You are currently viewing رحمان امجد مرادؔ، مختصر حالاتِ زندگی

رحمان امجد مرادؔ، مختصر حالاتِ زندگی

فریحہ حمید باجوہ، پاکستان

ایم فل( اردو)

رحمان امجد مرادؔ، مختصر حالاتِ زندگی

         فطر ی طور پر انسان کے اندر تخلیقی صلاحیتیں موجود ہوتی ہیں۔ لیکن تمام لوگوں کو اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا فہم و ادراک نہیں ہوتا اور بعض حالات میں ان کے اظہار کا موقع نہیں ملتا۔ شاعری ایک ایسی تخلیقی صلاحیت ہے جس کا تعلق انسان کے تخیل سے ہے۔ جب کوئی حساس انسان اپنے تخیل میں ابھرنے والے خیالات کو الفاظ کی صورت میں قیمتی موتیوں کی طرح ایک لڑی میں پروتا ہے تو شعر وجود میں آتا ہے۔ چنانچہ یہ کہنا بے جا نہیں کہ کسی شاعر کی زندگی دوسرے عام انسانوں سے بہت مختلف ہوتی ہے۔ شاعر کے تخیل کا معیار بلند ہوتا ہے۔ وہ اپنے ارد گرد پائے جانے والے درد کو محسوس کرتا ہے۔ کائنات کے حسین نظاروں پر غورو فکر کرتا ہے۔ کائنات کی پیچیدگیوں کو بھی سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ اپنی تیز نظر اور عمیق نگاہ سے اپنے ارد گرد کے واقعات، کائنات کی حقیقت، انسانوں کے رویوں نیز اپنی ذات کی تہوں کا مشاہدہ کرنے کی صلاحیت جب پیدا کر لیتا ہے تو اپنے خیالات کو الفاظ کی شکل میں پیش کر کے نہ صرف اپنی روح کی تسکین کا بندوبست کرتا ہے بلکہ لوگوں کو بھی جھنجھوڑتا ہے۔ ان کیلئے نہ صرف تفریح طبع کا باعث ہوتاہے بلکہ ان کی ارواح کو پرسکون کرنے کا سامان فراہم کرتا ہے۔

         شاعری کیلئے جہاں سب سے ضروری بات خودبینی اور جہاں بینی ہے وہاں ایک ضروری چیز درد بھی ہے۔ درد کی بھی کئی اقسام ہیں جس میں سے بہت اہم درد اپنی ذات کا درد ہے اور دوسرا زمانے کا درد ہے۔

          اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے اور بڑے بڑے شعراء کی زندگیوں پر نگاہ ڈالی جائے تو ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ ہر شاعر درد میں سے گزرا۔ کچھ شعراء کی زندگیاں درودوآلام سے بھری ہوئی تھیں۔ اور کچھ شعراء نے معاشرے کے درد کو اپنی ذات پر حاوی کر لیا۔ کوئی اپنے اندر کے درد کو بیان کرنے لگا تو کسی کو معاشرے میں موجود درد نے بے کل اور بے سکون کیا۔ یہاں تک کہ مزاح لکھنے والے شعراء نے بھی لوگوں کے درد کو کم کرنے کا سامان ڈھونڈنے کیلئے مزاح کا سہارا لیا۔ یہاں یہ بات ضروری ہے کہ درد کو محسوس کرنے کیلئے درد میں سے گزرنا ضروری ہے۔ جہاں اردو ادب میں  بے شمار شعراء گزرے ہیں وہاں سیالکوٹ کو یہ مقام اور اعزار حاصل ہے کہ سیالکوٹ کی سر زمین نے ایسے شعراء پیدا کیے جو درد ِدل اور درد ذات کے ساتھ ساتھ قوم کا درد رکھنے والے ہیں۔

         ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے قوم کے درد کو محسوس کیا اور ان کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا اور قیامت تک زندہ اور جاوید ہو گئے۔ فیض احمد فیض نے نوجوانوں میں ہمت و حوصلہ پیدا کرنے کا عزم کیا اور ان کا نام ہمیشہ رہے گا۔ امجد اسلام امجد نے بھی اسی دھرتی پہ جنم لیا نیز بے شمار شعراء اس سر زمین سے اٹھے اور اپنے اپنے حصے کا کام کرتے رہے۔ ایسا ہی ایک معتبر نام رحمان امجد مرادؔ کا ہے۔ ان کا اپنا نام رحمان امجد ہے اور مرادؔ تخلص کرتے ہیں۔

