You are currently viewing ابن صفی کی مزاح نگاری

ابن صفی کی مزاح نگاری

ڈاکٹر عبدالحئی

 سی ایم کالج، دربھنگہ، بہار

ابن صفی کی مزاح نگاری

خوش طبعی اور مزاح ہماری زندگی کا ایک اہم حصہ ہے۔ آج جس طرح کے مسائل سے پوری دنیا دوچار ہے اور لوگ خود اپنے لیے بھی مشکل سے وقت نکال پاتے ہیں ۔ ذہنی تناؤ اور کام کا بوجھ انسان کو وقت سے قبل ناتواں بنا دیتا ہے۔ اس صورت حال میں ہنسی کا کوئی موقع، کچھ ظریفانہ جملے اور مضحکہ خیز باتیں تھوڑی دیر کے لیے ہمیں خوشی اور دبستگی کا سامان فراہم کردیتی ہیں۔زمانہ قدیم میں سنتے آئے ہیں کہ ہنسنے سے خون بڑھتا ہے اور ہنسی کا کوئی موقع نہیں جانے دینا چاہیے۔ اسی ضرورت کو محسوس کرکے ہمارے ادیبوں نے طنز و مزاح اور ظرافت کی بنیاد ڈالی۔ ان طنزیہ و مزاحیہ ادیبوں کی تحریریں پڑھ لیں اور لگاتار پڑھتے رہیں تو آپ کو پارک میں جاکر گروپ بنا کے ہنسنے کی  ضرورت نہیں پڑے گی۔ مزاح یا مذاق اور دل بستگی ایک ایسی پرلطف کیفیت ہے، ایک ایسا خوش نما احساس ہے جس میں کچھ دیر کے لئے انسان کو ذہنی خوشی ملتی ہے ، یہ ایسا جذبہ ہے جو تقریباً سبھی انسانوں میں ہوتا ہے۔ مسرت اور شادمانی کے لمحوں میں انسان اس جذبے کا اس احساس کا بھرپور مظاہرہ کرتا ہے اور یقینا یہ خدا کی جانب سے انسانوں کو ودیعت کردہ ایک عظیم تحفہ ہے۔ دلوں کی پژمردگی، اداسی، تناؤ اور غم و اندوہ کو بھول کر تھوڑی تفریح حاصل کرنے کا بہترین نسخہ ہے۔

وزیرآغا اپنی تصنیف اردو ادب میں طنز و مزاح میں اسی جانب اشارہ کرتے ہیں۔

ہنسی نہ صرف افراد کو باہم مربوط ہونے کی ترغیب دیتی ہے بلکہ ہر اس فرد کو نشانۂ تمسخر بھی بناتی ہے جو سوسائٹی کے مروجہ قواعد و ضوابط سے انحراف کرتا ہے۔ چنانچہ مزاحیہ کردار صرف اس لیے مزاحیہ رنگ میں نظر آتا ہے کہ اس سے بعض ایسی حماقتیں سرزد ہوتی ہیں جن سے سوساٹئی کے دوسرے افراد محظوظ ہوتے ہیں۔ص۔30

طنز ومزاح کی شروعات اردو زبان کے آغاز کے ساتھ ہی ہوتی ہے۔ ولی دکنی اور جعفر زٹلی کے کلام میں مزاح نظر آجاتا ہے۔ جعفر زٹلی کے یہاں مزاح نے فحش گوئی کی صورت اختیار کرلی تھی لیکن ان کی شاعری میں طنز اس قدر بھرا ہوا ہے کہ اس میں نشتریت اور زہرناکی کے عناصر شامل ہیں۔ شمالی ہندوستان میں شاکر ناجی اور سودا سے اس کی شروعات ہوتی ہے۔ انشاء، رنگین سے ہوتے ہوئے طنز و مزاح نظیر اور اکبر الہ آبادی تک پہنچتا ہے۔ نظیر اور اکبر الٰہ آبادی نے عوامی روایتوں، رسوموں اور مغربیت پر بھرپور طنز کیا ہے۔ غالب کے خطوط طنز و مزاح کا قیمتی سرمایہ ہیں۔ انھوں نے اپنی ذات کو نشانہ بناتے ہوئے مزاح و ظرافت کی ایک زبردست مثال قائم کی۔ مکتوبات کے علاوہ ان کی شاعری میں بھی طنز و مزاح کے عناصر موجود  ہیں۔ اودھ پنج اور منشی سجاد حسین نے ظرافت نگاری کو نیا مقام عطا کیا۔ بعد میں فرحت اللہ بیگ، رشید احمد صدیقی، پطرس بخاری، خواجہ حسن نظامی، شوکت تھانوی، کنہیا لال کپور اور ظفر علی خاں نے طنز و مزاح کو مزید استحکام دیا اور اردو ادب میں اسے باقاعدہ ایک صنف کے طور پر قبول کر لیا گیا۔

