ناہید طاہر
ریاض،سعودی عرب
افسانہ
اندھیروں سے اُجالوں تک
صائمہ کی کار جوں جوں پہاڑیوں سے نیچے اترتی جارہی تھی موسم کافی خوشگوار ہوتا نظر آرہا تھا۔ ہر طرف بہار لیے گنگناتی ہوئی ہریالی ، خوشنما پھلوں ، پھولوں سے لدے درخت ، لہلہاتی ہوئی فصلیں،تروتازہ مویشی اور ان دیہاتی لوگوں کے وجود پر چھائی ہوئی طمانیت جو ان کی شکلوں پر رقص کناں تھی۔
” بابا!گاؤں کی معطر فضائیں ہمیں گلے لگاتی ہوئی محسوس ہورہی ہیں۔“صائمہ سرور آمیز لہجے میں کہتی ہوئی کھلکھلائی
” خوبصورت رنگوں سے مزین یہ وادیاں کلثوم کی یادوں سے معطر ہیں“ افضل شاہ نے پگڈنڈیوں پر نظریں پھیلائے ہوئے اداس لہجے میں جواب دیا۔صائمہ کا شوہر عمیر پہلو بدلتا ہوا گویا ہوا
” بابا! آپ نے اس گاؤں کے ایک ایک پتھر کو تراشا ہے،سنگ تراشی ایسی کہ پتھر جی اٹھے ہیں۔“صائمہ اپنے بابا کو پیار سے دیکھتی ہوئی گاڑی کو بریک لگائی۔ لوگ گاڑی کے قریب جمع ہونے لگے۔ ولی خان بھی اپنے ناتواں بوڑھے جسم کو لاٹھی کے سہارے گھسیٹتا ہوا گاڑی تک پہنچا۔
” ناناجان! “صائمہ گاڑی سے اتر کر ولی خان کے گلے جا لگی۔ جیسے ہی افضل شاہ پر نظر پڑی ، ولی خان نے چہرہ پھیر لیا۔افضل شاہ نے دیکھا ولی خان کی پیشانی پر ناگوار سی شکنیں ابھر آئی ہیں۔
” گاؤں کی پہلی ڈاکٹر کا استقبال ہے۔“ لوگوں نے پُرمسرت لہجے میں صدا بلند کی یہاں سب کچھ بدل گیا تھا ، صرف ولی خان کی نفرت میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی تھی یہ نفرت تو افضل شاہ کے تئیں کسی پتھر کی طرح سخت تھی۔افضل شاہ کے لیے یہ بات نہایت تکلیف دہ تھی۔اس نے اپنی زندگی کا قیمتی وقت اس گاؤں پر نچھاور کیا تھا ، قربانی اور محنت کا صلہ ، خسر کی بے اعتنائی اور نفرت سے ملا تھا۔آج بھی ولی خان کے دل میں یہ زخم تازہ تھے کہ افضل شاہ نے بیٹی کو باپ سے نا صرف جدا کیا،بلکہ اس کا قاتل بھی ہے!!!!
یہ کیسے ممکن تھا؟ کلثوم تو اس کی جان،اس کی محبت تھی!!!