         رحمان امجد مرادؔ 2 مارچ 1953ء کو محلہ تاج پورہ سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد محترم کا نام محمد اکبرتھا۔ محمد اکبر انجینئرتھے اور تلاشِ معاش کیلئے کراچی میں سکونت پذیر تھے۔ رحمان امجد مراد کی پیدائش کے ایک برس بعد ان کا کراچی میں انتقال ہو گیا۔ مالی حالات اچھے نہ ہونے کی وجہ سے ان کی میت کو سیالکوٹ لانا مشکل تھا چنانچہ ان کے دوستوں نے انھیں منگھو پیر قبرستان کراچی ہی میں دفن کرایا اور سیالکوٹ میں صرف ان کی وفات کی خبر آئی۔ رحمان امجد مرادؔ کے والد کی وفات کے بعد ان کی والدہ بچوں کے ہمراہ اپنے والدین کے گھر آگئیں۔

         یہاں یہ بات قابلِ ذکرہے کہ رحمان امجد مرادؔ کے نانا مولوی غلام رسول موضع ماچھی کھو کھر سیالکوٹ کے رہائشی تھے۔ ماچھی کھوکھر میں ان کی تھوڑی بہت زمین تھی۔ وہ ایک دین دار انسان تھے۔ گندمی رنگ، مناسب قداور سفید داڑھی کے حامل ایک بارعب شخصیت تھے۔ مولوی غلام رسول گائوں ماچھی کھوکھر کی مسجد میں نہ صرف امامت کے فرائض سر انجام دیتے تھے بلکہ گائوں کے کچھ بچوں کو قرآن ِ پاک کی تعلیم دیا کرتے تھے۔

         چند ناگزیر واقعات کی بِنا پر انہیں گائوں کو خیرباد کہنا پڑا اور سیالکوٹ محلہ تاج پورہ میں سکونت اختیار کی۔ محلہ تاج پورہ در حقیقت تاج نامی ایک ایسے شخص کی زمین تھی جو صرف ماچھی کھوکھر سے آنے والے لوگوں کے ہاتھوں فروخت کرتا چنانچہ یہاں زیادہ تعداد ان افراد کی تھی جو کسی نہ کسی وجہ سے موضع ماچھی کھوکھر کو خیرباد کہہ کر سیالکوٹ آگئے تھے۔ رحمان امجد مرادؔ کے والد کی وفات کے بعد ان کی والدہ اپنے بچوں سمیت محلہ تاج پورہ میں اپنے والد کے ہاں قیام پذیر ہوئیں۔ رحمان امجد مرادؔ اس سلسلہ میں خود بتاتے ہیں کہ۔۔۔

         ’’میں آج بھی اسی گھر میں رہائش پذیر ہوں۔ یہ میرے نانا کی جائیداد ہے۔ میرے نانا کی دو ہی بیٹیاں تھیں۔ ایک میری والدہ اور دوسری میری خالہ۔ میرے بچے اور پھر ان کے بچے بھی اسی گھر میں پیدا ہوئے اور تاحال یہاں سکونت پذیر ہوں۔ میر ایہ گھر میرے لیے شیش محل اور تاج محل سے کسی طور پر کم نہیں۔ میرے اس گھر نے زندگی بھر مجھے میرے بچوں اور ان کے بچوں کو عزت سے سر چھپانے کی جگہ فراہم کی ہے۔ جس کے لئے میں خدا کے بعد اپنے نانا کا بے حد شکر گزار ہوں اور دعا گو ہوں کہ اللہ رب العزت میرے نانا مولوی غلام رسول کو کروٹ کروٹ جنت الفردوس عطا کرے اور ان کے درجات کو بلندی عطا کرے۔ آمین۔‘‘

                                    (تحریری مسودہ  بقلم رحمان امجد مرادؔ)

