You are currently viewing امام القریہ

امام القریہ

محمد نوید رضا

امام القریہ

 

ناصرکا خواب تھا کہ وہ اپنی تعلیم مکمل کرے،مگر معاشی حالات اجازت نہیں دیتے تھے ۔کتابیں ، بڑی بہنوں کی شادیاں اور گھر کے دیگر اخراجات  سد راہ بنی ہوئی تھیں۔کسی ایک دوست  نے اس کو مشورہ دیا کہ بھئی  تم حافظ قرآن ہو،   قرآن کی قرات اچھے انداز میں کر لیتے ہو  نیز تین کلاس تک درس نظامی بھی پڑھے ہوئے ہو مولوی کی سند ہے تمہارے پاس  مسائل پر بھی دسترس ہے امامت کیوں نہیں کر لیتے؟  امامت سے خانگی اخرجات پورے کرو اور ساتھ میں جس امتحان کی تیاری کرنا چاہتے ہو اس کو جاری رکھو ۔ صرف پانچ وقت کی نماز ہی تو پڑھانی ہے وہ ویسے بھی تم کو پڑھنی ہی ہے ،اس طرح پنج وقتہ نماز بھی وقت پر پڑھ لوگے خانگی اخرجات بھی پورے ہوں گے اور سکون سے امتحان کی تیاری بھی ہو جائے گی۔ دوست کا یہ مشورہ ناصر پر اثر انداز ہوا ۔اس نے اپنے دوستوں سے امامت کی خواہش کا اظہار کیا کہ کہیں بھی کوئی امامت کی تقرری خالی ہو تو فوراً اس کو مطلع کیا جائے ۔جلد ہی قریب کے ایک گاؤں سے امامت کی پیشکش ہوئی جو اس کے لئے کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہ تھی۔امیدوں کا موجزن سمندر دل میں لئےاس گاؤں کا  رخت سفرباندھا۔  یہ اس کی زندگی کی پہلی امامت تھی   جس کی ذمہ داری وہ حسن و خوبی کے ساتھ  نبھانا چاہتا ہے  تاکہ اس کا یہ قائدانہ سفر اس کے مستقبل لئے ہموارثابت  ہو  اور امامت  میں آنے والی الجھنیں اس کو مضمحل نہ کر سکیں۔ وہ اپنے دوستوں  سے امامت کے نشیب و فراز پہلے ہی سن چکا تھا ،اس لیے اس نے خود کو تقاضہ امامت کے مطابق مکمل طور پر تیار کر لیا ۔ اس کو معلوم تھا کہ لوگوں سے کس طرح کی باتیں کرنی ہیں ،کس طرح کی باتیں سننی ہیں ،   کن باتوں پر سکوت و صبر  کرنا ہے اور کن باتوں سے گریز  کرنا ہے ، وہ جانتا تھا  کہ حجرے میں لوگوں کی  آمد اس کے اس کے لیے کتنی مضر  اور کتنی مفید ہو سکتی ہے  اور کن لوگوں کی آمد  مفید ہے اور کن کی مضر ، کس وقت  مفید ہےاور  کس وقت مضر،  وہ اس عقدہ لا ینحل سے بھی واقف تھا کہ اگرچہ اجرت تو صرف امامت ہی کی  دی جاتی ہے  لیکن اس امامت کا مطلب محض نماز ادا کرانا نہیں ہوتا  بلکہ  بہت ساری  دوسری چیزیں  امامت کو از خود متضمن ہوجاتی ہیں ۔ گویا  امامت اور ان اشیائے اخریٰ   کے درمیان تلازم کی نسبت پائی جاتی ہے ،بالخصوص  دیہات میں تو وہ امامت کا جزو لا ینفک تصور کی جاتی ہیں   ۔اس کو معلوم  تھا کہ مسجد کی صفائی ،ستھرائی بھی امامت ہی کے ضمن میں آتی ہے، اسے یہ بھی معلوم تھا کہ آندھی سے اگر پانی کے لوٹے اڑ جائیں تو ان کو ترتیب سے رکھنے کی ذمہ داری بھی امامت ہی کے تحت آتی ہے ، وہ جانتا تھا کہ اگر  آندھی سے صفیں بے ترتیب  اور منتشر ہو جائیں تو ان کو درست  اور منضبط کرنے کی ذمہ داری بھی اسی کی ہوگی  کیونکہ اصطلاح امامت میں یہ بھی امامت ہی کا حصہ شمار ہوتی ہیں، وہ یہ بھی جانتا تھا کہ سردیوں میں پانی گرم کرنے کا  کام بھی امام ہی کو   کرنا ہوتا ہے،  اس کو یہ بھی معلوم تھا کہ مسجد میں لائٹیں آن کرنا  اور وقت پرآف کرنا،موسم گرما میں پنکھوں کو چلانے اور بند کرنے، موسم سرما میں  وقت پر گیزر آن کرنے  اور بر وقت  آف  کرنے کا کام بھی امامت ہی کی تحت آتا ہے۔ علاوہ ازیں اس کو یہ بھی معلوم تھا کہ امام کا  کام صرف نماز ادا کرانا نہیں ہوتا بلکہ وہ پورے گاؤں کا سرپرست بھی سمجھا جاتا ہے۔ دیہاتی مسائل ، رنجشیں، شادی بیاہ کے موقع پر دو مخالف کروہ کے درمیان اپنا مفکرانہ کردار نبھانہ   حتی کہ ایک بچے کی قبل پیدائش سے لے کر بعد انتقال تک کے جتنے بھی رسم و رواج اور مراسم ہوتے ہیں ان تما م رسم و رواج اور مراسم کو بحسن و خوبی و خوشی پورا کرانے کی تمام تر ذمہ داری اسی پر عائد ہوتی ہے ، جن کی ادائگی اس کے لئے نماز ادا کرانے سے اشد ضروری ہے۔ اس کی توجیہ یہ ہے  کہ نماز  ادا نہ  کرانے کا تو عذر مشروع ،مقبول ہو سکتا ہے لیکن ان ذمہ داریوں سے سبک دوشی کا کوئی بھی عذر معقول ہے نہ مقبول ، نیز یہ کہ امام  کی غیر موجودگی  کی صورت میں نمازتو  پڑھی  جا سکتی ہے کہ نماز ہونے کے لئے جماعت شرط نہیں ۔بر سبیل تنزل اگر یہ بھی کہا جائے کہ کسی بندہ خدا نےامام کی غیر موجودگی میں نماز ہی ن پڑھی،  تب بھی  قضا  تو موجود ہے، لیکن ان ذمہ داریوں کا کسی طرح کا کوئی بدل موجود نہیں ۔ بلکہ ان لوازم و شرائط  امامت کےفوت ہونے کی صورت میں ‘‘ اذا فات الشرط فات المشروط’’     کے تحت امامت ہی فوت ہو جاتی ہے۔  ان تمام باتوں سے آشنا ہونے کے با وجود ہمارا  ہیرو     پر عزم تھا کہ کسی بھی مشکل سے گھبرا کر پیچھے نہیں ہٹے گااور اپنے امتحان کی تیاری بحسن و خوبی کرے گا ۔کس کی تیاری ؟ جی ہاں : امتحان کی تیاری ۔جو وقت اور ذہنی سکون دونوں    ہی کا تقاضہ کرتی  ہے بلکہ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ وہ ان تمام باتوں کی مقتضی ہے جن کا خاتمہ منصب امامت پر فائز ہونے کے بعد نا گزیر سا ہو جاتاہے۔ناصر الودا ع  کہ کر گھر سے رخصت لیتا ہے ، اور اس دیہات کی طرف روانہ ہوتا ہے جس میں  2500  ماہانہ کی تنخواہ پر امامت کے لیے  اس کا تقرر بذریعہ فون ہوا تھا ۔ دوران سفر دل میں ارمانوں کا ایک سیلاب امڈتا ہے کبھی یہ خیال آتا ہے کہ ہو سکتا ہے میری جوشیلی تقریر سن کر   لوگ تنخواہ  پچیس سو سے بڑھا کر  تین ہزار مقرر کر دیں  ،کبھی  دل میں یہ خیال آتا ہے کہ ہو سکتا ہے میری سریلی اور مترنم آواز لوگوں کو بھا جائے اور میری تنخواہ تین ہزار ہو جائے ،اور کبھی یہ سوچتا ہے  کہ ہو سکتا ہےنماز میں  میری خوش الحان قرات سے متاثر ہو کر لوگ میری تنخواہ تین ہزار کر دیں ، غرض کہ  جتنے بھی خوش  خیال تنخواہ سے متعلق ا س کے دل و دماغ میں آ سکتے تھے وہ سب کے سب اس کے  قلب و ذہن کی کھڑکیوں پر آکر دستک دیتے ہیں  اور اپنی اپنی  نشست گاہ پر آکر  براجمان ہو جاتے ہیں اور اس کا  یہ خیالی پرندہ تین ہزار کے درخت سے اوپر پرواز کرنے کی طاقت نہیں رکھتا ،  دراصل کرونا کے زمانے میں امامت کا ملنا ایک مشکل امر تھا اور ناصر کو امتحان کی تیاری کرنا ان حالات میں اس سے کہیں زیادہ ضروری تھا، گویا کہ ناصر کو ان حالات میں امامت کا ملنا آب حیات ملنے کے مترادف تھا ، جس کی وجہ سے وہ ذہن کو مالی مشکلات اور ٹینشنوں سے آزاد رکھنا چاہتا تھا اور آزادی کے ساتھ اپنے امتحان کی تیاری کرنا چاہتا تھا ، باوجود اس کے