You are currently viewing اماوس میں خواب “قدیم وجدید کا المیہ “

اماوس میں خواب “قدیم وجدید کا المیہ “

محمودہ قریشی

آگرہ۔یوپی۔انڈیا ۔

اماوس میں خواب “قدیم وجدید کا المیہ “

اردو کے بڑے نامور نثر  نگاروں میں پروفیسر حسین الحق صاحب کا نام کسی تعارف کا  محتاج  نہیں ۔آپ بہار گیاء یونورسٹی سے تعلق رکھتے ہیں ۔ حسین الحق کا پہلا ناول “بولو مت چپ رہو”ہے ۔ سن 1994 میں انہوں نے اپنا دوسرا ناول “فرات “لکھا  جس نے انہیں مقبولیت کی بلندی پر پہنچا دیا۔ اب  ان کے تیسرے ناول “اماوس میں  خواب” نے اردو ادب کے ایوانوں میں ہنگامہ برپا کر دیا ۔ سن 2017 میں شائع ہونے والے اس ناول کو قارئین نے ہاتھوں ہاتھ لیا ۔اور سال 2020 میں ناول اماوس میں خواب “کو   ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ سے بھی  سرفراز کیا گیا ۔راقم کو حسین الحق صاحب  کا ناول “اماوس میں خواب ” پڑھنے کا صرف حاصل ہوا   ۔جو کافی عمدہ معلوم ہوا   ۔ناول کا کینوس کافی طویل اور گتھا ہوا ہے ۔بیانیہ سپاٹ ہوتے ہوئے بھی ایک ذہین قاری کی تلاش کرتا ہے ۔جہاں تہزیب ثقافت ,تاریخ اور قدیم ہندوستانی ماحول سے لے کر موجودہ صورت حال کا احاطہ کرتا ہے ۔

ناول پڑھنے سے پہلے تاریخ کی ورق گردانی اہمیت رکھتی ہے ۔ آزادی کے بعد رونما ہونے والے  واقعات حادثات , سیاسی ،سماجی صورت حال کے ساتھ ساتھ  مسلمانوں کی زندگی میں پیش آنے والے  تغیرات و انقلابات کو ناول نگار نے بہ حسن  خوبی پیش کیا ہے ۔ناول نگار کا وسیع المطالعہ وسیع المشاہدہ قاری  سے بھی ناول سے محظوظ ہونے کے لئے وسیع النظر ہونے کی درخواست کرتا ہے ۔ ناول نگار نے قدیم  علاقائی جدو جہد  خاص کر  بہار پٹنہ,بھیونڈی،مالیگائوں،بھاگلپور،  ،گجرات اور1992 میں  بابری مسجد کی شہادت پر رونماء ہونے والے واقعات  ،لو جہاد،گئو رکچھا وغیرہ سے  ناول کو اس طرح آگے بڑاھایا ہے کہ قاری اس میں بہتا چلا جاتا ہے ۔اور  موجود صورت حال سے دو چار ہونے کے باد فکریہ لمحات کی ایک کیفیت طاری ہو جاتی   ہے۔جہاں ناول نگار اپنے مقصد میں کامیاب نظر آتے ہیں ۔  اور اپنے مقصد  کو خوبصورتی سے قارئین تک پہنچانے کے لئے اسماعیل،قیدار،نائلہ,مقصود علی ,قیام الدین ,انیل فیضان نولیش اور رمیش جیسے مضبوط کرداروں  کا سہارا لیا ہے ۔آزادی کے بعد سے اب تک کی ہندستانی تاریخی واقعات  کو ایک سیکولر اور غیر جانبدار نقطہ نگاہ سے دکھانے۔کے لئے ناول نگار نے ایک خواب کا سہارا لیا ہے ۔جس میں  آج ہر ہندوستانی مبتلا ہے ۔