بچپن:

         رحمان امجد مرادؔ کی والدہ محترمہ کا نام صغریٰ سلطانہ تھا۔ رحمان امجد مرادؔکے والد کی وفات کے بعد ان کے گھرانے پر قیامت صغریٰ گزر گئی۔ گھر میں دوسرا کوئی کمانے والا نہ تھا چنانچہ ان کی والدہ کو سلائی کڑھائی کر کے گھر کا چولہا جلانا پڑا۔ چونکہ رحمان امجد بہت چھوٹے تھے چنانچہ انہیں ان کی بڑی بہن اٹھاتی اور کھلاتی تھیں۔ جبکہ والدہ پورا دن سلائی مشین پر کام کرتی تھیں۔ خود بتاتے ہیں۔

         ’’جب میں نے شعوری آنکھ کھولی تو ایک چھوٹی سی بچی کو گود میں خود کو کھیلتے ہوئے پایا۔ وہ بچی میری بڑی بہن تھی۔ ایک عورت سلائی مشین(پیروں والی) پر کچھ کام کیا کرتی تھی۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ میری والدہ تھیں جو ہماری سانسوں کی ڈور بحال رکھنے کے لئے سلائی مشین پر تکیوں کے غلاف کاڑھا کرتی تھیں۔ اس زمانے میں ایک غلاف کی کڑھائی کی اجرت بارہ آنے یا ایک روپیہ ہوا کرتی تھی اور میری والدہ دن میں سات یا آٹھ غلاف کاڑھ لیا کرتی تھیں۔اس سے ہمارے سانسوں کی ڈور بحال رہی اور دن پر دن گزر تے رہے۔‘‘

                                    (تحریری مسودہ بقلم رحمان امجد مرادؔ)

         پانچ سال کی عمر میں رحمان امجد مرادؔ کو ’’کے ڈی پرائمری سکول‘‘ نزد عالم چوک خادم علی روڈداخل کروایا گیا۔ دوسری جماعت تک تعلیم حاصل کی ۔ تیسری جماعت میں انہیں گورنمنٹ پرائمری شاہ سیداں میں داخل کروایا گیا۔ جہاں انہوں نے پانچویں تک تعلیم حاصل کی۔ یہاںان کی دوستی ایک خورشید نامی لڑکے کے ساتھ ہوئی۔ خورشید عرف گوگا کے ساتھ دوستی اتنی گہری تھی کہ اکثر سکول سے چھٹی کے بعد ان کے گھر جایا کرتے تھے۔ کرکٹ کھیلتے اور ان کی والدہ کے ہاتھ کا بنا کھانا کھاتے (یاد رہے کہ خورشید عرف گوگا کے ساتھ رحمان امجد مرادؔ کی دوستی ہمیشہ قائم رہی۔ بعد میں خورشید عرف گوگا صوفی خورشید کے نام سے مشہور ہوئے اور ایک مشہور فرم ساگا سپورٹس کے مالک و روح رواں تھے) پانچویں جماعت پاس کرنے کے بعد رحمان امجد مرادؔنے گورنمنٹ اسلامیہ ہائی سکول نزد بوچڑ خانہ سیالکوٹ میں چھٹی جماعت میں داخلہ لیا اور نویں جماعت تک یہاں ہی زیرِ تعلیم رہے۔

         جب اسلامیہ ہائی سکول سیالکوٹ میں داخلہ لیا تو گھریلو حالات اتنے خراب تھے کہ یونیفارم بھی خریدنا ممکن نہ تھا۔ ان دنوں سکول کا یونیفارم ’’سفید قمیض اور خاکی پینٹ ‘‘ ہوا کرتا تھا۔ یونیفارم نہ ہونے کی وجہ سے انہیں روز سکول میں ڈانٹ کھانا پڑتی۔ ان دنوں رحمان امجد مرادؔ کی خالہ وزیر اختر فوج میں تھیں اور ہسپتال میں بطور سٹاف نرس ڈیوٹی سر انجام دیا کرتی تھیں۔ رحمان امجد کے لئے ان کی خالہ کے پرانے یونیفارم کو کاٹ کر ایک خاکی پاجامہ بنادیاگیا۔ وہ اسی خاکی پاجامہ کو بطور پینٹ پہنتے تھے اور چھٹی سے نویں جماعت تک وہی یونیفارم استعمال کیا۔ یوں روز روز ڈانٹ کھانے سے بچ گئے۔

