی کے نظریات زیادہ شد ومد سے بیان کیا۔افلاطون حواسی ادراک سے مخاصمت کا حامل تھا۔اس نے حواسی مشاہدہ کو علم کا غیر معتبر ذریعہ قرار دے دیا۔اقبال کے نزدیک یہیں سے قرآنی اور یونانی رستے جدا ہو جاتے ہیں۔کیونکہ قرآن میں سماعت و بصارت کو خضر راہ کا منصب سونپا گیا ہے جبکہ یونانی فلاسفروں کے نزدیک یہ حقیقت سے بھٹکانے والے چھلاوے ہیں۔ سقراط اور افلاطون کے افکار کی طرح ارسطو نے بھی علم کا وہی نظریہ پیش کیا جو مذکورہ بالا نے پیش کیا ۔اس نے بھی کہا کہ علم تعقل سے حاصل ہوتا ہے۔ارسطو کا نکتہ یونانی فلسفہ کا نکتہ عروج تصور کیا جاتا ہے۔بعازاں اس فکر کا تنزل شروع ہو جاتا ہے۔اور پھر جدت پسندی کا فقدان اور ماضی کی تکرار دکھائی دیتی ہے۔
نظریہ علم کے علاوہ افلاطون کا نظریہ زمان،نظریہ مکان،نظریہ امثال بھی خاص اہمیت کے حامل ہیں۔افلاطون کا نظریہ زمان یہ ہے کہ وقت ایک واہمہ ہے۔جبکہ قرآن کی رو سے وقت ایک حقیقت ہے۔اور اسکی مثال رات دن کا ادل بدل کر آنے کو حقیقت مطلقہ کی علامت قرار دینا ہے۔افلاطون کا نظریہ امثال یہ ہے کہ عالم محسوسات عالم امثال کا پرتو ہے۔جس کا اگر مکمل ادراک حاصل کرنا ہے تو ہمیں عقل سے کام لینا ہوگا کیونکہ حواس ہمیں اس تک پہنچانے سے قاصر ہیں۔جبکہ اقبال کا ماننا ہے کہ کہ خدا نے یہ عالم محسوسات کسی خاص اور سنجیدہ مقصد کے تحت تخلیق کیے ہیں۔ اقبال افلاطون کی جانب کھچاؤ محسوس کرتے ہیں ۔کیونکہ اقبال کے مطابق حیات عمل پیہم ہے۔ڈاکٹر پروفیسر عطیہ سید نے اپنی اس بات کو ثابت کرنے کے لیے جگن ناتھ آزاد کی رائے کو بھی شامل بحث کیا ہے۔جن کے مطابق یہ فکر اقبال کا مغربی فلسفے کے ساتھ پہلا ٹکراؤ تھا۔افلاطون کے بارے میں اقبال کے تاثرات کو ڈاکٹر پروفیسر عطیہ سید نے یوں بیان کیا ہے کہ:
اقبال مجموعی طور پر افلاطون کے فلسفے کے بارے میں منفی رائے رکھتے ہیں۔ 3
اقبال کا دعوی ہے کہ یونانی افکار کی بنیادی نوعیت قیاسی،تفکری اور نظریاتی ہے۔اس دعوی کی مکمل تفہیم کے لیے ڈاکٹر پروفیسر عطیہ سید نے یونانی افکار کی تاریخ کا ایک اجمالی جائزہ بھی پیش کیا ہے۔جس کے مطابق تھیلز وہ پہلا شخص تھا ۔جس سے یونانی فلسفہ کی تاریخ شروع ہوتی ہے۔اسکا فلسفیانہ مسئلہ خارجی طبیعی کائنات کی حقیقت جاننے سے متعلق تھا۔وہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ تمام اشیا پانی ہیں۔اس نے پہلی بار ایک ایسا سوال اٹھایا جو بیک وقت سائنسی اور فلسفیانہ تھا۔یہ تو بات تھی یونانیوں کی ۔دوسری جانب فیثاغورثیوں نے نظریہ عدد پیش کرکے کائنات کی تشریح و توضیح میں ریاضی کی اہمیت کو تسلیم کروایا۔کارل ساگاں کا کہنا ہے کہ فیثاغورثیوں نے آئیونیا کے سائینٹفک فکر کو صدیوں کے لیے صوفیانہ اسرار میں غائب کردیا تھا۔