برصغیر کی تقسیم کے بعد پاکستان میں شفیق الرحمن، مشتاق احمد یوسفی، کرنل محمد خاں، ابن انشاء وغیرہ اور ہندوستان میں فرحت کاکوروی، فکر تونسوی، کوثر چاندپوری، وجاہت علی سندیلوی، مجتبیٰ حسین، یوسف ناظم، شفیقہ فرحت اور نصرت ظہیر کے نام قابل ذکر ہیں۔  اسی طرح شاعری میں رضا نقوی واہی،سلمان خطیب، دلاور فگار، شوکت تھانوی،ہلال رضوی، ماچس لکھنوی اور شہباز امروہوی ،ساغر خیامی، پاپولر میرٹھی  وغیرہ نے مزاحیہ  شاعری کو مزید استحکام بخشا۔ طنز و مزاح کے زمرے میں پیروڈی، تحریف، رمز، ہجو، نغز، ہزل، لطیفہ اور ظرافت کو رکھا جاسکتا ہے۔ مزاح اور دل بستگی انسانی فطرت کا ایک لازمی جز ہے۔ کوئی بھی انسان جو ان سے محظوظ نہیں ہوتا اسے مغرور، متکبر، بدمزاج جیسے القابات سے نوازا جاتا ہے جب کہ ہمیشہ خوش رہنے والے اور ہنسنے مسکرانے والے کو خوش خلق اور خوش مزاج کہتے ہیں۔

آزادی سے قبل جب ترقی پسندی کا دور دورہ تھا۔ اُس  وقت کے تقریباً تمام لکھنے والوں میں طنز و مزاح صاف دکھائی دے جاتا ہے۔ سعادت حسن منٹو، عصمت، بیدی اور کرشن چندر کے علاوہ دوسرے ادیب و افسانہ نگار بھی طنز و مزاح سے بھری تحریروں میں طبع آزمائی کررہے تھے۔ بعد میں آزادی کی لڑائی کے تیز ہونے کے بعد ادیبوں کو مزید موضوعات مل گئے۔ فرقہ وارانہ فسادات، انگریز حکومت کا ظلم اور دیگر معاشی،سیاسی اور سماجی مسائل کو قلمکاروںنے اپنا موضوع بنایا ۔ آزادی کے بعد ایک جانب تو لوگوں میں خوشی کا احساس تھا تو دوسری جانب صف ماتم بچھی تھی۔ اس تقسیم نے لاکھوں انسانوں کو موت کی نیند سلادیا اور کتنے ہی افراد بے گھر ہوگئے۔ لاکھوں انسانوں کو نقل مکانی کرنی پڑی اور اپنی مٹی، اپنا وطن چھوڑ دینا پڑا۔ اس دور کے ادب اور مختلف تحریروں میں عجیب سی بے حسی در آئی تھی۔ لوگ ایک طرح سے اپنی زندگی سے اکتا گئے تھے اور راہ فرار تلاش کررہے تھے۔ ایسی صورتحال میں ابن صفی نے اپنے قلم کا جادو بکھیرا اور اس مشکل دورمیں ابن صفی نے وہ کام کرنے کی ٹھانی جو ناممکن حد تک مشکل تھا ۔ انھوں نے طنزیہ و مزاحیہ تحریریں تو لکھیں ساتھ ہی اسی پیرائے میں جاسوسی ناول بھی لکھنے شروع کیے جس کا مقصد قاریوں میں اردو زبان و ادب پڑھنے کا شوق و ذوق پیدا کرنا اور ساتھ ہی لوگوں میں قانون اور ملک کے احترام کا جذبہ بھی پیدا کرنا تھا۔ضمیر اختر رضوی ابن صفی کی مزاح نگاری پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

ابن صفی نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز شاعری اور طنزیہ و مزاحیہ مضامین سے کیا تھا۔ یہ دونوں شعبے ان کے ناولوں میں بھرپور انداز سے ابھر کر سامنے آئے۔ ان کے ناولوں میں مزاحیہ اور طنزیہ انداز، فکر و نظر کے لیے نئی راہیں کھولتا ہے۔ انھوں نے اپنے مزاحیہ طرز تحریر سے قارئین کو زندگی کے حقائق سے قریب تر لانے کی کوشش کی ہے۔ ان کے مکالموں میں نشتریت، ذہانت، معلومات، غور و فکر اور گہرا ئی کا عنصر شامل ہوتا ہے۔ ابن صفی پر جب کبھی بھی تحقیق کام ہوگا تو محقق کو لکھنا پڑے گا اردو کے طنزیہ ادب میں ابن صفی نے ایک نئے دور کا آغاز کیا تھا۔ بحوالہ نئے افق،وادی اردو ڈاٹ کام