         گھریلو حالات نا گفتہ بہ ہونے کی وجہ سے، اور گھر میں کسی مرد کے نہ ہونے کی وجہ سے مجبوراً ان کی والدہ کو دوسری شادی کرنا پڑی اور والدہ کی دوسری شادی کے بعد وہ اپنی والدہ کے ہمراہ لاہور منتقل ہوگئے۔ جہاں انہوں نے چشتیہ ہائی سکول سنت نگر لاہور میں داخلہ لیا اور وہیں سے میٹرک پاس کیا۔ وہ اپنے بچپن کے بارے میں بتاتے ہیں کہ

         ’’مجھے یاد پڑتا ہے کہ بچپن میں میرے پاس ایک چوڑی دار پاجامہ اور ایک قمیض ہوا کرتی تھی اور میں نے اپنا سارا بچپن اسی ایک جوڑے میں ہی گزارا ہے۔ میں نہیں جانتا میرے والد کیسے تھے کیونکہ میں نے ان کی تصویر بھی نہیں دیکھی۔ کبھی کسی کی اُنگلی پکڑ کر نہیں چلا۔ کبھی کسی کے کندھے پر نہیں بیٹھا۔‘‘

                                    (تحریری مسودہ بقلم رحمان امجد مرادؔ)

جوانی وتلاش معاش:

         میٹرک پاس کرنے کے بعد 1970ء میں پرائیویٹ ایف اے کا امتحان پاس کیا۔ مالی حالات خراب ہونے کی وجہ سے تعلیم حاصل کرنے کا سلسلہ منقطع کرنا پڑا اور ایک کیلی گرافی کے استاد کی زیرِ نگرانی کیلی گرافی کا ہنر حاصل کیا۔ ایک ہی سال میں مکمل کیلی گرافر بن گئے اور 1972ء میں تلاشِ روزگار کے سلسلہ میں کوئٹہ چلے گئے۔ کوئٹہ میں قیام کے دوران اُردو اخبار ’’روزنامہ زمانہ‘‘ میں بطور کیلی گرافر کا کام کیا مگر ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت کے دوران بلوچستان کے حالات خراب ہوجانے کے باعث واپس 1976ء میں لاہور آنا پڑا۔

         لاہور میںقیام کے دوران’’ روزنامہ نوائے وقت‘‘ ’’ روزنامہ امروز‘‘، ’’روزنامہ آزاد‘‘ اور’’ روزنامہ حیات‘‘ میں کام کرنے کا موقع ملا۔ 1980ء میں روزنامہ نوائے وقت کے بلانے پر کراچی چلے گئے اور تقریباً دس برس کراچی میں ہی قیام کیا۔ کراچی میں قیام کے دوران’’ روزنامہ نوائے وقت‘‘ اخبار خواتین‘‘ ،’’ رونامہ مشرق‘‘ ایوننگ سپیشل‘‘ اور ایم کیو ایم کے دو اخبارات’’ انجام‘‘ اور’’ سویرا‘‘ میں کام کیا۔ اسی دوران کراچی سے شائع ہونے والے ڈائجسٹ’’ نیا افق‘‘ ’’ نیا رخ‘‘ ’’ایکشن‘‘ ،’’ الف لیلیٰ‘‘ ، جاسوسی اور خواتین ڈائجسٹ میں کیلی گرافی کے جوہر دکھائے۔ کراچی میں قیام کے دوران ہی شاعری کا آغاز کیا لیکن 1990 میں کراچی کے حالات بہت خراب ہونے کی وجہ سے سیالکوٹ آگئے۔1992ء، 1993ء اور 1994ء  انگلینڈ کا وزٹ کیا۔ وہ خود بتاتے ہیں۔۔