گرم پانی سے غسل اور دیسی گڑ کی چائے نے سفر کی تمام کلفتیں دور کر دیں
”کیا واقعی آپ نے مما کا خون کیا ؟“شام کے کھانے کے بعد صائمہ نے بابا سے استفسار کیا تھا
”یہ خیال بھی کیونکر آیا؟“ افضل شاہ کانپ گیا
” بابا! آپ ہی ہمیشہ کہتے ہیں کہ نانا آپ کو گناہ گار سمجھتے ہیں ؟“کئی سالوں بعد صائمہ نے اپنے دل کے چھالوں کو ادھڑتے ہوئے سسکاری بھری۔
۔۔۔۔۔۔۔
لایپ ٹاپ گود میں رکھے وہ کچھ اہم ای میل چیک کررہی تھی۔ عمیر قریب ہی بیٹھا تھا،افضل شاہ کچھ ہی فاصلے پر چارپائی پر لیٹا ہوا ، دور آسمان پر چمکتے ستاروں میں گم ہمیشہ کی طرح کلثوم کو تلاش کررہا تھا۔
بہت دور اونچی عمارت پر رنگین قمقموں سے آراستہ بیٹی کے نام کا بورڈ ان سرد مہکتی ہواؤں میں جھومتا نظر آیا
” میرے خوابوں کی تعبیر!!“افضل شاہ بڑبڑایا۔یہ واحداسپتال تھا،جسے گاؤں کی پنچایت نے سرکاری مدد سے تعمیر کروایا تھا۔ عمیر ان ہی ستاروں کی چمک اورچاندنی کی نوخیزی میں صائمہ کے رخِ روشن کو بے خودی کے عالم میں نہار رہا تھا، چاند کی عمودی کرنیں اس کے بدن کو بھگورہی تھیں دودھیا چاندنی میں اس کا سراپا کسی سنگِ مرمر کے حسین مجسمے کی طرح چمکتا دکھائی دے رہا تھا۔
”تم دنیا کا سب سے حسین مجسمہ ہو!! “ اس نے سرگوشی کی تو صائمہ شرماگئی اور بابا کی جانب دیکھتی ہوئی عمیر کو چپ رہنے کا اشارہ کیا۔
۔۔۔۔۔۔
رات تاریک تھی ، لبِ سڑک بلب کی زرد روشنی تاریکی کا خاتمہ کرنے کی ناکام کوشش میں کسی بیوہ کی طرح سسکتی نظر آرہی تھی۔۔گاہے گاہے کیڑوں کی آوازیں تاریکی کو جیسے ہولناک بنانے کی کوشش کررہی تھیں۔صائمہ چارپائی پر لیٹی ہوئی چپ چاپ آسمان کو دیکھ رہی تھی۔بابا اس کے سرہانے بیٹھے ہوئے اس کے سر پر ہاتھ پھیر رہے تھے، عمیر نائٹ شفٹ ڈیوٹی انجام دے رہا تھا۔صائمہ دور آسمان پر بکھرے ستاروں کو تکتی ہوئی اداس لہجے میں بولی” نانا جان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔“
افضل شاہ کربناک لہجے میں گویا ہوا
” سوچ رہا ہوں ، میں اس گاؤں سے ہمیشہ کے لیے چلا جائوں تاکہ تمھارے نانا جان کی یہ نفرت کا خاتمہ ہو۔“صائمہ نے جھرجھری لی
” اگر آپ چلے جاؤگے تو شاید میں بھی یہاں رہ نہ سکوں!!!!“ افضل شاہ کی آنکھوں کے گوشے بری طرح بھیگنے لگے
”کئی سال پہلے جب میں اپنی پڑھائی مکمل کیے لوٹا تھا ، ارادوں کی پختگی کے علاوہ ایک ضد بھی میرے ہمراہ تھی،اس گاؤں کا مقدر بدلنے کی ضد!!“
” بابا !جو لوگ بندوں کے لئے خیر کا راستہ تلاش کرتے ہیں رب العزت ان کی نسلوں میں خیر منتقل فرمادیتے ہیں“صائمہ پہلو بدلتی ہوئی بابا کی نم آنکھوں کی نمی اپنی انگلیوں کی پوروں میں جذب کرنے لگی
” بے شک ! اس کی مثال تم ہو! “ افضل شاہ نے بیٹی کو فخر سے دیکھا
”آگے بھی توسنائیں “افضل شاہ گرد آمیز ماضی میں جھانکا اوردور خلاؤں میں دیکھتا ہوا گویا ہوا
”یہاں کے بچے،بوڑھے جوان سبھی تعلیم سے نا آشنا ، بالکل جاہل تھے۔ایک جنگل راج تھا۔پورے گاؤں میں رب کی معصیت اورنافرمانی کا ارتکاب ہورہا تھا۔ شام تلے ، سناٹوں کی چادر پھیل جاتی۔ نوجوان چائے کی دکان اور دھابوں میں بیٹھے گپ شپ میں مشغول ، کوئی بیڑی سے شغل کرتا تو کوئی مقامی شراب سے بہکنے لگتا، تو کوئی چرس اور گانجے کا نشہ کرتا۔جب رات گہری ہوتی تو یہ نوجوان لڑکھڑاتے قدموں تلے اپنی جھونپڑیوں کی سمت بڑھ جاتے،نشے کی حالت میں مظلوم عورتوں پرظلم و تشدد کے پہاڑ توڑتے ہوئے اپنی مردانگی کاجیسے ثبوت پیش کرتے ،گالی گلوچ ،رونا چلانا،دبی دبی سسکیاں ،گاؤں کا مقدر ان ہی آہوں سے لکھا گیا تھا۔
وسیع چوپال میں مسائل کا حل تلاش کرتے ہوئے اراکین سر جوڑے بیٹھے رہ جاتے۔تمھارے نانا جان یعنی ولی خان اسی پنچایت کے ایک اہم ممبراور نیایت مالدار انسان تھے ۔ گاؤں میں بہت دبدبہ قائم تھا وہ نہیں چاہتے تھے کہ گاؤں کی تقدیر بدل جائے۔
ایک صبح گرد آلود چبوترے پر ایک من موہنی سی شکل والی لڑکی کھڑی نظر آئی جو مجھے امید بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی ، یہ کلثوم تھی۔!!