کہ وہ جانتا تھا کہ اس ایک آزادی (یعنی دل و دماغ کی  مالی پریشانیوں سے آزادی)  کے لئے وہ دوسری کئ   طرح کی  پریشانیوں میں جکڑ  سکتا   ہے، لیکن یہ فطرت و جبلت کا تقاضا ہے کہ  انسان کو کسی ایک  آزادی کے لیے بہت ساری پریشانیوں  کا اسیر  بننا ہی  پڑتا ہے  ،اس لیے شاید  ناصر کو اس آزادی کے لیے گونہ گوں  پابندیوں کا اسیر  بننے میں کچھ عجب معلوم نہ ہوا  بلکہ وہ ان  بیڑیوں کا حصول اپنے تئیں آب حیات سے کم تصور نہیں کرتا  ہے    ، وہ ان بیڑیوں کو اپنے پیروں  میں بخوشی اس طرح  ڈالتا  ہے  جس طرح کہ ایک لڑکی خوشی سے  نکاح کے چھلہ کو اپنی انگلی میں ڈالتی ہے یا جس طرح  ایک لڑکا نکاح کی انگشتری بڑی خوشی کے ساتھ   اپنی انگشت میں  ڈالتا ہے ۔

 الغرض رخت  سفرباندھ کر   ناصر اس دیہات کی طرف روانہ ہوتا ہے جس دیہات میں اس کی روزی روٹی کا بندوبست  یا یہ کہیے کہ  اس کا بند غم بقضائے الہی مقرر کیا جا چکا تھا ۔ ناصر پہلے پڑوس کے ایک گاؤں میں  جاتا ہے جہاں اس کا دوست صادق منصب امامت پر فائز تھا  اور جس نے امامت کی تمام تر  تفصیلات پیشگی ناصر کو  بذریعہ فون بتا دی تھیں۔  صادق جس گاؤں میں امامت کرتا تھا وہاں سے وہ ایک سائکل دو گھنٹے کے لیے مستعار لیتا ہے اور ناصر کو اس پر بٹھا کر  اس گاؤں لے جاتا ہے جس گاؤں میں ناصر کی امامت کا تقرر ہوا تھا۔ دونوں دوست گاؤں پہنچتے ہیں۔ صادق اپنے دوست ناصر کا لوگوں سے تعارف کراتا ہے اور ناصر کی جتنی تعریف یا مہذب انداز میں کہیں  تو     جتنی مدح سرائی  اس کے بس میں تھی   (خود کی  صلاحیت کے لحاظ سے) وہ لوگوں کے سامنے کرتا ہے، صادق کی قصیدہ گوئی اور مدح خوانی سن کر لوگوں نے باہمی مشاورت  کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ مغرب کی نماز میں امام صاحب کی قرات سننے کے بعد فیصلہ کیا جائے گا کہ وہ  یہاں کی  امامت  کی کے لائق ہیں یا نہیں۔ صادق ناصر کے حجرے میں سامان رکھوا کر اور لوگوں سے  تھوڑی بہت باتیں کر کے اپنی مسجد جانے کے لیے اجازت لیتا ہے کیونکہ اس نے صرف دو گھنٹے کے لیے ہی سائکل مستعار لی تھی ۔اس کو ڈر تھا کہ اگر کچھ دیر ہو گئی تو  اپنی امامت  کے   خطرے میں پڑنے کے امکانات قوی سے قوی تر ہوتے جائیں  گے۔ بہر کیف اس نے سائکل اٹھائی اور مسجد کے لیے روانہ ہو گیا ،اور  سائکل بغرض ایں  تھوڑی تیز رفتار سے چلانے لگا  کہ وقت سےپانچ – دس   منٹ پہلے پہنچ جائے ۔ شومئی قسمت  کہ  تیز پیڈل  مارنے کی وجہ سے سائکل کا پیڈل ٹوٹ گیا ۔  صادق نے  کرتہ  کی جیب میں ہاتھ ڈالا تو صرف 30 روپے پڑے تھے جو رات اس کو ایک مرحوم  کے   چالیسویں کی فاتحہ میں ملے تھے۔ وہ سائکل کی دکان پر پہنچا اور سائکل مستری سے  نیا  پیڈل ڈالنے کے لئے کہا ۔سائکل مستری نے  کچھ دیر سائکل دیکھی اور کچھ دیر صادق کو دیکھا پھر نہ جانے اس کے ذہن میں کیا خیال آیا کہ وہ خاموشی کے ساتھ پیڈل لینے کے لیے دکان کے اندر چلا گیا شاید اس کو سائکل اور صادق کی حالت قابل رحم معلوم ہوتی ہو  یا ممکن ہے کہ سائکل کی عمر صادق  کے والد بزرگوار کی ہم عمر  معلوم ہوتی ہو ۔