         ’’ میں نے اپنے انگلینڈ کے وِزٹ کے دوران پابندی وقت، ایمانداری لوگوں کا احترام، ہمسایہ کے حقوق، اپنے کام سے کام رکھنا اور پیدل چلنا جیسی خوبیاں دیکھیں اور انہیں خود میں پیدا کیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان سب کاموں کا درس ہمیں اسلام نے دیا ہے۔ یہ ہمارے کام ہیں لیکن افسوس میں نے انہیں وہاں سے حاصل کیا۔‘‘

                                    (تحریری مسودہ بقلم رحمان امجد مرادؔ)

خانگی وازدواجی زندگی:

         رحمان امجد مرادؔ چار بہن بھائی تھے جن میں رحمان امجد مرادؔ کا آخری نمبر ہے۔ بڑی بہن نجم النساء دوسرے نمبر پر بہن قمر النساء تیسرے نمر پر بھائی بلال اسلم اور سب سے چھوٹے رحمان امجد۔ سب سے چھوٹے ہونے کی وجہ سے بہن بھائیوں کے بہت لاڈلے تھے اور بچپن میں بڑی بہن نجم النساء نے ماں سے زیادہ پیار دیا کیونکہ والدہ کا زیادہ وقت سلائی کڑھائی میں خرچ ہوتا تھا۔ ان کے تینوں بڑے بہن بھائی وفات پا چکے ہیں۔ ان کی اولادیں مختلف جگہوں پر آباد ہیں۔

         23 مارچ 1979ء میں محترمہ منور سلطانہ کے ساتھ رحمان امجد مرادؔ کی شادی ہوئی۔ منور سلطانہ شادی سے پہلے میڈیکل شعبہ سے منسلک تھیں مگر شادی کے بعد انھوں نے نوکری چھوڑ دی۔ کیونکہ 1980ء میں یہ خاندان کراچی منتقل ہو گیا اور مسلسل 10سال کراچی ہی میں قیام کیا۔

         ان کے ہاں چار بچے پیدا ہوئے۔ دو بیٹیاں اور دو بیٹے۔ دو بیٹے فراز امجد اور شیراز امجد جبکہ دو بیٹیاں سعدیہ اور سارہ۔ فراز امجد کمپیوٹر ڈیزائنر ہیں سیالکوٹ میں والد کے ہمراہ مقیم ہیں جبکہ شیراز امجد اپنی فیملی سمیت ملائیشیا میں مقیم ہیں اور پیشے کے اعتبار سے شیف ہیں۔بیٹی سعدیہ اپنی فیملی کے ہمراہ سیالکوٹ میں مقیم ہیں، جبکہ سارہ کا خاندان ملائیشیا میں رہائش پزید ہے۔

         منور سلطانہ صاحبہ نے بچوں کی تربیت بہت اچھے طریقے سے کی۔ وہ چونکہ خود پڑھی لکھی خاتون تھیں چنانچہ بچوں کی ابتدائی تعلیم میں بہت عمدہ معاون ثابت ہوئیں۔ کراچی میں قیام کے دوران رحمان امجد مراد بھی مختلف اخبارات و رسائل کے ساتھ منسلک رہے چناچہ اچھی گزر اوقات ہوتی رہی۔ منور سلطانہ قناعت کرنے والی ہمدرد اور مخلص خاتون تھیں۔ جنھوں نے اپنے خاندان کا بہت خیال رکھا مگر 2007ء میں برین ٹیومر کی وجہ سے اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں۔ برین ٹیومر کا علم تب ہوا جب یہ کینسر کی شکل اختیار کر چکا تھا اور آخری سٹیج بھی۔ چنانچہ علاج معالجہ کے باوجود وہ زندگی سے منہ موڑ کر چلی گئیں۔

ادبی مصروفیات:

         رحمان امجد مرادؔ نے 1986ء میں کراچی میں قیام کے دوران شاعری کا آغاز کیا۔ وہ خود بتاتے ہیں کہ

         ’’ 1986ء میں قیام کراچی کے دوران’’ گورا قبرستان کالا پل‘‘ کے فٹ پاتھ پر چلتے ہوئے اچانک دو اشعار کی آمد ہوئی۔ میں بڑا حیران ہوا کہ یہ کیا؟ خیر میں نے اِدھر اُدھر دیکھا اور فٹ ہاتھ پر پڑا ایک سگریٹ کا خالی پیکٹ اٹھایا اور شعر درج کیجئے۔ میری شاعری کے پہلے دو اشعار پیش کرتا ہوں۔