اقبال کے ہاں ہمیں معتزلہ کا بھرپور تجزیہ ملتا ہے۔معتزلہ کے پیش روقدریہ تھے۔معتزلہ توحید کے اس درجہ قائل تھے کہ خدا کی عین اور اسکی صفات کو جدا نہیں مانتے تھے۔اقبال معتزلہ کی ابتداء یونانی فلسفہ کے اثرات کو نہیں بلکہ ایرانی ذہن کو اس کا سبب گردانتے ہیں۔جس نے نئے ماحول سے مطابقت کے بعد طبعی آزادی کے حصول کے لیے معروضیت سے گریز کا عمل اپنایا۔اس سے موضوعیت کی تجدید ہوئی۔ڈاکٹر پروفیسر عطیہ سید لکھتی ہیں کہ کسی تہذیب کا ایسا عہد تشکیک، تصوف،اور عقلیت کو جنم دیتا ہے۔جو کہ موضوعیت کی ہی شکلیں ہیں۔جن کے ذریعے انسانی ذہن سچائی کے تمام خارجی معیار رد کردیتا ہے۔
حضرت حسن بصری کے شاگرد واصل بن عطا نے معتزلہ کی بنیاد ڈالی۔سبھی مسلمان توحید پر ایمان رکھتے ہیں ۔لیکن معتزلہ اس قدر وحدانیت کے قائل ہیں کہ انھیں اہل توحید کہا جاتا ہے۔ معتزلہ خدا کی ذات اور صفات میں تفریق کے قائل نہیں ہیں۔ معمر بن عباد اور ابوہاشم نے اس تصور کی تجدید کی ۔جسکی رو سے صفت یا محمول کا ذکر خارج از مکان ہوگیا۔اقبال کے مطابق معتزلہ میں سے کچھ نے لاشعوری طور پر فلسفہ وحدت الوجودیت کی سرحدوں کو چھوا۔لیکن شعوری ارتقاء صوفیاء کے ہاں ہی نظر آتا ہے۔ اقبال نے قرآن مجید سے یہ حوالہ دیا ہے کہ اللہ زمین و آسمان کا نور ہے۔اقبال اپنی کتاب تشکیل جدید الہیات اسلامیہ میں لکھتے ہیں کہ:
طبیعات حاضرہ کی رو سے نور کی رفتار میں کوئی اضافہ ممکن نہیں۔اور اس لیے ناظر کا تعلق خواہ کسی نظام حرکت سے ہو،اسکی یکسائی میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔۔۔۔۔تغیر کی اس دنیا میں نور ہی وہ شےہے۔جس کو ذات مطلق سے قریب ترین مماثلت حاصل ہے۔لہذا اگر نور کا اطلاق ذات الہیہ پر کیا جائے تو ہمیں اپنی جدید معلومات کی روشنی میں یہ سمجھنا چاہیے کہ اس کا اشارہ ذات الہیہ کی مطلقیت کی طرف ہے۔ہر کہیں موجودگی کی طرف نہیں۔جس سے بے شک ہمارا ذہن وحدت الوجود کی طرف منتقل ہوجاتا ہے۔ 4
تصور خدا کے حوالے سے اقبال کے ہاں عراقی کا تحسین آمیز تذکرہ ملتا ہے۔ڈاکٹر پروفیسر عطیہ سید نےاس کتاب میں عراقی پر پورا ایک باب لکھا ہے ۔تاکہ ان کے نظریات کی تفہیم میں کوئی اشکال باقی نہ رہے۔عراقی کے ہاں زماں کا لامحدود تنوع پایا جاتا ہے۔جو ہستی کے مختلف مدارج سے وابستہ ہے۔یہ مدارج مادی ہستی سے لے کر خالص روحانی ہستی تک پھیلے ہوئے ہیں۔ عراقی کا تصور زماں درج ذیل تین مدارج پر مشتمل ہے۔