کیونکہ صادق جن  بزرگ کی سائکل مستعار لایا تھا ان کو یہ سائکل ان کی شادی میں ملی تھی،  جس سے ان کی اس زمانے کی رئیسی   معلوم ہوتی تھی اور وہ بسا اوقات  بطور حوالہ جہیز میں ملی اپنی اس سائکل کا  مفاخرانہ ذکر کیا کرتے تھے۔بہر کیف  25  روپے میں سائکل مستری نے پیڈل ڈالا اور صادق جو  پانچ – دس  منٹ پہلے جانا چاہتا تھا تاکہ وقت سے پہلے پہونچ کر ان بزرگ کو خوش کر سکے ، اس ارمان پر  ادھر سائیکل کی مرمت نے پانی پھیر دیا۔صادق نے  بزرگ کو سائکل دی،  نیا  پیڈل  دیکھ کر بزرگ نے اندازہ لگا لیا کہ کس رفتار سے ان کی    سائکل چلائی گئی ہے۔ بزرگ بھی دور اندیش تھے   دل ہی دل میں سوچنے لگے کہ تیز رفتاری  کا اثر پیڈل پر تو  عملاً ظاہر ہو گیا کہ وہ ٹوٹ گیا لیکن باقی حصوں  اور پرزوں کا  کیا  حال ہوا ہوگا کہ اگرچہ وہ  ٹوٹنے سے تو بچ گئے  لیکن  اس قدر کمزور تو  ضرور پڑ گئے ہوں گے کہ زیادہ سےزیادہ   ہفتہ عشرہ بھر کے مہمان بچے ہوں گے، اس کے بعد  ان کا بھی کام تمام ہو جائے گا ۔یہ سوچتے ہی  بزرگ نے بحالت ارتعاش  اونچی آواز میں صادق سے کہا کہ امام صاحب  آپ اب تو سائکل لے گیے  آئندہ مانگنےکی ہمت بھی  مت کرنا ،  اور یہ کہتے ہوئے   بڑے غصے میں  گھر کے اندر  سائکل لے گئے ۔ تقریبا 15-20   دن تک گاؤں کے  ہردو راہے،سہراہے اور  چوراہے  پر امام صاحب کی تیز رفتاری کا چرچہ چلتا رہا۔ ادھر ناصر نے مغرب کی نماز ادا کرائی اور جتنا ہو سکتا تھا اچھے انداز میں جبہ و دستار کے ساتھ اچھی قرات اور  خوش الحانی کے ساتھ نماز مغرب میں اپنی  آواز کا جادو دکھایا ۔ نماز کے بعد لوگوں نے کہا ٹھیک ہے ،امام صاحب ،آپ کو چھمائی (چھ ماہی)  6 کونٹل غلہ ملا کرے گا۔اتنا سننا تھا کہ صادق کے دل میں لڈو پھوٹنے لگے ، مانو کہ اس کی زندگی کی معراج ہو گئی ہو ۔ پہلی بار اس کو محسوس ہوا کہ وہ بہت بڑے کسی امتحان میں پاس ہو گیا ہے  اور اب وہ دنیا کے کسی بھی امتحان کو خاطر میں نہیں لائے گا،  اس کے لئے زندگی کے سبھی امتحان بائیں ہاتھ کا کھیل یا  بازیچہ اطفال معلوم ہونے لگے  ۔  اتنے میں کسی نے کہا کہ امام صاحب کی تکریر (تقریر) تو سنی نہیں ہے اشا(عشا ) کی نماج (نماز)  میں تکریر ( تقریر ) بھی سن لی جائے ، عشا کی نماز کے بعد ناصر نے جوشیلے  انداز میں تقریر کی۔ایک بزرگ دوسرے سے کہنے لگے کہ  پٹھا تو مضبوط ہے، تقریر بھی لوگوں کو پسند آئی اور اخیر میں وہی بات کہی گئی کہ ٹھیک ہے ،امام صاحب ،آپ کو چھمائی (چھ ماہی)  6 کونٹل غلہ ملا کرے گا۔ اس کا اس طرف خیال ہی نہیں گیا کہ اس کو آنے سے پہلے بذریعہ فون غلہ بتایا گیا تھا  یا  رقم بہر حال وہ  راضی ہو گیا۔رات کو جب بستر استراحت پر سکون کی سانس لی تو بہت ساری باتیں ذہن پر دستک دینے لگیں ۔ دیر رات تک سوچتے ہوئے اسے یاد آیا کہ  اسےتو ماہانہ 2500 روپے بتائے گئے تھے پھر حساب کتاب لگانے اس نے لائٹ آن کی اور اپنی کاپی اور قلم بیگ سے نکالا تو تقریبا ً برابر ہی  حساب  کتاب بیٹھ رہا تھا، لیکن ایک خیال پھر بھی اسے  بار  بار ستاتا رہا  کہ   ان چھ ماہ  کے اخراجات کیسے کیے جائیں گے اور کہاں سے کیے جائیں گے؟ فوراً ذہن میں خیال آیا کہ کیوں نا  دوستوں سےابھی  قرض لے لوں اور غلہ ملنے پر قرض ادا کر دوں۔ اس نے اگلے دن صادق کو  گزشتہ شب کی ساری  باتیں  بتائیں  اور اس طرح  ایک ماہ کے خرچ  کے پیسے اس سے بطور قرض لے لئے ، اور اب ذہنی سکون کے ساتھ امتحان کی تیاری میں مصروف ہو گیا۔ جمعہ کے دن ناصر نے جبہ کی بجائے ایک خوش رنگ اور اچھا سا کڑھائی  کیا ہوا کرتہ زیب تن کیا  اور ممبر پر بحیثیت  خطیب  پہونچ گیا  ۔لوگ ایک دوسرے کی طرف آنکھوں آنکھوں سے اشارے کرنے لگے۔ بعد نماز جمعہ  ایک بزرگ نے سب کی نمائندگی کرتے ہوئے امام صاحب سے پوچھا کہ امام صاحب !آپ نے یہ کس رنگ کا کرتہ  پہن کر نماز پڑھائی ہے  کیا اس کرتے میں نماز ہو جائے گی؟  امام صاحب کچھ دیر تو شش و پنج میں پڑے رہے پھر بڑی مشکل سے یہ کہنے کی جسارت کی کہ جی؟ بزرگ نےغصیلی نظروں سے گھورتے ہوئے  کہا کہ آپ نے سفید کرتے میں نماز نہیں پڑھائی کیا اس رنگ کے کرتے میں ہماری نماز ہو جائے گی جس رنگ کا  آپ پہنے ہوئے ہیں؟امام صاحب نے آہستہ سے جواب دیا جی نماز تو ہو جائے گی ،مجھے تو اس رنگ  میں  کوئی حرج  معلوم نہیں ہوتا  اور نا ہی میری نظر سے ایسی کوئی کتاب گزری ہے  جس میں اس رنگ کی ممانعت آئی ہو  ۔ اتنا سننا تھا کہ جیسے قیامت آ گئی ہو ،  بہت شور و ہنگامے کے بعد  مشورہ ہوا اور  یہ طے پایا  کہ فتویٰ منگوایا جائے ، فتویٰ  لینے سے پہلے ایک بزرگ  نے کہا (ایک ان کے کوئی دور کے رشتہ دار تھے جو کسی مسجد میں بحیثیت مؤذن فرائض انجام دے رہے تھے )   کہ لو ہم  ابھی اپنے مفتی صاحب سے پوچھے لیتے ہیں ، سب ابھی ا یک منٹ  میں   دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ انہوں نے جھٹ سے جیب سے ڈائری نکالی اور کسی نوجوان لڑکے سے کہا کہ اس میں مفتی صاحب کے نام سے جو نمبر لکھا ہے اسے نکال کرفون  لگاؤ ،۔ فون پر بات ہوئی فیصلہ امام صاحب کے حق میں آیا ۔ لیکن امام صاحب نے سوچا عقلمندی اسی میں ہے کہ آئندہ سفید کرتے میں ہی نماز جمعہ  پڑھائی جائے۔ (صادق بھی ان کو یہی مشورہ دے کر گیا تھا )خیر امام صاحب نے اگلے جمعہ کی نماز ایک سفید کرتے میں پڑھائی جو غالبا ًکاٹن کا تھا ، نماز کے بعد ایک بزرگ امام صاحب کے حجرے میں آئے (جو پچھلے جمعہ  کو اپنے بیٹے کی سسرال گئے ہوئے تھے اور اس بار بھی جمعہ کی نماز سے کچھ دیر قبل ہی گھر تشریف لائے تھے ، گاؤں میں کیا کچھ ہو چکا تھا، اس سے وہ واقف نہیں تھے ) اور کہنے لگے ،امام صاحب ، کیا بنا نیل لگے ہوئے سفید کرتے میں نماز ہو جائے گی ؟ امام صاحب بیچارے پھر پریشان ہوئے ، انہوں نے کہا کہ جی ہو جاتی ہے ۔ بزرگ نے کہا کہ اب تک تو ہم یہی سنتے آئے ہیں  کہ بنا نیل  لگے ہوئے سفید کرتے پائجامہ میں نماز نہیں ہوتی ہے اور نا ابھی تک کسی امام کو جمعہ میں بنا  نیل کے کپڑوں میں دیکھا ہے ۔  جوں ہی امام صاحب کسی کتاب کا نام بطور  حوالہ لینا چاہتے تھے کہ بزرگ کہنے لگے کہ ’’نئے نئے مولوی آرہے ہیں اور نئے نئے مسئلے بتا رہے ہیں جو کہ ہماری سمجھ سے تو  پرے ہیں‘‘ خدا ہی جانے کیا پڑھ رہے ہیں مدرسوں میں۔ناصر کا صبر اب لبریز ہونے لگا تھا مگر وہ جانتا تھا کہ امام کا سب سے بڑا ہتھیار صبر و سکوت ہے۔  بزرگ امام صاحب کے حجرے کو خیرآباد کہہ  دیتے ہیں۔ بعد میں جب چوراہے پر انہوں نے اس مسئلے کو اٹھایا تو ان کو وہ پورا واقعہ سنایا گیا جو پچھلے جمعہ کو واقع ہو چکا تھا اور وہ  موجود نہیں تھے   یہ بھی بتایا گیا کہ مفتی صاحب نے کہا ہے کہ کسی بھی رنگ کے کرتے میں نماز ہو جاتی ہے اس کے بعد وہ خاموش گھر واپس آ جاتے ہیں اور کچھ دیر اپنی بیگم صاحبہ سے جھگڑنے کے بعد پھر چوراہے پر تشریف  فرما ہو جاتے   ہیں، مولویوں کے بارے میں جتنا بول سکتے تھے سب بول کر پھر بیگم صاحبہ کے پاس تشریف لے جاتے ہیں۔ ناصر جس مسجد کا  امام تھا وہ مسجد کافی خستہ تھی۔ اس لیے برسات کے دنوں میں بارش کا پانی کافی اکٹھا ہو جاتا تھا ، مسجد کی چھت سے بھی پانی ٹپکتا تھا اور حجرے کا  حال تو اس سے بھی بدتر تھا جس کی  تفصیل  ناگفتہ بہ ہے ۔ ناصر نے لوگوں سے اس کی بابت کہا تو لوگوں کے باہمی مشورہ کے بعد  یہ  طے  پایا کہ کہ امام صاحب برابر والے گاؤں کے امام صاحب   (صادق ) کے پاس رات میں سو جایا کریں۔  لیکن آنے جانے کا انتظام کہاں سے ہو؟  بہت سوچ بچار کے بعد یہ عقدہ بھی یوں   حل ہوا کہ کلو کی سائکل امام صاحب کو دے دی جایا کرے گی،  عشا کے بعد امام صاحب چلے جایا کریں گے  اور فجر میں اس سائکل سے واپس  آ جایا کریں  گے ،کیونکہ فجر کے بعد کلو مزدوری کے لیے جاتا ہے ۔ پہلے تو کلو نے انکار کیا لیکن گاؤں کے لوگوں نے کہا کہ عشاء کے بعد تجھے کوئی کام تو ہے  نہیں ۔یہ تو ثواب کا کام ہے، تیرے والد کا ابھی ابھی کچھ دن پہلے ہی انتقال ہوا ہے امام صاحب   ان کے لیے دعا  بھی کردیا کریں گے اور سائکل میں جو  کچھ ٹوٹ پھوٹ ہوگی تو گاؤں سے جو  چندہ مسجد کے لئے ہوتا ہے  اسی چندے  سےسائکل  کی مرمت بھی کرا دیا کریں گے۔  کافی دیر سوچنے کے بعد کلو کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ   اگر مجھ سے بھی کوئی چیز ٹوٹ پھوٹ  گئی تو اس کی  بھی مرمت ہو جایا کرے گی ،امام صاحب کو کون سا پتہ چلے گا کہ ان سے ٹوٹی ہے یا مجھ سے ، اور دوسری بات اس کے ذہن میں یہ چل رہی تھی کہ چلو اس بہانے  ابا کو ثواب بھی مل جائے گا ۔ بالآخر کلو راضی ہو گیا اس طرح امام صاحب کے آنے جانے کا بھی بندوبست ہو گیا ۔ کچھ دنوں تک تو  یہ  معاملہ ٹھیک  ٹھاک چلتا رہا ،اس کے بعد کچھ لوگوں نے یہ افواہ پھیلا دی  کہ امام صاحب سائکل کا ہیلی کاپٹر بنا دیتے ہیں۔ کسی نے کہا کہ امام صاحب سائکل کی پھرکنی بنا دیتے ہیں ۔ یعنی بہت تیز   سائکل چلاتے ہیں ۔  اس کے بعد سے  تو جب امام صاحب رات کو عشا کے بعد نکلتے  تو لوگ ان کا تعاقب کرتےہوئے   سائکل ریس  دیکھنے کے لئے اپنے گھروں سے نکلتے   کہ کس رفتار سے امام صاحب سائکل چلا رہے ہیں۔ کبھی کبھی کلو کو مزدوری نہیں ملتی تھی تو امام صاحب کلو سے اجازت لے کر فجر کے بعد بھی سائکل لے جایا کرتے تھے ،اور ظہر کی نماز ا ٓکر پڑھا دیا کرتے تھے ۔ لیکن دن میں امام صاحب کو لوگ زیادہ اچھے سے دیکھ لیتے تھے اور جس چوراہے سے امام صاحب  کی سائیکل گزرتی تھی اس چوراہے پر  لوگ امام صاحب کے بارے میں 15-20 منٹ تک اظہار خیال فرمایا کرتے ۔ ایک دن بعد نماز فجر جب امام صاحب   سائکل سے نکلے تو ایک 15 سالہ لڑکے نے سب میں یہ خبر پھیلا دی کہ آج امام صاحب کی سائکل ہوا سے باتیں کر رہی تھی ۔ سوئے اتفاق کہ امام صاحب ادھر  سے لوٹ رہے تھے، کہ  اچانک سے سائکل کی چین ٹوٹ گئی ، اور امام صاحب کو آنے میں تاخیر ہو گئی ، پھر تو امام صاحب پر قیامت آگئی ۔