اس لڑکی کے حوصلے نے ، کئی پست حوصلوں کو بلند کیا اور کئی مائیں ، اپنے بچوں کو چبوترے پر لے آنے کا حوصلہ جتھاپائیں۔۔۔۔۔اس طرح ایک چھوٹا سا اسکول بنایا گیا،بچوں کو کتابیں ، کاپیاں وغیرہ ہر چیز حکومت کی جانب سے مہیا کروائی گئی مگر افسوس لڑکیوں کے تعلق سے ان کی سوچ پھر بھی نہیں بدل سکی ، لوگ لڑکیوں کی پیدائش پر ماتم کرتے نہیں تھکتے ان کی نظر میں ، بیٹی کی پرورش اور اس کی تعلیم وتربیت گویا وقت اور پیسے کا زیاں تھا۔تعلیمِ نسواں بہت ہی معیوب اور برائیوں کی جڑ سمجھی جاتی تھی۔انہیں اس بات کا قطعی علم نہیں تھاکہ مرد کی تعلیم تو محدود رہتی ہے جبکہ ایک عورت کی تعلیم اس کی کئی نسلوں کو سنوار سکتی ہے۔بقول ان کہ” تعلیم سے لڑکیوں کے سرکش اوربہکنے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں “
“وہ بڑی ہوکر سر اور کمر پر مٹکی اٹھانے کے بجائے ہاتھ میں قلم تھامے آرام سے زندگی بسرکر سکتی ہے۔جیسے ٹیچر، ڈاکٹر!!“
” ڈاکٹر نہیں،بالکل بھی نہیں ہمارے گاؤں کی عورتیں بے حیا نہیں۔“
” اگر آپ کی لڑکیاں ڈاکٹر نہیں بنیں گی تو پھر اس گاؤں کی عورتوں کا علاج کون کرے گا؟ بچوں کی ولادت کے لیے کیا آپ کسی مرد ڈاکٹر کے پاس جانا پسند کروگے؟ “
”ہمار ے پاس ڈاکٹر کرشنا مورتی ہیں “ حیوانات کا ڈاکٹر کرشنا مورتی جو جانوروں کا کم انسانوں کا زیادہ علاج کیا کرتا تھا۔
” عقل کے ناخن لو! وہ حیوانات کا ڈاکٹرہے۔“
”لیکن ڈاکٹر تو ہے !“میں سوچتا،بھینس کے آگے بین بجا رہاہوں۔
”ہماری عورتوں کی زچگیاں تو گھروں میں ہوتی ہیں۔باہر جانے کی کوئی ضرورت نہیں۔“ تب مجھے ایسا محسوس ہوتا کہ کن پتھروں سے سر ٹکرارہا ہوں۔
کلثوم جو کہ ولی خان کی اکلوتی اولاد تھی۔ وہ بہت ذہین اور سمجھدار لڑکی تھی۔وہ اپنے باپ اورپنچایت سے بغاوت کرکے پڑھنے آئی تھی۔ ایک سال کے اندر اندر اس نے پچھتر فیصد دیہاتی خواتین کا رجحان پڑھائی کی جانب مبذول کروایا۔یہ ایک بہت بڑا انقلاب تھا۔کلثوم سے میں شادی کرنا چاہتا تھا ولی خان اس بیاہ کے خلاف تھا۔کلثوم نے ایک اور مرتبہ بغاوت کی ،اس طرح نفرتوں کے سائے تلے ہم گاؤں کو گلزار بناتے چلے گئے۔
کلثوم امید سے تھی ، اس کے باپ نے ہماری خوشیوں میں شامل ہونے سے انکار کردیا ۔ کلثوم اندرونی خلفشار میں مبتلا بہت خاموش رہنے لگی تھی۔جب نواں مہینہ شروع ہوا تو ایک رات اس کی اچانک طبیعت بگڑ گئی،دراصل وہ حمام میں گرگئی تھی۔اسے لیبر پین شروع ہوا تھا۔ میں بیوی کو لے کر شہر جانا چاہتا تھا۔بیل گاڑی تیار بھی کرلی تھی۔اس دن ولی خان پہلی مرتبہ ہمارے گھر آکرکلثوم کو گلے لگایا کلثوم درد بھول گئی،اس کے چہرے پر تتلیاں مسکرانے لگیں۔ ولی خان نے مجھے شہر جانے سے روک دیا کیونکہ شہر کا فاصلہ کئی گھنٹوں کی مسافت پر تھا۔راستے میں گھنا جنگل بھی پڑتا تھا۔میں سر تھام کر بیٹھ گیا۔