جس کی  تعبیر کی صورت  اسماعیل سے لے کر موجودہ پیڑی  نائلہ اور قیدار تک سے نہیں ہو پاتی ہے ۔چونکہ انڈین کانگریس سے لئے کر موجودہ بی ۔جے پی تک ہندو اور   مسلمانوں میں  نفرت ،سیاست اور دشمنی میں وہ  اماوس کی رات ختم نہیں ہوئی  ہے ۔تاکہ  ہندوستان میں تعبیر کا چاند نکلنے کی فضا سازگار ثابت  ہو ۔1947  میں ملی آزادی کی صبح آج   تک نہیں ہوئی ۔جس کا خواب فیض احمد فیض نے اپنی نظم” صبح آزادی ” میں دیکھایا تھا ۔اس کی تعبیر حسین الحق صاحب اپنے ناول اماوس کا خواب  “میں دیکھانے  کی کامیاب  کوشش کرتے   ہیں  ۔ حسین الحق صاحب نے اس ناول میں بیانیہ میں تمثیلی استعارات  کا  استعمال کیا ہے۔  جس نے  بیانیہ کو اور دلچسپ بنادیاہے347 صفحات اور 23 ابواب  پر مشتمل اس ناول میں  آزادی کے بعد سے آج تک کی ہندستانی تاریخ کے بین السطور کو پیش کرنے  کی کوشش کی گئی ہے۔یعنی حسین الحق صاحب نے اماوس میں خواب کے ذریعے ہندوستان کا پورا منظر نامہ پیش کر دیا   ہے  ۔

ناول کا انتساب ’’مادر وطن ہندستان کے نام کیا ہے۔ ‘‘اس شعر سے اپنی بات کو پیش کرتے ہیں ۔”مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے۔”

دراصل اس  شعر پر ہی ناول کی عمارت کھڑی  ہے۔

تمہید اس طرح باندھی گئی ہے کہ وہ قاری پر بھی موضوع مناسب اماوس کی کیفیت طاری کرتے ہیں ۔ناول کی  کہانی میں  اسماعیل مرچنٹ فسادات کے بعد دربدر بھٹکتاہوا   ماں کی تلاش میں ’بہار‘ پہنچتاہے ۔جہاں ناول نگار کا مقصد بہار کی سیاسی سماجی پہلو کے ساتھہ اپنی مٹی سے محبت و عقیدت پیش کرنا ہے ۔ساتھ ہی تاریخ کا دامن بھی ہاتھ سے نہیں چھوٹنے دیتے ۔تقسیم ہند سے ہند و پاک میں رو نما ہونے والے واقعات کی منظر کشی میں تو ناول نگار کے فن کے جوہر قابل ستائش  ہیں۔ یہاں ناول نگار کا مقصد اپنی وطن کی  محبت کے جزبے کو پیش کرنا رہا ہے ۔خود اسماعیل کی زبانی ۔

“اسی کسی خواب ناک لمحے میں اسماعیل نے  سوچا کہ یہ میرا وطن ہندوستان یہ بھی میرا ایک خواب ہے جو دن کے اجالے میں جلتے تپتے صحرا میں سفر کا استعارہ ہے اور رات کی دھند میں کسی نخلستان کی تلاش “۔

یوں یہ صرف اسماعیل کی جدوجہد نہیں بلکہ ہر ہندوستانی کی جہد ہے جو   زندگی کی آزمائشوں سے جوجھتے ہوئے بم دھماکے کا شکار ہو جاتاہے ۔یہاں مسلمانوں پر دہشت گرد تنظیموں کے  الزامات سے چشم پوشی کو دکھا گیا ہے۔

صرف بہار ہی نہیں بلکہ قدیم ہندوستان میں ذات پات اور فرقہ وارانہ ہیجان میں  اعلی ذات کے ذریعے نچلی ذات پر ہو رہے ظلم ستم ان کی حق تلفی اور اسماعیل کے کردار مکالموں کے ذریعے  تغیرات کا لباس پہنا کر ہندوستانی احتجاج پر ناول کو فی زمانہ آگے بڑھانے کی کامیاب کوشش کی گئ ہے تو  ,وہی انسانی نفسیات اور محبت کی ذہنی کشمکش  دامن نہیں چھوڑتی کانگریس  انڈین مسلمانوں میں     تمکنت کی  پہلی محبت کا استعارہ بن جاتا ہے ۔ لکین وقت کی رفتار میں تمکنت مر گئی, رکمنی اگات واس میں چلی گئی ۔اور کانگریس کی سرکار بن گئی ۔ ناول کے بہاوں میں کانگریس سے لے کر  موجودہ بی۔جے ۔پی کے چہرے سے نقاب اُٹھاتے   ہیں  ۔جس خواب کی تعبیر اسماعیل سے بھی نہیں ہو سکی  اور موجودہ صدی نائلہ اور اقدار کی جدو جہد , ذہنی کشمکش یعنی  تقریباً وہی سب کیفیت  اس کی اولاد کے ساتھ بھی پیش آتے  ہیں۔عام قاری کی حثیت سے دیکھا جائے تو اسماعیل ,فیضان اقدار اور نائلہ کی زندگی کے واقعات چاروں اور رقص کرتے ہیں ۔جس میں شعور اور تحت الشعور کی وادیوں سے   نصف صدی کی ناہمواریوں, فرقہ پرستی ,خانقاہوں, گئوں رکھسا, بی جے پی کی  نعرہ بازی سے ملحوظ ہونے کا موقع دے کر ہندوستان کے گلی محلوں کی  ہی نہیں بلکہ  سیاسی  پارٹیوں کا حقیقی چہرہ سامنے لانے کے لئے فکشن کی زبان کا سہارا لیا ہے ۔