آنکھ کے مست دو پیالوں میں

گھر بنایا ہے میں نے سالوں میں

اور تو اس طرح بسا ہی نہیں

جس طرح تو بسا خیالوں میں

         اس کے بعد میں تھا۔ کراچی کی سڑکیں تھے اور سگریٹ کے خالی پیکٹ تھے۔ 1986ء سے 2020ء تک میں 34سالوں میں اردو اور پنجابی شاعری کی 27 کتابیں تخلیق کی ہیں اور یہ کام ہنوز جاری ہے۔‘‘ رحمان امجد مرادؔ کی فی الحال چھ کتابیں مارکیٹ میں آکر اپنا مقام پا چکی ہیں اور باقی زیرِ طباعت ہیں۔

         1995ء میں انگلینڈسے واپسی پر انھوں نے سیالکوٹ میں مستقل قیام کیا۔ سیالکوٹ میں ادبی سرگرمیوں کے حوالہ سے انھوں نے بتایا کہ’’ 1995ء میں انگلینڈ سے واپس آنے کے بعد میں نے محسوس کیا کہ سیالکوٹ کی ادبی فضا میں مایوسی اور ایک جمود طاری ہے۔ سو میں نے 1995ء میں ایک ادبی تنظیم’’ کرائیڈن اکیڈمی سیالکوٹ‘‘ کی بنیاد رکھی۔ جس کے تحت بے شمار مشاعرے اور تقریباتِ رونمائی اور پروگرام کا انعقاد کیا۔ جس میں پنجاب بھر سے شخصیات اور شعراء نے شرکت کی۔ وہ موبائل کا نہیں بلکہ کیمرے کا دور تھا۔ میرے کئی پروگراموں کی تصاویر آج بھی میرے پاس محفوظ ہیں۔‘‘

                                    ( تحریری مسودہ بقلم رحمان امجد مراد)

سیاسی و صحافتی سرگرمیاں:

         جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے۔ رحمان امجد مراد شعبۂ صحافت سے منسلک رہے۔ کئی اخبارات میں بطور کیلی گرافر اپنے فرائض دیتے تھے۔ لاہور اور پھر کراچی میں روزنامہ نوائے وقت، امروز اور دیگر نامور اخبارات کے ساتھ بھی منسلک رہے۔ اس دوران ان کی گرفتاری بھی عمل میں آئی۔ وہ بتاتے ہیں۔

         ’’ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف جب تحریک چلی تو میں بھی اس میں شامل تھا۔ ہوتا یہ تھا کہ جب سینما کے شوز ٹوٹتے تھے تو اس وقت گرفتاری دی جاتی تھی۔ ایک دن مجھے بھی گرفتار کر لیا گیا اور کوٹ لکھپت جیل بھیج دیا گیا۔ پھر تقریباً آدھی رات کو سب سیاسی کارکنوں کو ایک پولیس کی بڑی گاڑی میں بٹھایا گیا اور لاہور سے کافی دور ملتان روڈ پر چھوڑ دیا گیا اور کہا گیا اب لاہور پیدل آؤ۔ ہم سب صبح 7 بجے تک لاہور پہنچ چکے تھے۔‘‘

         ضیاء الحق کے دورِ حکومت میں جب اخبارات پرسنسر لگایا گیا تو اس کے خلاف’’ آزادی صحافت ‘‘ کے نام سے تحریک چلائی گئی۔ اس تحریک کا مرکز کراچی میں تھا۔ ان دنوں رحمان امجد مرادؔ لاہور میں رہائش پذیر تھے اور’’ روزنامہ آزاد‘‘ میں شفٹ انچارج کی حیثیت سے ڈیوٹی سر انجام دے رہے تھے۔ انھیں تحریک میں شامل ہونے کے لیے چن لیا گیا اور وہ کراچی روانہ ہوئے۔ وہاں پہنچ کر باقاعدہ تحریک کا حصہ بنے اور پریس کلب کراچی میں بھوک ہڑتال میں بیٹھنے والوں کے ہمراہ تھے۔