 ابن صفی نے مزاح میں بھی شائستگی اور وقار و احترام کو برقرار رکھا ہے۔ گھٹیاپن یا سستے بازاری جملوں اور فحش نگاری سے احتراز کیا ہے۔ وہ نہ صرف بلند پایہ مزاح نگار بلکہ صاحب اسلوب ظرافت نگار بھی تھے۔ ان کے اسلوب اور طرز نگارش پر اگر بات کی جائے تو ایک علحدہ مضمون لکھا جاسکتا ہے، جس طرح کے الفاظ اور جس طرح کی زبان کا استعمال ان کی تحریروں میں ملتا ہے وہ کہیں اور نہیں۔ یہاں یہ کہنا مناسب ہوگا کہ ابن صفی اس معاملے میں اردو زبان و ادب کا سب سے بڑا ادیب ہے کہ اُس کی تحریروں اور ناولوں کے نقال سب سے زیادہ رہے ہیں۔ اردو کے کسی ادیب کے ناولوں اور کرداروں کو اس قدر نہیں دہرایا گیا۔ ایچ اقبال، مظہرکلیم، ایم اے راحت، ابن شفیع اور نہ جانے کتنے ناموں نے ابن صفی کی نقل کی اور ان کے کرداروں پر ناول لکھے لیکن وہ ابن صفی جیسا علم، مطالعہ اور تخیل کی بلند پروازی کہاں سے لاتے۔ ابن صفی جیسا دردمند دل اور خالص اسلامی نظریات پر عمل پیرا دل و دماغ کہاں سے لاتے جو معاشرے میں صرف اللہ کی ڈکٹیٹرشپ چاہتا ہے جیسے کسی ازم وزم سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ انھوں نے اصلاح کا مقصد سامنے رکھا ہے۔مغرب پرستی اور روایت پسندی پر انکے جملے تلخ و ترش تو ہیں لیکن انداز کچھ ایسا ہے کہ ہمیں ناگوار نہیں گزرتا، زندگی اور اس جہاں کا کون سا ایسا مسئلہ اور موضوع  ہے جو ان کے ناولوں میں نہیں ملتا ہے۔ آپ ان کے ناول پڑھتے جائیں اور کچھ دنوں بعد یقینا خود میں آپ کو خوشگوار اور متاثرکن تبدیلی محسو س ہوگی۔

ابن صفی نے اپنے پرلطف اور چست جملوں سے ایک ایسا سرور اور مزاح پیدا کیا ہے جس سے پڑھنے والا بے اختیار ہنسنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ گھٹے گھٹے سے بوجھل لمحات میں اچانک و ہ مزاح کا کوئی ایسا نکتہ نکال لیتے ہیں کہ اسرار و تحیر کے سمندرمیں غوطے لگا رہے قاری کو ہنسنے اور خالصتاً تفریح کرنے کا ایک موقع مل جاتا ہے۔ ایک طرف اس کا ذہن ہلکا پھلکا ہوجاتا ہے اور دوسری طرف اس کا تجسس مزید بڑھ جاتا ہے، ناول کے اختتام تک پہنچتے پہنچتے ابن صفی مزاح کے عناصر کو مزید گہرا کردینے کا ہنر خوب جانتے تھے، ملاحظہ ہو جاسوسی دنیا کے پہلے ہی ناول کا یہ اقتباس:

بھئی فریدی تم کب شادی کررہے ہو

کس کی شادی فریدی مسکرا کر بولا

اپنی بھئی

اوہ میری شادی۔ فریدی نے ہنس کر کہا۔ سنو میاں شوکت اگر میری شادی ہوتی تو تمھاری شادی کی نوبت نہ آتی۔

وہ کیسے— سیدھی سی بات ہے۔ اگر میری شادی ہوگئی ہوتی تو میں بچو ںکو دودھ پلاتا یا سراغ رسانی کرتا۔ میراذاتی خیال ہے کہ کوئی شادی شدہ شخص کامیاب جاسوس ہوہی نہیں سکتا۔

تب تو مجھے ابھی سے استعفیٰ دینا چاہیے۔ میں شادی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ حمید نے اتنی معصو میت سے کہا کہ سب ہنسنے لگے۔  (دلیر مجرم: ص: 85-86)

ابن صفی کا کمال یہ تھا کہ وہ عام فہم اور عام بول چال کی زبان کا استعمال کرتے تھے۔ نئے الفاظ اور نئی اصطلاحوں کی تلاش کرتے تھے اور انھیں مناسب موقع پر بڑے اچھے انداز میں ہمارے سامنے پیش کرتے تھے۔ جب ہم عمران یا فریدی کے ہونٹوں سے ایسے جملے سنتے ہیں جو ہماری اپنی گھریلو زبان کا حصہ ہوں تو ہمیں اور بھی زیادہ مزہ آتا ہے۔

چہ چہ— لاحول ولا قوۃ… عجیب احمق ہو— دیکھو وہ اینگلو انڈین لڑکی تمہیں اس حالت میں دیکھ کر شاید اپنے ساتھیوں میں تمھارا مضحکہ اڑا رہی ہے۔

حمید نے مڑ کر دیکھا تو واقعی چند اینگلو انڈین مسافر اس کی طرف دیکھ کر طنزیہ انداز میں مسکرا رہے تھے۔ ان میں اتفاق سے ایک لڑکی تھی۔ حمید پر بوکھلاہٹ کا دورہ پڑا۔ اس نے رسی کی رکاب پر پیر رکھا اور اچھل کر خچر پر بیٹھ گیا اور بیٹھا بھی اِس شان سے جیسے نپولین اپنے قدرآور گھوڑے پر سوار آلپس کے دشوار گزار راستے طے کررہا ہو۔ شاباش میرے شیر— فریدی مسکرا کر بولا۔ تمھیں راہ پر لانے کے لیے ہمیشہ ایک عورت کی ضرورت پیش آتی ہے۔