         ناول نگار  وسیع النظر  رکھتے ہیں ۔جو ان کی 70 سال کی زندگی کاتجربہ بھی ہے ۔ اس لئے ان کی نگاہ  عہدحاضر کے چھوٹے  چھوٹے واقعات و حادثات پر رہی ہے ،شاید اس لئے بہار کے گاوَں سے  پٹنہ,بھیونڈی،مالیگائوں ممبئی اور دہلی  شہرتک کے مناظر کی سیر کراتے ہیں ۔   یہیں سب کسی فلم کی سین کی طرح مناظر دامن پکڑنا شروع کردیتے ہیں۔ اور ذات پات سے اوپر اٹھ کر ہندوستانی عوام  اپنے حقوق کے لئےآواز اٹھانا سیکھتی ۔اس ہندوستانی منظر نامے میں گاندھی جی کی انیکتا میں ایکتا  کو منظوری ملی  ۔اور  جدید بھارت کے رد عمل کی ایک صورت بننی شروع ہو گئی ۔ اس طرح سیاسی ,و سماجی طور پر  ہندستان بدل رہا تھا۔یو سیاسی تبدیلیوں سے جدید بھارت کے اثرات مرتب ہونے شروع ہوئے ۔لکین جہاں جدیدیت کی بنیاد رکھی گئی وہی بہار کے شعبہ تعلیم کی تبدیلیاں پیش کر فاضل ناول نگار نے یہ دیکھانے میں اپنی فکر کے گھوڑے دوڑائے ہیں کہ موجودہ سیاسی نظام ہی نہیں بلکہ تعلیمی شعبہ بھی اس سے دو چار ہو رہا ہے ۔جہاں آج رشورت خوری ,صلاحیت کی جگہ بھائی بھتیجہ واد ۔اور پھر تنخواہ میں کٹوتی جو  ہندوستان کا المیہ ہونے کے ساتھ ناول کا اہم جزو بھی  ہے ۔

پروفیشنل کورسز کو بڑھاوا دے کر پیسہ کمانے  کا راستہ بنانا اور دھیرے دھیرے کالجوں سے علم  غائب ہوگیا ہے۔ جس سے نو جوانوں میں بے روزگاری کے ساتھ اپنے پیسے سے اکتاہٹ محسوس ہو رہی چونکہ نوکری حاصل کرکے بھی وہ  عزت نہیں مل پا رہی ہے   ۔موجودہ حقیقت کو بیان کرتے ہوئے اقتباس ملاحظہ فرمائیں ۔

’’اُس رات اسماعیل کو بہت دیر تک نیند نہیں آئی۔پہلی مرتبہ اُس کو اپنے پیشے سے

اکتاہٹ محسوس ہوئی۔یہ کیسی نوکری ہے جس میں غنڈہ بدمعاش جاہل لفنگا سب

گھس جاتاہے۔اگرا سی طر ح لکچرر پروفیسر بنا جاسکتاہے تو اتنی محنت،اپنے سبجکٹ

کے بارے میں حاصل کی جانے والی مہارت،برس در  برس سے دن کا چین اور رات کا آرام حرام کرکے سارا شوق مارکر،کوڑی کوڑی بچا کر ،اپنے سبجکٹ میں آنے والی نئی نئی کتابیں خریدنے کی اور گئی رات تک جاگ جاگ کر پڑھنے کی کیا ضرورت تھی؟

سب محنت کرنے والے گدھے ہوئے ،ارون بھاٹیہ جیسے لوگ ہی عقلمند ہوئے نا ،کہ

ہلدی لگی نہ پھٹکری رنگ آیا چوکھا۔‘

جو اس وقت کا المیہ ہے ۔یو ناول میں موجودہ سماج کی حقیقت سے روبرو ہونے کا موقع ملتا ہے ۔