          تقریباً 50 گھنٹے کی بھوک ہڑتال کے بعد کارکنوں کو گرفتار کر کے تھانہ صدر کراچی کی حوالات میں بند کر دیا گیا۔ رات بھر تفتیش جاری رہی اور صبح رحمان امجد مرادؔ سمیت دیگر کارکنان کو مرا سلہ تھمایا گیا جو در حقیقت صوبہ بدر کرنے کا پروانہ تھا۔ اس مراسلہ میں درج تھا کہ آپ کوتین ماہ کیلئے صوبہ بدر کیا جاتا ہے۔ اگر آپ دوبارہ کراچی آئے تو 7 سال کیلئے سانگھڑ جیل بھیج دیا جائے گا۔ چنانچہ پولیس کی نگرانی میں انہیں لاہور روانہ کر دیا گیا۔

پبلی کیشنز:

          سیالکوٹ میں قیام کے دوران جہاں رحمان امجد مرادؔ نے علمی اور ادبی سرگرمیوں کا آغاز بھر پور طریقے سے کیا وہاں ایک پبلی کیشن کے ادارے کا قیام بھی ان کی شاندار کاوش ہے۔ وہ اس ادارے کے قیام کے بارے میں خود بتاتے ہیں۔

         ’’ 2000 ء میں، میں نے ایک پبلی کیشن ادارہ’’ المراد پبلی کیشنز‘‘ کے نام سے شروع کیا۔ اس کی ضرورت یوں محسوس ہوئی کہ میری پہلی کتاب’’ پھر سمندر نہیں سنبھالا گیا‘‘ اشاعت کیلئے بالکل تیار تھی اور لاہور والے تعاون نہیں کر رہے تھے تو میں نے اپنے ادارے کے تحت اپنی کتابیں شائع کرنے کا پروگرام بنایا۔ اور یہ کام تا حال جاری ہے۔ میں چاہتا تھا کہ شعراء کو ریلیف دیا جائے اور یہ کام میں نے بہت احسن طریقے سے کیا ہے۔ الحمد اللہ۔‘‘

                                    ( تحریری مسودہ بقلم رحمان امجد مراد)

المراد پبلی کیشنز کے زیرِ اہتمام مندرجہ ذیل چیدہ چیدہ کتابیں پبلش ہو چکی ہیں۔

1۔      ’’پھر سمندر نہیں سنبھالا گیا‘‘ رحمان امجد مرادؔ

2۔      ’’خط کبھی لکھا کرو‘‘                 ً

3۔      ’’صحرا سے نکلتی آنکھیں‘‘           ً

4۔      ’’میں نے کتنے موسم ہارے‘‘        ً

5۔       ’’ ہر لمحہ بدلتے دیکھا ہے‘‘     عامر شریف

6۔       ’’ بھیگی پلکیں ‘‘               صالح ولی آزاد

7۔      ’’ نغمہء درد‘‘               صالح ولی آزاد

8۔       ’’ میں اور زندگی‘‘            چوہدری عبدالوحید ( لندن)

9۔       ’’ چناخ‘‘                   شبیر بلّو             ( ڈسکہ)

10۔     ’’ کچیچیاں‘‘                 آصف علی علوی

11۔     ’’ کمالیات‘‘                 اسلم کمال

12۔     ’’ پائلٹ سکول‘‘             عبداللطیف جاوداں

13۔     ’’ تیرے بن‘‘               سید عدید

14۔    ’’  فریب دے کر چلا گیا‘‘    سید عدید

15۔     ’’ تیریاں یاداں‘‘            شکیل آزاد ( امریکہ)

16۔     ’’ چناب سے پردیس تک‘‘

17۔     ’’ عرفانِ غم‘‘               خواجہ مقبول احمد

18۔     ’’سبِد گُل‘‘                 مرتب فرانسس سائل

19۔    ’’کھیڈاں‘‘(پنجابی)         رحمان امجد مرادؔ

20۔    ’’اُچیاں کندھاں‘‘          رحمان امجد مرادؔ

Leave a Reply