دائی کو گھر بلایا گیا۔ڈاکٹر بھی کچھ ہی دیر میں پہنچ گیا تھا۔
” حیوانات کا ڈاکٹر ڈیلیوری کرے گا؟ “میں حیران تھا۔
” وہ تجربے کار ہے اور پھر اسی نے کلثوم کی ماں کی زچگی بھی کی تھی “جواب ملا
”آپ سمجھتے کیوں نہیں! یہ حیوانات کا ڈاکٹر ہے اسے انسانی دوائیاں اور علاج کی کوئی سوجھ بوجھ نہیں۔ “میں نے دبے انداز میں احتجاج کیا۔
”ہمیں علاج نہیں صرف زچگی تو کروانی ہے۔“ولی خان نے لاپرواہی سے شانے اچکاتے ہوئے کہا۔
کلثوم کی قوت مدافعت اتنی کمزور ہوچکی تھی کہ اب اس سے سہی سے بیٹھا بھی نہیں جارہا تھا۔سانسیں الجھنے لگی تھیں۔ دائی نے پانی گرم کرنے کو کہا اور تیز بلیڈ،قینچی کے علاوہ ضرورت کی تمام اشیامنگوائی لالٹین کی روشنی میں اس کے ہاتھ چلتے رہے پھر وہ گھبرائی ہوئی باہر آئی اور وحشت ذدہ لہجے میں چلائی
”کلثوم کی حالت بگڑنے لگی ہے۔“مجھے ایسا لگ رہا تھا جاہلوں کے درمیان کھڑا اپنی شہ رگ پر خنجر چلارہا ہوں۔
” بچہ آڑا ہوگیا ہے “ ڈاکٹر نے بھی باہر آکر اطلاع دی۔
” سیزرین کی سخت ضرورت ہے لیکن ہم کرنہیں سکتے۔کیونکہ ہمارے پاس تجربہ اور آلات کی کمی ہے۔“
” خدایا رحم! “ میں لہرا کر گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔
” کلثوم کی سانسیں نہیں چل رہی ہیں۔“ دائی دوبارہ ہذیانی انداز میں چلائی تو مجھے غش آگیا
”زچگی سے پار لگنا،کوئی معمولی بات ناہی !“ عورتیں غمگین بیٹھیں ایک اور ماں کو موت کے حوالے دیکھ کر باتیں بنانے لگیں کیونکہ گاؤں میں آئے دن ڈیلیوری میں اموات ایک عام بات تھی۔
”بچہ ؟“ میں نے تڑپ کر دائی کی طرف دیکھا۔
” ہم بے بس ہیں “دائی نے کہا
” ڈاکٹر میرے بچے کو بچا لو “میں نے اپنے دونوں ہاتھ جوڑ لیے
”میں مجبور ہوں“ڈاکٹر نظریں چرا گیا میں خاموش نگاہوں سے کلثوم کو دیکھتا رہا۔اس کی آنکھیں جیسے کسی کے انتظار میں کھلی رہ گئی تھیں۔میں نے دھیرے سے اس کی آنکھوں کو بند کیا ،میں ایک سائنس طالب علم تھا،کالج کے دور میں کئی مرتبہ سیزرین کیس دیکھنے کا اتفاق ہواتھا۔ میں نے فیصلہ کرتے ہوئے سختی سے کپکپاتے ہاتھوں کو بھینچ لیا۔
افضل شاہ نے ماضی کے جھروکوں کو بند کیا۔ہوائیں سائیں سائیں کی آوازیں کرتی ہوئیں ماحول پر خوفناک ہولناکی طاری کررکھی تھیں۔بابا کے گھٹنوں پر سر رکھے صائمہ ہچکیاں لیتی رہی۔موبائل مسلسل بج رہا تھا۔ساڑھے سات بج رہے تھے لیکن ایسا لگ رہا تھا رات گہری ہوگئی ہو۔ ” فون اٹھا لو بیٹی!“ صائمہ فون پر نظر دوڑائی۔شوہر کی کال تھی۔