حسین الحق صاحب کا  خاص مقصد  قدیم ہندوستان کا فسادات میں موجودہ سیاسی  کارگزایوں کو   پیوست کر فرقہ وارانہ فسادات کا اصل سبب تلاش کر قاری کو فکر کی دعوت دینا ہے ۔یو  ناول کا چوتھا  حصہ ہندستان میں   6 دسمبر 1992 کا  ہے۔ جب بابری مسجد شہید کر دی گئی تھی ۔یہاں بھی فرقہ پرستی کو ہوا دی گئی تھی ۔ہندوستانی عوام پھر تحریک آزادی جیسی  آگ میں جھلس اٹھی وہ نہ یہاں مندر کے فیور میں تھی نہ مسجد کے یہاں بھی سیاست نے اپنی ہی  روٹیاں سیکھی ۔مندر مسجد نہیں بلکہ  خونہ ریزی اور فساد پھیلانا ہی مقصد تھا ۔جہاں  آج بھی سیاسی روٹی سیکتے نظر آتے ہیں ۔ یہاں ناول نگار ہندوستانی سیاسی نظام کو پوری طرح بے نقاب کرنا چاہتے ہیں ۔اس لئے سبھی واقعات کو اس طرح گوتھتے ہیں کہ قاری ناول کے حصار میں بہتا چلا جاتا ہے  ۔اور اصل مقصد صاف عیاں ہو جاتا ہے ۔

ناول نگار حسین الحق صاحب نے صوبہ بہار ہی نہیں بلکہ ملک ہندوستان کے سیاسی نظام پر اپنی قلم اٹھائی ہے ۔جس میں الیکشن کمیشن اہم کردار ادا کرتا ہے ۔لکین موجودہ   الیکشن کمیشن سیاسی پارٹیوں کا غلام ہے ۔اس سے کیا توقع رکھی جا سکتی ہے ؟۔اس میں  عوام یا سرکاری ملازمین کی   ڈیوٹی ،ووٹ اور ملازمت کی مجبوریوں میں پھنسے ایک شریف انسان کی بے بسی،ذہنی کرب اور اذیت کو بڑے حقیقی انداز میں پیش کیاہے۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے سیاست ،ووٹ بینک اور بوتھ قبضے کے ذریعہ فتح حاصل کرنے کے سیاسی کھیل پر بھی گہری نظر ڈالی ہے۔ قتل وغارت گری،گالی گلوج یہاں الیکشن کے لازمی جزؤ قرار دیے ہیں ۔جو موجودہ الیکشن کمیشن کا استعارہ ہے ۔اسماعیل کی زبانی  “بنیادی وادی میں اترتے ہوئے اس کے ذہن نے پھر دہرایا جس کی لاٹھی اس کی بھینس ۔لاٹھی اور بھینس مسلمان لاٹھی ووٹ بھینس ؟۔”

صرف اتنا نہیں سرکاری دفتروں میں ملازمین کی بے لباس نظریات کو پیش کرنے میں بھی ناو ل نگار خال خال نظر آتے ہیں ۔ریشوت ایک ایسا عمل بن گیا ہے جس کے بغیر کسی بھی  سرکاری  شعبہ میں کوئی بھی کام ناممکن ہے ۔یہاں فاضل ناول نگار پورے ہندوستان کی ذہنی کیفیت پر چوٹ کرتے نظر آتے ہیں ۔جس سے انسانی ذہن میں کافی سوالات پیدا ہوتے ہیں جس کے جوابات بھی ناول نگار اسماعیل  کی زبان سے ادا کرا دیتے ہیں ۔

”       غریب طبقہ غیر کانونی دھندوں میں کیوں کر گرفتار ہوا ۔ہمارے ملک کی کڑوی حقیقت جو  کہ شعبہ حیات کی ناہمواریوں کا شکار ہے “۔حسین الحق صاحب جب اس طرف توجہ دلاتے ہیں ۔وہی اس کے پیدا ہونے کے منظر سے بھی دو چار کرتے ہیں ۔جس میں  مذہبی ،تعلیمی اور سیاسی صورت حال کی عکاسی کرتے نظر آتے ہیں ۔