ایک بزرگ نے کہا کہ سائکل دی ہی کیوں تھی ؟ ہم نے تو پہلے ہی کہا تھا کہ امام صاحب سائکل کی جان نکال دیں گے۔غرض کہ ہر کسی نے  ہر طرح سے امام صاحب کو  خوب سنائیں۔ مسجد میں چونا  کرنے کے لئے جس پینٹر کا انتخاب کیا گیا تھا وہ ایک دن بعد نماز عصر امام صاحب کے حجرے میں آیا ،اور آہستہ سے امام صاحب سے کہتا ہے  کہ امام صاحب ! آپ کے حجرے میں کل جو  دو بڈھے آئے تھے ، وہ کہہ رہے تھے کہ امام صاحب کے حجرے میں  ٹی-وی ہے اور امام صاحب  ٹی- وی دیکھتے ہیں۔ کیا یہ بات  سچ ہے ؟امام صاحب نے کہا ایسا تو نہیں ہے ،میرے پاس تو کوئی ٹی- وی نہیں ہے ۔اگلے دن آٹھ- دس آدمی اکٹھا ہو کر امام صاحب کے حجرے میں آ جاتے ہیں ،اور کہتے ہیں کہ امام صاحب  ہماری نماز تمہارے پیچھے   ہوتی ہی نہیں ہے کیوں کہ  تم ٹی- وی دیکھتے ہو ،اس لیے ایسی نماز سے کیا فائدہ، آج تک کا جو حساب کتاب بنتا ہے وہ پورا کر لو۔ امام صاحب  کچھ غور کرنے کے بعد  نتیجہ پر پہونچ گئے ، وہ فوراً اٹھے اور بیگ  سے اپنا لیپ ٹاپ نکالا ،اور جیسے ہی وہ لیپ ٹاپ اٹھا کر لائے اتنے میں سبھی لوگ بیک زبان ہو کر کہنے لگے کہ یہ ہے تو ٹی- وی  سئ (صحیح) کہ رہے تھے جمہ (جمعہ) اور پیلوان (پہلوان ) ۔ امام صاحب بہت دیر تک ان کو سمجھانے کی ناکام کوشش کرتے رہے  کہ یہ ٹی-  وی نہیں ہے  بلکہ یہ لیپ ٹاپ ہے۔  میں اس میں اپنی کتابیں  پڑھا کرتا ہوں۔ لیکن لوگوں کی سمجھ سے یہ بات پرے تھی ۔حجرے سے واپس جاتے ہوئے راستے میں یہ طے پایا  کہ رئیس کا بیٹا جو شہر میں  پڑھتا ہے ،وہ ابھی گھر آیا ہوا ہے ،اس سے اس کی بابت پوچھتے ہیں ۔ اگلے دن رئیس کے بیٹے کو  امام صاحب کے حجرے میں لایا گیا،  اس کو وہ بلا(لیپ ٹاپ )دکھائی گئی اس کے بعد جتنا وہ سمجھا سکتا تھا اس نے   لوگوں کو سمجھایا ، لیکن کچھ   لوگ تب بھی نہیں سمجھ پائے کہ آخر یہ  بلا ٹی-وی نہیں ہے تو اور کیا  ہے ؟ آخر امام صاحب کے ساتھ اتنی تخفیف کی گئی کہ حساب کتاب کے معاملہ کو ترک کر دیا گیا۔

گاؤں میں پردھانی کا الیکشن  بھی قریب   تھا ۔اس لیے دو گروہ نا گزیر تھے۔پردھان کے مخالف گروہ نے امام صاحب کو اپنے حق میں استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا۔چنانچہ وہ گروہ اکھٹا  ہو کر امام صاحب کے حجرے میں گیا ،اور کہا کہ امام صاحب زاہد کے بیٹے اور بیٹی  کی شادی ہے۔ اور وہ شادی میں طوائفوں کو بلا رہا ہے  ناچ –گانے کے لئے  ۔ آپ اس کو بند کروا دیجیے ۔ امام صاحب نے کہا استغفر اللہ ،شادی میں طوائف ا ٓرہی ہیں ؟ لوگوں نے کہا ،ہاں۔  امام صاحب ،آپ اعلان کر دیجیے جمعہ  میں کہ جو بھی شادی میں رنڈیاں نچائے گا ہم اس کے یہاں نکاح  پڑھائیں گے نہ  اس کے گھر کھانا  کھائیں گے۔ جمعہ کے دن امام صاحب نے اچھے انداز میں ناچ گانوں کے خلاف خطبہ دیا ،اور اخیر میں لوگوں سے کہا کہ کوئی بھی بندہ ایسی شادی میں شرکت نہ کرے جس میں   طوائف کو لایا جائے  ، بلکہ اس کا سماجی بائکاٹ کرنا چاہئے ۔ جو ہاری ہوئی پارٹی کے لوگ تھے وہ زور و شور سے امام صاحب کی حمایت کرنے لگے ،اور باقی لوگ خاموش رہے ۔ امام صاحب یہ نہیں جانتے تھے کہ اس میں طوائف کے اخراجات پردھان اٹھا رہا ہے، اور یہ بات اتنی طول پکڑ لیگی کہ انکی امامت خطرے میں آ سکتی ہے۔ خیر پردھان کی پارٹی والے شام کا  کھانا کھا کر پردھان کی بیٹھک پر گئے اور جمعہ کی ساری باتیں  پردھان کے سامنے رکھ دیں ۔پردھان  سنتے ہی طیش میں آ گیا اور اس نے کہا کہ میں دیکھتا ہوں کون روکے گا رنڈیا ں نچانے سے ؟سب لوگ پردھان کی ہامی بھرنے لگے  اور اس طرح  یہ نشست برخاست ہو جاتی ہے۔  جب شادی کا دن آیا تو سوائے امام صاحب کے ،سب لوگ چپکے چپکے کھانا کھا کر اور  نا صرف کھانا کھا کر بلکہ نیوتا لکھوا کر اور اپنا چہرہ   زاہد  کو دکھا کر آتے ہیں تاکہ اس سے کسی طرح کی  کوئی بات خراب نہ ہو۔  بیچارے امام صاحب پورا دن بھوکا  رہے اور عشاء کے بعد اپنے دوست کے یہاں  جاکر کھانا کھایا ۔پردھان نے نکاح پڑھانے کا انتظام  و انصرام بھی پڑوس کے گاؤں سے ایک مولوی صاحب کو بلا کر کر دیا تھا۔ تیسرے دن زاہد فجر کی  نماز پڑھنے کے بعد اپنے معمول کے مطابق اوراد  و  وظائف میں مشغول ہو گیا ۔زاہد پنج وقتہ نمازی ،تہجد گزار اور اشراق و چاشت کی نماز   کا پابند تھا، اپنی اشراق و چاشت کی نماز سے فارغ ہو کر امام صاحب کے حجرے میں جاتا ہے اور امام صاحب سے پوچھتا ہے کہ امام صاحب ،تم مولویوں کی باتیں تو ہماری سمجھ سے پرے ہیں ، چت بھی تمہاری ہوتی ہے اور پٹ بھی تمہاری ہوتی ہے، تم مولوی لوگ ایک طرف تو  یہ بھی کہتے ہو کہ دوسرے کی روزی روٹی پر لات نہیں مارنی چاہیے ،کہ کسی کی  روزی روٹی پر لات مارنا گناہ ہے۔  اور دوسری طرف یہ بھی کہتے ہو  کہ رنڈیاں نچانا گناہ ہے ۔اگر ان بیچاریوں کو نچانے نہیں لائیں گے تو ان کی روزی روٹی کہاں سے چلے گی ؟ یہی تو ان کی روزی روٹی ہے۔  یہ کہہ کر وہ حجرے سے باہر نکل آتا ہے ،اور امام صاحب خاموش کھڑے سنتے رہتے ہیں۔شادی کے بعد سے امام صاحب کی امامت پارٹی بازی میں ٹکڑے ٹکڑے ہو کر  بکھر جاتی ہے۔  یوں تو اس دوران ان پر بہت سارے سوالات اٹھائے گئے تھے ۔ کسی نے کہا کہ یہ شادی شدہ نہیں ہیں اس لئے امامت کے لائق نہیں ہیں۔کسی نے کہا کہ یہ کالے ہیں اس لئے امام کوئی ایسا ہو جس کے چہرےپہ  خدا کا نور دکھتا ہو ۔  کسی نے کہا کہ امام صاحب پتلے دبلے ہیں ،امام تو تھوڑے ہٹے کٹےہی  اچھے لگتے ہیں۔  طرح کی باتیں ہوئیں لیکن سب سے اہم بات تھی گاؤں کی راج نیتی، جو ان کے اخراج کا سبب بنی ۔ جس دن ان کو امامت سے نکالا گیا تھا اس کے اگلے ہی دن امام صاحب کا امتحان تھا۔ وہ سینٹرتو چلے  جاتے ہیں  لیکن ذہن میں یہی سب چل رہا تھا جو ان پر بیتا تھا۔ گویا کہ ان دنوں میں امتحان کی تیاری کم  امامت کی تیاری زیادہ ہوئی تھی ۔جس کا ثبوت  ہمیں اس  بات سے بھی ملتا ہے کہ   وہ اقبال کی  نظم ‘‘طلوع اسلام ’’کے اس شعر کو کہ

 سبق پھر پڑھ  صداقت کا، عدالت کا،شجاعت کا

 لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

 کو حفظ کر لینے کے بعد صبح کئی بار اس شعر کی تکرار کرنے کے با وجود ذہنی انتشار کی بنیاد پر امتحان کے پرچہ میں  اس طرح لکھ کر آ گئے  کہ

سبق پڑھ لے خوشامد، کا ذلالت کا، ندامت کا

 لیا جائے گا تجھ سے کام مسجد کی امامت کا

ابھی امام صاحب کے امتحان کا  نتیجہ  آنا باقی ہے۔۔۔۔

Leave a Reply