- خام اجسام کاوقت
- غیر مادی اشیاء کا وقت
- خدا کا وقت
ڈاکٹر پروفیسر عطیہ سید کہتی ہیں کہ:
اس طرح ہم یہ تو ثابت کرلیتے ہیں کہ خدا کو مستقبل واقعات کا علم ہے۔لیکن ہم خدا کی آزادی کو ضرر پہنچانے کی غلطی کے مرتکب ہوں گے۔مستقبل یقینا خدا کی زندگی کے نامیاتی کل میں موجود ہے۔لیکن کھلے امکان کی طرح یعنی متعین خطوط کی صورت میں نہیں۔ 5
خدا کا کل کائنات سے رابطہ وہی ہے جو جسم کا روح سے ہے۔جو نہ جسم کے اندر ہے اور نہ باہر۔لیکن پھر بھی جسم کے ہر جوہر سے اس کا رابطہ ایسا ہے ۔جس سے انکار ناممکن ہے۔ڈاکٹر پروفیسر عطیہ سید خدا کے تصور مکاں کے حوالے سے لکھتی ہیں کہ:
خدا کے سلسلے میں مکان کی موجودگی تصور کی جاسکتی ہے۔صرف ہمیں اسکی تعریف کے بارے میں بےحد محتاط ہونا چاہیے۔ 6
عراقی مکان کی ساری اقسام سے گزر کر خدا کے مکان تک پہنچتے ہیں ۔جو تمام اطراف اور جہتوں سے آزاد اور لامحدودیت کا نکتہ اتصال ہے۔اقبال کہتے ہیں کہ ایک پڑھا لکھا صوفی مسلمان زمان و مکان کے روحانی تجربے کی تشریح کس طرح بیان کرتا ہے ۔اور وہ بھی اس عہد میں جب جدید ریاضی اور سائنس کے تصورات اس دنیا سے معدوم تھے۔عراقی اس عبوری دور کا نمائندہ دکھائی دیتا ہے۔جس میں مسلمانوں کے ہاں منفرد اور الگ سوچ کی تمنا تو موجود تھی۔مگر یونانی افکار ابھی تک مستند سمجھے جاتے تھے۔لہذا وہ اس شاہراہ پر گامزن ہونے میں کامیاب نہیں تھے۔جس کی وجہ یونانی افکار کے حق میں ان کے تعصبات تھے۔
ڈاکٹر پروفیسر عطیہ سید نے معتزلہ کے مادے کے بارے میں نظریے کو بھی شامل بحث کیا ہے۔اس نظریہ کے مطابق مادہ لامحدود تقسیم کا حامل ہے۔ان کا ماننا ہے کہ وجود ایک خاصیت ہے جو کہ خدا تعالی پہلے سے موجود جواہر کو عطا کرتا ہے۔اور روح مادے کی نفیس شکل ہے اور ذہنی اعمال ایک طرح سے مادی حرکات ہیں۔کائنات وہ خارجی قابل ادراک حقیقت ہے جو ادراک کے بغیر بھی موجود ہے۔ڈاکٹر پروفیسر عطیہ سید لکھتی ہیں کہ:
اقبال معتزلہ کو صرف عقلیت پسند ہی نہیں مادہ پرست بھی سمجھتے ہیں ۔کیونکہ ان کے نزدیک شے substance اور جوہر atomایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔مجموعی طور پر اقبال معتزلہ کے نظریات کو تنقیدی نظر سے دیکھتے ہیں۔ایک طرف تو عقلیت پسند اور دوسری مادیت کا علمبردار تصور کرتے ہیں۔ 7