اپنی خوشی کے ساتھ مرا غم نباہ دو ۔

اتنا ہنسو کہ آنکھ سے آنسو نکل پڑے ۔

اور ناول کے آخری حصہ میں موجدہ احد کا منظر نامہ پیش کیا گیا ۔جہاں سب کا ساتھ اور  سب کا وکاس سے چل کر  بات اچھے دنوں پر پہنچ جاتی ہے۔ لکین سوال یہ کھڑا ہوتا ہے کہ جنگ آزادی ,تقسیم ہند اور جدید بھارت کے عمل میں آج تک مسلمانوں کی پہلی محبت  کانگریس سے لے کر بی ۔جے ۔پی تک  آج تمکنت سے لے روشنی تک اس اماوس کے خواب کی ظلمت روشنی تک سے روشن نہیں ہوئی ۔ چونکہ سیاسی   پیروں کاروں سے لے کر   موجودہ  لیڈروں تک ظلمت کا ڈیرا ہے۔

         حسین الحق صاحب کا ناول  ” اماوس کا خواب”موجودہ نوجوانوں کی سب بڑی مشکل بے روزگاری ہجرت اور ذہنی کشمکش موجودہ غنڈہ گردی قدیم فسادات فرقہ پرستی کو اقتداری زبان عطا کرتا ہے ۔اخلاق اور اس کے بیٹے کی موت ,نائلہ  کے خوف زدہ حالات موجودہ معاشرے کی ذہین خواتین کی الجھن کو پیش کرنا ہے ۔نائلہ کی زبانی ۔

”       رفیدہ جی میرا باپ یہاں سے بہار گیا تو مارا گیا ,آپ مجھے پھر بہار جانے کے لئے کہ رہی ہیں ۔”

اور موجودہ صدی قیدار جیسے نو جوان ہجرت کرتے ہوئے یونورسٹیوں کے اس ماحول سے دو چار ہوتے ہیں ۔ اسماعیل کی جدوجہد بھری زندگی فسادات پر ختم ہو جاتی ہے تو قیدار کی

 اس کشمکش کو کون دیکھتا ۔؟جو قاری کو احساس کراتی ہے ۔کہ

یہ وہ زمانہ ہے ,جب ملک بھر میں اچھے دن دنوں کی آس کا بہت چرچے ہیں  ۔بے خبری سے شروع ہونے والا سفر دوبارہ بے خبری تک پہنچ گیا ۔قیدار کو اس لمحے میں اپنے باپ اسماعیل کا دوست انیل شرما بہت یاد آتا ہے جس کے بارے میں باپ ہی سے سنا تھا اسے صوبہ بدر ہونا پڑا تھا ۔اور ان الفاظ کے ساتھ ناول اختتام پر پہنچ کر  قاری کے ذہن میں  ایک نئے باب کا آغاز  کرتا ہے ۔

“زندگی انجمن آرا و نگہبان خوداست !”

ناول نگار پچاس   سالہ زندگی میں اپنے مشاہدے اور تجربات سے ناول کا کینوس فکر آزادی جدوجہد بھری زندگیوں  کی موجودہ صدی کی تغیرات اور کشمکش سے فرق واضح کرتے ہیں کہ ملک میں ابھی اماوس کے بادل منڈلا رہے ہیں ۔جس کا سبب تلاش کرنے کے لئے عبدالوہاب اور ابو بکر بغدادی کے  نظریات کو ہوا ملنے سے  بھی بات نہیں بنے گی   ۔

جہاں صوبہ بہار کی یونورسٹیوں  اور جے ۔این ۔یو کے حقیقت کا پیش نظر تعلیمی اداروں کی جہد مسلسل کو پیش کر حکومت ہند پر الزام تراشی بلکہ موجودہ تعلیمی اداروں کی سچچائی بیان کرنے کے ساتھ دور جدید کا المیہ بیان کرنا ہے۔اسماعیل ،فیضان ،قیدار اور نائلہ فکر وعمل کے ذریعہ ایک اچھا ہندستان بنانے میں مصروف ہیں۔اس لئے یہ  ہندستانی معاشرے کی  عکاسی ہے ۔جس کی معاشرت کو آزادی کے پچھتر سال کے بعد آج بھی بے  جان کردیا گیاہے۔

مختصر یہ کہ ’اماوس میں خواب‘ دور حاضرکا منفرد شہکار  ناول ہے ۔  آزادی کے بعد سے آج تک کی ہرلمحہ تغیر پذیر تہذیب،تحریک اور ہر طرح کے بے معنی تماشوں کامکمل منظرنامہ ہے ۔ سیاست،مذہب،دانشوری،تصوف ،نظریات   آج کے انسان کی  موجودہ   صورت حال کی  چلتی پھرتی تصویر پیش کرتا  ہے ۔جس کو قدیم وجدید کا المیہ کہہ سکتے ہیں ۔

***

Leave a Reply