جی ہاں میری پیدائش کے سلسلے میں ایک عورت کی ضرورت پیش آئی تھی۔ حمید جل کر بولا۔ ارے تم تو فلسفہ بولنے لگے۔ بھئی میں دراصل اسی لیے تمھاری اتنی قدر کرتا ہوں۔(ناول: مصنوعی ناک)

ابن صفی کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ وہ پڑھنے والے کو ذہنی تناؤ سے نجات دلائیں۔ ابن صفی کچھ لمحے کے لیے اس کی دلجمعی کر تے ہیں اور اُسے تفریح کا ایسا سامان مہیا کر تے ہیں کہ انسان اپنے سارے مسائل بھول کر ان کی جادوئی تحریر کے سحر میں گرفتار ہوجاتا ہے۔ ذریں قمرابن صفی کی تحریروں میں طنز و ظرافت کے عناصر پر کچھ یوں تبصرہ کرتی ہیں:

انھوں نے جاسوسی ادب ضرور تخلیق کیا ہے لیکن انھوں نے کبھی بھی جرائم یا مجرموں کی حوصلہ افزائی نہیں کی ہے۔ ان کے اندازِ تحریر میں وہی زندگی اور روشنی ہے جو ہمیں اکبر الہ آبادی کی شاعری میں ملتی ہے۔ اکبر نے اپنے اشعار کے ذریعے معاشرے کی برائیوں پر طنز کیا ہے ا ور ابن صفی نے اپنی نثر نگاری میں طنز و مزاح کے ایک بہترین انداز کو اپنائے ہوئے مختلف برائیوں سے پردہ اٹھایا ہے۔ کاش اب پھر کوئی ایسا ابن صفی پیدا ہوسکے جسے زمانے کی بے قدری کی پر وا نہ ہو اور وہ ایک ادیب نہ مانے جاتے ہوئے بھی ادب کی خدمت کرتا رہے۔( بقلم خود ذریں قمر نئے افق، وادی اردوڈاٹ کام)

 طنز و مزاح کے بڑے سے بڑے ادیب کی نگارشات اٹھا کر دیکھ لیں۔ اُن سب میں اصل مقصد اصلاح کا کارفرما ہوتا ہے۔ مزاح نگار کبھی خود کو کبھی اپنی کوئی خاص چیز کو تو کبھی دنیا کی بے ثباتی کو موضوع بناتا ہے۔ ہمیں اس سے تھوڑی دیر کے لیے دل بستگی تو حاصل ہوجاتی ہے ساتھ ہی انشائیہ نگار یا مزاح نگار کا مقصد بھی پورا ہوجاتا ہے کہ جو پیغام وہ دینا چاہتا ہے وہ ہم تک پہنچ گیا۔ مزاح کے ساتھ جب طنز کا عنصر شامل ہوجاتا ہے تو تحریر میں نشتر کا اثر واضح طور پر محسوس ہوتا ہے۔ ملاحظہ ہو ابن صفی کے فریدی کی زبان سے کہے گئے یہ جملے:

سنو حمید میں محض سراغ رسانی کی مشین نہیں ہوں۔ میری نظر انسانی کمزوریوں اور مجبوریوں پر بھی رہتی ہے۔ میں جب بھی کسی مجرم کو قانون کے حوالے کرنے لگتا ہوں تو سوچتا ہو کہ کیا اب ہمیں مجرموں سے پناہ مل جائے گی۔ کیا مجرموں کو سزا دینے سے وہ برائی مٹ جائے گی جس میں مبتلا ہوکر یہ پھانسی کے تختے کی طرف آتے ہیں۔ اب تک کروڑوں قاتل سزائے موت پاچکے ہیں لیکن کیا اب قتل نہیں ہوتے۔ کیا مجرموں کی تعدادکم ہوگئی۔(ناول: خطرناک بوڑھا)

اس طرح کے طنزیہ اور اصلاحی  جملے ابن صفی کی تحریروں میںہزاروں کی تعداد میں بکھرے پڑے ہیں۔ سب کا دینا یہاں ممکن نہیں ہے۔ ایک دو اقتباس اور دیکھیں:

تم ابھی بالکل بدھو ہو۔ فریدی مسکرا کر کہا۔ دن رات عورت عورت چلانا اور چیز ہے اور عورت کی فطرت کا مطالعہ اور چیز۔

بجا ارشاد ہوا۔ حمید منہ سکوڑ کر بولا

برا ماننے کی بات نہیں۔ عورت سے قریب رہ کر تم ہرگز عورت کو نہیں پہچان سکتے۔ کیونکہ تمہاری جذبائیت جو عورت کے قرب کی وجہ سے جاگتی ہے تمہیں اس کی فطرت کا مطالعہ نہیں کرنے دیتی وہ اس کی کمزوریو ں کو حسن اور آرٹ کا رنگ دے کر ان کی پردہ پوشی کرنے لگتی ہے۔(ناول: خطرناک بوڑھا)

…دیکھو ہر عورت کی فطرت میں مامتا کا کچھ نہ کچھ جزو ضرور ہوتا ہے اور یہ مامتا اِس وقت بڑی شدت سے جاگ اٹھتی ہے جب وہ کسی ایسے مرد کو تکلیف میں مبتلا دیکھتی ہے جس کا اس سے کچھ تعلق ہو۔(ناول: خطرناک بوڑھا)