ڈاکٹر پروفیسر عطیہ سید ان سبھی فلاسفہ کا ذکر کرنے اور اقبال سے ان کا رد ثابت کرنے کے بعد ان فلاسفہ کا ذکر کرتی ہیں ۔جن کے نظریات کو اقبال نے نہ صرف پسند کیا بلکہ ان کے معترف بھی ہیں۔ان میں الغزالی، اشاعرہ اور ابن خلدون وغیرہ شامل ہیں۔
- الغزالی کا تحفاتہ الافلاسفہ
- اشاعرہ کا نظریہ تخلیق مسلسل
- ابن خلدون کا تصور تغیر
مندرجہ بالا تصورات اور نظریات اقبال کے پسندیدہ ہیں۔کیونکہ یہ افکار و نظریات یونانی نظریات سے متصادم اور قرآنی روح کے عین مطابق ہیں۔اقبال کی تصانیف میں ہمیں اشاعرہ کا بھی بھرپور تذکرہ ملتا ہے ۔ڈاکٹر پروفیسر عطیہ سید نے اس پہلو کو بھی خاص طور پر اپنا موضوع بنایا ہے۔ڈاکٹر پروفیسر عطیہ سید لکھتی ہیں کہ معتزلہ نے مادر پدر آزادی اور مکمل منفعیت کے رحجانات کو ہوا دی۔اشعری نے جس تحریک کو ابھارا وہ نہ صرف اسلام کو غیراسلامی عناصر سے پاک کرنے کی بلکہ مذہبی شعور اور مذہبی فکر کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش بھی تھی۔اس سلسلے میں ڈاکٹر پروفیسر عطیہ سید نے فلسفہ جبروقدر،فلسفہ کسب،فلسفہ انتخاب اور فلسفہ لازمیت پر بھی بحث کی ہے۔فخرالدین رازی کے تصورات کی بھی وضاحت ملتی ہے۔اشعری کے متعلق ڈاکٹر عطیہ سید لکھتی ہیں کہ:
اقبال کے مطابق اشعری کو بنیادی طور پر مذہب سے دلچسپی تھی۔خالص فلسفے کی طرف وہ تنقیدی رویہ رکھتا تھا ۔ 8
اقبال اشاعرہ کے نظریہ جواہر کے بہت قائل تھے۔اقبال کے نزدیک اس نظریے کی ابتداء اور ارتقاء ارسطو کے تصور کائنات کی نفی ہے۔جس کے مطابق کائنات جامد ہے۔اشاعرہ کا نظریہ جواہر بہت اہم ہے۔اسلام میں مذہبی افکار کی تشکیل نو کے لیے اشاعرہ کی جوہریت وہ روش متعین کرتی ہے ۔جس پر جدید فزکس کی روشنی میں کام ہونا چاہیے۔اشاعرہ کی جوہریت کے خدوخال یہ ہیں کہ یہ دنیا جواہر کا مرکب ہے ۔جواہر ناقابل تقسیم ذرات ہیں ۔جواہر کا عین اس کے وجود سے جدا ہے۔لہذا جواہر کی لازمی خصوصیت میں جسامت شامل نہیں ہے۔لیکن جب بہت سارے جواہر ملتے ہیں تو یہ مکان کو جنم دیتے ہیں۔چونکہ اشاعرہ کے مطابق جوہر کی لازمی خصوصیت مکان کو گھیرے میں لینا نہیں ہے ۔تو پھرحرکت کا کونسا تصور اپنایا جائے۔اس سوال کا بہتر جواب تصور جست ہے۔اور یہ اقبال کےہاں بہت مقبول ہے۔اقبال اس کے بہت قائل ہیں۔ایک شعر ملاحظہ ہو:
عشق کی ایک جست نے طے کردیا قصہ تمام
اس زمین و آسمان کو بے کراں سمجھا تھا میں 9