”ہیلو!“
” صائمہ ! ایمر جنسی ہے تم جلدی سے اسپتال پہنچو۔“ اس نے عمیرکوکچھ ہدایتیں دیں ، کچھ توقف بعد فون بند کیا اور بابا سے گویا ہوئی
” بابا ! آپ کے حوصلوں کو سلام!!! افضل شاہ کی گیلی آنکھوں میں تبسم کِھلا ۔صائمہ نے گاڑی کی چابی اٹھائی ، راستے میں نانا جان کو پک کیا اور انھیں اپنے ساتھ اسپتال لے آئی ، ولی خان حیران کہ اتنی رات کو صائمہ اسپتال کیوں لے آئی۔؟
آپریشن تھیٹر تیار تھا۔ولی خان کمرے کے بالکل وسط میں بیٹھا صائمہ کو سیزرین کرتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔حاملہ لڑکی بہت مشکل سے سانس لے رہی تھی۔اسے آکسیجن لگایا گیا
”جلدی کریں۔“صائمہ مضطرب لڑکی کو جھکا کراس کی ریڑھ کی ہڈی میں انستیشیہ دیا ۔لڑکی درد سے کراہنے لگی
ولی خان کے بدن کو ایک جھٹکا لگا۔وہ لڑکی کی جگہ کلثوم لیٹی نظر آئی
”کلثوم۔۔۔! ” ولی خان کے لب تھرا اٹھے۔سوچ کے جھرکوں سے درد ناک ماضی کپکپاتاہوا جھانک رہا تھا۔
کلثوم کا سرد ہوتا جسم تیز تیز سانس لے رہا تھا۔جیسے کوشش کررہا ہو کہ زندگی کی رمق برقرار رکھ سکے۔لیکن افسوس وہ ناکام ہوئی۔موت نے زندگی پر فتح یابی حاصل کرتی ہوئی اس کے چہرے پر بے بسی کی مہیب چادر پھیلادی۔
افضل شاہ کانپتے ہاتھوں سے بلیڈ اٹھا رہا تھا۔ولی خان پوری قوت سے چلایا
” افضل شاہ!کلثوم میری لخت جگر ہے۔اس کا پیٹ یوں نہ چاک کر۔۔۔!!! “ موت کے وحشی سناٹوں میں اچانک بچے کے رونے کی آواز گونجی تو اس انہونی پر گاؤں کی عورتیں حیرت سے ایک دوسرے کا چہرہ دیکھنے لگیں۔ افضل شاہ کے ہاتھ خون سے رنگے ہوئے دیکھ کر ولی خان کی آنکھیں سرخ انگاروں کی مانند دہکنے لگیں۔ افضل شاہ بچے کو فضا میں اٹھا کر مضبوط لہجے میں کہہ رہاتھا۔
” گواہ رہیں۔۔۔!!!!! یہ معصوم بچی ایک دن اس گاؤں کی ڈاکٹر ہوگی اورکسی کلثوم کو اس طرح بے بسی سے مرنے نہیں دے گی۔!!!!“
۔۔۔۔۔۔
ماضی کا عکس دھندلاگیا، تمام بدگمانیوں کے بادل چھٹ چکے تھے کیونکہ صائمہ اس نازک اندام کا کئی آلات کے ذریعے پیٹ چاک کرچکی تھی۔معصوم نو مولود ، روتا ہوا کمرے میں موجود سبھی کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیر رہا تھا
”ناناجان! اگربابا چابکدستی سے مماکی سیزرین نہیں کرتے تو شاید گاؤں ایک بہترین ڈاکٹر کھو دیتا۔“ ولی خان کا بدن کانپنے لگا۔اس نے لرزتی آواز میں کہا
”صائمہ ! افضل شاہ قاتل نہیں،وہ تومسیحا ہے۔“ جواب میں صائمہ طمانیت سے مسکرائی۔جاہلت کا اندھیرا تو کبھی کا چھٹ چکا تھا۔آج برف کی طرح منجمد نفرت بھی پگھل کر اپنی ہار تسلیم کرچکی تھی۔
***