عمران  سیریز کے ناول رات کا شہزادہ کا ذکر کرنا ضروری ہے جس میں عمران نے ایک زبردست عاشق کا رول ادا کیا ہے اور اپنے نام نہاد رومان کے سہارے بین الاقوامی مجرم کو دبوچتا ہے۔ ملاحظہ ہو یہ خوبصورت اقتباس:

تم بالکل گدھے ہو کیا؟ نہیں تو بالکل گدھا پہلی بار آپ کہہ رہی ہیں ۔ ورنہ عام طور پر لوگ الو کہتے ہیں اور والد صاحب تو کبھی کبھار اُلّو کا پٹھا بھی کہہ دیا کرتے تھے— میرا ایک دوست کہہ رہا تھا کہ بعض لوگ جدائی کی راتوں میں تارے گنتے گنتے اکاؤنٹنٹ ہوجاتے ہیں۔ شاداں بے اختیار ہنس پڑی۔

آپ میری لاش پر بھی ہنسیں گی۔ عمران نے گلوگیر آواز میں کہا۔  (بحوالہ رات کا شہزادہ )

اسی طرح پاگلوں کی انجمن کا یہ اقتباس:

پاگلو! کیا تم نے کبھی اِس پر بھی غور کیا کہ جارحیت پسند پاگلوں کے لیے عمارتیں مہیا کی جاتی ہیں۔ طبی امداد بہم پہنچائی جاتی ہے۔ ان کے لیے اصول و ضوابط بنائے جاتے ہیں۔ لیکن بے ضرر پاگلوں کا کوئی پرسان حال نہیں، نہ ہوگا، ہمارے ٹھینگے سے۔ متعدد آوازیں آئیں۔ تو پھر میرے بھی ٹھینگے سے۔ نواب صاحب کہتے اور ڈا ئس پر ناچنا شروع کردیتے۔ (بحوالہ پاگلوں کی انجمن)

ابن صفی نے اپنے ذاتی تجربوں، مشاہدوں اور مطالعے سے اپنی تحریروں میں اعلیٰ درجے کی ظرافت پیش کی ہے۔ اس ظرافت میں وہ کبھی بھی اپنی مقصد سے نہیں ہٹے۔ قانون کا پاس و لحاظ، فرقہ وارانہ ہم آہنگی، خواتین کی عزت، ملک اور مذہب کی پاسداری ان کا نصب العین تھا۔ وہ برصغیر کے ہی نہیں بلکہ اپنے پورے عہد میں اردو کے تمام ادیبوں میں ایک انفرادی شناخت رکھتے ہیں اور اس لیے مولوی عبدالحق نے بھی کہا تھا کہ ابن صفی کا اردو ادب پر بڑا احسان ہے۔ عمران کی احمقانہ شرارتیں کسی نہ کسی خاص مقصد کے لیے ہوتی ہیں۔ اس کی یہ ساری شرارتیں ابن صفی کی ذہانت اور ظرافت نگاری کی شاہد ہیں۔ یہ شرارتیں قاری کو یہ باور کراتی ہیں کہ غفلتوں اور گمراہی سے باہر آؤ اور اپنے آپ کو پہچانو اور عقل اور ہوش کے ناخن لو۔

ابن صفی نے اپنے کرداروں کی تخلیق کرنے میں تخیل کی جس بلند پروازی سے کام لیا ہے وہ صرف ابن صفی ہی کرسکتا تھا۔ فریدی، حمید اور عمران کو چھوڑدیں تو قاسم، جوزف، جیمن اور ظفرالملک جیسے لازوال کردار تخلیق کرنے کا سہرا ابن صفی کے سر جاتا ہے۔ اپنے کردارں کو جہاں وہ ایک عام انسان کی طرح پیش کرتے ہیں وہیں ان کی ناہموار شخصیت اور تہہ داری کا بھی خیال رکھتے ہیں۔ گلہری خانم ، گلرخ یا ثریا سبھی کے کردار کچھ ایسے بن پڑے ہیں کہ وہ اپنے آپ میں مکمل ہیں۔ مونگ کی دال اورشراب کی چھ بوتلوں کی بات کریں تو ابن صفی نے ان کو اپنے مزاحیہ پیرائے میں کچھ اِس طرح ڈھال دیا ہے کہ قاری بے اختیار قہقہہ لگانے پر مجبور ہوجائے۔ ابن صفی نے بازاری پن، پھبتی کسنے یا پھکڑپن سے احتراز کیا ہے اور ناولوں میں زیادہ سے زیادہ ایسی زبان استعمال کی جو ہم اپنے ساتھیوں کے ساتھ مذاق اور ہنسی کے دوران کرتے ہیں۔ناولوں کا مطالعہ کرتے ہوئے کیء مقامات پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ارے یہ تو ہمارے ساتھ بھی ہوا ہے۔ سرسید کی عام فہم نثر کی تحریک کو سب سے زیادہ جس ادیب نے عام کیا وہ ابن صفی تھے۔ نہ ہی انھوں نے دیومالائی اور مافوق الفطرت عناصر کا سہارا لیا اور نہ ہی فحش نگاری کرنی پڑی بلکہ یہ کہنا منسب ہوگا کہ انہوں نے فحش نگاری کی مخالفت میں قلم اٹھا یا تھا ۔ اپنے مزاحیہ مضامین کی مجموعے ڈپلومیٹ مرغ کے دیباچے میں لکھتے ہیں:

طنز و مزاح میرا فن نہیں بلکہ کمزوری ہے۔ کمزوری اِس لئے کہ میں صاحب اقتدار نہیں ہوں۔ صاحب اقتدار و اختیار ہوتا تو میرے ہاتھ میں قلم کی بجائے ڈنڈا نظر آتا اور میں طنز کرنے یا مذاق اڑانے کی بجائے ہڈیاں توڑتا دکھائی دیتا۔ (الحمدللہ کہ میری یہ کمزوری قوم کی عافیت بن گئی اور قوم بلا سے واہ واہ نہ کرے اُسے ہائے ہائے تو نہیں کرنی پڑے گی)۔ (حرف آغاز، ڈپلومیٹ مرغ۔)

اس مجموعے میں ’میں نے لکھنا کیسے شروع کیا‘ بھی شامل ہے جس میں انھوں نے بڑے ہی ظریفانہ انداز میں اپنے ادیب بننے کی داستان بیان کی ہے۔ اس کا ایک اقتباس یہاں دینا اس لئے ضروری ہے کہ اس سے ابن صفی کا مطمح نظر واضح ہوتا ہے۔

تھکے ہوئے ذہنوں کے لیے تھوڑی سی تفریح مہیا کردینا اگر کسی کے بس میں ہو تو اُسے بھی ایک مقدس فریضہ سمجھنا چاہیے۔ اس سے قطع نظر کرکے بھی میری کہانیاں مقصدی ہوتی ہیں۔ کچھ احمق اِس سلسلے میں فراری ذہنیت وغیرہ کی بات کرنے لگتے ہیں۔ انھیں شاید یہ نہیں معلوم کہ ’’فرار ہی بنیادی طور پرمزید تعمیر کا باعث بنتا ہے۔ یکسانیت سے فرار انسانی طبیعت کا خاصہ ہے۔ (میں نے لکھنا کیسے شروع کیا: ابن صفی)

ڈپٹی نذیر احمد، رتن ناتھ سرشار، منشی سجاد حسین، کرشن چندر، شوکت تھانوی، عظیم بیگ چغتائی یا دیگر ناول نگاروں کی تحریریں پڑھ لیں۔ جس طرح کا مزاحیہ انداز انھوں نے اختیار کیا ہے وہ ابن صفی کے ناولوں میں بھی بدرجہ ٔ اتم موجود ہے۔ خوجی، ظاہر دار بیگ، حاجی بغلول، چچا چھکن، غفور میاں اور گوہر مرزا کے کردار آج اگر بے مثال اور لازوال ہیں تو ابن صفی کے کردار عمران، جوزف، قاسم، حمید وغیرہ کو جاننے والوں کی تعداد لاکھوں میں پہنچتی ہے اور یہ کردار بھی آج امر ہوچکے ہیں۔ آپ ابن صفی کی پہلی مزاحیہ تحریر فرار پڑھ لیں۔ آپ کو کرشن چندر کی تحریر گدھے کی سرگزشت اور گدھے کی واپسی یاد آجائے گی۔ میں یہاں یہ اعتراف کرنے میں عار نہیں سمجھتا کہ فرار گدھے کی سرگزشت کے مقابلے نہیں رکھی جاسکتی لیکن اتنا ضرور ہے کہ طنز و مزاح کا عنصر فرار میں بھی نمایاں ہے دونوں کا مرکزی کردار ایک گدھا ہے جو سماج سے معاشرے سے اکتایا ہوا ہے۔ خلیل الرحمن اعظمی گدھے کی سرگزشت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

 یہ سوئفٹ کے گولیورس ٹریولز کے انداز کی چیز ہے جس میں کرشن چندر نے ایک گدھے کے ذریعہ ہندوستان کے تقریاً تمام اہم سیاسی و تہذیبی اداروں پر طنز کیا ہے۔ (خلیل الرحمن اعظمی، اردو میں ترقی پسند ادبی تحریک، ص 272)

دوسری جانب ابن صفی کی مزاحیہ تحریر فرار کا گدھا ریسٹورنٹ میں جاتا ہے۔ انگریزی بولتا ہے، فاکس ٹراٹ کی دھن بجاتا ہے، اور موجودہ معاشرے سے تنگ آکر راہ فرار اختیار کرتا ہے۔ گدھے کی زبان سے جیسے الفاظ کرشن چندر نے ادا کروائے ہیں کچھ اسی طرح کے جملے ابن صفی کی اِس تحریر میں بھی ہیں۔ ملاحظہ ہو:

ہماری قوم بہت ہی امن پسند ہے۔ ایک گدھا آج تک دوسرے گدھے کے لیے مہلک ثابت نہیں ہوا اور نہ کبھی کسی گدھے نے یہی کوشش کی کہ دوسرے پر اپنی برتری کا رعب ڈالے۔ ہم سب برابری اور بھائی چارے کے قائل ہیں۔ ہم سب وہی کھاتے ہیں جو ایک کھاتا ہے۔ ہم سب بڑی محنت کے عادی ہیں۔ اونچ نیچ کے جراثیم سے ہماری قوم ہمیشہ پاک و صاف رہی ہے۔( بحوالہ  ابن صفی: فرار)

کیا یہ طنز اس بات کا اشارہ نہیں کہ انسانوں کی دنیا میں کیا ہورہا ہے اور کاش کہ ہم بھی ایسا ہی سوچتے ایسے ہی امن و شانتی کی بات کرتے۔ ابن صفی کی اِس پہلی مزاحیہ تحریر سے ہی یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی تحریریں ہمیں آگے چل کر معاشرے اور انسانوں کو درس و عبرت کے وہ سبق پڑھائیں گی جن سے کئی نسلیں فیضیاب ہوتی رہیں گی ۔

ابن صفی کی طنزیہ و مزاحیہ تحریروں میں فرار، قصہ ایک ڈپلومیٹ مرغ کا، ٹیمز فانڈ، شیر کا شکار، جگانے والے، آب وفات، دیوانے کی ڈائری، شیطان صاحب، رسالوں کے اسرار، قواعد اردو، ایک یادگار مشاعرہ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ان کی مزاحیہ تحریرو ںکے دو مجموعے ڈپلومیٹ مرغ اور شیطان صاحب میرے پیش نظر رہے ہیں۔ جن میں ڈپلومیٹ مرغ مشتاق احمد قریشی نے اپنی کوششوں سے چھپوایا تھا۔ جب کہ شیطان صاحب میں کل 12 طنزیہ و مزاحیہ شہہ پارے شامل ہیں اس کے علاوہ ابن صفی کی غزلیں اور نظمیں بھی شامل اشاعت کی گئی ہیں۔

رسالوں کے اسرار میں ابن صفی نے نہایت شگفتہ انداز میں رسائل و جرائد کی صورتِ حال پر تبصرہ کیا ہے۔ ابن صفی کا کمال یہ تھا کہ وہ آنے والے وقت کو دیکھ رہے تھے۔ انھوں نے یہ تحریر ایسے وقت میں قلم بند کی جب اردو کے رسائل و جرائد تواتر سے نکل رہے تھے لیکن موجود صورتِ حال بالکل مختلف ہے۔ اس تحریر کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ابن صفی صاحب نے اسے لکھ کر کہیں رکھ دیا ہو اس درخواست کے ساتھ کہ اسے اکیسویں صدی میں پڑھا جائے۔ملاحظہ کریں یہ سطریں اور ابن صفی کے قلم کی جولانیوں پر عش عش کریں:

لہٰذا جو کچھ جنوں میں بک رہا ہوں اس کو باہوش و حواس ناظر کو جان کر واپس لیتا ہوں اور بصد خلوص عرض کرتا ہوں کہ رسالہ صرف ادب کی خدمت کے لیے نکالا جاتا ہے اس لیے ہر اردو پڑھے لکھے آدمی کافرض ہے کہ اپنی پہلی فرصت میں رسالہ ضرور نکالے اور دوچار شمارے نکال کر بند کردے تاکہ دوسروں کے لیے میدان خالی ہوجائے اور دوسرے بھی داخل حسنات ہوسکیں۔ اِس کام میں امداد باہمی کا خاص خیال رکھنا چاہیے اگر سب ہی بیک وقت رسالہ نکالنے لگیں گے تو کون خریدے گا اور کون پڑھے گا۔ اصول یہ ہونا چاہیے کہ آج میں رسالہ نکالوں آپ خریدیں۔ اِس کے بعد میں اپنا رسالہ بند کرکے آپ کا نکالا ہوا رسالہ خرید کر پڑھوں۔ اردو اسی طرح ترقی کرسکتی ہے۔ اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں۔ (بحوالہ رسالوں کے اسرار: ابن صفی)

اِس تحریر کو پڑھ کر ایسانہیں لگتا کہ آج ہم اردو کی ترقی کے لیے یہی سب باتیں کررہے ہیں۔ ہم مانگ کر پڑھنے میں یقین رکھتے ہیں جب کہ ہمیں خرید کر پڑھنا چاہیے۔

ابن صفی کے تقریباً تمام ناولوں میں ہمیں طنز و مزاح مل جاتا ہے۔ جاسوسی دنیا اور عمران سیریز دونوں کے پلاٹ اور کردار مختلف رہے ہیں اور طنز و مزاح کے موضوعات میں بھی تکرار کا شائبہ نہیں نظر آتا۔