اشاعرہ کا نظریہ حرکت تخیل کی گرفت میں بمشکل ہی آتا ہے ۔لیکن جدید سائنس اسی تصورحرکت کی روش پر قائم ہے۔اقبال کی رائے ہے کہ اگر اشاعرہ کی جوہریت پر مسلم افکار کی بہترین روایت کی روشنی میں تنقید کی جائے تو انکی جوہریت کو روحانی کثریت میں ڈھالا جاسکتا ہے۔اشعری کی تحریک کا مقصد یونانی جدلیات کے حربوں سے روایتی مذہبی عقائد کو تحفظ فراہم کرناتھا۔اقبال کی چاہت ہے کہ دفاع کے ساتھ ساتھ تشکیل نو بھی ہونی چاہئے کیونکہ یہ اس دور کا تقاضہ ہے۔اس کے علاوہ ڈاکٹر عطیہ سید نے اقبال کی نظر سے یونانی اور مسلم ذہن کے اختلاف کو یک لفظی پیرائے میں بیان بھی کیا ہے۔اقبال کا کہنا ہے کہ یونانیوں کے ہاں تناسب سب سے اہم قدر ہے۔جبکہ مسلمانوں کے ہاں لامتناہی infinity کا تصور اہم ہے۔
تفہیم اقبال کا سلسلہ جاری ہے۔اور جاری رہے گا۔اقبال کو کئی مصنفین نے نئے زاویے سے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔افکار اقبال کی کئی جہتیں ہیں۔یہ کتاب بھی مطالعہ اقبال کی ایک نئی جہت کی دریافت ہے۔اور ایک تحقیقی کاوش ہے۔اقبال پر زیادہ کتب انکی شاعری کے موضوع پر ہیں۔انکی نثر کو کم ہی موضوع بنایا جاتا ہے۔یہ کتاب انکی نثر خاص طور پر انکے فلسفیانہ افکار کا تجزیہ پیش کرتی ہے۔آنے والے محققین اور ناقدین کے لیے نئے نئے در وا کرتی ہے۔اس کتاب کا تجزیہ کرنے کا مقصد اقبال کے نثری کام کو منظر عام پر لانا اور ماہرین اقبالیات کی نظر التفات کو ان کی شاعری کے ساتھ ساتھ انکی نثری اور فلسفیانہ فکر کی جانب مبذول کرانا بھی ہے۔تاکہ جس پیمانے پر ہم نے اقبال کی شاعری کی تفہیم کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ اسی پیمانے پر اقبال کی نثر کو بھی جانچا ، جانا اور متعارف کروایا جائے۔
حوالہ جات:
- عمران میر،(پروگرام ) کسب کمال، ٹی وی چینل(پی ٹی وی)،یوٹیوب چینل(نامور)، تاریخ 5 مارچ،2017ء
- عطیہ سید،ڈاکٹر،پروفیسر،اقبال مسلم فکر کا ارتقاء،لاہور،سنگ میل پبلی کیشنز،1994ء،ص97
- ایضا،ص18
- محمداقبال،علامہ،تشکیل جدید الہیات اسلامیہ،(مترجم) سید نذیر نیازی،نئی دہلی،اسلامک بک سنٹر،1992ء،ص133
- عطیہ سید،ڈاکٹر،پروفیسر،اقبال مسلم فکر کا ارتقاء،لاہور،سنگ میل پبلی کیشنز،1994ء،ص134
- ایضا،ص135
- ایضا،ص41
- ایضا،ص45
- محمد اقبال،علامہ، بال جبریل،مشمولہ:(کلیات اقبال)،لاہور،خزینہ علم و ادب،2006ء،ص367
کتابیات:
- عطیہ سید،ڈاکٹر،پروفیسر،اقبال مسلم فکر کا ارتقاء، لاہور،سنگ میل پبلی کیشنز،1994ء
- محمد اقبال،علامہ،تشکیل جدید الہیات اسلامیہ،مترجم:نذیر نیازی،سید،نئی دہلی،اسلامک بک سنٹر،1992ء
- محمد اقبال،علامہ،کلیات اقبال،لاہور،خزینہ علم و ادب ،2006ء
انٹرنیٹ:
- انٹرویو ،ڈاکٹر پروفیسر عطیہ سید،پی ٹی وی ہوم،کسب کمال، عمران میر (میزبان)