جاسوسی دنیا کے ناول جنگل کی آگ، خطرناک بوڑھا، ہولناک ویرانے، پاگل خانے کا قیدی، شعلہ سیریز، شیطان کی محبوبہ، شادی کا ہنگامہ، مونچھ مونڈنے والی، بیچاراری، صحرائی دیوانہ، گارڈ کا اغوا  وغیرہ اور عمران سیریز کے ناول خوفناک عمارت، رات کا شہزادہ، لاشوں کا بازار، گمشدہ شہزادی، حماقت کا جال، رائی کا پربت، پاگلو ںکی انجمن میں طنز و مزاح اور ظرافت کی ایسی حسین دلکشی اور شگفتگی ملے گی جو کسی دوسرے ادیب کی تحریروں میں نہیں ملتی۔ ان ناولوں کے نام یہاں لکھنے کا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ دوسرے ناولوں میں طنز و مزاح نہیں ہے بلکہ ان کے تمام ناولوں میں طنز و مزاح اور ظرافت کے عناصر واضح طور پر نظر آئیں گے۔ پرنس چلی کا ذکر نہ کیا جائے تو یہ مضمون ادھورا رہ جائے گا۔ پرنس چلی کو پڑھ کر آپ کو سرشار کے خوجی اور آزاد، نذیر احمد کے ظاہر دار بیگ رسوا کے گوہر مرزا، منشی سجاد حسین کے حاجی بغلول اور امتیاز علی تاج کے چچا چھکن کی یاد آجائے گی۔

ابن صفی نے یہ ناول اُس وقت تحریر کیا تھا جب جاسوسی دنیا اور عمران سیریز کے آغاز کو تقریباً 25-27 سال ہوچکے تھے۔ ان کے قلم کی تلخی و ترشی میں کافی وسعت اور گہرائی آچکی تھی۔ اُس دور کا معاشرہ روایت و قدامت پسندی اور مغربی تقلید کے دو راہے پر کھڑا تھا۔ ایسے وقت میں ابن صفی نے چلت چلی کی تخلیق کی۔ وہ لکھتے ہیں:

 چلیت ایک آفاقی حقیقت ہے۔ ہم سب چلی ہیں۔ لیکن بڑی عجیب بات ہے کہ خود کو اس بھیڑ سے الگ کرکے تفریح کے لیے دوسرے چلیوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔(بحوالہ پرنس چلی۔ابن صفی)

اِس مزاحیہ ناول کا خاتمہ بھی بہت خوشگوار انداز میں ہوا ہے، چلی کی محبوبہ اُن کی شریک حیات بن جاتی ہیں اور چلی روایتی شوہروں کی طرح بیوی سے ڈرتے بھی ہیں۔ ناول پڑھنے کے بعد دیر تک قاری کے ذہن میں چلی کی شرارتیں، مضحکہ خیزی اور بیوقوفیاں گردش کرتی رہتی ہیں۔

         ابتدائے آفرینش سے آج تک خیر و شر کا مقابلہ ہوتا رہا ہے اور اس میں ہار ہمیشہ شر کی ہوئی ہے کیونکہ جس دن شرجیت گیا تو شاید   وہ اس جہان کا آخری دن ہوگا اور پھر دنیا ختم ہوجائے گی۔ اسی لئے  جتنی بھی تحریریں لکھی جاتی ہیں ان میں خیر کو فتح سے ہمکنار کرایا جاتا ہے تاکہ دنیا میں سچ، امن سکون اور شانتی  قائم کی جاسکے۔ ابن صفی نے بھی اپنے ناولوں میں کچھ یہی انداز اپنایا ہے۔ ان  کے ویلن، خواہ کتنے ہی مضبوط کیوں نہ ہوں، وہ قانون کے مضبوط پنجے سے نہیں بچ سکتے اور وہ اپنے کیفر کردار کو ضرور پہنچیں گے۔ جاسوسی یا سری ادب اپنے آپ میں نہایت سنجیدہ ادب ہے۔ اگاتھا کرسٹی، جیمس ہیڈلے چیز اور دیگر مغربی ناول نگاروں کے ناولوں کو پوری طرح سمجھنے کے لیے ذہن پر کافی زور دینا پڑتا ہے۔ جب کہ ابن صفی نے ایسے سنجیدہ ادب میں بھی مزاح کی ضرورت کو محسوس کیا اور اپنے کرداروں کی شوخی اور ظرافت سے بہت سارے مسئلے چٹکی میں حل کروا لیے۔ ابن صفی نہ صرف جاسوسی ادب کا بلکہ اردو ادب کا ایک اہم نام ہے جس نے ادب کی تمام اہم اصناف میں طبع آزمائی کی۔ وہ نہ صرف جاسوسی ادب، مزاحیہ ادب بلکہ شاعری میں بھی اپنی انفرادی شناخت رکھتے ہیں۔ ان کی طنز و مزاح نگاری پر پوری تحقیق ہونی چاہیے۔ ضرورت اِس بات کی ہے کہ نوجوان نسل ابن صفی کا مطالعہ کرے اور ان کی تحریروں پر تحقیق کرکے نئے گوشوں اور نئے پہلوؤں کو سامنے لائے تبھی ہم اس عظیم ادیب کا قرض ادا کرسکیں گے۔ ادب کے بڑے بڑے ناقدین ضمنی طور پر ابن صفی کا تذکرہ کرکے اپناخراج نہیں ادا کرسکتے۔ انھیں جلد یا بدیر ابن صفی پر قلم اٹھانا ہوگا اور ابن صفی کی صحیح تشریح کرنی ہوگی اور انھیں وہ مقام دینے پر مجبور ہونا پڑے گا جس کے ابن صفی حقدار ہیں۔

***

Leave a Reply